الإثنين، 23 جمادى الأولى 1446| 2024/11/25
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

سوال و جواب

امریکہ اور شمالی کوریا کے درمیان کشیدگی کی بڑھتی صورت حال

 

سوال:

امریکہ اور شمالی کوریا کے درمیان کشیدگی کی صورتحال مسلسل بڑھتی جارہی ہے۔ امریکہ جنوبی کوریا میں بڑے پیمانے پر فوجی مشقیں کررہا ہے اوراس تناؤ کے نتیجے میں اس نے بڑی تعداد میں جنگی جہاز بھی بھیجے ہیں جن میں کئی طیارہ بردارجہاز بھی شامل ہیں جبکہ  شمالی کوریا نے بھی نیوکلیائی جنگ کی دھمکی دے دی ہے۔ 15 اپریل 2017 کی بی بی سی کی رپورٹ : شمالی کوریا نے خطے میں کسی بھی جنگ  بھڑکانےکےعمل کے خلاف امریکہ کویہ کہتے ہوئے وارننگ دی ہے کہ" وہ کسی بھی متوقع حملے کا نیوکلیائی جواب دینے کے لئے تیار ہے"۔  اس تناؤاور کشیدگی کی حقیقت کیا ہے ؟ کیا دونوں کے درمیان کوئی نیوکلیائی جنگ چھڑ سکتی ہےاورچینی سرحدپر ہونے والےاس تناؤپر چین کا کیا موقف ہےبالخصوص  جبکہ شمالی کوریا چین کا اتحادی ملک ہے؟

 

جواب:

بالکل ، امریکہ اور شمالی کوریا کے درمیان تناؤ امریکی صدر ٹرمپ کےبرسراقتدار آنے کے بعد بڑے ڈرامائی انداز میں بڑھا ہے۔شمالی کوریا کے میزائل تجربات  کے معاملے کو موضوع کو نشانہ بنا کرامریکہ نے شمالی کوریا کو دھمکایا ہے۔ قابل غور بات یہ  ہے کہ ٹرمپ کی امریکی انتظامیہ کےبرسراقتدار آنے کے بعد سے ہی اس تناؤ میں مزید کشیدگی پیدا ہوئی ہے اورایسا لگتا ہےکہ اس وقت امریکہ کی اولین ترجیح شمالی کوریا کے"خطرے" کو ختم کرنا ہےجس کو وہ ایشیاء میں اپنے اور اپنے اتحادیوں کے مفاد کے لئے خطرہ سمجھتا ہے اور اس  معاملےکوان باتوں سے سمجھا جاسکتا ہے:

 

1- امریکی حکمت عملی کے میں شمالی کوریا کی اہمیت  کسی دشمن فوجی طاقت کی نہیں ہے، وہ سوشلسٹ نظام رکھتا ہے اور امریکہ کے عالمی آڈر کا حصہ نہیں ۔ یہ  وجہ نہیں ہے کہ شمالی کوریا کانہایت چھوٹےرقبہ اور طاقت کے لحاظ سے بونا ہونے کی وجہ سےاس کی حیثیت  اس کو امریکی ترجیحات میں اوپرنہیں لاتی البتہ آج شمالی کوریا کی اہمیت اس کا اُس کل کا جز ہونے کی وجہ سے ہےجس کو چین کہتے ہیں۔ امریکہ دراصل چین کی مزید بڑھتی ہوئی ترقی سے فکر مند ہےاورچین کے پَرکترنےاور طاقت کو کم کرنے کی راہ تلاش کررہا ہےاور مختلف ممکن تدبیروں میں سے ایک تدبیر چین کی سرحدوں پر تنازعہ کاپیدا کرنا ہے جس میں شمالی کوریا کا بھی ایک  تنازعہ ہے۔اس کی تصدیق یوں ہوتی ہے کہ اوبامہ کی پچھلی امریکی انتظامیہ  چین کےاطراف اتحاد بنانے کی خاطر نہایت سرگرم رہی ہے اوراس دوران امریکہ کی جانب سے ہندوستان ، جاپان ، ویتنام ، فلپائن  اورجنوبی کوریا کے ساتھ  تعلقات  بڑھائے گئےہیں اور امریکہ چاہتا ہے کہ ان ممالک کے ساتھ اس کااتحادچین کے دائرے کو محدود کرنےمیں کارآمد ہو بالخصوص چین کےجنوبی سمندر میں چین جو سرمایہ کاری کررہا ہےاس کی سرمایہ کاری میں روڑے اٹکانےاور دنیا کےساتھ چین کے بین الااقوامی تجارتی راستوں اور چینلوں   کو مستحکم ہونے سے روکنے کی خاطریہ اتحاد کارآمد ثابت ہو۔

 

امریکہ کا شمالی کوریا کے ساتھ تناؤ، ان مختلف تنازعات میں سے ایک ہے جن کےذریعےچین کےخلاف امریکہ نے تناؤ قائم  کرنے کی کوشش کی ہے جیسے چین اور ہندوستان کےدرمیان سرحدی تنازعہ، اور جزیروں سے متعلق جاپان اور چین کے درمیان تنازعہ، تو دوسری جانب فلپائین اور ملائشیاء کے ساتھ جزیروں کو لے کر چین کےتنازعات، اور امریکہ نے چین کی وجہ سے جاپان کی فوج پرعائد کئی پابندیوں کوچین کا سامنا کرنے کی خاطرہٹادیا ہے۔اس طرح چین کو مسلسل تناؤ میں رکھنے کی کوشش جاری ہےاورآج امریکہ اس "کوریائی خطرے" کو سب سے اولین ترجیح پر رکھتا ہےتو یہ صرف اس کی چین کے خلاف حکمت عملی کا ایک حصہ ہے۔ شمالی کوریا پر امریکہ کا دباؤ کوئی نئی بات نہیں ہے چہ جائکہ آج اس  تنازع نے بڑی کشیدگی اختیار کی ہوئی ہے۔اس امریکی حکمت عملی کے تحت پہلے پہل مذاکرات کا طرزعمل اختیار کیا گیا تھا ، اس سے قبل امریکہ اور پیونگ یانگ کے درمیان 1994 میں مذاکرات قائم ہونے کی وجہ سے شمالی کوریا کا نیوکلئیر پروگرام منسوخ کردیا گیا تھا اور پھر 2008 میں ہوئے مذاکرات میں یونگ بیون نیوکلئیر ریکٹر کے بند کرنے سے متعلق سہ فریقی گفتگو ہوئی تھی جس کےنتیجہ میں 2012 میں شمالی کوریا کا نیوکلئیر پروگرام بند کردیا گیا تھااور نیوکلیائی ہتھیاروں کی جانچ کرنے والے انسپکٹرز کوملک میں داخل ہونے کی اجازت دی گئی تھی۔ لیکن ہردفعہ جب  بھی امریکہ اپنے وعدہ کے برخلاف نیوکلئیر کےمتبادل پانی کے ہلکے ریکٹر کی شمالی کوریاکو فراہم نہیں کرتا یا ایندھن مہیا نہیں کرتا یا امدادی پروگرام کے ذریعے اس کی تضحیک کرنے کی کوشش کرتا ہے تو شمالی کوریا اپنا نیوکلئیر پروگرام پھر سے شروع کردیتا ہے۔ شروع سے یہ امریکہ ہی تھا جو شمالی کوریا کو اس تناؤ کی سمت بڑھارہا تھا اور پھر 2012 سےامریکہ نے اپنی بحریہ کی 60 فیصدطاقت کو امریکہ سےدوراس مشرقی علاقے میں بھیجنا شروع کیا اور امریکہ کاایسا کرنے کی وجہ یہ نہیں ہے کہ وہ  چھوٹے سے ملک شمالی کوریا سے نمٹنا چاہتا ہے بلکہ وہ چین کی اُبھرتی ہوئی طاقت پر روک لگانا چاہتا ہے اور موجودہ کشیدگی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

 

2۔ امریکی سیکریٹری خارجہ ٹلرسن نے اعلان کیا کہ شمالی کوریا کے خلاف امریکہ کی طرف سے جاری  صبر وتحمل کی حکمت عملی اب ختم ہوگئی ہے۔ ٹلرسن نے یہ بیان جنوبی کوریا کے سکریٹری "Yun byung-se" کے ساتھ سیول میں ہونے والی پریس کانفرنس کے دوران دیااور کہا:  "میں یہاں صاف طور سے کہنا چاہتا ہوں کہ اب صبر کی پالیسی ختم ہوچکی ہےاور ہم نئے سیکوریٹی اور سفارتی ذرائع کا مطالعہ کررہے ہیں اورہم نے تمام راستے واختیارات کھلے رکھے ہیں"(Reuters, March 17th, 2017) ۔ اور یہ تازہ ترین موقف اس حقیقت کی وجہ سے مزید مستحکم ہوتا ہے کہ امریکہ اب ملک  شام کے متعلق قدرے مطمئن ہے بالخصوص شامی انقلابیوں  پر دباؤ بنا کران کوحلب سے دستبردار ہونے میں ترکی کے اہم کردار اداء کرنے اور پھرانقلابیوں پر ترک دباؤ کے موثر ثابت ہونے کے بعد شام کاانقلاب امریکہ کوخطرے سے باہر محسوس ہورہا ہےچنانچہ اب وہ اپنی توجہ ہٹاکر شمالی کوریا کی جانب کرسکتاہے۔ چنانچہ شامی مسئلہ کے بعد آج ٹرمپ کی  میز پر سب سے اہم مسئلہ شمالی کوریا کا مسئلہ ہے جو اوبامہ انتظامیہ کی ترجیحات میں سے تھا۔ امریکہ نے اب تک چین کی سرحدوں کو  متعین کرنے کے متعلق  کچھ  فیصلہ نہیں کیا ہے کیونکہ اب تک امریکہ  مختلف حکمت عملی تلاش  کررہا تھا اور چین کے سرحدی ممالک سے اتحاد قائم کرنے کی کوشش کررہا تھا  چنانچہ شام کی مصروفیت سےآزاد ہوکراب  واشنگٹن میں شمالی کوریا کےمسئلہ  پرآوازیں ابھرنے لگی ہیں اور امریکہ کا شمالی کوریا کے ساتھ صبر کی حکمت عملی کےاختتام کا اعلان کرنا امریکہ کی جانب سے کسی ممکنہ فوجی اقدام کا اشارہ ہےاوریہ  ان تمام باتوں کی بناء پرہےجو امریکہ نے شمالی کوریا کے فوجی تجربات کے ردعمل میں مزید کشیدگی بڑھانے والے اقدامات کیے اور بیانات دئیے ہیں جو اس طرح سامنے آئے ہیں:

 

ا۔ امریکی سیکریٹری خارجہ ٹلرسن نے شمالی کوریا کو نیوکلئیر حملے کی دھمکی دی: امریکی سیکریٹری خارجہ ٹلرسن  نے شمالی کوریا کے  میزائل تجربات کے ردعمل میں سخت ترین الفاظ میں جنوبی کوریا اور جاپان کے دفاع میں شمالی کوریا کو ایٹمی مزاحمت nuclear deterrence  کی دھمکی دی اورٹلرسن نے جنوبی کوریا اور جاپان کے ہم مناصب کے ساتھ ایک مشترکہ بیان دیا جس میں اس نے زور دیا کہ امریکہ ٹوکیو اور سیول کے دفاع کے لئے پوری طرح تیار ہے خواہ اس کے لئے نیوکلئیردفاع وحملے کے زرائع ہی کیوں نہ اختیار کرنا پڑجائے۔ (Russian Sputnik agency, 17/2/2017)

 

ب۔ جنوبی کوریا اور جاپان کونیوکلیائی ہتھیار مہیا کرنے کی امریکی دھمکی : امریکہ کے سیکریٹری خارجہ ریکس ٹلرسن نےآج دئیے گئےبیان میں اعلان کیا کہ وہ ایسے کسی حل کو خارج از امکان قرار نہیں دیتا جس کے تحت جاپان اور جنوبی کوریا کے پاس نیوکلیائی ہتھیارموجود ہوں  البتہ اس بات کی وضاحت نہیں کی گئی کہ اس سے مراد امریکہ کی جانب سے جاپان اور جنوبی کوریا میں اپنے نیوکلیائی ہتھیاروں کو نصب کرنا ہے یا پھر یہ ہتھیار جاپان اور جنوبی کوریا کو دیے جائیں گے۔۔۔۔(Russian Sputnik agency, 18/3/2017)

 

ج۔ دھمکی بھرےلفظوں میں ٹرمپ نے شمالی کوریا کوان  امریکی ہتھیاروں کی  طرف متوجہ کیا  جس سے امریکہ اس کو نشانہ بنا سکتا ہے: امریکی صدر نے مزید کہا کہ اس نے چینی صدر زائی جن پنگ سے کل فون پرایک گھنٹہ بات کی اور کہا ہے کہ شمالی کوریا کے صدر کم جونگ اُن (Kim Jong-un) کی سماعت میں یہ بات آجائے کہ "امریکہ کے پاس نہ صرف طیارہ بردار جہاز ہیں بلکہ نیوکلئیر سب میرین بھی ہے"، اورسختی کے ساتھ کہاکہ"شمالی کوریا کو اپنے پاس نیوکلئیر ہتھیار رکھنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی، فی الوقت اس کے پاس نیوکلیائی ہتھیارلانچ کرنے کے ذرائع نہیں ہیں لیکن وہ حاصل کرلے گا" (Russia Today, 13/4/2017 نے امریکی اخبار وال اسٹریٹ کے حوالے سے بتایا)۔

 

د۔ شمالی کوریا کی جانب سے نئی میزائل تجربے کے اعلان اور اس اندیشے کے باعث کہ وہ چھٹے ایٹمی تجربے کی تیاری کررہا ہے، امریکہ نےشمالی کوریا کے قریبی علاقہ میں ایک بھاری بھر کم فوج بھیجی ہے جس میں امریکی طیارے Destroyers اورطیارہ بردار جہازشامل ہیں ۔"  امریکی بحر اوقیانوس کی کمان US Pacific Command کے ترجمان نے تصدیق کی کہ امریکی طیارہ بردار جہاز (Carl Vinson) اور اس کے ہوائی جہاز سمیت اور اس کے ہمراہ میزائل اور راکٹ لانچ کرنے والےدوDestroyer کوریائی خطے کی سمت میں آگے بڑھے ہیں جن کو آسٹریلیاء میں ٹھہرنا تھا  اور ان کواحتیاطاً وہاں تعینات کیا گیا ہے "۔ ترجمان نے مزید بتایا کہ  خطے میں خطرے کی اولین وجہ شمالی کوریا ہے کیو نکہ وہ اپنے  میزائل پروگرام  کوجاری  رکھے ہوئےہے۔۔۔"(France 24, 9/4/2017)

 

امریکی نائب صدر مائیک پینس نے22 اپریل 2017 بروز ہفتہ اس بات کی  تصدیق  کی اور سڈنی  میں اخباری نمائندوں کو بتایا کہ  "طیارہ بردار جہاز" دو Destroyer اور ایک راکٹ لانچر سمیت چند دنوں کے اندر اِس  مہینے کے ختم ہونے سے قبل جاپان پہنچ جائے گااور مزید کہا کہ "شمالی کوریا کے اقتدار کوکسی قسم کی غلطی نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اس خطے میں امریکہ کے مفاد کی  نگرانی اور حفاظت کےلئے اور اس کے اتحادیوں کی حفاظت  کے لئےامریکہ کے پاس وسائل ، افواج،  اور خطے  میں خاصی تعداد میں  موجودگی ہے" اور پینس نے یہ  دعوی کیا کہ شمالی کوریا کی جانب سے کسی بھی حملے کا زبردست اور بھاری جواب دیا جائے گااورپینس نے زوردیا کہ "شمالی کوریاایشیاء پیسیفک خطے کے امن اور تحفظ کے لئے نہایت خطرناک ہے "(AFP 22 /4/2017)

 

ڈ۔ جنوبی کوریا میں بڑےپیمانے پر کی جارہی امریکی فوجی  مشقیں:"امریکی فوجوں اور کوریائی فوجوں نے بدھ کے روز سے بڑے پیمانے پر جنگی مشقیں شروع کی ہیں جو شمالی کوریا  کی جانب سے ممکنہ حملے کا سامنا کرنے کے پیش نظر دفاعی مستعدی کو جانچنےکے لئےسالانہ کروائی جاتی ہیں۔یہ مشقیں اس  وقت کشیدہ تناؤ کے ماحول میں ہورہی ہیں جب  کہ شمالی کوریا نے 12 فروری کوبالسٹک میزائل تجربہ کرنے کی کوشش کی تھی" (Reuters, 1/3/2017) یہ بھی قابل ذکرہے کہ امریکی فوج کا ایک بڑا فوجی اڈہ جنوبی کوریا میں واقع ہے جس میں 28500امریکی فوجی مقیم ہیں جو چین کے ساحل پرواقع ممالک  میں اور بحرالکاہل کے جزیروں پر موجودفوجی قوت کےنظام کا ایک حصہ ہے جس کی نفری ڈھائی لاکھ سے زائد ہےاورمزیداس میں ابھی  بحریہ کی فوجیوں کی تعداد شامل نہیں کی گئی ہے جو امریکی بحریہ کے جہازوں پرسمندر میں مقیم ہیں۔

 

3۔ ٹرمپ کی دھمکی یوں آئی گویا کہ یہ جنگ کی شروعات ہےالبتہ ملنے والےاشاروں سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ اس وقت جنگ نہیں کرنا چاہتا ہے جن میں  سےکچھ اشارے اس طرح  ہیں:

 

ا۔ امریکہ نے دھمکی دی اورپھراپنی فوجی مستعدی دکھائی کہ شمالی کوریا کےنئے تجربہ کے ردعمل میں سخت ترین  کاروائی کے لئے وہ تیار ہے چنانچہ  ردعمل میں شمالی کوریا نے 15/4/2017 کو ایک بڑی فوجی پریڈ کے ذریعے اس کا جواب دیا۔  یہ پریڈ کوریائی  پیونگ یانگ ٹیلی وژن کے ذریعے نشر کی گئی اور اس کے تحت شمالی کوریا کی سب میرین سے بالسٹک میزائل داغنے کی قابلیت کا مظاہرہ کیا گیا اور ممکنہ طور پرکوریا کی  چندبراعظمی  میزائل ایسے ہیں جو امریکی سرزمین تک مارکرنے کی صلاحیت رکھتے ہیںاورپھر  اس کےذریعے سے ظاہر ہوا کہ شمالی کوریا کی طاقت کی حقیقت امریکہ کے لئے مخمصہ بنی ہوئی ہے۔ امریکہ ایسی جنگ کی منصوبہ بندی کرنا چاہتا ہے جس کے دوران اس کو کسی عظیم  نقصان کا سامنا نہ کرنا پڑےیا پھر شمالی کوریا امریکہ پر میزائل نہ داغ سکےاور جب شمالی کوریا نے اپنی طاقت کی حقیقت کھول دی تو امریکی دھمکی  کو مشکل ترین آزمائش کا سامنا کرنا پڑا جبکہ پیونگ یانگ صرف فوجی طاقت کے اظہار بالخصوص سب میرین کا میزائل بردار ہونا اور میزائل داغنے کی صلاحیت کے مظاہرے اور ٹیلی وژن کی نشریات تک ہی نہیں رُکا بلکہ اس نے 16/4/2017 کو ایک میزائل تجربہ بھی کرڈالاگویا کہ وہ براعظمی درجہ کا میزائل ہو البتہ یہ تجربہ ناکام ہوا لیکن اس وقوعہ نے شمالی کوریا کوامریکہ کو آنکھیں دکھانے میں مزیدحوصلہ مندکردیا ، اور یہ بتاتا ہے کہ امریکہ کی دھمکیاں حقیقی نہیں تھیں اور اس وقت امریکہ اپنی اس دھمکی کو عملی جامہ پہنانے سے قاصر ہے یعنی کہ امریکہ ابھی جنگ کے لئے تیار نہیں ہے۔

 

ب۔ میزائل دفاعی نظام (THAAD) ابھی تک جنوبی کوریا میں نصب نہیں کیا گیا ہےالبتہ اس کی تیاری جاری ہےحالانکہ اس کا معاہد ہ ہوئے ایک سال کا عرصہ گذرچکا ہے۔"مشرقی ایشیاء اور پیسیفک امور کے لئےمقررامریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ سوسن تھورنٹن نے تصدیق کی ہے کہ میزائل دفاعی نظام (THAAD) ابھی تک جنوبی کوریا میں منصوبے کے مطابق عملی طور پر نصب نہیں کیا جاسکاہے۔واضح رہے کہ امریکی میزائل شیلڈکا یہ نظام اس سال جون اور جولائی کے درمیان نصب کیا جانے والا تھا البتہ شمالی کوریا کے میزائل تجربات کے تناظرمیں امریکہ اور جنوبی کوریا نے  باہمی طور پر فیصلہ کرکےآپریشن میں تیزی لانے کافیصلہ لیا ہے ۔ واشنگٹن اور سیول کے درمیان (THAAD) میزائل سسٹم کو نصب کرنے کے لئےجولائی 2016 میں معاہدہ ہوا تھا۔ (THAAD) میزائل سسٹم کوکوریا ئی خطے کے اوپر نصب کرنے کےمنصوبے کو چین  اور روس فکرمندی  کے ساتھ دیکھتے ہیں جبکہ جاپان سمجھتا ہے کہ اس سے خطے کے تحفظ میں اضافہ ہوگا۔(Russian Sputnik agency, 17/4/2017).

 

ج۔ ایسا ہونا تقریباً ناممکن ہے کہ امریکہ شمالی کوریا کے ساتھ جنگ میں داخل ہوگا کم ازکم چینی صدر کے ساتھ طے کئے 100 دن کی ڈیڈ لائن کے معاہدہ کے بعدکچھ ہو سکتا ہے، جس کا مقصد ایک اہم تجارتی سودے بازی کو انجام دینا  تھا جس کے تحت دونوں ممالک کے درمیان تمام تجارتی تعلقات پر نظر ثانی کی جائے گی اورٹرمپ چینی اشیاء کی درآمدات پر45 فی صد ٹیکس لگانے کے اپنےانتخابی وعدہ کےبرخلاف تجارت میں چین کے ساتھ  کچھ نرمی دکھانا چاہتا ہے۔ چین کو پھسلانے کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ چین شمالی کوریا پر دباؤ ڈالے اورنتیجہ میں چین کو جواز مہیا ہوسکے کہ وہ شمالی کوریا کوامریکہ اور اس کے اتحادیوں  کا سامنا کرنے کے لئےتنہا اس کے اپنے حال پر چھوڑ دےاور اس سے امریکہ کو دو مقاصد حاصل کرنے میں مدد مل جائے گی۔

اولاً: اگر یہ امریکی منصوبہ کامیاب ہوجاتا ہے تو اس سے چین کی جانب سے اپنے ہی اتحادیوں کو ترک کردینے کی بات کو تقویت ملے گی اورنتیجتاًاس کی بین الاقوامی ساکھ متاثر ہوگی۔ چین کو متاثر کرنے کے لئےامریکی صدر ٹرمپ نے شام میں میزائل داغنے کی منظوری کے لئے7 اپریل 2017 کو اس وقت حکم دیا تھاجس وقت چینی صدر ژائی جنپنگ اور ٹرمپ امریکہ میں فلوریڈا میں رات کے کھانے کی محفل میں شریک تھے اورچند کے نزدیک اس کو چین کی بے عزتی شمار کیا گیا۔ العربیہ نیٹ نے فاکس نیوز کے حوالے سے رپورٹ کیا کہ JackKeane نامی ایک ریٹائرڈ جنرل اور امریکی فوج کے گذشتہ نائب چیف آف آرمی اسٹاف نے ٹرمپ کے برتاؤ کے بارے میں کہا کہ"ٹرمپ وہی کررہا ہے جو وہ کہتا ہے اور وہ اس کے ذریعے چین کو ایک سخت پیغام بھیج رہا ہے یعنی شمالی کوریا کے خلاف جنگ چھیڑنے کے متعلق اس کا ارادہ ظاہر کررہا ہے اور یہ کہ چین شمالی کوریاپر دباؤ ڈالے اور اس کاساتھ چھوڑدے اور اگر چین نے ایسا کیا تو تجارتی معاہدے میں اس کے ساتھ نرمی برتی جائے گی ۔

ثانیاً: امریکہ شمالی کوریا کےمتعلق چین کےخلاف  چال کو سب کے سامنے لانا چاہتا ہےاوراس کو ظاہرکرنے کے لئےشمالی کوریا کی خطرناک صورت حال پر امریکی اور چینی موقف کے"اتفاق رائے "کومیڈیا میں امریکی بیانات کی بھر مار کے ذریعےدکھانا چاہتاہےاورپھراس کےذریعے سے جلدہی روس کوامریکہ کے ساتھ اس  موقف پر آنے میں آسانی ہوگی اور پھر امریکہ شمالی کوریا کے متعلق اس چال کو چین اور روس کے درمیان رسہ کشی  کا میدان بناپائے گا۔ چنانچہ امریکہ کی جانب سے ان بیانات کی بھر مار ہوئی، مائک پینس جو امریکہ کا نائب صدر ہے اس نے آسٹریلیاء کے ہم منصب Malcolm Turnbull کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں بیان دیا کہ "ہم چین کے اب تک کے اقدام سے نہایت خوش ہیں " اور گذشتہ ہفتہ ٹرمپ نےشمالی کوریا کے خطرے کو دور کرنے میں چین کے اقدامات کی تعریف کی جب شمالی کوریا کے میڈیا نے امریکہ کو بڑے پیمانے پر پیشگی حفظ ما تقدم کے طور پرحملے کی دھمکیاں دیں تھیں۔"(Al-Hayat Newspaper, Sydney 22/4/ 2017)

 

د۔ امریکہ شمالی کوریا کا سامنا غالب قوت رہ  کرکرنا چاہتا ہےتاکہ شمالی کوریا کے حوصلے کوپست کیا جاسکےاور یہ شمالی کوریا کے خلاف روس کو فوجی طور پرامریکہ کے ساتھ لے آنے سے ہو جائے گا بلکہ شائدشام کی طرح روس کویہاں بھی ہراول دستہ بنا کراستعمال کیا جائے اوراس کی وجہ سے شمالی کوریا کے جنگی اندازے اور تخمینے مخمصہ کا شکار ہوجائیں گے کیونکہ شمالی کوریا یہ سمجھتا ہے کہ روس امریکہ سے دشمنی رکھتا ہے۔ اوریہ کوئی نیا نہیں دراصل روس پر پابندیوں سے متعلق "پراناکسنجر پلان" ہے جس کو نئے طور پراوبامہ انتظامیہ کے وقت عمل میں لایا گیا تھا اور پھرٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے پابندیوں میں نرمی کی لالچ میں امریکہ نے تھوڑا توقف کیا اورامریکی سیکریٹری ٹلرسن کی ماسکو میں 11/4/ 2017 کو ہونے والی میٹنگ میں سب سے اہم معاملہ شمالی کوریا کے خلاف اتحاد کا تھا جس کی تصدیق روسی ذرائع نے بدھ کے روز 16/4/2017 روسی نیوز پیپر Kommersant کے حوالے سے اس طرح کی تھی "امریکہ کے لئے ماسکو میں ہونے والی گفتگو کوریا کے مسئلہ کو لے کر کامیاب رہی اوریہ ٹلرسن کاماسکو دورے کی سب سے اہم ترجیح تھی" اب اگر امریکہ۔شمالی کوریا جنگ، امریکہ۔روس معاہدہ سے قبل شروع ہوجاتی ہے تو امریکہ کو زبردست نقصان اٹھانا پڑے گا۔ امریکہ چاہتا ہے کہ  خطرے کے بڑھنے سے چین بھی متاثر ہو اوراس کو تنازع میں  گھسیٹنا چاہتا ہے تاکہ نیوکلیائی جنگ چھڑنے کے خطرہ کی صورت میں وہ آکرمداخلت کرے۔

 

4۔ ان تمام باتوں کی وجہ سے ظاہرہے کہ امریکہ شمالی کوریا سے جنگ کے لئے ابھی تیار نہیں ہےاور  دوسرے بہتر متبادل بھی نہیں ہیں۔ ایسے میں وہ شمالی کوریا پر دباؤ بنانے کے لئے چین کا انتظارکررہا ہےاوراس کو جلدازجلد تیزکروانا چاہتا ہےاورایسےبیانات جیسے"امریکہ اس مسئلہ کوتنہا حل کرنے کے لئے تیار ہے" میں بہتات آئی ہوئی ہے گویا کہ امریکہ  چین کودھمکا رہا ہے تاکہ وہ اس کی اطاعت کرے اور نیوکلیائی ہتھیاروں سے دستبردار ہونے کے لئے پیونگ یانگ پر دباؤ بنانا شروع کرے۔  وہیں امریکہ دوسری طرف روس کےساتھ اپنے معاہدے کے طے پانے کا انتظار کررہا ہے تاکہ روس کو کوریائی مسئلہ کو بھی حل کرنے میں شامل کرے۔ چنانچہ جنگ کے لئے ان غیر موافق حالات میں امریکہ اپنی دھمکی سےدستبردارہوچکا ہے حالانکہ شمالی کوریا ابھی  میزائل اور نیوکلیائی  تجربات سے دستبردار نہیں ہوا ہےاور نیوکلیائی جنگ سے بےخوفی دکھا کراس کی جانب سےامریکی زمین پر ایک پوری جنگ چھیڑنے کا خطرہ بنا ہواہے۔ امریکی باینات کی سختی میں کمی اس کے حالیہ بیانات سے اس طرح واضح ہیں:

 

ایسوسیٹیڈ پریس (اے پی) نے امریکی فوج کے ایک فردکے حوالے سے بتایا جس نے شناخت مخفی رکھنے کی درخواست کی تھی کہ واشنگٹن ابھی شمالی کوریا پر حملےکا کوئی ارادہ نہیں رکھتا ہے خواہ شمالی کوریا میزائل اور نیوکلیائی تجربات جاری رکھے۔ اور مزید بتایا کہ واشنگٹن کا منصوبہ تب ہی بدل سکتا ہے جب شمالی کوریا کی جانب سے جنوبی کوریا، جاپا ن یا امریکہ پر کوئی حملہ ہواور امریکی قیادت فی الوقت متفق ہے کہ انتظار کیا جائے اور جنگ کو بڑھاوا نہ دیا جائے(Russia Today, 15/4/2017)۔ امریکہ اس وقت معاملات کو ٹھنڈا کررہا ہے۔ "مشرقی ایشیا ء اور پسیفک معاملات پر مامور نائب سیکریٹری سوسن تھورنٹن نے بیان دیا کہ اس کا ملک شمالی کوریا کے ساتھ لڑائی نہیں کرنا چاہتا اور نہ ہی موجودہ اقتدارکو تبدیل کرنا چاہتا ہے اور اس کے ملک نے واضح طور پر کہا ہے کہ وہ شمالی کوریا کے ساتھ مسئلے کو کوریائی خطے پرنیوکلیائی ہتھیاروں کی تخفیف کے ذریعے پرامن طور پر حل کرنا چاہتا ہے۔  بلاشبہ ہماری توجہ جنگ یا اقتدار کی تبدیلی پر نہیں بنی ہوئی ہے" (Russia Today, 17/4/2017) امریکی نائب صدرمائک پینس نے کہا کہ "واشنگٹن کی جانب سے بیجنگ کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے کی بدولت کوریائی خطے سے اب بھی پرامن طورپرنیوکلیائی ہتھیاروں سے چھٹکارا پاناممکن ہے حالانکہ اس بات کا امکان ہے کہ شمالی کوریا کبھی بھی نیوکلیائی تجربے کو مکمل کرسکتا ہے" مزید پینس نے کہا کہ "ہم واقعی اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اگر چین اور خطےکےدیگراتحادی ممالک دباؤ بنائیں رکھیں  تو یہ تاریخ سازموقعہ بھی ہاتھ آسکتا ہے جس کے ذریعے کوریائی خطے کو  پر امن طور پرنیوکلئیرہتھیاروں سے دور کیا جاسکتا ہے"(Al-Hayat Newspaper, Sydney, 22/4/2017)

 

5۔ یہ موجودہ صورت حال ہے اور کوریائی خطے میں کشیدگی امریکی، اور وہ مختلف فریق جو اس مسئلے میں فعال تھے، کی جلد بازی اور منصوبے کے نتیجے میں پیدا ہوئی ہے۔ یہی موجودہ صورتحال کی عام وضاحت ہے۔البتہ صورتحال  تشویش کن ہے جو کبھی بھی بھڑک سکتی ہےاوربالخصوص امریکہ اور روس معاہد ے کی شرائط طے ہونے اور اس کے طے پانے کے ساتھ جنگ چھڑنے کا خطرہ قائم رہے گااور اگر معاہدہ طے ہوجائے توتناؤ میں مزید کشیدگی آتی جائے گی اور اگر معاہدہ طے ہونے میں دیر ہوجاتی  ہے یا پھر معاہدہ طےنہیں ہوتا ہے تو کوریائی خطے میں تناؤ کم تر درجے میں قائم رہے گاتاکہ پیونگ یانگ پر دباؤ بنائےرکھا جائے جس کے ذریعہ وہ نیوکلیائی  ہتھیاروں کےحصول سے دستبردار ہونے کو تیارہوجائے ۔اور اگر امریکی انتظامیہ شمالی کوریا کے ساتھ لاابالی طور پر معاملہ طے کرنے کی کوشش کرے گی تو اس کے بھیانک نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔

 

اس موجودہ امریکی انتظامیہ کے پاس نازک وخاص حکمت عملی کو نافذ کرنے کے لئےدرکارحکمت و دانش موجودنہیں ہے: "سابق امریکی سیکریٹری دفاع لیون پنیٹا Leon Panetta نے اس بات کے پر خبردار کیا ہےکہ امریکہ شمالی کوریا پر حفظ ما تقدم کے تحت حملہ کردےاور کہاہے کہ اس سمت میں کوئی بھی قدم نیوکلیائی جنگ شروع کرسکتا ہےجس کی وجہ سے ہمیں  دسیوں لاکھوں لاشوں کو اٹھانا پڑسکتا ہےاور اسی لئے تمام سابق امریکی صدور اس سے قبل شمالی کوریا پر دباؤ بنانے اور حملہ کرنے سے باز رہے ہیں "، مزیدکہا کہ "امریکی انتظامیہ کو الفاظ کا استعمال محتاط انداز میں  کرنا چاہیے اورمڈبھیڑ سے گریز کرنا چاہیےاور محتاط ہو اورجلد بازی میں فیصلہ نہ کرے" اور اس جانب اشارہ کیا کہ امن حاصل  کرنے کی سمت میں  چین کاانتظارکرے بالخصوص جب واشنگٹن نے اس کومداخلت کرنے کا موقعہ دیا ہے تووہ اپنااثر ڈال سکتا ہے" (Russia Today, 15/4/2017)

 

6۔ جہاں تک چین کے موقف کی بات ہے تواس کو اس بات کا انداز ہ ہے کہ امریکہ کے ذریعے تناؤ پیدا کرکے اس کو بل واستہ نشانہ بنایا جارہا ہے چہ جائیکہ اس سے جنگ نہیں کی جارہی ہے چنانچہ وہ اس کشیدگی کو دبانے کے لئے جو ممکن ہے وہ کررہا ہے۔ وہ اس تنازع کے پر امن  تصفیے کی بابت بات کرتا ہے اور کوریائی خطے میں فوجیں تعینات کرنے کو کھلے طور پرمسترد کرتا ہے جس میں وہ امریکی میزائل شیلڈ سسٹم THAAD کی جنوبی کوریا میں تنصیب کے بھی واضح طور پرخلاف ہے۔ چین کے وزیرخارجہ نے بیجنگ کی جانب سے THAAD سسٹم کو نصب کرنے کی مخالفت کوصاف طور پر ظاہر کیا ہےاور ساتھ ہی شمالی کوریا اور اس کے پڑوسی ممالک سے مزید کشیدگی بھڑکانے کے عمل سے باز رہنے کا مطالبہ کیا ہے(Al-Jazeera Net 17/4/2017)۔ البتہ وہیں بدترین حالات کے لئے مظبوطی حاصل کرنے کی کوشش کررہا ہے اور خود کو جنگ کے لئے تیار کررہا ہے اور اس کو لے کربے چین ہے۔ چینی وزیر خارجہ وانگ یی Wang Yi نے بیان میں کہا ہے کہ "اگر جنگ چھڑ جاتی ہے تو اس میں کسی کو بھی جیت حاصل نہیں ہوگی "(BBC 15/4/2017)

جہاں تک چینی افواج  کی تیاری کا سوال ہے تورشیا ٹوڈے14/4/2017 کی رپورٹ کے مطابق امریکن ایجنسی یونائیٹیڈ پریس انٹرنیشنل نے انکشاف کیا ہے کہ چینی افواج کو پانچ فوج زدہ علاقوں میں اعلیٰ ترین مستعدی قائم رکھنے کا حکم چینی فوج کی اعلی قیادت کی جانب سے حاصل ہوا ہے اور ہانگ کانگ میں مقیم جمہوریت اور انسانی حقوق کی ایجنسی کےغیر حکومتی مرکز کے مطابق چین میں Chongqing, Sichuan ، Yunnan مقام پر موجود گولہ بارود کی آرٹلری بٹالین کو حکم ملا ہے کہ وہ شمالی کوریا کی سرحد پرجاکر پڑاؤ ڈال دیں۔ اس مرکز کے مطابق مغربی چین میں موجود 47 آرمی کے 25000 فوجیوں کو حکم ملا ہے کہ وہ اپنی جنگی مشینوں کے ساتھ لمبا فاصلہ طے کرکے شمالی کوریا کے قریب فوجی اڈے میں منتقل ہو جائیں ۔ اسی طرح ایک جاپانی اخباری ایجنسی نے رپورٹ کیا ہےکہ "چین کا فوجیوں کو منتقل کرنے کی وجہ اس کی فکر مندی ہے کہ امریکہ کبھی بھی شمالی  کوریا پر حفظ ما تقدم کے نام پر Preemptive Attack حملہ کرسکتا ہے جس طرح امریکہ نے اس سے قبل شام میں Al-Shayrat military پرمیزائل کے ذریعہ حملہ کیا تھا"۔

 

تمام موجودہ حالات کا جائزہ اور تجزیہ کرنے پر ہم اس معاملے میں یہی سمجھتے ہیں اور مستقبل قریب اور بعید میں ایسا ہی دیکھتے ہیں۔  ہم ایسا اس لئے کہہ سکتے ہیں کیونکہ دنیا اس وقت انسانی خول میں خونخوار درندوں کے قابو میں ہےجن کے پاس انسانی خون اور قدروں کی کوئی اہمیت نہیں۔ اگر ان کے خونخوار مفادات کی خاطروہ درکارہو تو وہ ایسا کرنے کی خاطر دوڑ پڑیں اور خون کی ندیاں بہادی جائیں گی اور وہ اپنے نیوکلیائی اور غیر نیوکلیائی ہتھیار استعمال کرنے سے بھی دریغ نہیں کریں گے جیسا کہ اس سے قبل بھی انہوں نے کیا ہے اور کرتے آئے ہیں۔  یہ دنیا  خود کوتب تک  محفوظ  نہیں مان سکتی اور امن کااحساس نہیں کرسکتی جب  تک سرمایہ داریت اور دیگر انسان کے بنائے نظام ناپید نہیں ہوجاتےاور دنیا پرسے ان کا کنٹرول ختم نہیں ہوجاتااورجب  حق اور عدل کا نظام قائم ہوجائے جو کہ خلافت راشدہ ہےتو رب العالمین کایہ نظام  ساری دنیا پر غالب ہوکر اپنی خیر پھیلائے گااور تمام انسانوں کوخوشی اور سکون کی زندگی بخشے گا۔ یہ خالق ہی ہے جو اپنی مخلوق کے متعلق بہتر جانتا ہے کہ کیا چیز مخلوق کے لئے خیر ہے۔

 

﴿أَلَا يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ﴾

"کیا  جس نے پیدا کیا وہی خالق نہ جانے گا جوباریک بین اور باخبرہے" (الملک :14)

26 رجب 1438 ہجری

23/4/2017 عیسوی

Last modified onبدھ, 31 مئی 2017 06:55

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک