الإثنين، 23 جمادى الأولى 1446| 2024/11/25
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

امریکہ افغانستان سے کیوں نکلنا چاہتا ہے

بسم الله الرحمن الرحيم

عابد مصطفیٰ

حالیہ دنوں میں افغانستان سے امریکی انخلاء کے متعلق بہت کچھ شائع ہوا ہے ۔ اس انخلاء کے منصوبے پر 2014 میں عمل درآمد کرنے کا ارادہ ہے۔ لہذا یہ ایک اچھا موقع ہے کہ اس بات کا جائزہ لیا جائے کہ آیا امریکہ نے افغانستان کے حوالے سے اپنے تضویراتی (سٹریٹیجک)منصوبےمیں کوئی تبدیلی کی ہے یا یہ انخلاء محض ایک آپریشنل منصوبے کا ایک حصہ ہے۔ اگر یہ آپریشنل منصوبے کا ہی حصہ ہے تو پھر وہ کیا وجوہات ہیں جن کی بنا پر واشنگٹن افغانستان سے نکلنے پر مجبور ہو رہا ہے۔ اس مضمون میں اسی سوال کا جواب دینے کی کوشش کی جائے گی۔
سب سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ امریکہ کے لیے افغانستان کی کیا اہمیت ہے۔ اگر آپ 20اکتوبر 2010کو جاری کیے گئے سوال و جواب کو یاد کریں تو ہم نے یہ کہا تھا کہ افغانستان پر امریکی حملے کے تضویراتی(سٹریٹیجک) اہداف یہ تھے:
1۔ یوریشیا میں روس اور چین کی پیش رفت اور بالادستی کو روکنا
2۔ریاست خلافت کے قیام کو روکنا
3۔ کیسپین کے سمندر اور مشرق وسطی میں موجود تیل وگیس کے ذخائر کو اپنے قبضے میں لانا
4۔ کیسپین کے سمندر اور مشرق وسطی سے نکلنے والے تیل و گیس کی سپلائی کے راستوں اور ان کی حفاظت کے معاملات کو اپنے قبضے میں رکھنا

اس تجزیے کے شواہد یہ تھے:
"یوریشیا میں دنیا کی سب سے زیادہ سیاسی لحاظ سے مضبوط اور متحرک ریاستیں موجود ہیں۔ تاریخی طور پر عالمی قیادت کے دعوے دار یوریشیا سے ہی اٹھتے رہے ہیں۔ علاقائی سطح پر بالادستی کی شدید خواہش رکھنے والے دنیا کے سب سے بڑی آبادی والے ممالک چین اور بھارت اسی خطے یوریشیا سے تعلق رکھتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی امریکہ کی سیاسی و معاشی بالادستی کو چیلنج کرنے والےممالک بھی اسی خطے میں واقع ہیں۔ امریکہ کے بعد دنیا کی چھ سب سے بڑی معیشتیں اور اپنے دفاع پر خرچ کرنے والے ممالک بھی اسی خطے میں واقع ہیں اور اس کے ساتھ ہی ساتھ دنیا کے تمام اعلانیہ اور غیر اعلانیہ ایٹمی ریاستیں بھی اسی خطے میں موجود ہیں۔ دنیا کی کُل آبادی کا 75فیصد یوریشیا میں آباد ہےجبکہ دنیا کی 60فیصد کُل قومی پیداوار اور 75 فیصد توانائی کے وسائل بھی اسی خطے میں موجود ہیں۔ یوریشیا کی مجموعی طاقت امریکہ کی طاقت سے آگے نکل جاتی ہے۔ جو طاقت یوریشیا میں بالادستی حاصل کرے گی وہ لازماً دنیا کے تین میں سے دو انتہائی اہم معاشی طاقت کے حامل خطوں ، مغربی یورپ اور مشرقی ایشیا میں بھی فیصلہ کن اثرو رسوخ اورطاقت کی حامل بھی ہوگی۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی مشرق وسطیٰ اور افریقہ کو بھی اپنے اثرو رسوخ کے طابع کردے گی۔ یوریشیا کے اتنے وسیع خطے میں جس طرح سے بھی طاقت کی تقسیم ہو گی تو اس کا فیصلہ کُن اثر امریکہ کی عالمی بالادستی اور اس کی تاریخی روایت پر بھی پڑے گا"۔(زےبیگنیو بریسینسکی، "یوریشیا کے لیے سٹریٹیجی"،فارن افئیرز، ستمبر/اکتوبر1997)
"امریکہ کا یہ لازمی ہدف ہے کہ یوریشیا کے خطے میں کسی بھی اہم اور بڑی طاقت کو قائم ہونے سے روکا جائے۔ اس مقصد کو وہ اس طرح سے حاصل کرے گا- ان مداخلتوں کا مقصد کبھی بھی یہ نہیں تھا کہ کچھ حاصل کرنا ہے ۔چاہے سیاسی طور پر کچھ بھی کہا جاتا رہےلیکن ان مداخلتوں کا مقصد کسی ہونے والی چیز کو روکنا ہے۔ امریکہ ان خطوں میں استحکام نہیں چاہتا جہاں ایک اور طاقت پیدا ہونے کا امکان موجود ہو۔ اس کا مقصد استحکام کا قیام نہیں بلکہ عدم استحکام کا قیام ہے اور اس سے اس بات کی وضاحت ہوجاتی ہے کہ امریکہ نے اسلامی زلزلے کا سامنا کس طرح سے کیا ہے۔ وہ ایک بڑی اور طاقتور اسلامی ریاست کے قیام کو روکنا چاہتا ہے۔ اگر نعرے بازی کو ایک طرف رکھ دیا جائے تو یوریشیا میں امن کا قیام امریکہ کا کوئی اہم ہدف یا مفاد نہیں ہے۔ اس کے علاوہ امریکہ کو اس بات سے بھی کوئی سروکار نہیں کہ وہ جنگ جیت جائے۔۔۔۔ان تنازعات کا مقصد صرف ایک طاقت کو ابھرنے سے روکنا یا خطے کو عدم استحکام کا شکار کرنا ہے ناکہ وہاں پر نظم و ضبط کو قائم کرنا"۔(جارج فرائڈمین،"اگلے سو سال-اکیسوی صدی کے لیے پیش گوئی"،2009)
ان اہداف کے حوالے سے ریپبلیکن اور ڈیموکریٹ میں کوئی اختلاف موجود نہیں ہے۔ لہذا دنیا کے اس خطے کے حوالے سے خارجہ پالیسی کے معاملات میں بش اور اوبامہ کے درمیان کوئی مقابلے بازی نہیں ہے۔ان دونوں جماعتوں کے درمیان جو بھی اختلاف ہوتے ہیں وہ آپریشنل سطح کے ہوتے ہیں ،مثلاً کیسے افغانستان پر امریکی قبضے کو قانونی بنایا جائے اور وہاں پر کسی حد تک استحکام کو قائم کیا جائے تا کہ اس کے بعد کے تضویراتی (سٹریٹیجک )اہداف کوحاصل کیا جاسکے۔آپریشنل سطح کے اختلافات ہی ہمیشہ بش اور اوبامہ کی حکومتوں کے درمیان رہے اور اب خود اوبامہ انتظامیہ میں بھی ہیں۔ لہذا آپریشنل حکمت عملی کئی بار تبدیل کی جاچکی ہے لیکن اوبامہ انتظامیہ کے دور میں کئی بار کی تبدیلیوں کے باوجود ،امریکہ کی حکمت عملی چار اہداف کو حاصل کرنے پر ٹہر گئی ہے اور وہ یہ ہیں:
1۔ افغان حکومت کی استعداد میں اضافہ کرنا تا کہ وہ ملک میں اپنی رِٹ قائم کرسکے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ افغان سیکیوریٹی فورسز، پولیس اور فوج کو تیار کیا جائے، وفادار اور قابل گورنر لگائے جائیں اور افغان حکومت میں بدعنوانی کو ممکن حد تک کم کیا جائے۔
2۔ القائدہ اورپشتونوں میں موجود ان جہادیوں کو جو امریکی قبضے کے خلاف ہیں ،تباہ و برباد کردیا جائے۔
3۔ اعتدال پسند طالبان کو میدان جنگ چھوڑنے اور مرکزی افغان حکومت میں شمولیت کے لیے رضا مند کیا جائے۔
4۔ افغانستان کے مسئلے کے امریکہ کے تجویز کردہ حل میں نیٹو، پاکستان،ایران،بھارت،روس،چین اور دوسرے ممالک کو بھی شامل کیا جائے یعنی کہ ایک طرح کے بین الاقوامی طرز کے طریقہ کار کو افغانستان کو درپیش چیلینجز کا سامنا کرنے کے لیے استعمال کیا جائے۔
اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ امریکہ کو اپنے آپریشنل اہداف کو حاصل کرنے میں بہت مشکلات درپیش ہیں اور اسی وجہ سے اوبامہ اور اس کے اتحادی اس بات کا بہت شدید ادراک رکھتے ہے کہ افغانستان کی جنگ کو جیتنا اب ممکن نہیں یعنی استحکام پیدا نہیں کیا جاسکتا جو کہ آپریشنل اہداف میں سے ایک ہدف تھا۔
وہ وجوہات جن کی بنا پر امریکہ کو افغانستان میں اپنی صورتحال کا جائزہ لینا پڑا
ایسی کئی وجوہات ہیں جن کی بنا پر امریکہ کو اپنی صورتحال کا دوبارہ جائزہ لینا پڑا:
اندرونی وجوہات
٭ 2008میں لی مین برادرز کے ڈوبنے کے بعد عالمی مالیاتی نظام شدید دباؤ میں آگیا اور تقریباً تباہ ہی ہوگیا تھا۔ اس بحران نے امریکہ اور یورپ کی معیشتوں کو اس قابل ہی نہیں چھوڑا کہ وہ مزید جنگوں اور دوسرے ممالک میں مداخلت کے اخراجات کو برداشت کرسکیں۔
٭ افغانستان اور عراق میں ہونے والی جنگوں نے امریکہ کی فوجی طاقت میں موجود تھکاوٹ کو واضع کردیا۔ اگر آسان لفظوں میں اس کو بیان کیا جائے تو وہ یہ ہے کہ امریکہ کے افواج اس قدر وسیع علاقے میں پھیل چکی ہیں کہ اب وہ مزید بیرون ملک فوجی میشنز کو پورا کرنے سے قاصر ہے۔ واشنگٹن اس وقت شدید دباؤ کا شکار ہے کہ وہ بیرون ملک موجود افواج کی تعداد میں مناسب حد تک کمی کرے۔
٭2003 میں عراق میں مداخلت کے وقت سے امریکہ وہ سپر پاور نہیں رہا جو وہ کبھی ہوا کرتا تھا ۔ دنیا کے کئی خطوں میں مسلسل دنیا کی اہم طاقتیں جیسے روس، برطانیہ اور فرانس اس کے خلاف دباؤ بڑھا رہی ہیں ۔ایشیا پیسیفک میں امریکہ چین کی بڑھتی ہوئی طاقت سے شدید پریشان ہےاور واشنگٹن یہ سمجھتا ہے کہ اگر اس نے بیجنگ کو کھلا چھوڑ دیا تو وہ اس خطے میں اس کی بالادستی کو چیلنج کرے گا۔ 2006 میں نیشنل انٹیلی جنس کونسل کے سابق نائب چیرمین گراہم فولر نے امریکہ کے دشمنوں کی جانب سے اسے درپیش چیلنجز کو یوں بیان کیا کہ:
"پچھلے چند سالوں میں کئی ممالک نے مختلف طریقوں سے بش کے ایجنڈے کو کمزور، تبدیل، محدود، تاخیر یا روکنے کے لیے ہزاروں زخم لگائیں ہیں۔ یہ مخالفین مختلف وجوہات اور بعض دفعہ محدود فائدوں کے حصول کے لیےاکٹھے ہوئے لیکن ان کے اتحاد کی وجہ جس کی متعلق عموماً خاموشی اختیار کی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ کسی بھی طرح طاقت کے ایک مرکز کی حامل دنیا کا خاتمہ کیا جائے"۔("سٹریٹیجک تھکاوٹ"، نیشنل انٹرسٹ،2006)
اس کے ساتھ ہی پچھلے ایک سال یا اس سے زائد عرصے کے دوران بین الاقوامی وجوہات نے بھی دو معاملات میں امریکی خارجہ پالیسی پر گہرے اثرات چھوڑے ہیں:
ا۔امریکہ 2001 سے افغانستان کی جنگ میں 550بلین ڈالر خرچ کرچکا ہے۔ اس کے علاوہ مسلسل دفاعی بجٹ میں کی جانے والی کمی نےامریکہ کے لیے مختلف محاذوں پر ایک ساتھ جنگ لڑنے کی صلاحیت میں شدید کمی پیدا کردی ہے۔ جنوری 2012 میں نیو یارک ٹائمز نے ایک مضمون اس وقت کے امریکی وزیر دفاع پنیٹا کے لیے لکھا جس میں فوجی بجٹ میں کمی کے طریقہ کار پر مشورے دیے گئے تھے۔ اس مضمون میں لکھا تھا کہ :
"مالیاتی مشکلات کی وجہ سے اہداف میں آنے والی تبدیلی اور پچھلی گرمیوں میں امریکہ کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لیے ہونے والے معاہدے کی وجہ سے ،اس بات کی توقع کی جاری ہے کہ جناب پنیٹا یہ بات واضع کردیں گے کہ پینٹاگون اب ایک ساتھ دو جنگیں نہیں لڑسکتا۔ بلکہ اس کی جگہ وہ یہ کہیں گے کہ فوج اس قدر ہی بڑی ہے کہ ایک وقت میں ایک اہم اور بڑی جنگ لڑ سکتی اور جیت سکتی ہےجبکہ اسی دوران دنیا کے کسی دوسرے حصے میں ایک اور دشمن کے عزائم کو کئی چھوٹے چھوٹے آپریشنز کر کے ناکام کرسکتی ہے جیسا کہ نو فلائی زون کو قائم کرنا یا تباہ حال لوگوں کو مدد پہچاناوغیرہ"۔
لہذا امریکہ نے، جو کبھی ایک ساتھ دو جنگیں لڑنے کی صلاحیت رکھتا تھا، بل آخر اِس بات کا اعتراف کرلیا کہ وہ اب ایک وقت میں صرف ایک ہی جنگ لڑسکتا ہے۔
ب۔ تو اب امریکہ اس بات پر مجبور ہو چکا ہے کہ وہ اس بات کا تعین کرے کہ دو میں سے کون سی ایک جنگ اسے لڑنی ہے۔ امریکہ کو اس وقت کئی چیلینجز کا سامنا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اسے عراق اور افغانستان کی جنگوں کے معاملات بھی دیکھنے ہیں اور ایشیا پیسیفک میں چین کے خلاف جنگ لڑنے کےساتھ ساتھ مشرق وسطی میں بھی لڑنے کے لیے خود کو تیار کرنا ہے۔ بار حال یہ چین کی ڈرامائی طاقت کا کمال ہے جو امریکہ کے پالیسی سازوں کے لیے اس وقت سب سے زیادہ پریشانی کا باعث ہے۔ مارچ 2012میں کانگریس کے تحقیقاتی ادارے نے ایک رپورٹ امریکی کانگریس کے لیے تیار کی جس کا عنوان تھا "پیسیفک کی جانب توجہ؟ اوبامہ انتظامیہ کی ایشیا میں ترتیب کو درست کرنا"۔ اس رپورٹ میں واضع طور پر کہا گیا ہے کہ:
"اس 'توجہ' کے پیچھے یہ یقین ہے کہ امریکہ کی خارجہ پالیسی ، قومی سلامتی اور معاشی مفادات کا ہدف تبدیل اور ایشیا کی جانب منتقل ہورہا ہے لہذا امریکہ کی ترجیحات اور مفادات کا اسر نو تعین کیا جاناضروری ہو گیا ہے۔ کئی ماہرین کے مطابق یہ لازمی ہے کہ امریکہ ایشیا پیسیفک کو زیادہ اہمیت دے۔ یقیناً کئی سالوں سے خطے میں موجود کئی ممالک نے امریکہ کو اس بات پر مجبور کیا ہے کہ وہ چین کے بڑھتے ہوئے اثرو رسوخ کو محدود کرنے کے لیے اقدامات اٹھائے"۔
افغانستان اور عراق میں امریکی افواج میں کمی اور اس کی بحری اور زمینی افواج کی ایشیاپیسیفک میں پیشقدمی یہ ظاہر کرتی ہے کہ امریکہ چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کو انتہائی سنجیدگی سے دیکھ رہا ہے اور اگر ضروری ہوا تو واشنگٹن فوجی محاذ آرائی کے لیے بھی تیار ہے۔ اسی کو اوبامہ کی ایشیا کی جانب توجہ کہا جاتا ہے جس کے تحت یورپ اور مشرق وسطی سے امریکی اثاثوں کو مشرقی ایشیا میں منتقل کیا جارہا ہے۔
علاقائی وجوہات
افغانستان میں دیر پا استحکام کے قیام میں تین علاقائی چیزوں نے امریکہ کے لیے اس معاملے کو پیچیدہ بنادیاہے۔
٭افغانستان میں امریکی قبضے کوبرقرار رکھنے کے لیے نیٹو نے ایک حد سے آگے جانے سے انکار کیا ہے جس کی قیادت یورپ کررہا ہے۔ 2003 میں جب افغانستان میں نیٹو نے بین الاقوامی سیکیوریٹی فورس کے پردے میں اپنا آپریشن شروع کیا تو اس وقت سے ہی کچھ یورپی ممالک نے اپنے افواج کو افغانستان بھیجنے میں زیادہ دلچسپی نہیں دیکھائی ہے۔ بیلجیم، اٹلی،فرانس اور جرمنی نے ہمیشہ ایسے بہانوں کو اختیار کیا ہے جن کی بنا پر ان کی افواج افغانستان کے نسبتاً پر امن علاقوں میں تعینات رہی ہیں۔ اسی طرح کئی نیٹو کیاجلاس اس مسئلے کو حل کرنے میں ناکام رہے ہیں اور امریکہ کے لیے اب یہ مشکل ہو چکا ہے کہ وہ اپنی تبدیل شدہ ترجیحات کے ساتھ افغانستان کے بوجھ کو بھی تنے تنہا ہی اٹھائے۔ 2012 میں شکاگو میں ہونے والی نیٹو سربراہی کانفرنس میں نیٹو ممالک نے بل آخر یہ تسلیم کرلیا کہ وہ افغانستان میں اپنے مشن کو ختم کردیں۔ کانفرنس کے اعلامیے میں کہا گیا کہ :
"دس سال کی جنگ کے بعد اور عالمی معیشت کے کمزور ہونے کی وجہ سے ، مغربی ممالک اب اس جنگ پر مزید خرچ نہیں کرنا چاہتے چاہے اس کا تعلق پیسے سے ہو یا جانوں سے۔ ان کی کوششوں کی قیمت ایک ایسے ملک میں لاحاصل ہے جس نے صدیوں تک بیرونی طاقتوں کے خلاف شدید مزاحمت کی ہے"۔
٭امریکہ مزید پاکستانی افواج کو قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشنز کرنے کے لیے حرکت میں لانے سے قاصر رہا ہے خصوصاً شمالی وزیرستان میں۔ اور یہ اس صورتحال میں ہوا ہے جبکہ اس کے ایجنٹ زرداری اور کیانی اور وہ لوگ جو سیاسی میدان میں موجود ہیں، نے اپنے آقاؤں کے احکامات کو پورا کرنے کی سر توڑ کوشش کی۔
٭افغانستان میں امریکہ کی کامیابی کو مشکل بنانے میں بھارت نے بھی ایک کردار ادا کیا جو برطانیہ کے زیر اثر ہے۔ بھارت نے یہ ہدف اس طرح حاصل کیا کہ امریکہ کی مسلسل گزارشات کے باوجود،اس نے پاکستان اور بھارت کے سرحد پر کشیدگی میں خاطر خوا کمی نہیں ہونے دی۔ لہذا پاکستان پھر اس قابل ہی نہیں ہو سکا کہ وہ مزید افواج کو افغانستان کی سرحد پر منتقل کرے اور مزاحمت کے خاتمے میں امریکہ کو مزید مدد فراہم کرسکے۔
اندرونی وجوہات
امریکی صدر اوبامہ اور امریکی فوجی قیادت کے درمیان افغانستان میں امریکی افواج کی تعداد اور ان کے انخلاء کے حوالے سے منصوبہ بندی میں اختلافات جنرل میک کرسٹل کی برطرفی اور امریکی و نیٹو افواج کے حوصلوں میں پستی کا باعث بنی۔ اس کے علاوہ پشتون مزاحمت نے امریکہ کے مسائل میں مزید اضافہ کردیا۔ امریکی جنرل جیمز کونوے ،جو کہ امریکی میرینز کے سربراہ بھی ہیں، نے انخلاء کی تاریخ کے حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔ اس نے کہا کہ :
"ہم سمجھتے ہیں کہ اس کے نتیجے میں (یعنی انخلاء کی تاریخ کا اعلان)دشمن کو فائدہ پہنچے گا۔ ہم نے ایک پیغام پکڑا تھا جس میں کہا گیا تھا 'ہمیں صرف کچھ عرصے کے لیے انتظار کرنا ہے'،۔۔۔۔میں ایمانداری سے یہ سمجھتا ہوں کہ ابھی ہمیں مزید کچھ عرصہ وہاں رہنے کی ضرورت ہے کہ جس کے بعد صورتحال اس قدر بہتر ہوجائے گی کہ ہم وہاں سے انخلاء کرسکیں"۔(امریکی جنرل:افغانستان میں انخلاء کی تاریخ دینا' دشمن کو فائدہ پہنچانے کے مترادف ہے'،بی۔بی۔سی نیوز لائن، 24اگست2010)
امریکی فوجیوں کے طرز عمل نے بہت جلد انھیں افغان معاشرے میں نا صرف انتہائی غیر مقبول بنادیابلکہ قابض فوجوں کے خلاف مزاحمت میں بھی زبردست شدت پیدا ہوگی۔ ان فوجیوں کے ذلیل طرز عمل میں قرآن کی بے حرمتی، مردہ مجاہدین کی لاشوں پر پیشاب کرنا، عورتوں اور بچوں کا قتل عام ، پشتون علاقوں میں آپریشنز کے لیے تاجک لوگوں کو استعمال کرنا اور بدعنوان اہلکاروں کی پشت پناہی کرنا شامل ہیں۔
لہذا ہم یہ کہہ سکتے ہیں بین الاقوامی، علاقائی اور اندرونی وجوہات نے امریکہ کو اپنی آپریشنل ترجیحات کو چھوڑنے اور طالبان سے براہ راست مزاکرات کرنے پر مجبور کردیا تا کہ ایک باعزت انخلاء کو ممکن بنایا جاسکے۔ لیکن اس کا قطعاً یہ مطلب نہیں ہے کہ امریکہ یوریشیا سے متعلق اپنے تضویراتی(سٹریٹیجک) اہداف سے دست بردار بھی ہوگیا ہے۔ وہ مستقبل میں بھی افغانستان کو اڈہ بنا کر خطے میں کاروائیاں جارے رکھے گا۔
لیکن انشاء اللہ خلافت کا قیام جلد ہی امریکہ کی خواہشات پر پانی پھیر دے گا اور افغانستان اور مسلم علاقے امریکہ کے لیے ایک بھولی بسری کہانی ہی رہ جائے گی۔

 

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک