الخميس، 26 جمادى الأولى 1446| 2024/11/28
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

پشاور کے تبلیغی مرکز میں بم دھماکہ راحیل نواز حکومت پر پاکستان میں امریکی وجود کا خاتمہ لازم ہے

حزب التحریر کل پشاور کے تبلیغی مرکز میں ہونے والے بم دھماکے کی پرزور مذمت کرتی ہے اور اس شیطانی کاروائی کا براہ راست ذمہ دار راحیل- نواز حکومت کو قرار دیتی ہے کیونکہ انھوں نے ابھی تک ان عناصرکو کھلی ڈھیل دی ہوئی ہےجنھوں نے ریمنڈ ڈیوس نیٹ ورک سے منسلک ہزاروں امریکیوں کو ویزے جاری کیے اور انھیں ملک بھر میں فوجی و شہری تنصیبات کے خلاف حملوں کی منصوبہ بندی کرنے اور اپنی نگرانی میں ان پر عمل درآمد کروانے کی مکمل اجازت دے رکھی ہے۔
کیا کوئی بھی مخلص مسلمان اس قسم کی شیطانی کاروائی کے متعلق سوچ بھی سکتا ہے؟ پچھلے ایک ہفتے کےدوران کراچی سے لے کر پشاور تک پولیس افسران، سیاست دانوں اور اب تبلیغی مرکز پر حملہ کیا گیا اور پھر ان حملوں کی ذمہ داری قبائلی مسلمانوں پر ڈال دی گئی جس کا مقصد اُن مخلص مجاہدین پر دباؤ ڈالنا ہے جو امریکہ کے خلاف برسرپیکار ہیں تا کہ انھیں افغانستان سے محدود امریکی انخلاء کے منصوبے کو قبول کرنے پر مجبور کیا جائے اور اگر وہ ایسا نہ کریں تو پھر ان حملوں کو جواز بنا کر ان کے خلاف بھر پور فوجی آپریشن کیا جائے۔ یہ کوئی حیران کن امر نہیں کہ پشاور کے تبلیغی مرکز پر حملے کی ذمہ داری کسی بھی جانب سے قبول نہ کرنے کے باوجود حکومتی چمچوں نے اس حملے کو بھی قبائلی مسلمانوں سے جوڑ دیا اور ان کے خلاف فیصلہ کن فوجی آپریشن کی باتیں زور و شور سے کی جانے لگیں، یوں ایک بار پھر امریکی راج کو مستحکم کرنے کے لیے افواج پاکستان کو اس صلیبی جنگ کا ااندھن بنانے کی سازش ہو رہی ہے۔
حزب التحریر افواج پاکستان میں موجود مخلص افسران پر یہ واضح کردینا چاہتی ہے کہ پاکستان اور افغانستان میں جاری اس خونی کھیل کا اصل محرک امریکہ ہے اور جب تک خطے سےامریکہ کو مکمل طور پر نکال باہر نہیں کیا جائے گا مسلمانوں کا خون اسی طرح بہتا رہے گا اور امریکی وفادار ریمنڈ ڈیوس نیٹ کو مدد فراہم کر کے پاک فوج کو قبائلی علاقوں میں آپریشن کی دلدل میں دھکیلتے رہیں گے۔ لہٰذا، حزب التحریر مخلص افسران سے مطالبہ کرتی ہے کہ چُپ بیٹھ کر اس گھناؤنے خونی و شیطانی کھیل کو دیکھتے نہ رہیں بلکہ اپنی طاقت سے غداروں کو اکھاڑ پھینکیں اور حزب التحریر کو نصرۃ فراہم کر کے خلافت کے قیام کو عمل میں لائیں۔ خلیفہ فوراً امریکی اڈوں، سفارت خانوں، قونصل خانوں اور نیٹو سپلائی لائن کو بند اور تمام سفارتی، فوجی اور انٹیلی جنس اہلکاروں کو ملک بدر کردے گا اور اس طرح اس خطے میں جاری آگ و خون کے کھیل کو ختم کردیا جائے گا۔ تو آگے بڑھیں اور اللہ سبحانہ و تعالٰی نےاس امت کی حفاظت اور اسلام کی حکمرانی کے قیام کے لیے نصرۃ فراہم کرنے کی جو ذمہ داری آپ پر ڈالی ہے اسے ادا کریں اور اللہ کی نعمتوں کو حاصل کرلیں۔
﴿وَفِي ذَلِكَ فَلْيَتَنَافَسِ الْمُتَنَافِسُونَ﴾
"تو نعمتوں کے شائقین کو چاہیے کہ اسی سے رغبت کریں" (المطففین: 26)
شہزاد شیخ
ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان

Read more...

سوال کاجواب: قومی ریاست کی خدمت کرنے والے اداروں کی حقیقت


سوال:
ہم اکثر وبیشتر 'طاقت اور اتھارٹی' کے مراکز کے حوالے سے گفتگو کرتے ہیں کہ قومی ریاست ہی قوت کی نمائندگی کرتی ہے۔ اس ضمن میں ہم بطورمثال ان امریکی مفادات کو پیش کرتے ہیں جن کو امریکہ دنیا کی نمبرایک اورعالمی سیاست میں بہت زیادہ موثر کرداراداکرنے والی ریاست ہونے کے ناطے حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ'طاقت اور اتھارٹی' کی حقیقی بنیاد قومی ریاست کی حدود سے بھی آگے بڑھ کرہے۔ اس سے ان کی مرادمتحدہ قوت کی حامل خفیہ عالمی تنظیمیں ہوتی ہیں جن کے پاس 'طاقت اور اتھارٹی' ہوتی ہے۔ جیسے سہہ فریقی کمیشن (The Trilateral Commission)، بلڈربرگ گروپ (Bilderberg Group) اورخارجہ تعلقات کی کونسل (Council on Foreign Relations) وغیرہ۔ بسا اوقات یہ تمام قوتیں ایک عام نام کے تحت یکجاہوجاتی ہیں ،مثلاً Illuminate، گلوبل بینکرزاوربڑے مالیاتی وتجارتی ادارے۔
جبکہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ان طاقت کے مراکز کی کسی بھی قومی ریاست کے ساتھ کسی قسم کی دوستی نہیں ہوتی،حتی ٰ کہ امریکہ کے ساتھ بھی نہیں، بلکہ ان کے اندریہ قابلیت ہوتی ہے کہ وہ''نیوورلڈ آرڈر تھیوری '' کی بنیاد پر ریاست ہائے متحدہ امریکہ سے باہرطاقت کے نئے ڈھانچوں کی طرف منتقل ہو جائیں جس کے نتیجے میں حیرت انگیز تبدیلیاں وقوع پذیر ہوسکتی ہیں۔ ہوسکتاہے کہ ڈالر سے جان چھڑائی جائے اور کسی نئی کرنسی کو فائدہ پہنچانے کے لئے تیل کی تجارت میں ڈالر کے استعمال کو روک دیا جائے جو مختلف قسم کی اشیاء یا کرنسیوں کے یکجا ہوجانے پر انحصار کرتی ہو۔
سوال یہ ہے کہ اس میں کہاں تک حقیقت ہے؟ اور اگریہ سچ ہے توحزب کانقطہ نظر 'طاقت اور اتھارٹی' کے ان مراکز کے حوالے سے کیاہے ، جو قومی ریاست کی حدود بے معنی کرتے ہوئے عالمی اتھارٹی کاروپ دھارلیتے ہیں۔

 

جواب:
1۔سرمایہ دارانہ آئیڈیالوجی نے قومی سوچ کے خاتمے پرکوئی کام نہیں کیا، بلکہ یہ اس کااعترا ف کرتی ہے اوراس نے ریاستوں کے درمیان قائم سرحدوں کوبھی تسلیم کیا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ سرمایہ دارانہ ریاستوں نے عالمی معاہدات میں کھینچے گئے نقشوں کے ضمن میں علیحدہ ہونے والی ریاستوں کی آزادی کوتسلیم کیا۔ انہی معاہدات میں سے ایک معاہدہ 1815میں ہونے والاویانامعاہدہ تھا۔ ان ریاستوں کے درمیان قومیت پرستی کی بنیادپر جنگیں ہوئیں ......سرمایہ دارانہ ریاستوں نے قوم پرستی اوروطن دوستی کی سوچ کواختیارکیااور سرمایہ دارانہ آئیڈیالوجی کے سہارے اس کوتحفظ فراہم کیا۔ یہ ریاستیں قومی اوروطنی اتھارٹی اوراستعماری مفادات کی خاطرایک دوسرے کے ساتھ جنگوں میں اُلجھی رہیں،باوجود اس کےکہ ان سب کی بنیاد سرمایہ دارانہ آئیڈیالوجی پر استوارہے اوریہ ریاستیں دوسروں کے پاس بھی اسی آیئڈیا لوجی کولے کرجاتی ہیں۔ انہوں نے جان بوجھ کرغلط طریقے سے ریاست کی تعریف کرتے ہوئے کہاکہ : (ریاست) اتھارٹی ،قوم اور محدودعلاقائی حدود کانام ہے۔ پس اس آئیڈیالوجی کے قیام کے آغازہی سے ان ریاستوں کے درمیان خونی لڑائیاں جاری ہیں۔ جہاں تک یورپی یونین کاتعلق ہے تویورپ کئی بحرانوں کے ادوار سے گزرا ہے جس نے یورپ کو تقریباً زوال کا شکار کردیا ہے۔ اس کی بہت ساری ریاستیں ٹوٹنے کے قریب ہیں اور بیلجیم، اسپین ، برطانیہ اور اٹلی سمیت بہت سے ممالک میں علیحدگی کے نعرے گونج رہے ہیں ۔ سرمایہ دارانہ ممالک نے وفاقی (Federal) نظام حکومت کو اپنایا ہےجو علیحدگی کے جراثیم پروان چڑحاتا ہے بالخصوص ان ریاستوں میں جومختلف قومیتوں پر مشتمل ہوتی ہیں۔ علیحدگی اورانقسام کا یہی عنصر امریکی وفاق میں پایا جاتا ہے، وہاں 1860میں یہی صورتحال دیکھنے میں آئی تھی،جب شمالی وجنوبی امریکہ کی ریاستوں کے درمیان پانچ سال تک لڑائی جاری رہی تھی۔ اس تمام کے ہوتے ہوئے سرمایہ دارانہ فکرکے حاملین کے لئے قومی ریاست کاخاتمہ ممکن نہیں۔ سرمایہ دارانہ آئیڈیالوجی ایک ہی ڈھانچے میں قوموں اورلوگوں کوڈھالنے میں ناکام ہوچکی ہے۔یہ نظریہ ایک ہی ریاست میں بسنے والی مختلف قومیتوں کو ایک قوم میں تبدیل کرنے میں شکست کھاچکا ہے ۔ اس بنا پر سرمایہ دارانہ آئیڈیالوجی کے حاملین کے ہاں قومی ریاست کے خاتمے کی بات حقیقت سے کلی طورپربعید ہے ۔
ہرریاست میں موجود بڑے سرمایہ دار اپنی اپنی قوم کاحصہ ہوتے ہیں، اپنی قومی ریاستوں کے ساتھ تعاون اوراس کو تقویت پہنچانے کے لئے کرتے ہیں اور وہ اپنی قوموں کی بلاوسطہ یا بالواسطہ رہنمائی کرتے ہیں ۔ اس لئے ہم دیکھتے ہیں کہ ریاست میں اعلٰی عہدوں کو سنبھالنے والے کئی لوگ یا تو خود سرمایہ دار ہوتے ہیں یا ان کے سرمایہ داروں کے ساتھ روابط ہوتے ہیں یا وہ ایسے لوگ ہوتے ہیں جنہوں نے بڑی کمپنیوں کے اداروں میں کام کیاہوتاہے۔
2۔سوال میں جن قوتوں کاذکرکیاگیاہے اوریہ کہ یہ قومی ریاست کی حدود سے بڑھ کر ایک عالمی اتھارٹی کی طرف بڑھی ہیں تو ایسا نہیں ہے بلکہ یہ ادارے قومی ریاست بالخصوص امریکی ریاست کی خدمت سرانجام دیتے ہیں۔ معاملہ کچھ یوں ہے۔۔۔
ا ۔ جہاں تک بلڈربرگ گروپ کا تعلق ہے تو یہ 29 مئی 1954 کو ہالینڈ کے شہر اوسٹربیک (Oosterbeek) میں ڈی بلڈربرگ ہوٹل میں قائم کیاگیااوراس جگہ کی نسبت سے ہی اسے یہ نام دیاگیا۔ اس کاقیام ڈیوڈ راک فیلر (David Rockefeller) جیسے بڑے امریکی سرمایہ داروں کی طرف سے عمل میں لایاگیااور اس میں بعض یورپی لوگوں نے بھی شرکت کی جو مغربی یورپ کے ساتھ امریکی تعاون کی پالیسی کے حامی تھے۔ ان میں سے نیدرلینڈ کاپرنس برنہارڈ (Prince Bernhard)بھی تھاجسے اس گروپ کا پہلا صدر مقرر کیا گیا۔ ان کے ساتھ گروپ کی ایڈمنسٹریشن میں جان کولمین (John Coleman) بھی تھاجوامریکی چیمبرآف کامرس کاصدرتھا۔ اس نے بتایاکہ اس (گروپ)کے قیام کامقصد یورپ میں امریکہ کے ساتھ دشمنی اورعداوت کے بڑھتے ہوئے ان احساسات کی روک تھام تھا جس کی وجہ درحقیقت وہ امریکی مارشل پلان تھا جس کی بدولت دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ پر واشنگٹن کا تسلط اوربالادستی قائم ہوئی اور یہ مسئلہ امریکہ نے یورپ کی مدد کی پالیسی کے تحت حل کیا جبکہ کیمونسٹ اورڈیگالیوں نے ان احساسات کوبھڑکانے میں اہم کرداراداکیا ۔ اس نے یہ بھی بتایاکہ''اس گروپ کے قیام کے پیچھے کارفرماعوامل میں امریکہ کے ساتھ اس معاندانہ رویہ کوکم کرنا شامل تھا، تاکہ امریکہ اوریورپ کے درمیان تعلقات کومستحکم کیاجائے ، مشرقی کیمونسٹ بلاک کے مقابلے میں مغربی بلاک کومضبوط کیاجائے اور مغربی تہذیب ،نیز سرمایہ دارانہ آزاد معیشت کے ماڈل کوتحفظ فراہم کیاجائے ''۔ اس گروپ کے اجلاسوں میں یورپ کے متعدد لیڈرز شریک ہوتے تھے ،جن میں کچھ شہزادے ،میڈیا نمائندگان ،پالیسی ساز اور دائیں بازوں کے کنزرویٹواورڈیموکریٹک سیاستدان ہوا کرتےتھے۔یہ گروپ سال میں ایک بار اپنا اجلاس منعقد کیا کرتا تھا؛ یہ ادارہ امریکی اہداف ،امریکی ہدایات اور احکامات کے لئے امریکیوں نے ہی قائم کیا ۔ لیکن کچھ لوگ فلمی انداز میں سوچ کراس کوایک خفیہ عالمی حکومت کی شکل میں پیش کرتے ہیں جو دنیا کے امور کو چلاتی ہے۔ ایک روسی مصنف نے خاص اسی موضوع پرایک کتاب لکھی ،جس کے کئی ملین نسخے فروخت ہوئے ، لیکن سیاسی مفکرین اورسیاسی شعور رکھنے والے اس گروپ کی حقیقت وماہیت سے باخبرہیں ، جیسے کہ ایک فرانسیسی نے یہ لکھاکہ:''بلڈربرگ گروپ جوکہ بااثرشخصیات پرمشتمل ہے ، دباؤ ڈالنے کے ایک مؤثر آلے کے سواکچھ نہیں جسے نیٹو اپنے مفادات کی ترویج کیلئے استعمال کرتاہے اور وہ اس کے ذریعے امریکہ کے اثرورسوخ کوتوسیع دینے پرکام کرتاہے "۔ اس گروپ میں امریکہ کی طاقت فرانس کے ورسائلزپیلس (the Palace of Versailles) میں 15 تا 18 مئی 2003 کو اس کے منعقد کئے گئے اجلاس اور اس میں فرانسیسیوں اورامریکیوں کے درمیان پھوٹ پڑنے سے کھل کرسامنے آئی،جب فرانس کے صدرشیراک (Jacques Chirac) نے اجلاس میں شرکت کی توامریکیوں نے اسے اس بات پرتنقید کانشانہ بنایاکہ اس نے عراق جنگ میں امریکیوں کی مخالفت کی تھی۔ انہوں نے اس کانفرنس میں اس کی بے عزتی اورتحقیر کرنے کی باقاعدہ منصوبہ بندی کی گئی تھی ، جہاں بش جونیئر کے عہد کے امریکی انتظامیہ کی اہم شخصیات ،امریکن ڈیفنس سیکرٹری ڈونالڈ رمزفیلڈ،اس کانائب پاول وولفویٹز،امریکن ڈیفنس پالیسی کمیٹی کارکن ریچرڈ پرل ،اسی طرح سابق امریکی وزیرخارجہ ہنری کسنجر شریک تھے ، جبکہ انہی دنوں امریکی وزیرخارجہ کولن پاول امریکی پالیسی کے حق میں حمایت حاصل کرنے کیلئے اپنے پہلے دورہ یورپ پرتھا۔ اس کانفرنس میں ان بڑے بڑے سودوں پر گرم بحث ومباحثہ ہوا جوامریکی کمپنیاں عراق میں کرچکی تھیں، جیسے بکٹل (Bechtel) اورہالبرٹن (Halliburton) وغیرہ۔ ایک یورپین ممبرپارلیمنٹ نے طنزیہ انداز میں سوال کرتے ہوئے کہا: یورپ کی کونسی کمپنیاں ان جیسے مہنگے سودے کرنے کی قابل ہیں؟ اسی طرح یورپین فوج کے قیام کے موضوع پربحث کی گئی۔ امریکیوں نے اس پراعتراض کیااوراس قسم کی فوج کی ضرورت کے حوالے سے امریکیوں اوریورپین کے درمیان بہت گرم بحث ہوئی ، بالآخرامریکہ نے اس فوج کی تشکیل کی سوچ کو مٹا کردم لیا۔
تو اس سے یہ واضح ہوتاہے کہ بلڈربرگ گروپ یورپ پرامریکی تسلط کی پالیسی کے دفاع کاایک ذریعہ ہے ،اوراسی کے ذریعے امریکہ یورپ میں اپنے منصوبوں کی مارکیٹنگ اس طورپرکرتاہے کہ یورپ والوں کواس بات پرمطمئن کرلیاجائے کہ امریکی پالیسی ان کی پالیسی کے ساتھ متصادم نہیں ،بلکہ یہ ان کے اورپورے مغرب کے مفاد میں ہے ، جبکہ سب سے پہلے یہ امریکی مفادات اوراس کے منصوبوں کی تکمیل کاایک ایجنڈاہے۔
ب ۔ جہاں تک سہ فریقی کمیشن کاتعلق ہے ،یہ 1973 میں ڈیوڈ راک فیلر (David Rockefeller) اور زبگنیو برزنسکی (Zbigniew Brzezinski) کی جانب سے قائم کی گئی، جبکہ ان کے ساتھ امریکی مفکروں، سیاستدانوں اوردانشوروں کاایک گروپ بھی شامل تھا۔ جب کمیشن قائم کیا گیا تو امریکہ ،مغربی یورپ اور جاپان تینوں خطوں کے نمائندے اس کے ممبران ہوا کرتے تھے۔ اس کے اہداف یہ ہیں: ان ممالک کے باقی دنیامیں معاشی سیاسی اورخودمختاری جیسے مفادات کیلئے ان کے درمیان تعاون کااستحکام ، ان ممالک کے درمیان پیدا ہونے والے مسائل کاحل نکالنا، ان کے درمیان تجربات اورنقطہ نظرکاتبادلہ اورمشرق ومغرب کے درمیان بدلتے تعلقات کی نگرانی۔ لہٰذا یہ دیکھاجاسکتاہے کہ امریکیوں نے ہی یورپ اورجاپان پرامریکی تسلط کوقائم رکھنے کیلئے اس کلب کوقائم کیا۔
ج۔ جہاں تک بڑے پرائیویٹ مغربی مالیاتی اورتجارتی اداروں کاتعلق ہے ،جن میں وہ بھی ہیں جو خاندانوں کی ملکیت ہیں ،جیسے راک فیلر (Rockefeller) فیملی ، یاروتھ شیلڈ (Rothschild) فیملی اوربلومبرگ (Bloomberg) فیملی، تویہ سب ان ممالک کی پالیسی کے دائرے میں اوران کے ساتھ مل کر اپنے مفادات کے حصول کیلئے کام کرتے ہیں اور یہ ملکی پالیسی کی تمام تفصیلات سے ہم آہنگ ہوتے ہیں ،جیساکہ ہم نے بلڈربرگ اورسہ فریقی کمیشن کے قیام میں راک فیلر کی سرگرمیوں کودیکھا، جویورپ ، جاپان اور دنیاکے دیگرممالک پرامریکی ریاست کا تسلط قائم کرنے کیلئے بنائی گئی۔ یہ ادارے اچھی طرح جانتے ہیں کہ ریاست ہی ان کوتحفظ فراہم کرتی ہے ،وہی ان کی پشت پناہ ہوتی ہے ،ریاست ہی ان کے مفادات اورمنافع کے حصول کی ضمانت دیتی ہے۔ دوسری طرف سرمایہ دارانہ ریاست یہ دیکھتی ہے کہ یہ کمپنیاں ہی ہیں جوبیرونی سرمائے اورمنافع کوریاست کے اندر کھینچ لانے میں بڑا کردار ادا کرتی ہیں۔ یہی کمپنیاں اندرونی سطح پر منصوبے شروع کرتی ہیں اورمزدوروں کوروزگارفراہم کرتی ہیں۔ اس طرح کمپنیوں ان کواس نظرسے دیکھاجاتاہے گویایہ حکومتی ادارے ہیں جوحکومت کی بجائے شہریوں کی خدمت کااہم کرداراداکرتےہے اوراپنے ملک کے مفادمیں کام کرتی ہیں۔ نیز بیرونی سطح پراس کے استعماری مقاصد کے حصول کیلئے ان کو ایک آلہ کارکے طورپر دیکھاجاتا ہے۔
ماضی میں برطانیہ ہندوستان میں ایسٹ انڈیاکمپنی کے ذریعے داخل ہوا، پھراس کوفوراً اپنی کالونی میں تبدیل کرناشروع کیا۔ پرائیویٹ امریکی مالیاتی کمپنیاں اورادارے امریکی مفادات کیلئےیورپی یونین کے خلاف فعال کرداراداکرتے رہےہیں ۔ اس نے 2001میں یونان کی اقتصادی حالات کی جعلی تصویرکشی کی ،تاکہ یورپ کوکمزورکرنے یااس کوزوال سے دوچارکرنے کے لئے یونان کویوروخطے (Euro Zone) میں شامل کیاجائے، اور یوں خطے میں معاشی اوراقتصادی مشکلات کھڑی کی جائیں۔
چنانچہ نیویارک ٹائمز نے بتایاکہ ''2001 میں گولڈمین ساکس (Goldman Sachs) بینک نے 15 ملین ڈالر کا جو سودا کیا،اس نے یورپی یونین کے ہیڈکوارٹر میں بجٹ نگرانوں کی طرف سے دیےجانے والے یونان کے کئی ارب ڈالرز کے قرضوں کی وصولی کروائی'' (الجزیرہ ڈاکومنٹری: 'وال سٹریٹ یورپ کے مالیاتی بحران میں ملوث ہے' 14/2/2010)۔
کیونکہ وہ ان رقوم کو تجارتی لین دین کاحصہ سمجھتے ہیں نہ کہ قرض ۔ تواس نے ایساظاہرکیاکہ قرضوں کی حد نےقومی آمدنی اورجی ڈی پی کوپارنہیں کیا ہے اوریہ کہ ا فراط زر یورپ کے ہاں قابل قبول حد سے زائد نہیں۔ امریکا کا مقصد یہ تھاکہ یورپی اتحاد کوکمزوراور ٹکڑے ٹکڑے کیاجائے اوریوروکونشانہ بنایاجائے اس طرح اس کے اندر ڈالرکے ساتھ مقابلہ کرنے کی سکت باقی نہیں رہے گی۔ یہ سب اس لئے کیا گیا تاکہ یورپ اوران کی معیشت بلکہ پوری دنیاپرامریکی تسلط کوقائم رکھنے کی ضمانت دی جاسکے۔ چنانچہ بڑے پرائیویٹ امریکی مالیاتی ادارے اورکمپنیاں اپنے ملک کے مفاد کیلئے امریکی ریاست کے ساتھ نظم وضبط طے کرکے خاص کرداراداکرتے ہیں۔ جرمنی نے اس کے بارے میں اپنی بے چینی کااظہارکیااورجب 2010میں یونان میں مالیاتی بحران اُمڈ پڑا تو اس کوجھوٹ اورفراڈ کاطعنہ دیا۔ بحران جرمنی اور یورو زون کی ہم آہنگی پر اثراندازہوااوراس کے اثرات اب تک جاری ہیں۔
د۔ اس کے باوجود کہ ورلڈ بینک، آئی ایم ایف اور ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کاقیام عالمی اداروں کی حیثیت سے عمل میں لایاگیا، تاہم یہ ادارے اپنی آزادی کوحاصل نہ کرسکے کہ جو مختلف ریاستوں پرایک عالمی حکومت کی حیثیت سے حکم چلائیں جبکہ ہوا یوں کہ ان اداروںمیں امریکہ کو ہی مؤثراور فیصلہ سازکردار حاصل ہے۔ اس طرح امریکہ دیگرممالک پراپنی پالیسیوں کے نفاذ، بالادستی اوراثرورسوخ کیلئے ان کواستعمال کرتاہے ۔ ان عالمی اداروں نے امریکی پرائیوٹائزیشن اورگلوبلائزیشن کے قوانین اوراس کی مارکیٹ اکانومی پالیسی کودوسرے ممالک پرمسلط کردیا۔ امریکہ نے انہی اداروں کی وساطت سے پوری دنیا پر اپنی کرنسی ڈالرکومسلط کیااوراسی کوتیل ،گیس اورسونے چاندی وغیرہ جیسی دھاتوں اورسامان کی قیمتوں کیلئے ایک پیمانہ قراردیا۔ دنیا پر اپنا تسلط جمانے کیلئے ڈالرکوہی کرنسی کے تبادلے کیلئے عالمی کرنسی قراردیا۔ اس طرح ڈالردنیامیں اصل کرنسی بن گیا،جس کے ساتھ بہت سے ممالک کی کرنسیوں کو منسلک کر دیا گیا۔ نیز ڈالر ہی کئی ممالک کیلئے ریزروسرمایہ بن گیا۔ یہ ان اسالیب میں سے ہے جسے امریکہ دنیا پر اپنے تسلط اوربالادستی کے لئے استعمال کرتاہے۔ اس لئے ایک ایسی عالمی حکومت جودنیاکے امورکوسنبھالتی ہواورقومی ریاست کوختم کرے ،ایک ایسا سراب ہےجس میں کوئی حقیقت نہیں، بلکہ بڑی ریاستیں بالخصوص سپر پاورز ہی دنیا پر تسلط رکھتی ہیں ۔
3۔ سرمایہ دارانہ ممالک پرسرمایہ داروں کاتسلط ہوتاہے ،چنانچہ ہرسرمایہ دار ریاست میں یہ لوگ حکمرانوں کاانتخاب کرتے ہیں لہٰذا وہ کیوں ریاست کاخاتمہ کریں،جبکہ ان کے منتخب حکمران ان کے مفادات کی حفاظت کا فریضا سرانجام دیتے ہیں۔ یہ سرمایہ داراپنے اپنے ملک کی اس لئے حفاظت کرتے ہیں تاکہ ریاست ان کے مفادات کاتحفظ کرے اوراپنے منافع کوبڑھانے کیلئے ان کی ریاستیں دیگرریاستوں پراپنی بالادستی قائم کریں۔ توان کی ریاست جتنی مضبوط ہوگی اتناہی ان کی تجارت وسیع اوران کا منافع زیادہ ہو گا۔ مگرایک کمپنی یا مالیاتی ادارہ ریاست نہیں بن سکتا،کیونکہ اس کی نظرمنافع پرہوتی ہے ،نہ تو لوگ اس کو قبول کرتے ہیں اورنہ ہی ریاستی اداروں کی تشکیل ،اس کوچلانے اورلوگوں کے امورسنبھالنے کی اس میں صلاحیت ہوتی ہے۔ تو جب سرمایہ دارانہ ممالک نے پرائیوٹائزیشن کی پالیسی شروع کی توانہوں نے وہ حکومتی ادارے جولوگوں کے مفادات کے لئے خدمات پیش کرتے ہیں،پرائیویٹ کمپنیوں کو فروخت کردیے،جیسے بجلی،ٹیلیفون اورشہروں یاممالک کے درمیان رابطے کے بعض ریلوے ٹریک اور شاہراہیں وغیرہ۔ یہ پرائیویٹ کمپنیاں جنہوں نے ان سہولیات کوخریدا ،ریاستی ایگزیکٹیواداروں کی محتاج ہوتی ہیں۔ اگرلوگ اُٹھ کھڑے ہوں اور کمپنی کے اثاثوں پر دھاوا بول دینے کافیصلہ کریں یااحتجاج کریں ،جیساکہ''وال سٹریٹ پرقبضہ کرو'' (Occupy Wall Street) مہم میں رونما ہوا تویہ کمپنیاں اپنے تحفظ کیلئے ریاست کی طرف رجوع کرتی ہیں۔ ان کمپنیوں کو کچھ ایسے قوانین کی ضرورت ہوتی ہے جن کی بنیاد پر وہ اپنا کام آگے بڑھا سکیں اوراپنے منصوبے مکمل کرسکیں ۔ جب امریکہ میں مالیاتی بحران رونما ہوا،جس کے باعث یورپ میں بھی بحران پیداہوا تو کمپنیاں اورمالیاتی ادارے اپنے بچاؤ کیلئے ریاست کی محتاج ہوئیں۔ ریاست سے ان کامطالبہ تھاکہ وہ ا ن کے قابل اتلاف حصص خریدے ، جسے عام لوگوں کے ٹیکس کے پیسوں کےذریعے خریدا گیا ۔ اس عمل کو سرمائے کی ترسیل کانام دیاجاتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ سرمایہ دارانہ ممالک میں مالیاتی ادارے اورکمپنیاں ایگزیکٹو، جوڈیشل یا قانونی اتھارٹی نہیں رکھتی ہیں جہاں یہ ایک دوسرے سے الگ ہوتے ہیں۔ البتہ یہ کمپنیاں یہ کرتی ہیں کہ اندرونی وبیرونی طورپراپنے اوراپنے منصوبوں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ اپنے حقوق کے حصول اورمنافع کمانے ،نیز بحرانوں کے وقت اپنے بچاؤ کیلئے ان اتھارٹیز پراثرانداز ہوتی ہیں۔
4۔ تمام ادارے اپنی قومی ریاست کی خدمت کیلئے کام کرتے ہیں۔ یہ ادارے اس حوالے سے کسی بھی عمل سے نہیں جھجکتے، خواہ وہ عمل کتناہی گھٹیا، غیراخلاقی یا انسانیت سوز ہی کیوں نہ ہو اورامریکہ کے جاسوسی سکینڈل سے یہ بات صاف ظاہر ہے۔ امریکہ نے دیگرممالک کی جاسوسی شروع کی جن میں سرفہرست اس کے اتحادی یورپین ممالک تھے۔
امریکہ ان ممالک کے حکمرانوں ،سفارت خانوں ،ا ن کی کمپنیوں اورعام شہریوں کی جاسوسی کرنے لگا، اس کے لئے پرائیویٹ الیکٹرانک آلات کواستعمال کیا، جواس کے جاسوس اہلکاروں کے کنٹرول میں تھے، اس میں Google اور Yahoo جیسی امریکی کمپنیاں بھی ملوث تھیں جوالیکٹرانک میڈیاپر کنٹرول رکھتی ہیں۔ یہ سکینڈل سرمایہ دارانہ ممالک کے درمیان قومی ریاست کی قیادت کے معاملے پرکشمکش پر سے پردہ اٹھاتاہے۔ امریکہ نے اپنے وزیرخارجہ جان کیری کی زبانی لندن میں ایک پریس کانفرنس میں یہ کہتے ہوئے اعتراف کیاکہ FBI کی جاسوسی کامعاملہ بعض اوقات حدود پھلانگ جاتا ہے۔ (بی بی سی2013/11/1)۔ اورساتھ ہی یہ دعویٰ بھی کیاکہ "جاسوسی کی ان کاروائیوں نے دہشتگردوں کے حملوں کوروکا ہے"۔ یہ جانتے ہوئے کہ وہ یورپ کی قیادت جرمن چانسلر انجیلا مرکل (Angela Merkel) جیسی شخصیات کی جاسوسی کرتے تھے اوراس کے ذاتی موبائل ٹیلفون کی دسیوں سالوں تک نگرانی کرتے رہے ، امریکہ یہ سب کچھ صرف قومی خود مختاری اوردنیامیں اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے کرتاہے ،تاکہ امریکی تسلط سے آزادی کے حصول کیلئے کوشش کرنے والے یورپین ممالک کی ہرحرکت کی نگرانی کرسکے ،اورکسی بھی ایسی طاقت کوابھرنے سے روکاجاسکے جس کے بارے ایک عالمی حیثیت کی حامل ریاست بننے کی توقع کی جاسکتی ہے جواس کے ساتھ مقابلہ کرے یااس کے تسلط کواس سے خطرات پیداہوسکتے ہیں۔ امریکہ کی تمام کمپنیاں قومی ریاست ،اس کی ثقافت اوراقدارکی خدمت کرتی ہیں۔ یہ اس وقت بالکل واضح طورپرسامنے آیاجب تین سال قبل چین اورامریکن کمپنی Google کے درمیان اختلاف واقع ہوا۔ چینی نیوز ایجنسی Xinhua نے 2010/3/23 کو کہاتھا ''افسوس Google چین میں نہ صرف اپنی تجارتی سرگر میوں کی توسیع کی لئے کوشش کرتاہے ،بلکہ وہ امریکی اقداروافکاراورامریکی تہذیب وثقافت کوپھیلانے میں بھی مصروف ہے''۔ بلکہ امریکہ نے یورپ میں بھی اپنے مخصوص افکار ،اقدار اوراپنی اس مخصوص ثقافت کوترویج دی، جواس جیسے سرمایہ دارانہ افکاررکھتے ہیں۔ یہ سب اس لئے کیا تاکہ امریکی شہریوں اورریاست کیلئے تحسین و تکریم کمائی جائے اور یورپ پرامریکی دھاک قائم رہے۔
5۔ اس سے واضح ہوتاہے کہ یہ جوعالمی تسلط کی حامل خفیہ تنظیموں کانام لیاجاتاہے ،جوسرمایہ دارانہ آئیڈیالوجی کی اساس پرقائم قومی ریاستوں کے وجود کاخاتمہ کرتی ہیں ،ایسی تنظیموں کاکوئی وجود نہیں۔ اوریہ کہ بلڈربرگ گروپ اورسہ فریقی کمیشن ان گروپوں سے عبارت ہے ،جنہیں امریکیوں نے دنیاپراپنے ملک کے تسلط کوبرقراررکھنے کیلئے قائم کیا۔ اوریہ کہ امریکہ کی بڑی مالیاتی، تجارتی، الیکٹرونک، پراپرٹی کمپنیاں یا فوجی اڈوں پر قائم ہونے والی بڑی کمپنیاں یا دیگر بڑے صنعتی ادارے ،بڑے بڑے تاجر ، ایکس چینج مالکان اور سٹاک ایکس چینج کے سٹے بازسب کے سب اپنے ملک کے مفاد کیلئے کام کرتے ہیں، لیکن اس کے ساتھ وہ اپنے مالی منافع کے تحفظ، اس میں اضافے اوربیرونی واندرونی سطح پراس کی توسیع کیلئے اپنے ملک کے اتھارٹیوں پراثرانداز ہوتے ہیں اور بیرونی سطح پردوسرے ممالک کے خلاف اپنے وطن کی پالیسی کی خدمت اوران پراپنے ملک کا اثرورسوخ بڑھانے کی ضمانت دینے میں کرداراداکرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ امریکہ ہرملک کے اندر فوجی اڈوں کے قیام اوراسٹریٹجک معاہدات کے ذریعے اپنے تسلط کوبرقراررکھنے کی کوشش کرتاہے ، نیٹو کو اپنی پالیسیاں نافذ کرنے کیلئے استعمال کرتاہے اوراپنی قیادت میں اس کو مضبوط کرتا ہے۔ امریکہ نے یورپی فوج کے قیام کواس لئے ناکام بنایاتاکہ یورپ اس کی قیادت تلے رہے۔ اس کے علاوہ دوسرے لوگوں کے نقل وحمل کی نگرانی کیلئے ان کی جاسوسی کرتاہے ،خواہ وہ اس کے اپنے اتحادی کیوں نہ ہوں۔ امریکہ دنیاپراپنی اقتصادی اورمعاشی بالادستی کوبرقراررکھنے کیلئے ایک توڈالرکی عالمی کرنسی ہونے کی حیثیت کی حفاظت کرتارہتاہے ،دوسراعالمی بینک ،آئی ایم ایف اور ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن جیسے عالمی مالیاتی اورتجارتی اداروں پراپناتسلط قائم کرکے استعمال کرتاہے۔ ریاست پرکنٹرول حاصل کرنے کیلئے اقوام متحدہ بالخصوص عالمی امن کونسل پرتسلط اوردیگرممالک کے اندراپنے ایجنٹوں اور ان کے اندرنظام حکومت کواپنے ماتحت کرنے کے اقدامات کرتاہے۔ ان سب کامقصد امریکی ریاست ،اس کی قومی شناخت اوراسکی عالمگیر قیادت کی حیثیت کی حفاظت ہوتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ نے برطانیہ اورفرانس وغیرہ جیسے اپنے ہی سرمایہ دارانہ برادرممالک کے ساتھ کشمکش شروع کی تاکہ ان کی نو آبادیات اوران کے اثرونفوذ کے علاقوں میں ان کی جگہ لے سکے۔ اس میں وہ بہت حد تک کامیاب بھی ہوااوران ممالک کوعالمی صورتحال سے دورکردیاتاکہ تنہااسی کودنیاکاآقامان لیاجائے جودنیاکی قسمت کافیصلہ کرے ،اس کی کہی ہوئی بات حتمی ہو،وہ اکیلاہی مغربی دنیاکاچیمپین اورسرمایہ دارانہ فکروالوں کی قیادت اورنگرانی کرے اوران کے خلاف جنگ کااعلان کرے جواس کی فکر سے متصادم کسی دوسری فکر کے علمبردار ہوں یااس کی بنیادپر کوئی ریاست قائم کرنا چاہیں خواہ وہ ریاست بڑی ہویا چھوٹی۔ اس لئے وہ ریاست خلافت کی واپسی کی طرف دعوت کوکبھی بھی برداشت نہیں کرتا، اس کے ریسرچ سنٹرز اوراسٹریٹجک انسٹی ٹیوٹ ابھی سے، یعنی خلافت کے قیام سے پہلےہی مطالعے اورمنصوبے ترتیب دے رہے ہیں تاکہ اس کیلئے کی جانے والی ہرکوشش بلکہ اس میدان میں کسی قسم کی فکرکاتوڑ کرسکےمگروہ جلد یابہ دیرجان لیں گے کہ خلافت موجودہ سرمایہ دارانہ ریاستوں کی طرح کی ریاست نہیں ہو گی جس پر معمولی سرمائے کانقصان کرکے امریکہ تسلط حاصل کرپائے گا ،بلکہ اللہ القوی العزیز کے اذن سے خود امریکہ کوہی زبردست نقصان اٹھاناپرے گا (واللہ غالب علیٰ امرہ ولٰکن اکثرالناس لایعلمون) "اور اللہ اپنے امر پر غالب ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے"۔

Read more...

سوال کا جواب: ایران اور '5+1' گروپ کے مابین 24 نومبر 2013 کا ایٹمی معاہدہ

 

سوال: ایران اور '5+1' گروپ کے مابین 24 نومبر 2013 کو ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدے پر دستخط ہونے کے بعد سے اس کے بارے میں بین الاقوامی اور علاقائی موقف اور سیاسی تبصروں کا سلسلہ جاری ہے۔ ان بیانا ت سے اس مسئلے کے حوالے سے نقطہ نظر میں پیچیدگی اور تضاد کا اظہار ہوتا ہے۔۔۔ایران اس کو کامیابی قرار دے رہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ یہ بین الاقوامی برادری کی جانب سے اس کو یورینم کو افزودہ کرنے کی اجازت ہے جبکہ امریکہ ایران کو یورینیم کی افزودگی کا حق دینے کی تردید کر رہا ہے اور کہتا ہے کہ اس معاہدے سے یہودی وجود زیادہ محفوظ ہو گیا۔ امریکہ کہتا ہے کہ وہ کبھی بھی ایران کو ایٹمی ملک بننے نہیں دے گا۔ یہودی وجود اس معاہدے کو ایک برائی اور تاریخی غلطی قرار دیتا ہے۔۔۔ان سب چیزوں نے مجھے اور ہو سکتا ہے مجھ جیسے کئی لوگوں کو اس معاہدے کی حقیقت کو سمجھنے کے حوالے سے تشویش میں مبتلا کر دیا۔۔۔سوال یہ ہے کہ :اس معاہدے کی حقیقت کیا ہے اور کس کا موقف درست ہے؟ کیا اس معاہدے کا تعلق خطے میں ایران کے کردار سے ہے ،مثال کے طور پر شام میں رونما ہو نے والے واقعات کے ساتھ؟ اوبامہ کی جانب سے اس معاہدے کو تکمیل تک پہنچانے اور اس کا دفاع کرنے کے لیے اس سرتوڑ کوشش کا کیا سبب ہے ،اس حد تک کہ ایک سیاستدان کہہ رہا تھا کہ "اوبامہ اس معاہدے کو امریکہ کے مقابلے میں زیادہ اہمیت دے رہا ہے"؟ اللہ آپ کو بہترین جزاء دے۔
جواب :پہلے ہم اس معاہدے کے حوالے سےمختلف ذرائع ابلاغ میں نشرہو نے والی خبروں کے ذریعے اس کی حقیقت کا جائزہ لیتے ہیں:
1 ۔ ایران نے اس معاہدے میں خود کو پابند کیا ہے:
ا ۔ ایران 5٪ سے زیادہ یورینیم کی افزودگی روکنے کا پابند ہو گا، اس سے زیادہ افزودگی کے لیے درکار ٹیکنالوجی کے ذرائع کو بھی منقطع کر دے گا۔ اپنے 20٪ افزودہ یورینیم کے تمام ذخیروں کو کم کرکے 5٪ سے کم کی سطح پر لائے گا یا اس کو ایسی شکل میں تبدیل کرے گا کہ اس کوکسی افزودگی کے کام میں نہ لایا جا سکے۔۔۔ایران نے اس بات کی بھی پابندی کا عہد کیا ہے کہ وہ افزودہ یورینیم کے ذخیرے کو3.5 ٪سے زیادہ ہونے کے حوالے سے ہر پیش رفت کو روکے گا ،اس وجہ سے مذکورہ چھ مہینوں کے اختتام تک، کہ جن کا ذکر اس معاہدے میں ہے، 3.5 ٪ افزودہ یورینیم کی مقدار وہی رہے گی جو ان چھ مہینوں کی ابتدا کے وقت ہے۔
ب ۔ایران اس بات کا بھی پابند ہو گا کہ وہ یورینیم کی افزودگی کی قابلیت کو زیادہ نہیں کرےگا چنانچہ وہ کسی بھی قسم کا کوئی اور سینٹری فیوج سسٹم نہیں لگائے گا۔ یورینیم کو افزودہ کرنے کی غرض سے کسی نئے ماڈل کے سینٹری فیوجز نہیں بنائے گا اور نہ نہیں ہی استعمال کرے گا۔ وہ ان سینٹری فیوجز میں سے نصف ناکارہ کر دے گا جن کو میں لگایا گیاہے۔ اسی طرح ان سینٹری فیوجز کے تین چوتھائی تعدادکو بھی ناکارہ کرے گا جن کو میں لگا یا گیا ہے تاکہ یورینیم کی افزودگی کے لیے ان کا استعمال ممکن نہ ہو۔ اسی طرح ایران نے اس بات کی پابندی کا عہد کیا ہے کہ وہ سینٹری فیوجز کو نقصان پہنچنے کی صورت میں صرف ان کو چلانے کے لیے درکار پرزے ہی بنائے گا تا کہ آئیندہ چھ مہینوں میں ایران مزید کوئی نئے سینٹری فیوجز نہ بنا سکے۔
ج ۔ ایران نے اراک (Arak) میں موجود ری ایکٹرز کو فعال نہ کرنے اور پلوٹونیم کو کو نکالنے میں پیش رفت کو روکنے اور اس کے لیے کسی بھی دوسری قسم کے اضافی مرکبات مہیا نہ کرنے عہد کیا ہے۔ وہ کسی قسم کا ایندھن اور بھاری پانی بھی وہاں منتقل نہیں کرے گا۔معاہدے کی رو سے ایران استعمال شدہ ایندھن میں سے پلوٹونیم کو الگ کرنے کے عمل کو روک دے گا اور اراک میں موجود ری ایکٹرز سے متعلق مطلوبہ حساس ، مستند اور تفصیلی معلومات فراہم کرے گا جو اس سے قبل ایک طویل عرصے تک ان ری ایکٹرز کے حوالے سے دستیاب نہیں تھیں۔
د۔ اراک کے ری ایکٹرز میں داخل ہونے کے لیے تفتیش کاروں کو مزید مواقع فراہم کرنا اور بین الاقوامی اٹامک انرجی کمیشن کے ساتھ ایران کے سکیورٹی معاہدے کے پروٹوکول کے مطابق مخصوص اور مطلوبہ بنیادی معلومات فراہم کرنا۔ اسی طرح ایران اس بات کا بھی پابند ہو گا کہ اٹامک انرجی کمیشن کے تفتیش کاروں کو روزانہ کی بنیاد پر Natanz اور Fordow کے ری ایکٹرز کے معائنے کی اجازت دے گا۔ وہ تفتیش کاروں کو مذکورہ دونوں تنصیبات میں کیمرے کی آنکھ کے ذریعے محفوظ کی گئی تصاویر کی چھان بین کے ذریعےان دونوں مقامات پر یورینیم کی افزودگی پر نظر رکھنے کی اجازت دینے کا پابند ہو گا۔۔۔ایران اس بات کا بھی پابند ہوگا کہ بین الاقوامی اٹامک انرجی کمیشن کو سینٹری فیوجز کو جمع کرنے کی تنصیبات، اور سینٹری جیوجز کی پیداوار اور انھیں اکٹھا کرنے کی تنصیبات میں داخلے کی اجازت دے گا۔ اسی طرح یورینیم کی کانوں اور اس کی تیاری کی جگہوں میں بھی داخل ہونے کی اجازت دے گا۔
ھ ۔ ایران '5 +1' ممالک اور انٹرنیشنل اٹامک انرجی کمیشن کے ساتھ مل کر ایک کمیٹی ترتیب دینے کا پابند ہے جو ایران کے ایٹمی پروگرام سے متعلق ہو نے والے معاہدے پر عمل درآمد پر نظر رکھے گی اور اس کے ایٹمی پروگرام سے متعلق خدشات کے حوالے سے گذشتہ اور موجود قراردادوں پر بھی عمل در آمد میں مدد دے گی جس میں ایران کے ایٹمی پروگرام کو فوجی مقاصد سے دور رکھنا اور Barshin میں ایرانی سرگرمیوں پر نظر رکھنا بھی شامل ہے۔
2 ۔ اس معاہدے سے ایران کو کیا حاصل ہو گا:
ا ۔ ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے اعلان کیا ہے کہ چھ مہینے کے لیے اس کا ملک 20 ٪ تک یورینیم کی افزودگی کو بند کردے گا، افزودگی کے پروگرام سے منسلک دوسری سرگرمیاں جاری رہیں گی۔ وزیر خارجہ نے اشارہ دیا کہ بڑی طاقتوں نے آنے والے چھ مہینوں کے اندر اضافی پابندیاں نہ لگانے کا وعدہ کیا ہےجبکہ ایران کی پیڑوکیمیکل انڈسٹری ، گاڑیوں کے پیداواری اداروں، انشورنس اور قیمتی دھاتوں کی تجارت پر عائد پابندیوں میں بھی نرمی کی جائے گی۔
ب۔ نیوز ایجنسی رائیٹرز کی 24 نومبر2013 کی خبر کے مطابق اس وقتی معاہدے کے حوالے سے وائٹ ہاوس نے ایک دستاویز جاری کی ہے جس کی رو سے ایران کی جانب سے اپنے ایٹمی پروگرام کے بعض حصوں سے دستبردار ہونے پر اس پر لگی ہوئی پابندیوں میں نرمی کی جائے گی۔ اس دستاویز کے مطابق اس بات کا امکان ہے کہ ایران1.5 ارب ڈالرز کے ریونیو حاصل کر لے گا جو سونے اور دوسری قیمتی معادنیات کی تجارت کے ضمن میں ہو گا اور ایرانی گاڑیوں کے پیداواری اداروں اور پیٹرو کیمیکل پر پابندیوں میں نرمی کی جائے گی۔ اسی طرح ایرانی تیل کی مصنوعات کو بھی موجودہ کم ترین سطح کے مطابق فروخت کی اجازت مل جائے گی او ر اگر ایران اس معاہدے پر عمل در آمد میں کامیاب ہو جاتا ہے تو وہ مذکورہ اشیا ء کی تجارت کی مد میں 4.2 ارب ڈالر منتقل کرنے کی اجازت حاصل کر لے گا۔ وائٹ ہاوس نے اس بات کی وضاحت کی کہ ایران کے خلاف پابندیوں میں نرمی سے اس کو تجارتی تبادلے کی شکل میں 7 ارب ڈالر حاصل ہو ں گے۔
ج ۔ جنیوا مذاکرات میں شامل وفود کے کئی ارکان نے کہا کہ ایران کی جانب سے ایٹمی پروگرام سے باز رہنے کے اس معاہدے سے ایران پر لگی پابندیوں میں محدود طور پر کمی آئے گی جس سے اس کو 7ارب ڈالر تجارتی تبادلے کی شکل میں ملیں گے۔
3 ۔ ایران نے اس کو کامیابی قرار دے دیا اور اس کے مرشد اعلیٰ خامنائی نے اس معاہدے کی یہ کہہ کر مدح سرائی کی کہ "ایٹمی مذاکرات کاروں کی ٹیم کا اس کامیابی پر شکریہ ادا کیا جانا چاہیے اور اس کامیابی کے پیچھے اللہ کی مہربانی، عوامی دعائیں اور حمایت کار فرما ہے" (ایرانی فارس پریس 25 نومبر 2013)۔ روحانی نے بھی کل 26 نومبر 2013 کو ایرانی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ افزودگی کا حق جو کہ ایرانی ایٹمی پرگرام کےحقوق کا حصہ ہے جاری رہے گا۔ اس نے مزید کہا کہ "افزودگی آج بھی جاری ہے، کل بھی جاری رہے گی اور کبھی بند نہیں ہو گی اور یہ سرخ لکیر ہے"۔ اسی انٹر ویو میں ایرانی صدر نے اپنے ملک کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے مکمل معاہدے پر پہنچنے کی امید بھی ظاہر کردی۔ اس حوالے سے انہوں نےکہا کہ یہ راستہ بہت طویل ہے اس پر عوامی تائید اور حمایت سے ہی چلا جاسکتا ہے۔ ایرنی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے پرسوں شام 25 نومبر 2013 کو ٹی وی انٹرویو میں کہا تھا کہ اس کا ملک یورینیم کی افزودگی کو جاری رکھے گا۔ اس نے مزید کہا کہ اس حوالے سے وہ امریکیوں سے بات چیت جاری رکھیں گے۔
4 ۔ کیا یہ واقعی کامیابی ہے؟ اس معاہدے کو باریکی سے دیکھنے والا یہ دیکھ سکتا ہے ہے کہ ایران اپنے ایٹمی پروگرام سے پیچھے ہٹ گیا، اور اس نے مغرب کی خواہش پر یورینیم کی افزودگی کو روک دیا۔ پھر افزودہ یورینیم کو 20 ٪ سے کم کر کے 5 ٪ سے بھی کم کرنے یا اس کو ایسی شکل دینے پر راضی ہو گیا جو اپنی اصلی حالت میں نہ ہو۔ 5 ٪ سے زیادہ افزودہ نہ کرنے کی پابندی پر بھی راضی ہو گیا ۔ اپنے ان ری ایکٹرز کو بھی فعال نہ کرنے کی حامی بھر لی جو بھاری پانی پیدا کرتے ہیں۔ پلوٹونیم کی پیداوار سے بھی دستبردارہو گیا جوکہ ایٹمی اسلحے کی بناوٹ کے لیے لازمی ہے۔ نئے سینٹری فیوجز بھی نہ بنانے کی پابندی کو بھی قبول کیا،تفتیش کاروں کے لیے روزانہ تفتیش کا دروازہ کھول دیا۔ اسی طرح تمام سرگرمیوں کو کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کرنے کی اجازت دے دی تاکہ اس کی ایٹمی تنصیبات بین الاقوامی نگرانی میں رہیں۔۔۔پھر اس کو کس طرح کامیابی کہا جاسکتا ہے؟ ایرانی عہدیداروں کی جانب سے اس معاہدے کو بڑی کامیابی کہنا دراصل اپنی پسپائی اور امریکہ نوازی کو چھپانا ہے۔ اس قسم کی باتیں کر کے وہ کسی ممکنہ عوامی احتجاج کو خاموش کرنے اور امریکہ کے ساتھ اعلانیہ تعلقات کے لیے رائے عامہ کو ہموار کرنےکی کوشش کر رہے ہیں۔ ایران کی یہ پسپائی اس کے اس دعوے کے برعکس ہے کہ وہ خود مختار ہے اور اپنی خودمختاری کا احترام جانتا ہے۔ تو پھر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو بین الاقوامی نگرانی میں دے اور روزانہ تفتیش کی اجازت دے جیسا کہ امریکی قبضے سے پہلے عراق میں صدام نے کیا جب اس نے ایٹمی تنصیبات کو تباہ کن ہتھیاروں کی تلاش کے نام پر بین الاقوامی نگرانی میں دیا اور روزانہ تفتیش کی اجازت دی؟ اس سے ایران اپنے ایٹمی پروگرام کی راہ میں خود حائل ہو گیا ہے، خاص کر اس وقت جب وہ دیکھ رہا ہے کہ یہودی وجود روایتی اور غیر روایتی ہتھیاروں کے ذریعے اپنی قوت میں اضافہ کرنے میں مصروف ہے۔۔۔ہر بینا اور دیدہ ور اس بات کا ادراک کر سکتا ہے کہ یہ کوئی کامیابی نہیں کہ کوئی ریاست 20 ٪ تک افزودگی تک پہنچنے کے بعد پھر واپس3.5 ٪ تا 5٪ پر آئے اور پہلے 20 ٪ افزودہ کرنے کے آلات کو بند کردے۔ یہ کسی لحاظ سے کامیابی نہیں۔ یہ بس ایسا معاملہ ہے جس کا کرتا دھرتا امریکہ ہے جس نے ایران کے بارے میں اپنی پالیسی کے مطابق اس کے ساتھ اپنے پس پردہ تعلقات کو منظر عام پر لانے کے لیے ایسا کیا تا کہ ایران خطے میں امریکہ کی جانب سےاس کے لیے متعین کیے گئے کردار کو پابندیوں کی رکاوٹ کے بغیر ادا کرتا رہے۔۔۔بہت سے لوگوں کو اس بات کا ادراک ہو چکا ہے کہ ایران امریکہ کا خوشہ چین ہے، خاص کرشام کے واقعات کے بعد تو سب کو یقین ہو گیا ہے۔ اگرچہ یہ تعلقات جمہوریہ ایران کے وجود میں آنے کے پہلے دن سے تھے لیکن دونوں کے درمیان تعاون انتہائی رازداری سے جاری تھا خاص طور پر عراق اور افغانستان کے حوالے سے جس کا اعتراف ایران کے سابقہ عہدیدار کر چکے ہیں۔ ایران کے موجودہ وزیر خارجہ جواد ظریف 2001 میں امریکہ میں جمہوریہ ایران کے سفارتی نمائندہ تھے جنھوں نےاس وقت اپنی حکومت سے افغانستان پر امریکی یلغار میں امریکہ کے ساتھ تعاون کا مطالبہ کیا جس پر اس وقت بعض ایرانیوں نے ان کو امریکی ایجنٹ قرار دیا۔ اب ایران اعلانیہ طور پر امریکہ کے ساتھ لین دین اور کھل کر امریکی منصوبوں کو عملی جامہ پہنانا چاہتا ہے۔ اب خطے میں اس کا ایک کردار ہو گا جس کا تعین امریکہ کرے گا۔ شام میں توامریکہ اس کے کردار کا تعین کرچکا ہے جس کی رو سے وہ اس وقت تک بشار الاسد کی حکومت کی پشت پناہی کرے گا جب تک امریکہ کو ایسا ایجنٹ نہیں ملتا جو وہاں امریکہ کے زیر اثر حکومتی نظام کے اجزائے ترکیبی کو محفوظ رکھ سکے۔
5 ۔ مذکورہ معاہدے کا پشت بان امریکہ ہے۔ امریکہ ایرانی اتھارٹی کے ساتھ پچھلے کچھ مہینوں سے 24 نومبر 2013 کو اس معاہدے کے اعلان تک خفیہ ملاقاتوں میں مصروف تھا۔امریکہ یہ بھی جانتا تھا کہ یورپ ایران کے ساتھ اس امریکی معاہدے کو نا کام بنانا چاہتا ہے اس لیے یورپ کو خبر ہونے سے پہلے ہی اس معاہدے کو پایا تکمیل تک پہنچایا گیا۔ فرانسیسی اخبار"لےمونڈ" (Le Monde) نے 24 نومبر 2013 کو خبر شائع کی کہ کئی سینئر امریکی عہدیداروں نے ایرانیوں کے ساتھ پچھلے چند مہینوں کے دوران دوطرفہ خفیہ بات چیت کی ہے جس نے ایرانی ایٹمی پروگرام کے حوالے سے ہونے والے ابتدائی معاہدے کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا جس پر ہفتہ اور اتوار کی درمیانی رات 24 نومبر 2013 کودستخط کیے گئے۔ 24 نومبر 2013 کو نیوز ایجنسی "ایسوسی ایٹڈ پریس"نے امریکی عہدیداروں کے حوالے سے خبر دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ نے اپنے اتحادیوں، '5+1' گروپ کے دیگر ممبران اوراسرائیل کو ستمبر 2013 کے اواخر میں آٹھ مہینوں بعد،ان خفیہ ملاقاتوں کے بارے میں بتایا جن میں اوبامہ اور روحانی کے درمیان رابطہ ممکن ہوا۔۔۔ فرانسیسی اخبار نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ یہ ملاقاتیں اومان میں ہوتی تھیں۔۔۔امریکی انتظامیہ کے تین عہدیداروں نے "ایسوسی ایٹڈ پریس" نیوز ایجنسی کو بتا یا کہ انہی خفیہ مذاکرات نے ہی اس معاہدے کی راہ ہموار کی جن سے ہفتے کی شام ایرانی ایٹمی پروگرام کے حوالے سے جنیوا میں معاہدہ پایہ تکمیل کو پہنچا۔
6 ۔ یہی وجہ ہے کہ اوبامہ اس معاہدے کو بہت زیادہ اہمیت دیتا رہا حتی ٰ کہ کانگریس کی جانب سے بھی کسی مخالفت کو آڑے ہاتھوں لیتا رہا اوریہودی وجود کو بھی یقین دہانی کراتا رہا کہ اس معاہدے سے ان کی حفاظت ممکن ہو گی ۔اسی لیے اس معاہدے کے بارے میں بڑی جلدی کرتا رہا جو اس کے بیانات سے بھی واضح طور پر نظر آتا ہے:
امریکی صدر اوبامہ ایران کے ساتھ اعلانیہ قرابت داری کی پالیسی کا جواز پیش کرتا رہا اور کہا کہ: "ہم سفارت کاری کے دروازے کو بند نہیں کر سکتے اور دنیا کے مسائل کو پُر امن طریقے سے حل کرنے سے صرف نظر نہیں کر سکتے "اورمزید کہا کہ " اگر ایران اس موقع سے فائدہ اٹھا تا ہے اور بین الاقوامی برادری میں شامل ہو نا چاہتا ہے تو ہم ان شکوک وشبہات کو دور کر سکتے ہیں جو کئی سالوں سے ہمارے ملکوں کے درمیان ہیں" (الجزیرہ 26 نومبر 2013 )۔۔۔ امریکی صدر اوبامہ نے معاہدے کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا: "ایران کے ساتھ ہم نے جو کچھ کیا یہ ایک قابل ذکر پیش رفت اور صدارت کا منصب سنبھالنے کے بعد سب سے اہم قدم ہے۔۔۔آج کا اعلان مقصد کے حصول کی طرف پہلا قدم ہے" (ورلڈ نیوز (این بی سی نیوز) آن لائن 23 ستمبر 2013)۔۔۔اوبامہ نے 25 نومبر 2013 کوسان فرانسیسکو میں ایک مہم میں شرکت کے دوران کہا "بڑے چیلنجز اب بھی موجود ہیں مگر ہمیں بات چیت کی راہ کو بند نہیں کرنا چاہیے، نہ ہی ہما رے لیے دنیا کے مسائل پر امن طور پر حل کرنے کے لیے باچیت سے منہ پھیرنا ممکن ہے" ، اوراس بات کی طرف اشارہ کیا کہ "آنے والے مہینوں میں سفارتی کاوشوں سے اپنے ہدف کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے جس سے ایرانی ایٹمی پروگرام کے خطرے کا مسئلہ پائیدار طورپر حل ہو جائے گا"۔۔۔24 نومبر 2013 کو اوبامہ نے کہا کہ یہ معاہدہ اس پروگرام کے مسئلے کو حل کرنے کی طرف ایک اہم قدم ہے۔ اس نے کہا کہ یہ معاہدہ ایران کے ایٹم بم بنانے کے راستے کو بند کردے گا۔ اوبامہ نے خبردار کیا کہ اگر ایران نے آنے والے چھ مہینوں میں معاہدے کی شقوں کی پابندی نہیں تو اس کا ملک پابندیوں میں نرمی کو ختم کردے گا۔ اسی طرح کیری نے وضاحت کی کہ یہ معاہدہ ایران کے ایٹمی اسلحے کی طرف جانے کو مشکل بنادے گا۔ دس سالوں سے جاری ایٹمی بحران کے کئی ہنگامہ خیزمسائل میں سے ایک کا ذکر کرتے ہوئےاس نے کہا کہ اس معاہدے میں یورینیم کی افزود گی کے حوالے سے ایران کے کسی "حق" کو تسلیم نہیں کیا گیا ہے۔ یہودی وجود کو اطمینان دلاتے ہوئے اس نےکہا کہ :"یہ معاہدہ دنیا کو زیادہ پر امن بنادے گا اور اسرائیل اور خطے میں ہمارے شرکاء زیادہ محفوظ ہوجائیں گے " (اے ایف پی 24 نومبر 2013 )۔
رد عمل کے طور پر وائٹ ہاوس نے انتہائی عجلت میں یہودی لابی سے ہمدردی رکھنے والے ارکان کے اثر کو زائل کرنے کے لیے بھاری شخصیت کے حامل افراد جیسے سکوکروفٹ (Scowcroft) اور برزنسکی (Brzezinski) سے مدد طلب کرتے ہوئے ان کے ذریعے کانگریس پر دباؤ ڈال دیا، تا کہ کانگریس کو کسی مخالفانہ اقدامات سے باز رکھا جائے۔ لہٰذا ان دونوں افراد نے سینٹ میں اکثریت کے نمائندے ہیری ریڈ (Harry Reid) کو خط لکھا ، ان سے ایران کے ساتھ ہو نے والی بات چیت کی حمایت کا مطالبہ کیاکیونکہ اس سے امریکہ کا قومی مفاد وابستہ ہے۔ اس خط میں لکھا ہے کہ : "۔۔۔یہ بات چیت امریکہ، اسرائیل اور خطے کے دوسرے شرکاء کی قومی سلامتی کا ضامن ہے"۔ اس خط میں ایران پر نئی پابندیاں لگانے سے خبردار کیا گیا ہے، "اس وقت ان مذاکرات کے دوران جن کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی، ایران پر مزید پابندیاں عائد کرنے سے ایرانی یہ یقین کر لیں گے کہ امریکہ ایران کی موجودہ حکومت کے ساتھ کوئی معاہدہ کرنے کے لیے تیار نہیں"۔اس خط میں ذکر ہے کہ :"ہم تمام امریکیوں اور امریکی کانگریس کو ایران کے ساتھ مشکل مذاکرات میں صدر کے شانہ بشانہ کھڑے ہو نے کی درخواست کرتے ہیں" (سکوکروفٹ اور برزنسکی اسٹریٹیجک کلچر فاونڈیشن آن لائن 20 نومبر)۔ اس سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ امریکہ اس مسئلے کو اپنی موت وحیات کا مسئلہ سمجھ کر اس سے نمٹا!
7 ۔ یورپ کی جانب سے اس معاہدے کو ناکام بنانے کی کوشش اور پھر اس کو قبول کر نا: امریکہ یہ جانتا تھا کہ یورپ امریکہ ایران معاہدے کے خلاف ہے کیونکہ یورپ جانتا ہے کہ ایران امریکہ نواز ہے۔اس پر لگائی گئی پابندیوں میں نرمی کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ اس کو خطے میں کوئی کردار دینا چاہتا ہے جو وہ امریکہ کے مفادات کے لیے نبھاتا رہے گا جس کے لیے اس کی نقل وحرکت کو آسان بنانے کے لیے اس پر لگی پابندیوں میں نرمی ناگزیر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فرانس نے پہلے مرحلے ، جو 15 اکتوبر 2013 کا ہے، میں کھل کر معاہدے کی مخالفت کردی اور برطانیہ نے بھی حسب عادت پس پردہ ایسا کیا مگر چونکہ امریکہ اس کے انعقاد میں سنجیدہ تھا اس لیے یورپ اس کی حمایت پر مجبور ہو گیا۔
یوں یورپی ، یہ جاننے کے بعد بھی کہ امریکہ پہلے ہی اس کی بنیاد یں رکھ چکا ہے ، اس معاہدے کو ناکام نہیں بناسکے ۔۔۔اس لیے انہوں اس کی حمایت کی اور لگتا ہے بین الاقوامی طور پر اس سے فائدہ اٹھانے کا ارادہ بھی رکھتا ہے،خاص کر جب یہ معاہدہ ایران کو 3.5٪ تا 5 ٪ سے زیادہ یورینیم افزودہ کرنے سے روک کر ایٹمی اسلحہ بنانے کے حوالے سے ایران کی ایٹمی سرگرمیوں کو روک رہا ہے ۔ اس نے جو 20 ٪ یورینیم افزودہ کر رکھا تھا اس کو ضائع کیا جائے گا، ایٹمی ری ایکٹر روزانہ کی بنیاد پر نگرانی اور تفتیش کے لیے دیے جائیں گے۔ اسی لیے برطانوی وزیر خارجہ ولیم ہیگ (William Hague) نے ٹویٹر پر اپنے پیج میں 24 نومبر 2013 کو کہا:"یہ معاہدہ بہت ہی اہم تھا یہ حوصلہ افزا امر ہے اور ایران کے ساتھ پہلا مرحلہ ہے، چھ مہینے کے اندر وہ اپنے ایٹمی پروگرام کو منجمد کر دے گا اوراس کے بعض حصوں کو پچھلے مرحلے میں واپس لائے گا"۔ فرانس کے صدر فرانکوس ہولاند (Francois Hollande) نے کہا "یہ درست سمت میں ایک اہم پیشرفت ہے۔ یہ معاہدہ فرانس کی جانب سے یورینیم کے ذخیرے، اس کی افزودگی کادائرہ کار اور نئی تنصیبات کو چالو نہ کرنے اوراسے بین الاقوامی نگرانی میں دینے کے فرانس کے مطالبے سے ہم آہنگ ہے" (اے ایف پی 24 نومبر 2013)۔ فرانس کے صدر فرانکوس ہولاند (Francois Hollande) نے اس معاہدے کی تعریف کرتے ہوئے کہا "ایران کے ساتھ مغرب کے تعلقات کی بحالی کی جانب درست سمت میں ایک اہم پیشرفت ہے"۔
8 ۔ باقی رہا یہودی وجود کا موقف۔۔۔:اس معاہدے کے بارے میں یہودی وجود کا یہ موقف کہ یہ اچھا معاہدہ نہیں ہے نا تو نیا ہے اور نہ ہی یا عجیب ہے۔ فلسطین کو غصب کرنے والی اس ریاست نےاپنے وجود میں آنے کے ساتھ ہی ایک پالیسی اور منصوبہ بندی کر ررکھی ہے کہ صرف ایٹمی طاقت ہی نہیں بلکہ خطے میں کسی قوت کا ظہور ہی نہ ہو، بلکہ کوئی روایتی ترقی یافتہ قوت بھی وجود میں نہ آئے، نہ صرف ایران جتنا بڑا ملک بلکہ کوئی چھوٹی سی ریاست بھی ایسی نہ ہو۔ وہ اردن کو اپنا سٹریٹیجک شریک سمجھنے کے باوجود اس کو مسلح کرنے کی راہ میں روکاوٹ بنتا ہے، اس کے مسلح ہونے پر اعتراض کرتا ہے! لبنانی اخبارات نے عربی وکی لیکس (wikileaks) سے13مارچ 2013کی ایک دستاویز کے حوالے سے خبر شائع کی ہے جس میں سفیر ریچرڈ جونز نے یہودی ریاست کی جانب سے فروری 2006 کوامریکہ سے اپنے مطالبے میں کہا کہ خطے کے ممالک کو اسلحہ کی سپلائی روکنے کے حوالے سے اردن کے بارے میں ان کا یہ موقف ہے کہ : "۔۔۔عبرانی ریاست (اسرائیلی ریاست) اردن کو اپنا 'اسٹریٹیجک پارٹنر' سمجھتی ہے ۔۔۔ اس کے باوجود جغرافیائی مماثلت اور ممکنہ اسٹریٹیجک تبدیلوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اسرائیل اس کا متحمل نہیں ہو سکتا کہ اردن کی فوج کا اسلحہ اسرائیلی فوج کے اسلحے کا ہم پلہ ہو۔ اسرائیل اس کا متحمل بھی نہیں ہو سکتا اور خطرہ مول نہیں لے سکتا کہ اردن کو سام (Sam) میزائل یا کسی ایسے سسٹم سے مسلح کیا جائے جس سے اس کی فضائی حدود مکمل طور پر اس کے نشانے پر آجائے"۔
یہ ہے خطے کے بڑے اور چھوٹے ممالک کے حوالے سے یہودی ریاست کی پالیسی۔ یہی نہیں بلکہ وہ تو فلسطینی اتھارٹی کے ساتھ اس کی ممکنہ ریاست کے بارے میں اپنی بات چیت میں یہ شرط لگاتا ہے کہ وہ نام نہاد ریاست بھی غیر مسلح ہو نی چاہیے۔۔۔اس لیے یہودی ریاست اس بات پر اکتفا نہیں کرتی کہ ایران پر امن ایٹمی ملک ہو اور ایٹمی اسلحے سے لیس ملک بن جائے بلکہ کوئی بھی ہو ہر قسم کی ایٹمی صلاحیت سے محروم ہو پرامن ہو یا نہ ہو خطے کی ہر ریاست کے بارے میں اس کی یہ پالیسی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صدام کے زمانے میں امریکہ کی جانب سے گرین سگنل ملنے پر عراق کے ایٹمی تنصیبات کو نشانہ بنایا ۔ اسرائیل ایک سے زائد بار ایرانی ایٹمی تنصیبات کو نشانہ بنا نے کا تہیہ کرچکا تھا لیکن امریکہ نے اس کو بازرکھا۔۔۔ہم نے دیکھا کہ یہودی ریاست اس وقت خوشی سے ناچنے لگی جب شام کے سرکش نے کیمیائی ہتھیاروں کو تلف کرنے کی حامی بھر لی۔۔۔
یہودی ریاست یہ جانتی ہے کہ اس کی کوئی ذاتی طاقت نہیں ﴿إِلَّا بِحَبْلٍ مِنَ اللَّهِ وَحَبْلٍمِنَ النَّاسِ...﴾" مگر اللہ کی رسی کے بل بوتے پر اور لوگوں کی رسی کے ذریعے" (آل ِعمران: 112)۔
اللہ کی رسی کو تو یہ لوگ صدیوں سے کاٹ چکے ہیں۔۔۔لوگوں کی رسی البتہ اس وقت سے ان کو پکڑائی گئی ہے جب برطانیہ نے اس کی داغ بیل ڈالی ، فرانس نے اس کی آبیاری کی اور پھر امریکہ نے اس کو گود لیا۔ اس لیے یہ اپنی پالیسی میں امریکہ سے چمٹی ہوئی ہے۔ اس وجہ سے اس بات کی توقع ہے کہ(اسرائیل) امریکہ میں یہودی لابی کے ذریعے آنے والے چھ مہینوں کے میں ایران کے ساتھ ایسے حتمی حل تک پہنچنے کے لیے سرتوڑ کوشش کرے گی جس میں اس عارضی حل میں شامل پابندیوں میں بھی مزید اضافہ کردیا جائے۔
امریکہ بہر حال اپنے مفادات کو یہودی ریاست پر مقدم رکھے گا بلکہ امریکہ ہی یہودی وجود کی سکیورٹی کے بارے میں فیصلہ کرتا ہے۔ یہو دی وجود اپنی سکیورٹی کو امریکہ پر مسلط نہیں کر سکتا، خاص کر جب اوبامہ اپنی صدارت کے دوسرے مرحلے میں ہے جس میں یہودی لابی کا اثر نسبتاََ کم ہے۔ اس کے باوجود یہودی ریاست اپنی بقا کو امریکہ کے مرہون منت سمجھتی ہے۔امریکہ ہی خطے کے ممالک کو ایٹمی ہتھیارحاصل کرنے سے روکتا اور یہودی ریاست کو ایٹمی اسلحہ بنانے کی اجازت دیتا ہے۔ اس معاہدے کی بعض شقیں یہودی وجود کے لیے اطمینان بخش ہیں۔اسرائیل کے وزیر اطلاعات Yuval Steinitz نے اسی دن صبح کے وقت عبرانی نشریاتی ادارے-2 (Hebrew broadcasting network 2) کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا "بڑے ممالک نے اسرائیل کی خواہش پر اس معاہدے کے اعلان سے کچھ دیر پہلے اس معاہدے کے مسوّدے میں رد وبدل کیا"۔
یہودی ریاست امریکہ کے ساتھ مل کر کوشش کرے گی کہ اس کے آخری حل میں مزید شرائط اور پابندیوں میں اضافہ کرے، چنانچہ اسرائیل کے وزیر مالیات Yair Lapid نے اسرائیلی فوجی ریڈیو سے بات کرتے ہوئے ہفتہ 24 نومبر 2013 کی صبح کو کہا : "اسرائیل پر لازم ہے کہ وہ امریکہ اور دوسری طاقتوں کے ساتھ مل کر چھ ماہ بعد بہترین حتمی حل تک پہنچنے کی تگ ودو کرے "۔ اس نے مزید کہا کہ "اگرچہ یہ معاہدہ ایک بری چیز ہے لیکن ہمیں امریکیوں اور دوسروں کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہیے تا کہ حتمی معاہدے میں ایرانی ایٹمی پروگرام کی مکمل تباہی کی ضمانت دی جاسکے"۔
اس سب سے یہ واضح ہو تا ہے کہ یہودی ریاست امریکی آشیر باد سے خطے میں خود تو ایٹمی اسلحہ جمع کرنا چاہتی ہے جبکہ کسی اور ریاست کو کسی بھی قسم کا جدید اسلحہ حاصل کرنے سے روکنا چاہتی ہے، بلکہ ان ریاستوں کو طاقتور ایٹمی پروگرام کی سوچ سے بھی باز رکھنا چاہتی ہے۔۔۔تکلیف دہ بات یہ ہے کہ اسلامی علاقوں میں قائم ممالک کااس غداری کی حد تک گر جانا کہ ایٹمی اسلحہ تو کجا وہ پر امن ایٹمی پروگرام کے لیے علمی تحقیق سے بھی ڈرتے ہیں، جبکہ اسی وقت یہودی ریاست خفیہ نہیں بلکہ اعلانیہ طور پر ایٹمی اسلحہ بنا رہی ہے اور خطے میں کسی اور کو بنا نے سے روک رہی ہے۔
اس لیے یہودی وجود کے وزیر اعظم Netanyahu کی جانب سے یہ کہنا کہ "یہ معاہدہ ایک تاریخی غلطی ہے۔یہ ایک ایسا برا معاہدہ ہے جس سے ایران کو وہ مل گیا جو وہ چاہتا تھا یعنی کچھ پابندیاں ہٹائی جائیں اور ایٹمی پروگرام کا بنیادی حصہ برقرار رہے" (اے ایف پی 24نومبر2013 )۔ اس نے جو کچھ کہا ہےاسے اس کے سیاق میں دیکھنا چاہیے کہ یہودی ریاست کی یہ خواہش ہے کہ خطے میں اس کے علاوہ کوئی بھی ایسی قابل ذکر قوت نہ ہو اور وہ ایران کے ایٹمی پروگرام کی مکمل تباہی چاہتا ہے۔
9۔ رہی یہ بات کہ امریکہ نے آخر اس معاہدے کے انعقادکے لیے اس قدر ایڑی چوٹی کا زور کیوں لگا یا؟ تو یہ سب جانتے ہیں کہ ایرانی ایٹمی پروگرام پچھلے کئی سالوں سے موضوع بحث تھا جس میں کچھ لو اور کچھ دو کی کیفیت چل رہی تھی ۔ پھر کیوں اس وقت اوبامہ ایرانی ایٹمی معاہدے کو کامیاب بنا نے کے لیے سردھڑ کی بازی لگا رہا ہے اور اس نے یہاں تک کہہ دیا کہ "ہم نے ایران کے ساتھ جو کچھ کیا یہ قابل ذکر پیش رفت ہے۔ میرے صدارت کا منصب سنبھالنے کے بعد یہ سب سے ہم ہے"
اس کا جواب یہ ہے کہ گزشتہ تین سالوں کے دوران خطے میں حالات سنگین ہو چکے ہیں اور جس چیز نے امریکہ کو چوکنا کردیا ہے وہ شام کے طول وعرض میں رائے عامہ کا خلافت کے لیے سازگار ہونا ہے۔ یہ ایک نیا منظر نامہ ہے جس کا مشاہدہ عرب میں تبدیلی کی لہر میں نہیں کیا جارہا تھا جو اگر چہ لوگوں کی اپنی مرضی سے شروع ہوئی تھی ، لیکن ان کے نعرے یا تو سیکولرازم کے قریب تھے یا اس کا ملغوبہ تھے جس کو امریکی معتدل اسلام کہا جاتا ہے! یہی وجہ ہے کہ امریکہ ان تحریکوں کو ہائی جیک کرنے اور ان کے ساتھ کھیلنے میں کامیاب ہو گیا۔۔۔جبکہ شام میں برپاہونے والی تحریک پر صاف شفاف اسلامی احساسات کا غلبہ ہے اس کے اندر صحیح اسلامی افکار اور مفاہیم نمایاں ہیں جیسا کہ ان کا نعرہ ہے کہ "امت دوبارہ خلافت کا قیام چاہتی ہے"۔۔۔شام میں گرم ہو تے ہوئے اسلامی ماحول نے مغرب کو بالعموم اور امریکہ کو با لخصوص سیخ پا کردیا ہے کیونکہ ان کو خلافت کی عظمت اور قوت کا اچھی طرح اندازہ ہے۔ ان کو یہ معلوم ہے کہ خلافت کے ہوتے ہوئے دنیا میں کسی طاقت کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی بلکہ ان کے لیے اپنا وجود برقرار رکھنا بھی مشکل ہو جاتا ہے
ایک اور محرک بھی ہے جس نے ان کی پریشانیوں کو دوچند کر دیا ہے اور وہ یہ کہ امریکہ بحرانوں میں پھس چکا ہے اور اپنی فعالیت کھو چکا ہے اور شام میں سر چڑھتی ہوئی اس اسلامی لہر کو براہ راست قابو کرنے کے قابل نہیں رہا۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ خطے کے خائنوں میں سے اپنے لیےکارندے ڈھونڈ رہا ہے جو ان عظیم الشان اسلامی موجوں کے سامنے اس کے لئے فرنٹ لائن کا کردار ادا کریں۔
جہاں تک امریکہ کے داخلی بحران کا تعلق ہے تو اقتصادی بحران، جس سے کہ امریکہ نکل نہیں پا رہا ہے، کے ساتھ ساتھ ڈیموکریٹ اور ری پبلکن کے درمیان تمام بنیادی مسائل پر اختلاف ہے، یعنی مقامی پارٹی بازی کی سیاست امریکہ کے قومی مفاد کی جگہ لے چکی ہےاور یہ لوگوں کے امور کی دیکھ بھال سے زیادہ اہم معاملہ بن چکا ہے۔کئی ایک ماہرین نے اس کی طرف توجہ دلائی ہے کہ قرضوں کی سطح کی بلندی کے حوالے سے دونوں بڑی پارٹیوں کے مابین اختلافات اور اوبامہ کا صحت کا منصوبہ امریکی سیاسی نظام کے دیوالیہ پن کا مظہر ہے۔فرینک فوگل(Frank Fogel)، Huffington Post میں لکھتے ہیں کہ :"امریکہ کا سیاسی نظام زمین بوس ہو رہا ہے۔ کانگریس عوامی حمایت سے محروم ہو چکی ہے۔ گیلپ سینٹر (Gallop Centre) کے تازہ ترین سروے کےمطابق کانگریس پر اعتماد کر نے والوں کا تناسب اب صرف 10 ٪ رہ گیا ہے اور commercial public opinion کے سروے کے مطابق 85 ٪ بڑے بزنس مین یہ سمجھتے ہیں کہ امریکہ کو جن سنگین ترین مسائل کا سامنا ہے ان کا سبب انتخابی مہموں کے لیے سرمایہ کاری کا نظام ہے۔ 42 ٪ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ نظام مکمل طور پر فیل ہو چکا ہے" (Huffington Post 26جولائی 2013 )۔
جہاں تک امریکہ کی خارجہ سیاسی صورت حالکا تعلق ہے تویہ اس کی داخلی صورت حال سے بھی بدتر ہو چکی ہے، اس کے باوجود کہ دنیا کے ہر خطے میں اب بھی امریکہ کی اجارہ داری قائم ہے۔ Immanuel Wallersten دنیا کے طول و عرض سے امریکہ کی پسپائی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ :"اگر سب نہیں تو لوگوں کی بہت بڑی تعداد امریکہ کے اثرورسوخ، اس کے رتبے اورقوت میں کمی اور سکڑنے کو محسوس کر رہے ہیں، امریکہ کے اندر لوگ اب نہ چاہتے ہوئے بھی اس کوقبول کر رہے ہیں"۔ (The Consequence of Regression of the United States: Al-Jazeera Channel, 2/11/2013)۔
برزنسکی (Brzezinski) نے 2010 میں مونٹریال میں خارجہ تعلقات کی کمیٹی سے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ :"دنیا کی پرانی اور نئی عظیم طاقتوں کو گزشتہ کسی بھی دور کے مقابلے میں بھرپُور عسکری طاقت کے باوجود، دنیا پر اپنا غلبہ مسلط کرنے کی صلاحیت تاریخ کی کم ترین سطح پرہونے کے حوالے سے، ایک نئی صورت حال کا سامنا ہے" چونکہ امریکہ، ان بحرانوں کی وجہ سے جو اسکے گلے میں کانٹا بن چکے ہیں ، اپنی بالادستی کو موثر بنا نے سے قاصر ہے۔۔۔اور اس کی وجہ سے اس کے ایجنٹ خواہ جن کی اس نے باہر پرورش کی ہے یا بشار اور اس کے کارندوں کی صورت اندرونی طور پر پالا ہو ۔۔۔سب مل کر بھی گزشتہ تین سالوں کے دوران شام کے بارے میں کوئی پائیدار فیصلہ نہ کرسکے بلکہ خلافت کے نعروں کی گونج سے ان کےکان پھٹ رہے ہیں ،ان آنکھیں پتھرا رہی ہیں اور ان کے دل لرز رہے ہیں۔۔۔ان تمام اسباب کی بنا پر امریکہ نے خطے میں شام کے ہمسایہ ممالک کو اپنا فرنٹ لائن بنانے کا فیصلہ کیا تا کہ یہ اس متوقع حکومت کی راہ میں رکاوٹ بن سکیں جو خلافت کو ریاست ، زندگی اور معاشرے کے لیے نظام بنائے گی۔ اس مقصد کے لیے امریکہ نے دو ریاستوں کا انتخاب کیا جو اس کے تابع فرمان تھیں تاکہ وہ ذمہ داری ادا کریں: یہ دو ریاستیں ترکی اور ایران ہیں۔ ترکی کی حرکات وسکنا ت پر کوئی پابندی نہیں تھی جبکہ ایران پابندیوں کے مسئلے سے دوچار تھا اس لیے عالمی اور علاقائی طور پر اس کی سرگرمیاں محدود تھی اور وہ تنہائی کا شکار تھا۔ یہ ترکی سے بھی بڑھ کر خلافت کے خلاف سرگرم ہے کیونکہ خلافت ایرانی حکمرانوں کےنظرئیے کے لحاظ سے ایک ناقابل قبول چیز ہے، اسی وجہ سے وہ انتہائی سرگرمی سے اس کے خلاف برسرپیکار ہیں، جبکہ ترکوں کی وراثت میں ہی ایک طویل عرصے تک خلافت کا عہد ہے جس کی وجہ سے ترک حکومت خلافت کے خلاف اپنی جنگ کو چھپاتی ہے اور راستے تبدیل کرتی رہتی ہے۔
یہ ہے وہ نئی چال جس کی رو سے ان دوممالک کو مذکورہ طریقے سے کردار دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ نے اس مسئلے کو اپنا مسئلہ سمجھ کر ایران پر لگائی گئی پابندیاں ختم کردیں تا وہ آسانی سے متحرک ہو۔ اسی مقصد کی خاطر اوبامہ نے اس قدر جانفشانی سے ان پابندیوں کو اٹھایا۔ یعنی شام میں خلافت کے لیے برپاہونے والی تحریک کا راستہ روکنے کے لیے، اس لیے نہیں کہ ایرانی ایٹمی اسلحے کی سرگرمیوں پر لگی پابندیوں کو اٹھا یا جائے بلکہ ان پر امن ایٹمی سرگرمیوں پر بھی بہت ساری مزید پابندیا لگائی گئیں حتی کہ ایران کو 20 ٪ یورینیم کی افزودگی سے3.5٪ تک واپس لانے کا پابند کیا گیا جبکہ تفتیش اور دوسری شرائط اس کے علاوہ ہیں۔۔۔یہی وجہ ہے کہ ایران کے ساتھ نرمی نقل وحرکت میں اس کے لیے آسانی پیدا کرنے اور شام میں ہو نے والی خلافت کی جدوجہد کے خلاف سرگرمی میں اس کو تھپکی دینے کے لیے تھی نہ کہ ایٹمی میدان میں اس کے لیے آسانی پیدا کرنے کے لیے! یوں اوبامہ نے اپنی صدارت کے دوران اپنا سب سے بڑا کام یہ ایٹمی معاہدہ کروایا، جس سے اوبامہ ترکی اور ایران کو شام میں خلافت کی تحریک کے سامنے کھڑا کرنے میں کامیاب ہو گیا، چاہے یہ شام کے اندر مجرمانہ مسلح کاراوئیوں کے ذریعے ہو یا جنیوا اور دوسری جگہوں میں خیانت پر مبنی سیاسی کاموں کے ذریعے ہو۔ بہر حال یہ سب سابقہ ایجنٹ کے متبادل کے طور پر نئے ایجنٹ کو لانے اور خلافت کے عمل کو ناکام بنانے کے لیے ہے۔ اگر اوبامہ واقعی ایسا کرنے میں کامیاب ہو گیا تو یہ اس کے عہد صدارت کا سب سے بڑا کام ہو گا، تب اگر وہ اپنے بیان میں یہ کہے تو کوئی تعجب کی بات نہیں ہوگی: "ہم نے ایران کے ساتھ جو کچھ کیا یہ بہت ہی بڑی پیشرفت ہے اورمیرے صدارت کا منصب سنبھالنے کے بعد یہ سب سے اہم کام ہے۔۔۔" یہ تو تب ہے کہ اگر وہ ایسا کر سکا۔۔۔شاید اوبا مہ اس خوش فہمی کا شکار ہے کہ ان دونوں ریاستوں کے لیے اس نے جو کردار متعین کیا ہے وہ اس پر چلنے کی استطاعت رکھتی ہیں۔ اسی لیے ان ملاقاتوں اور دوروں میں تیزی دیکھنے میں آئی اور یہ دونوں ریاستیں اپنے قائد اوبامہ، جس کو اس معاہدے کی بڑی جلدی تھی، کے نقش قدم پر چلیں! اور 24 نومبر 2013 کے اس معاہدے کے بعد تین دن بھی نہیں گزرے تھے کہ ترکی اور ایران کے مابین موجود پرانی مخاصمت ختم ہو گئی اور ترک وزیر خارجہ نے ایران کا دورہ کیا۔ دونوں کے درمیان مذاکرات کا مرکزی موضوع شام کے معاملے میں باہمی تعاون،جنیوا مذاکرات اور جس کو پوشیدہ رکھا گیا وہ ان سے بھی بڑھ کر ہے۔۔۔کاش یہ دونوں نیکی اور تقوی کے کسی کام میں تعاون کرتے تب ہم بھی ان کے حق میں دعا کرتے لیکن ان دونوں نےشام میں خلافت کا راستہ روکنے ، اس قدر پاکیزہ خون بہنے اور بے پناہ قربانیوں کے بعد بھی ظالم جابر لادین حکومت کو ایک بار پھر قائم کرنے کے لیے آپس میں تعاون کا فیصلہ کیا جس پر انہوں نے دنیا کی رسوائی اور آخرت میں جہنم کی آگ مول لی۔ اللہ سبحانہ وتعالٰی گناہ اور ظلم کے کام میں نہیں بلکہ نیکی اور تقوی کے کاموں میں تعاون کا حکم دیتے ہیں ﴿وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ﴾" اور نیکی اور تقوی کے کاموں میں آپس میں تعاون کرو اور گناہ اور ظلم کے کاموں میں ایک دوسرے سے تعاون نہ کرو اور اللہ سے ڈرو بے شک اللہ سخت سزا دینے والا ہے" (المائدہ:2)۔ کاش یہ اس بات کو سمجھ لیتے اور نجات پالیتے ۔ عقلمند وہ ہے جو عبرت حاصل کرے اور نجات پالے۔
10 ۔ آخر میں یہ اس شخص کے لیے نصیحت ہے جس کا دل ودماغ صحیح سلامت ہے اور وہ سنتا اور دیکھتا ہے:
ا ۔ ہم ترک حکمرانوں اور ایرانی حکمرانوں کوخبردار کرتے ہیں کہ ان کی امریکہ کی کاسہ لیسی اور شام میں خلافت کی جدوجہد کرنے والوں کا راستہ روکنا ان کے لیے دنیا کی رسوائی اور آخرت کے عذاب کا سبب بن جائے گا۔ وہ مغرب اور امریکہ کو راضی کرنے کے لیے جو بھی کریں وہ ان سے راضی نہیں ہوں گے ﴿وَلَنْ تَرْضَى عَنْكَ الْيَهُودُ وَلَاالنَّصَارَى حَتَّى تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ قُلْ إِنَّ هُدَى اللَّهِ هُوَ الْهُدَى وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْوَاءَهُمْ بَعْدَ الَّذِي جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَكَ مِنَ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ﴾ "یہود اور نصاریٰ اس وقت تک ہر گز تم سے راضی نہیں ہوں گے جب تک کہ تم ان کی ملت کی پیروی نہیں کر و گے ،کہہ دیجئے کہ اللہ کی ہدایت ہی اصل ہدایت ہے اور اگر تم نے ان کی خواہش کی پیروی کردی اس کے بعد بھی کہ تمہارے پاس علم آچکا ہے تو پھر اللہ کی طرف سے تمہارا کوئی کارساز اور مدد گار نہیں ہو گا" (البقرۃ:120)۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس کو ابن الجعد نے اپنی مسند میں عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے کہ :«مَنْ أَرْضَى النَّاسَ بِسَخَطِ اللَّهِ، وَكَلَهُ اللَّهُ إِلَى النَّاسِ، وَمَنْ أَسْخَطَ النَّاسَ بِرَضَا اللَّهِ كَفَاهُ اللَّهُ النَّاسَ» " جس نے لوگوں کو راضی کرنے کے لیے اللہ کو ناراض کیا اللہ اس کو لوگوں کے حوالے کرے گا اور جس نے اللہ کو راضی کرنے کے لیے لوگوں کو ناراض کیا اللہ لوگوں کے مقابلے میں اس کے لیے کافی ہوں گے"۔ تم یقینا ان لوگوں کے انجام سے بھی باخبر ہو جنہوں نے لوگوں کو راضی کرنے کے لیے اللہ کو ناراض کیا ۔۔۔عقلمند وہ ہے جو دوسروں کو دیکھ کر نصیحت حاصل کرتا ہے۔
ب ۔ ہم ترک حکمرانوں کو یاد دلاتے ہیں کہ خلافت اللہ سبحانہ وتعالٰی کی طرف سے فرض ہے اور یاد کرو جب ایک طویل عرصے تک ترکی کا طول و عرض خلافت کی وجہ سے مینارہ نور تھا۔ ترکی کے باشندے اس کے سپاہی تھے ،یہ محمد الفاتح ،سلیم،سلیمان القانونی اور عبد الحمید کے لشکری تھے۔۔۔ترکی کے حکمرانوں کو اس روشن دور کو مدنظر رکھتے ہوئے خلافت کو بے یارومددگا نہیں چھوڑنا چاہیے شام یا کسی بھی جگہ اس کے راستے میں رکاوٹ نہیں بننا چاہیے،اگر وہ اس کے لیے جدوجہد کرنے والوں کی مدد کر نے سے عاجز ہیں تو کم ازکم ان کے سامنے رکاوٹ نہ بنیں۔۔۔اچھا انجام تو صرف متقین کا ہے۔
ج ۔ ہم ایران کے حکمرانوں کو یاد دہانی کراتے ہیں اگر وہ خلافت کو فرض نہیں بھی سمجھتے اور خلافت کا ذکر آتے ہی ان کی سوچ اس طرف جاتی ہے کہ فلاں خلیفہ نے فلاں جگہ ظلم کیا تھا توان کو ہم یہ یاد دلاتے ہیں کہ جس خلافت کے لیے اس کے علمبردار جدو جہد کر رہے ہیں وہ نبوت کی طرز پر خلافت ہے ،خلافت راشدہ ہے۔ یہ وہی خلافت ہے جس کے خلفاء ابوبکر رضی اللہ عنہ،عمر رضی اللہ عنہ،عثمان رضی اللہ عنہ اور علی رضی اللہ عنہ تھے یہی اس کے قائدین اور سپہ سالار تھے۔۔۔اگر ایرانی حکمران اس کی راہ میں حائل ہونے کی جسارت کر بیٹھے تو انہوں نے علی رضی اللہ عنہ کی سیرت کو پامال کیا جنہوں نے اپنے سے پہلے تین خلفاء کی بیعت کی تھی اور ان کے دست راست اور مخلص تھے۔ تمہیں بھی ان کی سیرت پر عمل کرنا چاہیے خلافت سے منہ مت موڑو شام یا کہیں بھی ہو اس کے سامنے رکاوٹ مت بنو،اگر تم اس کے علمبرداروں کی مدد نہیں کر سکتے تو کم از کم ان کے سامنے رکاوٹ تو نہ بنو۔۔۔۔نیک انجام تو متقیوں ہی لیے ہے۔
د ۔ جیسا کہ ہم نے ابتدا ء میں ترک اور ایرانی حکمرانوں کو خبر دار کیااسی طرح اختتام پر بھی ان کو نصیحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ خلافت اللہ سبحانہ وتعالٰی کا وعدہ ہے ﴿وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ...﴾ " اللہ تم میں سے ان لوگوں کے ساتھ وعدہ فرماچکا ہے جنہوں نے ایمان لاکر اعمال صالح کیا کہ ان کو ان سے پہلے لوگوں کی طرح زمین میں خلافت سے نوازے گا۔۔" (النور: 55)۔ خلافت رسول اللہ ﷺ کی بشارت ہے جو اس جابرانہ حکمرانی کے بعد آئے گی جیسا کہ احمد اور الطیالسی نے حذیفہ بن الیمان سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: «...ثُمَّ تَكُونُ جَبْرِيَّةً، فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا، ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ» "۔۔۔پھر جابرانہ حکومتیں ہوں گی اور اس وقت تک ہوں گی جب تک اللہ چاہے گا پھر اللہ جب اللہ چاہے گا ان کو اٹھا لے گا اس کے بعد نبوت کی طرز پر خلافت ہو"۔ یہ اللہ کی مشیت سے جلد یا بہ دیر قائم ہونے والی ہے جس نے اس کی مدد کی اور سہارا دیا وہ ان لوگوں میں سے ہو گا جن پر اللہ نے انعام کیا اور جو اس کے سامنے رکاوٹ بن گیا وہ دنیا میں بھی رسوا ہو گا اور قیامت کے دردناک عذاب کا مستحق ہو گا۔ پھر بھی یہ سب اس کے قیام کو ایک لمحہ کے لیے بھی موخر نہیں کرسکیں گے۔۔۔﴿إِنَّ اللَّهَ بَالِغُ أَمْرِهِ قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْرًا﴾ "اللہ اپنے کام کو انجام تک پہنچانے والا ہے اسی نے ہر چیز کے لیے ایک اندازہ مقررکر رکھاہے" (الطلاق: 3)۔

Read more...

مصرکی عبوری حکومت کی طرف سے اخوان المسلمون کودہشت گرد تنظیم قراردینے کااعلان عبوری حکومت کا سامنا كرنے والے ہرشخص کودہشت گردی کاالزام دے کر خوفزدہ کرنے کی ایک کوشش ہے

پریس ریلیز

بدھ25دسمبر2013 کو البیبلاوی حکومت نے اخوان المسلمون کو "دہشت گرد تنظیم" قرار دے دیا۔ یہ اعلان ملک کے شمالی صوبہ دقہلیہ کے سیکورٹی ڈائرکٹریٹ کی عمارت دھماکےکانشانہ بن جانے کے ایک دن بعد کیا گیا، جس میں 16 افراد ہلاک ہوئے۔ یہ اعلان اس حقیقت کے باوجود کیا گیا کہ اخوان کے اس دھماکے میں ملوث ہونے کاکوئی ثبوت پیش نہیں کیاگیا اور "انصار بیت المقدس"نامی ایک تنظیم نے اس دھماکے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
دھماکے کے تھوڑی دیربعدڈاکٹر حازم البیبلاوی نے کابینہ کے ترجمان کے ذریعے اعلان نشر کروایا جو اس کی اس نیت کی غماز ہے کہ اس واقعے کو اخوان کوقانونی طورپردہشت گرد تنظیم قرار دلوانے کیلئے استعمال کیاجائے۔ وزارت داخلہ کے ترجمان جنرل ہانی عبداللطیف نے بدھ 26دسمبر2013 کواپنےاخباری بیان میں کہاکہ اخوان المسلمون کو دہشت گرد جماعت قرار دینے کامطلب یہ ہے کہ جوکوئی اخوان کی طرف سے منعقد کی گئی ریلی کی قیادت کرے گااس کوسزائے موت دی جائےگی خواہ وہ کوئی خاتون ہی کیوں نہ ہو۔ انہوں نے اس بات پرزوردیاکہ کوئی بھی شخص جواس پارٹی کی زیرِقیادت ہونے والی کسی ریلی میں شرکت کرے گاتواسے پانچ سال جیل کی سزاملے گی ۔
اس میں کوئی اچھنبے کی بات نہیں کہ عبوری حکومت نے واقعے کے ذمہ داروں اور شہہ دینے والوں کاپتہ چلانے کیلئے کسی قسم کی سنجیدہ تحقیقات سے پہلے اخوان المسلمون پریہ الزام لگایا، کیونکہ مصری حکومت آغاز سے ہی ، جماعت اوراس کے افراد کے ساتھ ایک دہشت گرد تنظیم جیسا رویہ اپناتی آرہی ہے۔عبوری حکومت نےلمحہ بھر کیلئے تعاقب، قید وبند اور قتل سے ہاتھ نہیں روکے۔ اس کے ساتھ ہی ان کی اسمبلی کوتحلیل کیا، ان کی جائیدادوں پر قبضہ کیا اورابھی کچھ روزہوئے مرکزی بینک نے 1055نجی تنظیموں کے اکاؤنٹس منجمد کردئے ہیں۔ انقلابی اتھارٹی نے کہاکہ ان میں سے بعض کے اخوان المسلمون کے ساتھ روابط ہیں اوربعض اس کے ساتھ ہمدردیاں رکھتی ہیں ۔ مرکزی بینک نے 40 بینکوں کو ان تنظیموں کے سرمائے کو منجمد کرنے کے احکامات جاری کیے۔
ہم یہاں اخوان المسلمون کادفاع نہیں کرناچاہتے اورہم اپنے متعدد سابقہ پمفلٹوں میں موجودہ سیکولرحکومت میں شمولیت کے عدم جوازکوواضح کرچکے ہیں یعنی نہ توجمہوری صدارتی عہدہ جائز ہے اورنہ ہی کوئی وزارتی منصب سنبھالنا۔ ہم ثابت کرچکے ہیں کہ یہ طریقہ نہ صرف یہ کہ حرام ہے بلکہ یہ کسی لحاظ سے سود مند نہیں۔ یہ اس بدحالی میں کوئی تبدیلی نہیں لائے گا۔ اوریہ کہ ہمہ گیراوربنیادی تبدیلی کیلئےجدوجہدہی وہ صحیح عمل ہےجس کے ذریعے موجودہ فاسد نظام کومکمل طور پر اکھاڑا جائے اور اسلام کومکمل اوریکبارگی نافذ کیاجائے، جیساکہ رسول اللہﷺ نے کیاتھا ۔ ہم اس وقت اس بے بنیادالزام تراشی کی مذمت کرتے ہیں،جس کامقصد انتقامی جذبات کی تکمیل اورانقلاب کے مفاد میں برپا اس کشمکش کا خاتمہ کرنا ہے، بالخصوص جبکہ تاحال عبوری حکومت نےپارٹی کے دہشت گردانہ کاروائیوں میں ملوث ہونے کےشواہد پیش نہیں کئےہیں۔
بلاشبہ اخوان کو دہشت گرد جماعت قرار دینے کا مقصد ہر اس شخص کودہشت گرد قرار دینے کی ایک کوشش ہے جوانقلاب کی اتھارٹی سے اختلاف کرتے ہیں اور یہ پوری اسلامی لہرکے خلاف جنگ اوراس کودہشت گردی کی تہمت سے داغ دار کرنے کاایک سوچاسمجھامنصوبہ ہے۔ اس حکومت کے بارے میں خیال کیا جا رہا تھا کہ یہ مستعفی ہوجائے گی یا کم ازکم اس قسم کے بے سروپا الزامات کی ہدایات جاری کرنے سے پہلے وزیر داخلہ کومعزول کردے گی۔
تعجب کی بات یہ ہے کہ کوئی بھی یہودی انٹیلی جنس ایجنسیوں یا مغربی ایجنسیوں کومورد الزام ٹھہرانے کی جرات نہیں کرتا جومصرکے اندرآرام سے اپنے گھناؤنے مقاصد کیلئے سرگرم ِعمل ہیں۔ چنانچہ مصر استعماری ریاستوں کے جاسوس اداروں کیلئے ہمیشہ سےایک سرسبزوشاداب چراگاہ رہاہے۔ ان ریاستوں کاایک ہی ہدف ہے اوروہ یہ کہ مصر ان کےزیراثر ایک سیکولر یا نیم سیکولرریاست کے طورپر قائم رہے،جسے یہودکے ساتھ دائمی امن معاہدات اورکافر امریکی ریاست کے ساتھ اسٹریٹجک تعلقات کی بیڑیوں میں جکڑدیاگیاہو۔
مصر میں امن وامان کی اس ابتر صورتحال اور دونوں طرف سے بڑھتی اوربھڑکتی ہوئی کشمکش اقتدار کے تنازع کے سواکچھ نہیں اورہم سب کویہ کہتے ہیں کہ صرف نبوت کے نقش ِ قدم پرخلافت کے زیرِسایہ ہی امن وامان اور انسانوں کو عزت وآبروحاصل ہوگی جہاں حکمران ایک ڈھال کے مانند ہوتاہے جس کی قیادت میں جنگ کی جاتی ہے اوراسی کے ذریعے تحفظ حاصل کیا جاتا ہے، وہی رعایا کے خون، ان کے اموال اورعزت وآبروکی حفاظت کرتا ہے۔ حزب التحریر سب کودعوت دیتی ہے کہ آئیں اورخلافت کےدوبارہ قیام کےذریعے مصرمیں جاری اس خونریزی اورقتل وغارت گری کی روک تھام کیلئے ‍‍ ہمارے ساتھ مل کر جد وجہد کریں، کیونکہ صرف خلافت ہی تمام لوگوں کیلئے خواہ وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم، امن اور سکون لوٹاسکے گی۔
وَلَيَنصُرَنَّ اللَّهُ مَنْ يَنصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ
"اور اللہ ضرور ان لوگوں کی مدد کرے گا جواس (کے دین) کی مدد کریں گے ،بے شک اللہ بڑی قوت والا اوراقتداروالا ہے" ( الحج : 40)
شریف زید
سربراہ مرکزی میڈیاآفس حزب التحریر
ولایہ مصر

Read more...

حزب التحریر سرکش حسینہ اور سکیورٹی فورسز اور جھوٹے میڈیا میں موجود اس کے گماشتوں کو عبرت ناک انجام سے خبردار کرتی ہے

پریس ریلیز

حزب التحریر پولیس کی جانب سے اس کے اراکین اور اس کے حمایتی ان متقی مسلمانوں پر وحشیانہ حملوں کی پر زور مذمت کرتی ہے جو اس جلوس میں شرکت کے لیے جارہے تھے جس کا اعلان حزب نے کر رکھا تھا جو کہ جمعہ(27 دسمبر 2013) کا دن تھا، جہاں پولیس نے حسینہ کے حکم پر ان راہ چلتے لوگوں پر اندھا دھند فائرنگ کردی اور تقریباً چالیس لوگوں کو گرفتار کر لیا اور لوگوں کی ایک بڑی تعداد زخمی ہو گئی اور گرفتار کیے گئے لوگوں پر بھی انتہائی قریب سے گولیاں برسائیں گئیں۔ اس سے بھی رسواکن اقدام یہ تھا کہ پولیس نے قریبی ہسپتالوں میں موجود زخمیوں کا پیچھا کیا اور ان میں سے زیر علاج سات افراد کو گرفتار کرلیا۔ میڈیا کے ایک دھوکہ باز حصے نے بھی حسینہ اور پولیس کی ہاں میں ہاں ملائی جو جھوٹ کو پھیلانے میں حکومت اور پولیس کے ہرکاروں کا کردار ادا کر رہا ہے،جس نے یہ بہتان تراشا کہ حزب کے اراکین اور اس کے حامیوں نے پولیس پر پتھراو کیا اور اینٹیں پھینکیں اور دستی بموں سے حملے کیے۔
حزب التحریر سرکش حسینہ اور سکیورٹی فورسز میں موجود اس کے غنڈوں کوخبردار کرتی ہے کہ عنقریب تم اپنے ان گھناؤنے جرائم کا عبرتناک ترین صلہ پاؤں گے۔ ریاست خلافت جو کہ مخلص افسران کی نصرۃ سے جلد ہی قائم ہونے والی ہے تمھارا احتساب کیے بغیر نہیں چھوڑے گی۔
اور شیخ حسینہ اور اس کے فیصلوں میں شامل اس کے ساتھی آخرت میں بھی بدترین عذاب کا سامنا کریں گے۔ اللہ سبحانہ و تعالٰی فرماتے ہیں: إِنَّ الَّذِينَ فَتَنُوا الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ ثُمَّ لَمْ يَتُوبُوا فَلَهُمْ عَذَابُ جَهَنَّمَ وَلَهُمْ عَذَابُ الْحَرِيقِ " جو لوگ مؤمن مردوں اور مؤمن عورتوں کو آزمائش میں ڈالتے ہیں اور پھر اس پر توبہ بھی نہیں کرتے تو ان کے لیے جہنم اور جلنے کا عذاب ہے" (البروج: 10) ۔
اور سکیورٹی فورسز میں کام کرنے والوں سے ہم کہتے ہیں کہ تمہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ حکومت کی جانب سے حزب التحریر کے کارکنوں اور اراکین پر اس یلغار کا سبب صرف یہ ہے کہ یہ دین حق کے پیروکار ہیں اور اسلام کی دعوت کو لوگوں تک پہنچاتے ہیں۔ اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ اللہ اس پر اس وجہ سے تمہارا محاسبہ نہیں کرے گا کہ تم تو "حکومتی احکامات کے پابند ہو "! تو اچھی طرح سن لو اللہ سبحانہ وتعالٰی فرماتے ہیں: يَوْمَ تُقَلَّبُ وُجُوهُهُمْ فِي النَّارِ يَقُولُونَ يَا لَيْتَنَا أَطَعْنَا اللَّهَ وَأَطَعْنَا الرَّسُولَ ط وَقَالُوا رَبَّنَا إِنَّا أَطَعْنَا سَادَتَنَا وَكُبَرَاءَنَا فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَ "جس دن آگ میں ان چہروں کو الٹ پلٹ کیا جائے گا تو یہ کہیں گے اے کاش ہم نے اللہ کی اطاعت کی ہوتی اور رسول کی اطاعت کی ہو تی ۔ اور کہیں گے کہ اے ہمارے رب ہم نے تو اپنے راہنماؤں اور بڑوں کی اطاعت کی تھی اور انہوں نے ہمیں سیدھی راہ سے بھٹکا دیا" (الاحزاب: 66-67)۔
میڈیا والوں سے بھی ہم کہتے ہیں کہ اس قدر شرمناک جھوٹ کی نشر واشاعت کرتے ہوئے تمہیں شرم بھی نہیں آتی؟! جو تصاویر تم نے دکھائیں ہیں یا جو ویڈیو تم نے نشر کی ہے اس میں تو کہیں بھی کسی نے اینٹ یا پتھر نہیں اٹھا یا یا مارا ہے اور نہ ہی کہیں کسی دستی بم کے نشانات ہیں، پھر یہ سب تم کیسے کہتے ہو ؟ کیا تم نے رسول اللہ ﷺ کی یہ حدیث نہیں سنی ہے کہ : مِن أفرى الفرى أن يُريَ الرجل عينيه ما لم تريا "بدترین جھوٹ یہ ہے کہ ایک آدمی اس چیز کو دیکھنے کا دعویٰ کرے جو اس نے نہیں دیکھی ہے؟"
ہم نے کہا ہے اور ہم پھر کہتے ہیں کہ :حسینہ حکومت گولہ بارود کی گن گرج کے زریعے اور تشدد کے دوسرے طریقوں کے ذریعے حزب التحریر اور دوسرے متقی لوگوں کو خاموش کرنے میں ہرگز کامیاب نہیں ہو گی۔ یہ سارے ہتھکنڈے ان کے حوصلےپست نہیں کریں گے بلکہ اللہ کی مدد سے ان کے عزائم کو جلا بخشیں گے۔ حکو مت اپنی اس روش کے ذریعے اپنی ہی تباہی میں جلدی کر رہی ہے۔
﴿الَّذِينَ قَالَ لَهُمْ النَّاسُ إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوا لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ فَزَادَهُمْ إِيمَانًا وَقَالُوا حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ﴾
"وہ لوگ جن سے لوگوں نے کہا کہ کہ لوگ تو تمہارے خلاف اکھٹا ہو چکے ہیں اس لیے ڈرو تو اس بات نے ان کے ایمان کو اور مضبوط کردیا اور انہوں نے کہا کہ ہمارے لیے اللہ ہی کا فی ہے اور وہی بہترین کار ساز ہے"


https://www.facebook.com/pages/PeoplesDemandBD

Read more...

مسلم افواج کی جانب سے اسلام اور مسلمانوں سے غداری

نصیر الاسلام محمود

جس وقت امت مسلمہ نے خواب غفلت سے بیدار ہو کرمغرب کی غلامی اور بالادستی سے آزادی کا مطالبہ کیا اس وقت یہ مشاہدہ کیا گیا کہ مسلمانوں کی افواج ان غیر شرعی حکومتوں کا دفاع کررہی ہیں جن کو کافر مغرب نے امت مسلمہ پر مسلط کر رکھا ہے۔مسلم افواج کو چاہیے تھا کہ موجودہ خودساختہ حکومتوں سے چھٹکارہ پانے کے ذریعے مغرب کی بالادستی سے آزادی اور ایک ایسے نظام کے قیام کے لیے جس کو اللہ تعالٰی نے لوگوں کے لیے پسند کیا ہے امت کے شانہ بشانہ کھڑی ہوں۔ لیکن افواج نے انہی حکومتوں کا دفاع کیا حتٰی کہ ایجنٹ حکمرانوں کے خلاف آواز بلند کرنے پر حکمرانوں کے حکم پر مسلمانوں کا قتل عام کیا جس سے ایسا لگا کہ مسلمانوں کی افواج بھی حق اور اپنی امت کے خلاف باطل کے دست وبازو بن گئے ہیں۔
امت کی جانب افواج کے اس المناک رویے کے کچھ اسباب ہیں اور ہمیں ان اسباب پر غور کرنا چاہیے جن کی وجہ سے افواج نےان سرکش حکمرانوں کا ساتھ دیا۔ ان اسباب پر غور کرنے کے بعد ہی ہمیں معلوم ہو گا کہ یہ دردناک صورت حا ل دائمی ہے یا عارضی کہ جس پر قابو پایا جاسکتا ہے خصوصاً اس وقت جب ریاست خلافت قائم ہوجائے گی جو انشاء اللہ اب بہت قریب ہے۔
مسلمانوں کی افواج کی جانب سے مغرب کی کٹھ پتلی حکومتوں، جو کہ کفر کے ذریعے حکومت کرتی ہیں، کا ساتھ دینے کےکئی اسباب ہیں جن میں سے نمایاں یہ ہیں:
1۔ عسکری قیادت میں اعلی ترین عہدوں پر مغرب نوازوں کی موجود گی، جن کا نصب العین ہی یہ ہے کہ اپنے تکبر اور بے تحاشہ دولت جمع کرنے کے لیےاپنے عہدے سے ناجائز فائدہ اٹھایا جائے۔ لہٰذایہ اپنے عہدوں سے چمٹے رہتے ہیں اور انہیں بچانے کے لیے اپنی فوجی غیرت سے دسبرتدار ہوتے ہیں۔ کچھ تو ایسے ہیں کہ میدان کارزار کے جرنیل نہیں بلکہ مال ودولت کے جرنیل ہیں۔ یہ قیادتیں مسلم افواج کی قیادت کے اہل نہیں۔ بلاشبہ یہ لوگ دشمن کے مقابلے میں امت کی رسوائی کے ذمہ دار ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے ذریعے مغرب امت کے معاملات میں نہ صرف مداخلت کرتا ہے، بلکہ انہی کے ذریعے حکومت کرتا ہے کیونکہ یہ مغرب کی طرف سے مسلط کردہ خود ساختہ حکومتوں کی چوکیداری کرتے ہیں۔ یوں یہ قیادتیں مسلم علاقوں میں سرکشوں کے تخت و تاج اورخود ساختہ حکومتوں کی حفاظت کے لیے افواج کی قیادت کرتی ہیں۔حقیقی جنگوں میں افواج کی قیادت کرنے کی بجائے استعماری کافر کے مفادات کے لیے امت مسلمہ کے خلاف جنگ میں ان کی قیادت کرتے ہیں۔ اس کی ایک مثال عراق کے خلاف جنگ میں مسلم افواج کا مغربی صلیبی اتحاد میں شامل ہو نا ہے۔اسی طرح ایک اور مثال پاکستانی فوج اور متحدہ عرب امارات وغیرہ کے فوجی یونٹوں کا افغانستان پر قبضے کے لیے نیٹو اور امریکہ کی مدد کرنا ہے۔اگر یہ قیادتیں ان مسلم قیادتوں کی طرح ہوتیں جیسا کہ صحابہ، تابعین اور پھر اسلامی حکومت کے سائے میں تیرہ سو سالتک انکے نہج پر چلنے والے لوگ جن کے ذکر سے تاریخ کے اوراق بھرے ہیں، تو اس امت کو موجودہ کزتوری اور ذلت کا سامنا نہ ہوتا۔کہاں یہ موجودہ قائدین اورکہا ں محمدﷺ، اسلامی فوج کے پہلے کمانڈر انچیف۔ بدر کے دن آپﷺ اپنے صحابہ کی صفیں سیدھی فرمارہے تھے اور آپﷺ کے دست مبارک میں ایک تیر تھا جس سے آپﷺ صفیں درست فرمارہے تھے، اس دوران سواد بن غزیۃ کے پاس سے گزرے جو کہ بنی عدی بن النجار کے حلیف تھے ۔سواد بن غزیتہ صف سے آگے نکلے ہوئے تھے، رسول اللہ ﷺ نے تیر سے ان کے پیٹ کو دبایا اور فرمایا: سواد قطار میں ہو جا ؤ۔ انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول ﷺ! آپ نے مجھے تکلیف دی میں بدلہ لینا چاہتا ہوں۔ رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا: بدلہ لے لو۔ انہوں نے کہا : آپ ﷺ نے جب دبایا تھا تو میں نے قمیض نہیں پہنی ہوئی تھی۔رسول اللہ ﷺ نے بطن مبارک کو ظاہر کیا اور فرمایا: بدلہ لے لو۔ سواد آپ ﷺ سےلپٹ گیا اور بطن مبارک کو بوسہ دیا۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اے سواد تم نے ایسا کیو ں کیا ؟ انہوں نے کہا: آپﷺ کو معلوم ہے کہ جنگ میں کود نا ہے اور ہو سکتا ہے کہ قتل ہوجاؤں تو میں نے چاہاکہ آپﷺ کے ساتھ آخری معاملہ میرا یہ ہو کہ میرا بدن آپﷺ کے بدن کو چھوئے۔رسول اللہ ﷺ نے ان کے لیے خیر کی دعا فرمائی۔ ایک بار ایک مسلم کمانڈر جن کے سامنے لذیذ کھا نا لایا گیا تو انہوں نے پوچھا کہ سپاہیوں کو بھی یہی کھانا دیا گیا ہے۔ کہا گیا نہیں۔ تو انہوں نے کہا کہ پھر میرے لیے بھی وہی کھانا لاؤ جو عام سپاہیوں کے لیے ہے۔
2 ۔ مسلم افواج میں موجود فوجی نظریات اور قوائد کا اسلامی عقیدے سے الگ ہونا۔ اگرچہ عالم اسلام میں افواج کا عقیدہ اسلامی عقیدہ ہی ہے مگر ان افواج کا فوجی نظریہ اسلامی عقیدے سے الگ ہے۔یہی وجہ ہے کہ ایک مسلم سپاہی وطنی چپقلش، نسلی تعصب یا کسی بھی جاہلانہ سوچ کی وجہ سے اپنے ہی ہم عقیدہ بھائی سے لڑتا ہے۔ وہ اسلامی عقیدہ جو ان کو یک جان کر تا تھا باہمی جنگوں اور لڑائیوں میں غیر مؤثر ہے۔ اسلامی عقیدے کی حمیّت عالم اسلام کی افواج میں موجود سپاہیوں پر اثرانداز نہیں ہو رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک سپاہی بشمول اپنے علاقے کے دنیا کے مختلف حصوں میں اپنے بہن بھائیوں کی آہ و بکا سن اور دیکھ کر بھی اس کو اپنے اس اسلامی عقیدے سے مربوط نہیں کرتاجس کی بنیاد پر مجبوروں اور مظلوموں کی مدد کرنا اس کی ذمہ داری ہے۔ اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں کہ بے بس اور ستائے ہوئے مسلمان مدد کے لیے پکار رہے ہیں جیسا کہ شام کے مسلمان، برما کے مسلمان، فلسطین اور کشمیر کے مسلمان اور افغانستان کے مسلمان لیکن مسلم افواج کے سپاہی اس کو اپنے عقیدے سے اس طرح مربوط نہیں کرتے جیسے وہ نمازاوربعض عبادات خصوصاً نوافل کو کرتے ہیں۔ اپنے مجبور بھائیوں کے حوالے سے اپنے اوپر عائد ہونے والے فریضے کواسلامی عقیدے سے مربوط نہیں کرتے۔ وہ اگر چہ اللہ کے اس ارشاد کی تلاوت کرتے ہیں ...وَإِنِ اسْتَنْصَرُوكُمْ فِي الدِّينِ فَعَلَيْكُمُ النَّصْرُ... (اگر وہ دین کی بنیاد پر تم سے مدد مانگیں تو مدد تم پر لازم ہے)، مگر وہ اس آیت کو اپنے دینی بھائیوں کی مددکے حوالے سے اپنی ذمہ داری سے مربوط نہیں کرتے۔ اسی طرح اگر چہ ان کو اس خاتون کا قصہ یاد ہے جس نے "وامعتصماہ" یعنی "ہائے معتصم " کہہ کر مدد طلب کی تھی اور معتصم بھی اس کی مدد کےلیے نکل پڑا تھا اور اس کو اور اس کے ساتھ دوسرے خاندانوں کو آزاد کرالیا اور اس علاقے کو جس میں "انقرہ" بھی شامل تھا فتح کر لیا۔ مگر یہ اس قصے کو اپنے آباؤاجداد پر فخر کرنے کے لیے پڑھتے ہیں ان کے نقش قدم پر چلنے کے لیے نہیں۔
اسلامی عقیدے کا مسلم افواج کے فوجی نظریے کی اساس ہونا لازمی ہے۔ اسلامی فوج کا نصب العین اسلامی عقیدے، مسلمانوں اور اسلامی ریاست کی حفاظت اور اسلام کی دعوت کو پوری انسانیت تک پہنچانا ہےکیونکہ اسلام پوری انسانیت کے لیے اللہ کی ہدایت ہے۔ کوئی بھی چیز جو مذکورہ امور میں سے کسی ایک کے لیے خطرہ پیداکرے تو اسلامی افواج کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان کے دفاع اور حفاظت کے لیے سر دھڑ کی بازی لگادے۔
3 ۔ مسلم افواج میں اسلامی ثقافت(اسلامی تربیت) کا فقدان بلکہ ان کی تربیت غیر اسلامی ثقافت کے ذریعے کی جاتی ہے۔ لہٰذا مسلم افواج کافر استعمار کے سامنے کمزور پڑ جاتے ہیں۔مغرب اپنی ثقافت نافذکرنے کی شرط پر ہماری افواج کو اسلحہ فراہم کرتا ہے ۔وہ ہماری افواج کو ایسے کورسز کرواتے ہیں جن میں کرپٹ مغربی آزادیوں کے تصور اور جمہوریت کی تعریف بیان کی جاتی ہے اور نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر دراصل اسلام کے خلاف لڑنے پر ان کی تعریف وتوصیف کی جاتی ہے۔یہ تربیت اس حد تک کی گئی کہ اب ہماری افواج اپنے ہی لوگوں کو دہشت گرد سمجھتے ہوئے جنگ کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دیکھنے میں آتا ہے کہ فوجی انٹلیجنس ایجنسیاں اسلامی شعائر کے پابند اور امت کے عروج کے لیے کام کرنے والوں کو نشانہ بناتی ہیں اور امت کے خلاف دشمن مغربی ممالک کی سازشوں کی انھیں کوئی پروا نہیں ہوتی ۔ مثال کے طور پر افواج پاکستان کی تربیت اس طرح کی جاتی ہے کہ اس سے امریکہ خوش ہو جائے اور اس کے مفادات کی حفاظت ہو سکے۔ اسی کو بنیاد بنا کر فوج نے یہ نظریہ اپنایا کہ دشمن اندرونی ہے جس کی تعریف امریکہ نے "سیاسی اور جہادی اسلام" کے طور پر کی ہے۔ انھوں نےامریکہ اور بھارت کودشمن نہیں سمجھا بلکہ سیاسی و جہادی اسلام کے لیے جدوجہد کرنے والوں کو دشمن قرار دیا۔ انھوں نے ان مجاہدین کو دبانا شروع کردیا جو خطے میں امریکہ کے قبضے کے خلاف لڑتے ہیں اور یہ کہا کہ یہ لوگ "دہشت گرد" اور "قومی سلامتی" کے دشمن ہیں۔ پاکستان کی فوجی انٹیلی جنس نے فوج اور عام شہریوں میں موجود ان اسلام کے داعیوں کی جاسوسی کرنا شروع کردی جو خلافت کے قیام کے ذریعے امت کی نشاۃ ثانیہ کے لیے سخت جدوجہد کررہے ہیں۔
فوج کو لازمی بہترین اور اعلٰی پیشہ ورانہ تعلیم وتر بیت فراہم ہونی چاہیے اور ان کی سوچ میں فکری بلندی کی سطح بھی ممکن حد تک اعلٰی ہونی چاہیے۔اس کے علاوہ فوج میں ہر شخص کی اسلامی تربیت بھی ہونی چاہیے جو انھیں اس قابل کرے کہ وہ اسلام کو سمجھ سکیں تا کہ ایک سپاہی اپنے اصل دشمن کو جان سکے اور اسے شکست دینے کے لیے لڑے اور اس کو اپنی شرعی ذمہ داری سمجھے اور رسول اللہ ﷺ کے قول کے مطابق عمل کرے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فر مایا ((كُلُّ رَجُلٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ عَلَى ثَغْرَةٍ مِنْ ثُغَرِ الْإِسْلَامِ، اللهَ اللہَ لَا يُؤْتَى الْإِسْلَامُ مِنْ قِبَلِك)) "مسلمانوں میں سے ہر شخص اسلام کی چوکیوں میں سے ایک چوکی کا محافظ ہے، اسے اپنی چوکی سے اسلام کا دفاع کرنا ہے اور اپنی چوکی پر شکست کو قبول نہیں کرنا ہے"۔
اس سب کچھ کے بعد اب سوال یہ ہے کہ کیا ان افواج سے امیدیں وابستہ کی جاسکتی ہیں؟
اس کا جواب ہے کہ یقیناً انہی سے امید بھی ہے۔ باوجود اس کے کہ مذکورہ بالا اسباب کی بنا پر ان افواج نے امت مسلمہ کو بے یارومدد گار چھوڑ دیا جس کی وجہ سے امت اپنے دشمنوں کے سامنے شرمندہ ہوئی مگر مسلم افواج میں مخلصین کی بھی ایک بڑی تعداد ہے جو مناسب موقع پر اسلام اور مسلمانوں کی مدد کا انتظار کر رہے ہیں۔ وہ یہ جانتے ہیں کہ ان کی اجل اور رزق اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے۔ امت کا عروج خالدبن ولید رضی اللہ عنہ کے انہی فرزندوں پر موقوف ہے۔خالد نےبستر مرگ پر لیٹے ہوئے فرمایا تھا ((لقد شهدتُ مائة زحف أو زُهاءَها، وما في جسدي موضع شبر إلا وفيه ضربةٌ أو طعنة أو رَمْية، ثم هأنذا أموت على فراشي كما يموت العَيْر، فلا نامت أعين الجبناء)) "میں نے شہادت کی آرزو لیے سیکڑروں جنگیں لڑی ہیں کہ میرے جسم میں کوئی جگہ ایسی نہیں جہاں تلوار، نیزے اور تیر کے زخم کا نشان نہ ہو۔ پھر بھی اب میری یہ حالت ہے کہ آج اونٹ کی طرح بستر پر مر رہا ہوں، بزدلوں کی آنکھیں ہمیشہ شرمندگی سے نم رہیں"۔یہ وہ سپاہی تھے جو واقعی اللہ کی تلوار کہلوانے کے حقدار تھے اوروہ تلوار اسلام اور مسلمانوں کے دشمنوں کے خلاف آخری دم تک حرکت میں رہی۔
ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اسلامی علاقوں میں فوجیوں کی بہت بڑی اکثریت صرف آرڈر(حکم) کی پابندی کر رہی ہے جبکہ ان کے دل خون کے آنسو روتے ہیں کیونکہ وہ بھی اس امت کا حصہ ہیں۔ جیسے ہی ان کو موجودہ ایجنٹ قیادتوں سے جان چھڑانے کا موقع ملے گا تو وہ فوراً یہ کام کرگزریں گے ۔
یوں ان افواج سے بڑی امیدیں وابستہ ہیں۔ انہی کے اندر امت کے جواں مرد موجود ہیں۔ عنقریب امت اور اس کی افواج کافر مغرب سے چھٹکارا پالیں گی اور ایسے کارہائے نمایاں انجام دیں گی کہ اللہ ان سے راضی ہو جائے گا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ((وَاعْلَمُوا أَنَّ الْجَنَّةَ تَحْتَ ظِلاَلِ السُّيُوفِ)) "جان لو کہ جنت تلواروں کے سائے میں ہے"۔

Read more...

امریکی راج خاتم کرو، خلافت قائم کرو راحیل-نواز حکومت امریکی موجودگی کو دوام بخشنے کی بھر پور کوشش کررہی ہے

حزب التحریر افغانستان سے محدود انخلاء کے امریکی منصوبے کے اعلان کے بعد راحیل-نواز حکومت کی جانب سے خطے میں امریکی موجودگی کو دوام بخشنے کی کوششوں کی پرزور مذمت کرتی ہے۔ یکم جنوری 2014 کو امریکہ میں پاکستان کے نئے سفیر ، جلیل عباس جیلانی نے ایک انٹرویو میں خبردار کیا کہ " امریکی انخلاء کی محض بات چیت ہونے کی وجہ سے اس کے اثرات ظاہر ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ پہلے سے زیادہ افغان مہاجرین پاکستان پہنچنا شروع ہوگئے ہیں۔۔۔اگر افواج کی بڑی تعداد واپس چلی جاتی ہیں تو زیادہ ذمہ داری ہمارے کاندھوں پر آجائے گی"۔
یہ بیان ایک جھوٹ ہے کیونکہ اس سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ جیسے محدود انخلاء کے نتیجے میں خطے کی صورتحال مزید خراب ہوجائے گی جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ایک دہائی سے مسلسل وسیع ہوتی امریکی موجودگی نے یہ ثابت کیا ہے کہ پاکستان اور افغانستان دونوں کو اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ خطے سے امریکہ کی موجودگی مکمل طور پر ختم ہوجائے جس میں سفارت خانوں، قونصل خانوں ، سفارتی عملے، انٹیلی جنس اور نجی امریکی افواج کا خاتمہ بھی شامل ہے۔ یہ امریکی موجودگی ہی ہے جس کے نتیجے میں پاکستان میں ریمنڈ ڈیوس نیٹ ورک اب تک موجود ہے جو ہمارے ملک میں بم دھماکوں اور قتل و غارت گری کے واقعات کا اصل ذمہ دار ہے اور پھر اس صورتحال کو بہانا بنا کر ہماری افواج کو قبائلی علاقوں میں بھیجا جاتا ہے۔ یہ امریکی موجودگی ہی ہے جس نے افغانستان میں بھارت کی موجودگی کو یقینی بنایا ہے اور پھر بھارت اس سے فائدہ اٹھا کر قبائلی علاقوں اور بلوچستان میں کاروائیاں کر کے پاکستان کو غیر مستحکم کرتا ہے۔ اور یہ امریکی موجودگی ہی ہے جس نے تباہی و بربادی کے سلسلے کو افغانستان کے مسلمانوں پر مسلط کردیا ہے۔
اس کے علاوہ اس وقت یہ بیان دینااس بات کی نشان دہی کرتا ہے کہ مشرف و عزیز یا کیانی و زرداری کے دور سے جاری پالیسیوں میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ یہ بیان اس وقت آیا ہے جب امریکہ نے یہ اعلان کردیا ہے کہ وہ مکمل طور پر نہیں جارہا۔ 3 دسمبر 2013 کو نائب سیکریٹری خارجہ برائے جنوبی و وسطی ایشیا، نیشا ڈیسائی بسوال نے اعلان کیا کہ "پاک افغان خطے میں ہماری موجودگی ہمیشہ کے لیے ہے۔ ہم نہیں جارہے۔ ہم کہیں بھی نہیں جارہے"۔ اور یہ بیان اس وقت آیا ہے جب امریکہ خطے میں اپنی مستقل موجودگی کو برقرار رکھنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ 7 دسمبر 2013 کو امریکہ سیکریٹری دفاع چک ہیگل نے کہا کہ " کابل کے دورے کے دوران اسے اس بات کی یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ 2014 کے بعد افغانستان میں امریکی افواج کو برقرار رکھنے کے لیے درکار معاہدہ کو مناسب وقت پر مکمل کرلیا جائے گا"۔ لہٰذا راحیل-نواز حکومت غداری کے اسی راستے پر چل رہی ہے جس پر اس سے پہلے کیانی زرداری حکومت اور اس سے بھی پہلے مشرف و عزیز حکومت چل رہی تھی۔
وقت کی اہم ترین ضرورت یہ ہے کہ خلافت کا قیام عمل میں لایا جائے جو خطے میں موجود دشمن کی تنصیبات اور ڈھانچے کےخاتمے کے لیے تمام دستیاب وسائل کو فوری حرکت میں لائے گی۔ ایسی حکومت صرف خلافت میں ہی ممکن ہے جو دشمن کے احکامات کو تسلیم کرنے کی بجائے صرف اور صرف اللہ سبحانہ و تعالٰی کے احکامات کے آگے جھکے گی۔ اللہ سبحانہ و تعالٰی فرماتے ہیں: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا لاَ تَتَّخِذُوا عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَاءَ تُلْقُونَ إِلَيْهِمْ بِالْمَوَدَّةِ وَقَدْ كَفَرُوا بِمَا جَاءَكُمْ مِنَ الْحَقِّ "اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! میرے اور (خود )اپنے دشمنوں کو اپنا دوست نہ بناؤ، تم تو دوستی سے ان کی طرف پیغام بھیجتے ہو اور وہ اس حق کے ساتھ جو تمھارے پاس آچکا ہے کفر کرتے ہیں" (الممتحنہ :1)۔

Read more...

عوام پکار رہے ہیں، "بہت برداشت کرلیا حسینہ اورخالدہ کو، بہت برداشت کرلیا عوامی اور بی۔این۔پی کی حکومتوں کو" اور مخلص افسران سے خلافت کے قیام کے لیے مادی مدد فراہم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں

پریس ریلیز

حزب کی جانب سے آج 27دسمبر 2013 کو مکتنگن، ڈھاکہ میں عوامی اجتماع اور مظاہرے کا اعلان کیا گیا تھا ۔ اعلان کے مطابق حزب التحریر کے ڈھاکہ اور اس کے گردو نواح کے اراکین اور کارکنان عوام کے ساتھ مل کر بڑی تعداد میں اجتماع کی جگہ کے پاس موجود مختلف مقامات پر اکٹھے ہوئے اور اجتماع کے مقام کی جانب پیدل مارچ شروع کیا۔ انھوں نے کلمہ طیبہ سے مزین جھنڈے اٹھا رکھے تھے اور وہ اپنے پُرزور نعروں کے ذریعے افواج میں موجود مخلص افسران سے عوامی-بی.این.پی حکومت کو اکھاڑ پھینکنے اور خلافت کے قیام کے لیے اختیار حزب التحریر کے حوالے کرنے کا مطالبہ کررہے تھے۔ کچھ جلوس اجتماع کے مقام کے پاس موجود مساجد میں نماز جمعہ کے اختتام کے بعد سے ہی شروع ہوگئے تھے۔ ان جلوسوں میں وقفے وقفے سے دوسرے جلوس بھی شامل ہوتے رہے۔ یہ جلوس شینگن، باغیچہ، دینک بنگلہ، بیجوئےنگر، ڈھاکہ یونیورسٹی کے کرزن ہال گیٹ اور دوسرے مقامات سے آئے تھے۔


جلوسوں کو روکنے کے لیے حکومت نے اپنی تمام طاقت کو جھونک دیا اور لاٹھی چارج، تیز آواز پیدا کرنے والے گرینیڈ اور ربڑ کی گولیا ں استعمال کیں۔۔۔لیکن مسلمان بہادری سے ڈٹے رہے اور اپنے آباؤ اجداد، حمزہ بن عبدالمطلب، عمر بن خطاب اور حسین بن علی کے نقش قدم کی پیروی کی۔ حکومت نے کئی افراد کو گرفتار کیا لیکن وہ اپنے مقصد کو حاصل کرنے میں ناکام رہی۔ جابر حسینہ کی جانب سے گرفتاریاں اور ظلم و تشدد، جو کہ آرمی افسران کی قاتل اوراستعماری طاقتوں کی ایجنٹ ہے، کبھی بھی مسلمانوں کو خلافت کے قیام کے مطالبے اور اس کے حصول کی جدو جہد سے دستبردار ہونے پر مجبور نہیں کرسکتیں۔ اور جب خلافت قائم ہوجائے گی تو وہ لازمی حسینہ کو اس کے مظالم ، بدعنوانی، غداری اور آرمی افسران ، علماء اور متقی و پرہیزگار مسلمانوں کو قتل کرنے کے جرم میں عبرت ناک سزا دے گی۔
حزب التحریر افواج میں موجود مخلص افسران سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ لوگوں اور حزب کے اراکین اور شباب کی اس زبردست اور بہادرانہ جدوجہد کی حمائت کریں۔


اے افسران! لوگ دیکھ رہے ہیں کہ تم اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری، بان کی مون کی پکار پر جنوبی سوڈان جانے کی تیاریاں کررہے ہو۔ وہ یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ تم حسینہ کے حکم کو بجا لاتے ہوئے انتخابات کے دوران "امن"قائم رکھنے کے لیے حرکت میں آگئے ہو جبکہ ان انتخابات کا مقصد محض حسینہ کے ظلم و جبر پر مبنی اقتدار کو مزید طول دینا ہے۔ کیا اقوام متحدہ کے مشن سے حاصل ہونے والے ڈالر تمھیں اپنے لوگوں کی زندگیوں سے زیادہ عزیز ہیں؟ کیا تمھاری حسینہ سے وفاداری اسلام اور مسلمانوں سے زیادہ اہم ہے؟ اگر تمھارا جواب یہ ہے کہ تم صرف آرمی کمانڈکے احکامات کی اطاعت کررہے ہو، تو ہم تم سے سوال کرتے ہیں کہ تمھاری اپنے رب کی اطاعت کہاں گئی؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ "اللہ کی نافرمانی کرکےبندے کی اطاعت نہیں کی جاسکتی "۔


اے افسران! ہم تم میں موجود بہادر مردوں سے ، وہ جو مخلص ہیں، وہ جو اسلام اور اس کی امت کے وفادار ہیں، مطالبہ کرتے ہیں کہ:
دنیا کے عارضی فوائد کے لیے اسلام اور اس کی امت کو تنہا مت چھوڑو۔ غیر شرعی احکامات اور ان کی اطاعت کے نام پر اسلام اور مسلمانوں سے منہ مت موڑو۔ حزب التحریر اور عوام تمھیں اللہ اور اس کے رسولﷺ کی دعوت کی جانب بلاتے ہیں ۔ تو اس دعوت کے علاوہ ہر دوسری دعوت، مطالبے اور احکامات کو ٹھکرا دو۔ لوگوں کی پکار کا جواب دو اور سب سے بڑھ کر اللہ اور اس کے رسولﷺ کے احکام کی اطاعت کرو۔ مسلمان ہونے کے ناطے ظالم حسینہ اور عوامی- بی.این.پی کی حکومت کو ہٹانے اور خلافت کے قیام کی اپنی ذمہ داری کوا دا کرو۔


﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ﴾
"اے ایمان والو !اللہ اور اس کے رسول کی پکار پر لبیک کہو جب وہ تمہیں اس چیز کے لیے پکاریں جس میں زندگی ہے" (الانفال: 24)

حزب التحریر کامیڈیا آفس
ولایہ بنگلادیش

 

https://www.facebook.com/pages/PeoplesDemandBD

 

مزید تصاویر کے لئے یہاں کلک کریں

 

 

Read more...

شام پر حملہ کرنے کے لیے امریکی قیادت میں عالمی اتحاد کا ہدف حکومت کے بارے میں اپنے منصوبے کو مسلط کرنا،بشار کوبچانا،اسلام پسندوں پر ضرب لگانا اور اسلام کو حکمرانی تک پہنچنے سے روکنا ہے

 

21اگست کو دمشق کے مضافات میں شہریوں کے خلاف بشار کے کیمیائی حملے کے بعد شامی حکومت کو سزادینے کے لیے شام پر حملے کے فیصلے کے اعلان نے دنیا کے کئی ممالک کو ششدر کردیا۔کئی ممالک نے اعلانیہ طور پر اس عالمی اتحاد میں شامل ہونے اور امریکی قیادت میں اس حملے میں حصہ لینے کے لیے کود پڑے۔علاقائی اور بین الاقوامی میڈیا کی لہر بھی تبدیل ہوگئی اور اس مداخلت کے بارے میں بات چیت گفتگو کا اہم ترین موضوع بن گیا۔امریکی صدراوباما نے اس کیمیائی حملے کے بارے میں کہا کہ ''بڑا اور انتہائی تشویش ناک حادثہ ہے"ساتھ ہی امریکہ کی جانب سے شام میں اسٹریٹیجک(اہم) اہداف کو نشانہ بنانے کے امریکی ارادے کا اعلان کیا گیا۔اُس نے اقوام متحدہ کی منظوری کے بغیر شام میں مداخلت کی مخالفت کی۔وائٹ ہاوس کے ترجمان نے بھی اوبامہ کی بات کو دہرایا اور کہا کہ وہ شام کی سرزمین پر امریکی افواج کواتارنے کی ابھی توقع نہیں کرتےجبکہ امریکی وزیر دفاع ہیگل نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا''ہنگامی حالات میں صدر کو اختیار سونپنا وزارت دفاع کی ذمہ داری ہے"۔پینٹاگون کے ایک عہدہ دار نے کہا کہ امریکی بحریہ کے ماتحت 4 جنگی بیڑے شام کے حوالے سے ملنے والے احکامات کو عملی جامہ پہنانے کے لیے چند گھنٹوں میں تیار ہو سکتے ہیں۔ اخبار"واشنگٹن پوسٹ" نے ایک فوجی عہدہ دار کے حولے سے یہ خبر نقل کی کہ ہر بیڑے میں 90 ''ٹام ہاک"کروز میزائل نصب ہیں،اور بحیرہ روم میں امریکی آبدوزیں بھی کروز میزائلوں سے لیس موجود ہیں،تاہم ان کے صحیح مقام کوخفیہ رکھا گیا ہے۔ساتھ ہی عمان میں دس ممالک کی افواج کا اس فوجی حملے پر گفت وشنید کرنے کے لیے بند کمرے میں اجلاس ہوا۔ اخبار'' واشنگٹن پوسٹ"نے اپنے27اگست کے شمارے میں انکشاف کیا کہ اس کاروائی میں ''وقت کی مناسبت سے تین عوامل پر اعتماد کیا جائے گا:گزشتہ ہفتے کی کیمیائی حملے میں حکومت کے ملوث ہونے کے بارے میں ایجینسیوں کی مکمل رپورٹ،اتحادیوں اور کانگریس کے ساتھ جاری مشاورت کی تکمیل،بین الاقوامی قانون کے مطابق اس حملے کے جواز کی تجدید"۔اس حملے کے ہدف کے بارے میں امریکہ نے اعلان کردیا کہ یہ بشار کی جانب سے کیمیائی اسلحہ استعمال کرنے پر ایک تادیبی سزا ہوگی ناکہ حکومت کو تبدیل کرنے کے لیے۔ایک اعلی سطحی امریکی عہدہ دار نے کہا کہ کیمیائی حملے نے یہ واضح کر دیا کہ شام کے بحران کو ختم کرنے کے لیے ''جامع اور پائیدار سیاسی حل ناگزیر ہے"۔
عسکری حملے کی اس بین الاقوامی تائید ،امریکہ کی جانب سے فوجی حرکت اور اس حملے کے حوالے سے میڈیا میں خبروں کے تسلسل نے شرمناک ڈرامائی انداز سے روسی موقف کو پس منظر میں دھکیل دیا۔ روسی وزیر خارجہ لافروف نے یہ اعلان کردیا کہ روس کسی کے لیے جنگ میں نہیں کودے گا اورحملے کی صورت میں طرطوس کے اپنے بحری اڈے کے جنگی یونٹوں کو خالی کرنے کا بھی اعلان کردیا،اپنے 120 سے زیادہ شہریوں کو بھی وہاں سے نکال لیا،۔ 28اگست کو جنیوا 2 کانفرنس کی تیاریوں کے سلسلے میں لاہی میں امریکیوں کے ساتھ مجوزہ ملاقات ملتوی ہونے پر بھی افسوس کا اظہار کیا۔جہاں تک ایران کا تعلق ہے وہ اچھل کود اور شور شرابہ کر رہا ہے لیکن بڑے نرم انداز سے ،یاد رہے کہ امریکہ اور اقوام متحدہ کا سیاسی عہدہ دار مکار اور شاطر جیفری فلیٹمین نے تہران کا دورہ کیا اور ایرانی قیادت کے سامنے صورتحال اور کرداروں کی تقسیم کی بات رکھ دی۔
یقینا امریکہ ہی شام میں اکیلے بالادستی رکھتا ہے اور اس انقلاب سے اس کی بالادستی کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔وہ ہر قسم کی سیاسی داوپیچ اور وحشیانہ جرائم کو استعمال کرنے کے باوجود انقلاب پر قابوپانے میں ناکام ہو گیا ہے۔وہ بشار کا متبادل ایجنٹ تیار کرنا تو دور کی بات ہے اس کی گرانٹی دینے میں بھی کامیاب نہ ہوسکا۔اب وہ اپنے جہنمی منصوبے کو نافذ کرنے پراتر آیا ہے جس کو وہ خود نافذ کرنا چاہتا ہے۔ وہ لوگوں کو قتل کرنے کے وحشیانہ جرائم اور درند گی میں بشار سے کم نہیں ہو گا۔اس منصوبے کا آغاز بشار کی جانب سے کیمیائی حملے سے ہوا جس کو جواز بنا کر اب امریکہ عسکری مداخلت کر رہا ہے۔پھر اس عسکری مداخلت کے ذریعے سیاسی عمل کی راہ ہموار کی جائے گی جو جنیوا2 کانفرنس کا پیش خیمہ ثابت ہو گا۔شامی اپوزیشن کے ایک لیڈر نے''الشرق الاوسط"سے بات کرتے ہوئے حلیف ممالک اور شامی اپوزیشن کے درمیان طے پانے والے معاہدے کی طرف اشارہ کیااورکہا''اس آپریشن سے بشا ر حکومت کو ختم نہیں کیا جائے گا بلکہ اے جنیوا 2 معاہدے کے لیے مذاکرات کے میز پر لایا جائے گا اوراسی کے نتیجے میں بل آخر مذاکرات کے اختتام پر شامی صدر برطرف ہوں گے"۔بلکہ الشرق الاوسط نے مزید انکشاف کیا کہ اپوزیشن ذرائع کے مطابق امریکہ نے ان سے ''اہداف کے تعین" کا مطالبہ کیا۔یہ بات بھی اٹل ہے کہ یہ کانفرنس اُن لڑنے والوں کو ختم کرنے کے پر بھی بحث کرے گی جن کا منصوبہ شام میں ریاست خلافت کا قیام ہے۔اس وجہ سے یہ بات متوقع ہے کہ یہ حملہ محدود اور ٹارگیٹڈ ہو گا جس سے شام کے بنیادی عسکری ڈھانچے کو تباہ کیا جائے گا تاکہ نیا شام اسرئیل کے مقابلے میں بے دست وپا ہو۔اس سے بے شمار مسلمانوں کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑے گا جیسا کہ لیبیا میں ہوا یا افغانستان میں ہو رہا ہے کہ بغیر پائلٹ کےامریکی جہازوں کی بمباری سےالقاعدہ اور طالبان قیادت کو نشانہ بنانے کے نام پر اجتماعی طورپر شہریوں کو قتل کیا جاتاہے۔اس عسکری دباؤ کے ذریعے امریکہ اپنے آپ کو بطور بات چیت کے رکھوالے کے طور پر پیش کرے گا،پھر اپوزیشن اور حکومت پر اپنا منصوبہ تھوپ دے گا،ساتھ بین الاقوامی امن فوج کو قومی فوج سے تعاون کے نام پر اپنے منصوبے کی مخالفت کرنے والوں کو قتل کرنے کے لیے استعمال کرے گا۔اُن سیکیوریٹی اداروں کو باقی رکھے گا جن سے بشار مسلمانوں کا قتل عام کر رہا ہے کیونکہ یہی نئی حکومت کی بقا کی ضمانت ہوگی۔بین الاقوامی عدالتیں بھی قائم کی جائیں گی تاکہ لوگوں کو مطمئن کر نے کے لیے کچھ لوگوں کو سزائیں دی جائے جس سے لوگوں کو یہ احساس ہو جائے کہ ان کے ساتھ انصاف ہوگیا جیسا کہ کوسووو میں کیا گیا۔۔۔۔
اے شام اور ساری اسلامی دنیا کے مسلمانو:امریکہ ہی ساری دنیا میں برائی کی جڑ ہےاوروہی مسلمانوں کا سب سے بڑا دشمن ہے۔وہ اب شام میں قتل و غارت کا بازار گرم کرنے کے لیے آرہا ہے جو اس سے کم نہیں ہو گا جو اس نے عراق اور افغانستان میں کیا ہے۔تم دیکھ لو گے وہ بشار کی جگہ مسلمانوں کی اجتماعی قتل کی مہم جوئی خود انجام دے گا۔اس کو قتل کرنے ، سکیولر آئین اور تم پر ایجنٹ حکمران کو مسلط کرنے کی بین الاقوامی منظوری بھی حاصل ہو گی۔۔۔۔۔لیکن امریکہ آج پہلے کی نسبت خطے میں بہت کمزور ہے۔اس کو اپنی بالادستی کھونے کے خطرے کا سامنا ہے۔وہ مصر اور شام میں اپنے ایجنٹوں کے ذریعے حالات کو قابو کرنے میں ناکام ہو چکا ہے۔مسلمانوں کے ساتھ یہ اس کا تلخ تجربہ ہے۔وہ آج یہ دعوی کر رہا ہے کہ اس کا شام پر قبضے کا کوئی ارادہ نہیں جیسا کہ اس نے عراق اور افغانستان میں کیالیکن وہ بغیر قبضہ کیے اپنے مفادات کے حصول کے لیے اپنے سیاسی ایجنڈے کو مسلط کرنا چاہتا ہے۔۔۔۔امریکہ کی اس مداخلت اور حملے کو مسترد کرنا فرض ہے جو بھی اس کی کوشش کر رہا ہے اور اس میں اس کی مدد کر رہا ہے وہ اپنے دین اور امت کا غدار ہے۔۔۔۔امریکہ اپنے مفادات اور اپنے ایجنٹ بشار جس کو وہ اب بھی صدر تسلیم کرتا ہے بچانے کے لیے آرہا ہے۔وہ اس کو اور اس کے خاندان کو محفوظ راستہ دینے کی ضمانت دے گا۔۔۔۔یہی امریکہ تمہارا اصل دشمن ہے اس کے ساتھ دشمن کا معاملہ کرو اس کے ایجنٹوں کو گھٹلی کی طرح نکال کر پھینک دو۔تم نے جس قتل و غارت ،نِت نئے عذاب،نسل کشی،بھوک،ذلت اور پکڑدھکڑ کا سامنا کیا ہے اس کا بدلہ صرف زمین میں اللہ کے کلمے کو بلند کر نا ہے۔۔۔۔امریکہ اُوباشی اور بدمعاشی کے حدوں کو پار کرہا ہے اور یہ چاہتا ہے کہ تمہارے خلاف جنگ میں ساری دنیا اس کا ساتھ دے۔وہ بار بار یہی دہرارہا ہےاورتم میں سے کسی کے پاس اس جرم پر خاموشی اختیار کرنے کا کوئی عذر نہیں بلکہ اس کو روکنے کی کوشش فرض ہے۔
اے شام اور ساری دنیا کے مسلمانو:ہمارے تمام اعمال اللہ کی مرضی کے مطابق ہونے چاہیے۔اللہ تعالی نے اسلام کے منصوبے کو ریاست خلافت کے قیام پر مبنی ہونے کو فرض قرار دیا ہے۔اپنے آس پاس دیکھو کیا اس منصوبے کے علاوہ کوئی منصوبہ ہے جو مسلمانوں کو ایک کلمے تلے یکجا کرے گا،جس کے ذریعے ہی تم امریکی منصوبے کا مقابلہ کر سکتے ہو؟!کیا اللہ تعالی کے بغیر تم کفر کی اس جمعیت پر غالب آسکتے ہو؟!تم اللہ کے ساتھ ہو جاؤ اللہ تمہارے ساتھ ہو گا،تم اس کے دین کی مدد کرو وہ تمہاری مدد کرے گا،بے شک حزب التحریر اس عظیم فرض کی ادائیگی کی طرف تمہیں دعوت دیتی ہے جس سے امریکہ اور مغرب اور مسلمانوں کے حکمران اور سیکولر سب لڑ رہے ہیں لیکن اللہ ہی اپنے فیصلے میں غالب ہے ،ارشاد ہے:

أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُواْ وَإِنَّ ٱللَّهَ عَلَىٰ نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌط ٱلَّذِينَ أُخْرِجُواْ مِن دِيَارِهِم بِغَيْرِ حَقٍّ إِلاَّ أَن يَقُولُواْ رَبُّنَا ٱللَّهُ وَلَوْلاَ دَفْعُ ٱللَّهِ ٱلنَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَّهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ يُذْكَرُ فِيهَا ٱسمُ ٱللَّهِ كَثِيراً وَلَيَنصُرَنَّ ٱللَّهُ مَن يَنصُرُهُ إِنَّ ٱللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ ط ٱلَّذِينَ إِنْ مَّكَّنَّاهُمْ فِى ٱلأَرْضِ أَقَامُواْ ٱلصَّلواَةَ وَآتَوُاْ ٱلزَّكَواةَ وَأَمَرُواْ بِٱلْمَعْرُوفِ وَنَهَوْاْ عَنِ ٱلْمُنْكَرِ وَلِلَّهِ عَاقِبَةُ ٱلأُمُورِ ط

"جن (مسلمانوں) سے (کافر) جنگ کررہے ہیں انہیں بھی مقابلے کی اجازت دی جاتی ہے کیونکہ وہ مظلوم ہیں ۔ بےشک ان کی مدد پر اللہ قادر ہے ۔ یہ وہ ہیں جنہیں ناحق اپنے گھروں سے نکالا،صرف اس وجہ سے کہ وہ کہتے ہیں کہ ہمارا رب صرف اللہ ہے۔ اگر اللہ لوگوں کو آپس میں ایک دوسرے سے نہ ہٹاتا رہتا تو عبادت خانے اور گرجے اور مسجدیں اور یہودیوں کے معبد اور وہ مسجدیں بھی ڈھا دی جاتیں جہاں اللہ کا نام بہ کثرت لیا جاتا ہے۔ اللہ کی جو مدد کرے گا اللہ بھی اس کی مددضرور کرے گا۔بے شک اللہ قوی اور زبردست ہے۔یہ وہ لوگ ہیں جن کو ہم زمین میں اقتدار دیں تو وہ نماز قائم کریں گے اور زکواۃ ادا کریں گے اوراچھے کاموں کا حکم کریں اور بُرے کاموں سے منع کریں"(الحج:39-41)

حزب التحریر
ولایہ شام

Read more...

خلافتِ عثمانیہ کی فضائیہ

ڈاکٹر عبدلرافع، فواد سعید

رائٹ برادران کی اوہائیو (امریکا) میں پہلی کامیاب ہوائ جہاز کی پرواز کے صرف چھہ سال بعد ہی اسلامی ریاست (خلافتِ عثمانیہ) فوجی فزائی پروگرام کو شروع کرنے والی دنیا کی پہلی قوموں میں سے ایک بن گئی۔ مسلمانوں کا اس ٹیکنالوجی کو اپنانے میں یہ فوری قدم نہایت اثر انگیز لگتا ہے، دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اسلامی ریاست کی حفاظت اور اس کے پھیلاؤکے مقصد سے نئی نئی تکنیک اور ٹیکنالوجی کو حاصل کرنے کی بنیاد خود رسول اللہﷺ نے رکھی۔
طبریؒ نے اپنی ‘تاریخ' میں روایت کیا ہے کہ رسول اللہﷺ نے اپنے دو صحابہ، عروہ ابن مسعودؓ اور غطان ابن سلمہؓ، کو دبابس (ٹینک کی طرح کے ہتھیار)، منجنیق اور دھابور (ٹینک ہی سے ملتے جلتے) کی تکنیکی کاریگری کو سیکھنے کے لئے شام کے شہر جرش بھیجا تھا ۔
رسول اللہ ﷺ کی سیرت سے اور بہت سی مثالیں ملتی ہیں، جیسے کہ فارس کے لوگوں کے انداز میں غزوہ میں خندق کا استعمال، یا پھر منجنیق کی تیاری اور اس کے استعمال کے فن کو سیکھنے کے لئے ایک گروہ کو یمن بھیجنا۔ اسلامی ریاست رسول اللہﷺ کی سنت پر اس وقت بھی عمل کرتی رہی جب وہ ٹیکنالوجی میں دنیا کی قیادت کر رہی تھی۔ اور جب توانائی کی پرواز اور فضائی ہتھیاروں کی ٹیکنالوجی پروان چڑھی تو اسلامی ریاست نے ان ٹیکنالوجیوں کو اپنے استعمال کے لئے حاصل کرنے کے لئے کوئی وقت ضائع نہیں کیا۔
فضائیہ کی تاریخ کسی اور سائنس یا ٹیکنالوجی کی تاریخ سے مختلف نہیں ۔ فضائیہ میں یہ ترقی پہلی توانائی کی پرواز سے صرف چند سال پہلے ہی نہیں ہوئی، بلکہ یہ ایک طویل اور بھرپور تاریخ ہے جس میں چھوٹی چھوٹی پیشرفت میں بھی صدیاں بیت گئیں۔ کئی قدیم تہذیبوں نے پروجکٹائل ہتھیار تیار کئے اور اور انسان کی پرواز کے لئے طرح طرح کے آلات اور ڈزائن تیار کئے، جن میں سے بہت سےتجربے ناکام ہوئے لیکن کچھ کامیاب بھی رہے۔ ان میں قدیم یونان سے آرقائیتص کا مکانیکی کبوتر، چین سے آسمانی قندیل (گرم ہوائی غبارے) اور پہلا راکٹ ہتھیار جو چینیوں نے منگولوں کے خلاف استعمال کیا، جیسی مثالیں شامل ہیں۔ گیارہویں صدی ہجری کے تاریخ دان احمد محمد المقاری لکھتے ہیں کہ تیسری صدی ہجری میں عباس ابن فرناس پہلے شخص تھے جنہوں نےاپنے ڈزائن کئے ہوئے ونگ کونٹریپشن (پر نما آلے کے نظام) کے ذریعے سے گلائڈنگ ونگ (ہوا کے بہاؤ میں پروں کی) پرواز میں کامیابی حاصل کی۔
فضائیہ کے جدید دور کو صنعتی انقلاب کی آمد کے ساتھ مذید رہنمائی حاصل ہوئی۔ توانائی کی پرواز میں بڑی پیشرفت انیسویں صدی میں یورپ میں ہوئی جس کے نتیجے میں توانائی کی پروازوں میں کامیابی حاصل ہوئی۔ رائٹ برادران نے اپنے سے پہلے آنے والوں اور اپنے ہم عصر لوگوں کے کام کو بنیاد بناتے ہوئے، توانائی اور کنٹرول کے مسائل کو حل کیا اور ۱۹۰۳ میں اپنی تاریخی پرواز کی۔ اس کے بہت جلد بعد ہی انگلنڈ، فرانس، امریکہ، جرمنی، روس اور اٹلی نے اپنے فوجی فضائیہ کے پروگرام شروع کئے اور اسلامی ریاست نے بھی ان کی برابری کرتے ہوئے اپنا فضائیہ کا پروگرام ‘عثمانلی ہوا کووتلری' شروع کیا۔
اسلامی ریاست کے یورپ میں موجود فوجی سفارتکاروں نے یورپ میں ہونے والی فوجی ہوائی جہازوں کی تیاری کے کام کی معلومات حاصل کی اور بہت جلد ۱۹۰۹ میں خلافت عثمانیہ کے فوجی افسروں نے فرانسیسی ہوا بازوں کو استنبول میں کارکردگی دکھانے کی دعوت دی۔ جنگی وزیر محمت سِوکت پاشہ کی دعوت پر بلجیم کے پائلٹ بیرن ڈی کیٹرز نے استنبول آکر اپنے وائسن بائی پلین (دوہیرے پروں والے جہاز) کی نمائشی پرواز کی۔ اس مظاہرے کا براہ راست نتیجہ یہ نکلا کہ اسلامی ریا ست میں ملٹری ایوییشن (فوجی ہوابازی) کے بارے میں آگاہی اور شوق پیدا ہوا۔ عہدیداروں نے پیرس میں ہونے والی بین الاقوامی ایوییشن کانفرنس میں ایک ڈیلیگیشن بھیجا۔ ۱۹۱۰ میں مسلمان اُمیدواروں کو پائلٹ کی ٹریننگ کے لئے یورپ بھیجا گیا، لیکن ریاست میں مالی مشکلات کی بنا پر اس پلان کو ملتوی کرنا پڑا۔ اس کے باوجود کچھ پائلٹوں نے پیرس کے فزائی اسکولوں میں ٹریننگ حاصل کر کے اپنی فضائی سندیں حاصل کیں۔
عثمانی خلافت کے فوجی عہدیدار یورپ کی قوموں کے درمیاں بڑھتی ہوئی ہتھیاروں کی دوڑ اور مستقبل کی جنگی حکمت عملی میں فضائیہ کی اہمیت سے بھرپور واقفیت رکھتے تھے۔ کسی اچانک حملے یا پھر دوسری قوموں سے پیچھے رہ جانے سے بچنے کے لئے، جنگی وزیر محمت سِوکت پاشہ نے لفٹنٹ کرنل صوریا بےکو ۱۹۱۱ میں ہوائی غباروں کی خریداری، ایوییشن کی فسیلیٹی کی تعمیرکی قیادت اور پائلٹوں کی ٹریننگ کے انتظام کی زمہ داری دی۔ جنگی وزارت کے سائنسی ریسرچ یونٹ کے زیرِ اثر ایوییشن کمیشن کو قائم کیا گیا۔ محمت سِوکت پاشہ کی جانب سے دی گئی زمہ داریوں کے علاوہ اس کمیشن کو جاسوسی اور سٹریٹجک معلومات اکٹھا کرنے کا کام بھی دیا گیا۔ نا صرف ہوائی جہازوں نہیں بلکہ اینٹی ایرکرافٹ (جہاز مار گرانے والے) ہتھیاروں کے بارے میں بھی معلومات کو حاصل کیا گیا۔ جو کہ آنے والی اٹلی کے ساتھ جنگ میں بہت موئثر ثابت ہوئی۔
۱۹۱۱ میں اٹلی نے اسلامی ریاست کے کچھ حصے پر قبضہ کیا جو آج کے دور میں لیبیا کہلاتا ہے۔ خلافت عثمانیہ کی ناتجربے کار فضائیہ ہوائی جہازوں کو رکھنے کے قابل نہیں ہوئی تھی۔ فرانس سے ان ہوائی جہازوں کو خرید کر الجزائر کے زریعے میدان جنگ میں بھیجنے کی کوشش بھی کامیاب نہیں ہو سکتی تھی۔ ۲۸ ہوائی جہازوں اور ۴ ہوائی غباروں کے ساتھ اٹلی دینا کی پہلی قوم بنی جس نے جنگ میں فضائیہ کا استعمال کیا۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ اینٹی ایرکرافٹ (جہاز مار گرانے والے) ہتھیاروں میں ترقی کی وجہ سے اسلامی ریاست تاریخ کی وہ پہلی قوم بنی جس نے جنگ میں اینٹی ایرکرافٹ (جہاز مار گرانے والے) ہتھیاروں کا استعمال کیا۔ مسلمانوں کی فوج نے کامیابی کے ساتھ اٹلی کے ہوائی غباروں اور دوسرے ہوائی جہازوں کو مار گرایا اور ان میں سے کچھ پر قبضہ بھی کر لیا۔
۱۹۱۲ میں اسلامی ریاست کے پہلے پائلٹوں کپتان فیسا بے اور لفٹننٹ یوسف کننان بے اپنی ٹریننگ مکمل کر کے فرانس سے واپس ہوئے۔ انہیں رعایاکے دئے ہوئے فنڈ سے خریدے گئے ۱۵ ہوائی جہازوں میں سے ۲ دئے گئے۔ ۲۷ اپریل، ۱۹۱۲ کو فیسا بے اور یوسف کننان بے نے استنبول کے اوپر ہوائ جہازوں کو اُڑا کر اسلامی سرزمین پرجہاز اُڑانے والے پہلے مسلمان پائلٹ بننے کا اعزاز حاصل کیا۔ کچھ ہی عرصے بعد، جولائی ۱۹۱۲ میں استنبول کے قریب یسِلکوئے نامی قصبے میں ایک فضائی ٹریننگ اسکول کھولا گیا تاکہ اسلامی ریاست خود اپنے پائلٹوں کو ٹریننگ دے سکے۔ یہ اسلامی ریاست کا ایک بہت اہم قدم تھا کہ جس نے دوسرے ملکوں پر انحصاری کو ختم کیا۔ جلد ہی پائلٹوں کی تعداد ۱۸ اور ہوائی جہازوں کی تعداد ۱۷ ہو گئی۔ جس کو جلد ہی اس وقت آزمالیاگیا جب بلقان کے نیم خودمختار علاقوں نے عثمانی خلافت سے بغاوت کی اور اسلامی ریاست کے خلاف علانِ جنگ کیا۔ اس تنازع کی ابتدا میں تو فضائیہ نے کوئی خاص کردار ادا نہیں کیا لیکن جنگ کے دوسرے مرحلے میں ۹ جنگی ہوائی جہازوں اور ۴ ٹریننگ ہوائی جہازوں نے اہم کارکردگی دکھائی۔
اپنی فضائیہ کی دلیری کا مظاہرہ کرنے کے لئے اور ریاست کے شہریوں میں جزبہ پیدا کرنے کے لئے خلافتِ عثمانیہ کے فوجی افسروں نے کئی طویل فاصلے والی پروازوں کا اہتمام کیا۔ اس سے فضائیہ کی طویل پروازوں کی کارکردگی میں اور پوری ریاست کی وسعت تک حفاظت کی صلاحیت میں بہتری پیدا ہوئی ۔ پہلی طویل پرواز عدرین سے استنبول تک اُڑائی گئی، جس میں ۳ گھنٹوں سے زیادہ وقت لگا۔ ۳۰ نومبر ۱۹۱۳ کو بلقیس سِوکت حنیم پرواز اُڑانے والی پہلی مسلمان خاتون بنیں۔ فرانسیسی پائلٹوں کو ملنے والی پزیرائی کے جواب میں، جنہوں نے پیرس سے قاہرہ تک پرواز کی، اسلامی ریاست نے ۱۹۱۴ میں استنبول سے اسکندریہ تک ۱۵۰۰ میل کے فاصلے کو طے کرنے کے مظاہرے کا اہتمام کیا۔ ٹیکنالوجی کے ان اوائلی ادوار میں موجود ایوییشن کے خطرات کی وجہ سے ایسے دو معرکوں کا نتیجہ جہازوں کی تباہی کی شکل میں نکلا لیکن تیسرا معرکہ کامیاب رہا۔
جب عثمانی خلافت پہلی جنگِ عظیم کی لپیٹ میں آئی تو اُس کے پاس صرف ۷ ہوائی جہاز اور ۱۰ پائلٹ تھے۔ اس کے وزیروں کی ثابت قدمی اور جانفشانی کی وجہ سے اور اس کے نئے حلیف، جرمنی کی مدد سے، فضائیہ ۴۶ پائلٹوں، ۵۹ اوبزرور (مشاہدین)، ۳ اوبزرور غباروں، ۹۲ ہوائی جہازوں (جن میں ۱۴ سمندری ہوائی جہاز) اور اس کے علاوہ، ۱۳ بیک اپ پائلٹ، ۲۲ اوبزرور ٹرینیز اور ۲۱ ٹریننگ ہوائی جہازوں تک بڑہ گئی۔ جیسے جیسےجنگ آگے بڑہی، مسلمانون نےبرتانوی ہوائی جہازوں کو پکڑ کر اِس تعداد کو مزید بڑھانے کی کوشش کی۔ فضائیہ اس بات کی واضح دلیل ہے کے اسلامی ریاست اپنے آخری دنوں میں بھی دنیا کے حالات اور ترقی سے کس حد تک آگاہ رہی۔
یہ ہے وہ داستان جو اسلامی ریاست نے دنیا کے مسلمانوں کے لئے چھوڑی۔ وہ اسلام اور مسلمانوں سے مخلص رہی اور اُس نے مسلمانوں کی زندگیوں کا اوراُنکے مفاد کا تحفظ کیا۔ تُرکی کی موجودہ سیکیولر ریاست، اسلامی ریاست کی فضائیہ کی براہِ راست وارث ہے، جو اسے دنیا کی قدیم ترین فضائیہ میں سے ایک بناتی ہے۔ کیا کرتی ہے یہ ترکی حکومت جب پڑوس میں شام، عراق، لبنان اور فلسطین کے مسلمانوں کو قتل کیا جا تا ہے؟ کیا کرتی ہیں دوسرے مسلمان ممالک کی کٹپتلی حکومتیں جب مسلمانوں پر اُنکے اپنے علاقوں پر حملے کئے جاتے ہیں اور انہیں قتل کیا جاتا ہے؟ کتنے پیچھے ہیں مسلمان اسلامی ریاست کی غیرموجودگی میں نیوکلیئر ٹیکنالوجی، سب مرین ٹیکنالوجی، سیٹلائٹ ٹیکنالوجی اور دوسری ٹیکنالوجیوں میں، جو کہ مسلمانوں کے دفاع کے لئے اتنی اہم ہیں؟ صرف وہ ریاست ہی اسلام اور مسلمانوں کی خیر خواہ ہو سکتی ہے اور اس کے وسائل کو انکی حفاظت اور بہتری کے لئے استعمال کر سکتی ہے جس کی قیادت ایک مخلص مسلمان کر رہا ہو، یعنی خلیفہ ۔ اور یہ صرف اور صرف اسلامی ریاست کے از سرِنو قیام کے زریعے ہی ممکن ہے۔

Read more...
Subscribe to this RSS feed

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک