الأربعاء، 25 جمادى الأولى 1446| 2024/11/27
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

شام اور مصر میں امریکی جرائم پر مذمتی جلسہ اللہ کے فضل سے اختتام کو پہنچا "ہمارا اسلام نہ کہ ان کی جمہوریت"  

اللہ کے فضل و کرم سے حزب التحریر ولایہ اردن کی جانب سے شام میں امریکی مداخلت اور اپنے ایجنٹ بشار اور مصر میں اپنے ایجنٹوں کے جرائم کی پردہ پوشی کی مذمت کے سلسلے میں منعقد کیا جانے والا جلسہ کامیابی سے اختتام کو پہنچا۔اس جلسے میں شرکت کے لیے شام کی سرزمین اردن کے باشندوں کی ایک بڑی تعداد نے حزب کی دعوت پر لبیک کہا اورانتہائی گرم موسم کےباوجود جلسے میں بہت بڑہ تعداد میں شرکت کی۔

جلسے کا افتتاح قرآن حکیم کی تلاوت سے کیا گیا۔پھر حزب التحریر ولایہ اردن کے میڈیا آفس کے انچارج محمود قطیشات نے ابتدائی کلمات کہے،جس میں انہوں نے کفار کی طرف جھکاؤ اور ان پر اعتماد کرنے کے بارے میں محتاط رہنے پر گفتگوں کرتے ہوئے کہاکہ " یہی امریکہ اور کافر ممالک پسے پردہ خود اور اپنے ایجنٹوں اور کارندوں کے ذریعے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف وحشیانہ صلیبی جنگ میں مصروف ہیں۔وہ افغانستان،پاکستان اور یمن میں اپنے اسلحے اور ڈرونز کے ذریعے مسلمانوں کو قتل کر رہے ہیں اور شام کی سرزمین پر اپنے ایجنٹ سرکش بشار کے ذریعے مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیل رہے ہیں اوراس کو جینے کے اسباب مہیا کر رہا ہے۔ یہی مصر میں اپنے ایجنٹ سرکش السیسی کے ذریعے رابعہ ، النہضہ میں،سڑکوں اور مساجد میں مسلمانوں کا قتل عام کروارہےہیں "۔انہوں نے اپنے خطاب میں مسلمانوں کو خبردار کیا کہ مشرقی یا مغربی کافروں کو کسی بھی بہانے اپنے اندرونی معاملات میں سیاسی یا عسکری مداخلت کی اجازت نہ دیں کیونکہ یہ کام اللہ،اس کے رسول اور مؤمنوں سے خیانت ہے۔انہوں نے مسلمانوں پر بھی زور دیا کہ وہ اس پر آشوب دور سے نکلنے کے لیے موجودہ حکمرانوں کو اتار پھینکنے ، اسلام کے اقتدار کو واپس لانے اوراس ریاست خلافت کو قائم کرنے کے لیے جدوجہد کر یں جو امریکہ اور ان ممالک کے ہاتھ کاٹ دے گی جو اسلامی سرزمین میں دراندازی کی جسارت کریں گے۔

استاد بلال القصراوی نے بھی خطاب کیا اور شام میں میں سفاک بشار کی پشت پناہی اور شام کے انقلابی تحریک کے خلاف سازشیں کرنے کے بارے میں امریکہ کے کردار کو بے نقاب کیا۔انہوں نے شام کے مخلص انقلابیوں کو داد دی اور یہ کہا کہ شام کے مخلص انقلابی کبھی بھی اپنے انقلاب کا رخ موڑنے کی امریکی کوششوں کو کامیاب ہو نے نہیں دیں گے اوروہ ایک ایجنٹ کی جگہ دوسرے ایجنٹ کو قبول نہیں کریں گے۔اس کے بعد استاد ابو بکرالفقہاء نے بھی خطاب کرتے ہوئے مسلمانوں کو کفار پر انحصار کرنے سے خبردار کیا اورشام اور مصر کے اسلامی تحریکوں کو نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ اپنے دین کے کسی بھی جزء سے پیچھے ہٹھنے کو قبول نہ کریں اورآپ کا مقصد کسی صدر کو برطرف کر کے کسی اور کو اس کی کرسی پر برجمان کرنا نہیں،بلکہ آپ کا نصب العین ریاست خلافت کے قیام کے ذریعے اللہ سبحانہ وتعالی کے دین کو نافذ کرنا ہونا چاہیے۔

جلسے میں زبردست نعرے بھی لگائے گئے جن میں سے کچھ یہ ہیں،"شام کے انقلابی کہتے ہیں کہ ہم اپنے دین کو تمہاری جمہوریت سے نہیں بدلیں گے"،"کب تک شام اور مصر میں ہمارا خون مغرب کے لیے قربان ہوتا رہے گا"،"انہوں نے یہ کہہ کر جھوٹ بولا کہ :جمہوریت حل ہے جس کا شاخسانہ رابعہ العدویہ تھا!" اور"تماری مداخلت دشمنی ہےاور تمہارے مددگاروں کو بچانے کے لیے ہے"۔ علاقائی اور بین الاقوامی میڈیا نے اس جلسے کو انتہائی درجے کے سیکیوریٹی کے باوجود کیوریج دی اوربہت سے ذرائع ابلاغ کے اداروں نے میڈیا آفس کے سربراہ اور دوسرے شرکا کا انٹر ویو بھی کیا۔

 

 

میڈیا آفس حزب التحریر
ولایہ اردن

 

Read more...

مصر میں امریکہ ہی درحقیقت شکست کھا گیا

''واشگنٹن نے اپنے مفادات کے لیے مصر کو امداد دے کر یہ سوچ لیا تھا کہ وہ معملات کو قابو کرنے میں کامیاب ہو جائے گا جیسا کہ جیسا کہ ایک لمبے عرصے اس نے ایسا کیا ،مگر عنقریب مصر کے حوالے سے امریکی موقف تبدیل ہو جائے گا اور اس کا کردار محدود ہو گا،،-Steven A Cook. صدرمرسی کو ہٹانے کے بعد تین اہم مسائل پر بڑے پیمانے پر بحث کی گئی جو کہ یہ ہیں:
۔ انقلاب امریکی اشیر باد اور جنرل السیسی کے تقرر سے رونما ہو۔
۔ مرسی حکومت کے دوران سیاسی اسلام فیل ہو گیا،جس کا مطلب ہے کہ پورے خطے میں ایسا ہوا۔
۔ مرسی کے بعد تمرد(نافرمانی)کی تحریک اورعام اپوزیشن کوئی واضح تصور دینے میں ناکام ہوگئی،یہ غلط فہمی بھی کہ مبارک حکومت کے باقیات الاخوان اور حزب اختلاف سے بہتر ثابت ہوسکتے ہیں،تاہم ایک اور موجوع جس کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا وہ ہے مصر میں امریکی بالادستی کا زوال ہے۔
1956 م میں جمال عبد الناصر کے مصر کی سیاسی زندگی میں ظہور کے ساتھ ہی مشرق وسطی میں امریکی پالیسی عروج حاصل ہو ا اور یہ بڑھتا گیا ،امریکہ پہلی بار مصر کے اثر ورسوخ کو عرب دنیا میں ان ممالک میں گھسنے اوراپنی سیاسی بالادستی قائم کرنے کے لیے دروازے کے طور پر استعمال کیا جو اس کے اثر ورسوخ سے باہر اور بر طانیہ کے زیر اثر تھے،یوں خطے کا سیاسی منظر نامہ بدل گیا اور مصر کے اندر اور اس سے باہر امریکہ کے اثر ونفوذ میں روز افزوں اضافہ ہوگیا،مصر پر امریکہ کا پنجہ عبد الناصر کی ہلاکت کے بعد بھی ڈھیلا نہیں ہوا بلکہ صدر السادات کے دور میں بھی بدستور اس کی بالادستی قائم رہی اور اس کے بعد حقیقی عبد الناصر امریکی مفادات کے مخلص محافظ (حسنی مبارک)زمانے میں بھی یہی حال رہا،صورت حال 2011 م جوں کا توں رہی یہاں تک کہ مبارک کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاجات شروع ہوگئے جن سے مصر میں امریکی بالادستی لڑکھڑانے لگی،امریکہ کے پاس عام لوگوں کی سیاسی بیداری اور اسلام کی حکمرانی کے لیے ان کے جوش اور ولولہ کے مقابلے کے لیے سوائے اس کے کوئی آپشن باقی نہ رہا کہ مصر میں سیاسی منظر نامے میں ترجیح تکمیل پر نظر ثانی کی جائے اور بلا آخر اخوان المسلمین کے ساتھ اپنے مفادات کی حفاظت اور امریکی بالادستی کو استحکام دینے کے بدلے سودابازی پر مجبور ہوا،یوں مرسی اور الاخوان کو مبارک کی پرانی حکومت کے باقیات کے ساتھ یکجا کر کے ایک نیا سیاسی میڈیم وجود میں لایا گیا جس پر فوج کی نظر رہے گی۔جوں ہی امریکہ نے اپنے سامنے سے روکاوٹیں ہٹادی اس کو اظمئنان ہو گیا،مطمئن کیسے نہ ہو سوئیس کنال حسب دستور کام کررہا ہو،اسرائیل کی حفاظت برقرار ہو،مصر کو غزہ سے ملانے والے سرنگوں کو معلوم ہو تے ہی منہد م کیا جارہا ہو،حماس مکمل طور پر قابو میں ہو،مرسی نئی لبرل اقتصادی پالیسی کو نافذ کرنے میں مصروف ہو!
لیکن ہوائیں امریکہ کے خوہشات کے مخالف سمت چلنے لگیں،امریکہ اور اس کا مدد گار مرسی خطے میں سیاسی استحکام کو برقرار رکھنے میں ناکام ہو گئے،امریکہ کی جانب سے مرسی کی حد سے زیاد حمایت نے مصر کے رائے عامہ کو ان کے خلاف کر دیا،مرسی مخالف جذبات سے سب سے پہلے اپوزیشن نے فائدہ اٹھا یا اور مصر کے سیکیولر باشندوں اور مسلمانوں کی ایک بڑی اکثریت کے قلوب واذہان پر ایک مختصر مدت کے لیے چھا گیا،یہی وہ طبقہ ہے جس نے صرف ایک سال قبل حزب الحریہ والعدالہ( Party Freedom and Justice)اور مرسی کو مصر کے سیاسی منظر نامے میں نمایاں کیا تھا اب اس کے خلاف ہو گیا اور اس کو برطرف کرنے کا مطالبہ کیا۔
امریکہ نے عوام کے اندر مرسی کی مقبولیت میں کمی کو محسوس کیا اور چند مہینے پہلے فوج کے ذریعے اس کے تختے کو الٹنے کا منصوبہ بنا یا،اپوزشن کو مکمل سول نافرمانی کے لیے تیار کیا گیا آخرکار فوج انقلاب کے ذریعے مرسی کو برطرف کیا گیا،امریکہ نے یہ اعتراف کرنے سے انکار کردیا کہ یہ فوجی انقلاب تھا،یوں امریکہ پھر مربع کے نمبر ایک پہ پہنچ گیا اور مبارک کی ظالم حکومت کے باقیات سے بغلگیر ہو گیا،اب امریکہ یہ باور کرانے کی سرتوڑ کوشش کر رہا ہے کہ جو کچھ ہو یہ انقلاب نہیں!
آج امریکہ کو مصری عوام کے غصے کا سامنا ہے،عالمی رائے عامہ کو جاننے کے لیے پیو سنٹر کے سروے کے مطابق مئی 2013 میں مصریوں کی صرف 16٪ نے امریکہ کے بارے میں مثبت رائے کا اظہار کیا(آج اس بات کا اندازہ لگانا کسی کے لیے مشکل نہیں کہ مثبت رائے رکھنے والوں کی تعداد کتنی ہو سکتی ہے)،ناصری سیاست دانوں نے اپنا اعتبار کھودیا،الاخوان کے حمایتی غصے میں ہیں،وہ وقت بھی دور نہیں کہ فوج بھی عوام کی نظروں سے گر جائے گی۔
اگر امریکہ کسی بھی طریقے سے مبارک کے باقیات اور نئے ناتجربہ کارٹکنوکریٹ جیسے البرادعی کی مدد سے حکومت تشکیل دینے میں کامیاب بھی ہو گیا تو ہم یہ سوال کر سکتے ہیں کہ :''مصر کا مستقبل کیا ہو گا؟!،،کسی دور جانے کی ضرورت نہیں ان حکومتو کو دیکھنے کی ضرورت ہے جو امریکہ نے افغانستان،عراق،لبنان اور پاکستان میں تشکیل دی،سیدھی بات یہ ہے کہ امریکہ ان ممالک میں فیل ہو چکا ہے،امریکہ بڑے پیمانے پر اس کے خلاف پیدا ہونے والے جذبات کے سامنے بہت کمزور ہوچکا ہے،دوسرے ملکوں جیسے لیبیا،شام اور صومال میں بھی اس کی پوزیشن اچھی نہیں۔
زیادہ امکان اسی کا ہے کہ مصر کا تجربہ بھی امریکی پالیسی کی ناکامیوں میں ایک اضافہ ہو گا، مصر کی صورت حال ناگفتہ بہ ہے،زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ ملک میں افراتفری بڑھے گی،مختصرا اب امریکہ پہلے کی طرح عظیم طاقت نہیں رہا،اب وہ بڑی تیزی سے عالم اسلام میں اپنی بالادستی اور اعتبار کھو رہا ہے،ممکن ہے کہ مصر ہی امریکہ کی کمر توڑنے کا سبب بن جائے،بہت سے تجزیہ نگار امریکہ کے ساک میں برق رفتار گراوٹ کا عندیہ دے رہے ہیں، انگریزی رسالہSpectator Magazine کہا ہے کہ:"امریکی بالادستی اب اس حد تک زوال کا شکار ہے کہ اوباما نے زیادہ تر عالمی چودھراہٹ سے دستبردار ہو گیا ہے،،وقت ہی اس بات کی سچائی کو ثابت کرے گا۔

عابد مصطفی

Read more...

مغربی حکومتوں نے ملالہ کی کہانی اور لڑکیوں کی تعلیم کے لیے اس کی جدوجہد کا استحصال کیا اور اپنے استعماری سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا یہ خلافت ہی ہے جو خواتین کے لیے دوبارہ اول درجے کا تعلیمی نظام واپس لائیگی۔

گذشتہ اکتوبر پندرہ سالہ پاکستانی لڑکی ملالہ یوسف زئی کو گولی مارے جانے کے واقعے نے دنیا بھر میں مسلم اور غیر مسلم ، بہت سے لوگوں کو حیران اور وحشت زدہ کر دیا۔ مرکزی ذرائع ابلاغ، انسانی حقوق کی تنظیموں، مغربی حکومتوں اور سیاستدانوں نے اس واقعے کی تشہیر یوں کی کہ ؛ ''اس بچی پر پاکستانی اسلام پسندوں نے اس لیے قاتلانہ حملہ کیا کیونکہ حقوقِ نسواں اور لڑکیوں کی تعلیم کی ترویج کے لیے اس کی کوششوں کے وہ مخالف تھے''۔ حملے کے فوراََ بعد بہت سے ادارے اور شخصیات اس کے مقصد کے لیے اکھٹا ہو گئیں اور اس کو سراہا گیا کہ اس نے عورتوں کی تعلیم کے مسئلہ کو عالمی توجہ دلوائی، ان شخصیات میں سابق برطانوی وزیرِاعظم اور اقوامِ متحدہ کے سفیرِ خاص برائے عالمی تعلیم گورڈن براؤن، اقوامِ متحدہ کے جنرل سیکر یٹر ی بان کی مون، اور سابقہ امریکی وزیرِ خارجہ ہلری کلنٹن شامل ہیں۔
12 جولائی کو نیویارک میں اقوامِ متحدہ کے ہیڈ کواٹرز میں ملالہ کو نوجوانوں کے ایک اجتماع سے خطاب کے لیے مدعو کیا گیا جہاں اس نے اس ضرورت کی حمایت کی کہ ہر بچے کے لیے مفت تعلیم لازمی ہو۔
پاکستان میں اور عالمی سطح پر بچیوں کے تعلیمی حقوق کی بہتری ایک عظیم مقصد ہے۔ مگر مغربی حکومتوں، اداروں، اور سیاستدانوں کی بے شرم کاوشیں عظمت سے کہیں دور ہیں جو اس نو عمر بچی ،اس کی جدو جہد ، اور اس پر ہونیوالے خوفناک حملے کے واقعے کااستحصال کررہی ہیں ، تاکہ وہ اپنے سیاسی مقاصدیعنی مغربی، لا دین اور آزاد خیال اقدار کو تعلیم کے بہانے مسلم دنیا کی خواتین اور بچیوں میں فروغ دیں ، اور ان کی اسلامی شناخت اور اقدار کو کمزور کر دیں۔
ملالہ کے لیے ان کی حمایت کی مضحکہ خیز ی اور مسلم خواتین کے تعلیمی حقوق کے لیے ان کی پریشانی کی حقیقت ان کے اس منافقانہ خاموش رویہ سے ظاہر ہوتی ہے جو انہوں نے لادین ریاستوں مثلاًفرانس ، بیلجیم ، ترکی اور ازبکستان میں حجاب اور نقاب کی پابندی کے بارے میں روا رکھا، جس نے مسلم خواتین اور بچیوں کو محض اسلامی لباس پہننے پر سکول کی معیاری تعلیم سے محروم کر دیا۔ یہ سوال اٹھایا جانا چاہیے کہ ان لادین ریاستوں اور سیاستدانوں کی مضبوط مخالفت سے بھرپور آوازیں اس وقت کہاں تھیں جب یورپی انسانی حقوق کی عدالت نے مسلم خواتین کے ان حقوق کے خلاف فرانس اور ترکی میں فیصلہ دیا، جس میں وہ معیاری تعلیم اور اسلامی عقائدکو ساتھ ساتھ لے کر چل سکیں؟
ملالہ کے واقعہ کو ایندھن بنا کر اس قدیم تہمت کی آگ کو بھڑکایا گیاکہ اسلامی نظام عورتوں کو دباتا ہے اور انہیں ان کے حقوق سے محروم کر دیتا ہے، اور یہ کہ مسلم خواتین مغربی طرزِ آزادی کی ضرورت مند ہیں۔ یہ ایک ایسی تہمت ہے جو تاریخ میں کئی دہائیوں تک استعمال ہوئی، اور دورِ جدید میں بھی کی جارہی ہے تاکہ مغربی لادینیت کا تسلط مسلم علاقے پر قائم رہے اور اسلام کو دوبارہ زور پکڑنے سے روکاجاسکے ، تاکہ مسلم دنیا میں اسلامی ریاست کا قیام نہ ہوسکے، جو کہ مغرب کے سیاسی اور معاشی مفاد کے لیے ایک خطرہ ہے۔ حالانکہ یہ اسلام نہیں بلکہ مغرب کی استعماری خارجہ پالیسی ہے جس نے عورتوں اور بچیوں کو پاکستان اور دیگر بہت سے مسلم ممالک میں قیمتی تعلیم سے محروم کر دیا ہے ۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ اور افغانستان پر قبضے نے پاکستان، افغانستان اور ملحقہ علاقوں میں ایک عدم استحکام اور عدم تحفظ کی فضا پیدا کر دی ہے۔ جس میں بار بار کے ڈرون حملے اور بم دھماکے جنہوں نے گذشتہ سالوں میں ہزاروں لوگوں ، جن میں بے شمار بچے اور عورتیں بھی شامل ہیں ، کو موت کے گھاٹ اتارا۔ بچوں کے حقوق پر اقوامِ متحدہ کمیٹی کی ایک رپورٹ میں کہا گیا، '' اطلاعات کے مطابق 2008 سے 2012 کے درمیان بے دریغ طاقت کا استعمال کرتے ہوئے زمینی اور فضائی حملوں میں افغانستان میں موجود امریکی افواج سینکڑوں بچوں کو مار چکی ہیں''۔ ان بچوں کے حقوق کہاں ہیں؟ یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ یہ اموات ان استعماری حکومتوں کو اس مسلم علاقے میں اپنے مفادات کے تحفظ کی خاطر ضمنی نقصان کے طور پر قابلِ قبول ہیں ۔ اس غاصبانہ قبضے، حالت ِجنگ اور عدم استحکام نے ایک ایسی لا قانو نیت کی فضا پیدا کر دی ہے جس میں جرائم، اغوا اور عصمت دری کے واقعات بکثرت ہورہے ہیں۔ ان حالات نے بہت سے والدین کو اس امر پر مجبور کیا ہے کہ وہ اپنی بیٹیوں کو گھر سے دور جگہوں پر، جس میں اسکول بھی شامل ہیں، سفر نہ کرنے دیں ۔ علاوہ ازیں ایسی ریاستیں جو عدم استحکام ، تباہی اور عدم تحفظ کا شکار ہوں کس طرح اپنے شہریوں کو ایک اچھی اور میعاری تعلیم مہیا کر سکتی ہیں؟ دس سال سے زیادہ عرصہ کے قبضہ کے باوجود ، افغانستان میں10 میں سے تقریباََ9 خواتین نا خواندہ ہیں۔ لہٰذا یہ مغربی استعماری خارجہ پالیسی ہے جس نے نہ صرف بچیوں سے تعلیم کو چھینا بلکہ ان کی زندگیوں اور وقار پر بھی ڈاکہ ڈالا اور ان کی سکول کی میعاری تعلیم میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ ، مسلم علاقوں کی مغربی حمایت یافتہ ، لا دین حکومتوں نے اپنی ریاستوں کے اندر آزاد خیال مغربی تہذیب ، نہ صرف تفریحی اور اشتہاری صنعتوں کے ذریعے داخل ہونے دی بلکہ لادین تعلیمی نظام کا نفاذ بھی کررکھاہے۔ یہ تہذیب جو جنسی آزادی کو پروان چڑھاتی ہے، عورت کی ہتک کرتے ہوئے اسے جنسی ضرورت کا سامان بنا دیتی ہے، اور مردوں کو اس پر اکساتی ہے کہ وہ عورتوں کو اپنی خواہشات کے مطابق استعمال کریں، جس کے نتیجہ میں پاکستان، بنگلہ دیش اور مصر جیسے ملکوں کے سکولوں اور گلیوں میں جنسی طور پر حراساں کرنے، ڈرانے اور عصمت دری کے واقعات بلند سطح پر پہنچ گئے ہیں۔ اس صورتحال نے بہت سی خواتین میں احتراز پیدا کیا کہ وہ تعلیم کے حصول کے لیے گھر سے باہر قدم رکھیں۔
مزید برآں کھوٹے مغربی سرمایہ دار انہ نظام نے مسلم دنیا کے ملکوں کی معیشت تباہ کر دی، ان کو بڑے سودی قرضوں کے بوجھ تلے دبا دیا اور ناکام معاشی پالیسیوںمیں جکڑدیا، مثلا ً قرض کی ادائیگی پر خرچ کی جانے والی رقم تعلیم، صحت، انتظامی ڈھانچے اور دیگر عوامی سہولیات پر ہونے والے خرچ سے کہیں زیادہ ہے۔ اس کا نتیجہ غیر تسلی بخش اور آہستہ آہستہ نا پید ہوتے سکول، محدود اور کم تربیت یافتہ اساتذہ ، ضروری کتابوں اور ساز و سامان کی کمی ہے۔ مزید برآں مسلم علاقوں پر حاوی مغربی ریاستوں اور ان کے آئی ایم ایف جیسے اداروں نے مسلمانوں کو سرمایہ دارانہ پالیسیوں کے ذریعہ مفلس کیا اور ساتھ ہی مفت تعلیم کے فقدان نے بہت سے والدین کو اس بات پر مجبور کر دیا کہ وہ تعلیم دلوانے میں اپنے بیٹوں کو بیٹیوں پر ترجیح دینے لگے۔ اس لیے یہ حیران کن نہیں کہ پاکستان میں تقریباََ60 فیصد اور بنگلہ دیش اور مصر میں 50 فیصد خواتین نا خواندہ ہیں۔ لہذا ہمارے مسلم علاقوں پر مسلط مغربی خارجہ پالیسی اور سرمایہ دار انہ لا دینی نظام ہی دراصل مسلم دنیا میں خواتین اور بچیوں کو اچھی تعلیم کی فراہمی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
خواتین کی تعلیم سے متعلق اسلام کی ہدایات بالکل واضح ہیں۔ اوروہ یہ ہیں کہ نہ صرف اسلام کا علم اور مسائل کے حل جواسلام دیتاہے ان کا علم حاصل کرنا عورتوں پر فرض ہے جیسا کہ رسول ﷺکی اس حدیث سے واضح ہے(طلب العلم فريضة على كل مسلم) ''علم کا حصول ہر مسلمان (مرد و عورت)پر فرض ہے'' بلکہ مسلمان عورت کو یہ ہدایت کرتا ہے کہ وہ اپنے ارد گرد کی دنیا پربھی غور و فکر کرے۔ یقینا رسول اللہ ﷺکی زوجہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نہ صرف ایک عظیم اسلامی سکالر تھیں بلکہ طب ، شاعری اور عمومی علوم میں بھی ماہر تھیں۔ اسلام مسلم امت پر یہ بھی فرض کرتا ہے کہ وہ دنیا میں ایک راہنما قوم ہو، اورمسلم عورتوں اور مردوں کی حوصلہ افزائی کرتاہے کہ وہ معاشرہ کی بھلائی میں حصہ دار ہوں اور زندگی کے مختلف شعبوں مثلاََ تعلیم ، سائنس، طب، ٹیکنالوجی اور صنعت میں سبقت لے جائیں۔ مگرخواتین کے ان تمام تعلیمی فرائض اور حقوق کا تحفظ صرف ایک ایسے نظام کے اندر ہی ممکن ہے جو اسلامی عقائد اور تعلیم نسواں کی اسلام میں اہمیت کی حقیقتاً قدرکرتا ہو۔ وہ نظام ریاستِ خلافت ہے جس کے آئین کی بنیاد صرف اور صرف قرآن اور سنت پر ہوتی ہے۔ لہٰذا اسلام کے حکم کے مطابق ریاستِ خلافت کا فرض ہے کہ وہ کثیر رقم شعبہ تعلیم پر خرچ کرے اور بچوں اور بچیوں کو یکساں طور پر مفت ابتدائی اور ثانوی تعلیم مہیا کرے اور جہاں تک ممکن ہو اعلٰی تعلیم کی فراہمی کو بھی مفت ممکن بنائے ۔ یوں یقینی ہوجاتاہے کہ خواتین کے لیے ایسے خصوصی اور بااختیار اسکول ہوں جو اسلام کے حکم کے مطابق غیر مخلوط ہوں، اورجن کا انتظام چلانے کے لیے ، اچھی اجرت پر لی گئیں، بہترین تربیت یافتہ ، اور اعلی اہلیت کی حامل خواتین اساتذہ موجودہوں ۔ ساتھ ہی خواتین کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے اور انہیں سہولیات مہیا کی جاتی ہیں تاکہ وہ مختلف شعبوں میں خصوصی مہارت حاصل کریں مثلاً عالمہ دین، ماہر طب(ڈاکٹر)، سائنسدان، حساب دان، ماہر تعمیرات، قاضیہ(جج)، مُدَرِّسہ(لکچرار)، مہندسہ(انجنیئر)، اور آئی ٹی کی ماہر بن سکیں۔ اوریہ سب کچھ اسلام کے دیے ہوئے ٹھوس اقتصادی نظام سے مالی طور پر مربوط ہے ، جو ایک مستحکم معیشت اور معاشی خوشحالی پیدا کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے، اور جسے نافذکرنے کی ذمہ داری اسلامی نظامِ حکومت کی ہے ۔ تعلیم اس نظام حکومت کی ترجیہات میں سے ہے اورتعلیم اسکی نظر میں ہر شہری کا بنیادی حق ہے، لہٰذا وہ اپنے نظام تعلیم، شعبہ ابلاغ (میڈیا)، اور عدالتی نظام کے ذریعے ، اپنی بھرپور کوشش سے معاشرہ میں موجود ایسے رسم ورواج کو مٹا دے گا جو خواتین کی تعلیم کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ علاوہ ازیں اسلامی معاشرتی نظام اور دیگر شرعی قوانین اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ خواتین کا بلند مرتبہ ہمیشہ قائم رہے، اور ان کی قدر میں کمی نہ ہو ، تاکہ مرد ان کے ساتھ عزت سے پیش آئیں ، نہ کہ اپنی مرضی اور خواہشات کے مطابق، اور یہ کے ان کی حرمت اور عزت کے خلاف کسی بھی رویے کی سخت سزا دی جائے گی، اور ایک ایسے محفوظ ماحول کو یقینی بنایا جائے گا جس میں بچیاں اپنے سکولوں تک سفر کر سکیں اور اپنی تعلیم کو جاری رکھ سکیں۔ یہ ہے وہ سب کچھ جو خواتین کی ناخواندگی کو مٹائے گا اور عورتوں کی تعلیمی آرزئوں کو پورا کرے گا۔
تاریخ میں اسی خلافت کے نظام تلے ہی ایساممکن ہوا تھا کہ عورتوں کا تعلیمی معیار بلندیوں پرپہنچااور شاندار خواتین سائنسدان اور موجدات تیار ہوئیں، مثلاً ''اصطرلاب'' ایجاد کرنیوالی مریم الاصطرلابی، جنہوں نے دسویں صدی میں سورج اور ستاروں کی حرکات وسکنات کاحساب لگانے کے لیے اس آلہ کی بنیاد رکھی تھی۔ مثلاً بہترین خاتون انجینیر فاطمہ الفہری جنہوں نے مراکش کے شہر قراویین میں پہلی جامعہ بنائی؛ اور ہزارہا خوتین سکالرز جن کی تفصیل عالم محمد اکرم الندوی کی ٤٠ جلدوں پر مشتمل کتاب سے ملتی ہے جو ہمیں ان آٹھ ہزار خواتین سکالرز کی سوانح عمری بتاتی ہے جو اسلامی تہذیب کے دور میں تھیں۔ اس حقیقی اسلامی نظام تلے قاہرہ کی معروف الاظہر یونیورسٹی تک خواتین کی پہنچ بطور طالبعلم بھی تھی اور بطور لیکچرار بھی ، یہ وہ حق ہے جو مغرب کی خواتین کو ان کی جامعات نے سینکڑوں سال بعد دیا۔ درحقیقت بہت سے قدیم اسلامی کلیات وجامعات میں خواتین مدرسات (لیکچرار) کی تعداد آج کی بہت سی مغربی جامعات کی نسبت زیادہ تھی۔ یہ سب اس کا نتیجہ ہے کہ مسلمانوں نے اپنی ترقی کے لیے صرف اور صرف اسلام کو اپنا مرکزی قوتِ تحریک بنایا۔ اس لیے خلافت ایک ایسی ریاست تھی جس نے حقیقی طور پر دنیا میں خواتین کی تعلیم کی بنیاد رکھی اور انشا اللہ دوبارہ اپنے قیام کے ساتھ خواتین اور بچیوں کے لیے اول درجہ کا تعلیمی نظام مہیا کرے گی۔
عزیز بھائیو اور بہنو،
ملالہ کی اس کہانی کی نوشت مغربی استعماری حکومتوں کی لکھی ہوئی ہے، جس کا مقصد خواتین کے حقوق کی بہتری نہیں بلکہ ان کی استعماری مداخلت کو جاری رکھنا اور مسلم دنیا کو اپنا تابع بنائے رکھنا ہے۔ اس خطہ کے لیے جو تعلیم وہ پیش کررہے ہیں اس میں ہمارے لیے کوئی اخلاص نہیں ہے بلکہ ان کا اصل مقصد اپنے لا دینی (سیکولر) خیالات اور ان آزاد خیال (لبرل)اقدار کو مزید پھیلانا ہے، جنہوں نے ہمارے نوجوانوں کو گمراہ کیا، یقیناََ اس کو سختی کے ساتھ رد کر دینا چاہیے۔
صرف اور صرف خلافت کے قیام کے ذریعے ہی ہم اپنی اسلامی بنیادوں اور قوانین کی طرف لوٹ سکیں گے اور یہی وہ واحد طریقہ ہے جس میں خواتین کی تعلیمی آرزوئوں کی تکمیل ممکن ہے، اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ ان کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت ہے۔
اللہ سبحانہ و تعالٰی فرماتے ہیں:
يُرِيدُونَ لِيُطْفِئُواْ نُورَ ٱللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَٱللَّهُ مُتِمُّ نُورِهِ وَلَوْ كَرِهَ ٱلْكَافِرُونَ
"وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنے منہ کی پھونکوں سے بجھا دیں۔ مگر اللہ اپنے نور کو پورا کر کے رہے گا اگرچہ کافروں کو برا ہی لگے"( سورة الصف ۔8)

Read more...

ابواایاس کی کتاب ''منتخب فقہی مسائل ''سے اقتباس

سوال : مسلمان اپنی طویل تاریخ میں ایک ایسے عہدہ سے آشنارہے ہیں جسے الحسبہ کہاجاتاہے،اس عہدے کوسنبھالنے والے کومحتسب یاقاضی حسبہ کہاجاتاہے۔ ہمارے آج کے ممالک میں یہ عہدہ دیکھنے کونہیں ملتا۔کیاآپ اسلامی ریاست کے اندر اس عہدے کے بارے میں کوئی تصوردے سکتے ہیں ؟براہ کرم محتسب کے کاموں کی تفصیل بھی بتادیجئے۔

جواب : جی ہاں ، مسلمانوں کی طویل تاریخ میں یہ منصب جانی پہچانی چیزہواکرتا تھا، جسے الحسبہ کہاجاتاتھا۔ یہ اسلامی ریاست میں عدالت کی ایک قسم ہے ،کیونکہ ریاست خلافت میں تین قسم کی عدالتیں ہوتی ہیں یعنی قاضی تین طرح کے ہوتے ہیں۔ اول: قاضی عام جو لوگوں کے درمیان تنازعات کا فیصلہ کرتاہے۔ دوم: قاضی محتسب، سوئم:قاضی مظالم۔ ان میں سے ہرعدالت رعایاکے مسائل کی کسی ایک شاخ کیلئے مختص کی گئی ہوتی ہے۔ہم قاضی حسبہ کے بارے میں تفصیلی بات کریں گے ۔
حسبہ عدالت ، وہ عدالت ہوتی ہے جوعام زندگی میں واقع ہونے والے عام مسائل کوحل کرتی ہے یعنی ان عام حقوق کے فیصلے کرتی ہے جن کاکوئی دعویدار نہ ہو۔ اس عدالت کا ریاستِ خلافت میں عام زندگی کو منکرات اورگناہوں سے دور،خالص اسلامی سانچے کے مطابق ڈھالنے میں بڑاحصہ ہوتا ہے،اس لئے یہ انتہائی اہم اورحساس عدالت ہے ۔ یہی وجہ تھی کہ اس عدالت کیلئے ایسے اشخاص کوچناجاتاتھاجواچھے اخلاق اورشفاف کردارکے حامل ہوتے ۔ حسبہ کی متعدد تعریفیں کی گئی ہیں ،ان میں سے کچھ یہ ہیں: محتسب وہ قاضی ہوتاہے جوان عام حقوق سے متعلق، جن کاکوئی دعویدارنہیں ہوتا، تمام فیصلوں کودیکھتاہے ،بشرطیکہ یہ فیصلے حدود اورجنایات کے تحت نہ آتے ہوں ۔ الاحکام السلطانیہ کے مصنف کہتے ہیں: حسبہ عدالت کاکام یہ ہے کہ جب کسی نیکی کولوگ چھوڑرہے ہوںتووہ اس کاحکم دے اورجب لوگ کسی منکرمیں پڑنے لگیں توانہیں منع کرے ۔ امام غزالیؒ فرماتے ہیں : منکرسے مراد وہ منکرہے جو زمانہ حال میں کیاجارہاہواورمحتسب کوبغیرکسی تفتیش کے نظرآئے اورجس کامنکرہونااجتہاد کے بغیرسمجھ میں آئے ۔ یہ اسلامی حکومت کی مشینریوں میں سے ایک مشینری ہوتی ہے جس کاکام خیراورنیکی کوپھیلانااورشراورمنکرکا قلع قمع کرناہوتاہے ۔ اس کی اہمیت اورحساسیت کی وجہ سے اس عہدے کوسنبھالنے والے کیلئے مندرجہ ذیل صفات کاحامل ہوناضروری ہے :
-1 عادل ،نیک اورپرہیزگارہو۔
2- طاقتوراوردین کے بارے میں سخت اورکٹرہو۔
-3 فقیہ ،اوراحکام شریعت کاعالم ہو۔
بعض فقہاء نے محتسب کیلئے کچھ اضافی صفات بھی ذکر کئے ہیں ،وہ محتسب کیلئے ذی حیثیت اورمعزز ہونااور عالی النسب ہوناواجب ٹھہراتے ہیں ۔ جہاں تک تفصیلاً اورپوری گہرائی سے محتسب کے اعمال کابیان ہے تووہ کچھ یوں ہے۔
-1 مارکیٹ کی نگرانی ،ملاوٹ ،ذخیرہ اندوزی ،دھوکہ دہی اورتجارتی معاملات میں نقصان دہی سے روکنا،اسی طرح ناپ تول اورخرید وفروخت کے پیمانوں پرنظررکھنا،سامان او ر خدمات کی قیمتوں کی نگرانی کرنااور تاجروں کوراستوں میں سامان رکھنے سے منع کرنا،صرافوںmoney exchangersاورسکے بنانے والوں کی کارکردگیوں کودیکھنااوران کوسونے ،چاندی کی کرنسیوں اورزیورات کی ہیر پھیر یاسودی معاملات میں پڑنے سے روکنا،کیفے اورکلبوں کی نگرانی کرنا۔جوئے،اورمنشیات استعمال کرنے اورنشہ آوراشیاء کاکاروبارکرنے سے روکنا۔ ہمارے زمانے میں دیہی کونسلز اور میونسپل بورڈ ز یہ کام سرانجام دیتے ہیں ۔
-2 مساجد کی نگرانی ،یعنی ان کی صفائی ستھرائی اوران میں قرآنی نسخوں کی موجودگی کی تسلی کرنا،اپنے فرائض کی ادائیگی کے حوالے سے آئمہ مساجد اورمؤذنین کی نگرانی کرنا،لوگوں کوباجماعت نماز کی ادائیگی کی ترغیب دلانا،مساجد میں تصاویربنانے ،لٹکانے اورنقش ونگاروغیرہ سے روکناتاکہ نمازیوں کی نظریں اس میں نہ لگیں،اس طرح مسجدوں میں ہلڑبازی اورباہم جھگڑوں اورچیخنے چلانے سے روکنا۔ ان جیسے کام موجودہ دور میں وزارت اوقاف سرانجام دیتی ہے ۔
-3 رعایاکے حالات کی خبرگیری ،مثلاًمسلمان خواتین اورذمی عورتوں کوعام زندگی میں شرعی لباس اورستر کے چھپانے کی پابندی کروانا،عورتوں کوچھیڑنے والے بدکارفاسق لوگوں کوان تک رسائی نہ دینا،ان جگہوں میں جہاں عورتوں اورمردوں کے درمیان علیحدگی ضروری ہوتی ہے ، اختلاط اورمیل جول نہ کرنے دینا،جیسے سوئمنگ پول ، نہروں اوردریاؤں کے کنارے،ہوٹلز ،پارک اورکھیل کے میدان،ہمارے اس دورمیں یہ کام اخلاقیات کا نگران ادارہ سرانجام دیتاہے۔
- 4 سڑکوں اورعام راستوں کی آمدورفت کی نگرانی۔ سڑکوں ،پلوں ،نہروں کی حالت پرنظررکھنا،ٹریفک کومنظم کرنا،بندرگاہوں پربحری جہازوں کی نقل وحرکت اورخلاف ورزیوں کوروکنا،نقل وحمل کے وسائل کوکنٹرول کرنا،تاکہ گاڑیاں چلتی رہیں اورسواریاں سہولت، آسانی اورامن کے ساتھ آجاسکیں ۔ ہمارے زمانے میں اس کانام ٹریفک قوانین اور نقل وحرکت کے نظام ہیں جس کی نگرانی پولیس کرتی ہے ۔
-5 ڈسپنسریوں اورمیڈیکل کلینکس ،لیبارٹریوں ،ہوٹلز اورفوڈز فیکٹریوں کی نگرانی کرنا،اوران کے چلانے والوں کوصفائی کی پابندی کروانااوران کوملاوٹ سے منع کرنا،نیزان کواپنی ڈیوٹیاں تقویٰ کے مطابق اداکرنے کاحکم کرنا،یہ کام آج کل وزارت صحت سرانجام دیتی ہے ۔
مختصراً میں کہوں گا کہ محتسب کاکام یہ ہے کہ جہاں منکرنظرآیااس کوروکنا اورریاست خلافت میں عام زندگی کوخالص اسلامی رنگ میں رنگی ہوئی زندگی بنانا۔ چنانچہ اسلامی ریاست میں نہ تو سیاح نیم برہنہ لباس کے ساتھ گھوم سکیں گے، نہ ہی ذمی لوگ شراب اور خنزیر کا گوشت مسلمانوں کوپیش کرسکیں گے ۔ نہ ہی گرجا گھروں کی گھنٹیاں اونچی آواز کے ساتھ بجائی جائیں گی ،بالخصوص مسلمانوں کے نماز کے اوقات میں ،نہ ہی کوڑاکرکٹ کوراستوں اورعام چوراہوں میں پھینکاجائے گاوغیرہ ۔
محتسب کے تصرف میں پولیس کی مناسب نفری رکھنابھی ضروری ہے جس کے ذریعے وہ سزاؤں کوفوراً نافذ کرسکے تاکہ مسئلہ کو فوراً حل کیا جائے۔ محتسب جب بھی کوئی مسئلہ دیکھتاہے کسی تاخیر کے بغیراس کے بارے میں فیصلہ کرتاہے ۔ اُس کوعدالت کے فیصلے کاانتظار نہیں کرناپڑتابلکہ وہ راستوں اورچوکوں میں مسائل کے بارے میں فیصلہ کرتاہے ۔ اُس کے لئے کسی کومعاف کرنابھی جائز ہوتاہے جیساکہ اُس کیلئے کسی کوجھڑکنے اورڈانٹ ڈپٹ کرنے کی اجازت ہوتی ہے ۔ وہ کوڑے لگاسکتاہے ، مال کوضبط کرسکتا ہے، یہاں تک کہ اس کوتلف کرنابھی جائز ہوتاہے۔وہ تمام سزائیں نافذ کرسکتاہے ،سوائے حدودکے جیسے ہاتھ کاٹنا یازناکرنے والے کوسنگسارکرنایاجنایات جیسے قتل اورزخمی کرنے کی سزائیں۔ محتسب کواپنے کسی بھی فیصلے میںمدعی کی ضرورت نہیں ہوتی ،بلکہ وہ منکردیکھتے ہی اپنافیصلہ سناتاہے ،خواہ دن ہویارات اورخلاف وزری کرنے والوں اورسرکش لوگوں کومختلف قسم کی تعزیر دیکر سزادے سکتاہے اوراس کا حکم نافذ العمل ہوتا ہے ،اس کافیصلہ حتمی ہوتاہے جسے توڑنایامعطل کرناجائز نہیں ہے۔

 

Read more...

سوال و جواب :  مصر میں جاری واقعات

 

سوال:مصر میں جاری واقعات کو دیکھ کر میں پریشان ہو گیا ہوں اور معاملات میرے سامنے غیر واضح ہیں:
1 ۔ یہ بات ہمارے علم میں ہے کہ مصر میں عملی بالادستی امریکہ کو حاصل ہے،پھر سعودی عرب،امارات اور کویت کیوں مصر کی نئی حکومت کی مالی مدد کررہے ہیں کیونکہ یہ ممالک برطانیہ کے زیر اثرہیں؟
2 ۔ امارات نے مالی میں بھی فرانس کی حمایت کی اور مالی کو بھی معاشی امداد دی ،حالانکہ مالی میں بالادستی برطانیہ کو حاصل نہیں؟
3 ۔ اسی طرح ہم نے امارات کے ٹی وی چینل العربیہ اور قظر کے ٹی وی چینل الجزیرہ کے موقف میں تضاد کا مشاہدہ کیا باوجود اس کے کہ قطر اور امارات دونوں انگریز ہی کے ایجنٹ ہیں،کیا یہ کہنا مناسب ہے کہ قطر میں حالیہ تبدیلی نے یہاں برطانوی پالیسی کو متاثر کیا؟
4 ۔ پھر ہم یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ شامی اتحاد میں موجود سعودی نواز مثال کے طور پر الجربا کا قطر نواز افراد کے مقابلے میں فعال کردار ہے ،کیا شام میں رونما ہونے والے واقعات میں قطرنواز افراد کمزور ہوگئے اور سعودی نواز مضبوط ہوگئے؟
5 ۔ آ خر میں کیا امریکہ نے مرسی کی پشت پناہی سے ہاتھ کھینچ کر نام نہاد ''اعتدال پسند"اسلام کو اقتدار تک پہنچانے کے لیے راہ ہموار کرنے کے نظرئیے سے دستبردار ہو گیاہے؟مجھے امید ہے کہ اس سوال کی طوالت پر آپ تحمل کا مظاہرہ کریں گے اللہ آپ کو جزائے خیر دے،اس کی طولت اور کثرت پر میں پہلے ہی معذرت خواہ ہوں،لیکن ہمیں اپنے امیر کی وسعت علمی کے ساتھ ان کے فراخ دلی کا بھی ادراک ہے،ممکن ہے کہ ان کے جواب سے ہماری تشنگی دور ہو اور ہمارے دل ٹھنڈے ہوں۔

جواب:میرے بھائی یہ سوال نہیں بلکہ سوالات کی ایک ''گھٹڑی" ہے!!بہر حال مختصر جواب پیش خدمت ہے جو ان شاء اللہ آپ کو پریشان نہیں کرے گا:
برطانوی پالیسی کے کچھ خطوط(ھیڈ لائینز)ہیں جن کو جان کر جو کچھ ہو رہا ہے آپ اس کو سمجھ سکتے ہیں:
1 ۔ موجودہ وقت میں برطانیہ اعلانیہ طور پر امریکہ کے مد مقابل آنے کی جرات نہیں کر سکتا ، بلکہ ایسا ظاہر کر رہا ہے کہ وہ بھی امریکہ ہی کے صف میں ہے،لیکن پس پردہ اور اپنے ایجنٹوں کے ذریعے سے ایسا لائحہ عمل مرتب کر کے جو بظاہر کچھ اور نظر آتا ہے امریکی پالیسیوں کو ناکام بنانے کی کوشش کرتا ہے۔۔۔۔۔۔
2 ۔ برطانیہ اپنے ایجنٹوں کو اکثر ایسا کردار دیتا ہے جس سے بظاہر ایسا نظر آئے کے وہ بھی اسی سمت جارہے ہیں جس طرف امریکہ گامزن ہے تاکہ اس کے ساتھ کوئی تصادم نہ ہو،چنانچہ سیاسی بیداری سے محروم شخص کے لیے اردن کا امریکہ کے ساتھ تعلقات ایسے ہیں کہ وہ بھی امریکہ ہی کے صف میں ہے،حالانکہ اردن برطانوی سیاست کا بنیادی رکن ہے،یہی حال امارات اور دوسرے ایجنٹوں کا ہے۔۔۔۔۔۔۔ مگر برطانیہ اپنے بعض ایجنٹوں کو بعض دفعہ امریکہ کے سامنے ڈٹ جانے کی اجازت دیتا ہے ،یہ دوسرے ایجنٹوں سے مختفج کردار ہو تا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اس کے مختلف ایجنٹوں کا مختلف کردار ہو تا ہے:ان میں سے اکثر بظاہر امریکہ کے سامنے مسکراتے ہیں اور پیار کا اظہار کرتے ہیں اور پس پردہ اپنے آقا برطانیہ کے طرز پر اس کو تنگ کرتے رہتے ہیں،ان میں سے بہت کم کا کردار واضح طور پر امریکہ کو تشویش میں مبتلا کرتا ہے۔۔۔۔۔۔
3 ۔ برطانیہ امریکہ کی پالیسیوں کا سامنا کر نے کے لیے فرانس کا سہارا لیتا ہے جو کہ یورپی خصوصا برطانیہ اور فرانس کی پالیسی کے ضمن میں ہو تا ہے،فرق صرف اتنا ہے کہ برطانیہ انتہائی خباثت سے نرم ونازک انداز سے امریکہ کو دھوکہ دیتا ہے جبکہ فرانس چلاتا اور چنگاڑ تا ہے۔۔۔۔۔اکثر وبیشتر برطانیہ فرانس کے پشت پر اپنی پالیسی کو عملی جامہ پہنا تا ہے !مشہور مثل ہے کہ ''برطانیہ آخری فرانسیسی سپاہی تک لڑے گا"اگر چہ یہ پرانے زمانے کی بات ہے لیکن اس کا اثر اب بھی کسی حد تک ہے۔
4 ۔ سعودیہ میں حکومت کے سربراہ اگرچہ عبداللہ ہے جو کہ برطانیہ پیروکار ہے لیکن بعض شہزادوں پر امریکہ کا اثر ہے اسی اثر کی وجہ سے اس کی پالیسوں کے لیے راہ ہموار ہو تی ہے۔۔۔۔۔۔۔
اس کی روشنی آپ کے سوالات کے جوابات کی وضاحت ممکن ہے:
ا۔ جہاں تک قطر کا تعلق ہے اس کے سابق امیر نے وزیر خارجہ سے مل کر قطرکو خلیج میں برطانیہ کی توجہ کا مرکز بنانے میں کا میاب ہوگیا،یہی سے اس نے مختلف ملکوں میں دو موثر وسیلوں سے مداخلت شروع کردی:میڈیا''الجزیرہ" اورمال''پٹرول"سے۔۔۔۔۔۔یوں اس کی سرگرمیاں شام اور فلسطین حتی کہ مصر وغیرہ میں امریکی پالیسی کو ڈسٹرب کرنے میں موثر ثابت ہوئیں۔۔۔۔امریکہ کا پریشان ہونا برطانیہ سے پوشیدہ نہیں تھا،چونکہ برطانیہ یہ ظاہر کرنا چاہتا تھا کہ وہ امریکہ کو تنگ نہیں کر رہا اسی لیے اس نے امیر کو تبدیل کرنے کی حامی بھر لی،لیکن اس کا متبادل کسی اور کو نہیں اس کے بیٹے کو لایا گیا ،یعنی برطانوی پالیسی تبدیل نہیں ہوئی،لیکن اس بیٹے کو امریکہ کو تنگ کرنے میں اپنے والد کی طرح موثر ثابت ہو نے کے لیے وقت درکار ہے،اس تبدیلی کے ذریعے برطانیہ نے امریکہ کی پریشانی کو کم کردیا ۔۔۔۔۔یعنی جو کچھ ہوا یہ امریکہ کو راضی کرنے کا برطانوی اسلوب تھا جو کہ صرف ظاہری ہے جس میں امریکہ کو کچھ حاصل بھی نہیں ہوا!
ب ۔ اس تبدیلی کے ساتھ قطر کا کردار تھوڑا پوشیدہ ہو گیا کیونکہ نئی حکو مت کے کارندے سیاسی داوپیچ میں پرانی حکومت کے کارندوں سے کم تجربہ کار ہیں،تاہم قطر بدستور برطانوی سیاست کے زیر اثر ہے اس لیے خفیہ اور خبیث انداز سے کام کرتا ہے،اس کا اعلانیہ کردار گزشتہ دور سےکم فعال ہے،یہی وجہ ہے کہ شام میں بھی اس کے کارندوں کی چستی پرانوں کے مقابلے میں کم ہے۔
ج ۔ جہاں تک سعودی نوازوں کا تعلق ہے تو وہ زیادہ فعال ہیں اور امریکہ اور برطانیہ سے زیادہ مقبول ہیں کیونکہ سعودی بادشاہ کی وفاداری برطانیہ کے لیے ہے اور امریکہ بھی شاہی خاندان میں بعض شہزادوں کو استعمال کرتے ہوئے جانفشانی سے تگ ودو کر رہا ہے۔
رہی بات الجربا کی تو اگر چہ یہ سعودیہ کا مقرب ہے لیکن یہ امریکی پالیسی کا حصہ ہے،سعودیہ چاہے اس کی کتنی ہی حمایت کرے یہ امریکہ کی اطاعت سے منہ نہیں موڑ سکتا،یہ اتحا د مکمل طور پر امریکہ کا بنا یا ہوا ہے،اس لیے یہ اسی شخص کی سربراہی میں ہی آگے بڑے گا جو امریکہ کی کٹ پتلی ہو۔
د ۔ جہاں تک مالی اور امارات کی معاشی امداد کا تعلق ہے ۔۔۔۔۔آپ کو معلوم ہے کہ امریکہ ہی مالی میں رونما ہونے والی پہلی تبدیلی کا پشت بان تھا جو 22/03/2012 کو واقع ہوئی،یہ فرانس کے لیے کاری ضرب تھی،اسی لیے فرانس نے انتہائی جانفشانی اور محنت سے اپنے اثرورسوخ کو دوبارہ قائم کرنے کی کوشش شروع کردی۔برطانیہ کو اس بات کا ادراک ہے کہ مالی میں اس کا کوئی اثرورسوخ نہیں بلکہ یہا ںفرانس کو بالادستی حاصل ہے اور امریکہ مزاحمت کر رہا ہے۔رسہ کشی امریکہ اور فرانس کے درمیان ہو تو برطانیہ فطری طور پر فرانس کا معاون ہوتا ہے۔امارات کی جانب سے مالی کی معاشی مدد بھی برطانیہ کی جانب سے فرانس کی مدد کے تناظر میں ہے۔
ھ ۔ رہی بات مصر میں جو کچھ ہوا اس حوالے سے امارات کے وفد اور اردن کے بادشاہ کی جانب سے مصرکا دورہ کرنے کی شکل میں برطانوی موقف کی تفسیر کی اور برطانوی ایجنٹوں کی جانب سے مصر کی مالی امداد کی تو یہ بھی مذکورہ بالا خطوط (ھیڈلائنز)سے باہر نہیں۔۔۔۔۔جہاں تک امارات اور قطر کے کردار کے تضاد سے پیدا ہونے والے التباس کا تعلق ہے تو یہ برطانوی پالیسی کے مطابق کرداروں کی تقسیم ہے،مصر کے واقعات کے نتائج کے انتظار میں ایک قریب ہوتا ہے تو دوسرا دور جاتا ہے۔۔۔۔۔امارات کی جانب سے مبارک حکومت کے عناصر کی میزبانی بھی ان خطوط سے ہٹ کر نہیں۔مبارک کے آدمیوں کے دوبارہ برسر اقتدار آنے کی توقع بھی امارات کے ذریعے برطانوی پالیسی کاایک راستہ ہو گا اگر چہ یہ راستہ تنگ ہوگالیکن یہ بھی اچھا جواب دینے کے ضمن میں ہوگا!
و ۔ رہی یہ بات کہ کیا امریکہ کی جانب سے مرسی کے سر سے دست شفقت ہٹانے کا مطلب نام نہاد ''اعتدال پسندوں"کو اقتدار تک پہنچانے کے لیے راہ ہموار کرنے سے دستبرداری ہے۔تو بات دستبردار ہونے یا نہ ہونے کی نہیں بلکہ مسئلہ مصر میں امریکی اثرو رسوخ کو برقرار رکھنے کا ہے،کیونکہ امریکہ کا اثر ورسوخ مصرکے غالب سیاسی طبقے میں گزشتہ کئی دہائیوں سے راسخ ہے۔امریکہ چاہتا ہے کہ مصر میں امریکی بالادستی مستحکم مرکز رہے۔ وہ یہاں استحکام مصر کے باشندوں کی خاطر نہیں چاہتا،بلکہ امریکہ کو اپنی بالادستی اور منصوبوں کے لیے ایک محفوظ اور مستحکم پلیٹ فارم چاہیے۔۔۔۔۔ جس وقت 25/01/2011 کی عوامی تحریک نے امریکہ کو پریشان کردیا اور مبارک اس تحریک کو دبانے اور مصرکو دبارہ امریکی مفادات کے حصول کے لیے ایک مستحکم ماحول مہیا کرنے میں ناکام ہو گیا توامریکہ نے اس کو ایک طرف کردیا اور عوامی تحریک کی موجوں پر سوار ہوگیا ۔اس کے بعد مرسی کو اس وقت لایا جب اس نے امریکی منصوبوں کو نافذ کرنے کی ضمانت دی خاص کریہودی وجود کے ساتھ کیمپ ڈیوڈ معاہدے کی تب امریکہ نے اس کی حمایت کردی۔۔۔،اس سے یہ توقع بھی کی کہ استحکام کو حاصل کرے گا کیونکہ اس کی جماعت الاخوان ہی نیشنل پارٹی کو کالعدم قرار دینے کے بعد سب سے بڑی اور منظم پارٹی ہے۔امریکہ یہ توقع کرتا تھا کہ یہ حالات کو قابو کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے جیسا کہ نیشنل پارٹی نے معزول صدر کے ساتھ کیا تھا۔۔۔۔لیکن مرسی ایسا نہ کر سکا تو اس سے بھی دستبردار ہو گیا۔۔۔۔۔اور03/07/2013 کو نئی حکومت کا حمایتی اورپشت بان بن گیا ۔۔۔۔
اس بنا پر امریکہ کا مصر میں ''اعتدال پسند اسلام "والوں سے دستبردار ہونا حالیہ سالوں میں ''اعتدال پسند اسلام"والوں کو اقتدار تک پہنچانے کے لیے راہ ہموار کرنے کی پالیسی سے باہر ہے،امریکہ نے اس پالیسی کو ایک تیر سے دوشکار والی کہاوت کی طرح استعمال کیا:
پہلا:ان عام مسلمانوں کو دھوکہ دینا جو اسلام کی حکمران چاہتے ہیں۔۔۔۔اگر چہ ''اعتدال پسند اسلام"والے اعلانیہ طورپر جمہوریت کی بات کرتے ہیں اوراسی کو قائم دائم رکھنے کا حلف اٹھاتے ہیں!لیکن ان کا نام کے لحاظ سے بھی ''اسلامی" ہونا مسلمانوں کے جذبات کو بھڑکاتا ہے اور وہ یہ گمان کرنے لگتے ہیں کہ ان اسلام پسندوں کے اقتدار تک پہنچنے سے اسلام کی حکمرانی آئے گی اور یوں وہ اسلام کی حکمرانی یعنی خلافت کے نظام کے لیے صحیح معنوں کام کرنے کے عزم سے پیچھے ہٹتے ہیں ۔۔۔۔۔اور امریکہ یہی چاہتا ہے کہ مسلمان خلافت کے قیام کے لیے کام کرنے کا عزم نہ کریں، کیونکہ خلافت ہی نے اس کی نیند حرام کر رہی ہے۔۔۔۔۔
دوسرا:اسلام پسندوں کے ذریعے لوگوں کے جذبات سے کھیل کر اپنی بالادستی کو برقرار رکھنا۔۔۔۔اگر وہ امریکی بالادستی کو برقرار رکھنے کے لیے استحکام قائم نہ کرسکیں تو ان سے دستبردار ہونا،جیسا کہ مرسی کے ساتھ کیا،پھر دوسروں کی حمایت شروع کردی،خاص کر اس صورتحال میں کہ اس کے پاس ایجنٹ سیاست دانوں کی کوئی کمی نہیں جو اس نے مصر میں گزشتہ کئی سالوں کے دوران تیارکیے ہیں!
ز ۔ اہل کنانہ(اہل مصر)کو چاہیے کہ اس بات کو سمجھیں کہ امریکہ کو معزول صدر مبارک کے دور میں جو بالادستی حاصل تھی وہی معزول صدر مرسی کے دور میں بھی حاصل تھی اور اسےہی اب بھی موجودہ حکومت کے دور میں حاصل ہے۔امریکہ ہی مصر کی بیماری اور مصیبت کی وجہ ہے ۔یہ ہر مسلمان پر واجب ہے جو اللہ اور اس کے رسول ﷺپر ایمان رکھتا ہے کہ وہ امریکی بالادستی کا قلعہ قمع کرنے ،اس کے ایجنٹوں کو ہٹانے اور اسلام کی حکمرانی خلافت راشدہ کو دوبارہ کنانہ کی سرزمین میں لانے کے لیےزبردست جدوجہد کرے تاکہ یہ اسلامی دنیا کا مرکز بن جائے اور اسلام اور مسلمانوں کے دشمنوں کا صفایا کرے،یہودی وجود کو مٹادے ارض مقدس کو اسلام اور مسلمانوں کو واپس کرے جیسا کہ انہوں نے صلیبیوں اور تاتاریوں کا قلع قمع کرنے میں کیا اور یہ اللہ کے لیے کوئی مشکل بھی نہیں۔

Read more...

بدھسٹ بے دھڑک سری لنکا میں مسلمانوں پر حملہ کر رہے ہیں، جبکہ ہماری مسلح افواج کو بیرکوں میں روکا جا رہا ہے

10 اگست 2013 بروز ہفتہ دارالحکومت کولمبو کے مرکزی علاقہ میں بدھوں کے ایک ہجوم نے ایک تین منزلہ مسجد اور قریبی گھروں پر حملہ کردیا ۔ یہ کسی لحاظ سے بھی کوئی الگ تھلگ واقعہ نہیں۔ حالیہ مہینوں میں بدھ مشرک گروہوں نےمسلمانوں اور عیسائیوں کو ہدف بنانے کی ایک منظم مہم چلا رکھی ہے۔جنوری 2013 میں بدھ راہبوں کے ایک ہجوم نے لاء کالج کو یہ کہتے ہوئے روند ڈالا کہ امتحانی نتائج مسلمانوں کے حق میں موڑ دیے گئے ہیں۔ چند ہفتوں بعد پجاری مشرکین نے دارالحکومت کے زبح خانوں پر بظاہر پولیس معاونت سے یہ الزام لگاتے ہوئے حملہ کر دیا کہ ان میں گائے زبح کی جا رہی ہیں جو دارالحکومت کی حدود میں غیر قانونی کام ہے۔ سری لنکا کے بدھ متوں نے اب ہر چند دنوں بعد ایک "براہ ِراست کاروائی" کرنی شروع کر دی ہے۔پس بدھ مت ،جو کہ ملک کی آبادی کا 70 فیصد ہیں، کی جانب سےمسلمان مخالف سرگرمیوں کی لہر بڑھ رہی ہے۔جبکہ دوسرا بڑا گروہ مسلمانوں کا ہے جو10فیصد ہےجو ان مسلمان تاجروں کی آل اولاد ہیں جو ساتویں صدی میں آئے۔ بے شک ہر قسم کے مشرکین ایسے ہی ہیں جیسے اللہ سبحانہ و تعالیٰ انہیں بیان کرتا ہے۔
لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِلَّذِينَ آمَنُوا الْيَهُودَ وَالَّذِينَ أَشْرَكُوا " "
(سورہ المائدہ 5 :82)
جو بات غم و غصہ میں اضافہ کرتی ہے وہ یہ ہے کہ مشرکین گروہوں میں سب سے ممتاز Buddhist Strength Force (Bodu Bala Sena, BBS) کو حکومتی حمائت حاصل ہے۔ جو بات تشویش میں مزید اضافہ کردیتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ حملے دارلحکومت اور حکومت کے مضبوط حامی علاقوں میں پولیس کی معاونت سے ہو رہے تھے جبکہ دارالحکومت میں BBS کے نئے ٹریننگ سکول کی افتتاحی تقریب میں مہمانِ خصوصی ایک زور آور سیکریٹری دفاع اور صدر کا بھائی گوتا بھایا راجا پکسا (Gotabhaya Rajapaksa) تھا۔کیا ہی وہ انصاف تھا جو برصغیرمیں صدیوں پر محیط اسلامی حکومت کے تحت اسلام مہیا کرتا تھاجو عین اس حدیث کے مطابق تھاجو اسلامی ریاست تلے غیر مسلموں کی حفاظت کا مطالبہ کرتی ہے۔ من آذى ذمياً فقد آذاني " جس کسی نے ذمی (اسلامی ریاست کے غیر مسلم شہری) کو اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی۔
جس بات سی خون کھولتا ہے وہ یہ ہے کہ مسلمانوں پرحملے ہو رہے ہیں جبکہ مسلم دنیا کی مسلح افواج 60 لاکھ ہے جبکہ سری لنکا کی مسلح افواج محض 3 لاکھ ہے یعنی 20 : 1 کی نسبت۔ اور قریب ترین مسلح افواج پاکستان کی ایٹمی ہتھیاروں سے لیس 7 لاکھ مسلح فوج ہے۔ تا ہم خلافت میں نہ سمندر اور نہ ہی فاصلے ظالم کو اس کے انجام سے بچا پائیں گے۔ جب ہندوستان کے مسلمانوں پر مشرکین نے حملہ کیا تو خلیج فارس سے محمد بن قاسم کی زیر قیادت خلافت کی افواج حرکت میں آئیں۔ انہوں نے ظلم کا خاتمہ کیا اوراسلامی حکومت کے نور سے اسے تبدیل کر دیا۔لیکن آج یہ حکمران حملوں پر محض مذمت کر کے مسلمانوں کے زخموں پر نمک چھڑک رہے ہیں جبکہ ان کے پاس بدھسٹوں اور دوسروں کو مسلمانوں کو نقصان پہنچانے سے روکنے اور ان کی حفاظت کے لئے ضرورت سے زائد ذرائع موجود ہیں!
پس سری لنکا میں مسلمانوں پر ظلم وستم خلافت کے قیام کی اشد ضرورت کے حوالے سے ایک سنجیدہ یاد دہانی ہے۔ اور یہ مسلح افواج میں موجود مخلصین کے لئے ایک محرک بھی ہے کہ وہ آگے بڑھیں اورخلافت کے قیام کے لئے نصرۃ مہیا کریں جوایک بار پھر دو میں سے کسی ایک خیر کو حاصل کرنے کے لیے ان کی قیادت کرے گی، ظالموں پر فتح اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی راہ میں شہادت دلائے گی ۔

 

 


مرکزی میڈیا آفس حزب التحریر

Read more...

لائن آف کنٹرول پر بھارتی جارحیت کے خلاف سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں کا ردعمل انتہائی شرمناک ہے تحریر: شہزاد شیخ (پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان) تاریخ:16 اگست 2013

خبر: پاکستان اور بھارت میں اچانک کشیدگی میں اس وقت اضافہ ہوگیا جب بھارتی حکومت نے یہ دعویٰ کیا کہ 6 اگست کو پاکستان کے فوجیوں نے جموں میں لائن آف کنٹرول پر واقع پونچھ سیکٹر میں سارلہ چیک پوسٹ پر حملہ کر کے پانچ بھارتی فوجیوں کو قتل کردیا ہے۔ حکومت پاکستان نے اس قسم کی مداخلت کے واقع سے مکمل انکار کیا ہے۔ اس واقع کے بعد نہ صرف لائن آف کنٹرول پر،جو کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان مقبوضہ کشمیر میں سیئز فائر لائن ہے، بلکہ بین الالقوامی سرحد پر بھی کشیدگی میں اضافہ ہوگیا۔ بھارتی حکومت نے پہلے سے طے شدہ سیکریٹریز کی سطح کے مذاکرات کی منسوخی کا اعلان کردیا بلکہ اب یہ افواہیں بھی سرگرم ہیں کہ بھارتی وزیر اعظم منموہن سنگھ اور پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف کے درمیان نیویارک میں اقوامی متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے موقع پر ہونے والی ملاقات بھی منسوخ ہوجائے گی۔
تبصرہ: 2003 میں مشرف کے دور حکومت میں پاکستان اور بھارت کے درمیان لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کے واقعات کے خاتمے کے لیے ایک معاہدہ ہوا تھا۔ لیکن 2013 کی شروعات سے اب تک بھارت کی جانب سے اس معاہدے کی سو سے زائد خلاف ورزیاں کی جاچکی ہیں۔ بھارت کی جانب سے لائن آف کنٹرول اور بین الالقوامی سرحدوں پر کشیدگی میں اضافے، پاکستانی شہریوں اور فوجیوں کی ہلاکتوں کے باوجود ،پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں نے ،جن کی قیادت نواز شریف اور جنرل کیانی کررہے ہیں، انتہائی نرم اور کمزورردعمل کا اظہار کیا ہے۔ جنرل کیانی نے 13اگست2013 کو کاکول ملٹری اکیڈمی میں یوم آزادی کی تقریب سے خطاب میں بھارتی جارحیت پر کسی سخت ردعمل کا اظہار نہیں کیا بلکہ واشنگٹن میں موجود اپنے آقاوں کی مرضی کے مطابق کیانی نے قوم کو یہ باور کرانے کی کوشش کی بھارتی جارحیت کے مقابلے میں اندرونی سیکیوریٹی کے مسائل اس وقت قومی سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں۔ اسی طرح نواز شریف نے بھی کمزوری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک بار پھر بھارت کو مذاکرات کی پیش کش کی اور ماضی کو بھول جانے کا درس دیا۔
سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غدار مشرف کے وقت سے ہی قوم کو یہ باور کرانے کی کوشش کررہے ہیں کہ پاکستان کی معاشی ترقی کے لیے بھارت کے سامنے گھٹنے ٹیک دینے چاہیے چاہے اس کے لیے مقبوضہ کشمیر سے بھارتی قبضے کے خاتمے اور بھارت بھر میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے انتہائی برے سلوک کے خاتمے کے مطالبے سے ہی کیوں نہ دست بردار ہونا پڑے۔لہذا یہ غدار حکمران بھارت سے تعلقات کو مضبوط بنا رہے ہیں ،اسے "پسندیدہ ترین ملک" قرار دینے کی کوشش کررہے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ بھارت سے ایک ہزار میگاواٹ سے زائد بجلی خریدنے کی بھی کوشش کررہے ہیں۔
در اصل ان غداروں کا یہ رویہ اور طرز عمل عین امریکی پالیسی کے مطابق ہے۔ امریکہ پاکستان کو ایک چارے کے طور پر استعمال کر کے بھارت کو اپنے حلقہ اثر میں لانا چاہتا ہے تا کہ وہ چین کو اس کی سرحدوں تک محدود رکھنے کے لیے بھارت کو اس کے خلاف استعمال کرسکے ۔ بھارت اس وقت اس امریکی منصوبے کے مطابق کردار ادا نہیں کرسکتا جب تک اس کے پاکستان کے ساتھ تعلقات معمول کے مطابق نہ ہوجائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ امریکہ پاکستان کو بھارت پر انحصار کرنے والا ملک بنا دینا چاہتا ہے تا کہ جب خلافت قائم ہو تو وہ کمزور ہو۔
ایک طاقتور مسلمان ملک کے حکمرانوں کا یہ ردعمل انتہائی شرمناک ہے کہ جس کی آبادی اٹھارہ کروڑ ہو اور جس کے پاس دنیا کے ساتویں بڑی فوج بھی موجود ہو۔ اگر بولیویا، ایکواڈور اور وینیزویلا جیسے ممالک، جونہ صرف انتہائی کمزور ہیں بلکہ امریکہ کے پڑوسی بھی ہیں، امریکی احکامات کو نظرانداز کردیتے ہیں اور جب چاہتے ہیں امریکی سفارت کاروں ملک بدر بھی کردیتے ہیں تو پھر دنیا کے واحد مسلم ایٹمی طاقت پاکستان امریکی احکامات کو مسترد اور بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب کیوں نہیں دے سکتا؟ ایک عزت دار اور باوقار ردعمل پیش کرنے کے بجائے سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غدار امریکی پالیسیوں کے نفاذ اور ملکی خودمختاری کی تذلیل کے لیے کسی بھی حد تک گرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔
صرف خلافت ہی پاکستان کو اس کمزور اور رسوا کن صورتحال سے نکالے گی اور اس کو وہ مقام دلائے گی جس کا یہ اپنی صلاحیت اور طاقت کی بنا پر حقدار ہے۔

Read more...

انقلاب لانے والے اپنے انقلاب کو کامیاب بنانے کے لیے خونریزی کا ارتکاب کررہے ہیں،یہ خونریزی ان کی پیشانی پر شرمناک داغ کے طور ہمیشہ رہے گا!

مصر کی وزارت صحت نے سیکیورٹی فورسز کی جانب سے رابعہ العدویہ اور النہضہ میں دھرنا دینے والوں کو منتشر کرنے کے لیے دھاوا بول دینے کے بعد سے اب تک 638 کے قتل کی رپورٹ دی ہے۔اس تعداد میں تشویش ناک حد تک اضافہ ہورہا ہے۔قتل ہونے والوں میں 26 بچے،خواتین اور عمررسیدہ افراد بھی شامل ہیں۔اکثریت کو چوٹیں سر اور سینے میں لگی ہیں۔ان کے خیموں کو آگ لگائی گئی جس سے ان میں آگ بھڑک اٹھی اور کئی جھلسی ہوئی لاشیں بھی ملی ہیں۔ سیکیورٹی اداروں نے ایسے جرائم کا ارتکاب کیا ہے کہ جن کا ارتکاب امت کے بدترین دشمن بھی نہیں کر سکتے۔انہوں نے رابعہ العدویہ میں اس فیلڈ ہسپتال کو آگ لگائی ہے جس میں لاشیں اور زخمی پڑے تھے،اس کے ذریعے وہ اپنے مکروہ جرائم کے نشانات کو مٹانا چاہتے تھے۔ اپنی ہی قوم کے بچوں کی جان لینے کےجنون اور ُمردوں کی بے حرمتی، یہ سب انقلابیوں اور ان کے کارندوں کی سیاسی اسلام سے بغض کی انتہا کو ظاہر کرتا ہے!اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا کہ کہ ظلم جبر کی طاقتیں کس طرح پکڑ دھکڑ اور قتل غارت کو جاری رکھنے کے لیے مستعد ہیں۔یہ خون ریز منظر یہود کی جانب سے فلسطین میں امت کے فرزندوں کے قتل کی یاد تازہ کرتا ہے۔۔۔۔۔اس مجرمانہ خون ریزی کے بعد عبوری صدر ایک مہینے کے لیے ایمرجنسی کا اعلان کرتا ہے تاکہ دھرنا دینے والوں اور مظاہرین کی بیخ کنی کی جاسکے اور ان کے غصے کو کچلا جاسکے اور وہ نئی جابرانہ حکومت کو قبول کرنے پر مجبور ہو سکیں،جو السیسی اور اس کا پشت پناہ امریکہ قائم کرنا چاہتے ہیں،کیونکہ امریکہ مرسی حکومت کے سرسے اپنا دست شفقت اٹھا چکا ہے۔
25 فروری کی تحریک اٹھارہ دن جاری رہی جس میں تقریبا 365 افراد مارے گئے،اس نئی لیکن دراصل پرانی ہی حکومت نے ایک ہی دن میں مذکورہ تعداد سے دوگنا لوگوں کو قتل کر دیا!یہ انتقامی حرکت جس نے مبارک حکومت کی یاد تازہ کردی جو اپنی ہی عوام سے شدید نفرت کرتی تھی خصوصا ان لوگوں سے جو اسلام کے علم کو بلند کرتے تھے۔
یہ ہے نئی فوجی حکومت اور یہ ہیں انقلابی قائیدین جو اپنی گمراہی پر ڈٹے ہوئے ہیں،اپنے انقلاب کو کامیاب بنانے کے لیے بے گناہوں کے خون سے ہولی کھیلنے کا تہیا کر رکھا ہے،اپنی ہی عوام کے خلاف شیر ہیں جبکہ مسلمانوں کے بدترین دشمن یہود اور ان کے پشت پناہ کے مقابلے میں دم دبا کے بیٹھے ہیں،بلکہ ان کے ساتھ مل کر سازشوں کا جال بن رہے ہیں!''دہشت گردی کے خلاف جنگ"کے نام پر اسلام پر حملہ آور ہیں،جبکہ پڑوس میں یہود اطمینان اور امن سے ہیں۔خائن مجرموں محمد محمود،کابینہ اور ماسبیرو کے لیے یہ ممکن ہی نہیں کہ اہل مصر کے لیے کوئی کامیابی وکامرانی حاصل کریں؟!یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ جس نے 30 سال تک مبارک کی کرپٹ حکومت کو سہارا دیا ہو ،اس کی کرپشن میں شریک ہو اور اس کی دلالی کرتا رہا ہو وہ اہل مصر کے لیے کوئی کامیابی حاصل کرے؟!
یہ قاتل اور مجرم ہیں!عنقریب آخرت سے پہلے ہی دنیا میں بھی ان کے جرائم اور امت کے قابل قدر بیٹوں کو قتل کرنے اور اسلام کے خلاف جنگ اور امریکہ کی دلالی پر ان سے حساب لیا جائے گا،اللہ تعالی کا ارشاد ہے:((ومن یقتل مومنا متعمدا فجزاء ہ جھنم خالدا فیھا وغضب اللہ علیہ ولعنہ قاعد لہ عذابا عظیما)) "جو بھی کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کی سزا جہنم ہے جس میں ہمیشہ رہے گا ،اللہ اس پر غضبناک ہو گا،اس پر لعنت کرے گا اور اور اس کے لیے بہت بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے"(النساء:93 )۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:(لزوال الدنیا اھون عند اللہ من قتل رجل مسلم) ''ایک مسلمان شخص کے قتل سے پوری دنیا کا زوال اللہ کے نزدیک معمولی ہے"(الترمذی اور النسائی)۔ یہ انقلابی دہشت گردی کے خلاف جنگ اور الاخوان کے خلاف آپریشن کے نعرےکو اسلام پر یلغار اور اس کے گرد گیرا تنگ کرنے کے لیے پردے کے طور پر استعمال کررہے ہیں۔۔۔۔۔ لیکن مصر میں اسلام کی جڑیں بہت گہری ہیں اوراس کا خاتمہ ممکن نہیں۔ یہ کنانہ اسلام ہی کی سرزمین ہے اسی میں اس کے رکھوالے جوان مرد موجود ہیں،یہی عنقریب ایجنٹوں اورکفر نظام دفن ہو گا،امریکی بالادستی یہاں ملیامیٹ ہو نے والی ہے،یہی خلافت کا سورج اللہ کے اذن سے طلوع ہو نے والا ہے۔
کنانہ کے طول و عرض میں سرپر کفن باندہ کر نکلنے والے مسلمانوں!
اب وقت آگیا ہے کہ ہم سب بابانگ دہل یہ اعلان کریں کہ :یہ اسلام اور خاص اللہ کے لیے ہے! اس میں کوئی جمہوریت یا سیکولرازم نہیں،اس میں کفر کی حکمرانی کا کوئی حصہ نہیں، ساتھ ہی ہمیں اس بات کا بھی ادراک ہو نا چاہیے کہ اللہ کے حکم کو مضبوطی تھامنا ہی ہماری کامیابی اور کامرانی کا ضامن ہے۔یہ صرف اس صورت میں ہو سکتا ہے کہ ہم اپنے آپ کو دل و جان سے ریاست خلافت ،اسلام کی حکمرانی ،امت کی وحدت ،اپنے ملک سے استعمار کو ماربھگانےاوراسلام کاتمام دنیا کےلیے ہدایت کے پیغام کے طورپر علمبردار بننےکے لیے وقف کر دیں،تب ہی ہمار ا یہ خون رنگ لائے گا ورنہ سب کچھ تماشا اور وقت اور محنت کا ضیاع ہو گا۔
اے افسران!اے سپاہیو!اے مصر کنانہ کی فوج میں موجود مخلص مسلمانو!
یہ کیسے ممکن ہے کہ تم اپنے ماں باپ،بچوں اور بہن بھائیوں کے قتل میں شریک ہو؟!یہ کیسے ممکن ہے کہ تم ایک ایسی قیادت سے وفاداری کا ثبوت دو جو اپنی ہی عوام کو قتل کرنے کی سازش کر رہی ہے؟!وہ قیادت جس نے اپنی آخرت دنیا کے لیے بیچ ڈالی ہے،جو امت کے سب سے بڑے دشمن ،ظلم اور سرکشی کی ریاست امریکہ کے گود میں جا کر بیٹھ گئی ہے!اگر تم نے صرف اللہ اور اس کے رسول ﷺکے اوامر کی پیروی کی تو اللہ کی قسم تم ہی دنیا کی بہترین فوج ہو۔تمہارا دین تمہیں پکار رہا ہے کہ تم حرام خون مت بہاو ،اس کی اطاعت مت کرو جو تمہیں اپنے ہی بھائیوں کو قتل کرنے کا حکم دیتا ہے۔یہ خون جو تمہارے ہاتھوں بہہ رہا ہے اس کے بارے میں اللہ تم سے پوچھے گا!تم کب تک انتظار کرو گے؟تم پر لازم ہے کہ تم ظالم کا ہاتھ روکو اور اس کو حق کے سامنے سرنگوں کرو ورنہ اللہ تمہارے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے نفرت ڈال دے گا۔
موجودہ مجرم حکومت کو جڑھ سے اکھاڑ پھینکنا تمہاری ذمہ داری ہے،اس کو اس کے مددگاروں کے ساتھ چاروں شانے چت کرو!اسلام کو یکبار اور مکمل طور پر نافذ کرنے کے لیے جد وجہد کرو!تم بھی ان انصار جیسے بنو جنہوں نے پناہ دی اور مدد کی ،ہم حزب التحریر سےتمھیں پکار تے ہیں کہ تم خلافت کے عظیم منصوبے کی سب سے پہلے مدد کرو!تم اہل قوت ہو اور اس کے لائق ہو،اگر تم نے اپنی نیت اللہ کے لیے خالص کر دی تو تم اس پر قادر بھی ہو۔آو خلافت علی منہاج النبوۃ کے سائے میں دنیا کی عزت ،آخرت کی نعمت اپنے قادر مطلق رب کے پاس اعلی مقام حاصل کرنے کی طرف!
((ویقولون متی ھو قل عسی ان یکون قریبا)) "لوگ پوچھتے ہیں کب ایسا ہو گا کہہ دیجئے ممکن ہے بہت جلد"(الاسراء)۔

Read more...

شوال کے چاند کا نتیجہ اور عیدالفطر کی مبارکباد

پریس ریلیز

اللہ اکبر۔۔۔۔اللہ اکبر۔۔۔ کوئی معبود نہیں سوائے اللہ کے۔۔۔اللہ اکبر۔۔۔اللہ اکبر۔۔۔۔تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں
تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ، سلامتی ہو رسول اللہ ﷺ پر ، ان کی آل پر، ان کے صحابہ پر اور ان تمام پر جنھوں نے حق کی راہ کی پیروی کی ، کہ جنھوں نے اسلامی عقیدہ کو تمام افکار کی بنیاد کو بنایا، احکام شریعہ کو اعمال کی بنیاد بنایا اور شریعت کو اپنے فیصلوں کی بنیاد بنایا۔
بخاری نے اپنی صحیح میں محمد بن زید سے روایت کی کہ انھوں نے کہا : میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا کہ محمد ﷺ نے فرمایا : صوموا لِرُؤيتِهِ وأَفْطِرُوا لرؤيتِهِ فإنْ غُبِّيَ عليكم فأَكْمِلُوا عِدَّةَ شعبانَ ثلاثين "اسے(چاند) دیکھ کر روزہ رکھو اور اسے(چاند) دیکھ کراس کا اختتام کرو، اگربادل ہوں تو تیس دن(شعبان اور شوال کے) مکمل کرو"۔
آج کی مبارک رات یعنی جمعرات کی رات، شوال کے چاند کی شہادتوں کو دیکھنے کے بعد، شریعت کےتقاضوں کے مطابق صحیح نئے چاند کا دیکھا جانا ثابت ہوچکا ہے۔ اس بنیاد پر:
اول: شباب کی جانب سے ،جنھیں نئے چاند کو دیکھنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی، انڈونیشیا کے علاقے مشرقی مالوچ اور فلسطین کے علاقےبیت الحنین میں نئے چاند کے دیکھے جانے کی تصدیق کی گئی ہے۔
دوئم: اس کے علاوہ ہمیں سودیر، چاکرہ اور تامر سعودی عرب اور بھارت کے علاقے کتہشر میں کیرالہ اور مشرقی و مرکزی جاوا، مغربی پاپو اور جنوبی سولوؤسی انڈونیشیا سے مسلمانوں سے نئے چاند دیکھنے کی اطلاعات موصول ہوئیں۔
لہذا کل جمعرات 8اگست 2013 شوال کے مہینے اور عیدالفطرکا پہلا دن ہوگا۔
اس موقع پر امیر حزب التحریر،مشہور فقیہ، عطا بن خلیل ابو الرَشتہ(اللہ انھیں اپنی حفاظت میں رکھے) اس عزیز امت مسلمہ کے تمام لوگوں کو عید کی مبارک باد پیش کرتے ہیں۔۔۔
اور وہ اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ اللہ ہمیں خلافت کے قیام کا تحفہ عطا فرمائیں جو زمین پر اللہ کے احکامات نافذ کرے گی، اسلام کی دعوت کو،جو کہ دنیا کے لیے ہدایت اور روشنی ہے ، پوری دنیا میں پھیلائے گی۔ وہ ریاست جو انصاف کرنے والی ہوگی، زمینوں کو آزاد کرائے گی اور اللہ کے بندوں کو انساف فراہم کرے گی۔ وہ ریاست جو جہاد کرنے والی ہوگی اوراس کی فتوحات کبھی نہ ختم ہونے والی ہوں گی تا کہ لوگ اپنی عیدوں پر اللہ اکبر کے نعرے لگائیں اور اپنی فتوحات کے دوران' اللہ اکبر، اللہ اکبر، کوئی معبود نہیں سوائے اللہ کے اور تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں' کے کلمے بلند کرے گے۔ ۔۔
اسی طرح میں حزب التحریرکے مرکزی میڈیا آفس کے سربراہ اور ان تمام اراکین کا جو امیر حزب التحریر کے لیے کام کرتے ہیں ،کی جانب سے تمام مسلمانوں کو عید الفطر کی مبارک باد پیش کرتا ہوں۔
اے مسلمانو! میں اللہ تبارک و تعالیٰ سے دعا کرتا ہو کہ وہ ہمارے روزوں اور راتوں کے قیام کو قبول فرمائے، ہمارے رکوع و سجود کو قبول فرمائے اور ہمارے تمام اعمال کو قبول فرمائے۔ ہم اس سے مانگتے ہیں کہ وہ ہمیں خلافت راشدہ دوبارہ عطا فرمائے جس کے ذریعے ہم اپنا تحفظ کریں گے اور اس کے ذریعے لڑیں گے۔۔ جو کتاب اللہ اور سنت ِرسول اللہ ﷺ کی علمبردار ہو گی۔۔۔ اور ایسا کرنا اللہ کے لیے کوئی مشکل نہیں ہے۔
ہم پر یہ عید اس وقت آئی ہے جب اسلام کے مرکز شام میں مسلسل خون بہہ رہا ہے، مصر میں جمہوری نظام ناکام ہوچکا ہے اور تیونس اور لیبیا میں یہ جمہوری نظام ناکام ہورہا ہے۔۔۔
یہ حقائق مغربی صلیبیوں کی دشمنی کو ثابت کرتے ہیں جو خلافت کے قیام کو مسلم علاقوں میں اپنے استعماری غلبے ، اپنے استعماری مفادات کی تکمیل کے لیے مسلم علاقوں کی دولت کو لوٹنےکےتسلسل کے لیے خطرہ تصور کرتے ہیں اور سب سے اہم یہ کہ اس اسلامی قوت کے قیام کو روکنے کے لیے کوشش ہے، جو ان کے سیکولر نظام کا خاتمہ کرے گی جس نے اپنے جرائم اور مصیبتوں کے ذریعے انسانیت کا استحصال کیا ہے۔۔۔
لہذا ہم شام میں اپنے لوگوں سے کہتے ہیں کہ ہمارے پیارو صبر کرو، صلیبیوں ، ان کے ساتھیوں اور مسلم ایجنٹ حکمرانوں کے دھوکوں اور ہمسائیہ ممالک میں ترکی سے لے کر اردن تک اور عراق و لبنان سے لے کر مصر، ایران اور خلیج کے حکمرانوں تک میں پھیلے ہوئے ان کے جال سے اور ان سے جنھوں نے تم سے غداری کی اور استعماری طاقتوں کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے،سے ناامید مت ہوں۔
پر اعتماد رہو اور یقین رکھو کہ صبر ہی اس صورتحال سے نکلنے کی کنجی ہے اور کامیابی اللہ ہی کی طرف سے ہے۔ تو کوئی یہ نہ سمجھے کہ مغربی حکمران اور خطے میں موجود ان کے ایجنٹ حکمران اور ممالک اور مقامی سیاست دان اور لیڈران جو زہریلےامریکی منصوبوں کو حل کے طور پر پیش کرتے ہیں کہ ان سے کوئی خیر مل سکتی ہے یہ سب ہمارے لیے کوئی خیر نہیں چاہتے۔اور نئے چہروں کو سامنے لانے اور اپنے اخلاص کا یقین دلانے کے باوجود یقینایہ شام پر استعمار کے ازسر نو غلبے کو قائم کرنے کے لیے کام کررہے ہیں اور اللہ نے صحیح کہا ہے کہ ويمكرون ويمكر الله والله خير الماكرين "وہ چالیں چلتے ہیں اور اللہ اپنی چالیں چلتے ہیں اور اللہ سب سے بہترین چالیں چلنے والے ہیں" ۔
مصر اور تیونس میں اپنے مسلمان بھائیوں سے ہم کہتے ہیں کہ، اس شرمناک جمہوریت کا دھوکہ تم پرواضع ہوچکا ہےجو اپنی حیثیت کو بیلٹ بکس کے ذریعے ثابت کرنے کا دعویٰ کرتی ہےاور یہ جمہوریت پرانے استعماری دور کو نئے دور میں بھی جاری ساری رکھنے کی ہی صورت ہے۔۔۔
اور آپ اس حکومت کو گرانے کے لیےیہ نعرہ لگاتے ہوئے باہر نکلے کہ" شہید اللہ کا پیارا ہوتا ہے"۔۔۔۔
لہذا انتخابات کرانے کی پیشکش سے دھوکہ نہ کھائیں حقیقی قانونی حیثیت مسلمانوں کے عقیدے سے نکلتی ہے، اللہ کے احکامات کی اتباع سے نکلتی ہے وہ اللہ جس نے ہمیں ایک شریعت عطا فرمائی۔۔۔۔۔۔۔
اور آپ ان لوگوں کی اولادیں ہیں جنھوں نے اسلام کی روشنی اور اس کے انصاف کو پھیلانے کے لیے دنیا کے کونے کونے تک گئے۔۔۔۔۔۔۔
اور تمھارے آباؤ اجداد وہ لوگ تھے جنھوں نے صلیبیوں اور منگولوں دونوں کو شکست دی تھی اور آج تم اس قابل ہو کہ امت پر ہونے والی استعماری یلغار کو تباہ کردو اور اسلام کی روشنی سے دنیا کو منور کردو۔۔۔
اپنے دین میں کسی قسم کی کمی بیشی کو قبول مت کرو۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور صلیبیوں کےجھوٹے عودوں پر اعتبار مت کرو، هم العدو فاحذرهم " یہ دشمن ہیں لہذا ان سے ہوشیار رہو"۔ اور اپنے درمیان ان لوگوں کو مسترد کردو جو مغرب کے زہر کو پھیلاتے ہیں۔۔۔
مکمل خوشی کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ اسلام کا نظام زندگی کے تمام میدانوں، سیاست، معیشت، معاشرت، تعلیم پر لاگو ہو۔۔۔
اور یہ اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک نبوت کے طریقے پر چلتے ہوئے دوسری خلافت راشدہ کے قیام کا اعلان نہیں ہوجاتا۔
مکمل خوشی کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ مسلم علاقوں سے مغربی استعماریت کا خاتمہ کردیا جائے اور وہ دوبارہ لوٹ نہ سکے اور تمام مسلم مقبوضہ علاقے آزاد ہو جائیں۔
مکمل خوشی کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ مسجد الاقصی اور فلسطین کی سرزمین کو یہود کی غلاظت سے نجات دلائی جائے اور ان کی غلاظت سے پاک کردیا جائے۔
عیدالفطر اللہ کی جانب سے مسلمانوں کے لیے ایک مبارک تحفہ ہے اور عیدوں کی عید وہ ہوگی جب اللہ کا وعدہ اور رسول اللہ ﷺ کی بشارت پوری ہوگی یعنی جب ریاست خلافت قائم ہوگی۔
لہٰذا حزب التحریر آپ کو عیدوں کی عید کو حاصل کرنے کی دعوت دیتی ہے اور مقصد کے حصول کے لیے اس کام میں شریک ہونے کی دعوت دیتی ہے اور اپنی عید کا اختتام اس بات پر کریں کہ اللہ کے حکم کو پورا کرنے اور اس دین کو طاقت اور عزت دینے کے لیےمخلص لوگوں کے ساتھ کام کریں تا کہ ہم مل کر کامیابی کے دن اللہ اکبر کے نعرے لگائیں۔۔
اللہ اکبر، اللہ اکبر، اللہ اکبر۔۔۔لا الہ الاللہ
اللہ اکبر اللہ اکبر والحمدللہ
کوئی معبود نہیں سوائے اللہ کے اور ہم صرف اسی کی عبادت کرتے ہیں اور ہم اسی کی دین سے مخلص ہیں چاہے کفار اس سے نفرت ہی کیوں نہ کریں۔
عید مبارک۔ اللہ ہماری آپ کی عبادات کو قبول فرمائے۔

وسلام علیکم و رحمتہ اللہ و براکتہ

 

عثمان بخاش
ڈائریکٹر مرکزی میڈیا آفس حزب التحریر

Read more...

آئی.ایم.ایف کا پاکستان کے لیے بجٹ 2013/14 آئی.ایم.ایف کے بجٹ کو جمہوریت کا تڑکا لگا کر اسے اپنا بجٹ قرار نہیں دیا جاسکتا

حزب التحریر ولایہ پاکستان کی جانب سے پاکستان کے لیے آئی.ایم.ایف کے بجٹ کو بے نقاب کرنے کی مہم کے سلسلے میں، پاکستان کے صنعتی اور مالیاتی مرکز کراچی کے اہل رائے حضرات کو اس بجٹ کے حوالے سے ایک بریفنگ دی گئی۔ یہ اجتماع حزب التحریر ولایہ پاکستان کی جانب سے خلافت کے قیام کے ذریعے پاکستان کی معیشت کو بچانے کے سلسلے میں شروع کی گئی مہم کا ایک حصہ تھا۔ اس مہم کے دوران لیفلٹ کی تقسیم، ایک کتاب کا اجرأ جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ خلافت کس طرح پاکستان کی معیشت کو دوبارہ زندہ کرے گی، وفود، پریس بریفنگز اور عوامی رابطہ مہم انجام دی گئی ہے۔

اجتماع سے پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان، شہزاد شیخ نے خطاب کیا اور اس بات کو بے نقاب کیا کہ کس طرح کیانی و شریف حکومت نے پاکستان کی معیشت کو موجودہ مالی سال میں مزید تباہ برباد کرنے کے لیے آئی.ایم.ایف کے تجویز کردہ نسخے کو من و عن نافذ کیا ہے۔ اس تباہ کن نسخے میں معاشی سرگرمیوں کو ختم کرنے کے لیے کمر توڑ ٹیکسوں، توانائی کے شعبے کو مفلوج کرنے لیے مزید نجکاری اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے اور خسارے کو پورا کرنے کے لیے مزید قرضے لینے کا مشورہ دیا گیا ہے جو خوفناک افراط زرکی بنیادی وجہ ہے۔

شہزاد شیخ نے کہا کہ پہلے ہی کیانی و شریف حکومت امت اور معاشرے کے تمام طبقات کی جانب سے خود کو گھیرے میں پاتی ہے اور لوگ آئی.ایم.ایف کی غلامی کرنے کی مذمت کر رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ حزب التحریر وزیر خزانہ کی اس تو جیع کی مذمت کرتی ہے اور اس کو ایک مذاق قرار دیتی ہے کہ کیونکہ جمہوریت نے آئی.ایم.ایف کے مطالبات کو منظور کر لیا ہے اس لیے اب یہ ایک مقامی اور ہمارا اپنا تجویز کردہ بجٹ ہے۔ حکومت کس طرح یہ دعوا کرسکتی ہے کہ جمہوریت نے آئی.ایم.ایف کی حرام تجاویز کو لوگوں کے لیے حلال بنا دیا ہے؟ حکومت کس طرح یہ دعوا کرسکتی ہے جبکہ عوام کی عظیم اکثریت جمہوریت کو ملک کے لیے ایک برائی تصور کرتی ہے اور شریعت کو ملک کے قانون کے طور پر دیکھنا چاہتی ہے؟ انھوں نے مزید کہا کہ کیانی و شریف حکومت لوگوں کی خواہشات اور ضروریات سے بالکل لاتعلق ہو چکی ہے یہی وجہ ہے کہ اس کا ہنی مون پیریڈ کیانی وزرداری حکومت کے مقابلے میں بہت جلد ختم ہوگیا ہے۔

انجینئر شہزاد شیخ نے حاضرین کو حزب کے ساتھ کام کرنے کی دعوت دی تاکہ پاکستان کی مسلم سرزمین پر خلافت کے قیام کو ممکن بنایا جائے۔

پاکستان میں حزب التحریر کا میڈیا آفس

 

 

Read more...
Subscribe to this RSS feed

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک