الأربعاء، 25 جمادى الأولى 1446| 2024/11/27
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

خطے سے ہر طرح کی امریکی موجودگی کا خاتمہ کرو دنیا کی واحد مسلم ایٹمی قوت کی دہلیز پر کیانی و شریف حکومت گاجر و لاٹھی کی پالیسی کی ذریعے امریکہ کو اڈے فراہم کرنے کی کوشش کررہی ہے

وزیر اعظم نواز شریف بلوچستان کے تباہ کن زلزے کے نتیجے میں ہلاک ،زخمی اور بے گھر ہونے والوں کی بحالی کی مہم کی سربراہی کرنے کی بجائے پاکستان کے تحفظ کے خاتمے کے لیے سر توڑ کوشش کررہے ہیں۔ جمعہ 27ستمبر2013کو نواز شریف نےمغربی استعماری طاقتوں کی لونڈی اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم سے خطاب کیا اور کیانی و شریف حکومت کی اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ قبائلی مسلمانوں سے مذاکرات کریں گے جو پچھلے بارہ سالوں سے افغانستان میں قابض امریکی افواج کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ کیانی و شریف حکومت جہاں کی صورت میں "گاجر" کی پیشکش کررہی ہے وہیں ان لوگوں کےخلاف فوجی آپریشن کی "لاٹھی" بھی پکڑے ہوئے ہے جو مذاکرات کی اس اچانک شدید خواہش میں خطر ے کو بھانپ رہے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ امریکہ ہی ہے جو کیانی و شریف حکومت کو کبھی "گاجر" تو کبھی "لاٹھی " اٹھانے کا حکم جاری کرتا ہے اور دونوں باتوں کا ایک ہی مقصد ہوتا ہے۔ امریکہ محدود انخلاء کے بعد افغانستان میں اڈوں کو حاصل کرنے کے لیے دن رات ایک کررہا ہے جہاں ایک لاکھ سے زیادہ غیر ملکی لوگوں کو رکھا جائے گا۔ اگرچہ امریکی ایجنٹ حامد کرزئی نے امریکہ کو ان نوں(9) اڈوں کی فراہمی کی یقین دہانی کرادی ہے لیکن امریکہ ایک ایسے معاہدے کی شدید خواہش رکھتا ہے جس کے ذریعے وہ اپنے غیر قانونی فوائد کو "حلال" قرار دلواسکے ۔
حزب التحریر ولایہ پاکستان قبائلی علاقوں اور دیگر علاقوں کے مسلمانوں سے یہ کہتی ہے کہ وہ ان اڈوں کی فراہمی کے خلاف آواز بلند کریں اور اس مقصد کے حصول کے لیے ہونے والے مذاکرات اور فوجی آپریشنز کو مسترد کردیں۔ ہم کیوں اس گناہ کے بوجھ کو اپنے سر لیں جس کے ذریعے ایک بڑی صلیبی قوت کو پاکستان کی دہلیز پر بٹھا کر پاکستان کی سیکیورٹی نظر انداز کردیا جائے؟ اللہ سبحانہ و تعالی نے مسلمانوں کو اس بات کی اجازت نہیں دی کہ وہ گناہ اور ظلم کے معاملات میں تعاون کریں ۔ اللہ سبحانہ و تعالی فرماتے ہیں :

وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلاَ تَعَاوَنُوا عَلَى الإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ "

اور اچھی باتوں اور تقوی کے معاملات میں تعاون کرو اور گناہ اور ظلم میں تعاون مت کرو اور اللہ سے ڈرو کیونکہ بے شک اللہ سزا دینے میں دیر نہیں کرتے" (المائدہ:2)۔
جہاں تک خیر اور تقوی کی بات ہے تو یہ صرف خلافت راشدہ ہی کے ذریعے حاصل ہوسکتا ہے جو دشمن کی افواج کے خلاف مسلم افواج اور مجاہدین کی قیادت ، ایک یکجا قوت کی صورت میں کرے گی۔ صرف اُسی وقت مسلمانوں کی طاقت خطے میں موجود امریکی موجودگی کے خاتمے کا باعث بنے گی چاہے وہ اڈوں اور قونصل خانوں کی شکل میں ہو یا امریکی افواج اور اُن کی نجی افواج کی شکل میں ہو۔ لہذا حزب التحریر ولایہ پاکستان افواج پاکستان سے پاکستان میں خلافت کے فوری قیام کے لیے حزب التحریر کو نصرۃ کی فراہمی کا مطالبہ کرتی ہے جس کی قیادت مشہور فقیہ اور رہنما شیخ عطا بن خلیل ابو الرَشتہ کررہے ہیں۔

 

Read more...

جمہوریت کا بہترین انتقام :بجلی و پیٹرول کی قیمتوں کو آسمان پر پہنچا دیا بجلی وپیٹرول امت کی ملکیت ہیں جو انھیں خلافت ہی واپس دلائے گی

پاکستان کے عوام ابھی بلوچستان کے زلزلے سے ہی نہ سنبھلے تھے کہ "عوامی" و "جمہوری"کیانی و شریف حکومت نے آئی۔ایم۔ایف اور اپنے امریکی آقاؤں کی ہدایت پر بجلی و پیٹرول کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ کردیا ۔یہ کمر توڑ اضافے کسی بھی صورت ایک گھرانے کے لیے معاشی ڈرون حملے سے کم نہیں جو پہلے ہی مہنگائی اور ظالمانہ ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔ لہذا آمریت اور جمہوریت دونوں ہی استعماری طاقتوں اور اس اُن کے اداروں کے لیے عوام کا خون چوستے ہیں۔ حزب التحریر نےولایہ پاکستان میں 29مارچ 2013کو ایک لیفلٹ جاری کیا تھا جس کا عنوان " مؤمن ایک سوراخ سے دو مرتبہ نہیں ڈسا جاتا" تھا۔ اس لیفلٹ کے ذریعے حزب نے عوام کو 11مئی 2013کو ہونے والے انتخابات سے وابستہ کی گئی اُمیدوں سے خبردار کیا تھا اور کہا تھا کہ "پاکستان کے مسلمان موجودہ نظام کے ہاتھوں دو مرتبہ نہیں بلکہ بے شمار دفعہ ڈسے جاچکے ہیں۔ ہر مرتبہ فوجی بغاوت یا انتخابات کے بعد کچھ نئے چہرے سامنے آتے ہیں اور لوگ پچھلے حکمرانوں کو بددعائیں دیتے ہیں۔ لیکن کچھ ہی عرصہ گزرتا ہے کہ یہ نئے حکمران پہلے والوں سے زیادہ بھیانک اور خوفناک نظر آنے لگتے ہیں"۔لہذا حزب التحریر ایک بار پھر عوام الناس اور اہل دانش پر واضح کردینا چاہتی ہے کہ جمہوریت و آمریت دونوں ہی سرمایہ دارانہ نظام کو نافذ کرتے ہیں جس میں اہل اقتدار اور اور ان کے امریکی آقاؤں کے مفادات کا ہی تحفظ ہوتا ہے۔
حزب التحریر عوام الناس اور اہل دانش کو مزید یہ بھی بتا نا چاہتی ہے کہ بجلی، گیس اور پیٹرول میں آئے دن کے اضافوں اور مہنگائی سے صرف اور صرف ریاست خلافت ہی نجات دلاسکتی ہے کیونکہ خلافت میں یہ وسائل عوامی ملکیت ہوتے ہیں اور ان کا فائدہ عوام کو پہنچایا جاتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ((المسلمون شرکاء فی ثلاث الماء والکلاء والنار))" تمام مسلمان تین چیزوں میں شریک ہیں: پانی،چراگاہیں اور آگ(توانائی)"(ابوداود)۔لہذا خلافت نہ تو عوامی اثاثوں پر ٹیکس لگاسکتی ہے اور نہ ہی ان کی قیمتوں میں من مانا اضافہ کرسکتی ہے جس کے نتیجے میں لوگ شدید مشکلات کا شکار ہوجائیں جیسا کہ آج سرمایہ دارانہ نظام کی وجہ سے پوری مسلم دنیا ایسا ہی ہورہا ہے ۔
لہذا حزب التحریر عوام الناس اور اہل دانش سے یہ مطالبہ کرتی ہے کہ وہ کفریہ جمہوری سرمایہ دارانہ نظام سے منہ موڑ کر خلافت کے قیام کوعمل میں لائیں ۔ جب تک ہم ایسا نہیں کریں گے تو دنیا میں تو ہماری زندگی تنگ سے تنگ تر ہوتی ہی رہے گی اور اس کے ساتھ ہی ہماری آخرت بھی خراب ہوجائے گی۔ اللہ سبحانہ و تعالی فرماتے ہیں (وَمَنْ أَعْرَضَ عَن ذِكْرِى فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنكاً وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ ٱلْقِيامَةِ أَعْمَىٰ)"اور جو میری یاد(قرآن) سے روگردانی کرے گا اس کی زندگی تنگی میں رہے گی اور ہم قیامت کے دن اندھا کر کے اٹھائیں گے"(طہ:124)۔
حزب التحریر افواج پاکستان میں موجود مخلص افسران سے مطالبہ کرتی ہے کہ لوگوں کو بڑھتے ہوئے عدم تحفظ اور معاشی بدحالی سے نجات دلائیں۔اللہ سبحانہ و تعالی کی رضا کے لیے وہ مسلمانوں ، عورتوں، بچوں ،بوڑھوں اور جوانوں سے منسلک اپنی ذمہ داری کو ادا کریں۔اور اب وہ ضروراس مسلم سرزمین پر خلافت کے فوری قیام کے لیے امیر حزب التحریر شیخ عطا بن خلیل ابو الرَشتہ کی قیادت میں حزب التحریر کو نصرۃ دیں ۔

شہزاد شیخ
ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان

Read more...

شام کے کیمیائی ہتھیاروں کے حوالے سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد نے کافر استعماری طاقتوں کی اصلیت ظاہر کردی،مسلم ممالک میں قوت و طاقت کے ہتھیاروں کو ختم کرنے کے لیے یہ سب ایک ہیں

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے قرارداد نمبر 2118 پُر زور تالیوں کے شور میں منظور کرلی۔ یہ قرار داد اتفاقِ رائے سے منظور ہوئی اور کسی بھی ملک کی جانب سے ویٹو کی طاقت کو استعمال نہیں کیا گیا۔یہاں تک کہ ان ممالک نے بھی اس قرارداد کو ویٹو نہیں کیا جو ایسے فیصلے کی مخالفت کررہے تھے، اور وہ فیصلے کے وقت غائب ہو گئے۔ شام کا ظالم و جابر تقریباً تیس ماہ سے شام کے مسلمانوں کا قتلِ عام کر رہا ہے اور اس عرصے کے دوران یہ پہلا فیصلہ ہےجوکافرطاقتوں نے اتفاق رائے سے کیا ہے۔'بین الاقوامی برادری'جس کی قیادت امریکہ اور اس کے اتحادی کررہے ہیں، نے اس تمام عرصے کے دوران اُن لاکھوں بوڑھوں، بچوں اورعورتوں کی کوئی پروا نہیں کی کہ جن کو بے دریغ قتل کیا گیا۔ نہ ہی اس تما م عرصے کے دوران 'بین الاقوامی برادری' نے اُن لاکھوں زخمیوں کی پروا کی کہ جن کے اعضاء میزائل حملوں میں کٹ کر جسموں سے علیحدہ ہورہے تھے۔ اور نہ ہی انھوں نے اُن لاکھوں لوگوں کی پروا کی جو اس بمباری کے نتیجے میں اپنے گھروں سےمحروم اورہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے۔ان تمام تر المناک واقعات کے باوجود بین الاقوامی برادری نے ان لوگوں کو شام کے جابرحکمران سے بچانے کے لیے کوئی عملی قدم نہ اٹھایا۔بلکہ امریکہ اور روس نے مل کر طےکرلیا کہ ایسے کسی بھی فیصلے کو رد کردیا جائے تا کہ شام کاجابرحکمران کسی رکاوٹ کے بغیر عوام کے خلاف اپنے جرائم کو جاری رکھ سکے،وہ جرائم کہ جن سے نہ تو کوئی انسان محفوظ ہے اور نہ ہی کوئی درخت یا پتھر۔ اس قدر المناک واقعات بھی ان طاقتوں کو اکٹھا نہ کرسکے لیکن اب یہ طاقتیں شام کے کیمیائی ہتھیاروں کے خاتمے کے لیے اکٹھی ہوگئی ہیں، جبکہ اسرائیل اور دوسری ریاستوں کےگودام اس قسم کےاسلحے سے بھرے پڑے ہیں ۔ ان میں وہ بڑی طاقتیں بھی شامل ہیں جو یہ دعویٰ کرتی ہیں کہ انھیں کیمیائی ہتھیاروں کے خاتمے کا حق حاصل ہے۔ہر صاحب عقل آدمی یہ جانتا ہے کہ یہ طاقتیں اس قرارداد پر اس لیے اکٹھی ہوئیں کیونکہ یہ قرارداد اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ہے۔ تمام ممالک یہ جانتے ہیں کہ شام کا جابر بشار گررہا ہے اور یہ ہتھیارواپس مخلص مسلمانوں کے ہاتھوں میں آجائیں گے۔یہ ہے وہ صورتحال جو ان کے لیے اور ان کی لے پالک اولاد اسرائیل کے لیے انتہائی خوف و پریشانی کا باعث ہے۔ اور اسرائیل کا تحفظ جیسا کہ بین الاقوامی غنڈوں کے سربراہ اوبامہ نے کہا کہ خطے میں اس کے انتہائی اہم مفادات میں سے ایک ہے،اور ان مفادات میں سے ایک اور اہم مفاد اس خطے میں موجود دولت خصوصا'بلیک گولڈ' یعنی تیل کا حصول ہے۔
مسلمانوں کے خلاف کافر استعماری طاقتوں کا اکھٹے ہو جانا کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ حقیقت میں تو یہ ایک معمول ہے۔ جیسےہی مسلمانوںسےمنسلک کوئی معاملہ درپیش ہوتاہے کفار اپنے اختلافات کو بھلا دیتے ہیں ۔لہذا رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں بھی وہ کافر عرب قبائل کہ جو شاید ہی کبھی اکٹھے ہوئے ہوں ،بلکہ وہ ایک اونٹ کی خاطرایک دوسرے سے لڑتے تھے، لیکن جب معاملہ رسول اللہ ﷺ سے لڑنے کا ہوا تو وہ ایک ہوگئے۔ہجرت سے قبل انھوں نے تمام قبیلوں سے چالیس جوان منتخب کیے تا کہ رسول اللہ ﷺ کو اُنہی کے گھر میں(معاذ اللہ) قتل کر دیا جائے۔روم اور فارس ایک دوسرے کے سخت دشمن تھے لیکن انھوں نے 12 ہجری میں ،موجودہ عراق کے شہر بوکمال کے مقام پر، مسلمانوں کے خلاف ہونے والی جنگ الفراد میں ایک دوسرے سے تعاون کیا۔اوریورپ کے صلیبی پانچویںصدیہجریبمطابق گیارویں صدی عیسوی کےآخرکے بعد دو سو سال تک اکٹھے ہوکر مسلمانوں کے خلاف لڑتے رہے۔ پھر تاتاری آگئے ۔جنہوں نے کمزور ہوتی ہوئی صلیبی ریاستوں کو چھوڑ کر 615ہجری میں مسلم علاقوں پر حملہ کردیا۔صرف یہی نہیں بلکہ صلیبیوں نے پانچویں صلیبی حملے میں ناکامی کے بعد617ہجری میں تاتاریوں کواکسایا کہ وہ مسلم علاقوں پر حملہ کردیں۔پھر یورپی ممالک جو ہمیشہ ایک دوسرے سے لڑتےرہتے تھے،لیکن سولہویں اور سترویں صدی عیسوی میں جب انھوں نے دیکھا کہ "عثمانی خلافت" ایک عظیم اور طاقتور ریاست بن گئی ہے تو یورپی بادشاہوں نے اپنے اختلافات کو ختم کیا اور اسلامی ریاست سے لڑنے کے لیے اکٹھے ہوگئے، کیونکہ وہ اسلام اور مسلمانوں سے نفرت کرتے تھے۔ انھوں نے ایک"بین الاقوامی برادری" کا تصور پیش کیا اور یہ تصورسولہویں صدی عیسوی سے چلا آرہا ہے۔پھر جب اسلامی ریاست کمزور ہوئی اور بالآخر ختم ہوگئی تو پہلی جنگ عظیم کے بعد بین الاقوامی برادری کے اس تصور کو لیگ آف نیشنز کی شکل دے دی گئی،جسے دوسری جنگ عظیم کے بعد اقوامِ متحدہ کا نام دے دیا گیا۔لیکن ناموں کی اس تبدیلی کے باوجود ان تمام تنظیموں میں وہ بنیادی تصور برقرار رہا جو بین الاقوامی برادری کے تصور کو پیش کرنے کا باعث بنا تھا، یعنی اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جنگ۔ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جنگ میں ذرائع اور طریقہ کار تو تبدیل ہوتے رہے لیکن مسلمانوں اور اسلام کے خلاف ظلم و جبر کا سلسلہ جاری رہا ۔اور آج امریکہ جس کافر اتحادکی قیادت کررہا ہے،اس کا بنیادی مقصد بھی یہی ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جنگ کو جاری رکھا جائے۔اسی مقصد کا نتیجہ ہے کہ یہ استعماری طاقتیں فلسطین پریہودی ریاست کے قبضے کی حمایت کرتی ہیں، مسلمان ممالک کے کیمیائی ہتھیاروں کو ختم کرنے کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں قراردادمنظورکرتی ہیں اور مسلم علاقوں کی دولت کو لوٹتی ہیں۔
اے مسلمانو! کافر استعماری طاقتوں کا اکٹھا ہونا کوئی نئی بات نہیں ہے کیونکہ یہ پہلے بھی ایسا ہی کرتے رہے ہیں، لیکن جو بات انتہائی شرمناک ہے وہ مسلم حکمرانوں کا امریکہ اور اور اس کے اتحادیوں کے سامنے جھک جانا ہے ۔ یہ حکمران اس قدر جھک گئے ہیں کہ اپنے قدموں کو چھونے لگے ہیں۔ یہ حکمران اپنے دین کو بیچ رہے ہیں اگر ان کا کوئی دین بھی ہے۔ اور یہ اپنی اقدار کو بیچ رہے ہیں اگر ان کی کوئی اقدار بھی ہیں۔ اور ایسا یہ صرف اس لیے کررہے ہیں تا کہ یہ اپنی کرسیوں پر مزید کچھ وقت گزار سکیں۔یہ بات بھی شرمناک ہے کہ وہ لوگ جو مسلم ممالک میں پلے بڑھے ہیں ،اب بھی مغربی ثقافت کو اپناتے ہیں، اس کی تعریف کرتے ہیں ،اُن کے موقف کی تائید کرتے ہیں ،وہ موقف جو انسانی گوشت اور ہڈیوں پر کھڑا ہے۔ یہ لوگ ان ممالک کے متعلق اچھا گمان رکھتے ہیں اور اُن کی مدد کرنے اور انھیں خوش کرنے کے لیے دوڑے چلے جاتے ہیں جبکہ اللہ سبحان و تعالیٰاعلان فرما چکا ہے:(هُمُ الْعَدُوُّ فَاحْذَرْهُمْ قَاتَلَهُمُ اللَّهُ أَنَّى يُؤْفَكُونَ) "یہ (کفار)دشمن ہیں، لہذا ان سے ہوشیار رہو، اللہ ان پر لعنت کرے کہ یہ کس طرح سچے راستے کو جھٹلاتے ہیں"(المنافقون:4)۔ اس کے علاوہ جو بات انتہائی تکلیف کا باعث ہے وہ یہ ہےکہ کچھ "اسلامی تحریکیں" اور کچھ "اسلام پسند" جو خلافت کے قیام کے لیے کام کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں اور جمہوریت کی نفی کرتے ہیں اور استعمار کے دیےہوئے قومی جھنڈوں کی جگہ رسول اللہ ﷺکا جھنڈا بلند کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ "چونکہ ہمیں اس بات کا خدشہ ہے کہ مغرب ناراض ہو جائےگا، لہٰذاہم بشار کے خلاف آپ لوگوں کے ساتھ کھڑے نہیں ہوسکتے"۔ وہ یہ نہیں سمجھ رہے کہ بشار اور اس کا باپ دونوں ہی امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی پیداوار ہیں اور امریکہ نے ہی بشار کی حمایت کی اور اس کے اقتدار کو طول دیا تا کہ امریکہ اس دوران اس جیسا کوئی اور ایجنٹ تیار کرلے جو گرتے ہوئے بشار کی جگہ لے سکے۔ امریکہ کبھی بھی ان مسلمانوں کے ساتھ کھڑا نہیں ہوگا جو اسلام کا جھنڈا بلند کرنا چاہتے ہوں ،چاہے وہ انھیں جھوٹی مسکراہٹوں کے ذریعے اپنے اخلاص کا یقین ہی کیوں نہ دلا رہا ہو۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰنے ارشاد فرمایا: (كَيْفَ وَإِنْ يَظْهَرُوا عَلَيْكُمْ لَا يَرْقُبُوا فِيكُمْ إِلًّا وَلَا ذِمَّةً يُرْضُونَكُمْ بِأَفْوَاهِهِمْ وَتَأْبَى قُلُوبُهُمْ وَأَكْثَرُهُمْ فَاسِقُونَ)"ان کے وعدوں کا کیا اعتبار،اگران کا تم پر غلبہ ہوجائے تو نہ یہ قرابت داری کا خیال کریں نہ عہد و پیمان کا، یہ اپنی زبانوں سے تو تمھیں مائل کررہے ہیں لیکن ان کے دل نہیں مانتے،ان میں سے اکثر تو فاسق ہیں" (التوبۃ:8)۔
اے مسلمانو!یقیناً کفار ایک ہی لوگ ہیں اور سلامتی کونسل میں بڑی طاقتوں کا اکٹھا ہونے کا مقصد دراصل مسلمان ممالک کو طاقتور ہتھیاروں سے محروم کرنا ہے۔ سلامتی کونسل کے اس فیصلے نے اُن کے عزائم کو واضح کردیا ہے اور جو کچھ انہوں نے ابھی چھپایا ہوا ہے وہ اس سے بھی زیادہ شدیدہے:( قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَاءُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ وَمَا تُخْفِي صُدُورُهُمْ أَكْبَرُ قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الْآيَاتِ إِنْ كُنْتُمْ تَعْقِلُونَ)" بغض تو خود ان کی زبان سے ظاہر ہوچکا ہے اور جو کچھ ان کے سینوں میں پوشیدہ ہے وہ اس سے بھی بڑھ کر ہے۔ یقیناً ہم نے تمھارے لیے اپنی آیات کو بیان کردیا اگر تم سمجھ رکھتے ہو"(آل عمران:118)۔ کفار کی فطرت کو سمجھنا اور بڑی طاقتوں کے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف موقف کو سمجھنا، اُن کی سازشوں کو ناکام بنانے اور انھیں شکست دینے کی جانب پہلا قدم ہے۔ یہ کوئی پہلی دفعہ ایسا نہیں ہورہا کہ کفار اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اکٹھے ہوئے ہیں۔ یہ صورتحال تو اس وقت سے جاری ہے جب رسول اللہ ﷺ نے اپنی نبوت کا اعلان کیاتھا اور مدینہ میں پہلی اسلامی ریاست قائم ہوئی تھی ،یہاں تک کے کفار نے مسلمانوں میں موجود غداروں کی مدد سے 1342ہجری بمطابق1924عیسوی کو خلافت کا خاتمہ کردیا۔ اور اس کے بعد انھوں نے ہمارے خلاف چڑھائی اپنی طاقت کی بنا پرنہیں بلکہ ہماری کمزوری کی وجہ سے کی، کیونکہ ہم نے اُس ریاست خلافت کو کھو دیا تھا جو ہماری طاقت کی وجہ تھی اور ہم نے اس کے دوبارہ قیام کی کوششوں سے کنارہ کشی اختیار کر لی تھی۔لہٰذا وہ ہمارے خلاف اکٹھا ہوئے اوراسی طرح اکٹھے ہوئے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایاتھا جس کو ابو داود نے ثوبان سے روایت کیا کہ ((يُوشِكُ الْأُمَمُ أَنْ تَدَاعَى عَلَيْكُمْ كَمَا تَدَاعَى الْأَكَلَةُ إِلَى قَصْعَتِهَا))"قومیں تم پر ایسے ٹوٹ پڑیں گی جیسے لوگ کھانے پر ٹوٹ پڑتے ہیں"۔ کسی نے پوچھا :" تو کیا ایسا اس وجہ سے ہوگا کہ ہماری تعداد کم ہوگی؟" رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:((بَلْ أَنْتُمْ يَوْمَئِذٍ كَثِيرٌ، وَلَكِنَّكُمْ غُثَاءٌ كَغُثَاءِ السَّيْلِ، وَلَيَنْزَعَنَّ اللَّهُ مِنْ صُدُورِ عَدُوِّكُمُ الْمَهَابَةَ مِنْكُمْ، وَلَيَقْذِفَنَّ اللَّهُ فِي قُلُوبِكُمُ الْوَهْنَ))" نہیں بلکہ اس وقت تمھاری تعداد بہت زیادہ ہوگی لیکن تمھاری حیثیت پانی کی لہروں پر موجود جھاگ کی سی ہو گی اور اللہ تمھارے دشمنوں کے دلوں میں سے تمھارے رعب کو ختم کردے گا اور اللہ تمھارے دلوں میں کمزوری پیدا کردے گا"۔ کسی نے پوچھا:" اے اللہ کے رسول، کس قسم کی کمزوری؟" رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ((حُبُّ الدُّنْيَا، وَكَرَاهِيَةُ الْمَوْتِ))" دنیا کی محبت اور موت سے نفرت"۔
اے مسلمانو! رہنما اپنے لوگوں سے جھوٹ نہیں بولتا۔ لہٰذا حزب التحریر آپ کو پکارتی ہے کہ آپ دل و جان سے اپنی ریاستِ خلافت کے قیام کے لیے جدوجہد کریں کیونکہ یہی آپ کی عزت اور بقا کا راستہ ہے۔ اور آپ جتنا اس کے قیام کی جدوجہد میں تاخیر کریں گے اُتنا ہی آپ کے دشمن مضبوط ہوں گےاور ایسا صرف آپ کی طاقت کے ذرائع کےخاتمے کے لیے قرارداد کی منظوری سے ہی نہیں ہو گابلکہ آپ کی سرزمین پر فوجی قوت سے قبضہ کرنے کی قراردادبھی منظور کی جائے گی۔لیکن اگر آپ خلافت کے قیام کو اپنا اہم ترین مقصد بنا لیتے ہیں، اس کو اپنے دلوں کی دھڑکن بنا لیں اور اس مقصد کو ہر وقت اپنی نگاہوں کے سامنے رکھیں،اور اس کے حصول کے لیے اپنی جانوں کی بازی لگا دیں، اور آپ ایسا صرف اور صرف خالص اللہ سبحانہ و تعالی کی رضا کے لیے کریں توآپ ضرور اللہ کے وعدے کو حاصل کرلیں گے(وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ)" اللہ تم میں سے ان لوگوں سے وعدہ فرما چکا ہے جو ایمان لائے ہیں اور انہوں نے نیک اعمال کیے ہیں کہ انھیں ضرور زمین میں حکمران بنائے گا جیسے کہ اُن لوگوں کو حکمران بنایا تھا جو اُن سے پہلے تھے"(النور:55)اور اسی طرح آپ رسول اللہ ﷺ کی جانب سے ظالم حکمرانوں سے نجات اور خلافت کے قیام کی خوشخبری کو بھی حاصل کرلیں گے((ثُمَّ تَكُونُ جَبْرِيَّةً، فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا، ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ))" پھر تم پر ظالموں کی حکمرانی ہو گی اور اس وقت تک رہے گی جب تک اللہ چاہے گا اور پھر اللہ اسے دَور کواٹھا لے گا جب وہ اسے اٹھانا چاہے گا اور پھر نبوت کے نقش قدم پر خلافت قائم ہوگی"۔ اور پھر خلافت کا سورج دوبارہطلوع ہوگا اور اللہ دشمنوں کے خلاف آپ کی مدد فرمائے گا(إِنْ تَنْصُرُوا اللَّهَ يَنْصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ)"اے لوگو جو ایمان لائےہو! اگر تم اللہ (کے دین) کی مدد کرو گے تو وہ تمھاری مدد کرے گا اور تمھیں ثابت قدم رکھے گا"(محمد:7)۔ اورپھر امریکہ اور اس کے اتحادی ناکام و نامرادواپس لوٹیں گے ،اور ایسا کرنا اللہ کے لیے کچھ بھی مشکل نہیں (وَمَا ذَلِكَ عَلَى اللَّهِ بِعَزِيزٍ)" اور اللہ پر یہ کام کچھ بھی مشکل نہیں"(ابراھیم:20)۔

Read more...

کیا شام کی بیواؤں کی فریاد سننے والا کوئی خلیفہ معتصم ہے!

پریس ریلیز

سعودی وزیر خارجہ سعود الفیصل نےاتوار کی شام 1ستمبر2013 کوقاہرہ میں منعقد ہونے والے عرب وزرا کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے اس بات پرزوردیا کہ شامی عوام کو بچانے کے لیے کسی بھی عمل کو غیر ملکی مداخلت نہیں کہا جاسکتا۔اس نے یہ مطالبہ کیا کہ بین الاقوامی برادری شامی عوام کے خلاف اس یلغار کو روکنے کی کوشش کرے ،اس سے پہلے کہ سب کو قتل کردیا جائے۔
ہم سعود الفیصل سے سوال کرتے ہیں کہ وہ اور دوسرے تمام احمق جنہوں نے قاہرہ کے اِس اجتماع میں اُس کو سنا، سب کے اندر سے خلیفہ معتصم کی سی غیرت کہاں چلی گئی؟شام کے ظالم و جابر اورسرکش کو لگام دینے کے لیے کفار کی قیادت اور کفر کی افواج کے سامنے سوالی بننےپرتم کو شرم نہیں آتی جبکہ تم سب بشار جیسےہی ظالم و جابر اور سرکش ہو!!وہ افواج کہاں ہیں جن کے ذریعےتم نے امت کی دولت لوٹی ہے اورمسلسل لُوٹ رہے ہو؟؟یا تم اِن افواج کو اس دن کےلیے جمع کر رہے ہو جب امت تمہارے ظلم اور خیانت کے خلاف بھڑک اٹھے گی؟
اے امت مسلمہ:
ان نام نہاد ''لیڈروں"کی حقیقت تمہارے سامنے آشکار ہو چکی ہے کہ ان میں کوئی بھی ایسا نہیں جس کے اندر خلیفہ معتصم کی سی غیرت ہو بلکہ یہ پاک دامن خواتین اور بچوں کی مدد کے لیے ہمارے اُن صلیبی دشمنوں سے مدد مانگتے ہیں جو مومنوں کے بارے میں کسی قرابت یا رشتے کا لحاظ نہیں کرتے؟ہم اِن غدارقائدین کے جرائم کو ابھی بھولے نہیں ہیں،ان پر شاعر کا یہ قول صادق آتا ہے:
''کتنے یتیموں نے منہ بھر کر پکارا:ہائے معتصم ۔
جس کو ان (غدارقائدین)کے کانوں نے سن تو لیا لیکن یہ معتصم کی سی بہادری کی طرز پر حرکت میں نہیں آئے ۔
اگر چرواہا ہی اپنی بکریوں کا دشمن ہو تو بھیڑیے کو ملامت نہیں کی جاسکتی"
ہم الفیصل اور اس کے ساتھ قاہرہ میں اکھٹے ہو نے والوں سے کہتے ہیں:
تمہیں انسانی جان کی عصمت اور انسانی خون کی حرمت کا پورا علم ہے،اورتم یہ واضع طور پر جانتے ہو کہ تم سب احمق اور دنیا کے خواستگار اور اپنے مغربی آقا کی خدمت میں مشغول ہو۔۔۔اورہم نے تمھیں آج تک کبھی بھی یہود کے جرائم کو چیلنج کرتے بلکہ ان کے سامنے سر اٹھا کر بات کرنے کی ہمت کرتے ہوئے بھی نہیں دیکھا ۔
لیکن ہم امت مسلمہ میں سے ہر اُس شخص سے مخاطب ہیں جس کے دل میں ایمان کی تھوڑی سی بھی چنگاری ابھی باقی ہے ،اُن میں سے بھی سب سے پہلے اُن سپاہیوں اور افسران سے جو اِس ذلت اور رسوائی کا رخ موڑنے پر قادر ہیں کہ کیا تم نے اللہ کے اس فرمان کو نہیں سنا ہے:
((وَمَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنْ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ هَذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ أَهْلُهَا وَاجْعَل لَنَا مِنْ لَدُنْكَ وَلِيًّا وَاجْعَل لَنَا مِنْ لَدُنْكَ نَصِيرًا))
"تمہیں کیا ہو گیا ہے جو تم اللہ کی راہ میں نہیں لڑتے حالانکہ ستائے گئے مرد،عورتیں اور بچے پکار رہے ہیں کہ اے ہمارے رب ہمیں اس ظالم بستی سے نکال دے جس میں رہنے والے ظالم ہیں اور ہمارے لیے اپنی طرف سے سرپرست اور مدد گار مہیا کر دے"(النساء:75)۔
کیا تم نے رسول اللہ ﷺکی یہ حدیث نہیں سنی ہے کہ :
( إنما الإمام جنة يقاتل من ورائه ويتقى به)
"صرف خلیفہ ہی ڈھال ہے جس کی قیادت میں لڑا جاتا ہے اور اسی کے ذریعے حفاظت ہوتی ہے"(مسلم)۔
آپ ﷺ کا یہ فرمانا کہ "خلیفہ ہی ڈھال ہے"کا مطلب یہ ہے کہ وہ محافظ ہے کیونکہ وہ مسلمانوں کو کفار کی جانب سے ایذا رسانی سے محفوظ رکھتا ہے اور اسلام کی حفاظت کرتا ہے،اور "جس کی قیادت میں لڑا جاتا ہے"کا مطلب ہے کہ خلیفہ کی مدد سے کفار اور دوسرے لوگوں بلکہ ہر قسم کے فسادیوں اور ظالموں سے لڑا جاتا ہے (یہ امام النووی کی صحیح مسلم کی تشریح سے ہے)۔
اے فوج کے سپاہیوں اور افسران !تم اس امت کے فرزند ہو جس نے سورماؤں کو جنم دیا اس لیے الرحمن و الرحیم ،اللہ سبحانہ و تعالی کی اطاعت اور خلیفہ کی بیعت کی طرف دوڑ کر آؤ جو اللہ کے دین کی مدد اور اس کے کلمے کو بلند کرنے کے لیے تمہاری قیادت کرے گا ،یوں تم دنیا اور آخرت کی عزتوں کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاؤ گے۔ اورخبردار ان فرعونوں کے سپاہی مت بنو جو اللہ الواحد الاحد کی مدد سے عنقریب اپنی حکومتوں سمیت نیست ونابود ہو نے والےہیں۔
((وَاللَّـهُ غَالِبٌ عَلَىٰ أَمْرِ‌هِ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَ‌النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ))
"اور اللہ اپنے فیصلے میں غالب ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے"(یوسف:21)

عثمان بخاش
ڈائریکٹر مرکزی میڈیا آفس حزب التحریر

 

Read more...

غدارشامی قومی اتحاد اور سازشی عرب لیگ، اللہ کے دشمن امریکہ سے اُسی کے ایجنٹ بشار کے جرائم کے خلاف مدد مانگ رہے ہیں!

پریس ریلیز

شامی انقلاب اور اپوزیشن قوتوں کے قومی اتحاد کے سربراہ احمد الجربا نے اتوار یکم ستمبر کو عرب لیگ سے بشار حکومت کے خلاف عسکری کاروائی کی حمایت کا مطالبہ کیا۔عرب وزرائے خارجہ کے ہنگامی اجتماع کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے الجربا نے کہا:"میں مکمل بھائی چارے اور انسانیت کی بنیاد پر آپ سے شامی حکومت کی جانب سے استعمال کیے جانے والے آلہ قتل کے خلاف بین الاقوامی کاروائی کی حمایت کا مطالبہ کرتا ہوں"۔
31 اگست 2013 کو امریکی سیکریٹری خارجہ جان کیری نے فون کال کے ذریعے الجربا کو مطمئن کرنے کی کوشش کی کہ صدر اوباما دمشق کے مضافات میں کیمیائی حملے کرنے پر بشار حکومت کا محاسبہ کرنے کے لیے بدستور پر عزم ہیں،اسی کے پیش نظر قاہرہ میں ہونے والی عرب لیگ کے وزرائے خارجہ کےاجتماع کے اختتامی بیان میں اقوام متحدہ اور عالمی برادری سے مطالبہ کیا گیاکہ وہ" اس جرم کا ارتکاب کرنے والی شامی حکومت کو منہ توڑ جواب دینے کے لیے سخت اقدامات اٹھائے"۔
ایسا لگ رہا ہے کہ امریکہ کے پالے پوسے ایجنٹوں نے سرکش بشار کے سقوط کے بعد شام میں حکمرانی کی باگ ڈور سنبھالنے کے لیے جلد بازی میں اپنے منحوس چہروں سے نقاب ہٹادیا ہے،اور اپنی امریکہ کی خاطر دلالی اور کاسہ لیسی کو ظاہر کیا ہے اوراب وہ دھوکہ دہی اور فریب کی ضرورت بھی محسوس نہیں کر رہے ہیں۔امریکہ کی جانب سے بنا یا جانے والا یہ ایجنٹ قومی اتحاد، کافر مغرب کی دلالی میں سب کے سامنے بے ستر ہو گیا ہے۔اسی لیےاس نے سب سے پہلے شام کے خلاف امریکی حملے کو خوش آمدید کہا!
ہم اُن اندھوں اور صراط مستقیم سے بھٹکے ہوئے لوگوں سے کہتے ہیں کہ کیا اب بھی تم یہ نہیں سمجھ رہے ہو کہ امریکہ اللہ، اس کے رسولﷺ اور مومنین کا دشمن ہے۔پھر کس طرح ایک مسلمان اپنا معاملہ دشمنوں کے سپرد کرسکتا ہے؟!کس طرح کوئی عقلمند شخص امریکہ سے خیر کی توقع کرسکتا ہے؟!کیا تم یہ بھول گئے کہ امریکہ ہی نے سالہاسال سے اس حکومت کو پالا پوسا ہے ؟!امریکہ ہی شام میں مسلمانوں کے قتل عام اور ان کا خون بہانے کے لیے بشار کو مہلت پر مہلت دیتا رہا ہے؟!یا تم یہ بھول گئے کہ امریکہ نے مشرق ومغرب میں کس کس قسم کے قتل و غارت گری کا ارتکاب کیا ہے؟!پھر کیونکر ایک مسلمان امریکہ کی سازش سے بے فکر ہو سکتا ہےیا اُس سے بھلائی کا گمان کرسکتا ہے؟!سنو امریکہ ہی مسلمانوں کا دشمن نمبر ایک ہے۔اس لیے کسی بھی حالت میں شام کے سرکش سے جان چھڑانے کے لیے اس سے مددلینا جائز نہیں،
(( ولن يجعل الله للكافرين على المؤمنين سبيلا))
"اللہ کافروں کو مومنین پر کبھی بالادستی نہیں دیتا"(النساء:141)
اے شام کے نیکو کار انقلابیو :اپنی کمر کس لو اور اپنے زور بازو پر بھروسہ کرو،
((اصبروا وصابروا ورابطوا))
"صبر کرو صبر کی تلقین کرو اور ایک دوسرے کا دست وبازو بنو"(ال عمران:200)
یاد رکھو امریکی ایجنٹ بشار کو اللہ کے دشمن امریکہ کے نجس ہاتھوں سے نہیں اپنے باوضو ہاتھوں سے کرسی سے اٹھا کر پٹخ دو۔
((يا أيها الذين آمنوا لا تتخذوا عدوي وعدوكم أولياء تلقون إليهم بالمودة وقد كفروا بما جاءكم من الحق))
"اے لوگوں جو ایمان لائے ہو! میرے اور(خود) اپنے دشمن کو اپنا دوست مت بناؤ۔تم تو دوستی سے اُن کی طرف پیغام بھیجتے ہواور وہ اس حق کے ساتھ جو تمہارے پاس آچکا ہے کا انکار کرتے ہیں"(الممتحنہ:1)

 


عثمان بخاش
ڈائریکٹر مرکزی میڈیا آفس حزب التحریر

Read more...

مسلم دنیا میں اردو بولنے والوں کے لیے حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کی اردو ویب سائٹ

حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کی ایک اردو ویب سائٹ ہے جس کو www.domainnomeaning.com کے ذریعے دیکھا جاسکتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی امت میں اردو بولنے ، لکھنے اور سمجھنے والےکروڑوں مسلمانوں کے لئے یہ اردو ویب سائٹ معلومات حاصل کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ اس ویب سائٹ پر پوری مسلم دنیا میں خلافت کے قیام کے لیے کام کرنے والی جماعت حزب التحریر کی انڈونیشیا سے لے کر مراکش تک مختلف ولایات کی جانب سے جاری کی گئیں پریس ریلیزز اور لیفلٹ دیکھے جاسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس ویب سائٹ پر مسلم دنیا میں حزب التحریر کی خلافت کے قیام کی زبردست جدوجہد کے حوالے سے تحریریں ،تصاویر، آڈیوز اور ویڈیوز بھی دیکھی جاسکتی ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ اس ویب سائٹ کے ذریعے حزب التحریر کے امیر،مشہور رہنما اور فقیہ، شیخ عطا بن خلیل ابو الرَشتہ سے سوالات بھی پوچھے جاسکتے ہیں۔
یقیناً اردو زبان کی موجودگی خلافت کا تحفہ ہے کیونکہ یہ زبان ریاستِ خلافت کی مسلم افواج کی فوجی چھاؤنیوں میں وجود میں آئی تھی جن میں ترکی، فارس، عرب اور برِصغیر پاک و ہند سے تعلق رکھنے والے مسلمان موجود ہوتے تھے۔درحقیقت لفظ اردو ترک زبان کا لفظ ہے جس کے معنی "لشکر" کے ہیں۔ آج کے دن تک اردو کا رسمُ الخط، اس کےالفاظ اور طرزِ تحریر قرآن اور خلافت کی سرکاری زبان عربی پر بے حد انحصار کرتی ہے۔
حزب التحریر ولایہ پاکستان اردو زبان استعمال کرنے والے صحافیوں، میڈیا اور سوشل میڈیا کو اس بات کی دعوت دیتی ہے کہ وہ حزب التحریر کی جدوجہد اور کام سے مسلسل آگاہی کے لیےاس بہترین ویب سائٹ کو استعمال کریں۔

 

 

 

ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کا میڈیا آفس

Read more...

امریکہ کا افغانستان سے انخلاء پاکستان کی مدد کے بغیر ممکن نہیں

تحریر: خالد صلاح الدین
امریکہ کے لیے پاکستان کی سٹریٹیجک اہمیت ایشیا کے حوالے سے سے بہت زیادہ ہے اور یہ حقیقت واضح بھی ہے۔ ایشیا اور ایشیا پیسیفک کے لیے امریکی منصوبوں کےلیے انتہائی اہمیت رکھنے والے دو ممالک بھارت اور افغانستان کی سرحدیں بھی پاکستان سے ملتی ہیں۔امریکہ کی پاکستان ، افغانستان اور پورے یوریشیا کے لیے حکمت عملی پوری امت کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل ہے ۔
وسطی ایشیا کے ممالک کی اپنے محل و وقوع کے حوالے سے بہت اہمیت ہے کیونکہ یہ چین اور روس کے درمیان واقع ہیں۔ اس کے علاوہ ان ممالک میں موجود تیل و گیس کے وسیع ذخائر بھی اہمیت کے حامل ہیں۔ روس کے لیے ان ممالک کی یہ اہمیت ہے کہ وہ ان وسائل تک رسائی اور کنٹرول حاصل کر کے ان کی رسد(سپلائی) پر اپنی گرفت کو مزید مضبوط بنا سکتا ہے۔ اگر یہ وسائل اس کے ہاتھ سے نکل جاتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ خطے میں مختلف معاملات پر اس کے حاوی ہونے کی صلاحیت متاثر ہوجائے گی۔ چین کے لیے بھی ان وسائل تک رسائی اپنی بہت بڑی آبادی کی ضروریات کو پورا کرنےاور معاشی ترقی کے لیے انتہائی ضروری ہے ۔
یہ وہ جیو سٹریٹیجک معاملات ہیں جن کی بناء پر امریکہ اس خطے میں داخل ہونے کی شدید خواہش رکھتا ہے۔ ماضی میں امریکہ نے روسی جارحیت کو بنیاد بنا کر خطے میں اپنی مداخلت کے لیےپاکستان اور افغان مجاہدین کی حمائت کرنے کا جواز پیش کیا تھا۔ اس کے علاوہ یہ خیال بھی عام ہے کہ افغانستان سے روس کی واپسی کے بعد امریکہ بھی اچانک چلا گیا تھا اور پاکستان اور افغانستان کو تنہا چھوڑدیا گیا تھا۔ لیکن حقیقت یہ تھی کہ پاکستان ،آئی،ایس،آئی کے ذریعے امریکی خواہش کے مطابق اپنا کردار ادا کررہا تھا ۔ اس وقت خطے میں امریکہ کی اپنی موجودگی کی کوئی خاص ضرورت نہ تھی۔
لیکن خطے میں سیاسی اسلام کی مضبوط ہوتی پکار اور اس کے ساتھ ساتھ طالبان کا امریکی احکامات کو ماننے سے انکار کردینا اور 11/9کے واقع نے امریکہ کے لیے وہ بہانہ مہیا کردیا کہ وہ خطے میں بھر پور طریقے سے داخل ہوجائے۔
یقیناً امریکہ نے دس سال یہ جنگ اس لیے نہیں لڑی کہ وہ افغانستان کرپٹ جنگجو کمانڈروں یا آئی۔ایس۔آئی کے حوالے کردے کیونکہ وہ دونوں پر ہی بھروسہ نہیں کرتا۔ امریکہ خطے میں لمبے عرصے تک رہنا چاہتا ہے اور عراق اور دیگر مسلم ممالک میں اپنے اڈے بنانے کی پالیسی کو جاری و ساری رکھنا چاہتاہے۔ حالیہ عرصے میں افغانستان اور امریکہ کے درمیان جس سٹریٹیجک معاہدے پر دستخط ہوئے ہیں اس کا بنیادی مقصد افغانستان میں امریکی اڈوں کا قیام اور عورتوں، بچوں اور بوڑھوں پر گولیاں چلانے والے امریکی فوجیوں کے لیےکسی بھی جرم سے متعلق سزا سے استثناء حاصل کرنا ہے۔ یہ دو مقاصد ابھی تک پورے نہیں ہوئے ہیں جبکہ ان مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے امریکہ خطے میں موجود اپنے ایجنٹوں کے ساتھ مسلسل کام کررہا ہے۔ 9 مئی 2013 کو حامد کرزئی نے اعلان کیا کہ " امریکہ افغانستان میں نو اڈے قائم کرنا چاہتا ہے"۔ اس نے یہ بھی کہا کہ " امریکہ کو یہ اڈے دینے پر ہم رضا مند ہیں" اور مزید کہا کہ " ان مسائل پر امریکہ کے ساتھ سنجیدہ مذاکرات ہوئے ہیں"(اے۔ایف۔پی)۔
14ستمبر 2013 کو پاکستانی سینیٹر مشاہد حسین نے اپنے چار روزہ دورہ کابل سے واپسی پر ایک بیان دیا جسے Xinhuanetنے رپورٹ کیا ۔ اس نے کہا کہ امریکہ اور نیٹو کی تقریباً 20ہزار افواج افغانستان میں موجود رہیں گی۔ اس نے وضاحت کی کہ افغانستان اور پاکستان میں تقریباً ایک لاکھ سے زائد امریکی نجی اہلکار سیکیوریٹی اور دوسرے معاملات دیکھ رہے ہیں۔ اور ان کی تعداد میں نیٹو افواج کے جانے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
12ستمبر2013 کو ملٹری ٹائمز میں شائع ہونے والے مضمون میں جنرل جوزف ایف ڈینفورڈ ، جو افغانستان میں ایساف اور امریکی افواج کے کماندڑ ہیں نے کہا کہ " 2015 کے شروع میں امریکہ اور اتحادی افواج ایک نیا ، مختصرلیکن اہم مشن شروع کریں گے جس کا نام ریزولیوٹ سپورٹResolute) Support)ہوگا۔ اس میں اس بات پر توجہ دی جائے گی کہ افغانستان کے سیکیوریٹی کے اداروں میں ترقی کے عمل کو مکمل کیا جائے۔ امریکی فوجی،مشیر کی حیثیت سے افغانیوں کو منصوبہ بندی، بجٹنگ، مواصلات اور انٹیلی جنس کی مہارت اور صلاحیت بڑھانےمیں مدد فراہم کریں گے۔ پہلے کی نسبت کم فوجیوں سے امریکہ اور ہمارے اتحادی ان فوائد کو برقرار رکھ سکیں گے جنھیں بہت محنت سے حاصل کیا گیا ہے اور اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ جو کچھ ہم نے پچھلے بارہ سالوں میں حاصل کیا ہے اس کو برقرار رکھا جائے۔ اگرچہ افغانیوں کو اب بھی کئی مشکلات کا سامنا ہےلیکن امریکہ سمجھتا ہے کہ وہ ایک اہم مقصد کی تکمیل کے لیے صحیح سمت میں بڑھ رہے ہیں۔ ہم ایک ایسے نتیجے کے لیے بہترین مدد فراہم کرسکتے ہیں جوخطےمیں ہماری مسلسل موجودگی کے ذریعے،افغان عوام اورافغان نیشنل سیکیوریٹی فورس کی حمائت کر کے،اصلاحات کے نفاذکےلیےافغان حکومت کااحتساب کر کےاورمسئلہ کےسیاسی حل تک پہنچنےمیں مددفراہم کرکے، ہمارے قومی مفاد ات کا تحفظ کرے گا"۔
جس مشن کو بہت مختصر کہا جارہا ہے اس میں بھی ایک بڑی تعداد ملوث ہو گی یعنی ایک لاکھ بیس ہزار فوجی، اور ان کی موجودگی امریکی مفادات کوتحفظ فراہم کرنے کے نام پردرست قرار دی جائے گا ۔
امریکہ کی جانب سے ان اڈوں کی فراہمی کا مطالبہ قدرتی اور اس کے اہداف سے مکمل مطابقت رکھتا ہے۔ امریکی اڈوں کی موجودگی امریکہ کو اس قابل بنائے گا کہ اگر اس کے کسی بھی فیصلے کو نافذ کرنے میں افغان حکومت ناکام ہوجائے یا وہ اس کے نفاذ میں دلچسپی نہ لے تو امریکہ اپنے فیصلوں کے نفاذ کے لیے اس پردباؤ ڈال سکے ۔لہذا امریکی انخلاء کا منصوبہ نہ صرف محض ایک نعرہ ہے بلکہ وہ عقلی منطق سے بھی متصادم ہے۔
امریکہ افغانستان میں اڈے قائم کرنا چاہتاہے لیکن امریکہ یہ بھی جانتا ہے کہ سیاسی لحاظ سے غیر مستحکم افغانستان اس کے سٹریٹیجک اہداف کی تکمیل میں روکاٹ کا باعث بن جائےگا۔ افغانستان میں استحکام وسطی ایشیا ئی ممالک میں داخل ہونے اوران کے قدرتی وسائل کو اپنے قابو میں کرنے کے لیے ضروری ہے۔ وسطی ایشیائی ممالک سمندر وں سے دور ہیں اور اس وجہ سے وہ تجارت کے لیے دوسرے ممالک پر انحصار کرنے پر مجبور ہیں۔ مندرجہ ذیل تصویر ان سمتوں کا تعین کرتی ہے جن کی جانب ان ممالک سے نکلنے والی تجارتی شاہراہیں ہو سکتی ہیں ۔
امریکہ چاہتا کہ کہ ان وسائل کو دنیا تک پہنچانے کے لیے افغانستان اور پاکستان کا راستہ اختیار کیا جائے۔ یہاں سے سمندر تک پہنچنے کا سب سے مختصر رستہ افغانستان اور پاکستان سے ہی ممکن ہے۔ اس کے علاوہ عالمی معاشی بحران کے دوران اس قسم کا مختصر ترین راستہ ان وسائل کو دنیا تک پہنچانے پر آنے والے خرچے کو بھی مختصر ترین کردیتا ہے۔ روس کا راستہ اختیار کرنا مشکلات سے بھرپور ہے۔ مثال کے طور پر جنوری 2009 میں یوکرین کے ساتھ ایک تنازعہ میں روس نے گیس کی سپلائی مکمل طور پر بند کردی جس کے نتیجے میں یورپ کو دی جانے والی گیس میں 60فیصد کی کمی واقع ہو گئی تھی۔
اگر افغانستان میں استحکام قائم ہو جاتا ہے تو امریکہ وسطی ایشیائی ممالک کو آسانی سے افغانستان اور پاکستان کا راستہ اختیار کرنے پر راضی کرسکتا ہے۔ وسطی ایشیائی ممالک کے لیے اس میں یہ فائدہ ہے کہ اس طرح انھیں دو عالمی پاورز ، امریکہ اور چین کے ساتھ معاملات کرنے کا موقع حاصل ہوجائے گا جو کہ ایک منفرد سیاسی فائدہ ہے۔
امریکہ نے ترکمانستان، افغانستان، پاکستان، بھارت(TAPI) پائپ لائن کے لیے بہت کام کیا ہے جبکہ اس منصوبے کے ساتھ ساتھ وہ ایران،پاکستان، بھارت(IPI) پائپ لائن کی مخالفت کررہا ہے۔ یہ دونوں پائپ لائنز بھارت کو توانائی فراہم کریں گی جیسا کہ درج ذیل تصویر میں بھی دیکھا یا گیا ہے لیکن TAPIزیادہ بہتر طریقے سے امریکی اہداف کو پورا کرسکے گی۔
اس کے علاوہ TAPIپائپ لائن کا منصوبہ ، اس کی تعمیر اور اس کو محفوظ رکھنا خطے میں امریکی افواج کی موجودگی کا ایک اچھا جواز بھی فراہم کرتی ہے۔
ان باتوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے جبکہ امریکہ اپنے ایجنٹ کرزئی کے ذریعے افغانستان میں اڈے بھی حاصل کر لے گا ، امریکہ یہ بات جانتا ہے کہ طالبان کے ساتھ امن معاہدے کے بغیر افغانستان میں استحکام قائم نہیں کیا جاسکتا۔ امریکہ طالبان کو امن مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے پاکستان کو ایک اہم مہرے کے طور پر دیکھتا ہے اور اس نے اپنے ایجنٹ کرزئی کو اسی سمت میں ہدایت دی ہے ۔ اپنے حالیہ دورہ پاکستان میں افغان صدر حامد کرزئی نے کہا کہ " ہم نے اس سلسلے میں بات کی ہے۔۔۔۔۔۔اس انفرادیت کے ساتھ کہ پاکستان کی حکومت جس طرح سے بھی اس کے لیے ممکن ہو ، افغانستان میں امن اور اس کے قیام کے لیے مواقعوں کی فراہمی یا طالبان اور افغان امن کونسل کے درمیان بات چیت کے لیے پلیٹ فارم کی فراہمی کے لیے مدد اور سہولت فراہم کرے گی"۔
یقینا امریکہ کا پاکستان پر انحصار بہت زیادہ ہے جیسا کہ امریکی چیرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف مارٹن ڈیمسی نے 19جولائی2013کواکنامک ٹائمز میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں کہا کہ"ہمارے سٹریٹیجک اور قومی سلامتی کے اہداف اب بھی یہ ہیں کہ القائدہ کو شکست دی جائے اور اسے ختم کردیا جائے اور افغانستان اور پاکستان میں محفوظ پناہ گاہوں کو دوبارہ قائم ہونے سے روکا جائے۔ پاکستان کی مدد کے بغیر یہ ممکن نہیں ہے"۔
امریکہ پاکستان کی مدد کے بغیر نہ تو القائدہ کو شکست دے سکتا ہے اور نہ ہی طالبان کو امن مذاکرات کی میز پر لاسکتا ہے۔ لہذااٖفغانستان میں فوجی و سیاسی حل کی کامیابی پاکستان کی مدد کے بغیر ممکن ہی نہیں۔
اٖفغانستان میں سیاسی استحکام کے ساتھ ہی وسطی ایشیائی ممالک کے توانائی کے وسائل افغانستان اور پاکستان کے ذریعے نکلنا شروع ہوجائیں گے۔ یہ توانائی بحیرہ عرب کراچی یا گوادر کے ذریعے اور بھارت ملتان کے راستے پہنچے گی۔ توانائی کے وسائل کی فراہمی کے ذریعے بھارت کو مضبوط کرنے کی کوشش چین کو گھیرنے کے امریکی منصوبے کا حصہ ہے اور یہ بھی پاکستان کے بغیر ممکن نہیں۔
خلاصہ یہ ہے کہ امریکہ کو پاکستان کی ضرورت ہے تا کہ طالبان کو مذاکرات کی میز پر لایا جائے۔ لہذا مستحکم افغانستان کے لیے پاکستان کا کردار ایک کنجی کی حیثیت رکھتا ہے۔ وسطی ایشیائی ممالک سے توانائی کے وسائل کو افغانستان اور پاکستان کے راستے دنیا تک پہنچانے کے لیے ایک مستحکم افغانستان ضروری ہے۔ توانائی کے ان وسائل تک بھارت کو رسائی فراہم کر کے بھارت میں موجود توانائی کے شدید بحران کو ختم کرنے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ یہ امریکہ کے اس منصوبے کا حصہ ہے جس کے تحت چین کے خلاف بھارت کو کھڑا کرنا مقصود ہے۔ لہذا یہ تمام صورتحال خطے میں پاکستان کو اہم ترین ریاست بنا دیتی ہے۔

Read more...

امریکہ افغانستان سے کیوں نکلنا چاہتا ہے

عابد مصطفیٰ

حالیہ دنوں میں افغانستان سے امریکی انخلاء کے متعلق بہت کچھ شائع ہوا ہے ۔ اس انخلاء کے منصوبے پر 2014 میں عمل درآمد کرنے کا ارادہ ہے۔ لہذا یہ ایک اچھا موقع ہے کہ اس بات کا جائزہ لیا جائے کہ آیا امریکہ نے افغانستان کے حوالے سے اپنے تضویراتی (سٹریٹیجک)منصوبےمیں کوئی تبدیلی کی ہے یا یہ انخلاء محض ایک آپریشنل منصوبے کا ایک حصہ ہے۔ اگر یہ آپریشنل منصوبے کا ہی حصہ ہے تو پھر وہ کیا وجوہات ہیں جن کی بنا پر واشنگٹن افغانستان سے نکلنے پر مجبور ہو رہا ہے۔ اس مضمون میں اسی سوال کا جواب دینے کی کوشش کی جائے گی۔
سب سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ امریکہ کے لیے افغانستان کی کیا اہمیت ہے۔ اگر آپ 20اکتوبر 2010کو جاری کیے گئے سوال و جواب کو یاد کریں تو ہم نے یہ کہا تھا کہ افغانستان پر امریکی حملے کے تضویراتی(سٹریٹیجک) اہداف یہ تھے:
1۔ یوریشیا میں روس اور چین کی پیش رفت اور بالادستی کو روکنا
2۔ریاست خلافت کے قیام کو روکنا
3۔ کیسپین کے سمندر اور مشرق وسطی میں موجود تیل وگیس کے ذخائر کو اپنے قبضے میں لانا
4۔ کیسپین کے سمندر اور مشرق وسطی سے نکلنے والے تیل و گیس کی سپلائی کے راستوں اور ان کی حفاظت کے معاملات کو اپنے قبضے میں رکھنا

اس تجزیے کے شواہد یہ تھے:
"یوریشیا میں دنیا کی سب سے زیادہ سیاسی لحاظ سے مضبوط اور متحرک ریاستیں موجود ہیں۔ تاریخی طور پر عالمی قیادت کے دعوے دار یوریشیا سے ہی اٹھتے رہے ہیں۔ علاقائی سطح پر بالادستی کی شدید خواہش رکھنے والے دنیا کے سب سے بڑی آبادی والے ممالک چین اور بھارت اسی خطے یوریشیا سے تعلق رکھتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی امریکہ کی سیاسی و معاشی بالادستی کو چیلنج کرنے والےممالک بھی اسی خطے میں واقع ہیں۔ امریکہ کے بعد دنیا کی چھ سب سے بڑی معیشتیں اور اپنے دفاع پر خرچ کرنے والے ممالک بھی اسی خطے میں واقع ہیں اور اس کے ساتھ ہی ساتھ دنیا کے تمام اعلانیہ اور غیر اعلانیہ ایٹمی ریاستیں بھی اسی خطے میں موجود ہیں۔ دنیا کی کُل آبادی کا 75فیصد یوریشیا میں آباد ہےجبکہ دنیا کی 60فیصد کُل قومی پیداوار اور 75 فیصد توانائی کے وسائل بھی اسی خطے میں موجود ہیں۔ یوریشیا کی مجموعی طاقت امریکہ کی طاقت سے آگے نکل جاتی ہے۔ جو طاقت یوریشیا میں بالادستی حاصل کرے گی وہ لازماً دنیا کے تین میں سے دو انتہائی اہم معاشی طاقت کے حامل خطوں ، مغربی یورپ اور مشرقی ایشیا میں بھی فیصلہ کن اثرو رسوخ اورطاقت کی حامل بھی ہوگی۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی مشرق وسطیٰ اور افریقہ کو بھی اپنے اثرو رسوخ کے طابع کردے گی۔ یوریشیا کے اتنے وسیع خطے میں جس طرح سے بھی طاقت کی تقسیم ہو گی تو اس کا فیصلہ کُن اثر امریکہ کی عالمی بالادستی اور اس کی تاریخی روایت پر بھی پڑے گا"۔(زےبیگنیو بریسینسکی، "یوریشیا کے لیے سٹریٹیجی"،فارن افئیرز، ستمبر/اکتوبر1997)
"امریکہ کا یہ لازمی ہدف ہے کہ یوریشیا کے خطے میں کسی بھی اہم اور بڑی طاقت کو قائم ہونے سے روکا جائے۔ اس مقصد کو وہ اس طرح سے حاصل کرے گا- ان مداخلتوں کا مقصد کبھی بھی یہ نہیں تھا کہ کچھ حاصل کرنا ہے ۔چاہے سیاسی طور پر کچھ بھی کہا جاتا رہےلیکن ان مداخلتوں کا مقصد کسی ہونے والی چیز کو روکنا ہے۔ امریکہ ان خطوں میں استحکام نہیں چاہتا جہاں ایک اور طاقت پیدا ہونے کا امکان موجود ہو۔ اس کا مقصد استحکام کا قیام نہیں بلکہ عدم استحکام کا قیام ہے اور اس سے اس بات کی وضاحت ہوجاتی ہے کہ امریکہ نے اسلامی زلزلے کا سامنا کس طرح سے کیا ہے۔ وہ ایک بڑی اور طاقتور اسلامی ریاست کے قیام کو روکنا چاہتا ہے۔ اگر نعرے بازی کو ایک طرف رکھ دیا جائے تو یوریشیا میں امن کا قیام امریکہ کا کوئی اہم ہدف یا مفاد نہیں ہے۔ اس کے علاوہ امریکہ کو اس بات سے بھی کوئی سروکار نہیں کہ وہ جنگ جیت جائے۔۔۔۔ان تنازعات کا مقصد صرف ایک طاقت کو ابھرنے سے روکنا یا خطے کو عدم استحکام کا شکار کرنا ہے ناکہ وہاں پر نظم و ضبط کو قائم کرنا"۔(جارج فرائڈمین،"اگلے سو سال-اکیسوی صدی کے لیے پیش گوئی"،2009)
ان اہداف کے حوالے سے ریپبلیکن اور ڈیموکریٹ میں کوئی اختلاف موجود نہیں ہے۔ لہذا دنیا کے اس خطے کے حوالے سے خارجہ پالیسی کے معاملات میں بش اور اوبامہ کے درمیان کوئی مقابلے بازی نہیں ہے۔ان دونوں جماعتوں کے درمیان جو بھی اختلاف ہوتے ہیں وہ آپریشنل سطح کے ہوتے ہیں ،مثلاً کیسے افغانستان پر امریکی قبضے کو قانونی بنایا جائے اور وہاں پر کسی حد تک استحکام کو قائم کیا جائے تا کہ اس کے بعد کے تضویراتی (سٹریٹیجک )اہداف کوحاصل کیا جاسکے۔آپریشنل سطح کے اختلافات ہی ہمیشہ بش اور اوبامہ کی حکومتوں کے درمیان رہے اور اب خود اوبامہ انتظامیہ میں بھی ہیں۔ لہذا آپریشنل حکمت عملی کئی بار تبدیل کی جاچکی ہے لیکن اوبامہ انتظامیہ کے دور میں کئی بار کی تبدیلیوں کے باوجود ،امریکہ کی حکمت عملی چار اہداف کو حاصل کرنے پر ٹہر گئی ہے اور وہ یہ ہیں:
1۔ افغان حکومت کی استعداد میں اضافہ کرنا تا کہ وہ ملک میں اپنی رِٹ قائم کرسکے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ افغان سیکیوریٹی فورسز، پولیس اور فوج کو تیار کیا جائے، وفادار اور قابل گورنر لگائے جائیں اور افغان حکومت میں بدعنوانی کو ممکن حد تک کم کیا جائے۔
2۔ القائدہ اورپشتونوں میں موجود ان جہادیوں کو جو امریکی قبضے کے خلاف ہیں ،تباہ و برباد کردیا جائے۔
3۔ اعتدال پسند طالبان کو میدان جنگ چھوڑنے اور مرکزی افغان حکومت میں شمولیت کے لیے رضا مند کیا جائے۔
4۔ افغانستان کے مسئلے کے امریکہ کے تجویز کردہ حل میں نیٹو، پاکستان،ایران،بھارت،روس،چین اور دوسرے ممالک کو بھی شامل کیا جائے یعنی کہ ایک طرح کے بین الاقوامی طرز کے طریقہ کار کو افغانستان کو درپیش چیلینجز کا سامنا کرنے کے لیے استعمال کیا جائے۔
اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ امریکہ کو اپنے آپریشنل اہداف کو حاصل کرنے میں بہت مشکلات درپیش ہیں اور اسی وجہ سے اوبامہ اور اس کے اتحادی اس بات کا بہت شدید ادراک رکھتے ہے کہ افغانستان کی جنگ کو جیتنا اب ممکن نہیں یعنی استحکام پیدا نہیں کیا جاسکتا جو کہ آپریشنل اہداف میں سے ایک ہدف تھا۔
وہ وجوہات جن کی بنا پر امریکہ کو افغانستان میں اپنی صورتحال کا جائزہ لینا پڑا
ایسی کئی وجوہات ہیں جن کی بنا پر امریکہ کو اپنی صورتحال کا دوبارہ جائزہ لینا پڑا:
اندرونی وجوہات
٭ 2008میں لی مین برادرز کے ڈوبنے کے بعد عالمی مالیاتی نظام شدید دباؤ میں آگیا اور تقریباً تباہ ہی ہوگیا تھا۔ اس بحران نے امریکہ اور یورپ کی معیشتوں کو اس قابل ہی نہیں چھوڑا کہ وہ مزید جنگوں اور دوسرے ممالک میں مداخلت کے اخراجات کو برداشت کرسکیں۔
٭ افغانستان اور عراق میں ہونے والی جنگوں نے امریکہ کی فوجی طاقت میں موجود تھکاوٹ کو واضع کردیا۔ اگر آسان لفظوں میں اس کو بیان کیا جائے تو وہ یہ ہے کہ امریکہ کے افواج اس قدر وسیع علاقے میں پھیل چکی ہیں کہ اب وہ مزید بیرون ملک فوجی میشنز کو پورا کرنے سے قاصر ہے۔ واشنگٹن اس وقت شدید دباؤ کا شکار ہے کہ وہ بیرون ملک موجود افواج کی تعداد میں مناسب حد تک کمی کرے۔
٭2003 میں عراق میں مداخلت کے وقت سے امریکہ وہ سپر پاور نہیں رہا جو وہ کبھی ہوا کرتا تھا ۔ دنیا کے کئی خطوں میں مسلسل دنیا کی اہم طاقتیں جیسے روس، برطانیہ اور فرانس اس کے خلاف دباؤ بڑھا رہی ہیں ۔ایشیا پیسیفک میں امریکہ چین کی بڑھتی ہوئی طاقت سے شدید پریشان ہےاور واشنگٹن یہ سمجھتا ہے کہ اگر اس نے بیجنگ کو کھلا چھوڑ دیا تو وہ اس خطے میں اس کی بالادستی کو چیلنج کرے گا۔ 2006 میں نیشنل انٹیلی جنس کونسل کے سابق نائب چیرمین گراہم فولر نے امریکہ کے دشمنوں کی جانب سے اسے درپیش چیلنجز کو یوں بیان کیا کہ:
"پچھلے چند سالوں میں کئی ممالک نے مختلف طریقوں سے بش کے ایجنڈے کو کمزور، تبدیل، محدود، تاخیر یا روکنے کے لیے ہزاروں زخم لگائیں ہیں۔ یہ مخالفین مختلف وجوہات اور بعض دفعہ محدود فائدوں کے حصول کے لیےاکٹھے ہوئے لیکن ان کے اتحاد کی وجہ جس کی متعلق عموماً خاموشی اختیار کی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ کسی بھی طرح طاقت کے ایک مرکز کی حامل دنیا کا خاتمہ کیا جائے"۔("سٹریٹیجک تھکاوٹ"، نیشنل انٹرسٹ،2006)
اس کے ساتھ ہی پچھلے ایک سال یا اس سے زائد عرصے کے دوران بین الاقوامی وجوہات نے بھی دو معاملات میں امریکی خارجہ پالیسی پر گہرے اثرات چھوڑے ہیں:
ا۔امریکہ 2001 سے افغانستان کی جنگ میں 550بلین ڈالر خرچ کرچکا ہے۔ اس کے علاوہ مسلسل دفاعی بجٹ میں کی جانے والی کمی نےامریکہ کے لیے مختلف محاذوں پر ایک ساتھ جنگ لڑنے کی صلاحیت میں شدید کمی پیدا کردی ہے۔ جنوری 2012 میں نیو یارک ٹائمز نے ایک مضمون اس وقت کے امریکی وزیر دفاع پنیٹا کے لیے لکھا جس میں فوجی بجٹ میں کمی کے طریقہ کار پر مشورے دیے گئے تھے۔ اس مضمون میں لکھا تھا کہ :
"مالیاتی مشکلات کی وجہ سے اہداف میں آنے والی تبدیلی اور پچھلی گرمیوں میں امریکہ کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لیے ہونے والے معاہدے کی وجہ سے ،اس بات کی توقع کی جاری ہے کہ جناب پنیٹا یہ بات واضع کردیں گے کہ پینٹاگون اب ایک ساتھ دو جنگیں نہیں لڑسکتا۔ بلکہ اس کی جگہ وہ یہ کہیں گے کہ فوج اس قدر ہی بڑی ہے کہ ایک وقت میں ایک اہم اور بڑی جنگ لڑ سکتی اور جیت سکتی ہےجبکہ اسی دوران دنیا کے کسی دوسرے حصے میں ایک اور دشمن کے عزائم کو کئی چھوٹے چھوٹے آپریشنز کر کے ناکام کرسکتی ہے جیسا کہ نو فلائی زون کو قائم کرنا یا تباہ حال لوگوں کو مدد پہچاناوغیرہ"۔
لہذا امریکہ نے، جو کبھی ایک ساتھ دو جنگیں لڑنے کی صلاحیت رکھتا تھا، بل آخر اِس بات کا اعتراف کرلیا کہ وہ اب ایک وقت میں صرف ایک ہی جنگ لڑسکتا ہے۔
ب۔ تو اب امریکہ اس بات پر مجبور ہو چکا ہے کہ وہ اس بات کا تعین کرے کہ دو میں سے کون سی ایک جنگ اسے لڑنی ہے۔ امریکہ کو اس وقت کئی چیلینجز کا سامنا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اسے عراق اور افغانستان کی جنگوں کے معاملات بھی دیکھنے ہیں اور ایشیا پیسیفک میں چین کے خلاف جنگ لڑنے کےساتھ ساتھ مشرق وسطی میں بھی لڑنے کے لیے خود کو تیار کرنا ہے۔ بار حال یہ چین کی ڈرامائی طاقت کا کمال ہے جو امریکہ کے پالیسی سازوں کے لیے اس وقت سب سے زیادہ پریشانی کا باعث ہے۔ مارچ 2012میں کانگریس کے تحقیقاتی ادارے نے ایک رپورٹ امریکی کانگریس کے لیے تیار کی جس کا عنوان تھا "پیسیفک کی جانب توجہ؟ اوبامہ انتظامیہ کی ایشیا میں ترتیب کو درست کرنا"۔ اس رپورٹ میں واضع طور پر کہا گیا ہے کہ:
"اس 'توجہ' کے پیچھے یہ یقین ہے کہ امریکہ کی خارجہ پالیسی ، قومی سلامتی اور معاشی مفادات کا ہدف تبدیل اور ایشیا کی جانب منتقل ہورہا ہے لہذا امریکہ کی ترجیحات اور مفادات کا اسر نو تعین کیا جاناضروری ہو گیا ہے۔ کئی ماہرین کے مطابق یہ لازمی ہے کہ امریکہ ایشیا پیسیفک کو زیادہ اہمیت دے۔ یقیناً کئی سالوں سے خطے میں موجود کئی ممالک نے امریکہ کو اس بات پر مجبور کیا ہے کہ وہ چین کے بڑھتے ہوئے اثرو رسوخ کو محدود کرنے کے لیے اقدامات اٹھائے"۔
افغانستان اور عراق میں امریکی افواج میں کمی اور اس کی بحری اور زمینی افواج کی ایشیاپیسیفک میں پیشقدمی یہ ظاہر کرتی ہے کہ امریکہ چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کو انتہائی سنجیدگی سے دیکھ رہا ہے اور اگر ضروری ہوا تو واشنگٹن فوجی محاذ آرائی کے لیے بھی تیار ہے۔ اسی کو اوبامہ کی ایشیا کی جانب توجہ کہا جاتا ہے جس کے تحت یورپ اور مشرق وسطی سے امریکی اثاثوں کو مشرقی ایشیا میں منتقل کیا جارہا ہے۔
علاقائی وجوہات
افغانستان میں دیر پا استحکام کے قیام میں تین علاقائی چیزوں نے امریکہ کے لیے اس معاملے کو پیچیدہ بنادیاہے۔
٭افغانستان میں امریکی قبضے کوبرقرار رکھنے کے لیے نیٹو نے ایک حد سے آگے جانے سے انکار کیا ہے جس کی قیادت یورپ کررہا ہے۔ 2003 میں جب افغانستان میں نیٹو نے بین الاقوامی سیکیوریٹی فورس کے پردے میں اپنا آپریشن شروع کیا تو اس وقت سے ہی کچھ یورپی ممالک نے اپنے افواج کو افغانستان بھیجنے میں زیادہ دلچسپی نہیں دیکھائی ہے۔ بیلجیم، اٹلی،فرانس اور جرمنی نے ہمیشہ ایسے بہانوں کو اختیار کیا ہے جن کی بنا پر ان کی افواج افغانستان کے نسبتاً پر امن علاقوں میں تعینات رہی ہیں۔ اسی طرح کئی نیٹو کیاجلاس اس مسئلے کو حل کرنے میں ناکام رہے ہیں اور امریکہ کے لیے اب یہ مشکل ہو چکا ہے کہ وہ اپنی تبدیل شدہ ترجیحات کے ساتھ افغانستان کے بوجھ کو بھی تنے تنہا ہی اٹھائے۔ 2012 میں شکاگو میں ہونے والی نیٹو سربراہی کانفرنس میں نیٹو ممالک نے بل آخر یہ تسلیم کرلیا کہ وہ افغانستان میں اپنے مشن کو ختم کردیں۔ کانفرنس کے اعلامیے میں کہا گیا کہ :
"دس سال کی جنگ کے بعد اور عالمی معیشت کے کمزور ہونے کی وجہ سے ، مغربی ممالک اب اس جنگ پر مزید خرچ نہیں کرنا چاہتے چاہے اس کا تعلق پیسے سے ہو یا جانوں سے۔ ان کی کوششوں کی قیمت ایک ایسے ملک میں لاحاصل ہے جس نے صدیوں تک بیرونی طاقتوں کے خلاف شدید مزاحمت کی ہے"۔
٭امریکہ مزید پاکستانی افواج کو قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشنز کرنے کے لیے حرکت میں لانے سے قاصر رہا ہے خصوصاً شمالی وزیرستان میں۔ اور یہ اس صورتحال میں ہوا ہے جبکہ اس کے ایجنٹ زرداری اور کیانی اور وہ لوگ جو سیاسی میدان میں موجود ہیں، نے اپنے آقاؤں کے احکامات کو پورا کرنے کی سر توڑ کوشش کی۔
٭افغانستان میں امریکہ کی کامیابی کو مشکل بنانے میں بھارت نے بھی ایک کردار ادا کیا جو برطانیہ کے زیر اثر ہے۔ بھارت نے یہ ہدف اس طرح حاصل کیا کہ امریکہ کی مسلسل گزارشات کے باوجود،اس نے پاکستان اور بھارت کے سرحد پر کشیدگی میں خاطر خوا کمی نہیں ہونے دی۔ لہذا پاکستان پھر اس قابل ہی نہیں ہو سکا کہ وہ مزید افواج کو افغانستان کی سرحد پر منتقل کرے اور مزاحمت کے خاتمے میں امریکہ کو مزید مدد فراہم کرسکے۔
اندرونی وجوہات
امریکی صدر اوبامہ اور امریکی فوجی قیادت کے درمیان افغانستان میں امریکی افواج کی تعداد اور ان کے انخلاء کے حوالے سے منصوبہ بندی میں اختلافات جنرل میک کرسٹل کی برطرفی اور امریکی و نیٹو افواج کے حوصلوں میں پستی کا باعث بنی۔ اس کے علاوہ پشتون مزاحمت نے امریکہ کے مسائل میں مزید اضافہ کردیا۔ امریکی جنرل جیمز کونوے ،جو کہ امریکی میرینز کے سربراہ بھی ہیں، نے انخلاء کی تاریخ کے حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔ اس نے کہا کہ :
"ہم سمجھتے ہیں کہ اس کے نتیجے میں (یعنی انخلاء کی تاریخ کا اعلان)دشمن کو فائدہ پہنچے گا۔ ہم نے ایک پیغام پکڑا تھا جس میں کہا گیا تھا 'ہمیں صرف کچھ عرصے کے لیے انتظار کرنا ہے'،۔۔۔۔میں ایمانداری سے یہ سمجھتا ہوں کہ ابھی ہمیں مزید کچھ عرصہ وہاں رہنے کی ضرورت ہے کہ جس کے بعد صورتحال اس قدر بہتر ہوجائے گی کہ ہم وہاں سے انخلاء کرسکیں"۔(امریکی جنرل:افغانستان میں انخلاء کی تاریخ دینا' دشمن کو فائدہ پہنچانے کے مترادف ہے'،بی۔بی۔سی نیوز لائن، 24اگست2010)
امریکی فوجیوں کے طرز عمل نے بہت جلد انھیں افغان معاشرے میں نا صرف انتہائی غیر مقبول بنادیابلکہ قابض فوجوں کے خلاف مزاحمت میں بھی زبردست شدت پیدا ہوگی۔ ان فوجیوں کے ذلیل طرز عمل میں قرآن کی بے حرمتی، مردہ مجاہدین کی لاشوں پر پیشاب کرنا، عورتوں اور بچوں کا قتل عام ، پشتون علاقوں میں آپریشنز کے لیے تاجک لوگوں کو استعمال کرنا اور بدعنوان اہلکاروں کی پشت پناہی کرنا شامل ہیں۔
لہذا ہم یہ کہہ سکتے ہیں بین الاقوامی، علاقائی اور اندرونی وجوہات نے امریکہ کو اپنی آپریشنل ترجیحات کو چھوڑنے اور طالبان سے براہ راست مزاکرات کرنے پر مجبور کردیا تا کہ ایک باعزت انخلاء کو ممکن بنایا جاسکے۔ لیکن اس کا قطعاً یہ مطلب نہیں ہے کہ امریکہ یوریشیا سے متعلق اپنے تضویراتی(سٹریٹیجک) اہداف سے دست بردار بھی ہوگیا ہے۔ وہ مستقبل میں بھی افغانستان کو اڈہ بنا کر خطے میں کاروائیاں جارے رکھے گا۔
لیکن انشاء اللہ خلافت کا قیام جلد ہی امریکہ کی خواہشات پر پانی پھیر دے گا اور افغانستان اور مسلم علاقے امریکہ کے لیے ایک بھولی بسری کہانی ہی رہ جائے گی۔

 

Read more...

لبرل ازم ( آزاد خیالی)ایک جھوٹ اور دھوکہ ہے جو ایک انسان کو دوسرے انسان کا غلام بنادیتا ہے

تحریر: ابن نصرۃ
لبرل ازم کے بنیادی تصورات سترویں صدی سے لے کر انیسویں صدی کے درمیان برطانیہ میں نمودار ہوئے اور نشونما پائے۔ ان صدیوں میں لبرل ازم کے تصورات اپنے مخالفوں کے خلاف اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے استعمال کیے جاتے تھے۔ لوکی نے لبرل تصورات کو بادشاہت کے خلاف برطانوی تاجروں کی اشرافیہ کی حمائت میں استعمال کیا؛ اور افادیت(Utilitarian) کے نظریات کے حامل فلاسفروں نے لبرل ازم کو برطانوی سرمایہ داروں کی حمائت میں جاگیر داروں کے خلاف استعمال کیا۔اسی دوران انتہاء پسند فرانسیسی انقلابیوں نے خفیہ برطانوی حمائت سے لبرل ازم کو اپنی ریاست اور یورپ کی دوسری ریاستوں کو غیر مستحکم کرنے کے لیے استعمال کیا۔ اس کے علاوہ امریکی سرمایہ داروں کے ایک گروہ نے اس تصور کو برطانیہ میں ایک گروہ کے خلاف استعمال کیا ۔ لبرل ازم کو بین الاقوامی سطح پر عثمانی خلافت کے خلاف استعمال کیا گیا اور اس کے خاتمے کے بعد اس تصور کو نئی دشمن آئیڈیالوجیز (نظریہ حیات) فاشزم اور کمیونزم کے خلاف استعمال کیا گیا۔ بل آخر اکیسویں صدی میں ایک بار پھر لبرل ازم کو اسلامی آئیڈیا لوجی کو اُبھرنے سے روکنے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے ۔ لہذا مخلص مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ لبرل ازم کے فلسفے کو جانیں اور مغرب کے ایک نظریاتی ہتھیار کے طور پر اس کا فہم حاصل کریں ۔
لبرل ازم آزادی کے تصور کی ترجمانی کرتا ہے(یہ لاطینی لفظ لیبر جس کا مطلب آزاد ہے سے نکلا ہے)، جو کہ ایک بہت ہی پُرکشش نعرہ ہے خصوصاً ان لوگوں کے لیے جن کا استحصال کیا جارہا ہو لیکن اس کا اصل مطلب عام زبان میں استعمال ہونے والے معنی سے مختلف ہے۔ لبرل کے عام معنی آزادی کے ہی ہیں یعنی کسی مخصوص روکاوٹ سے نجات حاصل کرنا جیسا کہ غلامی سے آزادی یا فوجی قبضے سے آزادی وغیرہ۔ لیکن سیاسی لحاظ سے آزادی کے معنی جیسا کہ لبرل ازم نے واضع کیا ہے وہ یہ ہے کہ انسان کو اس بات کی آزادی حاصل ہو کہ وہ جو چاہے عمل اختیار کرسکے۔ لہذا سیاسی معنوں میں آزادی کا مطلب یہ تصور بن گیا کہ انسان خودمختار(اقتدار اعلیٰ) ہے۔
یہ ضروری ہے کہ آزادی کے عام معنوں سے ہٹ کر انسان کے خودمختار بننے کے تصور اور اس کے نتائج کو سمجھا جائے۔ انسان کی خودمختاری کا مطلب یہ ہے کہ انسان دنیا کی زندگی میں اپنے لیے راہ کا تعین خود کرے، اسے اس بات کی اجازت نہیں کہ وہ کسی اور طاقت اور اقتدار اعلیٰ کے سامنے جھک جائے چاہے وہ ایسا اپنی مرضی سے ہی کیوں نہ کرے۔ مثال کے طور پر اگر ایک شخص آزادنہ طور پر بادشاہت کے زیر سایہ رہنے کا فیصلہ کرتا ہے تو اس نے اپنے اقتدار اعلیٰ(خود مختاری) سے دست برداری اختیار کرلی اور اس طرح اُس نے لبرل ازم کے تحت آزادی کے معنی کے الٹ راہ اختیار کی۔ انسان کا خودمختار (مقتدر) ہونا ہی وہ آزادی کا مقبول عام تصور ہے جو کہ مغربی تہذیب اور زندگی کے پیشتر نظاموں کی بنیاد ہے خصوصاً اس کے لبرل جمہوری حکومتی نظام اور اس سے نکلنے والے سرمایہ دارانہ معاشی نظام کی۔
آزادی کا مطلب طاقتور کے ہاتھوں انسان کی غلامی ہے
لبرل ازم آزادی کا مسحورکُن لیکن دھوکے پر مبنی تصور ہے ،جو طاقتوروں کے ہاتھ میں ایک انتہائی مہلک ہتھیار ہے۔ حقیقت میں ایک واحد انسان یا فرد روزمرہ زندگی میں پیش آنے والے تمام مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتا؛ لہذا بل آخر یہی ہوتا ہے کہ وہ دوسروں کے تجویز کردہ حل کو ہی اختیار کرتا ہے۔ لبرل معاشروں میں طاقتور لوگ مسائل کے اُن جوابات کی ترویج کرتے ہیں جو ان کے مفادات کو پورا کرنے کا باعث بنتے ہوں چاہے اس سے ایک عام شہری کا حق ہی کیوں نہ مارا جارہا ہو۔ سرمایہ دارانہ معیشت کاروباری اشرافیہ کے مفادات کا تحفظ کرتی ہے اور "نمائندہ " جمہوریت سیاسی اشرافیہ کے مفادات کا تحفظ کرتی ہے۔ لبرل ازم کے تحت حاصل آزادی دراصل ایک عام آدمی کی طاقتوروں کے ہاتھوں غلامی ہے۔
حقیقت میں انسان اس بات کی صلاحیت ہی نہیں رکھتا کہ وہ اپنی ذات میں خود اپنے آپ پر مقتدرہو۔ اقتدار اعلیٰ صرف اُسی کے لیے ہے جس نے انسان کو پیدا کیا اور صرف وہی ہے جو یہ جانتا کہ اُس نے انسان کو کیوں پیدا کیا اور صرف اُسی کے پاس انسان کی فطرت کے متعلق مکمل علم ہے۔ اپنے لیے غلط طریقے سے اقتدار اعلیٰ کا منصب حاصل کر کےاپنیخدائیکااعلانکردیاہے اور اس حق کو چھین لیا جو صرف اور صرف اُس ذات کے لیے مخصوص ہے جس نے اُسے پیدا کیا ہے ۔
انسان نے خود کو پیدا نہیں کیا بلکہ اسے پیدا کیا گیا ، انسان خود سے اپنی زندگی کا مقصد نہیں جانتا اورنہ ہی انسان کے پاس اپنی فطرت سے متعلق مکمل اور صحیح علم موجود ہے۔ انسان اس قابل ہی نہیں کے خود اپنے آپ پر مقتدر ہو بالکل ویسے ہی جیسے کوئی بھی دوسری پیدا کی گئی یا بنائی گئی چیز خود پر مقتدر نہیں ہوتی یعنی وہ یہ نہیں جان سکتیں کہ انھیں کیوں بنایا گیا ہے۔ یہاں تک کہ خدا کا انکار کرنے والے بھی یہ دعویٰ نہیں کرتے کہ انھوں نے خود اپنے آپ کو تخلیق کیا ہے، لہذا انسان کے لیے مقتدر ہونے کا دعویٰ کرنا ایک بہت بڑی غلطی ہے۔ جس طرح انسان نے یہ دیکھا کہ اسے پیدا کیا گیا ویسے ہی اُسے اِس بات کی جستجو کرنی چاہیے کہ کس نے اُسے پیدا کیا ہے تا کہ وہ اپنے پیدا کرنے والے کی عظمت کا معترف ہوسکے کیونکہ وہی اصل مقتدر ہے۔
لبرل ازم مذہب کا دشمن ہے
عیسائیت کے زیر سایہ ہزار برس سے بھی زائد عرصے تک رہنے کے بعد مغرب نے مذہب کو زندگی سے جدا کردیا اور لبرل ازم کو نئی تہذیب کی بنیاد کے طور پر اختیار کرلیا۔ لبرل ازم نے عیسائی دنیا کو یہ سوچ دے کر دھوکہ دیا کہ مذہبی آزادی کے تصور کے تحت وہ اپنے مذہب پر جس طرح چاہیں عمل کرسکتے ہیں۔ لیکن حقیقت میں لبرل ازم مذہب کا مخالف تصور ہے جو تمام مذاہب کا دشمن ہے۔ ایسا اس لیے ہے کیونکہ مذہب اپنی فطرت میں انسان کو اپنے سامنے جھکنے کا حکم دیتا ہے۔ کوئی بھی مذہب انسان کو مقتدر قرار نہیں دیتا اور اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ اپنی مرضی اور خواہشات کے مطابق عمل اختیار کرے۔ مذہب انسان کو ایک مخصوص نظم و ضبط کا پابند کرتا ہے چاہے وہ نظم و ضبط اس کی پوری زندگی کا احاطہ کرتا ہو یا صرف اخلاقی اور روحانی مسائل تک محدود ہو۔
لبرل ازم براہ راست مذہب سے ٹکراتا ہے کیونکہ لبرل ازم انسان سے اس بات کا تقاضع کرتا ہے کو وہ خود کو صرف اور صرف لبرل تصور کا پابند بنائے ۔ لبرل ازم اللہ سبحانہ و تعالی کی جگہ انسان کو رب بنا دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فرانس کا نقاب کو مسترد کرنا لبرل ازم کے عین مطابق ہے۔ نقاب اس بات کا مظہر ہوتا ہے کہ انسان نے خود کو اپنے رب کی خواہش کا پابند کردیا ہے اور یہ چیز پورے لبرل مغربی دنیا میں نفرت کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے چاہے ان تمام ممالک نے اس کو غیر قانونی قرار نہیں دیا ہے۔ ایک حقیقی لبرل انسان مذہب کا پابند نہیں ہوسکتا ۔ ایک لبرل انسان مذہب کی کچھ باتوں پر عمل یا اجتناب اختیارکرسکتا ہے لیکن ایسا وہ اپنی مرضی اور خواہش کے تحت ہی کرتا ہے۔
لبرل انسان اپنے رب کی نہیں بلکہ خود اپنی پرستش کرتا ہے۔ یہ اس مقتدر کی پرستش ہے جسے اُس نے خود اپنے لیے چُنا ہے کہ اُس نے کس طرح سے سوچنا ہے اور اپنی خوشی کے مطابق عمل کرنا ہے۔ اگر وہ اپنے رب کی عبادت بھی کرتا ہے تو اس لیے نہیں کہ وہ خود کو اس بات کا پابند سمجھتا ہے بلکہ وہ ایسا اس لیے کرتا ہے کہ وہ اس کی خواہش رکھتا ہے۔ لبرل انسان اس بات میں خوشی محسوس کرتا ہے جب وہ کسیمسلمان کو نماز پڑھنے کے ساتھ ساتھ شراب پیتا ہوا بھی دیکھتا ہے۔ لبرل اس طرح کے مسلمان کو "اعتدال پسند" سمجھتا ہے، جس سے اُس کی مراد یہ ہوتی ہے کہ وہ مذہب میں اپنی خواہشات کی پیروی کرتا ہے۔ ایک حقیقی لبرل انسان اس شخص سے شدید نفرت کرتا ہے جو خود کو اپنے رب کے سامنے مکمل طور جھکا دیتا ہے۔
آزادی نہیں ذمہ داری
آزادی کے اس تصور نے جس چیزکو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے وہ انسان کا ذاتی احساس ذمہ داری کا تصور ہے۔ انسان کو تخلیق کرنے والے رب نے اُس کو اپنی تمام تر تخلیقات سے برتر قرار دیا ہے کیونکہ رب نے اُسے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے نوازا ہے جس کے ذریعے وہ صراط مستقیم اور بدی کی راہ کے درمیان تفریق اور کسی ایک کا چُناؤ کرسکتا ہے۔ اسلام میں ہر بالغ، عاقل فرد ہر اس معاملے میں ذمہ دار اور قابل احتساب تصور کیا جاتا ہےجس کو اس کے لیے لازمی قرار دیا گیا ہو(فقہ کی اصطلاح میں انسان "مکلف"ہے)۔ لہذا اس پر لازم ہے کہ وہ اس ذمہ داری کو اٹھائے جو اس پر ڈالی گئی ہے نہ کہ وہ یہ کہے کہ میں آزاد ہوں چاہوں تو اپنی ذمہ داری ادا کروں چاہوں تو نہ کروں۔ انسان پر یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ان دو راستوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرے اور وہ اپنے اس فیصلے پر قیامت کے دن جوابدہ ہوگا۔
ذمہ داری اور احتساب ، آزادی سے ایک بالکل مختلف شے ہے۔ آزادی تباہ کُن، باغیانہ اور مفاد پرستی کا تصور ہے جو انسان کو اپنی خواہشات اور مفاد کے تحت چلنے کی تعلیم دیتا ہے چاہے یہ اس کے لیے یا کسی دوسرے کے لیے کتنا ہی نقصان کا باعث ہی کیوں نہ ہو۔ ذمہ داری اس بات کا تقاضع کرتی ہے کہ انسان اس بات سے باخبر ہو کہ اس کے اٹھائے جانے والے قدم کا اس کے لیے اور دوسروں کے لیے کیا نتیجہ نکلے گا۔ ہر عاقل و بالغ شخص اس قابل ہوتا ہے کہ وہ روز مرہ کی زندگی میں اپنے اعمال پر ذمہ دار ہو سکے کیونکہ وہ اس قابل ہوتا ہے کہ یہ جان سکے کہ اس کے اٹھائے ہوئے قدم کا اس کے لیے اور دوسروں کے لیے کیا نتیجہ برآمد ہوگا۔ یقیناً تمام مذاہب انسان کو اس دنیا کی زندگی میں اپنے اعمال کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ کوئی بھی مذہب انسان کو آزادی فراہم نہیں کرتا ۔
لبرل ازام ایک جھوٹا فلسفہ ہے جس نے کئی نسلوں کو دھوکہ دیا اورعملاً طاقتور کو اقتدار اعلیٰ دے کر دنیا میں جبر اور استحصال کا ماحول پیدا اور عام کیا۔ یہ تصور پہلے ہی عیسائی اور اسلامی تہذیبوں کو تباہ کرنے کے لیے استعمال کیا جاچکا ہے جنھوں نے دنیا پر ہزار سال سے بھی زائد عرصے تک اپنی بالادستی برقرار رکھی تھی۔ اب اس تصور کو اسلام کو دوبارہ ایک بالادست قوت بننے سے روکنے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ لبرل ازم اپنی بنیاد سے ہی غلط ہے۔ لبرل ازم کے فلسفے میں کی جانے والی تبدیلیاں اس کی غلطی اور جھوٹ کو تبدیل نہیں کرسکتیں۔ لبرل ازم کو مکمل طور پر مسترد کرنا ضروری ہے جس میں مسائل پر سوچنے اور ان کے حل تک پہنچنے کا طریقہ کار بھی شامل ہے جو کہ اس غلط تصور پر قائم ہے۔ مغربی تہذیب کو لازماً ختم کردینا چاہیے اور اس کی جگہ مذہب کی بنیاد پر ایک نئی تہذیب کو کھڑا کرنا چاہیے تا کہ انسان دوسرے انسانوں کی غلامی اور پرستش سے آزادی حاصل کرکے صرف اور صرف اپنے رب کی ہی عبادت کرسکے۔

Read more...
Subscribe to this RSS feed

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک