الإثنين، 23 جمادى الأولى 1446| 2024/11/25
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

 

سوال کا جواب

انڈونیشیا میں سیاسی پیش رفت

)ترجمہ(

سوال:

20 اکتوبر 2024 کو سابق جنرل پرابوو سبیانتو(Prabowo Subianto) (عمر 73 سال) نے انڈونیشیا کے نئے صدر کی حیثیت سے پارلیمنٹ کے سامنے حلف اٹھایا۔ یہ تقریب فروری میں ہونے والے صدارتی انتخابات کے بعد منعقد ہوئی۔ ان کی جیت کا اعلان 20 مارچ 2024 کو کیا گیا تھا۔ امریکہ نے بھی انہیں مبارکباد دینے میں کوئی تاخیر نہیں کی۔ امریکی وزیر خارجہ بلنکن نے مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ ["واشنگٹن پرابوو کے ساتھ قریبی تعاون کا منتظر ہے" (الجزیرہ، 20 مارچ 2024)]۔ اس کے علاوہ، پرابوو نے اپنی حلف برداری سے پہلے ہی یکم اپریل 2024 کو چین کا دورہ کیا۔ اس وقت وہ منتخب صدر تھے لیکن انہوں نے ابھی عہدہ نہیں سنبھالا تھا۔ اس دوران انہوں نے چینی صدر شی جن پنگ سے ملاقات کی اور کہا کہ: ["وہ انڈونیشیا اور چین کے تعلقات کو مزید مضبوط کرنے کی مکمل حمایت کرتے ہیں اور صدر جوکو کی چین کے ساتھ دوستی کی پالیسی کو جاری رکھنے کی خواہش رکھتے ہیں" (رائٹرز، 01 اپریل 2024)]۔

 

اب سوال یہ ہے کہ: کیا امریکہ کی فوری مبارکباد اور چین کا جلد دورہ انڈونیشیا کے امریکہ اور چین کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے کوئی اہمیت رکھتے ہیں؟ دوسرے الفاظ میں، کیا ان عوامل سے انڈونیشیا کی امریکہ کے ساتھ پالیسی میں کوئی تبدیلی متوقع ہے؟ چین کے ساتھ انڈونیشیا کے تعلقات کس سمت میں بڑھیں گے؟ اور غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے بارے میں انڈونیشیا کا مؤقف کیا ہوگا؟

 

جواب:

 

جواب کو مزید واضح کرنے کے لیے، ہم درج ذیل امور کا جائزہ لیں گے۔

 

اول : امریکی پالیسی اور انڈونیشیا:

-1 امریکہ نے سب سے پہلے ولندیزی سامراج کی جگہ لینے کی کوشش کی جب انڈونیشیا کو 1949 میں اس سے آزادی ملی، اس نے مدد اور قرضے فراہم کیے، لیکن انڈونیشیا نے اسے مسترد کر دیا کیونکہ اسے احساس تھا کہ یہ غلبہ اور اثر و رسوخ حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔ انڈونیشیا ولندیزی سامراج سے آزادی حاصل کرنا چاہتا تھا، لیکن امریکی اثر و رسوخ کے زیرِ سایہ آنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا تھا۔ انڈونیشیا پر امریکہ نے دباؤ ڈالا اور ملک میں بدامنی اور شورش کو ہوا دی۔ صدر احمد سوئیکارنو نے آخرکار 1958ء میں امریکی امداد اور قرضے قبول کر لیے، جس سے امریکہ کو انڈونیشیا میں رسائی کا موقع ملا اور وہ مزید ایجنٹس کی تلاش میں مصروف ہو گیا۔ فوج میں اس نے محمد سہارتو سمیت نئے ایجنٹس کو اپنے ساتھ ملا لیا، جنہوں نے 1966ء میں احمد سوئیکارنو کے خلاف فوجی بغاوت کی۔ امریکہ نے اس کے اثر و رسوخ کو بڑھانے کے لیے اس کی مدد کی کہ وہ کمیونسٹوں کا خاتمہ کرے، اور پھر 1975ء میں امریکہ نے مشرقی تیمور کو پرتگالی استعماریت سے آزاد کرایا۔ لیکن جب امریکہ نے مشرقی تیمور کو انڈونیشیا سے الگ کرنا چاہا، تو سہارتو نے اس مطالبے پر عمل کرنے میں تاخیر کی۔ اس پر امریکہ نے انڈونیشیا کے لیے معاشی مسائل پیدا کیے۔ امریکہ کے زیر اثر مالیاتی اداروں جیسے کہ عالمی مالیاتی فنڈ اور عالمی بینک نے صورتحال کو مزید خراب کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس کے بعد طلبہ کے احتجاج اور فسادات شروع ہو گئے، یہاں تک کہ سہارتو کو 1998ء میں استعفیٰ دینے پر مجبور ہونا پڑا۔ امریکہ نے اسے اسی طرح بے دخل کر دیا جیسے وہ کسی بھی ایجنٹ کو کرتا ہے جو اس کے منصوبوں پر عمل درآمد میں تاخیر کرے یا جس کی مدت ختم ہو جائے۔

 

 -2ہارتو کے بعد ان کے نائب یوسف حبیبی نے 1998ء سے 1999ء تک ایک سال اور چھ ماہ کے لیے ملک کی صدارت سنبھالی۔ انہوں نے امریکہ کے مطالبات مانتے ہوئے مشرقی تیمور کے حق خودارادیت پر ریفرنڈم کروانے پر اتفاق کیا، جو کہ اس کے ملک سے علیحدگی کی راہ ہموار کرنے کا پیش خیمہ تھا۔ انہوں نے یہ عہد بھی کیا کہ وہ اس پر دوبارہ کوئی مطالبہ نہیں کریں گے اور جمہوری منتقلی کے نام پر ایک انتخابی نظام قائم کیا گیا۔ اس کے بعد عبد الرحمٰن واحد نے 1999ء سے 2001ء تک تقریباً دو سال حکومت کی۔ پارلیمنٹ نے بدعنوانی کے الزامات پر انہیں برطرف کر دیا اور ان کی جگہ احمد سوئیکارنو کی بیٹی، میگاوتی سوئیکارنو کو صدر بنا دیا۔ وہ 2001 سے 2004ء تک صدر رہیں۔ ان کے دورِ صدارت میں، 2002ء میں مشرقی تیمور نے انڈونیشیا سے علیحدگی کا اعلان کیا، اور یوں انہوں نے بھی اپنے پیشروؤں کی طرح "غداری" کا سلسلہ جاری رکھا۔

 

 -3ملک میں نئے آئینی ترمیمات کے تحت براہِ راست صدارتی انتخابات منعقد کیے گئے، جس میں صدر زیادہ سے زیادہ دو مدتوں کے لیے منتخب ہو سکتا ہے، ہر مدت پانچ سال کی ہوتی ہے۔ یودھویونو 2004 سے 2014 تک صدر منتخب ہوئے۔ اسی سال صدارتی انتخابات میں جوکو ویدودو کامیاب ہوئے، پھر 2019ء میں دوسری مدت کے لیے منتخب ہوئے، اور ان کی مدت اکتوبر 2024 میں ختم ہوئی۔ ویدودو امریکی اثر و رسوخ کے تحت انڈونیشیا کے نظام کو برقرار رکھنے کے خواہاں رہے۔ 13 نومبر 2023ء کو اپنے آخری امریکی دورے کے دوران، انہوں نے صدر جو بائیڈن سے ملاقات کی اور اسٹریٹجک شراکت داری کو مضبوط بنانے اور جنوب مشرقی ایشیائی اقوام کی تنظیم (ASEAN) کی مرکزیت کو بڑھانے پر اتفاق کیا۔ امریکہ اس تنظیم پر فیصلہ سازی کا کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے، جو کئی ممالک پر مشتمل ہے، جن میں سے سب امریکہ کے زیرِ اثر نہیں ہیں۔ امریکہ انڈونیشیا کو استعمال کرکے یہ مقصد حاصل کرنا چاہتا ہے کہ چین کے خلاف کھڑا ہو سکے یا اس پر دباؤ ڈال سکے، تاکہ اسے جنوبی چین کے سمندر کے علاقے پر کنٹرول حاصل کرنے سے روکا جا سکے۔ امریکی وزیر خارجہ بلنکن نے 17 اگست 2024ء کو انڈونیشیا کے یوم آزادی کے موقع پر مبارکباد دیتے ہوئے کہا: "صدر جوکووی اور صدر بائیڈن نے گزشتہ نومبر میں ہمارے دو طرفہ تعلقات کو ایک جامع اسٹریٹجک شراکت داری میں تبدیل کیا، جو ایک تاریخی نئے دور کی علامت ہے")ماخذ: state.gov؛ youm7، 17/8/2024(۔

 

 -4رابوو سبیانتو، جو سابق صدر محمد سہارتو کے داماد ہیں، اور ان کے نائب جبران، جو سبکدوش ہونے والے صدر جوکو ویدودو کے بیٹے ہیں، 14 فروری 2024ء کو ہونے والے انتخابات کے پہلے مرحلے میں 58.58 فیصد ووٹ لے کر کامیاب قرار پائے۔ جبران نائب صدر کے لیے اہل نہیں تھے کیونکہ ان کی عمر 36 سال ہے، جبکہ قوانین کے تحت صدر اور نائب صدر کے عہدوں کے لیے کم از کم عمر 40 سال مقرر ہے۔ تاہم، انڈونیشیا کی عدلیہ کے سربراہ، جو صدر ویدودو کے داماد ہیں، نے انتخابات سے قبل ایک ترمیم کی جس کے تحت 40 سال سے کم عمر کے افراد کو ان عہدوں کے لیے اہل قرار دیا گیا۔ صدر ویدودو خود اپنی مدت صدارت میں توسیع کے بارے میں غور کر رہے تھے، لیکن اس میں کامیاب نہ ہو سکے، اس لیے انہوں نے پرابوو کے ساتھ ایک معاہدہ کیا جس کے تحت ان کے بیٹے جبران کو نائب صدر بنانے کی شرط پر پرابوو کی حمایت کی۔

 

امریکہ نے واضح طور پر پرابوو کی انتخابی کامیابی کی مکمل حمایت کی، جس میں صدر ویدودو، فوج، انٹیلیجنس اور پولیس سمیت تمام ادارے شامل تھے، اور امریکہ نے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا، جیسا کہ وہ ایسے معاملات میں عموماً کرتا ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ فوج میں ان کے ساتھی افسران انہیں "امریکہ کی کٹھ پتلی" کہتے تھے، اور انہوں نے امریکہ میں فورٹ بیننگ، جارجیا اور فورٹ براگ، نارتھ کیرولینا میں تربیت حاصل کی تھی۔ جب 20 مارچ 2024ء کو ان کی کامیابی کا سرکاری اعلان کیا گیا تو امریکہ نے انہیں مبارکباد دینے میں دیر نہیں کی۔ امریکی وزیر خارجہ بلنکن نے مبارکباد کا پیغام دیتے ہوئے کہا، "واشنگٹن پرابوو کے ساتھ قریبی تعاون کا منتظر ہے" (الجزیرہ، 20/3/2024)، جو ان کی امریکہ سے وفاداری اور اس کے مزید مضبوط ہونے کی تصدیق کرتا ہے!

 

5- ابوو کو سرکاری طور پر مقرر کیا گیا اور حلف برداری کے بعد 20 اکتوبر 2024ء کو انہوں نے نئی حکومت تشکیل دی۔ اپنی انتخابی فتح سے لے کر صدر کے طور پر حلف برداری تک کے عبوری دورانیے، جو تقریباً سات ماہ کا تھا، انہوں نے اپنے پیشرو ویدودو کے دور میں وزیر دفاع کے طور پر اپنا سابقہ عہدہ برقرار رکھا۔ اس دوران، امریکہ نے 26 اگست 2024ء کو انڈونیشیا کے ساتھ جاوا جزیرے کے سیدوارجو علاقے میں، جو جنوبی بحیرہ چین میں واقع ہے، بڑی فوجی مشقیں کیں جو دو ہفتے جاری رہیں۔ ان مشقوں میں جاپان، تھائی لینڈ، برطانیہ، سنگاپور، فرانس، کینیڈا، اور نیوزی لینڈ نے بھی حصہ لیا۔ پرابوو نے کئی غیر ملکی دورے کیے، جن میں امریکہ کا دورہ بھی شامل تھا، جہاں انہوں نے پینٹاگون میں امریکی وزیر دفاع آسٹن سے ملاقات کی۔ انڈونیشیا میں امریکی سفیر کمالہ شیرین لکھدیر نے کہا: "ہمارے ملک کے تعلقات نئے انڈونیشی صدر کے ساتھ کئی سال پرانے ہیں، یہاں تک کہ وہ 2019ء میں وزیر دفاع کے عہدے پر فائز ہونے سے پہلے بھی تھے" (الجزیرہ، 20/10/2024)، یعنی جب وہ فوج میں افسر تھے، اور امریکی اڈوں میں تربیت حاصل کرتے تھے اور امریکی افسران کے زیر نگرانی رہتے تھے، اور سہارتو کے دور میں فوج کی کمان سنبھال رہے تھے۔ وائس آف انڈونیشیا (VOI) ویب سائٹ نے بھی 28 اکتوبر 2024ء کو، یعنی پرابوو کے حلف اٹھانے کے چند دن بعد، یہ شائع کیا:

"وزیر دفاع (مینہن) لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) ٹی این آئی جعفری سجام الدین اور انڈونیشیا میں امریکہ کی سفیر کمالہ شیرین لکھدیر دونوں ممالک کے درمیان دفاعی تعاون کے مواقع تلاش کر رہے ہیں، جن میں بحری سلامتی بھی شامل ہے۔ وزارت دفاع کے سیکریٹریٹ جنرل کے پبلک ریلیشنز بیورو (کرو ہمس) کے سربراہ بریگیڈیئر جنرل ٹی این آئی ایڈون ایڈریان سمنتا نے وضاحت کی کہ امریکی سفیر نے وزیر دفاع جعفری کو سمندری سلامتی کے تعاون کو بڑھانے کے لیے امریکہ کی خواہش کا اظہار کیا۔ ملاقات کے دوران، امریکی سفیر نے یہ بھی بتایا کہ ان کا ملک سپر گاروڈا شیلڈ (Super Garuda Shield) کے ساتھ تربیت جاری رکھنے کا خواہاں ہے، جو اس وقت ہر سال انڈونیشیا میں باقاعدگی سے منعقد ہوتی ہے۔ ایڈون نے کہا: "امریکہ تعلیم کے شعبے اور انگریزی زبان کی تربیت میں تعاون بڑھانے کا بھی خواہاں ہے" (اینٹارا، پیر، 28 اکتوبر)۔ ملاقات کے دوران وزیر دفاع جعفری نے سفیر کمالہ کے دورے پر ان کا شکریہ ادا کیا اور دونوں ممالک کے درمیان قائم شراکت داری کو مضبوط بنانے کے لیے انڈونیشیا کے عزم کا اظہار کیا"۔

 

مندرجہ بالا امور کا جائزہ لینے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ انڈونیشیا کے نئے صدر، پرابوو، 20 مارچ 2024 کو انتخابات میں اپنی کامیابی کے اعلان سے لے کر 20 اکتوبر 2024 کو اپنے عہدے کا حلف اٹھانے تک، اور اس کے بعد بھی، اپنے پیشروؤں کے نقش قدم پر چل رہے ہیں، بلکہ وہ امریکہ کے اور بھی قریب ہو چکے ہیں، اور انڈونیشیا پر امریکہ کا اثر و رسوخ بدستور مضبوط سے مضبوط تر ہوتا جا رہا ہے!!

 

دوم : انڈونیشیا کے ساتھ چین کی پالیسی:

 -1پرابوو نے 1 اپریل 2024ء کو بطور منتخب صدر چین کا دورہ کیا، حالانکہ اس وقت انہوں نے اپنے اختیارات سنبھالے نہیں تھے۔ انہوں نے صدر شی جن پنگ سے ملاقات کی اور کہا:  [“وہ انڈونیشیا اور چین کے تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کی پوری حمایت کرتے ہیں اور صدر جوکو کی چین کے ساتھ دوستی کی پالیسی کو جاری رکھنے کے خواہشمند ہیں”، جبکہ شی جن پنگ نے کہا: “بیجنگ انڈونیشیا کے ساتھ اپنے تعلقات کو ایک اسٹریٹجک اور طویل مدتی نقطہ نظر سے دیکھتا ہے اور انڈونیشیا کے ساتھ ہمہ جہتی اسٹریٹجک تعاون کو گہرا کرنے اور ایک چین-انڈونیشیا کمیونٹی بنانے کے لیے تیار ہے” (رائٹرز، 1/4/2024)]۔  یہ بات قابل ذکر ہے کہ چین کا انڈونیشیا میں تجارتی تعلقات اور سرمایہ کاری کی سطح پر نمایاں اقتصادی کردار ہے، اور دونوں ممالک آسیان تنظیم (ASEAN organization) کے رکن ہیں۔ یہ امر تقاضا کرتا ہے کہ ان سے اس طرح برتاؤ کیا جائے کہ انڈونیشیا چین کے مخالفانہ موقف اختیار نہ کرے، جبکہ اس کا انحصار امریکی پالیسی پر برقرار رہے، جیسا کہ اوپر وضاحت کی گئی ہے۔

 

 -2 کویتی اخبار نے 9 نومبر 2024ء کو اپنی ویب سائٹ پر شائع کیا: (چینی صدر شی جن پنگ اور انڈونیشی صدر پرابوو سبیانتو نے بیجنگ کے عظیم ہال آف دی پیپل (Great Hall of the People) میں دستخطی تقریب کے دوران مصافحہ کیا۔ عہدہ سنبھالنے کے تین ہفتے بعد اپنی پہلی غیر ملکی سرکاری ملاقات کے موقع پر، انڈونیشی صدر پرابوو سبیانتو نے بیجنگ میں اپنے چینی ہم منصب شی جن پنگ سے ملاقات کی اور چین کے ساتھ قریبی تعلقات برقرار رکھنے کا عزم ظاہر کیا، جو انڈونیشیا کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار اور اہم ترین غیر ملکی سرمایہ کاروں میں سے ایک ہے۔ 73 سالہ سابق جنرل پرابوو نے ملاقات کے دوران کہا: "انڈونیشیا چین کو نہ صرف ایک سپر پاور کے طور پر دیکھتا ہے بلکہ ایک عظیم تہذیب کے طور پر بھی دیکھتا ہے"۔ انہوں نے مزید کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان صدیوں سے قریبی تعلقات رہے ہیں۔

"میرے خیال میں موجودہ جغرافیائی سیاسی اور اقتصادی صورتحال میں یہ بالکل فطری ہے کہ انڈونیشیا اور چین بہت سے شعبوں میں قریبی شراکت دار بن جائیں گے"۔ شی جن پنگ نے سبیانتو کی حکومت کے لیے تعاون کا یقین دلایا اور سب سے پہلے چین کا دورہ کرنے پر ان کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ انہیں یقین ہے: "انڈونیشیا ایک آزاد ترقیاتی راستے پر گامزن رہے گا، قومی خوشحالی اور قومی تجدید کے سفر میں نئی کامیابیاں حاصل کرتا رہے گا، اور بین الاقوامی اور علاقائی سطح پر اہم کردار ادا کرے گا"۔ 

 

چین اور انڈونیشیا بڑے اقتصادی اتحادی ہیں، لیکن دونوں ممالک چین کے جنوبی سمندر میں خودمختاری کے دعووں پر زبانی تنازع میں الجھے ہوئے ہیں۔ سبیانتو، امریکی صدر جو بائیڈن کی دعوت پر واشنگٹن کا دورہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ یہ دورہ ان کے بین الاقوامی سفر کا حصہ ہے، جس میں وہ پیرو، برازیل اور برطانیہ بھی جائیں گے…)۔

 

اس تجزیے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ انڈونیشیا اور چین کے تعلقات زیادہ تر تجارتی پہلوؤں تک محدود ہیں اور انڈونیشیا پر امریکی سیاسی اثر و رسوخ کو کمزور نہیں کرتے۔ اگرچہ تجارت بنیادی اہمیت رکھتی ہے، لیکن اگر اثر و رسوخ، خودمختاری، اور جنوبی چین سمندر کے مسائل کو اگر بھڑکایا جائے تو دونوں ممالک کے درمیان تنازعات جنم لے سکتے ہیں۔

 

سوم : مسلمانوں کے مسائل کے حوالے سے انڈونیشیا کی پالیسی:

 -1ہ بات معروف ہے کہ انڈونیشیا ایک قدیم اسلامی ملک ہے۔ اس کے لوگ پہلی صدی ہجری سے اسلام قبول کرنے لگے، جس کے نتیجے میں اس کی آبادی تقریباً 300 ملین کے قریب پہنچ گئی، جن میں سے اکثریت، یعنی 90 فیصد، مسلمان ہیں۔ اس کا رقبہ بہت بڑا ہے، جو 19 لاکھ مربع کلومیٹر سے زیادہ ہے۔ یہ اپنے وسائل اور خام مواد میں بھی مالامال ہے، اس لیے اس میں ایک بڑی طاقت بننے کی صلاحیت موجود ہے، بشرطیکہ اس میں اسلامی دستور نافذ کرنے کا منصوبہ شامل ہو اور اسے باشعور اسلامی سیاسی قیادت کے زیر انتظام چلایا جائے۔

 

 -2جہاں تک نئے صدر کے مسلمانوں کے مسائل کے حوالے سے خارجہ پالیسی کا تعلق ہے، تو یہ ان کے پیشرو کی طرح ہی ہے، جو امریکی نقطہ نظر کو اپناتی ہے۔ 1 جون 2024ء کو، پرابوو نے سنگاپور میں منعقدہ ایشیا کے سب سے بڑے سیکیورٹی فورم "شنگری لا ڈائیلاگ سمٹ (Shangri-La Dialogue Summit)" کے دوران ایک تقریر میں کہا: ["امریکی صدر جو بائیڈن کی غزہ میں جنگ بندی کے لیے تین مراحل پر مشتمل تجویز ایک درست سمت میں قدم ہے"۔ "جب ضرورت ہو اور اقوام متحدہ کی جانب سے درخواست کی جائے، تو ہم اس ممکنہ جنگ بندی کو برقرار رکھنے اور اس کی نگرانی کے لیے اہم امن فوج مہیا کرنے کے لیے تیار ہیں، نیز تمام فریقوں کو تحفظ اور سلامتی فراہم کرنے کے لیے بھی تیار ہیں"، پرابوو نے کہا۔ انہوں نے "مقبوضہ فلسطینی علاقوں کی صورتحال کے ایک منصفانہ حل" پر زور دیا اور کہا: "اس کا مطلب ہے نہ صرف اسرائیل کے وجود کے حق کو تسلیم کرنا بلکہ فلسطینی عوام کے اپنے وطن، اپنی ریاست، اور امن سے رہنے کے حق کو بھی تسلیم کرنا" (رائٹرز، 1/6/2024)۔

 

جبکہ پرابوو کا فرض ہے کہ وہ اٹھ کھڑا ہو اور اہلِ غزہ کی مدد کرے، انہیں اتنی فوجی قوت اور اسلحہ فراہم کرے کہ وہ خونخوار دشمن کو روک سکیں جو جان بوجھ کر بچوں، عورتوں، نہتے مردوں اور گھروں، اسکولوں، اسپتالوں جیسے شہری مقامات کو نشانہ بنا رہا ہے۔ انڈونیشیا کی جانب سے غزہ کے عوام کی مدد کے لیے جو سب سے بڑا اقدام کیا گیا، وہ انڈونیشیائی اسپتال کی تعمیر ہے، جسے اسلام اور مسلمانوں کے دشمن یہودی وجود نے تباہ کر دیا، جو امریکہ کی حمایت یافتہ ہے اور جسے امریکہ مسلسل مہلک ہتھیار، ساز و سامان، اور امداد فراہم کرتا رہتا ہے۔ اس سب کے باوجود، نیا صدر پرابوو امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید مضبوط کر رہا ہے، اس کے قریب تر ہو رہا ہے اور اس کے مطالبات کو پورا کر رہا ہے، کیونکہ اس کے امریکہ کے ساتھ پرانے تعلقات ہیں اور امریکہ نے اسے حمایت فراہم کی ہے۔

 

چہارم : وہ سیاسی شخصیات جو انڈونیشیا پر حکمرانی کرتی ہیں اور امریکہ کے وفادار ہیں، انڈونیشیا کو ایک بڑی ریاست بننے کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ اگر انڈونیشیا میں بیدار اور مخلص اسلامی سیاسی رہنما حکومت کریں، جو اسلامی دستور کو نافذ کریں جو عوام کے عقیدے اور ان کے حقیقی اسلامی دین سے اخذ ہوتا ہے، اور پھر اسلامی ممالک کو یکجا کرنے کی کوشش کریں، خاص طور پر ہمسایہ ممالک جیسے ملائیشیا کو، تو وہ نبوت کے نقش قدم پر قائم ہونے والی ریاست خلافت راشدہ کے مرکز بن سکتے ہیں۔

 

ارشاد باری تعالی ہے:

﴿يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوا اسۡتَجِيۡبُوۡا لِلّٰهِ وَلِلرَّسُوۡلِ اِذَا دَعَاكُمۡ لِمَا يُحۡيِيۡكُمۡ‌ۚ﴾

"اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کی پکار پر لبیک کہو جب وہ تمہیں اُس چیز کی طرف بلائیں جو تمہیں زندگی بخشتی ہے" [الأنفال: 24]

 

9 جمادی الاول 1446ھ

بمطابق 11 نومبر 2024 عیسوی

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک