الأربعاء، 25 جمادى الأولى 1446| 2024/11/27
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

مقبوضہ کشمیر سے غداری کا سلسلہ شدّ و مد سے جاری ہے

خالد صلاح الدین، پاکستان

 

اکتوبر 2020 میں معید یوسف کا کرن تھاپر کو دیے جانے والے انٹرویو نے پاکستان میں، آئندہ کئی ہفتوں کے لئے ایک بھرپور بحث کو جنم دیا، جس نے حکومتی مؤقف وضع کیا۔ معید یوسف جس انداز میں کرن تھاپر سے 'نمٹے'، تو حسبِ توقع، اس پر حکومتی حلقوں میں کسی حد تک خوشی کا اظہار کیا گیا۔ لگتا ہے اس بات پر شادیانے بجائے گئے کہ وزیر اعظم کے لئے پاکستان کے مشیر برائے قومی سلامتی اور اسٹریٹیجک پالیسی منصوبہ بندی نے کرن تھاپر کو "منہ توڑ" ردِ عمل دیا۔ تاہم حقیقت کچھ مختلف ہے۔ موجودہ بیانیہ، محتاط مبصرین کے لئے، جموں و کشمیر کے (بھارت میں) انضمام کے حوالے سے بھارت کی مدد کرنے میں پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت کی ساز باز کا تسلسل ہے۔

 

                  چین کا مقابلہ کرنے کے لیے امریکا اور بھارت کا اتحاد سب کو سمجھ میں آتا ہے، یہی وجہ ہے کہ واشنگٹن کشمیر کے مسئلے کو جلد از جلد دفن کرنا چاہتا ہے تاکہ بھارت اس محاذ سے فارغ ہوجائے اور اپنی پوری توجہ چین پر مرکوز کرسکے۔ لیکن جو بات صحیح طور سے سمجھی نہیں جارہی ہے وہ یہ ہے کہ کس طرح پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت نے بھارتی اقدامات کی اجازت دی اور حمایت اور سہولت کاری کی جس کے تحت اس نے اپنے آئین کے آرٹیکل 370 کو ختم کیا اور مقبوضہ جموں و کشمیر کو بھارتی یونین میں ضم کرلیا۔ اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت لائن آف کنٹرول کو مستقل سرحد بنانے کے لیے کام کررہی ہے۔

 

                  بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کو ختم کرنے کا بھارتی منصوبہ کوئی خفیہ منصوبہ نہیں تھا۔ بھارت نواز فاروق عبد اللہ اور محبوبہ مفتی سمیت جموں و کشمیر کی سیاسی جماعتوں نے 4 اگست 2019 کو گپکار اعلامیہ پر دستخط کیے جس کے ٹھیک ایک دن بعد بھارت نے آرٹیکل 370 کو ختم کردیا۔ اس اعلامیہ پر اس لیے دستخط کیے گئے تھے تا کہ ریاست جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی حفاظت کی جائے اور اس کو برقرار رکھا جائے۔ لہٰذا گپکار اعلامیہ کا بظاہر مقصد ایک دن بعد آرٹیکل 70  کو ختم کرنے کے بھارتی فیصلے کی عوامی سطح پر مذمت کرنا تھا۔ لہٰذا اگر بھارت کے منصوبے کشمیر میں موجود سیاسی قیادت کے لیے خفیہ نہیں تھے تو اسی طرح یہ منصوبے پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت کے لئے بھی کوئی خفیہ بات نہ تھی۔

 

                  لیکن اس تمام صورتحال اور بھا رتی منصوبےکے حوالے سے پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت نے مکمل خاموشی کا مظاہرہ کیا جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ انہوں نے یہ فیصلہ کرلیا تھا کہ وہ بھارت کے اس مذموم مقصد کی مخالفت نہیں کریں گے۔ بلکہ 5 اگست 2019 کو پاکستان کے دفتر خارجہ نے اس عزم کا ایک بار پھر اظہار کیا کہ، "۔۔۔پاکستان کشمیر کے مقامی لوگوں کے حق خودارادیت کے حصول کی جدوجہد کی سیاسی، سفارتی اور اخلاقی حمایت جاری رکھے گا" (1)۔ یہ بیان اس بات کا واضح اشارہ تھا کہ بھارت کو اس کے مذموم مقصد سے روکنے کے لیے فوجی قوت کا استعمال سرے سے میز پر رکھا ہی نہیں گیا جس کے نتیجے میں بھارت کو مقبوضہ کشمیر کےمسلمانوں پر ظلم و ستم کرنے اور انہیں کچلنے کے لیے کھلا موقع مل گیا۔ اس کے علاوہ باجوہ-عمران حکومت نے مسلمانوں کو پاکستان کی جانب سے لائن آف کنٹرول کو پار کرنے سے روکا اور اس طرح مقبوضہ جموں و کشمیر میں موجود مسلح مزاحمت کو درکار اہم مدد کو روک دیا۔

 

                  5 اگست 2019 سے قبل بھارت کے لیے مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کی زبردست جدوجہد اور مزاحمت کو قابو کرنا اور کچلنا ایک بہت بڑا مسئلہ تھا جس میں 5 اگست 2019 کے فیصلے کے بعد مزید اضافہ ہوگیا۔ بھارت کی جانب سے اس قدر وحشیانہ اقدامات کیے گئے کہ کشمیر کے نام نہاد "اعتدال پسند" بھی بھارت مخالف مؤقف اختیار کرنے پر مجبور ہوگئے۔ یہاں تک کہ سابق وزیر اعلیٰ مقبوضہ جموں و کشمیر اور بھارت نواز فاروق عبد اللہ کو یہ کہنا پڑگیا کہ، "آج کشمیری خود کو بھارتی محسوس نہیں کرتے اور بھارتی رہنا بھی نہیں چاہتے۔۔۔ وہ غلام ہیں۔۔۔ وہ خود پر چینیوں کی حکومت کو پسند کریں گے"(2)۔

 

                  بھارتی حکومت نے بھارت نواز سیاست دانوں، فاروق عبد اللہ، عمر عبد اللہ اور محبوبہ مفتی کو 5 اگست 2019 کے بعد گرفتار کرلیا۔ بھارتی حکومت کو جس تعطل کا سامنا تھا، اسے حل کرنے کی ضرورت تھی اور وہ یہ کہ وہ کشمیر میں ایک نئی سیاسی قیادت تیار کرنے کی کوشش کرے۔ اس کام کی شروعات جموں و کشمیر میں پنچائت کے انتخابات سے ہونی تھی جو ایک طرح سے بلدیاتی انتخابات ہوتے ہیں، جو کہ آخری بار دسمبر 2018 میں ہوئے تھے۔ یہ انتخابات فروری 2020 میں ہونا تھے لیکن "امن و عامہ" کی صورتحال کی وجہ سے ملتوی کردیے گے اور کسی نئی تاریخ کا بھی اعلان نہیں کیا گیا (3)۔ مودی حکومت کے لیے یہ بات ایک بہت بڑا مسئلہ بن گئی ہے کہ کشمیر کے مسلمان نئی صورتحال کو قبول کرلیں۔ مودی حکومت کے لیے یہ لازمی ہوگیا کہ وہ کشمیر کے مسلمانوں کے سیاسی عزم کو توڑنے کے لیے کوئی راہ نکالے تاکہ انہیں یہ محسوس ہوکہ اب ان کے پاس اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ وہ نئی صورتحال کو قبول کرلیں۔ پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت نے مودی کی یہ مشکل گلگت بلتستان کو پاکستان کا صوبہ بنانے کا اعلان کر کے آسان کر دی اور مقبوضہ کشمیر کو بھارت میں ضم کرنے کے مودی کے فیصلے کو جواز فراہم کردیا۔

 

                  1948 سے پاکستان کا کشمیر کے متعلق یہ موقف رہا ہے کہ وہ اس کے زیر انتظام آزاد کرائے گئے کشمیر کے کسی بھی حصے کو پاکستان میں ضم نہیں کرے گا تاکہ اس کی متنازعہ حیثیت برقرار رہے اور اس مسئلے کو اقوام متحدہ میں زندہ رکھا جائے۔ لیکن باجوہ-عمران حکومت کی جانب سے گلگت بلتستان کو عارضی صوبے کا درجہ دینے کے فیصلے نے بھارت کی جانب سے 5 اگست 2019 کو آرٹیکل 370 کو ختم کرنے کے فیصلے کو جائز تسلیم کرلیا ہے۔ بھارت نے نجی سطح پر اس فیصلے کو سراہا ہے کیونکہ جموں و کشمیر کے متعلق اس کے یکطرفہ فیصلے کو عملی طور پر گلگت بلتستان میں پاکستان دہراتا ہے تو پاکستان کی جانب سے اقوام متحدہ کی قرارداوں کی بھارتی خلاف ورزی کا دعوی ختم ہوجائے گا۔ اس معاملے پر پاکستان نواز حریت رہنما سید علی گیلانی نے یہ بیان دیا کہ، "یہ بدقسمتی اور غیر دانشمندانہ قدم ہے اور 5 اگست 2019 کی بھارتی جارحیت کے تناظر میں عملی طور پر اس سے زیادہ نقصان دہ ہے۔ اس طرح پاکستان بھارت کے ہاتھ میں ایک ڈنڈا دے رہا ہے کہ وہ اس سے مارے۔ بھارت اس موقع کو اپنی خوش قسمتی سمجھتے ہوئے خیرمقدم کرے گا اور اسے 5 اگست 2019 کو کشمیر کی خصوصی حیثیت کو مسترد کرنے اور اس میں ضم کرنے کے اپنے فیصلے کو جواز کے طور پر پیش کرنے کے لئے استعمال کرے گا" (4)۔

 

                  سلگتا ہوا سوال یہ ہے کہ گلگت بلتستان کو پانچواں صوبہ بنانا پاکستان کے لیے کیوں ضروری ہوگیا ہے؟ اگرچہ گلگت بلتستان کے لوگوں کی جائز شکایات اور خدشات موجود ہیں لیکن ان کا مؤثر مداوا اس کی موجودہ حیثیت کو تبدیل کیے بغیر بھی کیا جاسکتا تھا۔ مزید برآں موجودہ نوآبادیاتی نظام تلے پہلے سے موجود صوبوں کے عوام کی بھی تو ہزارہا شکایات اور خدشات ہیں۔

                  گلگت بلتستان کو عارضی صوبہ بنانے کا لازمی نتیجہ یہ نکلے گا کہ لائن آف کنٹرول کو سرحد تسلیم کرلیا جائے گا۔ اس طرح سے پاکستان مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کی قیادت کا دعویٰ ہی نہیں کرسکے گا۔ مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کو مودی سے مقابلہ کرنے کے لیے پاکستان کی سیاسی، فوجی اور سفارتی و اخلاقی حمایت کے بغیر اپنی قیادت خود پیدا کرنا پڑے گی جبکہ اس کی حیثیت کو بھی تبدیل کردیا گیا ہے یعنی اب وہ بھارتی یونین کا حصہ ہے۔

 

                  4 نومبر 2020 کو جموں و کشمیر کے انتخابی پینل نے 28 نومبر 2020 کو بلدیاتی انتخابات کا اعلان کیا جو اس سے پہلے فروری 2020 کو ہونا تھے اور انہیں ملتوی کردیا گیا تھا (5)۔ کیا مودی حکومت کو اس قدر اعتماد ہے کہ وہ ان انتخابات کے انعقاد کا اعلان کررہی ہے۔ یقیناً مودی حکومت یہ اعلان نہیں کرسکتی تھی اگر پاکستان نے گلگت بلتستان کو پانچواں صوبہ بنانے کا اعلان نہ کیا ہوتا۔ ایک بار پھر گلگت بلتستان کے انتخابات نے یہ ثابت کیا ہے کہ باجوہ-عمران حکومت مودی کے اقدامات کی نقل کر رہی ہے۔

 

                  یہ پس منظر کرن تھاپر کو دیے جانے والے معید یوسف کے انٹرویو، اس میں موجود مواد اور حکومت کے موجودہ بیانیے کےسیاسی سیاق و سباق کی وضاحت کرتا ہے۔ اس انٹرویو میں کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں اور سرحد پار دہشت گردی کے موضوعات پر بات کی گئی اور آخر میں کشمیر کے حل پر بات کی گئی۔ اور یہ سب درج بالا سیاق و سباق کے حوالے سے بے معنی موضوعات تھے۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں پر بحث اور اس پر انحصار کرنا خود کو دھوکہ دینا ہے کیونکہ خود مغربی دانشور اقوام متحدہ کو استعماری طاقتوں کا آلہ کار ادارہ سمجھتے ہیں۔ اسی طرح سرحد پار دہشت گردی پر بحث، جس پر بھارت بہت زور دیتا ہے، نے پاکستان کے لیے ایک پنڈورا باکس کھول دیا ہے۔ اس بات کا انکشاف کہ پاکستان کے پاس آرمی پبلک اسکول پر حملے میں بھارت کے ملوث ہونے کے ثبوت ہیں، درحقیقت سابق فوجی قیادت کو ملزمان کی فہرست میں شامل کر دیتا ہے۔ اس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ راحیل-نواز حکومت نے اچھے طالبان اور برے طالبان کی پالیسی کو ختم کرنے میں جلدی کیوں کی اورافغانستان میں کارروائی کے عمل کا آغاز کیوں کیا؟ بہ الفاظ دیگر معید یوسف اور کرن تھاپر دونوں عوام کے سامنے یہ بات لاتے ہیں کہ دونوں ممالک اور ان کی انٹیلی جنس ایجنسیاں ایک دوسرے کے خلاف پرتشدد پراکسی (proxy) جنگ میں ملوث ہیں۔ لیکن اس انٹرویو کا سب سے اہم حصہ آخری حصہ ہے جب معید یوسف اور کارن تھاپر  بحث کو اس جانب لے جاتے ہیں کہ آگے کیا ہونا چاہیے۔ معید یوسف نے کہا، "دیکھیں کرن، پاکستان امن چاہتا ہے۔ پاکستان بات چیت چاہتا ہے جو ہمیں آگے لے جائے۔ اور پاکستان ایسا خطہ چاہتا ہے جو ترقی کرے۔ پہلے یہ بات بہت واضح ہوجانی چاہیے کہ پاکستان میں کوئی بھی جنگ کی بات نہیں کر رہا۔ آپ جنگ مسلط کرتے ہیں، آپ دیکھیں گے کہ کیا ہوتا ہے، اور آپ نے دیکھا تھا کہ پچھلے سال کیا ہوا تھا"۔

 

                  یہ دیکھتے ہوئے کہ پاکستان کی سیاسی اور فوجی قیادت نے جنگ کو مسترد کر دیا ہے جبکہ مودی کی مداخلت کے ساتھ پچھلے سال میں کچھ بھی نہیں بدلا، پاکستان کے پاس ایسا کیا ہے کہ وہ 5 اگست 2019 کے اقدامات کو الٹا دینے کے لئے بھارت پر دباؤ ڈال سکے؟ چونکہ پاکستان تحریک آزادی کشمیر کے لئے کسی بھی سیاسی حمایت سے دستبردار ہوچکا ہے، لہذا بنیادی پیغام واضح ہے۔ مقبوضہ کشمیر سے دستبرداری کی غداری اب سب کے سامنے بالکل واضح ہے۔ اگرچہ سیاسی و فوجی قیادت اخلاقی، سفارتی اور دیگر حمایت کی اصطلاحات استعمال کرتی ہے تاہم طاقت کے اقدامات کی عدم موجودگی میں یہ سب بے معنی ہیں۔

 

                  برصغیر پاک و ہند وہ خطہ ہے جس پر مسلمانوں نے ہزاروں سال حکومت کی ہے اور صرف میر جعفر اور میر صادق جیسے غداروں کی وجہ سے برطانیہ کو یہاں قدم جمانے کا موقع ملا تھا۔ اور اب ہم نریندر مودی جیسے مشرکوں کے سامنے ہتھیار ڈال رہے ہیں۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا،يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ "اے ایمان والو! مشرک تو پلید ہیں" (التوبۃ،9:28)۔ تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ مسلمان ان کے سامنے ہتھیار ڈال دیں جن کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے پلید قرار دیا ہے۔ یہ سوچنا کہ بتوں کی عبادت کرنے والے ہندو ہم پر کسی قسم کی بالادستی رکھتے ہیں درحقیقت اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ہماری سیاسی و فوجی قیادت کی ذہنیت ایمانی ذہنیت نہیں ہے بلکہ کفار کی سوچ سے آلودہ ہوچکی ہے۔

 

                  قرآن کی ایک اور آیت میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،

إِنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَن يَشَاءُ ۚ وَمَن يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا بَعِيدًا

"اللہ اس کے گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے اور اس کے سوا (اور گناہ) جس کو چاہیے گا بخش دے گا۔ اور جس نے اللہ کے ساتھ شریک بنایا وہ رستے سے دور جا پڑا" (النساء، 4:116)۔

 

یہ وہ لوگ ہیں کہ جن کی بنیادی سوچ اس قدر گری ہوئی ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ انہیں کبھی معاف نہیں کریں گے۔ ہم کیسے مشرکین کے سامنے ہتھیار ڈال سکتے ہیں جبکہ ہمارے پاس مضبوط اور بہادر فوج ہے جس کو شہادت کے حصول کے شوق کی بنیاد پر تیار کیا گیا ہے اور جو کشمیر کو آزاد کرانے کی صلاحیت اور شدید خواہش بھی رکھتی ہے؟ مشرکین کے سامنے ہتھیار اس لیے ڈالے جا رہے ہیں کیونکہ ہماری سیاسی وفوجی قیادت میں کچھ آج کے میر جعفر و میر صادق موجود ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کو آزاد کرانا بالکل ممکن ہے اور ہر ایک اس حقیقت کو دیکھ سکتا ہے لیکن اس کے لیے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے احکامات کی پیروی کرنا فرض ہے کیونکہ کامیابی امریکی احکامات پر عمل کی نہیں بلکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے احکامات پر عمل اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ پر توکل کی مرہون منت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کرپٹ نظام، جو اس قسم کی کرپٹ سیاسی و فوجی قیادت پیدا کر رہا ہے، کو جڑ سے اکھاڑنا اور نبوت کے نقش قدم پر خلافت کا قیام لازم ہے۔ صرف خلافت کے ذریعے ہی ہم کشمیر اور دیگر مقبوضہ علاقوں کو آزاد کرانے کے قابل ہوں گے اور اپنی مجاہد فوج کو حرکت میں لائیں گے تا کہ دنیا کو اسلام کے تحفظ کے زیر سایہ لایا جائے۔

 

[1] https://www.dawn.com/news/1498236

2 https://www.dawn.com/news/1581318

3https://www.ndtv.com/india-news/jammu-and-kashmir-panchayat-elections-postponed-over-law-and-order-issues-2182191

4https://thekashmirwalla.com/2020/09/pakistan-risks-losing-moral-high-ground-by-changing-status-of-gb-geelanis-representative/

5 https://thewire.in/politics/jammu-and-kashmir-district-polls-eight-phases-november-28

Last modified onمنگل, 01 دسمبر 2020 14:16

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک