بسم الله الرحمن الرحيم
مسئلہ فلسطین عالمی برادری کا نہیں بلکہ امت اسلامیہ کا مسئلہ ہے۔
خبر:
چیف آف آرمی سٹاف(COAS)، جنرل سید عاصم منیر نے جمعہ 15 نومبر 2024 کو اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (آئی پی آر آئی) کے زیر اہتمام مارگلہ ڈائیلاگ 2024 کی ایک خصوصی تقریب سے خطاب کیا۔ آرمی چیف نے ’امن اور استحکام میں پاکستان کا کردار‘ کے عنوان پر بات کی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کسی عالمی تنازع کا حصہ نہیں بنے گا، اس کے بجائے پاکستان عالمی امن و استحکام کے لیے اپنا کردار ادا کرتا رہے گا۔ پاکستان نے ہمیشہ آزاد فلسطینی ریاست کے قیام پر زور دیا ہے۔ [1]
تبصرہ:
جنرل عاصم منیر کا یہ خطاب فلسطین، کشمیر، ’دہشت گردی‘، بھارت کے انتہا پسند نظریے، جعلی خبروں اور ماحولیاتی تبدیلیوں سمیت مختلف مسائل پر پالیسی بیان تھا۔ یہ پالیسی بیان دنیا کے سامنےپاکستان کی فوجی طاقت کو پیش کرنے کے لیے منعقد ہونے والی ایک اہم دفاعی نمائش، آئیڈیاز 2024 سے چند روز قبل سامنے آیا ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ جنرل عاصم منیر نے یہ پالیسی بیان پاکستان کے مسلمانوں کے اس مطالبے پر دیا ہے کہ یہودی وجود، جسے امریکہ کی قیادت میں مغربی دنیا ہتھیار اور فنڈز فراہم کرتی ہے، کی دہشت گردی کے خاتمے کے لیے افواج کو متحرک کیا جائے ۔ 7 اکتوبر 2023 سے پاکستان کے مسلمان یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ مسلح افواج میں شامل ان کے باپ بیٹے مسجد اقصیٰ، غزہ اور فلسطین کی بابرکت سرزمین کو آزاد کرانے کے لیے متحرک ہو جائیں، چاہے ہمیں اس مقصد کے حصول کے لیےکتنی ہی بڑی قیمت ادا کرنی پڑے۔
منیر-شریف حکومت نے پہلے دعویٰ کیا تھا کہ وہ گراؤنڈ لائن آف کمیونیکیشن (جی ایل او سی) کی عدم موجودگی کی وجہ سے یہودی وجود کے مظالم کے خاتمے اور فلسطین کی آزادی کے لیےکچھ نہیں کر سکتی۔ تاہم لوگوں نے اس فضول بہانے کو مسترد کر دیا ۔ امت دیکھتی ہے کہ جب بھی مغربی استعمار کو دنیا میں کہیں بھی ہماری فوجوں کی ضرورت ہوتی ہے تو فوجی قیادت ہماری افواج کو فوراً وہاں روانہ کردیتی ہے۔ اسی تقریر میں جنرل عاصم منیر نے کہا کہ "عالمی امن کے قیام کے لیے مجموعی طور پر 235,000 پاکستانی امن دستوں نے اقوام متحدہ کے امن مشنز میں حصہ لیا ہے اور اس سلسلے میں 181 پاکستانیوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ بھی پیش کیا ہے۔" تو آخر پاکستان کےحکمران سرزمین فلسطین کو آزاد کرانے کے لیے ہماری مسلح افواج کو متحرک کیوں نہیں کرسکتے؟
اب منیر-شریف حکومت نےایک اور بہانہ پیش کیا ہے کہ پاکستان کسی عالمی تنازع کا حصہ نہیں بنے گا۔ مسئلہ فلسطین کوئی عالمی تنازعہ نہیں ہے جسے موجودہ استعماری بڑی طاقتوں نے حل کرنا ہے۔ فلسطین ایک اسلامی خراجی سرزمین ہے۔ اس کا مسئلہ صرف امت اسلامیہ اور اس کی فوجوں کا مسئلہ ہے۔ اگر ہم حکومت کے اس عذر کو قبول کر لیتے ہیں کہ فلسطین عالمی مسئلہ ہے، لہٰذا ہم اس کا حصہ نہیں بنیں گے لیکن کشمیر کو تو وہ پاکستان کا حصہ سمجھتے ہیں، اور کشمیر ہمارا مسئلہ ہے کوئی عالمی طاقتوں کے درمیان تنازعہ تو نہیں ہے۔ تو جب ہندو ریاست نے 5 اگست 2019 کو کشمیر کا ہندو ریاست میں زبردستی الحاق کرکے آخری سرخ لکیر بھی عبور کر لی تھی تو پاکستان کے حکمرانوں نے ہماری مسلح افواج کو مقبوضہ کشمیر کو آزاد کرانے کے لیے کیوں متحرک نہیں کیا؟
حقیقت یہ ہے کہ منیر-شریف حکومت بھی سابقہ حکومتوں کی طرح استعمار کی ایجنٹ ہے۔ ان کی پالیسیوں کی بنیاد استعمار کے مفادات ہیں جن میں مسلمانوں کی سرزمین یا ان کے دین کی حفاظت کا کوئی خیال ہی نہیں ہے۔ اب پاکستان کے مسلمانوں اور اس کی مسلح افواج میں کوئی الجھن نہیں ہو سکتی۔ ذلت سے بچنے کا راستہ استعمار کے ایجنٹوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا، نبوت کے نقش قدم پر خلافت کا قیام اور انڈونیشیا سے مراکش تک مسلمانوں کی سرزمین کو یکجا کرنا ہے۔ اس کے بعد ایک خلیفہ راشد تمام مقبوضہ مسلم زمینوں کو آزاد کرانے کے لیے لاکھوں مسلمانوں کی فوج کو متحرک کرے گا۔
خلافت راشدہ کا قیام کوئی خواب نہیں۔ یہ ایک شرعی فریضہ ہے اور رسول اللہﷺ کی بشارت ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا،
ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا جَبْرِيَّةً فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا ثُمَّ تَكُوونُ خِلَافَةً عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ ثُمَّ سَكَتَ
" ۔۔۔ پھر جبر کی حکمرانی ہو گی اور یہ بھی جب تک اللہ چاہے گا رہے گی ، پھر اللہ تعالیٰ اسے بھی اٹھا لے گا ، پھر خلافت نبوت کی طرز پر ہو گی ۔ پھر آپ ﷺ خاموش ہو گئے ۔ " (احمد)
ولایہ پاکستان سے شہزاد شیخ نے
حزب التحریر کےمرکزی میڈیا آفس کے لیے یہ مضمون لکھا۔
حوالہ:
Latest from
- فلسطین اور غزہ کی آزادی کے لیے خلافت اور جہاد کے لیے وسیع سرگرمیاں
- اے مسلمان ممالک کی افواج! کیا تم میں کوئی صالح جواں مرد نہیں کہ وہ افواج کی قیادت کرے؟
- عالمی سیاست کیوں اہم ہے؟!
- بے شک غزہ کلمہ گو مسلمانوں کا ایشو ہے، سینٹ کام کے ملازموں کا نہیں
- بین الاقوامی خلافت کانفرنس: ریاستی اصلاحات یا جامع تبدیلی؟