الخميس، 26 جمادى الأولى 1446| 2024/11/28
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

شام کے کیمیائی ہتھیاروں کے حوالے سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد نے کافر استعماری طاقتوں کی اصلیت ظاہر کردی،مسلم ممالک میں قوت و طاقت کے ہتھیاروں کو ختم کرنے کے لیے یہ سب ایک ہیں

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے قرارداد نمبر 2118 پُر زور تالیوں کے شور میں منظور کرلی۔ یہ قرار داد اتفاقِ رائے سے منظور ہوئی اور کسی بھی ملک کی جانب سے ویٹو کی طاقت کو استعمال نہیں کیا گیا۔یہاں تک کہ ان ممالک نے بھی اس قرارداد کو ویٹو نہیں کیا جو ایسے فیصلے کی مخالفت کررہے تھے، اور وہ فیصلے کے وقت غائب ہو گئے۔ شام کا ظالم و جابر تقریباً تیس ماہ سے شام کے مسلمانوں کا قتلِ عام کر رہا ہے اور اس عرصے کے دوران یہ پہلا فیصلہ ہےجوکافرطاقتوں نے اتفاق رائے سے کیا ہے۔'بین الاقوامی برادری'جس کی قیادت امریکہ اور اس کے اتحادی کررہے ہیں، نے اس تمام عرصے کے دوران اُن لاکھوں بوڑھوں، بچوں اورعورتوں کی کوئی پروا نہیں کی کہ جن کو بے دریغ قتل کیا گیا۔ نہ ہی اس تما م عرصے کے دوران 'بین الاقوامی برادری' نے اُن لاکھوں زخمیوں کی پروا کی کہ جن کے اعضاء میزائل حملوں میں کٹ کر جسموں سے علیحدہ ہورہے تھے۔ اور نہ ہی انھوں نے اُن لاکھوں لوگوں کی پروا کی جو اس بمباری کے نتیجے میں اپنے گھروں سےمحروم اورہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے۔ان تمام تر المناک واقعات کے باوجود بین الاقوامی برادری نے ان لوگوں کو شام کے جابرحکمران سے بچانے کے لیے کوئی عملی قدم نہ اٹھایا۔بلکہ امریکہ اور روس نے مل کر طےکرلیا کہ ایسے کسی بھی فیصلے کو رد کردیا جائے تا کہ شام کاجابرحکمران کسی رکاوٹ کے بغیر عوام کے خلاف اپنے جرائم کو جاری رکھ سکے،وہ جرائم کہ جن سے نہ تو کوئی انسان محفوظ ہے اور نہ ہی کوئی درخت یا پتھر۔ اس قدر المناک واقعات بھی ان طاقتوں کو اکٹھا نہ کرسکے لیکن اب یہ طاقتیں شام کے کیمیائی ہتھیاروں کے خاتمے کے لیے اکٹھی ہوگئی ہیں، جبکہ اسرائیل اور دوسری ریاستوں کےگودام اس قسم کےاسلحے سے بھرے پڑے ہیں ۔ ان میں وہ بڑی طاقتیں بھی شامل ہیں جو یہ دعویٰ کرتی ہیں کہ انھیں کیمیائی ہتھیاروں کے خاتمے کا حق حاصل ہے۔ہر صاحب عقل آدمی یہ جانتا ہے کہ یہ طاقتیں اس قرارداد پر اس لیے اکٹھی ہوئیں کیونکہ یہ قرارداد اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ہے۔ تمام ممالک یہ جانتے ہیں کہ شام کا جابر بشار گررہا ہے اور یہ ہتھیارواپس مخلص مسلمانوں کے ہاتھوں میں آجائیں گے۔یہ ہے وہ صورتحال جو ان کے لیے اور ان کی لے پالک اولاد اسرائیل کے لیے انتہائی خوف و پریشانی کا باعث ہے۔ اور اسرائیل کا تحفظ جیسا کہ بین الاقوامی غنڈوں کے سربراہ اوبامہ نے کہا کہ خطے میں اس کے انتہائی اہم مفادات میں سے ایک ہے،اور ان مفادات میں سے ایک اور اہم مفاد اس خطے میں موجود دولت خصوصا'بلیک گولڈ' یعنی تیل کا حصول ہے۔
مسلمانوں کے خلاف کافر استعماری طاقتوں کا اکھٹے ہو جانا کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ حقیقت میں تو یہ ایک معمول ہے۔ جیسےہی مسلمانوںسےمنسلک کوئی معاملہ درپیش ہوتاہے کفار اپنے اختلافات کو بھلا دیتے ہیں ۔لہذا رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں بھی وہ کافر عرب قبائل کہ جو شاید ہی کبھی اکٹھے ہوئے ہوں ،بلکہ وہ ایک اونٹ کی خاطرایک دوسرے سے لڑتے تھے، لیکن جب معاملہ رسول اللہ ﷺ سے لڑنے کا ہوا تو وہ ایک ہوگئے۔ہجرت سے قبل انھوں نے تمام قبیلوں سے چالیس جوان منتخب کیے تا کہ رسول اللہ ﷺ کو اُنہی کے گھر میں(معاذ اللہ) قتل کر دیا جائے۔روم اور فارس ایک دوسرے کے سخت دشمن تھے لیکن انھوں نے 12 ہجری میں ،موجودہ عراق کے شہر بوکمال کے مقام پر، مسلمانوں کے خلاف ہونے والی جنگ الفراد میں ایک دوسرے سے تعاون کیا۔اوریورپ کے صلیبی پانچویںصدیہجریبمطابق گیارویں صدی عیسوی کےآخرکے بعد دو سو سال تک اکٹھے ہوکر مسلمانوں کے خلاف لڑتے رہے۔ پھر تاتاری آگئے ۔جنہوں نے کمزور ہوتی ہوئی صلیبی ریاستوں کو چھوڑ کر 615ہجری میں مسلم علاقوں پر حملہ کردیا۔صرف یہی نہیں بلکہ صلیبیوں نے پانچویں صلیبی حملے میں ناکامی کے بعد617ہجری میں تاتاریوں کواکسایا کہ وہ مسلم علاقوں پر حملہ کردیں۔پھر یورپی ممالک جو ہمیشہ ایک دوسرے سے لڑتےرہتے تھے،لیکن سولہویں اور سترویں صدی عیسوی میں جب انھوں نے دیکھا کہ "عثمانی خلافت" ایک عظیم اور طاقتور ریاست بن گئی ہے تو یورپی بادشاہوں نے اپنے اختلافات کو ختم کیا اور اسلامی ریاست سے لڑنے کے لیے اکٹھے ہوگئے، کیونکہ وہ اسلام اور مسلمانوں سے نفرت کرتے تھے۔ انھوں نے ایک"بین الاقوامی برادری" کا تصور پیش کیا اور یہ تصورسولہویں صدی عیسوی سے چلا آرہا ہے۔پھر جب اسلامی ریاست کمزور ہوئی اور بالآخر ختم ہوگئی تو پہلی جنگ عظیم کے بعد بین الاقوامی برادری کے اس تصور کو لیگ آف نیشنز کی شکل دے دی گئی،جسے دوسری جنگ عظیم کے بعد اقوامِ متحدہ کا نام دے دیا گیا۔لیکن ناموں کی اس تبدیلی کے باوجود ان تمام تنظیموں میں وہ بنیادی تصور برقرار رہا جو بین الاقوامی برادری کے تصور کو پیش کرنے کا باعث بنا تھا، یعنی اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جنگ۔ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جنگ میں ذرائع اور طریقہ کار تو تبدیل ہوتے رہے لیکن مسلمانوں اور اسلام کے خلاف ظلم و جبر کا سلسلہ جاری رہا ۔اور آج امریکہ جس کافر اتحادکی قیادت کررہا ہے،اس کا بنیادی مقصد بھی یہی ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جنگ کو جاری رکھا جائے۔اسی مقصد کا نتیجہ ہے کہ یہ استعماری طاقتیں فلسطین پریہودی ریاست کے قبضے کی حمایت کرتی ہیں، مسلمان ممالک کے کیمیائی ہتھیاروں کو ختم کرنے کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں قراردادمنظورکرتی ہیں اور مسلم علاقوں کی دولت کو لوٹتی ہیں۔
اے مسلمانو! کافر استعماری طاقتوں کا اکٹھا ہونا کوئی نئی بات نہیں ہے کیونکہ یہ پہلے بھی ایسا ہی کرتے رہے ہیں، لیکن جو بات انتہائی شرمناک ہے وہ مسلم حکمرانوں کا امریکہ اور اور اس کے اتحادیوں کے سامنے جھک جانا ہے ۔ یہ حکمران اس قدر جھک گئے ہیں کہ اپنے قدموں کو چھونے لگے ہیں۔ یہ حکمران اپنے دین کو بیچ رہے ہیں اگر ان کا کوئی دین بھی ہے۔ اور یہ اپنی اقدار کو بیچ رہے ہیں اگر ان کی کوئی اقدار بھی ہیں۔ اور ایسا یہ صرف اس لیے کررہے ہیں تا کہ یہ اپنی کرسیوں پر مزید کچھ وقت گزار سکیں۔یہ بات بھی شرمناک ہے کہ وہ لوگ جو مسلم ممالک میں پلے بڑھے ہیں ،اب بھی مغربی ثقافت کو اپناتے ہیں، اس کی تعریف کرتے ہیں ،اُن کے موقف کی تائید کرتے ہیں ،وہ موقف جو انسانی گوشت اور ہڈیوں پر کھڑا ہے۔ یہ لوگ ان ممالک کے متعلق اچھا گمان رکھتے ہیں اور اُن کی مدد کرنے اور انھیں خوش کرنے کے لیے دوڑے چلے جاتے ہیں جبکہ اللہ سبحان و تعالیٰاعلان فرما چکا ہے:(هُمُ الْعَدُوُّ فَاحْذَرْهُمْ قَاتَلَهُمُ اللَّهُ أَنَّى يُؤْفَكُونَ) "یہ (کفار)دشمن ہیں، لہذا ان سے ہوشیار رہو، اللہ ان پر لعنت کرے کہ یہ کس طرح سچے راستے کو جھٹلاتے ہیں"(المنافقون:4)۔ اس کے علاوہ جو بات انتہائی تکلیف کا باعث ہے وہ یہ ہےکہ کچھ "اسلامی تحریکیں" اور کچھ "اسلام پسند" جو خلافت کے قیام کے لیے کام کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں اور جمہوریت کی نفی کرتے ہیں اور استعمار کے دیےہوئے قومی جھنڈوں کی جگہ رسول اللہ ﷺکا جھنڈا بلند کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ "چونکہ ہمیں اس بات کا خدشہ ہے کہ مغرب ناراض ہو جائےگا، لہٰذاہم بشار کے خلاف آپ لوگوں کے ساتھ کھڑے نہیں ہوسکتے"۔ وہ یہ نہیں سمجھ رہے کہ بشار اور اس کا باپ دونوں ہی امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی پیداوار ہیں اور امریکہ نے ہی بشار کی حمایت کی اور اس کے اقتدار کو طول دیا تا کہ امریکہ اس دوران اس جیسا کوئی اور ایجنٹ تیار کرلے جو گرتے ہوئے بشار کی جگہ لے سکے۔ امریکہ کبھی بھی ان مسلمانوں کے ساتھ کھڑا نہیں ہوگا جو اسلام کا جھنڈا بلند کرنا چاہتے ہوں ،چاہے وہ انھیں جھوٹی مسکراہٹوں کے ذریعے اپنے اخلاص کا یقین ہی کیوں نہ دلا رہا ہو۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰنے ارشاد فرمایا: (كَيْفَ وَإِنْ يَظْهَرُوا عَلَيْكُمْ لَا يَرْقُبُوا فِيكُمْ إِلًّا وَلَا ذِمَّةً يُرْضُونَكُمْ بِأَفْوَاهِهِمْ وَتَأْبَى قُلُوبُهُمْ وَأَكْثَرُهُمْ فَاسِقُونَ)"ان کے وعدوں کا کیا اعتبار،اگران کا تم پر غلبہ ہوجائے تو نہ یہ قرابت داری کا خیال کریں نہ عہد و پیمان کا، یہ اپنی زبانوں سے تو تمھیں مائل کررہے ہیں لیکن ان کے دل نہیں مانتے،ان میں سے اکثر تو فاسق ہیں" (التوبۃ:8)۔
اے مسلمانو!یقیناً کفار ایک ہی لوگ ہیں اور سلامتی کونسل میں بڑی طاقتوں کا اکٹھا ہونے کا مقصد دراصل مسلمان ممالک کو طاقتور ہتھیاروں سے محروم کرنا ہے۔ سلامتی کونسل کے اس فیصلے نے اُن کے عزائم کو واضح کردیا ہے اور جو کچھ انہوں نے ابھی چھپایا ہوا ہے وہ اس سے بھی زیادہ شدیدہے:( قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَاءُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ وَمَا تُخْفِي صُدُورُهُمْ أَكْبَرُ قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الْآيَاتِ إِنْ كُنْتُمْ تَعْقِلُونَ)" بغض تو خود ان کی زبان سے ظاہر ہوچکا ہے اور جو کچھ ان کے سینوں میں پوشیدہ ہے وہ اس سے بھی بڑھ کر ہے۔ یقیناً ہم نے تمھارے لیے اپنی آیات کو بیان کردیا اگر تم سمجھ رکھتے ہو"(آل عمران:118)۔ کفار کی فطرت کو سمجھنا اور بڑی طاقتوں کے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف موقف کو سمجھنا، اُن کی سازشوں کو ناکام بنانے اور انھیں شکست دینے کی جانب پہلا قدم ہے۔ یہ کوئی پہلی دفعہ ایسا نہیں ہورہا کہ کفار اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اکٹھے ہوئے ہیں۔ یہ صورتحال تو اس وقت سے جاری ہے جب رسول اللہ ﷺ نے اپنی نبوت کا اعلان کیاتھا اور مدینہ میں پہلی اسلامی ریاست قائم ہوئی تھی ،یہاں تک کے کفار نے مسلمانوں میں موجود غداروں کی مدد سے 1342ہجری بمطابق1924عیسوی کو خلافت کا خاتمہ کردیا۔ اور اس کے بعد انھوں نے ہمارے خلاف چڑھائی اپنی طاقت کی بنا پرنہیں بلکہ ہماری کمزوری کی وجہ سے کی، کیونکہ ہم نے اُس ریاست خلافت کو کھو دیا تھا جو ہماری طاقت کی وجہ تھی اور ہم نے اس کے دوبارہ قیام کی کوششوں سے کنارہ کشی اختیار کر لی تھی۔لہٰذا وہ ہمارے خلاف اکٹھا ہوئے اوراسی طرح اکٹھے ہوئے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایاتھا جس کو ابو داود نے ثوبان سے روایت کیا کہ ((يُوشِكُ الْأُمَمُ أَنْ تَدَاعَى عَلَيْكُمْ كَمَا تَدَاعَى الْأَكَلَةُ إِلَى قَصْعَتِهَا))"قومیں تم پر ایسے ٹوٹ پڑیں گی جیسے لوگ کھانے پر ٹوٹ پڑتے ہیں"۔ کسی نے پوچھا :" تو کیا ایسا اس وجہ سے ہوگا کہ ہماری تعداد کم ہوگی؟" رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:((بَلْ أَنْتُمْ يَوْمَئِذٍ كَثِيرٌ، وَلَكِنَّكُمْ غُثَاءٌ كَغُثَاءِ السَّيْلِ، وَلَيَنْزَعَنَّ اللَّهُ مِنْ صُدُورِ عَدُوِّكُمُ الْمَهَابَةَ مِنْكُمْ، وَلَيَقْذِفَنَّ اللَّهُ فِي قُلُوبِكُمُ الْوَهْنَ))" نہیں بلکہ اس وقت تمھاری تعداد بہت زیادہ ہوگی لیکن تمھاری حیثیت پانی کی لہروں پر موجود جھاگ کی سی ہو گی اور اللہ تمھارے دشمنوں کے دلوں میں سے تمھارے رعب کو ختم کردے گا اور اللہ تمھارے دلوں میں کمزوری پیدا کردے گا"۔ کسی نے پوچھا:" اے اللہ کے رسول، کس قسم کی کمزوری؟" رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ((حُبُّ الدُّنْيَا، وَكَرَاهِيَةُ الْمَوْتِ))" دنیا کی محبت اور موت سے نفرت"۔
اے مسلمانو! رہنما اپنے لوگوں سے جھوٹ نہیں بولتا۔ لہٰذا حزب التحریر آپ کو پکارتی ہے کہ آپ دل و جان سے اپنی ریاستِ خلافت کے قیام کے لیے جدوجہد کریں کیونکہ یہی آپ کی عزت اور بقا کا راستہ ہے۔ اور آپ جتنا اس کے قیام کی جدوجہد میں تاخیر کریں گے اُتنا ہی آپ کے دشمن مضبوط ہوں گےاور ایسا صرف آپ کی طاقت کے ذرائع کےخاتمے کے لیے قرارداد کی منظوری سے ہی نہیں ہو گابلکہ آپ کی سرزمین پر فوجی قوت سے قبضہ کرنے کی قراردادبھی منظور کی جائے گی۔لیکن اگر آپ خلافت کے قیام کو اپنا اہم ترین مقصد بنا لیتے ہیں، اس کو اپنے دلوں کی دھڑکن بنا لیں اور اس مقصد کو ہر وقت اپنی نگاہوں کے سامنے رکھیں،اور اس کے حصول کے لیے اپنی جانوں کی بازی لگا دیں، اور آپ ایسا صرف اور صرف خالص اللہ سبحانہ و تعالی کی رضا کے لیے کریں توآپ ضرور اللہ کے وعدے کو حاصل کرلیں گے(وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ)" اللہ تم میں سے ان لوگوں سے وعدہ فرما چکا ہے جو ایمان لائے ہیں اور انہوں نے نیک اعمال کیے ہیں کہ انھیں ضرور زمین میں حکمران بنائے گا جیسے کہ اُن لوگوں کو حکمران بنایا تھا جو اُن سے پہلے تھے"(النور:55)اور اسی طرح آپ رسول اللہ ﷺ کی جانب سے ظالم حکمرانوں سے نجات اور خلافت کے قیام کی خوشخبری کو بھی حاصل کرلیں گے((ثُمَّ تَكُونُ جَبْرِيَّةً، فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا، ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ))" پھر تم پر ظالموں کی حکمرانی ہو گی اور اس وقت تک رہے گی جب تک اللہ چاہے گا اور پھر اللہ اسے دَور کواٹھا لے گا جب وہ اسے اٹھانا چاہے گا اور پھر نبوت کے نقش قدم پر خلافت قائم ہوگی"۔ اور پھر خلافت کا سورج دوبارہطلوع ہوگا اور اللہ دشمنوں کے خلاف آپ کی مدد فرمائے گا(إِنْ تَنْصُرُوا اللَّهَ يَنْصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ)"اے لوگو جو ایمان لائےہو! اگر تم اللہ (کے دین) کی مدد کرو گے تو وہ تمھاری مدد کرے گا اور تمھیں ثابت قدم رکھے گا"(محمد:7)۔ اورپھر امریکہ اور اس کے اتحادی ناکام و نامرادواپس لوٹیں گے ،اور ایسا کرنا اللہ کے لیے کچھ بھی مشکل نہیں (وَمَا ذَلِكَ عَلَى اللَّهِ بِعَزِيزٍ)" اور اللہ پر یہ کام کچھ بھی مشکل نہیں"(ابراھیم:20)۔

ہجری تاریخ :
عیسوی تاریخ : پیر, 30 ستمبر 2013م

حزب التحرير

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک