الخميس، 26 جمادى الأولى 1446| 2024/11/28
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

سوال و جواب: چین کی حالیہ اقتصادی اصلاحات

سوال:

چین کے صدر شی جین پنگ نے بروز بدھ 13/11/2013 کو کہا کہ "چین اقتصادی مسائل کو حل کر نے کے لیے اصلاحات میں آگے بڑھتا رہے گا لیکن ان اصلاحات کے لیے محتاط منصوبہ بندی کی ضرورت ہے اور ان کو راتوں رات حاصل نہیں کیا جاسکتا "چینی ٹی وی نے شی سے ان کا یہ قول نقل کیا کہ "اصلاحات ہی چین کے موجودہ مسائل کا حل ہیں۔۔۔"، یہ بیانات چینی قیادت کی جانب سے ہفتہ 09/11/2013 کو منعقد کیے جانے والے اجلاس جو کہ چار دن جاری رہا کے اختتام پر سامنے آئے، یہ اجلاس 6 نومبر 2013 کو چینی کمیونسٹ پارٹی جو کہ چین میں حکمران پارٹی ہےکے ایک مرکز میں ہو نے والے سات دھماکوں کے بعد اور چین کے دار الحکومت بیجنگ کے دل تیانا مین کے شارع عام میں ایک چوراہے پر ایک گاڑی کے راہ گیروں کو کچلنے کے بعد اس میں آگ بھڑکنے کے واقعے کے ایک ہفتے کے بعد پیش آیا، سوال یہ ہے کہ:ہم سنتے آرہے ہیں کہ چین کی معیشت بلندیوں کو چھو رہی ہے پھر معاشی مسائل کو حل کرنے کے لیے چینی قیادت کے اجلاس کا کیا مطلب ہے؟ کیا ان دھماکوں اور اقتصادی امور کو زیر بحث لانے کے لیےچینی عہدہ داروں کے اجلاس کے درمیان کوئی تعلق ہے؟ اللہ آپ کو جزائے خیر دے۔

جواب:
1 ۔ جی ہاں ان کے درمیان تعلق ہے اگر چہ چین نے حسب عادت یہ کہنے میں جلد بازی کی کہ :"حکومت نے ان لوگوں کومورد الزام ٹھہرایا جن کو وہ اسلامی شدت پسندوں کہتی ہے "۔ یہ بیان معیشت کی اس بگڑتی صورت حال سے توجہ ہٹانے کی کوشش ہے جس کی وجہ سے چینی عوام کو لینے کے دینے پڑرہے ہیں، خاص طور پر مضافات اور وسطی علاقوں میں لوگوں کو بھوک اور افلاس کا سامنا ہے جس کی وجہ سے لوگ اپنے معاشی مسائل کی طرف ریاست کی توجہ مبذول کروانے کے لیے پر تشدد احتجاج پر اتر آئے ہیں۔
2 ۔ یہ واقعات اس سیاسی تحریک کا حصہ ہیں جو اندر ہی اندر چل رہی ہے اور جو اس طرف اشارہ کرتی ہے کہ چین کو داخلی طور پر گہرے مسائل کا سامنا ہے، جو اس کی خارجہ پالیسی کو بھی متاثر کر سکتے ہیں۔ چین 2005ء میں 87000 معاشرتی بے چینی کے واقعات کا سامنا کر چکا ہے جن میں عوامی نارضگی، مظاہرے اورداخلی تنازعات شامل ہیں، جبکہ سال 2010ء میں چین میں 180000 احتجاجات، مظاہرے اور معاشرتی بے چینی کے واقعات رونما ہوئے، یعنی بے چینی بڑھ رہی ہے۔۔۔
3 ۔ چین میں آزاد تجارتی علاقے Free Economic Zones جو کہ چین میں تیز ترین پیداوار کے بنیادی عنصرتھے سب کے سب چین کے مشرقی ساحل پر قائم کیے گئے، جہاں جو بھی پیداوار ہوتی ہے اس کوبحری جہازوں میں لاد کر دنیا کوبر آمد کیا جاتا ہے، اس کے نتیجے میں ساحلی علاقے عالمی معیشت سے مربوط ہو گئے ہیں، جس کی وجہ سے چین میں انتہائی تیز پیداوار دیکھنے میں آئی، اسی پیداوار کی بدولت نو دولتیوں کا ایک نیاطبقہ تیار ہوا، جس کی قیمت چین کے دوسرے تمام لوگوں کو ادا کرنی پڑی، چین کا بیشتر حصہ اب بھی بڑی حد تک زرعی ہے، جس کا انفراسٹرکچر پسماندہ قسم کا ہے اور ان علاقوں میں لوگ پسماندگی کی زندگی گزار رہے ہیں، دولت کی تقسیم کےایک عالمی جائزےکے مطابق جس کا اہتمام Boston Consulting Group نے2008ء میں کیا تھا چین کے باشندوں کا 0.2٪ چین کی 70٪ دولت پر قابض ہیں، دولت کی اس غیر منصفانہ تقسیم کے علاوہ جسمانی تشدد، قید وبند، ظالمانہ لیبر قوانین اور غیر معقول اجرتیں اور چینی حکومت کی اپنے شہریوں کی معاشی ضروریات کو پورا کرنے میں ناکامی کی بدولت صورتحال زیادہ پیچیدہ ہو گئی ہے۔
4 ۔ چینی اقتصادی ماڈل جو کم اجرتوں اور بے تحاشا بر آمدات پر بھروسہ کرتا ہے اب ناکام ہو گیا ہے، 2008ء کے عالمی مالیاتی بحران نے اس کو مکمل طور پر بے نقاب کر دیاہے، بہت سے ماہرین کی رائے میں چین کی معیشت دباؤ کا شکار ہے، نوبل انعام پانے والے ماہر معاشیات Paul Krugman نے کہا کہ "اب اشارے واضح ہیں: چین بڑی تشویش ناک صورت حال سے دوچار ہے، ہم کچھ عارضی مسائل کی بات نہیں کر رہے ہیں بلکہ بات انتہائی بنیادی ہے، ملک میں تجارتی عمل کا مکمل طریقہ کار اور وہ اقتصادی نظام جس نے تین دہائیوں تک تیز پیداوار حاصل کرنے میں مدد دی اب اپنی انتہا کو پہنچ رہا ہے، یہ کہا جا سکتا ہے کہ چینی ماڈل دیوار چین سے ٹکرانے والا ہے، اب صرف یہ سوال باقی ہے کہ یہ بربادی کس قدر تباہ کن ہو سکتی ہے" (دیوار چین سے ٹکرانا Paul Krugman نیو یارک ٹائمز 18 جولائی 2013)، Stratfor نے کہا: "چینی معیشت میں حالیہ بڑی تبدیلیاں جن کی توقع Stratfor کئی سال سے کر رہا تھا اور اس پر تبصرےبھی کیا کرتا تھا اب زیادہ ترمیڈیا کی توجہ کا مرکز بن گئی ہیں کئی لوگ پوچھتے تھے کہ ہمارےخیال میں چین کب تک معاشی بحران کا شکار ہو سکتا ہے، ہم جواب میں کہتے تھے کہ کچھ عرصے سے چین بحران کی زد میں آچکا ہے، لیکن یہ ایسا معاملہ ہے جس کا چین سے باہر زیادہ چرچا نہیں، خصوصاًہمارے ہاں امریکہ میں، یہ بھی ممکن ہے کہ اعتراف کرنے سے پہلے ہی بحران پیدا ہو کیونکہ بحران کا اعتراف اس کے خطرناک موڑپر جاکر کیا جاتا ہے۔ یہ اس وقت ہو تا ہے جب بہت سے دوسرےلوگ بحران کے ردعمل کے طور پر اپنا رویہ تبدیل کرنا شروع کردیتے ہیں، ہم جو سوال پوچھتے تھے وہ یہ تھا کہ آخر کب چینی معاشی بحران ناقابل تردید حقیقت کا روپ دھارے گا، جس سے دنیا کی صورتحال تبدیل ہو جائے گی" (The End of the Chinese Miracle Stratfor 23 July 2013)
5 ۔ چین نے گزشتہ دس سالوں کے دوران اقتصادی ترقی میں اس سرمایہ دارانہ منہج پر چلنا شروع کردیا جو یہ ہے کہ معاشی سرگرمیوں کا دارومدار تقسیم کو نظر انداز کرتے ہوئے پیداوار کو بڑھانے پر ہے، اگر پیداوار زیادہ ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ معیشت مضبوط اور ترقی یافتہ ہے خواہ دولت سب کی سب چندہاتھوں میں ہی کیوں نہ ہو اور باقی لوگ تنگدستی کا شکار ہوں۔۔۔یعنی توجہ پیداوار کی زیادتی پر ہے اس کی منصفانہ تقسیم پر نہیں، اگر چین نے اشتراکیت اور سرما یہ داریت کے ملغوبے پر چلنے کا سلسلہ جاری رکھا تو اس کے ساتھ بھی وہی ہو گا جو سویت یونین کے ساتھ ہو ا جب اس نے اشتراکیت اور سرمایہ داریت کو خلط ملط کرنے کی کوشش کی تو اس کی حالت اس کوّے کی طرح ہو گئی جوہنس کی چال چلنے کی کوشش میں اپنی چال بھی بھول گیا ! چین میں بھی ایسا ہو نے کا خطرہ ہے۔۔۔ہاں اگر چین خطرے کو بھانپ کر اس کا علاج ڈھونڈ لے تو الگ بات ہے۔
6 ۔ چین اس بحران سے اس صورت میں ہی نجات حاصل کر سکتا ہے کہ وہ اس ملے جلے معاشی ماڈل اوربے تحاشہ بر آمدات پر توجہ مرکوزکرنے کی بجائے پہلےمقامی طلب پر توجہ دے اور اپنی عوام کی ضروریات پوری کرے، ورنہ1.3 بلین میں سے 948 ملین لوگ اسی طرح 5 ڈالر سے بھی کم یومیہ آمدن پرزندگی گزارنے پر مجبور رہیں گے اور دولت بدستور ایک چھوٹے سے ٹولے کے پاس ہی رہے گی جو مزدوروں کا استحصال کرتارہے گا، یوں آبادی کی اکثریت کی ضروریات کو پوری کرنا ناممکن ہو گا، کچھ لوگ ہی پیداوار پر کنٹرول رکھیں گے اور اس کو بر آمد کرتے رہیں گے اور اکثریت کی غربت میں اضافہ ان کو احتجاج اور انتشار پر اکسائے گی۔۔۔ Zhou Xiaozheng جو کہ چین کی رنمین یونیورسٹی میں قانون اور معاشرتی علوم کے پروفیسر ہیں چین کی حقیقی صورت حال کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں: "یہ مت بھولےپ کہ چین کی موجودہ کامیابی اس بات کی مرہون منت ہے کہ 300 ملین افراد کی جانب سے ایک بلین سستے مزدوروں کا استحصال ہو رہا ہے، عدالتی نظام غیر منصفانہ ہے، دولت کی بے ڈھنگ تقسیم نے چیلنجز کو اور بڑا کر دیا ہے"۔
7 ۔ چین کو چاہیے کہ وہ مغرب کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ہر احتجاج اور اضطراب کو "اسلامی شدت پسندی" کے کھاتے میں نہ ڈالے، بلکہ اپنی ملی جلی معیشت کے بحران کی وجوہات کو جاننے پر توجہ دے جو صرف پیداوار کو زیادہ کرنے اور بر آمدات کو بڑھانے پر قائم ہے اور جس کے نتیجے میں پیداوار تو زیادہ ہوتی ہے لیکن بری تقسیم اور بری ہو جاتی ہےاور غریبوں کی تعداد بڑھ رہی ہے، جس کے نتیجے میں احتجاج میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔۔۔ہم چین کو انتباہ کرتے ہیں کہ اگر اس نے اس اقتصادی پالیسی "اشتراکی سرمایہ داریت" کو جاری رکھا تو وہ بھی سوویت یونین والے انجام سے دوچار ہو گا اور یوں وہ بھی قصہ پارینہ بن جائے گا۔۔۔
ہم چین سے یہ نہیں کہتے ہیں کہ اسلام نافذ کرو تو خوشحال ہو جاؤ گے۔۔۔یہ اس لیے کہہ رہے ہیں کہ اس کو نافذ کرنے کے لیے پہلے اسلامی عقیدے کو اپنانا پڑے گا جو کہ ابھی ان کے پاس نہیں ہے ۔۔۔لیکن ہم ان سے صرف اتنا کہتے ہیں کہ غربت کی چکی میں پسے ہوئے عوام کے درمیان دولت کی منصفانہ تقسیم کےبجائے مغرب کی نقالی کرتے ہوئے صرف پیداوار کو بڑھانے کی تگ ودو مت کرو، ورنہ معاشی بد حالی اور فکری خستہ حالی کے سبب احتجاج میں اضافے کا خطرہ ہے نہ کہ نام نہاد اسلامی انتہاپسندی کی وجہ سے جیسا کہ مغرب واویلا کر تا رہتا ہے۔۔۔اسلامی انتہا پسندی کی بات کر نا سیاسی الزامات کا ایک باب ہے، یہ اس سے توجہ ہٹانے کی کوشش ہے کہ خود چین نے آتش و آہن کے ذریعے مشرقی ترکستان (سنکیانگ) پر غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے، لیکن ان تمام دھوکے بازیوں، مکروفریب اور حقائق کو مسخ کرنے کی کوششوں سے مسلمان کبھی یہ نہیں بھولیں گے کہ چین نے ترکستان پر غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے، بلکہ یہ اللہ کے اذن سے جلد یابہ دیر امت مسلمہ سے ہم آغوش ہو گا، ﴿وَلَتَعْلَمُنَّ نَبَأَهُ بَعْدَ حِين﴾ " کچھ عرصے بعد تمہیں اس کی خبر ملے گی"

Read more...

امریکی سیکریٹری دفاع چَک ہیگل کا دورہ پاکستان کافر حربی (دشمن) ریاست سے دوستانہ تعلقات رکھنا ممنوع ہے

آج امریکی سیکریٹری دفاع چَک ہیگل پاکستان کے ایک روزہ دورے پر اسلام آباد آیا ہے۔ اس دورے میں اس کی پاکستان کے وزیر اعظم، آرمی چیف، جوائنٹ چیفس آف سٹاف، وزیر داخلہ، وزیر خزانہ اور پنجاب کے وزیر اعلیٰ سے ملاقاتیں متوقع ہیں۔ افواج پاکستان کی قیادت میں تبدیلی کے بعد کسی اعلیٰ امریکی عہدیدار کا یہ پہلا دورہ پاکستان ہے۔
حزب التحریر امریکی سیکریٹری دفاع کے دورہ پاکستان کی پرزور مذمت کرتی ہے اور انتہائی دکھ اور افسوس کا اظہار بھی کرتی ہے کہ دشمن کے سیکریٹری دفاع سے ملاقات کر کے سیاسی و فوجی قیادت اسلامی شریعت سے انحراف کی مرتکب ہو رہی ہے جس کے تحت ایک ایسی کافر ریاست سے کسی بھی قسم کے تعلقات نہیں رکھے جاسکتے جو مسلمانوں کا قتل عام کررہی ہے، ان کی پاک دامن ماؤں، بہنوں ، بیٹیوں کی عفت و عصمت کو پامال کررہی ہے، قرآن کی بے حرمتی کرتی ہے اور ان کی زمینوں پر قابض ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالٰی فرماتے ہیں: فَمَنِ اعْتَدَى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُواْ عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدَى عَلَيْكُمْ "جو تمھارے خلاف جارحیت کا ارتکاب کرے تو تم بھی اس پر حملہ کرو جیسا کہ انھوں نے تم پر حملہ کیا " (البقرۃ:194)۔
امریکہ جس کے ہاتھ مسلمانوں کے خون سے تَر بتر ہیں، جس نے سلالہ حملے میں ہمارے فوجی جوانوں کو بے دردی سے قتل کیا، جس نے ایبٹ آباد پر حملہ کیا، جو ہمارے قبائلی علاقوں پر ڈرون حملے کر کے مسلمانوں کو قتل اور ہماری آزادی وخودمختاری کی دھجّیاں اُڑا رہا ہے، جو ریمنڈ ڈیوس نیٹ ورک کے ذریعے ملک بھر میں فوجی و شہری مقامات کو نشانہ بنا کر فتنے کی جنگ کو جاری و ساری رکھنا چاہتا ہے، اس دشمن ملک کے سیکریٹری دفاع کے ساتھ ملاقاتیں کر کے سیاسی وفوجی قیادت اپنے اس عہد سے انحراف کی مرتکب ہو رہی ہے جس کے تحت اس سرزمین کے لوگوں کی جان و مال اور اس سرزمین کی حفاظت کرنا ان پر فرض ہے۔
حزب التحریر امت اور افواج پاکستان کے افسروں اور جوانوں سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ سیاسی و فوجی قیادت کے اس عمل کی پُر زور مذمت کریں اور اللہ کے دشمنوں اور ہمارے دشمنوں سے دوستی اور تعلقات رکھنے کے خلاف اللہ کے واضح حکم کی خلاف ورزی پر ان کا سخت محاسبہ بھی کریں۔
انشاء اللہ ، امت اور افواج پاکستان کے مخلص افسران اور جوانوں کی مدد سے خلافت کے قیام کے بعد، خلیفہ امریکہ اور اس جیسے دشمن کافر ممالک سے ہر قسم کے تعلقات ختم کر دے گا۔ خلافت امریکی سفارت خانے، قونصل خانوں، اڈوں اور امریکی انٹیلی جنس اداروں کے دفاتر کو بند اور امریکی اہلکاروں کو ملک بدر کردے گی اور افواج اور مخلص مجاہدین کی مشترکہ قوت کو استعمال کر کے خطے کو امریکی نجاست سے پاک کردے گی جو اس خطے میں بدامنی، عدم استحکام، معاشی استحصال اور خون خرابے کی بنیادی وجہ ہے۔

پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان
شہزاد شیخ

Read more...

امریکی راج کے خاتمے کے لیے حزب التحریر ولایہ پاکستان کے ملک بھر میں مظاہرے امریکی راج ختم کرو ، ایمبیسی اڈے بند کرو

حزب التحریر ولایہ پاکستان نے ملک بھر میں خطے سے امریکی راج کے خاتمے کے مطالبے کے حق میں مظاہرے کیے۔ ان مظاہروں میں سینکڑوں افراد نے شرکت کی۔ مظاہرین نے بینرز اور کتبے اٹھا رکھے تھے جن پر تحریر تھا: "دھماکے، بدامنی، عدم استحکام۔۔۔وجہ ہے امریکہ اور غدار حکمران۔۔۔۔واحد حل خلافت کا قیام"، "امریکی راج ختم کرو، ایمبیسی اڈے بند کرو"۔ مظاہرین نے ملک میں بڑھتے ہوئے امریکی اثرو نفوذ کے خلاف شدید غم و غصے کا اظہار کیا اور افواج پاکستان میں موجود مخلص افسران سے مطالبہ کیا کہ ملک میں جاری فتنے کی اس جنگ سے نکلا جائے جسے امریکہ نے بھڑکایا ہے اور ایسا صرف اسی صورت میں ہوسکتا ہے جب آپ امریکی سفارت خانہ، قونصل خانوں، اڈوں اور ان کے انٹیلی جنس دفاتر کو بند اور امریکی سفارتی و فوجی اہلکاروں کو ملک بدر کریں۔
مظاہرین نے افواج پاکستان کے افسران سے یہ بھی مطالبہ کیا کہ وہ اللہ اور اس کے رسولﷺ سے کیے گئے اپنے عہد کو پورا کریں کہ وہ اس سرزمین اور اس کے باشندوں کی حفاظت کریں گے ۔ انھوں نے مخلص افسران سے یہ بھی مطالبہ کیا کہ وہ اس سرزمین پر امریکی راج کو مسلط کرنے والے سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں کو ہٹا کر پاکستان میں خلافت کے قیام کے لیے حزب التحریر کو نصرۃ فراہم کریں کیونکہ خلافت کا قیام ایک انتہائی اہم اسلامی فریضہ ہے اور صرف خلافت کا قیام ہی ملک پر نافذ کفریہ سرمایہ دارانہ نظام اور امریکی اثرو نفوذ کا خاتمہ کرے گا۔
مظاہرے میں شریک لوگوں نے اس بات کا عہد کیا کہ وہ پاکستان سے امریکی راج کے خاتمے اور خلافت کے قیام تک اپنی پرامن سیاسی و فکری جدوجہد جاری رکھیں گے اور اس راہ میں آنے والی تکالیف کا سامنا صبر و استقامت کے ساتھ کریں گے۔

Read more...

جبری گمشدہ افراد کی عدم بازیابی نے اس کفریہ نظام میں آزاد عدلیہ کے جھوٹ کو بے نقاب کر دیا ہے


تحریر: شہزاد شیخ
(پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان)
تاریخ:17دسمبر2013
خبر: نومبر کا آخری ہفتہ اور دسمبر کے پہلے دس دن پاکستان کے میڈیا میں جبری گمشدہ افراد کا تذکرہ چھایا رہاجن کے عزیز و اقارب اپنے پیاروں کی جبری گمشدگی کا ذمہ دار حکومتی ایجنسیوں کو ٹھراتے ہیں۔ ان جبری گمشدہ افراد میں سے کئی کو اغوا ہوئے تقریباً ایک دہائی کا عرصہ گزر چکا ہے، جبکہ ان میں کچھ افراد کی لاشیں ویران جگہوں سے ملیں جن پر شدید تشدد کے نشانات واضح تھے۔

تبصرہ: پاکستان میں جبری گمشدہ افراد کا مسئلہ سب سے پہلے اس وقت پیدا ہوا جب 9/11 کے بعد اس وقت کے آرمی چیف اور صدر پاکستان پرویز مشرف نے دہشت گردی کے خلاف نام نہاد امریکی جنگ کا حصہ بننے کا فیصلہ کیا۔پاکستان سے امریکی راج کے خاتمے اور خلافت کے قیام کی ایک توانا آواز،پاکستان میں حزب التحریر کے ترجمان نوید بٹ بھی ان جبری گمشدہ افراد کی فہرست میں شامل ہیں۔ نوید بٹ کو 11مئی 2012 کو ان کے بچوں کی موجودگی میں حکومتی ایجنسی کے غنڈوں نے اغوا کیا تھا۔
یہ ظلم اور ناانصافی مشرف و عزیز حکومت کے خاتمے کے ساتھ ختم نہیں ہوا بلکہ کیانی و زرداری حکومت میں اس ظلم میں مزید کئی گنا اضافہ ہوگیا۔ اگرچہ اس عرصے میں ایک وزیر اعظم اپنی وزارت اعظمٰی سے صرف اس لیے ہاتھ دھو بیٹھا کیونکہ اس نے عدالتی احکامات پر عمل کرتے ہوئے سوئس حکام کو خط نہیں لکھا تھا۔لیکن اس عظیم انسانی المیے پر آج کے دن تک آئی۔ایس۔آئی (I.S.I)کے سربراہ یا ملٹری انٹیلی جنس (M.I)کے سربراہ یا افواج پاکستان کے سربراہ کو عدالت کے سامنے پیش ہونے کا حکم جاری نہیں ہوا جبکہ کئی مقدمات میں یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ جبری گمشدہ افراد خفیہ ایجنسیوں کے قبضے میں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جبری گمشدہ افراد کے وکیل نے کہا کہ "یہ ثابت کرتا ہے کہ عدلیہ اب بھی آزاد نہیں ہے" ۔ اسی طرح لاہور ہائی کورٹ بار کے سابق صدر نے کہا کہ "یہ محض ایک دھوکہ ہے"۔
چاہے آمریت ہو یا جمہوریت یہ کفریہ نظام صرف استعماری طاقتوں اور ان کے ایجنٹوں کے مفادات کا تحفظ کرتا ہے۔ پاکستان کے عوام کے مسائل کا حل اس کفریہ نظام میں "آزاد عدلیہ" نہیں ہے ۔ جب یہ سرمایہ دارانہ نظام ہمیں خارجی تعلقات، معیشت اور دیگر معاملات میں آزادانہ پالیسیاں بنانے کی اجازت نہیں دیتا تو کیا ہم اس غلامانہ نظام کے ذریعے آزاد عدلیہ کے قیام کا خواب دیکھ سکتے ہیں؟ کیانی و زرداری حکومت سے راحیل و نواز حکومت تک، چہروں کی تبدیلی کبھی کسی مثبت تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت نہیں ہوگی۔ دراصل اس کفریہ نظام کا خاتمہ ہی وقت کی ضرورت ہے۔
آزاد عدلیہ کے قیام کے لیے پہلے آزاد سیاسی نظام کا ہونا انتہائی ضروری ہے جو کہ صرف خلافت کا نظام ہے۔یہ نظام عدلیہ کو مقننہ اور انتظامیہ کے اثرو رسوخ سے آزاد کرتا ہے کیونکہ عدلیہ صرف اور صرف قرآن و سنت کے مطابق فیصلے کرتی ہے اور ہر حکومتی عہدیدار چاہے وہ خلیفہ ہو یا امیر جہاد یا والی، کسی صورت عدلیہ کے سامنے پیش ہونے یا ان کے فیصلوں کو نافذ کرنے سے انکار کی جرات نہیں کرسکتا۔ لہٰذا خلافت میں عدلیہ عام عوام کے حقوق کی حقیقی ضامن ہوتی ہے اور اگر حکمران شریعت کے قوانین کی خلاف ورزی کریں تو ان کا سخت احتساب کرتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ إِنَّمَا أَهْلَكَ الَّذِينَ قَبْلَكُمْ أَنَّهُمْ كَانُوا إِذَا سَرَقَ فِيهِمْ الشَّرِيفُ تَرَكُوهُ وَإِذَا سَرَقَ فِيهِمْ الضَّعِيفُ أَقَامُوا عَلَيْهِ الْحَدَّ وَايْمُ اللَّهِ لَوْ أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَرَقَتْ لَقَطَعْتُ يَدَهَا " تم سے پہلے کے لوگ اس لیے تباہ ہوگئے کیونکہ جب ان میں سے کوئی بڑا شخص چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے لیکن اگر کمزور شخص چوری کرتا تو اس پر سزا لاگو کردیتے۔ اللہ کی قسم اگر محمدﷺ کی بیٹی فاطمہ بھی چوری کرے تو میں اس کا ہاتھ کاٹ دوں گا" (بخاری)۔

Read more...

تفسیر سورہ البقرہ آیات 97 تا 100

مشہور فقیہ اور رہنما، امیر حزب التحریر، شیخ عطا بن خلیل ابو الرَشتہ کی کتاب "التیسیرفی اصول التفسیر" سے اقتباس

(ترجمہ)

 

قُلْ مَن كَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِيلَ فَإِنَّهُ نَزَّلَهُ عَلَى قَلْبِكَ بِإِذْنِ اللَّهِ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ وَهُدًى وَبُشْرَى لِلْمُؤْمِنِينَ
مَن كَانَ عَدُوًّا لّلَّهِ وَمَلـئِكَتِهِ وَرُسُلِهِ وَجِبْرِيلَ وَمِيكَـلَ فَإِنَّ اللَّهَ عَدُوٌّ لِّلْكَـفِرِينَ
وَلَقَدْ أَنزَلْنَآ إِلَيْكَ ءَايَـتٍ بَيِّنَـتٍ وَمَا يَكْفُرُ بِهَآ إِلاَّ الْفَـسِقُونَ
أَوَكُلَّمَا عَـهَدُواْ عَهْدًا نَّبَذَهُ فَرِيقٌ مِّنْهُم بَلْ أَكْثَرُهُمْ لاَ يُؤْمِنُونَ

"کہہ دیجئے(اے محمدﷺ) کہ جو جبریل سے دشمنی رکھے جس نے اللہ کے حکم سے اس قرآن کو آپ کے قلب پر نازل کیا جو اپنے سے پہلی کتابوں کی تصدیق کرتا ہے اور مؤمنوں کے لیے خوشخبری ہے۔ تو جو شخص اللہ، اس کے فرشتوں، اس کے رسولوں اورجبریل اور میکائیل کا دشمن ہو، تو اللہ بھی ایسے کافروں سے دشمنی رکھتا ہے۔بے شک ہم نے بہت ہی واضح نشانیاں تمہاری طرف بھیجی ہیں،جن کو فاسقوں کے علاوہ کوئی نہیں جھٹلاتا۔ کیا یہ بات نہیں کہ جب بھی انہوں نے کوئی عہد کیا ان میں سے ایک فریق نے عہد شکنی کی بلکہ ان میں سے اکثر ایمان سے خالی ہیں "۔
ان آیات میں اللہ تعالٰی یہ بیان فرماتے ہیں کہ :
1۔ یہود نے اس فرشتے کے بارے میں رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا جو آپ ﷺ کے پاس آتا ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ: جبریل علیہ السلام۔ یہودیوں نے کہا کہ: یہ تو ہمارا دشمن ہے یہ تو انبیاء کے پاس کتاب لے کر نہیں آتا بلکہ یہ عذاب لے کر آتا ہے، اگر تمہارے پاس آنے والا میکائیل ہوتا تو ہم تم پر ایمان لاتے۔ اس پر اللہ نے یہ آیتیں نازل کیں جن میں اپنے رسول ﷺ سے فرمایا کہ جو شخص جبریل کا دشمن ہے اس سے کہو کہ جبریل ہی نے یہ قرآن میرے دل میں اتار دیا ہے ۔ یہ قرآن پہلے نازل کی گئی تمام کتابوں (توراۃ اور انجیل)کی تصدیق کرتا ہے اور یہی مؤمنوں کے لیے ہدایت اور خوشخبری ہے۔لہٰذا تمھارا یہ کہنا غلط ہے کہ جبریل عذاب لے کر آتے ہیں۔
قرآن کو ھُدَی (ہدایت) اس لیے کہا گیا کہ مؤمن اس سے ہدایت لیتا ہے اور اس کی پیروی کرتا ہے اور اس کو قائد بنا کر اس کے اوامر اور نواہی کے مطابق چلتا ہے۔ 'ہادی' ہر چیز کے آگے کے حصے کو کہتے ہیں جس کے پیچھے باقی چلتے ہیں اسی لیے گھوڑوں میں سے آگے والوں کو 'ہوادی' کہا جاتا ہے۔
قرآن کو بُشرَی (خوشخبری) کہا گیا ہے کیونکہ یہ مؤمنوں کو اس جنت کی خوشخبری دیتا ہے جو قیامت کے دن ان کے واسطے تیار کی گئی ہے۔
بَینَ یَدَیہِ سے مراد اس کے سامنے یا آگے اور اس کا مطلب اس سے پہلے نازل کی گئی کتابیں ہیں۔
فَإِنَّهُ نَزَّلَهُ عَلَى قَلْبِكَ یہ شرط کا جواب ہے کہ جو بھی اس کا دشمن ہو ۔۔۔اس سے کہہ دو کہ اسی نے اس قرآن کو اتارا ہے۔۔۔
2 ۔ اس کے بعد اللہ نے یہودیوں کو یہ بتا دیا کہ میکائیل اور جبریل دونوں فرشتے ہیں اور جس نے ان میں سے کسی سے بھی دشمنی رکھی تو اس نے تمام فرشتوں سے دشمنی مول لی۔ جو اللہ ، اس کے رسولوں اور اس کے فرشتوں سے دشمنی مول لے تو اللہ بھی کافروں کو دشمن قرار دیتا ہے۔ اور جو کوئی بھی اللہ اور اس کے رسول اور اس کے فرشتوں کا دشمن ہے تو وہ کافروں میں سے ہے، فَإِنَّ اللَّهَ عَدُوٌّ لِّلْكَـفِرِينَ "یقیناً اللہ بھی کافروں کا دشمن ہے "۔
اللہ نے ملائکہ کے ذکر کے بعد جبریل اور میکائیل کا ذکر کیا جو عام کے ذکر کے بعد خاص کے ذکر کی اقسام میں سے ہے۔
3 ۔ اس کے بعد اللہ سبحانہ وتعالٰی نے اپنے رسول ﷺ پر ایسی واضح اور قطعی آیات نازل فرمائیں جو اس کی سچائی کی روشن دلیل ہیں جن کو سوائے اس شخص کے کوئی نہیں جھٹلا سکتا جو اپنے رب کے حکم سے سرتابی کرے ،اس کے شرع کو نظر انداز کرے اور اس کی حدود کو پامال کرے۔
4 ۔ اللہ سبحانہ وتعالٰی یہودیوں کی عہد شکنی کی عادت کا ذکر کرتے ہیں کہ وہ جب بھی عہد کرتے ہیں اس کو توڑ ڈالتے ہیں۔ اس میں اوکُلمَا کا لفظ استعمال کیا جو ظرف ہے اور شرط اور اس کے جواب کو دہرانے کا فائدہ دیتا ہے،یعنی جب بھی وہ کوئی وعدہ کرتے ہیں لامحالہ بدعہدی کرتے ہیں۔
نَبَذَهُ فَرِيقٌ مِنْهُمْ کامطلب یہ ہے کہ ان میں سے ایک گروہ ضرور عہد شکنی کرتا ہے۔
بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ "بلکہ ان میں سے اکثر ایمان ہی نہیں رکھتے" یہ اس بات کی دلیل ہے کہ عہد توڑنے والا فریق ہی اکثریت ہے اقلیت نہیں جیسا کہ لفظ فریق سے گمان ہو سکتا ہے۔

Read more...

خود احتسابی (قرآن ،سنت اور علماءکے فرمودات کے آئینے میں)

قرآن کریم کی رُو سے:
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ تَعْمَلُونَ "اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور ہر شخص کو چاہیے وہ دیکھ لے کہ وہ کل کے لیے کیا آگے بھیج رہا ہے اللہ سے ڈرو اللہ اس سے مکمل باخبر ہے جو کچھ تم کرتے ہو" (الحشر 59 : 18)۔ ابن کثیر رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرما تے ہیں کہ (ہر شخص کو چاہیے کہ وہ دیکھ لے کہ کل کے لیے کیا آگے بھیج رہا ہے ) یعنی "حساب کتاب کے لیے جانے سے قبل ہی اپنا محاسبہ کرو اور سوچ لو کہ تم نے آخرت کے دن اور اپنے رب کے سامنے پیش ہونے کے دن کے لیے کون کونسے نیک اعمال کا ذخیرہ کر رکھا ہے۔یاد رکھو کہ وہ تمہارے تمام اعمال اور احوال سے باخبر ہے اور اس سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں"۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : وَلَا أُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ "اور میں ملامت کرنے والےنفس کی قسم کھاتا ہو" (القیامہ75 : 2)۔ قرطبی رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ "اور ملامت کرنے والےنفس سے مراد مؤمن کانفس ہےجو ہمیشہ اس کو ملامت کرتا رہتاہے ، کہتاہے کہ اس سے تیرا ارادہ کیا ہے؟ وہ ہمیشہ اپنے آپ کو کوستا ہے، ابن عباس، مجاہد اور حسن وغیرہ نے بھی یہی کہا ہے"۔ حسن کہتے ہیں کہ "اللہ کی قسم اس سے مراد مؤمن کانفس ہےجو ہمیشہ اپنے آپ کو ملامت کرتا رہتا ہے۔ میں اپنی بات میں کیا کہنا چاہتا تھا ؟میں کیا کھانے کا ارادہ رکھتا تھا ؟ اور میں اپنے آپ سے بات کر کے کیا حاصل کرنا چاہتا تھا ؟ اور فاجر (کھلم کھلا گناہ کا ارتکاب کرنے والا) اپنا محاسبہ نہیں کرتا"۔مجاہد کہتے ہے کہ "وہ گزرے ہوئے پر ملامت کرتاہے اور کوئی شر ہو تو اس لیے ملامت کرتاہے کہ اس کا ارتکاب کیوں کیا اور اگر خیر کا کام ہو تو اس لیے ملامت کرتاہے کہ اس کو زیادہ کیوں نہیں کیا؟ اوریہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ ملامت والاہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ جس چیز پر کسی کو ملامت کرتاہے اسی پر اپنے آپ کو بھی ملامت کرتاہے ۔ ان تمام صورتوں میں "لَوَّامَةِ" کا مطلب ملامت کر نے والاہے جو کہ اچھی صفت ہے"۔
اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : يُنَبَّأُ الْإِنْسَانُ يَوْمَئِذٍ بِمَا قَدَّمَ وَأَخَّرَ بَلِ الْإِنْسَانُ عَلَىٰ نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ "اس دن انسان کو بتایا جا ئے گا کہ اس نے کیا کیا اور کیا نہیں کیابلکہ انسان اپنے آپ کو اچھی طرح جانتا ہے" ( القیامہ 75 : 13-14)۔ اس کی تفسیر میں ماوردی فرماتے ہیں کہ "اس میں تین تاویلات ہیں: ایک یہ کہ وہ جو کچھ آگے بھیج رہا ہے اس کے ذریعے اپنے آپ کے خلاف گواہ ہے،جیسا کہ اللہ فرماتے ہیں، وَكُلَّ إِنْسَانٍ أَلْزَمْنَاهُ طَائِرَهُ فِي عُنُقِهِ ۖ وَنُخْرِجُ لَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ كِتَابًا يَلْقَاهُ مَنْشُورًا اقْرَأْ كِتَابَكَ كَفَىٰ بِنَفْسِكَ الْيَوْمَ عَلَيْكَ حَسِيبًا " اور انسان کی قسمت ہم نے اس کے گلے سے لگا دی ہے اور اس کے لیے قیامت کے دن ایک نوشتہ نکالیں گے جسے وہ کُھلا ہوا پائے گا۔ فرمایا جائے گا کہ اپنا نامہ اعمال آج پڑھ لو تو خود ہی اپنا حساب کرنے کو بہت ہے" (الاسراء 17 : 13-14) دوسری تاویل یہ ہے کہ: اس کے جوارح (اعضاء) اپنے اعمال کے بارے میں اس کے خلاف گواہ ہیں۔ ابن عباس کا یہی قول ہے جیسا کہ اللہ کا فرمان ہے کہ الْيَوْمَ نَخْتِمُ عَلَىٰ أَفْوَاهِهِمْ وَتُكَلِّمُنَا أَيْدِيهِمْ وَتَشْهَدُ أَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ "آج ہم ان کے منہ پر مہر لگا دیں گے اور ان کے ہاتھ ہم سے ہم کلام ہوں گے اور ان کے پاؤں ان کے کرتوتوں کی گواہی دیں گے" (یٰس 36 : 65) تیسری تاویل یہ ہے کہ لوگوں کے عیبوں کو خوب باریکی سے دیکھنے والا جبکہ اس کے مقابلے میں اپنے عیوب سے غافل ہے کہ اس کے نتیجے میں کیا سزا اور جزاء ملنے والی ہے۔ بصیرہ کے آخر میں"ہ" مبالغے کے لیے ہے ۔ جہاں تک اللہ کے اس فرما ن کا تعلق ہے وَلَوْ أَلْقَىٰ مَعَاذِيرَهُ "اگرچہ وہ عذر پیش کرتا ہے" ( القیامہ 75 : 15)۔ اس میں بھی چار تاویلات ہیں: ایک یہ کہ اگر اس دن معذرت بھی کرے تو قبول نہیں کی جائے گی اور یہ قتادہ کا قول ہے۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ اگر وہ اپنے کپڑے بھی اتاردے اوریہ ابن عباس کا قول ہے۔ تیسرا یہ کہ اگرچہ وہ اپنی حجت کو سامنے بھی لائے اوریہ السدی کا قول ہے۔ چوتھا یہ کہ وہ اپنا ستر اتار پھینکےکہ یمن کی لغت میں عذربھی ستر کو کہتے ہیں یعنی اگرچہ وہ اپنے عذر بھی پیش کرے اوریہ ضحاک کا قول ہے اور ایک پانچواں احتمال بھی ہے کہ اگر وہ معذرت چھوڑ بھی دے اور سرتسلیم خم بھی کردے اس کو نہیں چھوڑا جائے گا"۔
سنت نبوی ﷺ سے:
نبی ﷺ نے بھی اس ملامت کرنے والےنفس کی طرف اشارہ فرمایا جو مؤمن کانفس ہےاور اس کو ہمیشہ ملامت کرتارہتاہے۔چنانچہ اس حدیث میں فرمایا جس کو ترمذی اور احمد نے روایت کی ہے اور ترمذی نے اس کو حسن قرار دیا ہے: امام احمد نے اپنی مسند میں اور الحاکم نے اپنی مستدرک علی الصحیحین میں النواس بن سمعان الکلابی رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "اللہ نے صراط مستقیم (سیدھے راستے) کی مثال دی ہے کہ راستے کے دونو ں پہلو میں دیواریں ہیں جن میں کھلے ہوئے دروازے ہیں اور ان دروازوں پر پردے لٹک رہے ہیں اور راستے کے آخر میں ایک منادی ہے جو کہتا ہے کہ: 'سیدھی راہ پر قائم رہو اور بھٹک مت جانا'۔ راستے کے اوپر بھی ایک پکارنے والا ہے جب بھی انسان کوئی دروازہ کھولنے کا ارادہ کرتا ہے تو اس سے کہتا ہے کہ: 'تیرا ستیناس ہو ! اس کو کبھی بھی مت کھولو کیونکہ اگر تو اس کو کھولے گا تو اس میں داخل ہو جائے گا' لہٰذا اس مثال میں یہ راستہ اسلام اور یہ دودیواریں اللہ عزوجل کی حدود ہیں اور یہ دروازے اللہ کی حرام کی ہوئی چیز یں ہیں، راستہ میں منادی کرنے والا اللہ کی کتا ب اور راستے کے اوپر پکارنے والا ہر مسلمان کانفس ہے"۔
ایک حدیث میں جو انس بن مالک نے رسول اللہ ﷺ سے روایت کی ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: «الكيّس من دان نفسه وعمل لما بعد الموت، والعاجز من أتبع نفسه هواها وتمنَّى على الله الأمانيّ» "ہوشیار آدمی وہ ہے جو اپنے نفس کو قابو کرے اور موت کے بعد والی زندگی کے لیے عمل کرے، بے بس شخص وہ ہے جس کا نفس اس کی خواہشات کے تابع ہو اور وہ اللہ سے طرح طرح کی تمنائیں کرے" اس کو امام احمد اور ترمذی نے روایت کیا ہے۔
ام سلمہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: «إذا أراد الله بعبد خيراً جعل له واعظاً من نفسه يأمره وينهاه» " جس وقت اللہ کسی بندے کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتے ہیں تو اس کے اندر ہی اس کے لیے ایک واعظ مقرر فرماتے ہیں جو اسے حکم دیتا ہے(نیک اعمال کا) اور روک دیتا ہے (نافرمانی سے)" السیوطی نے الجامع الصغیر میں نقل کیا ہے۔
سلف صالحین اور علماء کے نزدیک محاسبہ کا مطلب:
نفس کے محاسبے کا معنی اس کو کوسنے اور شدت سے نگرانی کرنے کے ہیں۔
ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: "جو اللہ کے لیے اپنے نفس پر سختی کرے اللہ اپنی سختی (غصے) سے اس کو محفوظ رکھے گا"۔
امام احمد نے ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ "آدمی اس وقت تک فقیہ نہیں بن سکتا جب تک وہ اللہ کے معاملے میں لوگوں سے سختی سے پیش آنے کے بعد اپنے آپ سے اس سے بھی زیادہ سختی سے پیش نہ آئے"۔
ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں نفس کے محاسبے کا مطلب بندے کا یہ سمجھنا کہ اس کے لیے کیا اچھا اور کیا برا ہے اور اپنے حق کو لے اور اپنی ذمہ داری کو ادا کرے کیونکہ وہ ایک ایسے سفر میں ہے جہاں سے مسافر کبھی واپس نہیں آتا۔ اور وہ مزید کہتے ہیں کہ نفس یہ ہے کہ بندہ پہلے یہ دیکھے کہ آیا اس نے اللہ کا حق ادا کیا پھر دیکھے کہ کیا اس نے یہ حق کما حقہٗ ادا کیا ۔اور وہ کہتے ہیں کہ یہ بھی نفس کا محاسبہ ہے کہ اپنے حقوق اور فرائض کو پہچانے ۔ وہ ان کی ادائگیی میں سستی کرنے یا چھوڑدینےکی اجازت نہیں دیتا کہ وہ ضائع ہو جائیں۔ اس کے علاوہ نفس کی پاکی اور طہارت بھی خود احتسابی پر موقوف ہے اور خود احتسابی کے بغیر وہ نہ پاک صاف ہو سکتا اور نہ ہی اس کی اصلاح ہو گی۔
محاسبے کے بارے میں ماوردی کہتے ہیں کہ "انسان رات کو اپنے دن بھر کے اعمال پر غور کرے اگر اچھے ہوں تو اس کو جاری رکھے اور اگر برے ہوں تو باز آئے اور مستقبل میں اس کا تدارک کرے"۔
حارث المحاسبی نے خود احتسابی کی تعریف یوں کی ہےکہ"کہ ہر حال میں کوئی بھی فعل انجام دینے یا اس کو ترک کرنے سےاس کا ضمیر مطمئن ہو یا کسی بھی فعل کے جوارح کو ادا کرنے میں مکمل یکسوئی کا مظاہرہ کرنا تاکہ اس کو معلوم ہو کہ اسے کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں کرنا چاہیے۔ اگر اس کو معلوم ہو جائے کہ اس کام سے اللہ ناراض ہو گا تو اس کام کو دل اور جوارح سے ترک کردے اور اسی طرح اپنے آپ کو فرض کو ترک کرنے سے باز رکھے بلکہ اس کی ادائیگی میں جلدی کرے"۔
سعید بن جبیر اور عکرمہ نے نفس لوامہ کے بارے میں کہا ہے کہ "یعنی وہ خیر اور شر دونوں پر ملامت کر تاہے اور اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ اچھے اور بُرے وقت میں صبر کرتا ہے۔
قتادہ نے کہا ہے کہ الَوَّامَة سے مراد فاجرہ (سیدھی راہ پر نہ چلنا) ہے جبکہ مجاہد کہتا ہے کہ وہ چھوٹ جانے والے فرض پر نادم ہو تا ہے اور کہتاہے کہ مجھے ایسا کرنا چاہیے تھا ۔
الفراء کہتے ہیں کہ "کوئی نفس نیک یا فاجر نہیں ہوتا وہ تو اپنے آپ کو خیر کے کام میں یہ کہہ کر ملامت کرتاہے کہ زیادہ کیوں نہیں کیا اور برے کام میں یہ کہہ کر ملامت کرتاہے کہ کاش میں یہ نہ کرتا"۔الحسن کہتے ہیں کہ "یہ مؤمن نفس ہے اور مومن اپنے آپ کو ملامت کرتاہے کہ میں نے اپنی بات سے کیا ارادہ کیا اوراپنے کام سے کیا ارادہ کیا جبکہ فاجر آگے بڑھتا ہی جاتا ہے اور اپنے آپ کا محاسبہ نہیں کرتا ہے"۔مقاتل کہتے ہیں کہ "اس سے مراد کافر نفس ہے جو قیامت کے دن دنیا میں اللہ کے معاملے میں نا انصافی پر اپنے آپ کو ملامت کرے گا"۔
یحیی بن مختا رنےالحسن سے روایت کی ہے کہ "مؤمن اپنے نفس پر قابو رکھتا ہے اور اللہ کے معاملے میں اپنے آپ کا احتساب کرتا ہے۔جو لوگ دنیا میں اپنا محاسبہ کرتے ہیں قیامت کے دن اس سے حساب ہلکا لیا جائے گا۔ جو لوگ دنیا میں خود احتسابی نہیں کرتے اس سے سخت حساب لیا جائے گا۔مؤمن کو کوئی چیز اچھی لگتی ہے اور اس کے دل کو بھاتی ہے تو وہ کہتا ہے کہ اللہ کی قسم تو میری خواہش ہے اور میری ضرورت بھی ہے لیکن اللہ کی قسم مجھے تجھ سے کوئی سروکار نہیں میرے اور تمہارے درمیان بہت دوری ہے۔ اور جب اس سے کوئی غلطی سرزد ہوتی ہے تو اپنے آپ سے کہتا ہے کہ میں تو یہ نہیں چاہ رہاتھا ؟یہ کیا ہو گیا؟اللہ کی قسم آئندہ ایسا نہیں کروں گا ان شاء اللہ۔ مؤمنین ایسے لوگ ہیں جن کو قر آن پر بھروسہ ہے اور وہی ان کے اور ان کی ہلاکت کے درمیان حائل ہے۔ مؤمن دنیا میں ایک قیدی ہے جو اپنی گردن کو چھوڑانے کی تگ ودو کر رہا ہے۔ وہ اللہ سے ملنے تک کسی چیز سے مطمئن نہیں ہو گا۔ اس کو معلوم ہے کہ اس کے کان، آنکھ، زبان اور جوارح کے بارے میں اس سے پوچھا جائے گا"۔
میمون بن مہران کہتے ہیں کہ "کوئی آدمی اس وقت تک متقین میں سے نہیں ہو سکتا جب تک اپنے شریک سے زیادہ اپنا محاسبہ نہیں کرتا ہو، جب تک وہ یہ نہیں دیکھے کہ اس کا کھاناکہاں سے آتا ہے، لباس کہاں سے آرہا ہے، کہاں سے پی رہا ہے یہ سب حلال ہیں یا حرام"۔
ایک شخص یونس بن عبید کے پاس آیا اور کہا کہ "تم یونس بن عبید ہو؟ کہا جی ہاں، اس نے کہا: اللہ کا شکر ہے تجھے دیکھنے سے پہلے مجھے موت نہیں آئی۔ انہوں نے کہا: تم کیا چاہتے ہو؟ اس شخص نے کہا: میں ایک مسئلہ پوچھنا چاہتا ہوں۔ کہا: جو چاہو پوچھو ۔ اس شخص نے کہا پرہیزگاری کا مقصد کیا ہے؟ انہوں نے کہا: ہر پہلو سے اپنے آپ کا احتساب کرنا اور ہر مشکوک چیز سے دور رہنا ۔ اس شخص نے کہا کہ زہد کی غایت کے بارے میں بھی مجھے بتادو؟ کہا: راحت کو ترک کرنا"۔
حسن بن علی الدقاق نے کہا ہے کہ " اطاعت کی بنیاد پرہیز گاری ہے اور پرہیز گاری کی بنیاد تقوی ہے اور اصل تقوی نفس کا محاسبہ ہے اور محاسبہ بھی خوف اور امید کے ساتھ کیونکہ خوف اور امید معرفت ہے اور معرفت کی اصل علم کی زبان اور فکر ہے"۔
الحسن رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ "اللہ اس بندے پر رحم کرے جو کسی کام کا ارادہ کرتے وقت سوچتا ہے کہ اگر اس میں اللہ کی رضاہو تو کر گزرتا ہے ورنہ اس سے باز رہتا ہے"۔
میمون بن مہران نے کہا ہے کہ "کوئی بھی شخص اس وقت تک متقی نہیں ہو سکتا جب تک اپنے نفس کااس قدرسخت محاسبہ نہ کر ے جو دو شراکت دار ایک دوسرے کا کرتے ہیں اسی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ نفس خیانت کرنے والے شریک کی طرح ہے، اگر اس کا محاسبہ نہیں کرو گے تو یہ سب کچھ لے اڑے گا"۔
ابن قدامہ نے منہاج القاصدین میں کہا ہے کہ "یاد رکھو تمہارا سب سے بڑ دشمن تمہارا اپنانفس ہےاس کی تخلیق ہی برائی کا حکم کرنے والے اور شر کی طرف مائل ہونے والے کے طور پر کی گئی ہے۔تمہیں اس کو سدھارنے اس کو پاک کرنے اور برائی سے دور رکھنے حکم دیا گیا ہے ۔تم اس کو اپنے رب کی عبادت کے لیے سخت زنجیروں میں قید کرو۔ اگر تم نے اس کو ڈھیلا چھوڑ دیا تو پھر وہ سرکش اور سرپھرا بن جائے گاجس پر تم پھر قابو نہیں پاسکو گے۔ اگر اس کی ڈانٹ ڈپٹ میں پابندی کرو گے تو امید ہے مطمئن رہو گے اور اس یاد دہانی کرنے میں غفلت کا مظاہرہ مت کرو"۔

Read more...

ولایہ شام: ترمانین میں مظاہرہ جس میں جنیوا-2 کنونشن کو بے نقاب کیا گیا۔

حزب التحریر /  ولایہ شام نے جنیوا-2 کنونشن کی سازشوں کو بے نقاب کرنے کے لئے ترمانین میں مظاہرے کا اہتمام کیا

 

جمعہ، 17 صفر 1435ھ بمطابق  20 دسمبر 2013م

 

Read more...

وضاحتی خط حزب التحریر اور رسول اللہﷺ کے طریقہ کار کو بدنام کرنے کی کوشش

جیو انتظامیہ کے نام،
اسلام علیکم،
18دسمبر 2013کو آپ کے چینل پر کامران خان کی جانب سے حزب التحریر پر ایک انتہائی خوفناک الزام لگایا گیا کہ حزب التحریر نے اپنے ترجمان کے ذریعے افواج پاکستان پر حملے کی ذمہ داری قبول کرلی ہے۔ برائے مہربانی اس بات کو جان لیں کہ اسی دن دوسرے تمام ٹی وی چینلز نے اس بات کو واضح طور پر بیان کیا کہ اس مجرمانہ حملے کی ذمہ داری ایک غیر معروف تنظیم نے قبول کی ہے اور دوسرے دن کے اخبارات نے بھی اسی غیر معروف تنظیم کی اس حملے کی ذمہ داری کو قبول کرنے کی خبر کو شائع کیا۔
یہ خوفناک الزام کئی حوالوں سے بدنام کرنے کی ایک کوشش ہے۔
1۔ یہ الزام آپ کے چینل کی ساکھ کے لیے بدنامی کا باعث ہےجو مسلمانوں کے لیے حالت حاضرہ سے آگاہی کا ایک معتبر ذریعہ ہے۔ معاشرہ اس بات سے بخوبی آگاہ ہے کہ حزب التحریر ایک سیاسی جماعت ہے جس کا مقصد خلافت کے قیام کے ذریعےاسلامی طرز زندگی کا احیاء ہے۔ بلکہ یہ بات اس قدر مشہور و معروف ہے کہ ایک دوسرے چینل نے بھی اسی قسم کا الزام نشر کیا تھا لیکن چند ہی منٹوں میں اس الزام کو واپس بھی لے لیا کیونکہ اس قسم کے جھوٹےالزام کو دہرانے سے اس کو نشر کرنے والے ہی کی بدنامی ہونی تھی۔ آپ کی جانب سے اس الزام کو نشر ہوئے پورے چار دن گزر چکے ہیں لیکن آپ کے ادارے نے اپنی ساکھ پر لگے اس کالے دھبے کو ہٹانے کی کوئی کوشش نہیں کی ہے۔ یقین رکھیں اس قسم کے جھوٹے الزام حزب التحریر کی ساکھ کو کوئی نقصان نہیں پہنچاسکتے ، الحمد اللہ ، لیکن آپ کی ساکھ اس سے ضرور خراب ہوئی ہے۔
2۔ یہ گھٹیا الزام آپ کی اس ذمہ داری پر بھی ایک حملہ ہے جس کے تحت آپ پر یہ لازم ہے کہ آپ عوام کو ملک کو درپیش حقیقی خطرے سے آگاہ کریں جو دراصل ملک میں امریکہ کی وسیع پیمانے پر موجودگی ہے۔ امریکہ نے ہمارے ملک کے خلاف صرف ایک حملہ ہی نہیں کیا بلکہ بم دھماکوں اور قتل و غارت گری کی ایک پوری مہم شروع کررکھی ہے تا کہ فتنے کی آگ کو بھڑکایا جائے اور اس کو بنیاد بنا کر ہماری افواج کو کم شدت کی تنازعات میں ملوث رکھا جائے جس نے ہمارے ملک کو انسانی خون میں نہلا دیا ہے۔ پاکستان میں بھی امریکہ اپنی بالادستی کو قائم کرنے کے لیے ویسے ہی خونی اور شیطانی ہتھکنڈے استعمال کررہا ہے جیسا کہ وہ دنیا کے دوسرے حصوں ، وسطی امریکہ سے لے کر جنوب مشرقی ایشیاء تک میں، کئی دہائیوں سےکررہا ہے ۔ کیا آپ کے لیے یہ مناسب نہیں کہ آپ اپنی نشریات میں لوگوں کو اس اصل اور انتہائی خوفناک خطرے سے آگاہ کریں بجائے اس کے کہ آپ کے چینل سے حزب التحریر کے خلاف اس قسم کے سفیدجھوٹ نشر کیے جائیں؟
3۔ یہ الزام رسول اللہﷺ کے طریقہ کار پر بھی ایک بہتان ہے جس کو حزب التحریر نے اپنے قیام کے سال 1953 سے ، چالیس سے زائد ممالک میں اختیار کررکھا ہے اور حزب اس طریقہ کار کا کُھل کر اور واضح اظہار کرتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے طریقہ کار میں جابر حکمرانوں کے خلاف سیاسی جدوجہد کرنا، اس مقدس دین کے فہم سے آگاہی کے لیے عوام الناس کی تربیت کرنا اور طاقت کے حامل لوگوں (افواج)سے قوت (نصرۃ) طلب کرنا شامل ہے۔ حزب التحریر کا رسول اللہﷺ کے اس طریقہ کار پر چلنا اس قدر مشہور و معروف ہے کہ ماضی میں پاکستانی حکومت کے چمچوں نے ہمیشہ حزب التحریر کی جانب سے افواج پاکستان سے نصرۃ طلب کرنے کے خطرے سے خبردار کیا ہے۔ یہ انتباہ حکومتی چمچوں کی جانب سے حالیہ دنوں میں بھی دیکھا جا سکتا ہے جب حزب التحریر ولایہ پاکستان نے جنرل راحیل شریف کے نام ایک کھلا خط جاری کیا جس میں انھیں ان کی اس شرعی ذمہ داری سے آگاہ کیا ہے۔ تو کیا لوگ اس بات کو تسلیم کریں گے اور کیا راحیل -نواز حکومت کا ایسا کوئی بھی ڈرامہ لوگوں کو اس بات کو تسلیم کرنے پر مجبور کردے گا کہ حزب التحریر اسی فوج کو نقصان پہنچانا چاہتی ہے جس سے اسلام نے نصرۃ طلب کرنے کو لازمی قرار دیا ہے؟ اور قیامت کے دن رسول اللہﷺ کے اس طریقہ کار کو اس طرح بدنام کر کے ہم اللہ کے سامنے کس منہ سے کھڑے ہو سکیں گے؟
لہٰذا حزب التحریر آپ سے مطالبہ کرتی ہے کہ اس غلطی کا ازالہ کریں تا کہ جو ہمارا حق ہے وہ ہمیں اور آپ کو آپ کی ساکھ واپس مل جائے۔ ہم یہ چاہیں گے کہ آپ ہمارے بیان کو اپنے ٹی وی چینل پر نشر اور اخبارات میں شائع کریں اور اللہ سبحانہ و تعالٰی سے عظیم اجر حاصل کریں ۔ یقیناً آپ کا ایسا کرنا مستقبل قریب میں ہماری جانب سے اپنے حق کے دفاع کے لیے کسی بھی فوری قانونی چارہ جوئی کی ضرورت کو ہی ختم کردے گا۔
والسلام
شہزاد شیخ
ولایہ پاکستان مںب حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان

Read more...

شہداء کے سردار

اللہ سبحانہ وتعالیٰ اور رسول اللہﷺپر ایمان لانے والو!
رسول اللہﷺنے فرمایا
«سيد الشهداء حمزة ورجل قام إلى إمام جائر فنصحه فقتله»

''شہداء کے سردار حمزہ ہیں، اور وہ شخص جس نے جابر حکمران کے سامنے کھڑے ہو کر اُسے صحیح نصیحت کی اور اُسے قتل کر دیا گیا'' (الحاکم)
آج کے جابر حکمرانوں کا محاسبہ کرنے والو!
ہمارے آقا، رسول اللہﷺنے جابر حکمران کا محاسبہ کرنے والے کو شہداء کے سردار، اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے شیر، محمدﷺکے پیارے چچا حضرت حمزہ سے متشابہہ بیان کیا۔ تو آخر یہ حمزہ کون ہیں جن کی صف میں ہم کھڑے ہونا چاہتے ہیں؟ یہ وہ حمزہ ہیں جنہوں نے قریش میں اپنی ممتاز حیثیت کی وجہ سے، مشکل ترین وقت میں مسلمانوں کے لیے ڈھال کا کام کیا۔ یہ وہ حمزہ ہیں جو اپنے رتبے کی وجہ سے، مختلف قبائل کے لوگوں کے لیے اسلام کی طرف متوجہ ہونے کا سبب بنے۔ یہ وہ حمزہ ہیں جو اسلام قبول کرنے کے بعد اُس پر اس مضبوطی سے جم گئے کہ کفار نے غزوہ احد میں ایک غلام وحشی کو آزادی کے بدلے اس ہدف پر معمور کیاکہ وہ حمزہ کوقتل کرے گا۔ یہ وہی حمزہ ہیں کہ جب اُحد کے دن رسول اللہﷺنے اُن کے جسدِخاکی کو دیکھا تو فرمایا ''میں نے اپنی زندگی میں اتنا شدید نقصان نہیں اُٹھایا جتنا آج اور مجھے کبھی اتنا غصہ نہیں آیا جتنا آج ۔۔اگر اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے مجھے قریش پر غلبہ عطا کیا تو میں اُن کے 30لوگوں کا مثلہ کروں گا''۔اور رسول اللہﷺکی طرف سے شہداء کے سردار حمزہ کے بارے میں انہی الفاظ پر اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائی:
ادْعُ إِلَى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِيلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ (•) وَإِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوا بِمِثْلِ مَا عُوقِبْتُمْ بِهِ وَلَئِنْ صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَيْرٌ لِلصَّابِرِينَ (•) وَاصْبِرْ وَمَا صَبْرُكَ إِلاَّ بِاللَّهِ وَلاَ تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ وَلاَ تَكُ فِي ضَيْقٍ مِمَّا يَمْكُرُونَ (•)
ترجمہ: ''اپنے رب کی راہ کی طرف لوگوں کو حکمت اور بہترین نصیحت کے ساتھ بلائیے اور ان سے بہترین طریقے سے گفتگو کیجئے۔ یقینا آپﷺ کا رب اپنی راہ سے بہکنے والوں کو بھی بخوبی جانتا ہے اور وہ راہ یافتہ لوگوں سے بھی واقف ہے۔اوراگر بدلہ لو بھی تو بالکل اتنا ہی جتنا صدمہ تمہیں پہنچایا گیا ہواور اگر صبر کر لو تو بیشک صابروں کے لیے یہی بہتر ہے۔ آپ صبر کریں، بغیر توفیق الہٰی کے آپ صبر کر ہی نہیں سکتے اور ان کے حال پر رنجیدہ نہ ہوں اور جو مکروفریب یہ کرتے رہتے ہیں ان سے تنگ دل نہ ہوں '' (النحل: 125 - 127)۔
یقینا یہ اُمت اپنے شہداء پر غمگین نہیں ہوتی، اور نہ ہی اُن کی گنتی کرتی ہے۔ اُن کے لیے تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے جنت کا وعدہ کر رکھا ہے اور اُن کے چہرے اُس دن خوشی سے روشن ہونگے جس دن تمام انسان شدید خوف کی حالت میں اپنے فیصلے کا انتظار کر رہے ہونگے۔ یہ ہے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے ہاں شہداء کا مقام۔ تو پھر سیدالشہداء کی تو کیا ہی شان ہوگی؟
سیدالشہداء کی صف میں شامل ہونے کی خواہش رکھنے والو!
جابر حکمرانوں کا محاسبہ کرنے کا رستہ رسول اللہﷺکا رستہ ہے۔یہ وہ افضل ترین عبادت ہے کہ جس میں نہ جسم تھکتے ہیں اورنہ ذہن اور قلوب اُس اجر عظیم کی تمنارکھتے ہیں جس کا اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے وعدہ کر رکھا ہے۔حکمران کا محاسبہ کرنا فرض ہے اور یقینا حکمران ہی المعروف کی بنیاد ہے اگر وہ عادل ہو، اور وہی منکر کی جڑ ہے اگر وہ ظالم ہو۔ امرباالمعروف ونہی عن المنکر کرنا اور ظالم کے ہاتھ کو روکنا، یہ وہ عمل ہے کہ جس کی شریعت میں بہت تعریف کی گئی ہے اور اس کے ترک کرنے پر سخت وعید بھی سنائی گئی ہے۔
رسول اللہﷺنے ارشاد فرمایا ''اُس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، تم ضرورامرباالمعروف ونہی عن المنکر کرو ورنہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ تمہیں عذاب میں مبتلا کرے گا ،پھر تم اُس سے دعائیں کرو گے اور وہ اُنہیں قبول نہیں کرے گا'' (جامع الترمذی)
اور رسول اللہﷺنے فرمایا ''نہیں !اللہ کی قسم !تم ضرور ظالم کے ہاتھ کو پکڑو اور اسے حق کی طرف موڑو اور اسے حق پر قائم رکھو۔ورنہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ تمہارے قلوب کو آپس میں ٹکرائے گا اور تم پر اسی طرح لعنت کرے گا جیسے بنی اسرائیل پر کی''
سیدالشہداء کے راستے پر چلنے والو!
جابر حکمرانوں کے محاسبے کے راستے پر چلتے ہوئے، مسلمان کسی قسم کے نقصان پر خوفزدہ نہیں ہوتا، جو ظالموں کی طرف سے تنگ کرنے،قیدوبند کرنے،تشدد کرنے اور کبھی شہید کر دینے کی حد تک بھی ہوتا ہے جیسا کہ آج ہم پوری مسلم دنیا میں دیکھ رہے ہیں۔مسلمانوں میں نہ تو اپنے پیاروں کا ساتھ چھُٹ جانے کا خوف ہوتا ہے، نہ ہی اُن کا نفقہ ختم ہو جانے کا اور نہ ہی جان چلے جانے کا (جو اہل وعیال کے ساتھ اور اُن کے نفقے کی بنیاد ہے)۔کیونکہ وہ شخص جو سیدالشہداء کی صف میں شامل ہونا چاہتاہے، وہ اللہ کے اس فرمان کو یاد رکھتا ہے :
فَلاَ تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِي
۔ '' پس، اُن سے مت ڈرو،صرف مجھ سے ڈرو '' (البقرہ: 150)
اور وہ قریش کی جارحیت پر رسول اللہﷺکے اس جواب کو بھی یاد رکھتا ہے ''اللہ کی قسم !میں اپنی اس جدوجہد کو جاری رکھوں گا جس کے لیے اُس نے مجھے مبعوث فرمایا ہے۔تاوقتیکہ یہ دین غالب آجائے یا میری گردن اُڑا دی جائے''
وہ اس بات پر ایمان رکھتا ہے کہ بہترین رزق وہ ہے جو اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے جنت میں مؤمنین کے لیے عطا کر رکھا ہے۔ اور بہترین صحبت اُن لوگوں کی ہے جو اس جنت کے سب سے اُونچے درجے میں ہیں۔وہ اس بات پر بھی ایمان رکھتا ہے کہ جن لوگوں سے وہ اس دنیا میں محبت رکھتا ہے، قیامت کے دن اللہ سبحانہ وتعالیٰ اُس کے درجے کو اُن لوگوں تک بلند کر دے گا تاکہ اُسے اپنے محبوب لوگوں کا ساتھ نصیب ہو۔ یہ ایمان اُس میں تحریک پیدا کرتا ہے کہ وہ زیادہ جدوجہد کرے، زیادہ قربانی دے، جنت الفردوس کی تمنا رکھے، ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی میں بہترین رزق اور بہترین صحبت حاصل کرے اور اُس کا حشر اُن لوگوں کے ساتھ ہوجن سے وہ محبت رکھتا ہے۔ انشاء اللہ۔
تو پھر آخر کیوں ایک مسلمان کے دل میں اس عارضی دنیا میں مال اور اہل وعیال کے نقصان کا خوف ہو؟ یہ ہے وہ عزم جو ہمارے گھر والوں کو بھی متاثر کرتا ہے اور پریشانی کے وقت اُنہیں مضبوط رکھتا ہے۔ یہ ہے وہ عزم جو اُس تحریک کی آنکھوں میں نظر آتا ہے اور جوش وولولے میں محسوس کیا جاتا ہے جو کفروباطل کو مٹا ڈالنے کے لیے اُٹھی ہے۔ یہ ہے وہ عزم کہ جسے دیکھ کر داعی کے گھر والے اُسے کہتے ہیں ''اگر تم ظالموں کے آگے کانپ گئے یا کمزور پڑے،تو تمہیں واپسی پر خیرمقدم نہیں کیا جائے گا۔ شہادت تک ثابت قدم رہنا اور ہم مل کر جنت میں خوشیاں منائیں گے''
سیدالشہداء کے راستے پر دوڑنے کی تمنا رکھنے والو!
آئیں اس راستے پر مضبوطی سے قدم رکھیں۔ آئیں کہ ایک قدم بھی ہم کمزور مت پڑیں، نہ ہی ظالموں کے خوف کی وجہ سے اور نہ ہی اپنے پیاروں کی محبت کی وجہ سے۔ آئیں آگے بڑھیں، اُس اجر پر یقین رکھتے ہوئے جو ہم اپنے لیے اور اپنے پیاروں کے لیے اکھٹا کریں گے۔ آئیں آگے بڑھیں، اِس بات پر یقین رکھتے ہوئے کہ اُمت کی پُر عزم جدوجہد کے سامنے جابر حکمران کمزور پڑ رہے ہیں اور ختم ہو رہے ہیں۔ آئیں آگے بڑھیں، اِس دعا کے ساتھ کہ بہت جلد ہم کفر کے خاتمے اور اسلامی حکومت کے آغاز پر خوشیاں منائیں۔ ہماری زندگی سرداروں کی طرح گزرے اور ہماری موت شہداء کی طرح ہو۔ آمین۔
وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَاءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ (•) فَرِحِينَ بِمَا آَتَاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ أَلَّا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (•)
''جو لوگ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی راہ میں شہید کیے گئے ہیں ان کو ہر گزمردہ نہ سمجھو، بلکہ وہ زندہ ہیں اور اپنے رب کے پاس روزیاں دیے جاتے ہیں۔اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنا فضل جو انہیں دے رکھا ہے اس سے بہت خوش ہیں اور خوشیاں منا رہے ہیں ان لوگوں کی بابت جو اب تک ان سے نہیں ملے اور ان کے پیچھے ہیں، اس پر کہ انہیں نہ تو کوئی خوف ہے اور نہ ہی وہ غمگین ہوں گے '' (آلِ عمران: 169 - 170)۔

Read more...

امریکہ خطے میں اپنی موجودگی کو برقرار رکھنے کے لیے مذاکرات کا انعقاد چاہتا ہے

تحریر: شہزاد شیخ

(پاکستان میں حزب التحریرکے ڈپٹی ترجمان)

تاریخ:18نومبر2013

 

خبر: بروز جمعہ یکم نومبر 2013 کو امریکہ نے تحریک پاکستان کے رہنما حکیم اللہ محسود کو ایک ڈرون حملے میں ہلاک کردیا۔ اس واقع پر حکومت پاکستان نے شدید احتجاج کیا اور پاکستان کے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے اس عمل کو خطے کے امن پر ڈرون حملہ قرار دیا اور امریکہ سے پاکستان کے تعلقات پر نظر ثانی کا عندیہ بھی دیا۔اپوزیشن جماعتوں نے بھی اس حملے کی مذمت کی اور اس مسئلے پر حکومت کو اپنے تعاون کا یقین دلایا۔

 

تبصرہ: حکومت پاکستان کا بظاہر اس ڈرون حملے پر شدید ردعمل کا اظہار کرنا اور پاکستان میں امریکی سفیر رچرڈ اولسن کو دفتر خارجہ میں طلب کر کے امریکہ سے اس واقع پر شدید احتجاج کرنا شاید لوگوں کے لیے باعث حیرت اور خوشی کا باعث ہو کہ آخر کار ہمارے حکمرانوں کو بھی پاکستان اور اس کے عوام کے مفادات کا خیال آہی گیا اور اب ہمارے حکمران اس امریکی جنگ سے نکلنے کے لیے سنجیدہ کوشش کررہے ہیں۔ لیکن قابل غور بات یہ ہے کہ سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غدار امریکی ایجنٹوں نے امن کے لیے مذاکرات کو ایک موقع دینے کی بات اس وقت کرنا شروع کی جب امریکہ نے 2014 میں افغانستان سے محدود انخلاء کے نام پر افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کی خواہش کا اظہار کیا اور اس مقصد کے لیے کوششوں کا آغاز کیا۔ اگر پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غدار امریکی ایجنٹوں کا پاکستان کے قبائلی مسلمانوں سے مذاکرات کا فیصلہ قطعی اپنا ہوتا تو امن کے لیے مذاکرات کو موقع دینے کا اعلان امریکہ کے افغانستان سے محدود انخلاء کے منصوبے کے اعلان سے قبل کیوں نہ کیا گیا؟

درحقیقت امریکہ اس بات کو اچھی طرح سے جانتا ہے کہ وہ 2014 کے بعد افغانستان کو چلانے کے لیے جو نظام دینا چاہتا ہے جب تک ڈیورنڈ لائن کے دونوں جانب بسنے والے مسلمان پشتون اس کی حمائت نہ کریں ،کسی صورت چل ہی نہیں سکتا۔لہٰذا امریکہ محدود انخلاء کے پردے میں افغانستان میں اپنی موجودگی کو برقرار رکھنے کے لیے جہاں افغانستان کے مسلمان پشتونوں کو مذاکرات کے ذریعے قائل کرنے کی کوشش کررہا ہے وہیں پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت میں اپنے ایجنٹوں کو اس نے پاکستان کے قبائلی مسلمانوں کو بھی اس امریکی بندوبست پر قائل کرنے کے لیے مذاکرات کی اجازت دی ہے۔

لیکن امریکہ اپنے ایجنٹوں کی غداری کو چھپانے اور ان کے جھوٹے اخلاص کو ثابت کرنے کے لیے بظاہر پاکستان میں مذاکرات کی مخالفت کررہا ہے تا کہ مسلمان یہ دھوکہ کھا جائیں کہ امریکہ تو مذاکرات کا مخالف ہے اور اب ہمارے حکمران بھی اس کے احکامات کو ماننے سے انکار کررہے ہیں لہٰذا ہمیں ان مذاکرات کی حمائت کرنی چاہیے تا کہ امریکی منصوبے کو ناکام کیا جائے۔ یہ ایک ڈبل گیم ہے جو امریکہ خطے کے مسلمانوں کے ساتھ کھیل رہا ہے تا کہ خطے میں اپنے اسٹریٹجک مفادات کا تحفظ اور اپنی موجودگی کو برقرار رکھ سکے۔

پاکستان اور افغانستان میں کسی صورت امن قائم نہیں ہوسکتا جب تک خطے میں امریکہ کی موجودگی کی تمام اشکال کا خاتمہ نہ کردیا جائے چاہے وہ سفارت خانوں اور قونصل خانوں کی بندش ہو یا امریکی فوجیوں، انٹیلی جنس اداروں ، نجی سکیورٹی اداروں اور سفارت کاروں کو خطے سے نکال دینا ہو۔ اور یہ صرف خلیفہ راشد ہی کرسکتا ہے جو مسلمانوں کو ، ان کی افواج کو اور ان کے تمام وسائل کو ایک خلافت کے سائے میں یکجا کرے گا ۔ لہٰذا خطے کے مسلمانوں کو نبوت کے طریقے پر چلتے ہوئے خلافت کے قیام کی زبردست جدوجہد کرنی چاہیے۔

 

Read more...
Subscribe to this RSS feed

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک