الإثنين، 23 جمادى الأولى 1446| 2024/11/25
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

 

سوال و جواب

پاکستان، افغانستان اور ایران کے درمیان کا خطہ : بلوچستان

 

(ترجمہ)

 

سوال:

 

دار الہلال نے 14 ستمبر 2024ء کو شائع کیا: "پاکستانی پولیس نے آج، بروز ہفتہ کو اعلان کیا کہ ملک کے جنوب مغرب میں صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ شہر میں ایک پولیس بس کے قریب ہونے والے دھماکے میں اس کے کم از کم دو اہلکار ہلاک ہو گئے ہیں..." اس سے قبل پاکستان میں عسکریت پسندوں کی جانب سے کئی دہائیوں سے جاری نسلی بغاوت کے طور پر برسوں میں سب سے بڑے پیمانے پر حملے ہوئے تھے، جن میں متعدد حملوں میں 73 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔ بلوچستان لبریشن آرمی (Balochistan Liberation Army) نے صحافیوں کو ای میل کے ذریعے بھیجے گئے ایک بیان میں ان حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے (الحرہ، 27/8/2024)۔ لہٰذا بلوچستان میں ان حملوں میں اضافہ کیوں ہو رہا ہے؟ کیا برطانیہ فوج کے لیے مسائل پیدا کرنے میں ملوث ہے؟ کیا خود امریکہ مقبوضہ کشمیر اور بھارت سے فوج کا دھیان ہٹانے کے لیے مشکلات پیدا کر رہا ہے؟ کیا اس میں بھارت بھی شامل ہے؟ اور کیا اس میں چین کا بھی  کوئی کردار ہے؟

 

 

جواب:

 

مندرجہ بالا سوالات کے جواب کو واضح کرنے کے لئے، ہم مندرجہ ذیل امور کا جائزہ لیں گے:

 

اول : بلوچستان کا علاقہ پاکستان، افغانستان اور ایران کے درمیان پھیلا ہوا ہے۔یہ جنوب مغربی پاکستان میں واقع ہے، جسے پاکستانی صوبہ بلوچستان کے نام سے جانا جاتا ہے، جس کا دارالحکومت کوئٹہ شہر ہے، اور جنوب مشرقی ایران میں، جسے صوبہ سیستان -بلوچستان کے نام سے جانا جاتا ہے، جس کا دارالحکومت زاہدان شہر ہے۔ اور یہ جنوبی افغانستان میں 100 کلومیٹر سے زیادہ پھیلا ہوا ہے اور اس میں جنوبی صوبوں نمروز، ہلمند اور قندھار کے کچھ حصے شامل ہیں۔ آبادی کے لحاظ سے بلوچستان کا پاکستانی حصہ سب سے اہم حصہ سمجھا جاتا ہے کیونکہ یہاں تقریبا 20 ملین بلوچ اور پشتون آباد ہیں اور اس کا رقبہ پاکستان کا تقریبا 44 فیصد ہے اور پاکستان کی تقریبا 240 ملین آبادی کا تقریبا 6 فیصد اس میں رہتا ہے۔ یہ قدرتی وسائل بالخصوص گیس اور معدنیات کے لحاظ سے پاکستان کے مالا مال علاقوں میں سے ایک ہے۔ بلوچستان کو تانبے اور سونے کے لئے دنیا کے سب سے بڑے مقامات میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔

 

مثال کے طور پر کینیڈین کان کنی کمپنی بیرک گولڈ (Barrick Gold) بلوچستان میں واقع ریکوڈک کان کے تقریبا 50 فیصد کے مالک ہیں۔ بلوچستان پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کا ایک اہم حصہ بن چکا ہے، چائنا بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (Chinese Belt and Road Initiative) کے تحت، جسے بحیرہ عرب تک پہنچنے کے لیے چین مالی اعانت فراہم کرتا ہے جہاں گوادر کی بندرگاہ خلیج عمان کے قریب واقع ہے۔ اس کے علاوہ چین گوادر میں ایک بین الاقوامی ہوائی اڈہ تعمیر کر رہا ہے۔ لہٰذا بلوچستان کا خطہ پاکستان میں بہت اہمیت حاصل کر رہا ہے۔ جہاں تک ایرانی حصے کی بات ہے تو اس میں تقریبا 3 ملین افراد آباد ہیں جبکہ افغان حصے میں بلوچوں کی تعداد کا تخمینہ ایک ملین سے بھی کم ہے۔ ان تینوں ممالک میں بلوچستان کے تقریباً سبھی لوگ سنی مسلمان ہیں۔ ان علاقوں میں اسلام 23 ہجری کے اوائل میں خلیفہ عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں داخل ہوا۔ سندھ کی ہندو سلطنت کی وجہ سے اس میں بدامنی کے بعد، خلافت نے خلیفہ معاویہ کے دور میں اس پر دوبارہ کنٹرول حاصل کر لیا، جس نے اسے دوبارہ فتح کیا۔ اموی خلیفہ عبد المالک بن مروان نے اسے سندھ کی فتح کا نقطہ آغاز بنایا۔

 

دوم : پاکستان کے بلوچستان کے علاقے میں بہت سے علیحدگی پسند گروہ قوم پرست رجحانات کے حامل ہیں،جو 1960 کی دہائی کے اواخر سے پاکستانی فوج کے خلاف گوریلا جنگ لڑ رہے ہیں۔ ان گروہوں میں سب سے مشہور اور سب سے بڑا گروپ "بلوچستان لبریشن آرمی" (Balochistan Liberation Army) ہے، جس کی بنیاد 2000ء میں رکھی گئی تھی۔ یہ گروپ مقامی طور پر ایک اور بڑے گروپ کے ساتھ اتحادی ہے، ان گروہوں میں سب سے قدیم، بلوچ لبریشن فرنٹ (Baloch Liberation Front)، جس کی بنیاد 1964ء میں رکھی گئی تھی اور اس نے پاکستانی فوج کے خلاف گوریلا جنگ لڑی تھی۔ اس نے ایران کے اندر ایرانی فوج کے خلاف کارروائیوں میں بھی حصہ لیا۔ دوسرے گروپ بھی ہیں جو کم اہمیت کے حامل ہیں۔ جیسا کہ ہمیشہ کی طرح مسلح تنظیموں کے لیے ہوتا ہے کہ انہیں خود کے لئے رقوم اور اسلحہ کی اشد ضرورت ہوتی ہے، اسی لیے بلوچستان میں علیحدگی پسند گروپوں نے بھی جلد ہی خود کو مختلف انٹیلی جنس ایجنسیوں کا نشانہ بنا لیا۔ 1979ء میں افغانستان پر سوویت یونین کے قبضے اور پاکستان کو سوویت یونین کے خلاف مجاہدین کے اڈے میں تبدیل کرنے کے ساتھ، ماسکو نے پاکستان کے خلاف بلوچستان میں علیحدگی پسند گروہوں کی حمایت شروع کر دی۔ 1979ء میں ایران میں خمینی انقلاب کی کامیابی اور اس کے بعد ایران عراق جنگ شروع ہونے کے بعد، عراقی حکومت نے ایران میں فوجی کارروائی کے لیے ان گروہوں، "بلوچستان لبریشن آرمی" (Balochistan Liberation Army) کی حمایت کرنا شروع کر دی، اسی طرح بھارت نے بھی کیا، جس نے کشمیر میں پاکستان کے ساتھ اپنی جنگوں کے پس منظر میں بلوچستان میں ان گروہوں کی حمایت کی۔ جبکہ امریکہ چاہتا تھا کہ بھارت چین کے خلاف اپنے محور کا ایک ستون بن جائے تو دونوں فریقوں، یعنی بھارت اور امریکہ نے بلوچستان میں ان گروہوں کی حمایت شروع کر دی جس کا مقصد پاکستانی فوج کو اندرونی لڑائیوں کے ذریعے وہاں پر مشغول کرنا اور اسے بھارت کی سرحدوں اور اس کے جموں و کشمیر پر کنٹرول سے دور کرنا شامل تھا۔

 

سوم : یہ وہ سیاسی حقائق ہیں جو بلوچستان میں مسلح گروہوں یا دھڑوں کی طرف سے پاکستانی فوج کے خلاف کیے جانے والے حملوں اور گوریلا جنگ کی حقیقت کو سمجھنے کے لیے ضروری ہیں۔گزشتہ دہائیوں میں ہونے والے ان حملوں اور ان میں تیزی کا  جائزہ لینے سے درج ذیل باتیں سامنے آتی ہیں:

 

1- افغانستان پر امریکی قبضے سے پہلے پاکستانی حکومتیں ان گروہوں کے ساتھ رابطے میں تھیں اور ان کے ساتھ امن معاہدے طے پائے تھے۔ نوے کی دہائی نسبتاً پرسکون دور تھا، لیکن 2003ء کے بعد سے ان گروہوں، خاص طور پر بلوچستان لبریشن آرمی کے حملوں میں خاصا اضافہ ہو گیا تھا۔ پاکستان نے 2006ء میں بلوچستان میں علیحدگی پسند رہنما نواب اکبر بگٹی کو ہلاک کر دیا تھا جس کے بعد مزید حالات کشیدہ ہو گئے تھے۔

 

2- 25 اگست اور 26 اگست 2024ء کو، پاکستان نے برسوں بعد کافی بڑے حملوں کا مشاہدہ کیا جو بلوچستان لبریشن آرمی کی طرف سے کئے گئے تھے، جن میں بلوچستان میں ایک شاہراہ پر پولیس اسٹیشنوں، ریلوے لائنوں اور گاڑیوں کو نشانہ بناتے ہوئے تقریباً 73 افراد ہلاک ہوئے۔ سب سے زیادہ پرتشدد حملے پیر، 26 اگست 2024ء کو ضلع موسیٰ میں بلوچستان اور پنجاب کے صوبوں کو ملانے والی ایک شاہراہ پر ہوئے، جہاں مقامی ذرائع کے مطابق، مسلح افراد نے بسوں اور ٹرکوں کو روکا اور 23 پنجابی مزدوروں کو ان کی شناخت کی تصدیق کرنے کے بعد گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ پاکستانی فوج نے یہ بھی اعلان کیا ہے کہ اس نے بلوچستان میں 21 علیحدگی پسند عسکریت پسندوں کو ہلاک کر دیا ہے۔ اسلام آباد میں قائم پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز (Pakistan Institute for Peace Studies) کے اعداد و شمار کے مطابق 2023ء میں تقریباً 110 حملے ہوئے تھے اور 2024ء کے صرف ابتدائی مہینوں میں ہی تقریباً 62 حملے ہو چکے تھے۔ (الجزیرہ، 26/8/2024)

 

3- پاکستانی پولیس نے آج، ہفتے کے روز، ملک کے جنوب مغرب میں صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ شہر میں ایک پولیس بس کے قریب ہونے والے ایک دھماکے میں اپنے کم از کم دو اہلکاروں کی ہلاکت کا اعلان کیا تھا۔ جبکہ ابتدائی اطلاعات سے پتہ چلتا ہے کہ یہ دھماکہ سڑک کے کنارے نصب بارودی مواد کے پھٹنے سے ہوا تھا (دار الہلال، 14 ستمبر، 2024)۔

 

چہارم : پاکستانی فوج اور پولیس کو نشانہ بنانے کے علاوہ، ان گروہوں نے پاکستان میں چین اقتصادی راہداری منصوبے کے اندر خاص طور پر چینی لوگوں اور چینی پراجیکٹس کو بھی نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ ان حملوں کا جائزہ اس طرح لیا جا سکتا ہے:

 

1- بلوچستان میں چین کے زیر انتظام کئی بڑے منصوبے ہیں۔ صوبہ خیبر پختونخواہ میں داسو ہائیڈرو الیکٹرک ڈیم (Dasu Hydroelectric Dam) کی تعمیر کے مقام پر کام کرنے والے پانچ چینی انجئینرز اور ان کا پاکستانی ڈرائیور ایک خودکش بم دھماکے میں ہلاک ہو گئے تھے جس میں ان کی گاڑی کو نشانہ بنایا گیا تھا (الحرہ، 27 اگست، 2024)۔

 

2- ایک خودکش بمبار نے ان کے قافلے پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں چھ افراد ہلاک ہو گئے۔ ایک ہفتے کے اندر پاکستان میں چینی مفادات کو نشانہ بنانے والا یہ تیسرا بڑا حملہ تھا۔ اس سے قبل ہونے والے دو دھماکوں میں ملک کے جنوب مغرب میں واقع صوبہ بلوچستان میں ایک ایئر بیس اور اسٹریٹجک بندرگاہ کو نشانہ بنایا گیا تھا جہاں چین انفراسٹرکچر منصوبوں پر اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہا ہے (الشرق الاوسط، 26 مارچ، 2024)۔

 

3- بلوچستان لبریشن آرمی میں مجید بریگیڈ بھی شامل ہے، جو "خودکش" کارروائیاں کرتی ہے۔ اس کے سب سے نمایاں حملوں میں سے ایک "خودکش" بم دھماکہ وہ تھا جس میں اپریل 2022ء میں صوبہ سندھ میں کراچی یونیورسٹی میں ایک چینی انسٹی ٹیوٹ کو نشانہ بنایا گیا تھا (الجزیرہ نیٹ، 1/2/2024)۔

 

4- یہ حملے بالتواتر یوں ہیں: اگست 2018ء میں چینی انجینئرز کا قتل (رائٹرز، 11/8/2018)، نومبر 2018 میں کراچی میں چینی قونصل خانے پر حملہ (اسکائی نیوز عربیہ، 23/11/2018)، اور مئی 2019ء میں اُس لگژری ہوٹل پر حملہ جہاں چینی لوگ عام طور پر بلوچستان کے شہر گوادر میں آ کر ٹھہرتے ہیں (الحرہ، 12/5/2019) اور جہاں چین کی جانب سے تعمیر کردہ مشہور بندرگاہ واقع ہے۔

 

5- یہ علیحدگی پسند،  بلوچستان میں چینی مفادات اور چینی کارکنوں کو بھی نشانہ بناتے ہیں۔ حال ہی میں 13 اگست، 2024ء کو انہوں نے چینی انجینئرز کو گوادر پورٹ لے جانے والے قافلے پر حملہ کیا، جیسا کہ اس سے قبل بھی مختلف واقعات میں ہوا تھا، جس میں پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے پر کام کرنے والے چینی ماہرین تعلیم، جسے چینی بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (the Chinese Belt and Road Initiative) کے ستونوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے، ہلاک ہو گئے تھے۔ جس پر پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا تھا کہ "عسکریت پسند اسلام آباد اور بیجنگ کے درمیان خلیج پیدا کرنا چاہتے ہیں" (رائٹرز)۔ "ان حملوں کا مقصد پاک چین اقتصادی راہداری کو نقصان پہنچانا ہے" (العربی، 30/8/2024)۔

 

پانچواں: وہ فریق جو چین کے مفادات اور پاکستانی فوج کے خلاف ان حملوں کی ہدایات دیتے ہیں، تو وہ بھارت ہے اور بھارت کی پشت پناہی پر امریکہ کھڑا ہے:

 

1- جہاں تک پاکستانی فوج پر ہونے والے ان حملوں میں بھارت کی دلچسپی کا تعلق ہے تو مندرجہ ذیل امور میں اس کا ذکر کیا جا سکتا ہے:

 

(ا)      2018ء میں دی نیوز انٹرنیشنل (The News International) اخبار نے سکیورٹی رپورٹس کا حوالہ دیا تھا کہ بھارت نے بلوچستان میں بدامنی پیدا کرکے اقتصادی راہداری کو نشانہ بنانے کے لیے 50 ارب روپے یعنی 261 ملین ڈالر سے زائد مختص کیے ہیں (الجزیرہ نیٹ، 15/5/2022)۔

 

(ب) پاکستانی آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور بلوچستان کے وزیر اعلیٰ کے علاوہ چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے "اس معاملے میں بھارتی انٹیلی جنس کے ملوث ہونے کا الزام لگایا"۔ راحیل شریف نے اشارہ دیا کہ بھارت بلوچستان میں چین کی جانب سے شروع کیے گئے 46 ارب ڈالر کے بڑے اقتصادی منصوبوں کو سبوتاژ کرنا چاہتا ہے اور کیونکہ نئی دہلی کو خدشہ ہے کہ اس سے اس کی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے (Noon Post, 18/8/2016)

 

(ج)    یہ گروپ 29 جون کو ملک کے اقتصادی دارالحکومت کراچی میں پاکستان اسٹاک ایکسچینج کو نشانہ بنانے والے خودکش حملے کی ذمہ داری قبول کرنے کے بعد آج دوبارہ سرخیوں میں آگیا ہے، جس میں سات افراد ہلاک ہوئے تھے۔ حملے کے فوری بعد پاکستان نے بھارت پر الزام عائد کیا کہ وہ اس کی منصوبہ بندی میں شامل تھا اور بلوچستان لبریشن آرمی اور دیگر تمام بلوچ علیحدگی پسند تحریکوں کی حمایت کر رہا ہے۔ (العربی الجدید، 12/7/2020)

 

(د)      گزشتہ سال 09 اپریل 2023ء کو پاکستان نے نام نہاد بلوچستان نیشنل آرمی (Balochistan National Army) کے رہنما اور بانی گلزار امام کو گرفتار کیا جو جنوری 2022ء میں قائم ہوئی تھی، اور جو بلوچستان اور پنجاب میں درجنوں حملوں کا ذمہ دار تھا۔ پاکستانی فوج کے میڈیا ونگ نے اعلان کیا کہ فوج کی مرکزی انٹیلی جنس ایجنسی نے کہا کہ "گلزار امام نے بھارت اور افغانستان کا دورہ کیا، اور دشمن انٹیلی جنس ایجنسیوں نے پاکستان اور اس کے قومی مفادات کے خلاف کام کرنے کے لئے ان کو اپنے عزائم کے تحت استعمال کرنے کی کوشش کی تھی" (الجزیرہ، 12/9/2023)

 

2- جہاں تک بلوچستان میں پاک آرمی پر حملوں میں امریکہ کی دلچسپی کا تعلق ہے تو یہ مندرجہ ذیل امور سے ظاہر ہو رہا ہے:

 

(ا)      2014 ء سے لے کر آج تک بھارت پر مودی کی قیادت میں بھارتیہ جنتا پارٹی میں امریکی ایجنٹوں کی حکومت رہی ہے جو چین کے بارے میں امریکی پالیسی کو نافذ کرتی رہی ہے۔ لہٰذا بھارت نے چین کے خلاف جو کچھ بھی کیا ہے اور کر رہا ہے، وہ بھارتی آلۂ کاروں کے ذریعے امریکہ کے مفادات کو پورا کرنے کے زمرے میں آتا ہے۔

 

(ب)    پاکستان کی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے امریکہ کو خبردار کیا کہ وہ ان کے ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کرے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے امریکی کانگریس کی جانب سے بلوچستان کو حق خودارادیت دینے کی قرارداد کی منظوری کے بعد کیا۔ تاہم پاکستانی وزیر نے کہا کہ انہیں احساس ہے کہ یہ قرارداد امریکی حکومت کی سرکاری پالیسی کی عکاسی نہیں کرتی۔ (بی بی سی، 20/2/2012)

 

(ج)    2022ء میں، امریکہ نے بلوچستان میں پہلا پولیس انویسٹی گیشن اسکول تعمیر کرنے کے لئے بلوچستان حکومت کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے، جس نے امریکہ کو خطے میں قانونی انویسٹی گیشن، پولیس انویسٹی گیشن اور امن و امان کو فروغ دینے میں اہم کردار دے دیا ہے۔ یہ بلوچستان کے معاملات میں امریکی مداخلت کا آغاز تھا!

 

چھٹا: اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ امریکہ بلوچستان میں ان علیحدگی پسند قوم پرست تحریکوں کو چین کے خلاف اپنی پالیسی کے حصے کے طور پر چینی مفادات کو خطرے میں ڈالنے کے لئے استعمال کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے،ایسا لگتا ہے کہ وہ چین کا استحصال کر رہا ہے، اور اس کا چَيلا بھارت، جو چین کے خلاف اپنے سرحدی تنازعات کی وجہ سے اور امریکی مفادات کی خدمت کرتے ہوئے، چینی مفادات پر بھی حملہ کرنے کا کام کر رہا ہے۔ یہ تمام امریکی اہداف آج سطح زمین پر حاصل ہو رہے ہیں کیونکہ پاکستانی فوج اپنے اندرونی علاقوں میں پھنس چکی ہے، جس کی پہنچ بھارت بالخصوص مقبوضہ جموں و کشمیر سے بہت دور ہو چکی ہے۔ اور پاکستانی فوج بلوچستان میں شورش کا مقابلہ کرنے اور علیحدگی پسند گروپوں کا پیچھا کرنے کے لیے مصروف عمل ہے، اور خطے میں تنازعہ میں اضافے کے نتیجے میں، پاکستانی حکومت نے بلوچ تنظیموں سے لڑنے کے لئے 80،000 فوجیوں کو تعینات کیا ہے (الجزیرہ نیٹ، 1/2/2024)۔ اور پاکستان کی جانب سے بھارت کے خلاف دئیے جانے والے رسمی معمول کے بیانات اور دھمکیاں بھی غائب ہو گئی ہیں اور ان کی جگہ "دہشت گردی" اور "باغیوں" کے خلاف دھمکیوں نے لے لی ہے... اس طرح بھارت کا محاذ پاکستان سے محفوظ ہو گیا ہے۔ چین کے ساتھ اس کی سرحد پر بھارت کی فوج تعینات کر دی گئی ہے اور وہاں جھڑپیں شروع ہو گئی ہیں، جو امریکہ چاہتا ہے کہ بھارت کے ساتھ تصادم کے ساتھ چینی علاقے پر قبضہ کر لیا جائے۔

 

ساتواں: جہاں تک برطانیہ کا تعلق ہے، تو بلوچستان کے اندر خلیج میں اس کی سرگرمیوں یا اس کے ایجنٹوں کی سرگرمیوں کے ثبوت نہ ہونے کے باوجود، سوائے اس کے کہ 2010ء میں بلوچستان لبریشن آرمی (Balochistan Liberation Army) کے اندر پھوٹ پڑی تھی جس کی قیادت مہران مری نے کی تھی، جس کے پاس برطانوی شہریت ہے اور اس نے یونائیٹڈ بلوچ آرمی (United Baloch Army) کی بنیاد رکھی" (الجزیرہ نیٹ، 1/2/2024)۔ اس سے بلوچستان میں علیحدگی پسند گروہوں کے اندر اثر و رسوخ پیدا کرنے کی اس کی کوششوں کا اشارہ مل سکتا ہے، لیکن اس کا اثر و رسوخ امریکہ اور بھارت کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ بھارت اور پاکستان میں برطانیہ کا اثر و رسوخ بہت کمزور ہو چکا ہے کہ اب یہاں امریکی ایجنٹ حکمرانی کرتے ہیں۔

 

آٹھواں: مندرجہ بالا امور سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے:

 

1- پاکستان میں برسراقتدار حکومت کو چاہیے تھا کہ وہ بلوچستان کے معاملے کو جو اس کی اپنی سرزمین کا حصہ ہے، اس کے ساتھ شرعی لحاظ سے دیکھ بھال، عدل اور مہربانی سے پیش آتے اور بلوچستان کی زمینوں میں ملکیت عامہ کو بلوچ سمیت ریاست کے تمام رعایا کے لیے استعمال کرتے۔ تاہم، اس کے بجائے، حکومت نے اس مسئلے کو سکیورٹی کے مسئلے کے طور پر دیکھا، جس میں حکومت کی جانب سے قتل و غارت گری اور ان کی گرفتاریوں کے ذریعے نمٹا گیا، نہ کہ اچھی دیکھ بھال کے ساتھ جیسا کہ اسلام کا حکم ہے، رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے:

 

«الْإِمَامُ رَاعٍ وَمَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ»

امام نگہبان ہوتا ہے اور اپنی رعایا کا ذمہ دار ہے(اسے بخاری نے روایت کیا ہے)

 

2- اسی طرح بلوچستان میں مسلح تنظیموں کو اسلام کے دشمن، امریکہ اور بھارت کے ساتھ مل کر اپنے ہی ملک کے خلاف استحصال کرنے کی اجازت نہیں دینی چاہئے تھی اور نہ ہی انہیں ریاست کی علیحدگی اور تقسیم کے لئے کام کرنا چاہئے تھا کیونکہ یہ اسلام میں ایک زیادہ اہم معاملہ ہے۔ اس کے مجرم کو کبیرہ گناہ کا مرتکب ٹھہرایا جائے گا کیونکہ مسلمان ایک امت ہیں جسے تقسیم نہیں کیا جا سکتا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:

 

﴿إِنَّ هَذِهِ أُمَّتُكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَأَنَا رَبُّكُمْ فَاعْبُدُون﴾

یہ تمہاری امت ہے جو حقیقت میں ایک ہی امت ہے، اور میں تم سب کا پروردگار ہوں پس تم میری ہی عبادت کرو (سورۃ الانبیاء :92)

 

3- تیسرا، جو سب سے زیادہ سنگین اور تلخ معاملہ ہے، ایک طرف پاکستان میں برسراقتدار حکومت کی امریکہ کے ساتھ وفاداری ہے، اور اس کے احکامات پر عمل درآمد ہو رہا ہے کہ وہ اپنی افواج کو کشمیر کو آزاد کرانے کی ہدایت کرنے کے بجائے اپنے اندرونی معاملات میں الجھا ہوا ہے۔ اور دوسری طرف، بلوچستان میں علیحدگی پسند تنظیمیں کفار اور مشرکین سے مدد مانگ رہی ہیں... اور یہ سب اسلام میں حرام ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا:

 

﴿وَلَنْ يَجْعَلَ اللهُ لِلْكَافِرِينَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ سَبِيلا﴾

اور الله کافروں کو مسلمانوں کے مقابلہ میں ہرگز راہ (غلبہ) نہیں دے گا (سورۃ النساء:141)

 

4- پاکستان کے عوام کا حقیقی اتحاد اس وقت تک بحال نہیں ہو سکتا جب تک کہ اسلام کے شرعی احکام پر عمل نہ کیا جائے، حقیقی اسلامی بھائی چارے کے تصور کو عام نہ کیا جائے اور گیس، معدنیات اور اسی طرح کی عوامی املاک کے منافع سے فائدہ اٹھانے کے لئے تمام مسلمانوں کے درمیان مساوات کے تصور کو لاگو نہ  کیا جائے، اور جب تک کہ بلوچستان کے مسلمان عوام اور دیگر اسلامی لوگوں سے ناانصافی، غربت اور پسماندگی کا خاتمہ نہیں ہو جاتا۔ اسلام نے قوم پرستی کے جذبات کو مسترد کر دیا ہے اور ان کی مکمل ممانعت کی گئی ہے اور مسلمانوں کے درمیان بھائی چارہ قائم کیا گیا ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا:

 

﴿إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ وَاتَّقُوا اللهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ﴾

بے شک مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں سو اپنے بھائیوں میں صلح کرا دو اور الله سے ڈرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے (سورۃ الحجرات:10)

 

اس کے ساتھ ساتھ اسلام کے اس بھائی چارے کو انہیں اپنی ایک ریاست خلافت راشدہ کے قیام کے لیے داعیانِ اسلام کے ساتھ مل کر کام کرنے کی ترغیب دینی چاہیے جو ان کے اتحاد کا منبع، ان کے فخر کا سرچشمہ اور ان کے بھائی چارے کا حقیقی احساس ہے۔ اور یہ سب سے عظیم فتح مبین ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

 

﴿وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ* بِنَصْرِ اللهِ يَنْصُرُ مَنْ يَشَاءُ وَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ﴾

اور اس دن مسلمان اللہ کی مدد سے خوش ہوں گے٭ اللہ جس کو چاہتا ہے مدد دیتا ہے اور وہ غالب نہایت رحم والا ہے (سورۃ الروم:4،5)

 

14 ربیع الاول 1446ھ

بمطابق 17 ستمبر 2024ء

Last modified onپیر, 23 ستمبر 2024 06:08

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک