سوال و جواب: چین کی حالیہ اقتصادی اصلاحات
- Published in امیر حزب التحریر
- سب سے پہلے تبصرہ کرنے والے بنیں
- |
سوال:
چین کے صدر شی جین پنگ نے بروز بدھ 13/11/2013 کو کہا کہ "چین اقتصادی مسائل کو حل کر نے کے لیے اصلاحات میں آگے بڑھتا رہے گا لیکن ان اصلاحات کے لیے محتاط منصوبہ بندی کی ضرورت ہے اور ان کو راتوں رات حاصل نہیں کیا جاسکتا "چینی ٹی وی نے شی سے ان کا یہ قول نقل کیا کہ "اصلاحات ہی چین کے موجودہ مسائل کا حل ہیں۔۔۔"، یہ بیانات چینی قیادت کی جانب سے ہفتہ 09/11/2013 کو منعقد کیے جانے والے اجلاس جو کہ چار دن جاری رہا کے اختتام پر سامنے آئے، یہ اجلاس 6 نومبر 2013 کو چینی کمیونسٹ پارٹی جو کہ چین میں حکمران پارٹی ہےکے ایک مرکز میں ہو نے والے سات دھماکوں کے بعد اور چین کے دار الحکومت بیجنگ کے دل تیانا مین کے شارع عام میں ایک چوراہے پر ایک گاڑی کے راہ گیروں کو کچلنے کے بعد اس میں آگ بھڑکنے کے واقعے کے ایک ہفتے کے بعد پیش آیا، سوال یہ ہے کہ:ہم سنتے آرہے ہیں کہ چین کی معیشت بلندیوں کو چھو رہی ہے پھر معاشی مسائل کو حل کرنے کے لیے چینی قیادت کے اجلاس کا کیا مطلب ہے؟ کیا ان دھماکوں اور اقتصادی امور کو زیر بحث لانے کے لیےچینی عہدہ داروں کے اجلاس کے درمیان کوئی تعلق ہے؟ اللہ آپ کو جزائے خیر دے۔
جواب:
1 ۔ جی ہاں ان کے درمیان تعلق ہے اگر چہ چین نے حسب عادت یہ کہنے میں جلد بازی کی کہ :"حکومت نے ان لوگوں کومورد الزام ٹھہرایا جن کو وہ اسلامی شدت پسندوں کہتی ہے "۔ یہ بیان معیشت کی اس بگڑتی صورت حال سے توجہ ہٹانے کی کوشش ہے جس کی وجہ سے چینی عوام کو لینے کے دینے پڑرہے ہیں، خاص طور پر مضافات اور وسطی علاقوں میں لوگوں کو بھوک اور افلاس کا سامنا ہے جس کی وجہ سے لوگ اپنے معاشی مسائل کی طرف ریاست کی توجہ مبذول کروانے کے لیے پر تشدد احتجاج پر اتر آئے ہیں۔
2 ۔ یہ واقعات اس سیاسی تحریک کا حصہ ہیں جو اندر ہی اندر چل رہی ہے اور جو اس طرف اشارہ کرتی ہے کہ چین کو داخلی طور پر گہرے مسائل کا سامنا ہے، جو اس کی خارجہ پالیسی کو بھی متاثر کر سکتے ہیں۔ چین 2005ء میں 87000 معاشرتی بے چینی کے واقعات کا سامنا کر چکا ہے جن میں عوامی نارضگی، مظاہرے اورداخلی تنازعات شامل ہیں، جبکہ سال 2010ء میں چین میں 180000 احتجاجات، مظاہرے اور معاشرتی بے چینی کے واقعات رونما ہوئے، یعنی بے چینی بڑھ رہی ہے۔۔۔
3 ۔ چین میں آزاد تجارتی علاقے Free Economic Zones جو کہ چین میں تیز ترین پیداوار کے بنیادی عنصرتھے سب کے سب چین کے مشرقی ساحل پر قائم کیے گئے، جہاں جو بھی پیداوار ہوتی ہے اس کوبحری جہازوں میں لاد کر دنیا کوبر آمد کیا جاتا ہے، اس کے نتیجے میں ساحلی علاقے عالمی معیشت سے مربوط ہو گئے ہیں، جس کی وجہ سے چین میں انتہائی تیز پیداوار دیکھنے میں آئی، اسی پیداوار کی بدولت نو دولتیوں کا ایک نیاطبقہ تیار ہوا، جس کی قیمت چین کے دوسرے تمام لوگوں کو ادا کرنی پڑی، چین کا بیشتر حصہ اب بھی بڑی حد تک زرعی ہے، جس کا انفراسٹرکچر پسماندہ قسم کا ہے اور ان علاقوں میں لوگ پسماندگی کی زندگی گزار رہے ہیں، دولت کی تقسیم کےایک عالمی جائزےکے مطابق جس کا اہتمام Boston Consulting Group نے2008ء میں کیا تھا چین کے باشندوں کا 0.2٪ چین کی 70٪ دولت پر قابض ہیں، دولت کی اس غیر منصفانہ تقسیم کے علاوہ جسمانی تشدد، قید وبند، ظالمانہ لیبر قوانین اور غیر معقول اجرتیں اور چینی حکومت کی اپنے شہریوں کی معاشی ضروریات کو پورا کرنے میں ناکامی کی بدولت صورتحال زیادہ پیچیدہ ہو گئی ہے۔
4 ۔ چینی اقتصادی ماڈل جو کم اجرتوں اور بے تحاشا بر آمدات پر بھروسہ کرتا ہے اب ناکام ہو گیا ہے، 2008ء کے عالمی مالیاتی بحران نے اس کو مکمل طور پر بے نقاب کر دیاہے، بہت سے ماہرین کی رائے میں چین کی معیشت دباؤ کا شکار ہے، نوبل انعام پانے والے ماہر معاشیات Paul Krugman نے کہا کہ "اب اشارے واضح ہیں: چین بڑی تشویش ناک صورت حال سے دوچار ہے، ہم کچھ عارضی مسائل کی بات نہیں کر رہے ہیں بلکہ بات انتہائی بنیادی ہے، ملک میں تجارتی عمل کا مکمل طریقہ کار اور وہ اقتصادی نظام جس نے تین دہائیوں تک تیز پیداوار حاصل کرنے میں مدد دی اب اپنی انتہا کو پہنچ رہا ہے، یہ کہا جا سکتا ہے کہ چینی ماڈل دیوار چین سے ٹکرانے والا ہے، اب صرف یہ سوال باقی ہے کہ یہ بربادی کس قدر تباہ کن ہو سکتی ہے" (دیوار چین سے ٹکرانا Paul Krugman نیو یارک ٹائمز 18 جولائی 2013)، Stratfor نے کہا: "چینی معیشت میں حالیہ بڑی تبدیلیاں جن کی توقع Stratfor کئی سال سے کر رہا تھا اور اس پر تبصرےبھی کیا کرتا تھا اب زیادہ ترمیڈیا کی توجہ کا مرکز بن گئی ہیں کئی لوگ پوچھتے تھے کہ ہمارےخیال میں چین کب تک معاشی بحران کا شکار ہو سکتا ہے، ہم جواب میں کہتے تھے کہ کچھ عرصے سے چین بحران کی زد میں آچکا ہے، لیکن یہ ایسا معاملہ ہے جس کا چین سے باہر زیادہ چرچا نہیں، خصوصاًہمارے ہاں امریکہ میں، یہ بھی ممکن ہے کہ اعتراف کرنے سے پہلے ہی بحران پیدا ہو کیونکہ بحران کا اعتراف اس کے خطرناک موڑپر جاکر کیا جاتا ہے۔ یہ اس وقت ہو تا ہے جب بہت سے دوسرےلوگ بحران کے ردعمل کے طور پر اپنا رویہ تبدیل کرنا شروع کردیتے ہیں، ہم جو سوال پوچھتے تھے وہ یہ تھا کہ آخر کب چینی معاشی بحران ناقابل تردید حقیقت کا روپ دھارے گا، جس سے دنیا کی صورتحال تبدیل ہو جائے گی" (The End of the Chinese Miracle Stratfor 23 July 2013)
5 ۔ چین نے گزشتہ دس سالوں کے دوران اقتصادی ترقی میں اس سرمایہ دارانہ منہج پر چلنا شروع کردیا جو یہ ہے کہ معاشی سرگرمیوں کا دارومدار تقسیم کو نظر انداز کرتے ہوئے پیداوار کو بڑھانے پر ہے، اگر پیداوار زیادہ ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ معیشت مضبوط اور ترقی یافتہ ہے خواہ دولت سب کی سب چندہاتھوں میں ہی کیوں نہ ہو اور باقی لوگ تنگدستی کا شکار ہوں۔۔۔یعنی توجہ پیداوار کی زیادتی پر ہے اس کی منصفانہ تقسیم پر نہیں، اگر چین نے اشتراکیت اور سرما یہ داریت کے ملغوبے پر چلنے کا سلسلہ جاری رکھا تو اس کے ساتھ بھی وہی ہو گا جو سویت یونین کے ساتھ ہو ا جب اس نے اشتراکیت اور سرمایہ داریت کو خلط ملط کرنے کی کوشش کی تو اس کی حالت اس کوّے کی طرح ہو گئی جوہنس کی چال چلنے کی کوشش میں اپنی چال بھی بھول گیا ! چین میں بھی ایسا ہو نے کا خطرہ ہے۔۔۔ہاں اگر چین خطرے کو بھانپ کر اس کا علاج ڈھونڈ لے تو الگ بات ہے۔
6 ۔ چین اس بحران سے اس صورت میں ہی نجات حاصل کر سکتا ہے کہ وہ اس ملے جلے معاشی ماڈل اوربے تحاشہ بر آمدات پر توجہ مرکوزکرنے کی بجائے پہلےمقامی طلب پر توجہ دے اور اپنی عوام کی ضروریات پوری کرے، ورنہ1.3 بلین میں سے 948 ملین لوگ اسی طرح 5 ڈالر سے بھی کم یومیہ آمدن پرزندگی گزارنے پر مجبور رہیں گے اور دولت بدستور ایک چھوٹے سے ٹولے کے پاس ہی رہے گی جو مزدوروں کا استحصال کرتارہے گا، یوں آبادی کی اکثریت کی ضروریات کو پوری کرنا ناممکن ہو گا، کچھ لوگ ہی پیداوار پر کنٹرول رکھیں گے اور اس کو بر آمد کرتے رہیں گے اور اکثریت کی غربت میں اضافہ ان کو احتجاج اور انتشار پر اکسائے گی۔۔۔ Zhou Xiaozheng جو کہ چین کی رنمین یونیورسٹی میں قانون اور معاشرتی علوم کے پروفیسر ہیں چین کی حقیقی صورت حال کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں: "یہ مت بھولےپ کہ چین کی موجودہ کامیابی اس بات کی مرہون منت ہے کہ 300 ملین افراد کی جانب سے ایک بلین سستے مزدوروں کا استحصال ہو رہا ہے، عدالتی نظام غیر منصفانہ ہے، دولت کی بے ڈھنگ تقسیم نے چیلنجز کو اور بڑا کر دیا ہے"۔
7 ۔ چین کو چاہیے کہ وہ مغرب کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ہر احتجاج اور اضطراب کو "اسلامی شدت پسندی" کے کھاتے میں نہ ڈالے، بلکہ اپنی ملی جلی معیشت کے بحران کی وجوہات کو جاننے پر توجہ دے جو صرف پیداوار کو زیادہ کرنے اور بر آمدات کو بڑھانے پر قائم ہے اور جس کے نتیجے میں پیداوار تو زیادہ ہوتی ہے لیکن بری تقسیم اور بری ہو جاتی ہےاور غریبوں کی تعداد بڑھ رہی ہے، جس کے نتیجے میں احتجاج میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔۔۔ہم چین کو انتباہ کرتے ہیں کہ اگر اس نے اس اقتصادی پالیسی "اشتراکی سرمایہ داریت" کو جاری رکھا تو وہ بھی سوویت یونین والے انجام سے دوچار ہو گا اور یوں وہ بھی قصہ پارینہ بن جائے گا۔۔۔
ہم چین سے یہ نہیں کہتے ہیں کہ اسلام نافذ کرو تو خوشحال ہو جاؤ گے۔۔۔یہ اس لیے کہہ رہے ہیں کہ اس کو نافذ کرنے کے لیے پہلے اسلامی عقیدے کو اپنانا پڑے گا جو کہ ابھی ان کے پاس نہیں ہے ۔۔۔لیکن ہم ان سے صرف اتنا کہتے ہیں کہ غربت کی چکی میں پسے ہوئے عوام کے درمیان دولت کی منصفانہ تقسیم کےبجائے مغرب کی نقالی کرتے ہوئے صرف پیداوار کو بڑھانے کی تگ ودو مت کرو، ورنہ معاشی بد حالی اور فکری خستہ حالی کے سبب احتجاج میں اضافے کا خطرہ ہے نہ کہ نام نہاد اسلامی انتہاپسندی کی وجہ سے جیسا کہ مغرب واویلا کر تا رہتا ہے۔۔۔اسلامی انتہا پسندی کی بات کر نا سیاسی الزامات کا ایک باب ہے، یہ اس سے توجہ ہٹانے کی کوشش ہے کہ خود چین نے آتش و آہن کے ذریعے مشرقی ترکستان (سنکیانگ) پر غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے، لیکن ان تمام دھوکے بازیوں، مکروفریب اور حقائق کو مسخ کرنے کی کوششوں سے مسلمان کبھی یہ نہیں بھولیں گے کہ چین نے ترکستان پر غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے، بلکہ یہ اللہ کے اذن سے جلد یابہ دیر امت مسلمہ سے ہم آغوش ہو گا، ﴿وَلَتَعْلَمُنَّ نَبَأَهُ بَعْدَ حِين﴾ " کچھ عرصے بعد تمہیں اس کی خبر ملے گی"