الإثنين، 23 جمادى الأولى 1446| 2024/11/25
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

خود احتسابی (قرآن ،سنت اور علماءکے فرمودات کے آئینے میں)

بسم الله الرحمن الرحيم

قرآن کریم کی رُو سے:
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ تَعْمَلُونَ "اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور ہر شخص کو چاہیے وہ دیکھ لے کہ وہ کل کے لیے کیا آگے بھیج رہا ہے اللہ سے ڈرو اللہ اس سے مکمل باخبر ہے جو کچھ تم کرتے ہو" (الحشر 59 : 18)۔ ابن کثیر رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرما تے ہیں کہ (ہر شخص کو چاہیے کہ وہ دیکھ لے کہ کل کے لیے کیا آگے بھیج رہا ہے ) یعنی "حساب کتاب کے لیے جانے سے قبل ہی اپنا محاسبہ کرو اور سوچ لو کہ تم نے آخرت کے دن اور اپنے رب کے سامنے پیش ہونے کے دن کے لیے کون کونسے نیک اعمال کا ذخیرہ کر رکھا ہے۔یاد رکھو کہ وہ تمہارے تمام اعمال اور احوال سے باخبر ہے اور اس سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں"۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : وَلَا أُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ "اور میں ملامت کرنے والےنفس کی قسم کھاتا ہو" (القیامہ75 : 2)۔ قرطبی رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ "اور ملامت کرنے والےنفس سے مراد مؤمن کانفس ہےجو ہمیشہ اس کو ملامت کرتا رہتاہے ، کہتاہے کہ اس سے تیرا ارادہ کیا ہے؟ وہ ہمیشہ اپنے آپ کو کوستا ہے، ابن عباس، مجاہد اور حسن وغیرہ نے بھی یہی کہا ہے"۔ حسن کہتے ہیں کہ "اللہ کی قسم اس سے مراد مؤمن کانفس ہےجو ہمیشہ اپنے آپ کو ملامت کرتا رہتا ہے۔ میں اپنی بات میں کیا کہنا چاہتا تھا ؟میں کیا کھانے کا ارادہ رکھتا تھا ؟ اور میں اپنے آپ سے بات کر کے کیا حاصل کرنا چاہتا تھا ؟ اور فاجر (کھلم کھلا گناہ کا ارتکاب کرنے والا) اپنا محاسبہ نہیں کرتا"۔مجاہد کہتے ہے کہ "وہ گزرے ہوئے پر ملامت کرتاہے اور کوئی شر ہو تو اس لیے ملامت کرتاہے کہ اس کا ارتکاب کیوں کیا اور اگر خیر کا کام ہو تو اس لیے ملامت کرتاہے کہ اس کو زیادہ کیوں نہیں کیا؟ اوریہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ ملامت والاہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ جس چیز پر کسی کو ملامت کرتاہے اسی پر اپنے آپ کو بھی ملامت کرتاہے ۔ ان تمام صورتوں میں "لَوَّامَةِ" کا مطلب ملامت کر نے والاہے جو کہ اچھی صفت ہے"۔
اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : يُنَبَّأُ الْإِنْسَانُ يَوْمَئِذٍ بِمَا قَدَّمَ وَأَخَّرَ بَلِ الْإِنْسَانُ عَلَىٰ نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ "اس دن انسان کو بتایا جا ئے گا کہ اس نے کیا کیا اور کیا نہیں کیابلکہ انسان اپنے آپ کو اچھی طرح جانتا ہے" ( القیامہ 75 : 13-14)۔ اس کی تفسیر میں ماوردی فرماتے ہیں کہ "اس میں تین تاویلات ہیں: ایک یہ کہ وہ جو کچھ آگے بھیج رہا ہے اس کے ذریعے اپنے آپ کے خلاف گواہ ہے،جیسا کہ اللہ فرماتے ہیں، وَكُلَّ إِنْسَانٍ أَلْزَمْنَاهُ طَائِرَهُ فِي عُنُقِهِ ۖ وَنُخْرِجُ لَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ كِتَابًا يَلْقَاهُ مَنْشُورًا اقْرَأْ كِتَابَكَ كَفَىٰ بِنَفْسِكَ الْيَوْمَ عَلَيْكَ حَسِيبًا " اور انسان کی قسمت ہم نے اس کے گلے سے لگا دی ہے اور اس کے لیے قیامت کے دن ایک نوشتہ نکالیں گے جسے وہ کُھلا ہوا پائے گا۔ فرمایا جائے گا کہ اپنا نامہ اعمال آج پڑھ لو تو خود ہی اپنا حساب کرنے کو بہت ہے" (الاسراء 17 : 13-14) دوسری تاویل یہ ہے کہ: اس کے جوارح (اعضاء) اپنے اعمال کے بارے میں اس کے خلاف گواہ ہیں۔ ابن عباس کا یہی قول ہے جیسا کہ اللہ کا فرمان ہے کہ الْيَوْمَ نَخْتِمُ عَلَىٰ أَفْوَاهِهِمْ وَتُكَلِّمُنَا أَيْدِيهِمْ وَتَشْهَدُ أَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ "آج ہم ان کے منہ پر مہر لگا دیں گے اور ان کے ہاتھ ہم سے ہم کلام ہوں گے اور ان کے پاؤں ان کے کرتوتوں کی گواہی دیں گے" (یٰس 36 : 65) تیسری تاویل یہ ہے کہ لوگوں کے عیبوں کو خوب باریکی سے دیکھنے والا جبکہ اس کے مقابلے میں اپنے عیوب سے غافل ہے کہ اس کے نتیجے میں کیا سزا اور جزاء ملنے والی ہے۔ بصیرہ کے آخر میں"ہ" مبالغے کے لیے ہے ۔ جہاں تک اللہ کے اس فرما ن کا تعلق ہے وَلَوْ أَلْقَىٰ مَعَاذِيرَهُ "اگرچہ وہ عذر پیش کرتا ہے" ( القیامہ 75 : 15)۔ اس میں بھی چار تاویلات ہیں: ایک یہ کہ اگر اس دن معذرت بھی کرے تو قبول نہیں کی جائے گی اور یہ قتادہ کا قول ہے۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ اگر وہ اپنے کپڑے بھی اتاردے اوریہ ابن عباس کا قول ہے۔ تیسرا یہ کہ اگرچہ وہ اپنی حجت کو سامنے بھی لائے اوریہ السدی کا قول ہے۔ چوتھا یہ کہ وہ اپنا ستر اتار پھینکےکہ یمن کی لغت میں عذربھی ستر کو کہتے ہیں یعنی اگرچہ وہ اپنے عذر بھی پیش کرے اوریہ ضحاک کا قول ہے اور ایک پانچواں احتمال بھی ہے کہ اگر وہ معذرت چھوڑ بھی دے اور سرتسلیم خم بھی کردے اس کو نہیں چھوڑا جائے گا"۔
سنت نبوی ﷺ سے:
نبی ﷺ نے بھی اس ملامت کرنے والےنفس کی طرف اشارہ فرمایا جو مؤمن کانفس ہےاور اس کو ہمیشہ ملامت کرتارہتاہے۔چنانچہ اس حدیث میں فرمایا جس کو ترمذی اور احمد نے روایت کی ہے اور ترمذی نے اس کو حسن قرار دیا ہے: امام احمد نے اپنی مسند میں اور الحاکم نے اپنی مستدرک علی الصحیحین میں النواس بن سمعان الکلابی رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "اللہ نے صراط مستقیم (سیدھے راستے) کی مثال دی ہے کہ راستے کے دونو ں پہلو میں دیواریں ہیں جن میں کھلے ہوئے دروازے ہیں اور ان دروازوں پر پردے لٹک رہے ہیں اور راستے کے آخر میں ایک منادی ہے جو کہتا ہے کہ: 'سیدھی راہ پر قائم رہو اور بھٹک مت جانا'۔ راستے کے اوپر بھی ایک پکارنے والا ہے جب بھی انسان کوئی دروازہ کھولنے کا ارادہ کرتا ہے تو اس سے کہتا ہے کہ: 'تیرا ستیناس ہو ! اس کو کبھی بھی مت کھولو کیونکہ اگر تو اس کو کھولے گا تو اس میں داخل ہو جائے گا' لہٰذا اس مثال میں یہ راستہ اسلام اور یہ دودیواریں اللہ عزوجل کی حدود ہیں اور یہ دروازے اللہ کی حرام کی ہوئی چیز یں ہیں، راستہ میں منادی کرنے والا اللہ کی کتا ب اور راستے کے اوپر پکارنے والا ہر مسلمان کانفس ہے"۔
ایک حدیث میں جو انس بن مالک نے رسول اللہ ﷺ سے روایت کی ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: «الكيّس من دان نفسه وعمل لما بعد الموت، والعاجز من أتبع نفسه هواها وتمنَّى على الله الأمانيّ» "ہوشیار آدمی وہ ہے جو اپنے نفس کو قابو کرے اور موت کے بعد والی زندگی کے لیے عمل کرے، بے بس شخص وہ ہے جس کا نفس اس کی خواہشات کے تابع ہو اور وہ اللہ سے طرح طرح کی تمنائیں کرے" اس کو امام احمد اور ترمذی نے روایت کیا ہے۔
ام سلمہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: «إذا أراد الله بعبد خيراً جعل له واعظاً من نفسه يأمره وينهاه» " جس وقت اللہ کسی بندے کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتے ہیں تو اس کے اندر ہی اس کے لیے ایک واعظ مقرر فرماتے ہیں جو اسے حکم دیتا ہے(نیک اعمال کا) اور روک دیتا ہے (نافرمانی سے)" السیوطی نے الجامع الصغیر میں نقل کیا ہے۔
سلف صالحین اور علماء کے نزدیک محاسبہ کا مطلب:
نفس کے محاسبے کا معنی اس کو کوسنے اور شدت سے نگرانی کرنے کے ہیں۔
ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: "جو اللہ کے لیے اپنے نفس پر سختی کرے اللہ اپنی سختی (غصے) سے اس کو محفوظ رکھے گا"۔
امام احمد نے ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ "آدمی اس وقت تک فقیہ نہیں بن سکتا جب تک وہ اللہ کے معاملے میں لوگوں سے سختی سے پیش آنے کے بعد اپنے آپ سے اس سے بھی زیادہ سختی سے پیش نہ آئے"۔
ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں نفس کے محاسبے کا مطلب بندے کا یہ سمجھنا کہ اس کے لیے کیا اچھا اور کیا برا ہے اور اپنے حق کو لے اور اپنی ذمہ داری کو ادا کرے کیونکہ وہ ایک ایسے سفر میں ہے جہاں سے مسافر کبھی واپس نہیں آتا۔ اور وہ مزید کہتے ہیں کہ نفس یہ ہے کہ بندہ پہلے یہ دیکھے کہ آیا اس نے اللہ کا حق ادا کیا پھر دیکھے کہ کیا اس نے یہ حق کما حقہٗ ادا کیا ۔اور وہ کہتے ہیں کہ یہ بھی نفس کا محاسبہ ہے کہ اپنے حقوق اور فرائض کو پہچانے ۔ وہ ان کی ادائگیی میں سستی کرنے یا چھوڑدینےکی اجازت نہیں دیتا کہ وہ ضائع ہو جائیں۔ اس کے علاوہ نفس کی پاکی اور طہارت بھی خود احتسابی پر موقوف ہے اور خود احتسابی کے بغیر وہ نہ پاک صاف ہو سکتا اور نہ ہی اس کی اصلاح ہو گی۔
محاسبے کے بارے میں ماوردی کہتے ہیں کہ "انسان رات کو اپنے دن بھر کے اعمال پر غور کرے اگر اچھے ہوں تو اس کو جاری رکھے اور اگر برے ہوں تو باز آئے اور مستقبل میں اس کا تدارک کرے"۔
حارث المحاسبی نے خود احتسابی کی تعریف یوں کی ہےکہ"کہ ہر حال میں کوئی بھی فعل انجام دینے یا اس کو ترک کرنے سےاس کا ضمیر مطمئن ہو یا کسی بھی فعل کے جوارح کو ادا کرنے میں مکمل یکسوئی کا مظاہرہ کرنا تاکہ اس کو معلوم ہو کہ اسے کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں کرنا چاہیے۔ اگر اس کو معلوم ہو جائے کہ اس کام سے اللہ ناراض ہو گا تو اس کام کو دل اور جوارح سے ترک کردے اور اسی طرح اپنے آپ کو فرض کو ترک کرنے سے باز رکھے بلکہ اس کی ادائیگی میں جلدی کرے"۔
سعید بن جبیر اور عکرمہ نے نفس لوامہ کے بارے میں کہا ہے کہ "یعنی وہ خیر اور شر دونوں پر ملامت کر تاہے اور اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ اچھے اور بُرے وقت میں صبر کرتا ہے۔
قتادہ نے کہا ہے کہ الَوَّامَة سے مراد فاجرہ (سیدھی راہ پر نہ چلنا) ہے جبکہ مجاہد کہتا ہے کہ وہ چھوٹ جانے والے فرض پر نادم ہو تا ہے اور کہتاہے کہ مجھے ایسا کرنا چاہیے تھا ۔
الفراء کہتے ہیں کہ "کوئی نفس نیک یا فاجر نہیں ہوتا وہ تو اپنے آپ کو خیر کے کام میں یہ کہہ کر ملامت کرتاہے کہ زیادہ کیوں نہیں کیا اور برے کام میں یہ کہہ کر ملامت کرتاہے کہ کاش میں یہ نہ کرتا"۔الحسن کہتے ہیں کہ "یہ مؤمن نفس ہے اور مومن اپنے آپ کو ملامت کرتاہے کہ میں نے اپنی بات سے کیا ارادہ کیا اوراپنے کام سے کیا ارادہ کیا جبکہ فاجر آگے بڑھتا ہی جاتا ہے اور اپنے آپ کا محاسبہ نہیں کرتا ہے"۔مقاتل کہتے ہیں کہ "اس سے مراد کافر نفس ہے جو قیامت کے دن دنیا میں اللہ کے معاملے میں نا انصافی پر اپنے آپ کو ملامت کرے گا"۔
یحیی بن مختا رنےالحسن سے روایت کی ہے کہ "مؤمن اپنے نفس پر قابو رکھتا ہے اور اللہ کے معاملے میں اپنے آپ کا احتساب کرتا ہے۔جو لوگ دنیا میں اپنا محاسبہ کرتے ہیں قیامت کے دن اس سے حساب ہلکا لیا جائے گا۔ جو لوگ دنیا میں خود احتسابی نہیں کرتے اس سے سخت حساب لیا جائے گا۔مؤمن کو کوئی چیز اچھی لگتی ہے اور اس کے دل کو بھاتی ہے تو وہ کہتا ہے کہ اللہ کی قسم تو میری خواہش ہے اور میری ضرورت بھی ہے لیکن اللہ کی قسم مجھے تجھ سے کوئی سروکار نہیں میرے اور تمہارے درمیان بہت دوری ہے۔ اور جب اس سے کوئی غلطی سرزد ہوتی ہے تو اپنے آپ سے کہتا ہے کہ میں تو یہ نہیں چاہ رہاتھا ؟یہ کیا ہو گیا؟اللہ کی قسم آئندہ ایسا نہیں کروں گا ان شاء اللہ۔ مؤمنین ایسے لوگ ہیں جن کو قر آن پر بھروسہ ہے اور وہی ان کے اور ان کی ہلاکت کے درمیان حائل ہے۔ مؤمن دنیا میں ایک قیدی ہے جو اپنی گردن کو چھوڑانے کی تگ ودو کر رہا ہے۔ وہ اللہ سے ملنے تک کسی چیز سے مطمئن نہیں ہو گا۔ اس کو معلوم ہے کہ اس کے کان، آنکھ، زبان اور جوارح کے بارے میں اس سے پوچھا جائے گا"۔
میمون بن مہران کہتے ہیں کہ "کوئی آدمی اس وقت تک متقین میں سے نہیں ہو سکتا جب تک اپنے شریک سے زیادہ اپنا محاسبہ نہیں کرتا ہو، جب تک وہ یہ نہیں دیکھے کہ اس کا کھاناکہاں سے آتا ہے، لباس کہاں سے آرہا ہے، کہاں سے پی رہا ہے یہ سب حلال ہیں یا حرام"۔
ایک شخص یونس بن عبید کے پاس آیا اور کہا کہ "تم یونس بن عبید ہو؟ کہا جی ہاں، اس نے کہا: اللہ کا شکر ہے تجھے دیکھنے سے پہلے مجھے موت نہیں آئی۔ انہوں نے کہا: تم کیا چاہتے ہو؟ اس شخص نے کہا: میں ایک مسئلہ پوچھنا چاہتا ہوں۔ کہا: جو چاہو پوچھو ۔ اس شخص نے کہا پرہیزگاری کا مقصد کیا ہے؟ انہوں نے کہا: ہر پہلو سے اپنے آپ کا احتساب کرنا اور ہر مشکوک چیز سے دور رہنا ۔ اس شخص نے کہا کہ زہد کی غایت کے بارے میں بھی مجھے بتادو؟ کہا: راحت کو ترک کرنا"۔
حسن بن علی الدقاق نے کہا ہے کہ " اطاعت کی بنیاد پرہیز گاری ہے اور پرہیز گاری کی بنیاد تقوی ہے اور اصل تقوی نفس کا محاسبہ ہے اور محاسبہ بھی خوف اور امید کے ساتھ کیونکہ خوف اور امید معرفت ہے اور معرفت کی اصل علم کی زبان اور فکر ہے"۔
الحسن رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ "اللہ اس بندے پر رحم کرے جو کسی کام کا ارادہ کرتے وقت سوچتا ہے کہ اگر اس میں اللہ کی رضاہو تو کر گزرتا ہے ورنہ اس سے باز رہتا ہے"۔
میمون بن مہران نے کہا ہے کہ "کوئی بھی شخص اس وقت تک متقی نہیں ہو سکتا جب تک اپنے نفس کااس قدرسخت محاسبہ نہ کر ے جو دو شراکت دار ایک دوسرے کا کرتے ہیں اسی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ نفس خیانت کرنے والے شریک کی طرح ہے، اگر اس کا محاسبہ نہیں کرو گے تو یہ سب کچھ لے اڑے گا"۔
ابن قدامہ نے منہاج القاصدین میں کہا ہے کہ "یاد رکھو تمہارا سب سے بڑ دشمن تمہارا اپنانفس ہےاس کی تخلیق ہی برائی کا حکم کرنے والے اور شر کی طرف مائل ہونے والے کے طور پر کی گئی ہے۔تمہیں اس کو سدھارنے اس کو پاک کرنے اور برائی سے دور رکھنے حکم دیا گیا ہے ۔تم اس کو اپنے رب کی عبادت کے لیے سخت زنجیروں میں قید کرو۔ اگر تم نے اس کو ڈھیلا چھوڑ دیا تو پھر وہ سرکش اور سرپھرا بن جائے گاجس پر تم پھر قابو نہیں پاسکو گے۔ اگر اس کی ڈانٹ ڈپٹ میں پابندی کرو گے تو امید ہے مطمئن رہو گے اور اس یاد دہانی کرنے میں غفلت کا مظاہرہ مت کرو"۔

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک