الإثنين، 23 جمادى الأولى 1446| 2024/11/25
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

سوال و جواب

ٹرمپ کے سعودی عرب اور مقبوضہ فلسطین کے دورے کے نتائج واثرات

 

سوال:

رشیا ٹوڈے نے 26 مئی 2017 کی رائٹرزکی رپورٹ کے حوالے سے بتایا کہ امریکی سینیٹ ٹرمپ کی سعودی عرب کے ساتھ کی گئی 460 ارب ڈالر کی ہتھیاروں کی ڈیل کونامنظور کرانے کے لئے ووٹ کروانا چاہتی ہے: " ٹرمپ کی سعودی عرب کے ساتھ ہتھیاروں کی سودے کو منسوخ کرنے کی خاطر سینیٹ کے ممبران کی جانب سے یہ پیش کش رکھی گئی ہے تاکہ کونسل کو اس پر ووٹ کرنے کے لئے مجبور کیا جاسکے" (رشیا ٹوڈے 26 مئی 2017 رائٹرز کے حوالے سے)۔ یہ بات کس طرح ممکن ہے ؟ بالخصوص جبکہ ایسا سودا عین امریکی خواہش ہے اور امریکی معیشت  بحران سے گذررہی ہے،  کانگریس میں  اس کو منسوخ کرنے کے مطالبےکی وجہ کیا ہے؟ اور جبکہ ٹرمپ کےسعودی عرب کے دورے کی میڈیا میں بڑی گونج رہی ہے،  وہاں اس نے خلیجی ریاستوں کے سربراہان سے ملاقات کی اور دیگر صدور سے اس کی ملاقاتیں بڑی نمایاں  رہی ہیں اور پھر اس کے بعد اس نے مقبوضہ فلسطین کا دورہ کیا۔  کیا ان سب سے یہ مطلب اخذ کیا جاسکتا ہے کہ وہ  فلسطین کے متعلق کو ئی سیاسی منصوبہ رکھتا ہے؟ اللہ سبحانہ وتعالیٰ آپ پر اپنی رحمت نازل کرے آمین۔

 

جواب:

امریکی کانگریس کی پیش کش سیاسی رسہ کشی کے تناظر میں ہے اور غالب امکان ہے کہ اس سے ہتھیاروں کے سودے پر اثر نہیں ہونے والا،  البتہ سودے کی شرائط میں بہتری لائی جاسکتی ہے۔  یہ ایساسودا ہے جو امریکی معیشت میں جان پھونکنے والا ہے جس کے تحت  مختلف امریکی فیکٹریاں چلنا شروع ہوں گی اورامریکیوں کو مختلف قسم کے کام اور روزگار مہیا ہوں گے۔ امریکہ اور اس کی تمام سیاسی جماعتیں  یہ سودا کرناچاہتی ہیں اورجب تک کانگریس  کی جانب سے  اس کو رد کرنے کی کوشش کی حقیقت مزیدواضح نہیں ہوجاتی،  ہم چند باتوں کا جائزہ لیں گے:

 

1۔ امریکی صدر ٹرمپ کی آمد 20 مئی 2017 کو آل سعود کے دارلحکومت ریاض میں ہوئی تھی جس کوامریکی میڈیا اورعربی زبان کےٹی وی چینلز میں بڑے پیمانے پرتشہیر کے ذریعے نمایاں کیا گیا تھا۔ اس میڈیا مہم کے دوران اس دورے کو عالم اسلام کے ساتھ امریکی دوستانہ کے دورے کے طور پر بیان کرنے کی کوشش کی گئی تھی اور سعودیوں کے ساتھ ٹرمپ کی ملاقات میں نہایت گرمجوشی دیکھی گئی جو پچھلے امریکی صدر کی ملاقاتوں میں غیرحاضر نظر آتی تھی۔  ستائشی کلمات، سعودی عرب اور اس کے بادشاہوں اور سربراہوں کی تعریفیں اس سے قبل کسی امریکی صدر کی جانب سے کبھی نہیں سنی گئی تھیں اور ٹرمپ نے سعودی عرب کے دورے کی شروعات سعودی بادشاہ سلمان کےہمراہ سربراہی اجلاس کے ساتھ کی اوراس کے دوسرے دن 21 مئی 2017 کو پھر چھ خلیجی ممالک کے بادشاہوں اور سربراہوں کے ساتھ سربراہی اجلاس کیااوراسی دن بعد میں 55 اسلامی ممالک کےسربراہان کے ساتھ سربراہی اجلاس کیا اور اس اجلاس کی اہمیت  ٹرمپ کی جانب سے  کی گئی ایک تقریر تھی  اور مزید ان مملکتوں میں سے چندممالک کےسربراہوں کےساتھ باہمی ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہ۔،  اس دوران  یہ طے پایا  کہ انتہا پسندی کے افکار پر قابو پانے کے لیے ایک عالمی مرکزقائم کیا جائے جو ان تمام ممالک اور امریکہ کےدرمیان انتہاپسندی اور دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کی خاطرآپس میں  گہری شراکت کے تحت  منضبط ہوگا، اوراس کا مرکز دارلحکومت ریاض میں ہوگا جس کو سربراہی اجلاس کے اختتامی اعلامیہ میں بھی  شامل کیا گیا اور "ریاض اعلان" سے موسوم کیا گیا۔ چنا نچہ سعودی عرب اپنا سرمایہ اس چیز کے خلاف لڑنے کے لئےخرچ کررہا ہے جس کو مغرب "دہشت گردی" کہتا ہےاور جس کو ٹرمپ "بنیاد پرست اسلامی دہشت گردی"یا Radical Islamic Terrorism کہتا ہے اور"ریاض اعلان" میں مزید ایک "ارادے کااعلان" Declaration Of Intent بھی شامل تھا جس کا مقصدایک اسٹریٹجک وسط ایشیائی اتحاد کا قیام ہے۔ یہ اعلان   بیان کرتا ہے کہ مختلف ریاستیں اس اتحاد کا حصہ ہوں گی تاکہ خطے اوردنیا  میں امن وامان حاصل کیاجاسکے۔ مزید یہ بیان کرتا ہے کہ اس کے قیام اورشرکت کو 2018 میں عمل میں لایا جائے گا۔

 

2۔ ان ملاقاتوں اور اس نئے مرکز اوراسٹریٹجک اتحاد کی اپنی اہمیت ہونے کے باوجودٹرمپ کااصل مقصدسعودی عرب کے ساتھ معاشی سودا تھا کیونکہ امریکی معیشت مسلسل بحران اور معاشی دھچکوں کی وجہ سے داؤ پر لگی ہوئی ہے حالانکہ دنیا کی نمبر ایک معیشت  ہونےاور ناقابل تصور قسم کے قرض کےحل کے باوجودامریکہ کے لئے اقتصادی ترقی نہایت اہم بن گئی ہےبالخصوص چین کی معیشت میں مستقل اضافہ اس کی بے چینی کی وجہ ہے۔چنانچہ امریکی صدور کے لئے اقتصادی مسائل  نہایت اولین  ترجیح کے حامل ہوگئے ہیں بالخصوص خارجہ معاشی پالیسی کی خاطراہم ترین نقطہ بنتاجارہا ہے۔ ٹرمپ پچھلے سال کے اواخر میں الیکشن جیت کرامریکی صدرمنتخب ہوا تھا اس کی الیکشن مہم کے اکثرنعرے امریکی معیشت سے متعلق تھے بالخصوص امریکیوں کو روزگار مہیا کرانے، امریکی کمپنیوں کو دیگر ممالک سے واپس امریکہ لوٹا کرامریکی معیشت کوبحال کرنے اوردنیا کے ممالک کو امریکہ کے ذریعے تحفظ فراہم کئے جانے کے لئے Royalties خراج اداء کرنے کے لئے مجبور کرنےسے متعلق تھے۔ ریپبلکن پارٹی کے لئے ٹرمپ کوصدارتی امیدوار منتخب کرنے کی وجہ اس کا منافع بخش سودے کرنے والا سرمایہ دار ہونا تھاجیسا کہ وہ ایک کامیاب تجارتی سودے باز شخص ہے۔  جب اس نے اپنی پالیسی نافذ کرنا شروع کی تو اس نے جرمنی کی چانسلر اینجلا مرکل سے اس کے دورہ واشنگٹن پر17 مارچ 2017  کو مطالبہ کیا  کہ جرمنی جنگ عظیم دوم کے بعد سے جرمنی کی حفاظت  کرنے کے لئے امریکہ کو  سابقہ قسطوں  پر کئی بلین ڈالر کا ہرجانہ اداء کرےاور 28 اپریل 2017 کوجنوبی کوریا سے وہاں  پر اینٹی میزائل امریکی میزائل سسٹم" THAD" کی تنصیب کے عوض میں امریکہ کو ایک بلین ڈالر اداء کرنے کا اس نےمطالبہ کیا۔ اس میزائل سسٹم کو امریکی فوج نے شمالی کوریا کے میزائل تجربات کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کے تدارک کے لیے نصب کیا تھا۔  جرمنی نے اس کے ملک میں امریکی موجودگی کے لئے کسی قسم کا قرض اٹھانے سے صاف طور پر انکار کردیا تھااور جنوبی کوریا نے بھی امریکی میزائل سسٹم THAD کی تنصیب کے لئے کسی قسم کا خرچ اٹھانے سے انکار کردیا تھا۔   امریکہ کا دنیا سے معاشی خراج  وصول کرنے کا معاشی منصوبہ دنیا کے اکثر علاقو ں سے ناکام ہوا البتہ اس کا یہ معاشی منصوبہ سعودی عرب میں نہایت کامیاب رہا ، اس کے بعد خلیجی ممالک  میں کامیاب رہا اور یہی بات ہے جو ناقابل یقین قیمت پر کی گئی ہتھیاروں کی سودے بازی سے نظرآئی جس پرسعودی عرب نے ٹرمپ کے ساتھ دستخط کئے۔

 

امریکہ کی " royalties" یا خراج کی پالیسی کے کامیاب ہونےکی شروعات سعودی عرب میں ظاہر ہوئی اور امریکہ نےتاریخی طور پر ہتھیاروں کا سب سے بڑا سودا طے کیا جو اس پالیسی کے زیراثر امریکہ کے ہاتھ لگا ہے۔ الجزیرۃ نیٹ مباشر نے 20 مئی 2017کو رپورٹ کیا کہ "سعودی بادشاہ سلمان اور ٹرمپ نےہفتےکےدن باہمی تعادن کے مختلف معاہدات پر دستخط کئے ہیں۔   وہائٹ ہاوس نے ریاض کے ساتھ 460 بلین امریکی ڈالر مالیت کے فوجی تعاون کے معاہدے پر دستخط کیے جانے کا اعلان کیا۔ سعودی تجارتی وزیر ماجد القصابی نےکہا کہ اس کے ملک نے 23 بڑی امریکی کمپنیوں کوسعودی عرب میں سرمایہ کاری کی خاطر  لائسنس جاری کیےہیں"۔ ریاض میں الجزیرۃ کے رپورٹر نےبتایا کہ سعودی عرب اور امریکہ نے460 بلین امریکی ڈالر کے دفاعی معاہدوں پر دستخط کیے ہیں جس میں سے 110 بلین ڈالر کے پچھلے سعودی و امریکی سودے ہیں جس کے تحت فوری طور پرہتھیارسعودی عرب کے حوالے کئے جائیں گے اور باقی 350 بلین ڈالر مالیت کے ہتھیاردفاعی سمجھوتے کے تحت مزید  اگلے دس سالوں میں مہیا کیے جائیں گے۔

اتنا زبردست سودا طے پانےکے نتیجے میں امریکہ کی کئی بڑی سٹاک مارکیٹوں جیسے Dow Jones, Standard & Poor's اور Nasdaq میں مختلف کمپنیوں کے شئیرآسمانوں کو چھونے لگے اور یہ سب سعودی عرب کی جانب سے امریکہ کی معیشت  کونہایت کثیر رقم عطاء کرنے کے نتیجے میں اور روزگار کے پیدا ہونے سے ہوا جیسا کہ ٹرمپ نے الیکشن مہم کے دوران میں وعدہ کیا تھا۔ ان سودوں کے تحت ہم یہ اخذ کرسکتے ہیں کہ سعودی عرب ریاست کی آمدنی کا بڑاحصہ سالانہ امریکی ہتھیاروں کی فیکٹریوں کو بھیجتا رہے گااوراگلے دس سالوں تک یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ العربیہ نیٹ- 22 دسمبر 2016 کی رپورٹ کے مطابق سعودی ریاست کی  2016 کی سالانہ اصل آمدن 528 بلین ریال تھی جوتقریباً 140 بلین  امریکی ڈالرکے برابرہوتی ہےاور اس طرح ٹرمپ انتظامیہ نے اپنے معاشی مسائل کا حل آل سعود سے تلاش کرلیا ہے۔

 

3۔ کانگریس کی جانب سے سودے کو مستردکرنےکی بات سیاسی رسہ کشی کے تناظر میں ہےاور غالب امکان ہے کہ اس سے ہتھیاروں کے سودے پرکوئی  اثر نہیں پڑنے والا،  البتہ سودے  کی شرائط میں بہتری لائی جاسکتی ہے۔  ہتھیاروں کا اتنا بڑا سودا امریکی معیشت میں جان پھونکنے والا ہے جس کے تحت امریکی فیکٹریاں چل پڑیں گی اور وہیں امریکیوں کومختلف قسم کے  کام اورروزگار مہیا کروائے گی۔ امریکہ اور اس کی  تمام سیاسی جماعتیں یہ سودا کرناچاہتی ہیں البتہ جیساکہ ہم نے کہا کہ یہ سیاسی مخالفت کامعاملہ ہے۔ اس معاشی کامیابی کے تحت ٹرمپ کو اتنا بڑا سودا ہاتھ آیا اور بڑےنمایاں سیاسی افعال کےتحت مختلف ممالک کے حکمرانوں کوایک ساتھ جمع کیا گیا، ان کے تلے ٹرمپ اپنی بدنامی کے واقعات Scandals دبا دینا چاہتا ہے جو اس کےالیکشن کے دوران روس سے تعلقات قائم کرنے اور اس کے داماداور اس کے ساتھیوں کےمتعلق اٹھنے والے معاملات ہیں اور اس آپریشن کو اچھی طرح انجام دیا گیا۔

صدر ٹرمپ کے سعودی دورے اور ملاقاتوں اورسعودی عرب میں ہتھیاروں کے سودے پر اس کے دستخط کرنے اور دنیا کے ہرکونے سے ٹرمپ کی تقریر سننے کے لئے مسلم صدور مملکت اور بادشاہوں کے ریاض پہنچ کر جمع ہونے اورامریکہ کی فرمانبرداری کی رسم Ritual کو اداء کرنے کے مناظر کو جس طرح بڑے پیمانے پرامریکہ میں میڈیا کے ذریعے نمایاں کرکے دیکھایا گیا اس سے صدر ٹرمپ اور اس کی انتظامیہ کے لئے آسانی پیدا ہوتی ہے کم ازکم تھوڑی مدت کے لئے بدنامی کے واقعات کے اثرات حاوی نہیں رہیں گے اور اُسے کارنامے اور کامیابیوں سے جوڑکر دیکھا جائے گا اور انکشافات اور بدنامی کے واقعات اور کمزور سیاسی کارکردگی سے نہیں جوڑا جائے گااور موجودہ حالات میں اس کے لئے سیاسی طور پریہ پہلو نہایت اہم بنا ہوا ہے۔ چنانچہ واضح ہے کہ  اسی لئے ہنگامی طور پر مسلم بادشاہوں اور صدور مملکت کا امریکی صدرسے ملاقات کے لئے مجمع اکٹھا کیا گیااور پہلی بار اتنے بڑے پیمانے پرسعودی عرب کھلم کھلا امریکی صدر اور 55 اسلامی ممالک کے سربراہوں کے درمیان ہونے والی ملاقات کی خاطرتیاری و انتظام کیا جنہیں اس ملاقات کو انجام دینےکے لئے دارلحکومت ریاض میں مدعو کیا گیا تھا، جہاں امریکی صدر ٹرمپ کا دورہ پہلے سے میڈیا کی اہم توجہ کا مرکز بنا ہوا تھا۔ ادھر مشاہدین کا  ماننا ہے کہ  یہ سعودی عرب  کی کامیابی تھی کہ وہ عرب و مسلم سربراہوں اور حکمرانوں کواس نوعیت کی پہلی ملاقات کے لئے جمع کرکےساری دنیا کی توجہ اس دورے کی جانب مبزول کرانے میں کامیاب ہوا۔۔ (Deutsche Welle site on 19/5/2017) اور پھر اس کے بعد امریکی کانگریس کے چند ممبران بالخصوص ڈیموکریٹ کی جانب سے اس کی سیاسی مخالفت  کا دور شروع ہوا۔

 

4۔ جہاں تک خلیج کےدیگر حکمرانوں کی بات ہے تو امریکہ ان کوبھی اپنے قابو میں رکھنا چاہتا ہے حالانکہ وہ ان کی برطانیہ سے وفاداری کے متعلق باخبر ہےالبتہ امریکی ہتھیاروں کےسودے سے ان کاتعلق قائم کرکے،  مزید ایرانی خطرے کو بہانہ بنا کر ان کے ممالک میں مداخلت کرنا چاہتا ہے۔ ٹرمپ نے اپنی تقریر میں اس بات کو بیان کیا کہ "قطر، جو امریکی مرکزی کمان کی اپنے یہاں مہمان داری کرتا ہے (امریکی فوجی اڈہ )، ایک اہم اسٹریٹجک حصہ دار ہے، ہماری  کویت اور بحرین سے چلی آرہی طویل شراکت داری خطے میں امن کو بڑھائے گی ۔۔۔متحدہ عرب امارات نے Battle for Hearts and Minds میں حصہ لیا اور امریکہ کے ساتھ مل کر انٹرنیٹ پر نفرت(انتہاپسندی) کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے ایک مرکز کو قائم اورشروع کیا، بحرین بھی  وہاں سے اس مقصد میں شامل ہونے اورانتہاپسندی میں اضافے کو روکنے میں اپنا کارکردار کر رہا ہے"۔۔ (CNN/Arabic 21/05/2017)

 امریکی صدر ٹرمپ نے بیان دیا کہ امریکہ اور قطر نے امریکی ہتھیار کے ایک نئے سودے پر گفتگو کی ہے۔ اے پی (خبر ایجنسی)کے مطابق "امریکی صدر نے کہا کہ قطر کے امیر نے اس کے ساتھ  گفتگو کی ہے تاکہ بڑی تعداد میں بہترین قسم کے امریکی فوجی ہتھیاروں کوخریدے"۔ٹرمپ اور امیرِ قطر شیخ تمیم نے امریکی اسلامی سربراہی اجلاس سے ہٹ کر  بھی صبح کے وقت آپس میں باہمی گفتگو کی اور امریکی صدر نے کہا کہ "امریکہ سے بہتر ہتھیار کوئی بھی نہیں تیارکرتا ہے" اور اشارہ کیا  کہ اس سودے سے "امریکہ کو روزگار حاصل ہوگا اور قطر کی سیکوریٹی فورس  میں اضافہ ہوگا"۔ (Dot Masr 21/5/2017)

امریکہ کی پالیسی ایرانی خطرے کو خطے کےممالک کے لئے خطرہ بتانے اور پھراس کے عرب حکمرانوں کو ایران مخالف جملے سنا کران ممالک کو ہتھیاروں کے سودے، فوجی اڈوں، مراعات کے ذریعے بُنے ہوئے امریکی جال میں پھانسنا ہےاور یہ سب کچھ خلیج کی دولت سے ہوگا اور اِس میں امریکہ کو ایران کے خلاف حقیقی طور پر کوئی اقدام اٹھانے کی ضرورت نہیں ہو گی، کیونکہ امریکہ اب بھی شام میں انقلاب کو کچلنے کے لئے ایران پر اعتماد کرتا ہےاور اوباما کے دور کی طرح یمن میں حوثی باغیوں کو ہتھیار بہم پہنچانے میں اب تک اپنا  کارآمد کردار نبھاتا چلا آرہا ہےاور بلاشبہ عراق اور لبنان میں اس  کے اثرات  عین امریکی منصوبے کےمطابق ہیں۔   ریاض میں اپنی  تقریر میں ٹرمپ نے لبنانی حزب اللہ کا ایک دہشت گرد تنظیم کے طور پر ذکر کیا اور پھر لبنانی فوج کی تعریف بھی کی جو شام میں مداخلت اور کارروائی  کے لئے حزب اللہ کوپوری مدد فراہم کرتی ہےاور اس کے ساتھ مل کر شام کے انقلابیوں کے خلاف جارود اور ارسل کے مقام پر لڑائی لڑتی ہے۔

یہ تمام حکمران  بھی سعودی حکمران کی  طرح ہی اس بات پر مکمل یقین نہیں کرتے ہیں کہ امریکہ ایران کو ان کے تخت پلٹنے کے لئےکبھی نہیں  اکسائے گا چنانچہ وہ امریکہ  کی خواہش اور اشاروں کے فرمانبردار ہیں بالخصوص جب وہ امریکہ سے ایران کے خلاف کوئی لفظ یا ایرانی خطرے کے متعلق کچھ سنتے ہیں خواہ ایسی  بات کہ جس کے ہمراہ کوئی عملی اقدام نہ بھی کیا جاتا ہو۔جیسےٹرمپ نے اپنی تقریر میں بیان کیا کہ "لبنان سے لے کر عراق اور یمن وغیرہ  تک ایران  ہی ہےجو دہشت گردوں اور ملیشیاء اور دیگر انتہاپسند گروہوں کو سرمایہ، ہتھیار اور تربیت  فراہم کررہا ہے جو خطے میں  بربادی اور عدم استحکام پھیلاتے ہیں، کئی دہائیوں سے ایران نے فرقہ واریت اور دہشت گردی کی آگ کوبڑھاوا دیا ہے، یہ ایک ایسی حکومت ہے جو کھلے عام قتل عام کی بات کرتی ہے اور اسرائیل کی بربادی اور امریکہ کی موت کے حلف لیتی ہے اور اس ہال میں موجود اکثر سربراہوں اور ممالک کی بربادی کے دعوی کرتی ہے، اس کی عدم استحکام پھیلانے والی مداخلت میں سے ایک ملک شام میں مداخلت ہےجہاں بشارالاسد نے ایران کی مدد سے ناقابل بیان جرائم انجام دئیے ہیں" (CNN, 21/5/2017)۔ گویا کہ یہ امریکہ نہیں تھا کہ جس نے خودہی ایران کو یہ سب کرنے کاحکم دیا تھا،  اور گویا کہ خلیج کے حکمران اس بات کواچھی طرح نہیں جانتے ہیں اورپھر اس نے ایران کو الگ تھلگ کرنے کی آواز لگائی البتہ امریکہ کی جانب سے ایران پر دباؤ بنانے کی خاطرکوئی قدم نہیں اٹھایا گیا ۔ امریکہ اب بھی ایران کے ساتھ نیوکلیر معاہدے پرکاربند ہے حالانکہ الیکشن کے دوران ٹرمپ سب کے سامنے اس معاہدے کے خلاف چیختا رہا ہے۔ اور یہ سب کچھ خلیجی ممالک پر ایرانی عفریت کا ڈر قائم  رکھنے کے لئے ہے تاکہ اس کو پھانس کی طرح استعمال کرکے امریکی ہتھیاروں کے سودے ،  ملٹری بیس  اور مراعات  کے جال میں پھانسا جائے، اورپھر ان سب کے لئے خلیج کا ہی اپنا سرمایہ لگایا جائے۔

 

5۔ جہاں تک یہودی وجود کے ساتھ سیاسی منصوبے اور 22 مئی 2017 کوسعودی عرب کےدورے کے بعد ٹرمپ کے مقبوضہ فلسطین کے دورے کی بات ہے اور اس سوال کے تعلق سےکہ کیا واقعی ٹرمپ اس کے سیاسی حل کا کوئی منصوبہ رکھتا ہے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ امریکہ کے لئے فلسطین کا مسئلہ موجودہ  امریکی انتظامیہ کی ترجیحات کے مطابق آج کوئی ہنگامی مسئلہ نہیں ہے۔ ہم نے اس سے قبل بھی 12 مئی 2017 کو ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ"عرب خطے کے بھڑک اٹھنے بالخصوص ملک شام  اورشمالی کوریا اورامریکہ کے درمیان تناؤ کی  صورت میں فلسطینی مسئلہ موجودہ امریکی انتظامیہ کے لئے ابھی تک  ترجیح کا معاملہ نہیں ہے، چنانچہ امریکہ اس معاملے میں کسی بھی طرح کی جلدبازی میں نہیں ہے"۔۔وہ فلسطین کے حل کے لئے مختلف ممکنات تلاش کررہا ہے اور عربوں کے درمیان مذاکرات شروع کرنے پرغور کررہا ہے بالخصوص یہودی وجوداور فلسطینیوں کے درمیان بات چیت پراوراس کے نتائج کی راہ دیکھ رہا ہے۔ اس کی تصدیق بی بی سی کی 11 مارچ 2017 کی رپورٹ کے حوالےسے ہوتی ہے "رائٹرزنے حوالہ دیا کہ  فلسطینی صدر کے ترجمان نبیل ابو روضینہ نے کہا کہ: ٹرمپ نے عباس سے کہا ہے کہ وہ گفتگو چاہتا ہے کہ کس طرح مذاکرات کی طرف واپس لوٹا جائےاورمستقل امن حاصل کرنے کےپُرامن منصوبے کی خاطر اپنی سنجیدگی پر زور دیا "۔اس نے وہائٹ ہاؤس میں محمود عباس کے ساتھ مشترکہ  پریس کانفرنس میں بیان دیا کہ " جو کچھ درکار ہوگا میں وہ کروں  گا۔۔اورمیں دونوں فریقین کے درمیان ایک ثالث  کی طرح کا کام کرنا چاہوں گا،  ایک رہنما اور جج  کی طرح، اور پھر اس طرح ہم  اس کو حل کرلیں گے"۔ (Russia Today, 4/5/2017)

دوسرے لفظوں میں امریکہ ابھی فلسطین کے مسئلے کو حل کرنے کے لئے کوئی منفرد منصوبہ نہیں  بنا رہا ہےبالخصوص جب تک وہ ملک شام اور شمالی کوریا میں جنگ یا امن کے سلسلے میں کوئی اہم کامیابی حاصل نہیں کرلیتا۔ ٹرمپ کے سامنے یہ ابھی واضح نہیں کہ کس طرح مذاکرات کی طرف واپس لوٹا جائےاوروہ  کس قسم کا امن منصوبہ چاہتا ہے اور مسئلے کے حل کو معلوم کرنے، سروے اور فریقین کے ساتھ گفتگو کےذریعے حل کی تلاش کے مرحلے میں ہے۔ مزید وہ چاہتا ہے کہ دونوں فریق براہ راست آپس میں ملاقات کریں تاکہ وہ جو حل چاہتے ہیں اس پر متفق ہو جائیں یا دوسرے لفظوں میں جوحل یہودی وجود چاہتا ہے اس کو قبول کرلیا جائے۔ امریکی ریاست  کی نمائندہ نکی ہیلی Nikki Haley نے گذشتہ منگل کے روز فلسطینی نمائندہ ریاض منصور سےپہلی دفعہ ملاقات کی اور بعد ازاں سوشل میڈیا سائٹ ٹویٹر پر اس نے  ٹویٹ کے ذریعے کہا کہ فلسطینیوں کو چاہیے کہ وہ اسرائیل سے ملاقات کریں " بجائےیہ کہ اقوام متحدہ کو حل کے لئے گھسیٹیں، براہ راست مذاکرات کریں"۔ (BBC, 11/3/2017)

6۔ خلاصہ،  یہ بڑی ہی سنگین بات ہے کہ امریکہ جو خود اپنی بدعنوان اقداروں اور بدبودار تمدن کی وجہ سے اندرہی اندر کھوکھلا ہوا جارہا ہےاور اس کو مسلمان علاقوں میں اعلیٰ ترین عزت بخشی جائے، اوروہ اس میں سفر کرےاور بے دھڑک اس میں چلا جائےاور جو خود کو حکمران گمان کرتے ہیں امریکی مفادات کی حفاظت کی خاطر چاکری  میں بڑھ چڑھ کر حکم بجا لائیں، اگر امریکہ انگلی ہلائے اور آنکھ سے دیکھے تو 55 جاہل و احمق نقصان دہ حکمران اس مجرم کی وفاداری و فرمانبرداری بجالانے کے لئے دوڑ لگاتے ہیں جو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جرائم میں ڈوبا ہوا ہےاور بڑی دردناک بات یہ ہے کہ مسلمانوں کی ہی دولت امریکہ کی معیشت کی بنیادیں کھڑی کرنے کے لئے استعمال ہوں اور اس کے ناکارہ جسم میں جان پھونکے اور اس کے بے روزگاری کے مسئلے کو حل کرے اور اس کو ایک ایسے وقت میں دولت کا ڈھیر دیا جائے جب کہ خودمسلم ممالک میں بڑے پیمانے پربے روزگاری پھیلی ہوئی ہے۔  یہ غدارحکمران عوام کی دولت کوبے تحاشا لٹا رہے ہیں جو اللہ کے قانون کے تحت مسلمانوں کی عوامی ملکیت کی دولت ہے، اس کے باوجود وہ اس  دولت کو ٹرمپ کے ہاتھوں میں دیتے ہیں تاکہ اس کو مسلمان ممالک میں قتل عام مچانے کے لئے مزید طاقت پہنچائی جائے!، لیکن اس کی اصل وجہ ہم سب جانتے ہیں جو ہم نے پہلے بھی کہا ہے اور پھر دہراتے ہیں کہ، ان سب مسائل کی وجہ خلافت کی غیر موجودگی ہے،  وہ امام  جس کے ذریعے لوگ محفوظ ہوجاتے ہیں  جیسا کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: 

 

(إِنَّمَا الْإِمَامُ جُنَّةٌ، يُقَاتَلُ مِنْ وَرَائِهِ، وَيُتَّقَى بِهِ)

"بےشک امام تمہاری ڈھال ہے جس کےپیچھے ہوکرتم لڑتے ہو اوراس کے ذریعے محفوظ رہتے ہو"۔( مسلم)

 

یہ ہر ایک مسلمان پر فرض ہےجو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہےکہ وہ اس بات کو اپنی زندگی و موت کا مسئلہ بنالے کہ: "اللہ  کی خاطر، اللہ کے رسول سے سچا ثابت ہونے اور خلافت راشدہ کے قیام کے لئے سنجیدہ اور مخلص جدوجہد کرے تاکہ اس جبر کے دور کے بعداللہ کے رسول کی بشارت کی تکمیل ہو جائے"جیسا کہ احمداور الطیالیسی نے اس صحیح حدیث کی روایت کی ہے، الطیالیسی کے تلفظ کے تحت حذیفہ نے کہا کہ رسول اللہ نے فرمایا:

 

(...ثُمَّ تَكُونُ جَبْرِيَّةً، فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا، ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ )

پھر اس کے بعد جبرکی حکمرانی ہوگی جب تک اللہ چاہے گا باقی بچے گی پھر اللہ اس کو ہٹالے گا پھر اس کے بعد نبوت کے طریقے پر خلافت قائم ہوگی‘‘

 

اور پھر مسلمان عظمت حاصل کریں گے اور کافر استعمار ذلیل ہورہا ہوگا اورمسلم ممالک سے شکست کھا کر اپنے گھروں کی طرف بھاگ رہا ہوگا  چہ جائیکہ ان کے گھر بھی محفوظ بچ گئے ہوں۔

 

یکم رمضان 1438 ہجری

27/5/2017 CE

Last modified onاتوار, 11 جون 2017 06:11

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک