ولایہ سوڈان: سیمینار "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت امت کی زندگی میں ایک تبدیلی کا آغاز تھا"
- Published in ویڈیو
- سب سے پہلے تبصرہ کرنے والے بنیں
- |
حصہ اول
حصہ دوئم
حصہ اول
حصہ دوئم
پریس ریلیز
اخبار(آخرلحظہ) شمارہ( 2572) کے مطابق ،خرطوم کے زکوٰۃ چیمبر اورعلاقائی عوامی کمیٹیوں کے سربراہان کے درمیان مشترکہ اجلاس میں یہ تجویز دی گئی کہ کرائے پر دیے گئے رہائشی گھروں پر بھی زکوۃ لاگو کی جائےاور زکوٰۃ لینے کیلئے مکان کے مالکان سے بذات خود رابطہ کیا جائے تاکہ چیمبر کی منصوبہ بندی کے تحت محصولات میں اضافہ کیا جائے ۔
آئمہ اورعلماء اسلام کااس پراتفاق ہے کہ عبادات کے معاملات کا تعین صرف اور صرف وحی کرتی ہے اس میں اجتہاد نہیں کیاجاسکتا۔ کوئی بھی فریق ،خواہ کتنا ہی شرعی قانون کی سمجھ بوجھ رکھتا ہو، عبادات کے احکام میں کمی بیشی کامجاز نہیں اور زکوٰۃ عبادت ہے اورارکان اسلام میں سے ایک رکن ہے۔ اس لئے یہ ضروری ہے کہ اس کے حوالے سے ہم شرعی حدود کی پابندی کریں۔ لوگوں سے کوئی بھی مال نہیں لیا جاسکتا جس کی اجازت اسلا م نے نہ دی ہو ، اس لئے کرایہ پر دئی ہوئی جائدادوں اورتنخواہوں وغیرہ ، جس پراسلام نے زکوٰۃ فرض نہیں کی ، زکوٰۃ نہیں لی جائے گی۔
اسلام نے ان اموال کوواضح طور پر بیان کیاہے ، جن پر زکوٰۃ فرض ہے اوراس سلسلے میں کسی قسم کاابہام نہیں چھوڑاگیا۔ زکوٰۃ مندرجہ ذیل اموال پرفرض کی گئی ہے:
1۔ مویشی جیسے اونٹ ،گائے اوربھیڑبکری: اس کی دلیل وہ حدیث ہے جس کوابوذررضی اللہ عنہ نے نبیﷺ سے روایت کی ہے ، آپ ﷺ نے فرمایا: «... مَا مِنْ صَاحِبِ إِبِلٍ ولا بَقَرٍ ولا غَنَمٍ لَا يُؤَدِّي زَكَاتَهَا إِلَّا جَاءَتْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْظَمَ مَا كَانَتْ وَأَسْمَنَهُ تَنْطَحُهُ بِقُرُونِهَا وَتَطَؤُهُ بِأَظْلَافِهَا كُلَّمَا نَفِدَتْ أُخْرَاهَا عَادَتْ عَلَيْهِ أُولَاهَا حَتَّى يُقْضَى بَيْنَ النَّاسِ»"۔۔۔ کوئی ایساشخص نہیں جو اونٹ، گائے اوربھیڑبکریوں کامالک ہواوران کی زکوٰۃ ادانہ کرے ، مگرقیامت کے دن یہ جانورانتہائی موٹے اورفربہ ہوکرآئیں گے ، اس کواپنے سینگوں سے ماریں گے اور اپنے کُھروں اورسُموں سے روندتے جائیں گے، آخری جانورکے گزرجانے کے فوراً بعد پہلاجانورآپہنچے گا، (یہ معاملہ جاری رہے گا) یہاں تک کہ لوگوں کے درمیان فیصلہ کیاجائے ۔" اس حدیث کو مسلم اوربخاری نے روایت کیاہے ۔
2۔ کھیتی اورپھل: اس کی دلیل اللہ سبحانہ وتعالیٰ کایہ قول ہے: وَآتُوا حَقَّهُ يَوْمَ حَصَادِهِ"کٹائی کے دن ا س کاحق( زکوٰۃ) دیدیاکرو" (الانعام:141)۔ یہ آیت لسانی نقطہ نظرسے عام ہے اوررسول اللہ ﷺ نے چاراصناف کے ساتھ اس کی تخصیص کی ہے جوابوموسیٰ اورمعاذبن جبل کی حدیث میں آئے ہیں، ان کوجب رسول اللہﷺ نے لوگوں کودین کاعلم سکھانے کیلئے یمن بھیجاتوان سے فرمایا «لا تأخذا الصدقة إلا من هذه الأربعة الشعير والحنطة والزبيب والتمر»، زکوٰۃ صرف ان چارمیں سے لیاکرو۔ جو، گندم، کشمش اورکھجور۔ بیہقیؒ نے کہاہے کہ اس حدیث کے راوی ثقہ ہیں اوراس کی سند متصل ہے۔
3۔ سونااورچاندی: چاہے نقدی کی شکل میں ہویاغیرنقدی، ابوہریرۃ ضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا «مَا مِنْ صَاحِبِ ذَهَبٍ ولا فِضَّةٍ لَا يُؤَدِّي مِنْهَا حَقَّهَا إِلَّا إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ صُفِّحَتْ لَهُ صَفَائِحُ مِنْ نَارٍ فَأُحْمِيَ عَلَيْهَا فِي نَارِ جَهَنَّمَ فَيُكْوَى بِهَا جَنْبُهُ وَجَبِينُهُ وَظَهْرُهُ كُلَّمَا بَرَدَتْ أُعِيدَتْ لَهُ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ حَتَّى يُقْضَى بَيْنَ الْعِبَادِ فَيَرَى سَبِيلَهُ إِمَّا إِلَى الْجَنَّةِ وَإِمَّا إِلَى النَّارِ...» رواه الخمسة إلا الترمذي۔"کوئی سونے یاچاندی کامالک ایسانہیں جو اس کی زکوٰۃ ادانہ کرے، مگر جب قیامت کادن ہوگاتواس کیلئے آگ کی پلیٹیں تیارکی جائیں گی پھر ان کوجہنم کی آگ میں گرم کردیاجائے گا، پھر اس کے پہلو، پیشانی اورپیٹھ کوان سے داغاجائے گا، جوں ہی یہ پلیٹیں ٹھنڈی پڑجائیں گی توان کودوبارہ گرم کیاجائے گا، یہ اس دن ہوگاجوپچاس ہزارسال کے برابرہے (اوریہ معاملہ اس کے ساتھ ہوتارہے گا) یہاں تک کہ بندوں کے درمیان فیصلہ کیاجائے اس کے بعد ہی اسے اپناراستہ نظرآئے گایاتوجنت کی طرف یاجہنم کی طرف۔"
4۔ سامان تجارت: اس میں وہ تمام اشیاء داخل ہیں جن کونقدی کے علاوہ بقصدمنفعت تجارت اورخریدوفروخت کیلئے استعمال کیاجائے ، جیسے کھانے پینے کی اشیاء، ملبوسات، فرنیچراوردیگرمصنوعی سازوسامان، حیوانات ، معدنیات، جائیداداور تعمیرات میں سے وہ اشیاء جس کی خرید وفروخت کی جائے ۔ تجارتی سامان پر زکوٰۃ فرض ہے ، اس میں صحابہ کااختلاف نہیں ، «عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ قَالَ: أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَأْمُرُنَا أَنْ نُخْرِجَ الصَّدَقَةَ مِنْ الَّذِي نُعِدُّ لِلْبَيْعِ»"سمرۃ بن جندب رضی اللہ عنہ نے کہا : امابعد ،پس رسول اللہ ﷺ ہمیں حکم دیتے تھے کہ ہم اس سامان میں سے زکوٰۃ نکال دیاکریں جسے ہم نے فروخت کیلئے رکھاہو۔"
تویہ وہ متعین اموال ہیں جن پراسلام نے زکوٰۃ واجب کردی ہے ۔ان پر غور و فکر سے یہ پتہ چلتاہے کہ وہ رہائش گاہ جو کرائے پر دی گئی ہو،ان پرزکوٰۃ نہیں، بلکہ زکوٰۃ ایسے مال پرہے جس کانصاب پوراہواوراس پرسال بھی گزرجائے۔
اس لئے زکوٰۃ چیمبر کرائے پر دیے گئے گھروں پر زکوٰۃ وصول نہیں کرسکتی ۔کرائے پر دیے گئےرہائشی جائیدادوں سے زکوٰۃ لیناحرام ہے۔اس طرح یہ مال لینا حرام ہے بالکل ویسے ہی جیسے زکوۃ چیمبر کے دیگر محصولات اکٹھا کرنے کے لیے غیر شرعی طریقہ کار اختیار کیا جاتا ہے اور پھر انھیں خرچ بھی اس طرح سے نہیں کیا جاتا جیسا کہ شرع نے تعلیم دی ہے۔
ریاست خلافت جو اللہ کے اذن سے جلدہی دوبارہ لوٹنے والی ہے ، لوگوں سے صرف ان اموال کووصول کرے گی جن کواسلام نے فرض کردیاہے ، جس کی قرآن وسنت میں سے کوئی دلیل بھی موجود ہو۔ کیونکہ زکوٰۃ جوکہ اسلام کاایک رکن اورعبادت ہے، اس میں نصوص ہی کی پابندی کی جائے گی ،اللہ عزوجل کاارشادہے ولا تَقُولُوا لِمَا تَصِفُ أَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ هَذَا حلالٌ وَهَذَا حَرَامٌ لِتَفْتَرُوا عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ إِنَّ الَّذِينَ يَفْتَرُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ لا يُفْلِحُونَ "اورجن چیزوں کے متعلق محض تمہاراجھوٹادعویٰ ہے،اُ ن کےمتعلق یوں نہ کہاکروکہ فلاں چیز حلال اورفلاں حرام ہے، جس کاحاصل یہ ہوگاکہ اللہ پرجھوٹی تہمت لگاؤگے، بلاشبہ جولوگ اللہ پرجھوٹ لگاتے ہیں وہ فلاح نہ پائیں گے۔" (النحل: 116)
ابرہیم عثمان (ابوخلیل)
ولایہ سوڈان میں حزب التحریر کے ترجمان
حزب التحریر راولپنڈی میں قتل ہونے والے مسلمانوں، ان کے املاک کو پہنچنے والے نقصان اوراس محرم کے مہینے میں ملک بھر میں ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے مارے جانے مسلمانوں کی ہلاکت کی پرزور مذمت کرتی ہے اور کیانی و شریف حکومت کو ان تمام واقعات و سوانح کا ذمہ دار سمجھتی ہے۔ حکومت نے کرفیو نافذ کیا، موبائل فون اور ڈبل سواری پر پابندی لگائی کہ موبائل فون بم دھماکوں میں جبکہ موٹر سائیکل ٹارگٹ کلنگ میں استعمال ہوتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود قتل و غارت گری اور تباہی و بربادی نہیں رُکی ۔ درحقیقت یہ سوانح اس قسم کے نمائشی اقدامات سے روکنے والے نہیں بلکہ یہ آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے۔ ان قدامات سے محض یہ ہوا کہ لوگ اپنے گھروں میں محصور اورٹرانسپورٹ و مواصلات کے ذرائع اور سہولیات سے محروم ہو گئے۔ اس قسم کے سوانح اس وقت تک ہوتے رہیں گے جب تک حکمران ہمارے درمیان زہریلے امریکی وجود کو موجود رہنے اور اپنا زہر پھیلانے کی اجازت دیتے رہیں گے جو فرقہ وارانہ قتل و غارت گری کی اصل وجہ ہے۔
پاکستان میں بڑھتے ہوئے عدم تحفظ اور خوف کی وجہ امریکہ کی بڑھتی ہوئی موجودگی ہے۔ اس صورتحال پر اس وقت حیرت نہیں ہوتی جب یہ دیکھا جاتا ہے کہ جیسے ہی امریکہ نے عراق پر قبضہ کرنے کے بعد اپنے قدم جمائے تو فرقہ وارانہ حملوں نے انتہائی بھیانک اور خوف ناک شکل اختیار کرلی تھی اور جو آج تک جاری ہے۔ ہمارےمعاملے میں یہ سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب مشرف کے دور میں امریکہ نے اپنے قلعہ نما سفارت خانے اور قونصل خانوں کو توسیع دینا شروع کی جو پاکستان میں اپنے ایجنٹ تیار کرنے اور انھیں مالی و مادی وسائل فراہم کرنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ملک بھر میں قائم امریکی سی۔آئی۔اے اور ایف۔بی۔آئی کے درجنوں دفاتر بھی اپنا کردار ادا کررہے ہیں جو ہمارے ہی لوگوں کے خلاف خفیہ آپریشنز کرتے ہیں۔ یہ امریکی دہشت گردی کا نیٹ ورک براہ راست تباہی و بربادی کے منصوبوں کی نگرانی کرتا ہے اور مقامی گروہوں میں اپنے ایجنٹ بھی داخل کرتا ہے۔ یہی وہ نیٹ ورک ہے جو ان تباہی و بربادی کے منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے مالی وسائل، ہتھیار اور جدید ترین بم فراہم کرتا ہے۔ ہمارے درمیان فرقہ واریت کے مسئلہ نے ایک کینسر کا روپ اس وقت سے اختیار کیا ہے جب سے امریکہ نے مسلمانوں کے خلاف جنگ کا آغاز کیا ہے۔
کرفیو صرف ان ہی علاقوں میں نہیں لگایا جانا چاہیے تھا جہاں پر صورتحال خراب ہوگئی تھی بلکہ ان امریکی مراکز کے گرد کرفیولگانا چاہیے تھا جہاں پر یہ شیطانی منصوبے بنائے جاتے ہیں اور دہشت گردوں کو مالی و مادی وسائل فراہم کیے جاتے ہیں۔ اگر ایسا کردیا جائے تو دہشت گردوں کو ملنے والی اکسیجن رُک جائے گی اور اس افراتفری کا خاتمہ ہوجائے گا۔
حزب التحریر دعوت دیتی ہے کہ پاکستان میں خلافت قائم کی جائے تا کہ اس خون خرابے کا خاتمہ ہو۔ یہ مسلمانوں کا خلیفہ ہی ہوگا جو امریکی سفارت خانے، قونصل خانوں اور اڈوں کو بند کرے گا۔ وہ امریکی سفارت کاروں، فوجیوں، نجی سکیورٹی اداروں اور انٹیلی جنس کو ملک بدر کرے گا۔ لہٰذا صرف خلافت ہی تما م مسلمانوں کو امن اور تحفظ فراہم کرے گی اس بات سے قطع نظر کہ وہ جعفری، حنفی یا کسی بھی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہوں۔
پریس بریفنگ
پاکستان کے میڈیا نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے سوالات اٹھائے ہیں۔ لہٰذا پاکستان میں حزب التحریر کے میڈیا آفس نے اس مسئلہ پر مندرجہ ذیل پریس بریفینگ جاری کی ہے۔ امریکی ڈرون حملے میں طالبان رہنما کی ہلاکت کے بعد یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ امریکہ طالبان کے ساتھ مذاکرات چاہتا ہے؟ آخر امریکہ کیوں "معتدل" طالبان کے ساتھ مذاکرات چاہتا ہے؟
میڈیا آفس ان سوالات کے جوابات کو جاننے کے لیے مندرجہ ذیل نکات کو پیش کررہا ہے:
1۔ جہاں تک طالبان سے عمومی طور پر مذاکرات کی بات ہے تو امریکہ افغانستان سے اپنے محدود انخلاء کے منصوبے کی آڑ میں افغانستان میں اپنی مستقل موجودگی کو مذاکرات کے ذریعے ایک قانونی حیثیت دینا چاہتا ہے۔ اسی منصوبے کا حصہ اسلام آباد میں دنیا کے دوسرے بڑے امریکی سفارت خانے کی تعمیر، افغانستان میں نو(9) امریکی اڈوں کا حصول اور ایک لاکھ سے زائد نجی سکیورٹی کنٹریکٹرز کو افغانستان اور پاکستان میں تعینات کرنا بھی شامل ہے۔ افغانستان میں موجود طالبان ، جن کی بڑی تعداد پشتون ہے، اس منصوبے کی تکمیل کے لیے اہم ہیں ۔ ان کی حمائت کے بغیر کوئی بھی معاہدہ بے معنی ہوگا کیونکہ افغانستان کی تاریخ میں پشتون ہی سب سے اہم اور بااثرگروہ ہے۔
جہاں تک پاکستان کے قبائلی علاقوں کے پشتونوں کا تعلق ہے ، امریکہ کو اپنے منصوبے کی کامیابی کے لیے ان کی حمائت بھی درکار ہے۔ پاکستان کے قبائلی علاقوں کے پشتونوں کے افغانستان کے پشتونوں سے گہرے اور مضبوط روابط ہیں ۔ پاک و افغان سرحد ڈیورنڈ لائن، جوکہ برطانوی استعمارنے قائم کی تھی، کے دونوں جانب رہنے والےپشتونوں کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ مذاکرات پر مجبور کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں سے امریکی قابض افواج کے خلاف لڑنے والوں کے لیے فراہم ہونے والی معاونت کو ختم کیا جائے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے امریکہ یہ چاہتا ہے کہ افواج پاکستان قبائلی علاقوں میں مصروف رہیں اور اس کے خلاف ہونے والی مزاحمت کا خاتمہ کریں اور اس کے ساتھ ساتھ مزاحمت کی ساکھ کو جس قدر ممکن ہو پشتونوں کی نظر میں خراب کردے۔ یقیناً امریکہ یہ امید کرتا ہے کہ اگر وہ امریکی قبضے کے خلاف مزاحمتی تحریک کو کمزور اور اس کی ساکھ کو خراب کردے تواس بات کے زیادہ امکانات ہیں کہ عام پشتون حکومت اور "معتدل" طالبان کے درمیان ہونے والے مذاکرات کی حمائت کریں گے۔ اس کے علاوہ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ افغانستان اورپاکستان کےقبائلی علاقوںمیں لڑنے والے طالبان کئی چھوٹے چھوٹے گروہوں میں تقسیم ہیں جن میں آسانی سے اپنے ایجنٹ داخل کیے جاسکتے ہیں اور ان گروہوں پر اثر انداز ہوا جاسکتا ہے۔ لہٰذا امریکہ ان گروہوں کو "معتدل" اور "سخت گیر" طالبان کے نام دیتا ہے۔
2۔ یقیناً امریکہ اس بات سے اچھی طرح باخبر ہے کہ مسلمان اس کی مستقل موجودگی کو شک و شبہ کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ یہ شک و شبہ طالبان، علماء دیوبند، پشتونوں، عمومی طور پر مسلمانوں اور خصوصاً افواج میں بھی پایا جاتا ہے۔ پہلے بھی یہ دیکھا گیا ہے کہ امریکہ نے یہ محسوس کیا تھا کہ کیانی و زرداری حکومت اس کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں عوام کی حمائت حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔یہ نظر آتا ہے کہ اس صورتحال نے امریکہ کو مجبور کیا کہ وہ اس نواز شریف کو دوبارہ اقتدار میں لائے جسے اس نے اپنے ایجنٹ مشرف کے ذریعے تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دیا تھا کیونکہ امریکہ یہ سمجھتا ہے کہ نواز شریف دہشت گردی کے خلاف اس کی جنگ کی مزاحمت کرنے والےاسلامی دائیں بازو کی جماعتوں اور قوم پرستوں کے سخت موقف میں نرمی لانے میں کامیاب ہو جائے گا۔نواز شریف اور اس کی جماعت مسلم لیگ (ن) کی معاشرے کے قدامت پسند طبقے میں جڑیں موجود ہیں۔ پاکستان کے لوگوں کو دھوکہ دینے کے لیے، امریکہ نے اپنے ایجنٹ نواز شریف کو اس بات کی اجازت دی کہ وہ "ڈرون حملوں کے خاتمے" اور "انخلاء کے لیے امن مذاکرات" کو اہم مسائل کے طور پر اجاگر کرے۔ امریکہ مخالف موقف اپنانے سے،امریکہ یہ امید رکھتا ہے کہ نواز شریف امریکہ سے اپنے اتحاد کو چھپا سکتا ہے اور امریکہ کے مفادات کو زیادہ مزاحمت کا سامنا کیے بغیر حاصل کرسکتا ہے بالکل ویسے ہی جیسا کہ ماضی میں مسلم دنیا میں دوسرے ایجنٹ بھی یہ کام اسی طرح کرچکے ہیں کہ انھوں نے خوب امریکہ مخالف نعرے بازی کی جبکہ ہر ممکن طریقے سے امریکی مفادات کی تکمیل کے لیے کام بھی کرتے رہے۔
3۔ یہ امریکی منصوبے کا حصہ ہے کہ اس کے ایجنٹ اس کے خلاف بیان بازی کریں تا کہ اس کی خواہشات کی تکمیل ہو سکے ،لہٰذا امریکہ نے اپنے ایجنٹوں کو اس بات کی اجازت دی ہے کہ وہ اس بات کو عام کریں کہ امریکہ مذاکرات کا مخالف ہے۔ تو اس طرح ایسا نظر آئے گا کہ جیسے امریکہ مذاکرات کا مخالف ہے اور امریکی مخالفت میں مسلمان ان مذاکرات کی حمائت کرنا شروع کردیں گے ۔ یہ ایک "ڈبل گیم" ہے جس کے تحت مسلمان یہ سمجھتے ہوئے مذاکرات کو آگے بڑھائیں گے کہ ایسا کر کے وہ امریکی منصوبے کو ناکام کررہے ہیں کیونکہ بظاہر امریکہ تو ان مذاکرات کی مخالفت کررہاہے۔ اس کے علاوہ، حکومت نے یہ جھوٹ بھی پھیلایا ہے کہ مذاکرات امریکہ کے خلاف کامیابی کی نشانی ہےجبکہ امریکہ کو ان مذاکرات کی ضرورت ہے کیونکہ وہ ایک طویل اور مہنگی جنگ کے بعدجو کچھ ممکن ہے اپنے لیےحاصل کرنا چاہتا ہے۔ لہٰذا افغانستان اور پاکستان میں امریکی ایجنٹ اس امریکی "ڈبل گیم" کے تحت اپنا اپنا کردار ادا کررہے ہیں۔ اس کا عملی مظاہرہ اس وقت دیکھا گیا جب نواز شریف تازہ ترین ہدایت لے کر امریکہ سے واپس آیاتو امریکہ نے پاکستان میں طالبان رہنما حکیم اللہ محسود کو قتل کردیا۔ ایجنٹوں نے بہت شور مچایا کہ مذاکرات کا عمل خطرے سے دوچار ہو گیا ہے۔ یکم نومبر 2013 کو انگریزی اخبار ڈان نے خبر شائع کی کہ "ڈرون حملوں کی مذمت کرتے ہوئے وزیر داخلہ چوہدری نثار نے کہا کہ ان کا نشانہ ملک میں امن کے قیام کی کوششوں کو سبوتاژکرنا ہے۔ کل(ہفتےکے دن) ایک وفد طالبان سے بات چیت کے لیے روانہ ہونے والا تھا۔ چوہدری نثار نے یہ بیان اس وقت دیا جبکہ اس بات کی تصدیق نہیں ہوئی تھی کہ مارے جانے والا عسکریت پسند کمانڈر حکیم اللہ ہے"۔ پھر 2 نومبر 2013 کو ڈان اخبار نے یہ خبر شائع کی کہ "جمعہ کو ڈرون حملے میں مارے جانے والے پاکستانی طالبان سربراہ کی ہلاکت کو خطے کے امن پر امریکی حملہ قرار دیا گیا ہے۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار نے ہفتے کو کہا کہ امریکہ کے ساتھ دوطرفہ تعلقات پر نظر ثانی کی جائے گی"۔ اور 2 نومبر 2013 کو ہی ڈان اخبار نے یہ خبر شائع بھی شائع کی کہ "وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید نے اسلام آباد میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ حکومت محسود کی تحریک طالبان کے ساتھ مذاکرات کے منصوبے کوآگے لے جانا چاہتی ہے۔ پرویز رشید نے کہا کہ اس بار ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ڈرون نے امن مذاکرات پر حملہ کیا ہے لیکن ہم امن مذاکرات کے عمل کو ختم نہیں ہونے دیں گے"۔ جہاں تک افغانستان میں امریکی ایجنٹوں کا تعلق ہے تو ایکپریس ٹربیون نے AFPکے حوالے سے 4نومبر 2013 کو یہ خبر شائع کی کہ "افغان صدر حامد کرزئی نے تحریک طالبان کے سربراہ حکیم اللہ محسود کی غلط وقت پر امریکہ کے ہاتھوں قتل کیے جانے پر نکتہ چینی کی اور اس امید کا اظہار کیا کہ واقعہ علاقائی امن کی کوششوں کو ناکام کرنے کا باعث نہیں بنے گا۔ کرزئی نے افغانستان کے دورے پر آئے امریکی کانگریس کے وفد سے کہا کہ ڈرون حملہ صحیح وقت پر نہیں کیا گیا لیکن وہ امید رکھتے ہیں کہ اس کے نتیجے میں امن کے عمل کو نقصان نہیں پہنچے گا"۔
4۔ یہ اسی "ڈبل گیم" کا نتیجہ ہے کہ امریکی ایجنٹ ڈرون حملے کی مذمت کرنے کے باوجود طالبان کے ساتھ مذاکرات کے سلسلے کو جاری رکھنے پر بھی اصرار کررہے ہیں۔ 3نومبر2013کو ڈان اخبار نے یہ خبر شائع کی کہ "پاکستان کی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ جس ڈرون حملے میں محسود مارا گیا اور اس سے ایک روز قبل ہونے والے ڈرون حملے پر احتجاج کرنے کے لیے اس نے پاکستان میں امریکی سفیر رچرڈ اولسن کوطلب کیا۔ وزارت سے جاری ہونے والے بیان میں اس بات پر زور دیا گیا تھا کہ ڈرون حملے کے باوجود حکومت تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذکرات کے عمل کو جاری رکھنے کا قطعی ارادہ رکھتی ہے"۔ اور 3نومبر2013 کو ڈان اخبار نے خبر شائع کی کہ "جمعیت علمائے اسلام کے مولانا فضل الرحمن نے ہفتے کو حکومت پاکستان پر زور دیا ہے کہ حالیہ امریکی ڈرون حملے میں طالبان رہنما حکیم اللہ محسود کے قتل کے باوجود وہ طالبان کے ساتھ بات چیت کے اپنے فیصلے پر قائم رہے۔ مولانا نے کہا کہ حکیم اللہ کی موت نے ملک میں ایک جذباتی فضاء قائم کردی ہے۔ انھوں نے کہا کہ تحریک طالبان کے سربراہ کے قتل کے نتیجے میں مذاکرات کا عمل کچھ دنوں کے لیے تاخیر کا شکار ہوجائےگا لیکن امن اور مفاہمت کے دشمنوں کو اپنے مقاصد میں کامیاب ہونے کی اجازت نہ دی جائے"۔
5۔ امریکہ ایک طرف بظاہر یہ تاثر دے رہا ہے کہ وہ مذاکرات کا مخالف ہے جبکہ درحقیقت سرحد کے دونوں جانب "معتدل" طالبان کے ساتھ بات چیت اس کی اس وقت شدید ضرورت ہے تا کہ وہ خطے میں اپنے موجودگی کو جاری رکھ سکے اور یہ مفاد امریکہ اپنے بزدل فوجیوں اور دم توڑتی معیشت کے بل بوتے پر میدانِ جنگ میں حاصل نہیں کرسکتا۔ دوسری جانب امریکہ مسلمانوں کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کررہا ہے کہ "سخت گیر" طالبان صرف امریکہ کے لیے ہی نہیں بلکہ مسلمانوں کے لیے بھی خطرہ ہیں۔ اس کوشش کا مقصد مزاحمت کی ساکھ کو مسلمانوں کی نظر میں خراب کرنا اور مذاکرات کے لیے فضاء پیدا کرنا ہے اور یہ کہ امریکی قبضے کے خلاف مسلسل مزاحمت کی رائے عامہ کو تبدیل کیا جائے۔
اس مقصد کے حصول کے لیے امریکہ نے پاکستان میں قتل و غارت گری اور بم دھماکوں کی مہم چلائی جبکہ اس کے ایجنٹ ہر بم دھماکے اور قتل کے بعد یہ چلانا شروع کر دیتے ہیں کہ "دیکھو، بہرحال اب یہ جنگ ہماری بھی ہے"۔ دنیا بھر میں اس قسم کی مجرمانہ اور تباہ کن مہم چلانے کے حوالے سے امریکی انٹیلی جنس اور نجی سکیورٹی ادارے خصوصی شہرت رکھتے ہیں۔یہ حملے False flag attacksکہلاتے ہیں جس میں خود ہی حملہ کیا جاتا ہے اور اس کا الزام اپنے مخالف پر ڈال دیا جاتا ہے تا کہ اپنی فوجوں کو اپنے مخالفین کے خلاف لڑنے پر آمادہ کیا جائے اور ان کی ساکھ کو نقصان پہنچایا جائے۔ ایسے حملے کروانا کوئی مشکل کام نہیں کیونکہ امریکی انٹیلی جنس اور نجی سکیورٹی ادارے براہ راست یا مزاحمتی گروہوں میں اپنے ایجنٹ داخل کرکےاور پاکستانی ایجنسیوں میں موجود اپنے ایجنٹوں کے ذریعے ایسے حملے کرنے کے ماہر ہوتے ہیں۔ یہ دیکھا گیا ہے کہ ان حملوں میں ہمارے بازاروں، گھروں، افواج اور لوگوں کو تو نشانہ بنایا جاتا ہے لیکن اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ ملک میں موجود سی.آئی.اے اور ایف.بی.آئی کے دفاتر، امریکی فوجی اڈے، بلیک واٹر کی رہائش گاہیں اور امریکی قونصل خانے حملے اور تباہی سے محفوظ رہیں۔ لہٰذا اِن پُر تشدد واقعات کو استعمال کرتے ہوئے امریکہ نے ایک نیا تصور پیش کیا ہے کہ افواج پاکستان کا قبائلی علاقوں میں رہنے کا مقصدپاکستان کو اندرونی خطرے سے محفوظ رکھنا ہے۔اس نئے تصور کواس حقیقت پر پردہ ڈالنے کے لیے پیش کیا گیا ہے کہ قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشنز ان پشتون مسلمانوں کے خلاف کیے جاتے ہیں جو سرحد عبور کر کے افغانستان پر قابض امریکی افواج کے خلاف لڑتے ہیں۔ اور اس کے علاوہ ان حملوں کے ذریعے امریکہ نے اپنی جنگ کے لیے رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش کی ہے۔ یکم دسمبر 2009 کواوبامہ نے کہا کہ "ماضی میں پاکستان میں ایسے لوگ رہے ہیں جو یہ کہتے تھے کہ انتہا پسندوں کے خلاف جدوجہد اُنکی جنگ نہیں ...لیکن پچھلے چند سالوں میں جب کراچی سے اسلام آباد تک معصوم لوگ قتل ہوئے ... تو یہ بات واضح ہوگئی کہ پاکستان کے لوگوں کو انتہاء پسندی سے سب سے زیادہ خطرہ لاحق ہے"۔ اور پھر ان بم دھماکوں اور قتل و غارت گری کی شروعات کے تین سال بعد 12 اکتوبر 2012ء کو امریکی دفتر خارجہ کی ترجمان ویکٹوریہ نولینڈ نے کہا کہ "لہٰذا ظاہر ہے کہ پاکستان کےلوگ جتنا زیادہ ان کے خلاف ہونگے اتنا ہی اُن کی حکومت کو اِن کے خلاف کام کرنے میں مدد ملے گی۔ یہ شاید اس بھیانک المیے کا ایک مثبت پہلو ہے"۔
یہ خوفناک اور بہیمانہ تشدد جاری رہے گا تا کہ امریکی ایجنٹ افواج پاکستان کو قبائلی علاقوں میں رکھنے کا جواز پیش کرسکیں۔ یقیناً امریکہ یہ بات جانتا ہے کہ نہ صرف پاکستان کے عوام امریکی جنگ، امریکہ کی موجودگی اور اس کے انخلاء کے منصوبے کو شک و شبہ کی نگاہ سے دیکھتے ہیں بلکہ پاکستان کے عوام کی اکثریت قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشنز کی مخالف ہے۔ تو امریکہ اپنی یہ کوشش جاری رکھے گا کہ تحریک طالبان پاکستان کے خطرے کو بڑھا چڑھا کر پیش کرے تا کہ قبائلی علاقوں میں افواج پاکستان کی موجودگی کے لیے ایک جواز مہیا ہوسکے اورپاکستان کے عوام کو کسی حد تک مطمئن کیا جاسکے۔لہٰذا اس کے منصوبے کے ایک حصے کے تحت امریکہ افغانستان کےمسلمانوں سے جنگ کررہا ہے جبکہ اس کے ساتھ ہی انخلاء اور افغان آرمی کو معاملات سپرد کرنے کی بات بھی کررہا ہے۔ اور اس کے ساتھ ہی وہ اس بات کو یقینی بنا رہا ہے کہ پاکستان کی افواج، پاکستان کے قبائلی علاقوں میں طالبان کے ساتھ جنگ میں مصروف رہیں۔ اس طرح امریکہ اس بات کی امید رکھتا ہے کہ وہ خطے میں اپنی موجودگی کو انخلاء کے پردے میں برقرار رکھ سکے گا۔
6۔ لہٰذا امریکہ ، پاکستان اور افغانستان دونوں ہی جگہ حقیقی امن کے قیام میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا۔ وہ یہ چاہتا ہے کہ خطے میں فوجی آپریشنز میں اس کی شمولیت کم سے کم ہو کیونکہ اس کی افواج کی ساکھ اور معیشت اگرچہ مکمل طور پر تباہ نہیں ہوئی مگر انتہائی خستہ حال ضرور ہوچکی ہے۔لیکن وہ اپنے سٹریٹیجک مفادات کے حصول کے لیے خطے میں اپنی افواج کی ایک اچھی تعداد کو برقرار رکھنا چاہتا ہے کیونکہ اگر اس نے ایسا نہ کیا تو اب تک کی تمام تر کوششیں ضائع ہو جائیں گی۔ امریکہ کے لیے آگے بڑھنے کا راستہ یہ ہے کہ وہ اپنے اہداف کے حصول اور اپنی موجودگی کو برقرارکے لیےایک معاہدہ چاہتا ہے۔ اس کے علاوہ 2014 کے بعد بھی اپنی افواج کی موجودگی کے جواز کے لیے وہ طالبان کے خطرے کو پیش کرتا رہے گا۔ درحقیقت امریکہ اور افغانستان کے درمیان ہونے والے سٹریٹیجک معاہدے کے تحت 2014 کے بعد بھی امریکی افواج کو افغانستان میں رہنے کی اجازت دینے کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ امریکہ آزادانہ دہشت گردی خلاف فوجی آپریشنزکرسکے۔ اس کے ساتھ ساتھ امریکی صدر باراک اوبامہ جہاں انخلاء کی بات کرتا ہے وہی انتہاپسندوں کے خطرے کی بھی بات کرتا ہے۔ 23 مارچ 2013 کو اوبامہ نے کہا "افغانستان میں ہم سکیورٹی کی ذمہ داری افغانیوں کے حوالے کردیں گے۔ ہماری افواج گھر واپس آجائیں گی۔ ہمارے جنگی مشن ختم ہوجائیں گے۔ اور ہم افغان حکومت کے ساتھ مل کر ان کی سکیورٹی فورسز کی تربیت کریں گے اور اس دہشت گردی کے خلاف ایک فورس قائم کریں گے جو اس بات کو یقینی بنائے گی کہ القائدہ کبھی بھی امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف حملوں کے لیے محفوظ پناہ گاہیں حاصل نہ کرسکے۔ افغانستان سے باہر دہشت گردی کے خلاف ہم عالمی جنگ نہیں کریں گے بلکہ ہماری کوششیں اس بات پر مرکوز ہوں گی کہ ہم امریکہ کے خلاف کام کرنے والے مخصوص انتہاپسند گرہوں کے خلاف ٹارگٹ آپریشن کریں۔ کئی معاملات میں اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے دوسرے ممالک کے ساتھ مل کر کام کیا جائے گا"۔ دہشت گردی کے خطرے کو پیش کرکے امریکہ نے اپنی موجودگی کا مستقل جواز فراہم کردیا ہے جبکہ وہ خود اس خطے کا سب سے بڑا دہشت گرد ہے۔
7۔ خلاصہ:امریکہ طالبان کے ساتھ ایک امن معاہدہ کرنا چاہتا ہے تا کہ وہ اپنی موجودگی کو برقرار رکھ سکے۔ وہ یہ بات جانتا ہے کہ ایسے کسی معاہدے کے بعد ہی وہ ملک میں دہشت گردی کے خلاف آپریشنزاور افغان آرمی کی تربیت کی آڑ میں افغانستان میں اپنی موجودگی کو برقرار رکھ سکتا ہے۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو امریکہ یہ جانتا ہے کہ افغانستان میں کوئی امن معاہدہ اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک افغانستان کے سرحدی اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں سے پشتون علاقے کو اس پر راضی نہ کرلے۔ باخبر مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ مسلم علاقوں میں امریکی موجودگی کے خطرات کو سمجھیں، چاہے یہ موجودگی سفارتی شکل میں ہو یا فوجوں کی موجودگی کی شکل میں یا امریکی نجی سکیورٹی اداروں اور امریکی انٹیلی جنس کی موجودگی کی شکل میں ہو۔ یہی وہ امریکی موجودگی ہے جو بم دھماکوں کو یقینی بناتی ہے۔ یہی وہ موجودگی ہے جو بات چیت کو آگے بڑھاتی ہے اور اس کے رخ کا تعین کرتی ہے۔ یہی وہ موجودگی ہے جس نے مسلمانوں کے لیے ہر قسم کی مصیبت پیدا کی ہوئی ہے۔ اسلام اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ اس موجودگی کا خاتمہ کیا جائے۔ یہ مقصد نہ تو کوئی گروہ حاصل کرسکتا ہے اور نہ ہی بات چیت کے ذریعے امریکی موجودگی کو ختم کیا جاسکتا ہے۔ صرف اور صرف ریاست اپنی افواج کو متحرک کر کے ہی امریکی موجودگی کا خاتمہ کرسکتی ہے۔
اس کے علاوہ ہمیں یہ بھی جان لینا چاہیے کہ امریکہ اپنے قیام سے لے کر آج تک کبھی بھی کسی بین لاقوامی معاملے کو حل نہیں کرسکا۔ اور اس کی معیشت میں شدید کمزوری اوراس کی بزدل افواج نے اب تو اس کی یہ صلاحیت مزید کم کردی ہے۔ غدار مسلم حکمران اب بھی اس کے خوف اور دبدبے کی وجہ سے ایسے ہی اطاعت کررہے ہیں جیسا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے انتقال کے بعد بھی جن یہ سمجھتے ہوئے ان کی اطاعت کرتے رہے جیسے کہ وہ اب بھی زندہ ہوں۔ اور اِنہی غداروں کی وجہ سے ہمارے علاقوں میں امریکی اثرو نفوذ اب تک باقی ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام کی کرپشن اور اس کے غلط ہونے کی وجہ سے امریکہ کی ناکامی یقینی ہے ۔ یہ وہ نظام ہے جس کا امریکہ عَلم بردار ہے اور اسے پوری دنیا میں نافذ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کے علاوہ امریکہ کی ناکامی اس کے پالیسی سازوں کی نااہلی کی وجہ سے بھی یقینی ہے۔ لیکن صحیح اور حقیقی رہنما جو اس دنیا کے معاملات کو انصاف اور حق کی بنا پر چلائیں گے جیسا کہ خلفائے راشدین تھے ،تو ایسا صرف جلد ہی قائم ہونے والی خلافت کے قیام کے ذریعے ممکن ہوگا اور حزب التحریر کے شباب وہ رہنما ہوں گے۔ یہی شباب وہ ہوں گے جو امریکہ اور مغرب کو سیکھائیں گے کہ کس طرح دنیا کے معاملات کو خلافت کے زیر سایہ چلایا جاتا ہے۔ اور وہ اس خود ساختہ بین الاقوامی براداری کو اپنے اشاروں پر نچائیں گے اور وہ دن جلد ہی آنے والا ہے۔
وَقَدْ مَكَرُوْا مَكْرَهُمْ وَعِنْدَ اللهِ مَكْرُهُمْ ۭ وَاِنْ كَانَ مَكْرُهُمْ لِتَزُوْلَ مِنْهُ الْجِبَالُ
"یہ اپنی اپنی چالیں چل رہے ہیں اور اللہ کو ان کی تمام چالوں کا علم ہے اور ان کی چالیں ایسی تھیں کہ ان سے پہاڑ اپنی جگہ سے ٹل جائیں " (ابراھیم:46)
الجربا کے اتحاد(coalition) نےہفتہ اتوار اور پیر 11،10،9 نومبر کوامریکی سفیر فورڈ کی سرپرستی میں استنبول میں اپنے اجلاس کا آغاز کیا، جس میں الجربا نے جنیوا-1 کی طرز پر جنیوا-2 میں جانے کا عندیہ دے دیا اور اس فیصلے کو جاری کروانے والا فورڈ ہی تھا۔یوں الجر با اور اس کے حمایتی جو آج تک جنیوا-2 میں جانے سے پہلے بشار کی برطرفی کا مطالبہ کر رہے تھے یا کم از کم اس کو برطرف کرنے کی ضمانت کا مطالبہ کررہے تھے،اپنے اس مطالبے سے بھی دستبردارہوگئے۔یوں ان دونوں مطالبات کو ہوا میں اڑا دیا گیا اور کھوکھلے الفاظ میں یہ کہا گیا کہ بشار کا کوئی کردار نہیں ہو گا لیکن یہ نہیں بتا یا گیا کہ ایسا کب سے ہو گا!اس اجلاس پر امریکہ مکمل طور پر غالب اور حاوی رہا اس حد تک کہ الجربا ،اس دباؤ کی وجہ سے ،اتحاد میں شامل عسکری نمائندے کے اعتراض کو بھی برداشت نہیں کر سکا اوراس نے بشار کے شبيحہ (اجرتی قاتل)اور دوسرے سرکشوں کے طریقے پر چلتے ہوئے اس کو تھپڑ ماردیاحالانکہ ابھی تو الجربا نے حکمرانی یا اس کا کچھ حصہ بھی نہیں دیکھا!اس کے بعد اتحاد کے بعض لوگوں نے کوئی فیصلہ کرنے سے قبل شام کی داخلی قوتوں سے مشاور ت کرنے کا مطالبہ کیا تو فورڈ نے اس کو مسترد کردیا اور ان کو مشترکہ فیصلہ کرنے کا پابند بنایا،تاکہ اندرونی مشاورت فیصلے کے بعد ہو سکے،یعنی فیصلہ پہلے کیا جائے اور مشورہ بعد میں لیا جائے،تاکہ اندرونی قوتوں کا فیصلے میں کوئی عمل دخل نہ ہو کیونکہ امریکہ جانتا ہے کہ اندرونی قوتوں کی اکثریت آزاد اور باوقار ہے وہ امریکہ اور اس کے ایجنٹوں کے سامنے سر جھکا کر رسوا نہیں ہوں گے۔
یوں محرم الحرام کی آٹھویں رات ، گیارہ نومبر کو جنیوا-2 میں شرکت کا فیصلہ کیا گیا۔پھر اس شرمناک فیصلے کو بےنقاب ہونے سے بچانے کے لیے یہ کہا گیا کہ یہ فیصلہ مشروط ہے جبکہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ جب تک یہ ملاقات بشار اور الجربا کے وفود کے درمیان ہےتو ان شرائط کی کوئی اہمیت نہیں!یہ تاثر دینے کے لیے کہ انہوں نے جنیوا-2 سے قبل کوئی فیصلہ کر لیا ہے ، انہوں نے کل پیر کی شام 11نومبر 2013 کو اُس عبوری حکومت کا اعلان کر دیا جس کا سربراہ احمد طعمہ ہو گا ۔ لاحول ولا قوۃ ۔ یہ حکومت سراسر برائے نام ہو گی کیونکہ داخلی قوتیں اس کو مسترد کردیں گیاور یہ حکومت شام کی سرزمین پر اپنے قدم بھی نہیں جما سکے گی۔یوں یہ حکومت "وقت کو ضائع کرنے والا کھیل ہے"تا کہ جنیوا-2 میں امریکہ اپنا حل اِن پر مسلط کرسکے !
امریکہ نے اس فیصلے کی تائید میں بڑی پھرتی دکھائی اور کیری نے یہ کہتے ہوئے اس کی وضاحت کی کہ "کل شامی اپوزیشن نے ووٹنگ کے ذریعے جنیوا-2 میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا،یقینا یہ ایک بڑا قدم ہے"۔ اگرچہ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے بھی ان اقدام پر تبصرہ کرتے ہوئے ان کو سراہا لیکن ساتھ ہی اس نے یہ بھی کہا"اتحاد (coalition)نے بشار کے کردار کے حوالے سے کوئی شرط نہیں لگائی"۔اس ترجمان کے تبصرے کا معنی صاف ظاہر ہے!کئی اور ممالک نے بھی اس فیصلے کی تائید میں جلد بازی دکھائی۔
اے اہل شام، بشار اور اس کے غنڈوں اورالجربا کے اتحاداور اس کی جماعت کے سامنےڈٹ کر ثابت قدم رہنے والو:
یہ ہوٹلوں میں سر چھپا کر پھرنے والے امریکہ،یورپ،قطر،سعودیہ اور ترکی وغیرہ کےمال ودولت پر داد عیش دینے والے، یہ سب کے سب تمھارے دشمن ہیں۔ان سے ہو شیار رہو۔ان کی منزل وہ نہیں جس خیر کے لیے تم جدو جہدکر رہے ہو بلکہ وہ اس کی مخالف سمت میں جارہے ہیں۔سرکش کے سامنے تمہارا ڈٹ جانا اور تمہاری قابل دید قربانیاں،اسلام کےمسکن شام میں حق کے غلبے،اسلام کی حکمرانی اورامریکی بالادستی کے خاتمے کے لیے اور اسے ماضی کا قصہ بنا دینے کے لئے ہیں۔جبکہ وہ ایسی حکومت چاہتے ہیں جو موجودہ حکومت کی ہی ایک دوسری شکل ہو ،یعنی موجودہ ایجنٹ کی جگہ دوسرا ایجنٹ ۔ ان کی نظر میں بہائے جانے والے اس پاکیزہ خون،اور دی جانے والی ان قربانیوں،اور پامال کی جانے والی ان عزّتوں اور برپاکی جانے والی اس تباہی کی کوئی قیمت نہیں جس نے انسان اور درختوں کے ساتھ پتھروں کو بھی نہیں چھوڑا۔جی ہاں یہ ان کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتے،وہ اپنے آقاؤں کے غلام کے طور پر عیّاشی کی زندگی گزار رہے ہیں،سرنگوں اور ذلیل ہو کر ،اگرچہ سانس تو لیتے ہیں ،کھاتے پیتے بھی ہیں لیکن یہ زندہ نہیں بلکہ مردہ ہیں،﴿لَهُمْ قُلُوبٌ لَا يَفْقَهُونَ بِهَا وَلَهُمْ أَعْيُنٌ لَا يُبْصِرُونَ بِهَا وَلَهُمْ آذَانٌ لَا يَسْمَعُونَ بِهَا أُولَئِكَ كَالْأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ أُولَئِكَ هُمُ الْغَافِلُونَ﴾"ان کے دل ودماغ تو ہیں لیکن یہ ان کے ذریعے سمجھتے نہیں،ان کی آنکھیں تو ہیں لیکن یہ ان کے ذریعے دیکھتے نہیں،ان کے کان تو ہیں لیکن یہ ان کے ذریعے سنتے نہیں،یہ تو جانور وں کی طرح ہیں بلکہ ان سے زیادہ گمراہ ہیں۔ یہی لوگ غافل ہیں"۔
یہ تو ہم جانتے ہی تھے کہ یہ اتحاد بصیرت سے محروم ہے لیکن اب یہ بصیرت کے ساتھ بصارت بھی کھو چکا ہے! یہ کیسے اپنے کرتوتوں پر، اللہ کے سامنے نہیں تو کم ازکم اللہ کے بندوں کے سامنے ہی سہی، شرم سار نہیں ہوتے؟ یہ کیسے ممکن ہے کہ جنیواکانفرنس میں امریکہ اور اس کے مددگاروں کے دباؤ میں ہونے والے فیصلے میں اِن کی کوئی رائے یا کردار ہو جبکہ استنبول میں فورڈ کے سامنے سرنگوں ہونے کے نتیجے میں پہلے ہی ان کی کمر ٹوٹ چکی ہے ؟
ہر صاحب بصارت وبصیرت شخص یہ سمجھتا ہے کہ جنیوا-2 میں اس اتحاد کے جانے کا مقصد بشار کو محفوظ راستہ دینا ہے اورساتھ ہی بشار کےمتبادل امریکی ایجنٹ کے لیے راہ ہموارکرنا ہے۔اس بات کو سمجھتے ہوئے کہ الجربا کے اتحاد کو اپنے تمام عناصر کے باوجودشام کے اندر کوئی حمایت اور تائید حاصل نہیں ، یہ خارج از امکان نہیں کہ نئی حکومت کی حفاظت کے لئے سلامتی کونسل کی قرارداد کے ذریعے بین الاقوامی مداخلت کی بات کی جائےتاکہ بشار کے "خروج " کا کوئی مناسب طریقہ نکالا جائے!یہی جنیوا کانفرنس کا مقصد اور اس کی غایت ہےاوریہ ایک خیانت ہے جسکا ہر وہ شخص مرتکب ہوگا جو جنیوا کانفرنس میں قدم رکھے گا۔
اے اہل شام، اے صبر کرنے اور کروانے والو،سرکش کے سامنے سینہ سپر لوگو:
یہ خائن کوئی بھی فیصلہ کرلیں یہ کچھ نافذ نہیں کر سکتےجب تک تم حق پر ثابت قدم ہو۔یہ تو اس قدر بزدل ہیں کہ شام کی جہاد اور رباط کی سرزمین میں تم سے ملاقات کے لئے بھی نہیں آسکتے۔ان کوہرگز شام میں کسی قسم کی مداخلت کا موقع نہ دوورنہ تمہاری قربانیاں رائیگاں جائیں گی،تمہارا خون ضائع ہو جائے گا،بلکہ تمہارے رب کے سامنے تمہاری شکایت کرے گا۔ہم شام کے جواں مردوں کو پکارتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے خیانت کرنے والوں کے سامنے کسی قسم کی نرمی اختیار نہ کریں اور نہ اپنے پائے استقلال میں کوئی لغزش آنے دیں ،﴿إِنَّ اللَّهَ يُدَافِعُ عَنِ الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ خَوَّانٍ كَفُورٍ﴾."بے شک اللہ ایمان والوں کی مدد کرتا ہے اور اللہ کسی ناشکر ےخائن کو پسند نہیں کرتا"۔
کامیابی اب کچھ دیر صبرکرنےکی دوری پر ہے ۔امریکہ، اس کا بشار اور اس کا ااتحاد جان کنی کی حالت میں ہیں۔وہ ایسا حل تلاش کر رہے ہیں جو تمہاری ثابت قدمی اور شجاعت سےان کو بچائے۔جس حق پر کاربند ہو اس پر ثابت قدم رہو،اللہ کے حکم خلافت راشدہ کے قیام کو اپنی موت و حیات کا مسئلہ بناؤ ،اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے ساتھ اخلاص کا ثبوت دو،اللہ کی مدد کرنے اور اس کے دین کی سربلندی کے لیے خلوص کے ساتھ سردھڑ کی بازی لگادواور تب اللہ القویّ العزیزتمہیں اپنی نصر اور فتح سے نوازے گا﴿وَلَيَنْصُرَنَّ اللَّهُ مَنْ يَنْصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ﴾"اللہ اس کی مدد ضرور کر تا ہے جو اللہ کی مدد کرتا ہے بے شک اللہ ہی طاقتور اور غالب ہے"۔
پریس ریلیز
عوام کو عوامی لیگ اور نیشنل پارٹی کے خونخوار پنجوں سے چھڑانے کا واحد راستہ یہ ہے کہ فوج کے مخلص افسران موجودہ حکومت کو برطرف کرکے اقتدار ان مخلص اور بیدار سیاستدانوں کو منتقل کریں جو اسلام کے ذریعے حکمرانی کریں گے
اپوزیشن اتحاد کی جانب سے انتخابات کے دوران غیر جانبدار عبوری حکومت کے قیام کے مطالبے کے لیے ہونے والے مظاہروں میں گزشتہ چار دنوں کے دوران سیاسی تشدد اور پولیس کی جانب سےگولی چلانے سے 20 سے 25 افراد قتل کردیے گئے ۔اس طرح 2013 میں سیاسی تشدد اور پولیس گردی کے ذریعے قتل کیے گئے افراد کی تعداد تقریبا 2800 ہوگئی ہے۔صرف یہی لوگ جمہوریت کے ہاتھوں مارے نہیں گئے بلکہ جمہوریت نے تو اپنے نفاذ کے پہلے ہی دن سے مختلف طریقوں سے بے شمار لوگوں کو قتل کیاہے۔رانا پلازہ میں اپنے پیاروں کو کھونے والوں کی چیخ وپکار کی آوازیں اب بھی ہمارے کانوں میں گونج رہی ہیں۔جمہوریت کے ہاتھوں قتل ہونے والے تمام افراد کی ایک نہ ختم ہونے والی فہرست ترتیب دی جاسکتی ہے۔اس کے علاوہ جمہوریت کے متعلق بیان کی گئی مندرجہ ذیل تمام باتیں بھی درست ہیں:
جمہوریت کا مطلب ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کرپشن اور لوٹ مار
جمہوریت کا مطلب ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آدھی آبادی کا غربت کی دلدل میں زندگی گزارنا
جمہوریت کا مطلب ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔خواتین کو استحصال کا نشانہ بنانا
جمہوریت کا مطلب ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اسلام کی صورت کو بگاڑنا اورنبیﷺ کی شان میں گستاخی کرنا
جمہوریت کا مطلب ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔استعمار کا غلبہ
وغیرہ وغیر۔۔۔۔۔
یہ دو دہائیوں سے بھی زیادہ عرصے سے عوامی لیگ، نیشنل پارٹی اور جمہوریت کی پالیسیوں کا انعام ہے۔پھر نام نہاد آزاد اور شفاف انتخابات کی ضمانت کا یہ واویلا کس لیے؟! کیا اس بات کی کوئی اہمیت ہے کہ حسینہ یا خالدہ مذاکرات کرتی ہیں یا نہیں؟! یہ دونوں بے اختیار اور مجبور ہیں۔ یہ دونوں اپنے آقا ؤں ، امریکہ اور ہندوستان کے ایجنٹ ہیں۔ حسینہ اور خالدہ کے درمیان کو ئی بات چیت ہو بھی جاتی ہے یا تمام پارٹیاں انتخابات میں حصہ بھی لے لیتی ہیں، نتائج پھر بھی وہی ہوں گے۔لوگوں کی زندگیوں میں کوئی حقیقی تبدیلی نہیں آئے گی۔حقیقی تبدیلی صرف موجودہ نظامِ حکومت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے سے ہی آئے گی۔ اس مقصد کے حصول کے لیے فوج کے مخلص افسران کو اپنے لوگوں کے ساتھ کھڑاہونا پڑے گا۔ لوگ تبدیلی کے لیے چیخ وپکار کررہے ہیں لیکن ان کے ہاتھ میں تبدیلی لانے کی طاقت نہیں ہے۔ تبدیلی لانے کی طاقت مخلص افسران کے ہاتھوں میں ہے کیونکہ انھیں کے پاس وہ طاقت ہے جس کے ذریعے حکومت کو اٹھا کر پھینکا جاسکتا ہے۔ لہٰذا یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس حکومت کا خاتمہ کریں نہ کہ کوئی فوجی حکومت قائم کردیں، بلکہ ریاست خلافت کے قیام کے لیےاقتدار کو مخلص اور بیدار سیاست دانوں کے سپرد کریں۔
لہٰذا حزب التحریر تمام مخلص اور بیدارلوگوں کو دعوت دیتی ہے کہ:
1۔ عوامی لیگ اور نیشنل پارٹی کی حکو مت کو مسترد کردیں۔ ان کے جرائم پر خاموش نہ رہیں تاکہ یہ(عدم خاموشی) ان کے خلاف شہادت بن جائے۔ اور ووٹ کے ذریعے انھیں دوبارہ اقتدار میں لانے کے لیے ان کے درمیان دوبارہ مذاکرات اور انتخابات کا انتظار نہ کریں۔
2 ۔ اس نظام سے چھٹکارہ پانے اور ریاست خلافت کے قیام کے لیے حزب التحریر کے ساتھ مل کر کام کریں۔
3 ۔ فوج میں موجود اپنے والدین، رشتہ داروں اور دوستوں میں سے مخلص افسران سے حکومت کو برطرف کرکے اقتدار ریاست خلافت کے قیام کے لیے حزب التحریر کو منتقل کرنے کا مطالبہ کریں۔
فوج کے مخلص افسران کو ہماری یہ دعوت ہے کہ :
1 ۔ مسلمان ہونے کے ناطے اپنے فرض کی ادائیگی کے لیے اٹھ کھڑے ہو جاؤ۔ جتنا باقی مسلمانوں پر ریاست خلافت کا قیام فرض ہے اتنا ہی تم پر بھی ہے بلکہ تم پر ریاست خلافت کے قیام کا فرض دوسرے تمام مسلمانوں سے بڑھ کر ہے کیونکہ اقتدار کی کنجی تمھارے ہاتھوں میں ہے۔
2 ۔ اپنے اس حلف کی پاسداری کرو جو تم نے ملک و قوم کی حفاظت کے لیے اٹھا رکھی ہے۔ تمہاری قسم اس حکومت کی چوکیداری کے لیے تو نہیں تھی جو اپنی عوام کو ظلم وستم کا نشانہ بنا کر دشمن کی خدمت کر رہی ہے۔
3 ۔ رسول اللہ ﷺ کی سنت کی پیروی کرو اور دوسری خلافت راشدہ قائم کرکے انصار جیسے بن جاؤ۔ انصار کی مدد سے رسول اللہ ﷺ نے مدینہ میں پہلی اسلامی ریاست قائم کی تھی اور وہ ریاست 1324 ھ/1924ء تک قائم رہی ۔اگر تم دوسری اسلامی ریاست کے انصار بن گئے تو اللہ تمہیں بھی ان شاء اللہ پہلے انصار کی طرح اجر عطا فرمائیں گے۔اس لیے تم فوراَ َ شیخ حسینہ کی حکومت کو برطرف کر کے اقتدار ریاست خلافت کے قیام کے لیے حزب التحریر کے حوالے کرو۔
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ﴾
"اے ایمان والو !اللہ اور اس کے رسول کی پکار پر لبیک کہو جب وہ تمہیں اس چیز کے لیے پکاریں جس میں زندگی ہے"( الانفال:24)
انڈونیشیا میں حزب التحریر کے شباب، لوگوں کو بطور مسلمان بہتر انداز میں شریعت کی بنیاد پراسلامی خلافت کے سائے تلےزندگی گزارنے کےلئے اپنے فرائض سمجھنے میں مدد دینے کیلئے، مختلف اسالیب استعمال کرتے ہیں۔
حزب التحریر / انڈونیشیا نے 05 نومبر 2013 کو مغربی جاوا کے ضلع بینڈنگ (Bandung) سے سائیلورں کے کارواں نکالے۔اس سرگرمی کے ذریعے، انہوں کے معاشرے کے تمام مکاتبِ فکر افراد کو دعوت دی کہ وہ اسلامی ریاست یعنی خلافتِ سلامیہ کا دوبارہ قیام کرتے ہوئےجاہلیت اور سیکولر نظام کو اسلامی نظام سے بدلنے کےلئے، محرم کے مہینے کو پرزور تحریک کے طور پر استعمال کریں۔ کارواں نے بینڈنگ (Bandung) شہرگرد 15 میل تک کا فاصلہ طے کیا۔
دریں اثناء مشرقی کلیمنٹن (Kalimantan) کے شہر سمارندا (Samarinda) کےشباب نے اسلامی جھنڈوں، لواء اور رایا، کا مظاہرہ کرتے ہوئے موٹر سائیکلوں کا کارواں نکالا۔
ان سرگرمیوں کا مثبت ردِ عمل سامنے آیاجس نے لوگوں کوحزب التحریر اور اس کی کوششوں کو جاننے کا بھرپُور موقع دیا۔ ان سرگرمیوں نے حزب التحریرکو بھی موقع فراہم کیا کہ وہ لوگوں کے قریب آئیں اور دعوت کیلئے ایک سازگار ماحول مہیا ہو۔ دعاء گو ہیں کہ اللہ جلد اس امت کو خلافت کے قیام میں مدد دے۔
انڈونیشیا میں حزب التحریر کا میڈیا آفس
مزید تصاویر کیلئے یہاں کلک کریں
سوال: کچھ لوگ کہتے ہیں کہ حزب التحریر خلافت کے قیام کی اپنی جدو جہد میں مدنی دور پر نہیں بلکہ صرف مکی دور پر اعتمادکرتی ہے اور قتال کی کاروائیوں 'جہاد' کو خلافت کے قیام کے لیے دعوت کے مرحلے میں خلاف شرع قرار دیتی ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے ایسا نہیں کیا۔۔۔
کہنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ :خلافت کے قیام کی دلائل کو مدنی دور سے کیوں اخذ نہیں کیا جاسکتا جہاں جہاد فرض ہوچکا تھا اور جاری تھا؟
کیا اس مسئلے کا کوئی تسلی بخش جواب ہے؟اللہ آپ کو جزاء خیر دے۔
جواب: اس سوال میں کئی امور ہیں جن کی وضاحت کی ضرورت ہے:
1۔ دلائل خواہ کتاب اللہ سے ہوں یا سنت رسول اللہ ﷺ سے،ان پر مکمل طور سے عمل کرنا ضروری ہے،مکی آیات و احادیث اور مدنی آیات و حدیث منورہ میں کوئی فرق نہیں۔
2۔ مطلوبہ دلائل وہ ہیں جو اس مسئلہ سے متعلق ہو ں نہ کہ وہ جس کا اس مسئلہ سے کوئی تعلق ہی نہ ہو:
ا۔ مثال کے طور پر اگر میں یہ جاننا چاہوںکہ وضو کس طرح کروں تو وضو کے دلائل تلاش کروں گا،خواہ یہ مکہ مکرمہ میں نازل ہوئے ہوں یا مدینہ منورہ میں۔پھران سے حکمِ شرعی کو اصول فقہ کے مطابق مستنبط کروں گا۔۔۔۔لیکن ایسا نہیں کر سکتا کہ وضو کے طریقہ کار کا حکم معلوم کرنے کے لیے روزے کے احکامات کی چھان بین کروں۔
ب ۔ اور مثال کے طوراگر میں حج کے احکامات جاننا چاہتا ہوں تو حج کے دلائل تلاش کروں گا ،خواہ وہ مکہ میں نازل ہوئے ہوں یا مدینہ میں۔اور پھران سے اصول فقہ کے مطابق حکم کو مستنبط کیا جائے گا۔لیکن حج کے طریقہ کار اور اس کی ادائیگی کے احکامکا حکم معلوم کرنے کے لیے نماز کے دلائل کونہیں دیکھوں گا۔
ج ۔ اور مثال کے طور پر جب میں جہاد کے احکامات کو سمجھنا چاہوں:کہ یہ فرض عین ہے یا فرض کفایہ ہے ،یہ دفاعی ہے یا اقدامی ،فتح کی صورت میں مال غنیمت اور اسلام کوپھلاجنے کے حوالے سے کیا احکامات ہیں،کیافتح بزور طاقت ہوتی ہے یا صلح کے ذریعے وغیرہ وغیرہ میں جہاد کی دلائل کی چھان بین کروں گا خواہ وہ مکہ میں نازل ہوئے ہوں یا مدینہ میں، اورانہی سے حکمِ شرعی کو اصول فقہ کے مطابق مستنبط کیا جائے گا۔لیکن میں جہاد کا حکم اور اس کی تفصیلات معلوم کرنے کے لیے زکوۃ کی دلائل کی چھان بین نہیں کروں گا۔
د ۔ ہر مسئلہ کے متعلق حکم شرعی جاننے کا یہی طریقہ کار ہے،اس سے متعلق دلائل کی چھان بین ہوگی چاہے وہ مکہ میں نازل ہوئےہوں یا مدینہ میں،اور پھر ان دلائل سے اس مئلےں کے بارے میں حکمِ شرعی مسلمہ شرعی اصول کے مطابق مستنبط کیا جائے گا۔
3 ۔ اب ہم اسلامی ریاست کے قیام کے مسئلے کی طرف آتے ہیں،اس کے دلائل کو تلاش کرتے ہیں خواہ وہ مکہ میں نازل ہوئے ہوں یا مدینہ میں اور ان سے مسلمہ اصول کے مطابق حکمِ شرعی کا استنباط کرتے ہیں۔
اسلامی ریاست کے قیام کی دلائل ہمیں مکہ مکرمہ میں رسول اللہ ﷺکی سیرت میں بیان کیے گئے دلائل کے علاوہ کہیں اور نہیں ملتے۔رسول اللہ ﷺ نے ابتداء میں غیر اعلانیہ طور پر اسلام کی طرف دعوت دی جس کے نتیجے میں مؤمنوں کی ایک صابر جماعت تیار ہوگئی۔۔۔پھر مکہ میں اور مختلف موقعوں پر اس دعوت کا کھلا اظہار کیا۔۔۔اس کے بعد اہل قوت اور اہل طاقت سے نصرت طلب کی اور اللہ نے انصار سے آپ ﷺ کو نوازا،آپﷺ ہجرت کر کے مدینہ گئے اوراسلامی ریاست قائم کی۔
ریاست کے قیام کے یہ دلائل ہیں،اس کے علاوہ ریاست کے قیام کی کوئی دلیل نہیں۔رسول اللہ ﷺنے اپنی سیرت طیبہ میں اس کو ہمارے لیے تشفی بخش انداز سے بیان کیا اورہم پر اسی سیرت کی پابندی لازمی ہے۔بات جہاد کے فرض ہونے سے پہلےمکی دور یا جہاد کے فرض ہونے کے بعد مدنی دور کی نہیں ہےبلکہ بات ریاست کے قیام کے دلائل کو سمجھنے کی ہے۔یہ دلائل ہجرت کر کے مدینہ میں ریاست کے قیام تک مکی دور میں ملتے ہیں۔
ریاست کا قیام اور جہاد دو الگ فرائض ہیں۔جیسا کہ ہم نے کہا کہ ریاست کے قیام کے دلائل اسی موضوع سے لیے جائیں گے اور جہاد کے دلائل اس کے اپنے موضوع سے اخذ کیے جائیں گے۔یہ دونوں الگ چیز یں ہیں اور یہ ایک دوسرے پر موقوف بھی نہیں ہیں۔اسی وجہ سے ریاست خلافت کی عدم موجود گی میں جہاد معطل نہیں ہو تا۔رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے،«وَالْجِهَادُ مَاضٍ مُنْذُ بَعَثَنِي اللهُ عَزَّ وَجَلَّ إِلَى أَنْ يُقَاتِلَ آخِرُ أُمَّتِي الدَّجَّالَ، لَا يُبْطِلُهُ جَوْرُ جَائِرٍ وَلَا عَدْلُ عَادِلٍ»"جہاد اللہ کی طرف سے مجھے مبعوث کرنے کے وقت سے اس وقت تک جاری رہے گا جب میرا آخری اُمتی دجال سے لڑے گا۔ کسی ظالم کا ظلم اور کسی عادل کا انصاف اس کو باطل قرار نہیں دے سکتا"اس کو البیہقی نے السنن الکبری انس بن مالک سے روایت کیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ جہاد،خواہ خلافت موجود ہو یا نہ ہو، احکام شرعیہ کے مطابق جاری رہےگا۔
اسی طرح حکمرانوں کی جانب سے جہاد کو معطل کرنے کےباوجود خلافت کے قیام کی جدوجہد اس وقت تک جاری رہے گی جب تک خلافت قائم نہیں ہو جاتی کیونکہ استطاعت رکھنے والے مسلمانوں کا خلیفہ کی بیعت کے بغیر رہنا حرام ہے۔۔۔۔مسلم نے عبد اللہ بن عمر سے روایت کی ہے کہ :میں نے رسول اللہ ﷺ کویہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ:«مَنْ خَلَعَ يَدًا مِنْ طَاعَةٍ، لَقِيَ اللهَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ لَا حُجَّةَ لَهُ، وَمَنْ مَاتَ وَلَيْسَ فِي عُنُقِهِ بَيْعَةٌ، مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّةً»"جس نے اطاعت سے ہاتھ کھنچا لیا وہ اللہ سے قیامت کےدن اس حال میں ملے گا کہ اس کے پاس کوئی حجت نہیں ہو گی،جو اس حال میں مرا کہ اس کی گر دن پر خلیفہ کی بیعت نہیں تو وہ جاہلیت کی موت مرا"۔
اس بناپر جہاد بھی جاری رہے گا اور خلافت کے قیام کی جدوجہد بھی اس کے قیام تک جاری رہے گا۔یہ دونوں ایک دوسرے پر موقوف نہیں۔یہ دونوں دوالگ الگ مسئلے ہیں۔ہر ایک مسئلے کے بارے میں اس کی اپنے شرعی دلائل کے مطابق بحث ہو گی اور اس کے ساتھ خاص حکم ِ شرعی مسلمہ اصول کے مطابق ہی اخذ کیا جائے گا۔
4 ۔یہی وجہ ہے کہ حزب،رسول اللہ ﷺ کے اس طریقے کی پابند ہے جس پر مکہ میں کاربند رہتے ہوئے مدینہ میں ریاست قائم کردی گئی۔ریاست کے قیام کے لیے دعوت کے مرحلے میں قتال سے اجتناب کیا،اس میں مکی یا مدنی دور کی بات ہی نہیںبلکہ ریاست کے قیام کی دلائل رسول اللہ ﷺ کے وہ اعمال ہیں جو مدینہ میں ریاست کے قیام تک مکہ میں انجام دیئے۔مسئلہ ریاست کے قیام کے طریقے کا ہے۔لہٰذا رسول اللہ ﷺ کے اس بتائے ہوئے طریقے کے علاوہ ریاست کے قیام کا کوئی دوسرا طریقہ نہیں ہے۔
اگر مسئلہ ریاستی اعمال اور اس کے اداروں کا ہو تا تو اس کو ان دلائل سے اخذ کرتے جو رسول اللہ ﷺ نے مدینہ میں ان اداروں کو قائم کر کے دِکھایا کیونکہ ریاست مدینہ میں قائم ہوئی تھی۔
5 ۔ خلاصہ:
ا ۔ کسی بھی مسئلہ کے احکامات اسی مسئلے کے بارے میں وارد شدہ دلائل سے اخذ کیے جائیں گے جو اس کے بارے میں ہیں خواہ مکہ میں نازل ہوئے ہوں یا مدینہ میں۔روزے کے احکامات روزے کے دلائل سے اخذ کیے جائیں گے،نماز کے احکامات نماز کے دلائل سے لیے جائیں گے،جہاد کے احکامات جہاد کے دلائل سے ہی لیے جائیں گے اورریاست قائم کرنے کے احکامات بھی ریاست قائم کرنے کے دلائل سے ہی اخذ کیے جائیں گے۔۔۔ہر جگہ ایسا ہی ہو گا۔
ب ۔ ریاست کے قیام کے لیے رسول اللہﷺ کے اس طریقے کو جو آپﷺ نےریاست کے قیام کے لیے مکہ میں اختیار کیا تھا،اختیار کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اس کے علاوہ ریاست کے قیام کی کوئی دلیل موجود نہیں۔۔۔۔اگر ریاست کے قیام کی کوئی دلیل مدینہ میں وارد ہوتی تو اس سے استدلال بھی لازمی تھا۔
ہم اللہ سبحانہ وتعالی سے اسلامی ریاست خلافت راشدہ کے قیام کے لیے مدد اور توفیق کے طلب گار ہیں تاکہ اسلام اور مسلمان ایک بار پھر معزز،اور کفر اور کفار ذلیل ہوں،چاردنگ عالم میں خیر کا چرچا ہو اور یہ اللہ کے لیے کوئی مشکل نہیں۔
مشہور فقیہ اور رہنما، امیر حزب التحریر، شیخ عطا بن خلیل ابو الرَشتہ کی کتاب "التیسیرفی اصول التفسیر" سے اقتباس
(ترجمہ)
وَلَقَدْ جَاءَكُمْ مُوسَى بِالْبَيِّنَاتِ ثُمَّ اتَّخَذْتُمْ الْعِجْلَ مِنْ بَعْدِهِ وَأَنْتُمْ ظَالِمُونَ2)9(وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَكُمْ وَرَفَعْنَا فَوْقَكُمْ الطُّورَ خُذُوا مَا آتَيْنَاكُمْ بِقُوَّةٍ وَاسْمَعُوا قَالُوا سَمِعْنَا وَعَصَيْنَا وَأُشْرِبُوا فِي قُلُوبِهِمْ الْعِجْلَ بِكُفْرِهِمْ قُلْ بِئْسَمَا يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمَانُكُمْ إِنْ كُنتُمْ مُؤْمِنِينَ )93(قُلْ إِنْ كَانَتْ لَكُمْ الدَّارُ الآخِرَةُ عِنْدَ اللَّهِ خَالِصَةً مِنْ دُونِ النَّاسِ فَتَمَنَّوْا الْمَوْتَ إِنْ كُنتُمْ صَادِقِينَ )94(وَلَنْ يَتَمَنَّوْهُ أَبَدًا بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِالظَّالِمِينَ (95) وَلَتَجِدَنَّهُمْ أَحْرَصَ النَّاسِ عَلَى حَيَاةٍ وَمِنْ الَّذِينَأَشْرَكُوا يَوَدُّ أَحَدُهُمْ لَوْ يُعَمَّرُ أَلْفَ سَنَةٍ وَمَا هُوَ بِمُزَحْزِحِهِ مِنْ الْعَذَابِ أَنْ يُعَمَّرَ وَاللَّهُ بَصِيرٌ بِمَا يَعْمَلُونَ (96)
"اور موسیٰؑ تمھارے پاس واضح دلائل لے کر آئے تھے، پھر بھی تم نے اس کے بعد (کوہِ طور پر جانے کے بعد) بچھڑے کو اپنا رب بنالیا اور تم ہی ظالم تھے(92)۔ اور جب ہم نے تم سے اقرار لیا اور تمھارے اوپر طور کو بلند کیا اور کہا کہ جو شے ہم نے تمھیں دی ہے اسے مضبوطی سے تھام لو اور حکم سنو!،تو لوگوں نے نے کہا ہم نے سنا مگر نہیں مانتے۔ان کے قلوب ( کے ریشے ریشے ) مں وہی بچھڑا پو ست ہوگاکتھا،ان کے کفرکی وجہ سے، آپ کہہ دیجئےکہیہ افعال توبہت برے ہںک ، جن کی تعلمم تمھارا ایمان تم کوکررہاہے، اگرتم (بزعم خود) اہل ایمان ہو! (93)۔آپ کہہ دیجئے اگر اللہ کے ہاں آخرت کا گھر لوگوں کی بجائے صرف تمھارے لیے ہی ہے تو موت کی تمنا کرو اگر تم سچے ہو(94)۔ لیکن وہ اس کے سبب جو ان کے ہاتھوں نے آگے بھیجا ہے کبھی اس کی تمنا نہیں کریں گے اور اللہ ظالموں کو خوب جانتا ہے(95)۔اور آپ ضرور انہیں لوگوں سے زیادہ زندگی کا حریص پائیں گے،مشرکوں سے بھی زیادہ۔ ان میں سے کوئی کہتا ہے کہ کاش !وہ ہزار سال کی عمر پائے!مگر عمر پانا انھیں عذاب سے نہیں بچا سکتا۔ اور اللہ دیکھ رہا ہے جو وہ کرتے ہیں(96)۔
عطاء بن خلیل ابوالرَّشتہ( امیرحزب التحریر ) اپنی تفسیر(التیسیرفی اصول التفسیر)میں مذکورہ بالاآیات شریفہ کی تفسیرکے تحت فرماتے ہیں:
اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ان آیات میں بتلایاہے کہ:
1۔ اللہ جلّ شانہ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کوبنی اسرائیل کی طرف قطعی دلائل اوراس کی نبوت ورسالت کی تائید کرنے والے معجزات دے کربھیجا،یہ معجزات وہ9نشانیاں تھیں جن کاذکردوسری جگہ کیا گیا ہے، وَلَقَدْ جَاءَكُمْ مُوسَى بِالْبَيِّنَاتِ "ہم نے موسی ٰ علیہ السلام کو نوواضح نشانیاں عطاکی تھیں" (الاسراء / آیت/101)۔ وہ عصا(لاٹھی) جواژدہاکی صورت اختیارکرلیتی،اوریدبیضایعنی ہاتھ جس کووہ نکال دیتےتو چمکتا دمکتادکھائی دیتا،دریائےقلزم کاپھٹ جانااوراس کاایک خشک راستے میں تبدیل ہوجانا،ٹڈیاں ، جوئیں، مینڈک، خون وغیرہ کی صورت میں نازل کی گئی نشانیاں وغیرہ جیسے معجزات جوموسیٰ علیہ السلام کی نبوت کی قطعی ہونے کےدلائل تھے۔مگر بنی اسرائیل نے جبکہ موسی ٰ علیہ السلام اپنے رب کے ساتھ ملاقات کے لئے کوہ طورپرگئے، ایک بچھڑے کی پرستش شروع کی اوراس کواپنامعبود بنالیا۔اس فعل شنیع کی وجہ سے وہ ظالم ٹھہرے،کیونکہ ان کایہ فعل بے جاتھاکہ ایک بچھڑے کوجو عبادت کے قابل نہیں تھا،اپناخد اتصورکرکے اس کی عبادت کرنے لگے ۔ اللہ تعالیٰ نے اس کویوں فرمایاہے کہ(ثُمَّ اتَّخَذْتُمْ الْعِجْلَ)....
اس آیت میں(ثُمَّ)کاکلمہ تراخی (تاخیر) کیلئے ہے، یعنی انہوں نے ان نشانیوںکااچھی طرح مشاہدہ کرلینے کے کافی عرصہ بعد یہ حرام حرکت کی۔ان کے پاس نشانیاں پہنچیں،انہیں بغور دیکھااورحضرت موسیٰ علیہ السلام کی سچائی پراس کی قطعی دلالت کاانہیں پتہ چلا۔اس سب کے باوجود انہوں نے ایک بچھڑے کومعبود بنالیا۔اس طرح ان کے کردارپرمشتمل یہ تاریخی حقائق ان کیلئے سرزنش اورملامت ومذمت کے آئینہ دارہیں۔
2۔ پھراللہ تعالیٰ بنی اسرائیل کوان سے لئے گئے میثاق اورعہد وپیمان اورکوہ طورکاان کے اوپرلاکھڑکرنےکی یاددہانی کراتے ہیں ،اوران کویہ بھی یاددلاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کوتورات کے اندردئے ہوئے احکامات پرسختی سے عمل پیراہونے کاحکم دیاتھا،جیساکہ اس سے پہلے اسی طرح کی ایک آیت،(وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَكُمْ وَرَفَعْنَا فَوْقَكُمْ الطُّورَ خُذُوا مَا آتَيْنَاكُمْ بِقُوَّةٍ وَاذْكُرُوا مَا فِيهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ) البقرۃ / (63) گزری ہے کی تفسیرمیں ہم نے بیان کیا.مذکورۃ الصدرآیت میں اسی واقعہ طور کاذکرہے،البتہایک نیامعنی سمجھانے کیلئے اس آیت کو مکررلایاگیا،یعنی یہ کہ اللہ کاامرسننے کی قیمت اس وقت ہوتی ہے،جب اس کاسنناامرالٰہی پرجوں کے توں عمل کی نیت سے ہو۔بالفاظِ دیگرحکم کوتسلیم کرنے اوراس کی پیروی کی نیت سے سناجائے ،ورنہ اس کاکوئی فائدہ نہیں ہوگا۔آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے (وَاسْمَعُوا ) "سنو" لیکن اُن کاجواب تھا(سَمِعْنَا وَعَصَيْنَا)"ہم نے سنااورنافرمانی کی" ۔جواب پرغورکرنے سے معلوم ہوتاہے کہ(وَاسْمَعُوا) "سن لو"کاجوحکم دیاگیا،یہ ماننے اورطاعت وقبول کے حکم پربھی مشملم تھا(محض سننے کا حکم ان کونہیں دیاگیاتھا) اگرچہ الفاظ میں اس کاذکرنہیں اوربسااوقات سننے سے مراد مان لیناہوتاہے ۔جیساکہ ہم نماز میں کہتے ہیں: سمع اللہ لمن حمدہ( حمد کرنے والے کواللہ تعالیٰ سنتے ہیں)۔
(وَأُشْرِبُوا فِي قُلُوبِهِمْ الْعِجْلَ بِكُفْرِهِمْ قُلْ بِئْسَمَا يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمَانُكُمْ إِنْ كُنتُمْ مُؤْمِنِينَ )93("ان کے قلوب ( کے ریشے ریشے ) میں وہی بچھڑا پیوست ہوگیاتھا،ان کے کفرکی وجہ سے،آپ کہہ دیجئےکہ یہ افعال توبہت برے ہیں ،جن کی تعلیم تمھاراایمان تم کوکررہاہے،اگرتم (بزعم خود) اہل ایمان ہو"۔
آیت کے شروع میں واؤ حالیہ (حالت بتانے کیلئے) ہے،مطلب یہ ہے کہ انہوں نے ایسی حالت میں عَصَینَاکہاجب کہ بچھڑے کی محبت ان کے دلوں میں رچ بس گئی تھی،اوران کایہ قول کہ (سَمِعْنَا وَعَصَيْنَا) ان کے کفرکے سبب تھا،اس لئے فرمایا(بِكُفْرِهِمْ)" ان کے کفرکے سبب"۔
پھراللہ تعالیٰ آیت کااختتام یہ بیان کرتے ہوئے فرماتےہیں کہ یہ لوگ دعوائے ایمان میں جھوٹے ہیںکیونکہ ایمان کفرکی ضد ہے ،توایمان بچھڑے کوالٰہ بنانے کاحکم دیتا، نہ ہی اس کاکہ اس بچھڑے کیمحبت بطور ایک معبودکے دل نشین ہوجائے ،اوراس کی محبت کی وجہ سے اللہ، جوکہ معبودحقیقی اور خالق ہے،کی بات سننے اوراس پر عمل کرنے سے روکاجائے،(ایمان کبھی بھی اس کی اجازت نہیں دیتا)۔
یہاں ایمان کی طرف حکم دینے کی نسبت اورایمان کاان کی طرف نسبت جواللہ تعالیٰ کے اس قول میں ذکرہے(قُلْ بِئْسَمَا يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمَانُكُمْ إِنْ كُنتُمْ مُؤْمِنِينَ )93(یہ مذاق اُڑانے کیلئے ہے اورایک قسم کی پھبتی کسی گئی ہے۔ جیسے دوسرے مقام پراللہ تعالیٰ نے قوم شعیب کی بات نقل کرتے ہوئے فرمایاہے(اَصَلَوٰتُکَ تَامُرُکَ)(ھود/ آیت /87)"کیاتیری نماز تجھے یہ حکم دیتی ہے"اس لئے اللہ تعالیٰ کے اس قول (قُلْ بِئْسَمَا يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمَانُكُمْ إِنْ كُنتُمْ مُؤْمِنِينَ) کامطلب یوں بنتاہے کہ تم جواپنے آپ کومؤمن کہتے ہو،ایمان توتم نے ایک بچھڑے پرلایاہے ،جسے تم نے معبودبنایااوراس کی محبت تمہارے دلوں میں گھرکرچکی وغیرہ توایساایمان بہت براایمان ہے،یہ وہ ایمان نہیں جس کامطالبہ ربّ العالمین کرتاہے،بلکہ یہ توخالص کفرہے۔
3۔ پھرآیت نمبر 94 میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ ان کے اس جھوٹے دعوے کوبیان کرتاہے کہ جنت تو ہماری ہے،اس کاذکرسورہ بقرہ کی آیت نمبر/ 111میں اس طرح کیا گیا ہے(وَقَالُوا لَنْ يَدْخُلَ الْجَنَّةَ إِلاَّ مَنْ كَانَ هُودًا أَوْ نَصَارَى) "یہ (یہود ونصاریٰ )کہتے ہیں کہ جنت میں ان کے سواکوئی اورہرگزداخل نہیں ہوسکتا"(البقرۃ /آیۃ 111)۔ یہ ان کاایک خودساختہ دعوٰی تھا۔اس کی قلعی کھُلنے کیلئے ان پرحجت قائم کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتےہیں کہ اگروہ واقعی اپنے اس دعوے میں سچے ہیں توانہیں چاہئے کہ وہ موت یعنی اللہ تعالیٰ سے ملنے کی تمناکرکے دکھادیں۔سو اگر یہ لوگ واقعی میں اللہ کے محبوب اورپسندیدہ ہوں،جیساکہ اس آیت میں ان کے اس خیال باطل کاذکرکیاگیاہے(وَقَالَتْ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَى نَحْنُ أَبْنَاءُ اللَّهِ وَأَحِبَّاؤُهُ)"یہود اورنصاریٰ (دونوں فریق )یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم اللہ کے بیٹے اوراس کے محبوب ہیں" تواس تحدّی (چیلنج)کے بعدوہ اپنی صداقت کوثابت کرنے کیلئے فوراً موت کی تمنا کریں گے،ورنہ ان کاجھوٹاہوناثابت ہوجائے گا۔اوریہی ہوا،کیونکہ انہوں نے کبھی بھی اس قسم کی کوئی تمناکرنے کی ہمتنہیں کی،کیونکہ ان لوگوں نے جوکفراورشرکے اعمال کئے ہیں،ان کابخوبی علم ہےجس کے ہوتے ہوئے وہ اللہ کاسامناکرنے سے ڈرتے ہیں۔جیساکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتے ہیں(وَلَنْ يَتَمَنَّوْهُ أَبَدًا بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِالظَّالِمِينَ)(95("یہ لوگ ہرگز کبھی اس (موت) کی تمنانہ کریں گے،بوجہ (سزاکے خوف کے ) ان اعمال(کفریہ ) کاجواپنے ہاتھوں سمیٹتے ہیں"۔
یہ ان دلائل میں سے ہےجو قطعی ہوتےہیں اورجس کواللہ تعالیٰ نے رسو ل اللہ ﷺ کے زمانے کےیہود ونصاریٰ کے خلاف پیش کیا ہے،کیونکہ اگروہ اس دعوے میں کہ جنت ان کیلئے مخصوص ہے،حق پر ہوں،توپھرانہیں موت کی تمناکرنی چاہئے ،یہ بات یہودکی نسبت سے ہے اوراگرنصاریٰ حق پرہیں ،جیساکہ ان کاعیسی ٰ علیہ السلام کے بارے میں خیال تھاکہ وہ اللہ کابندہ نہیں ،بلکہ وہ خود الٰہ ہے توپھرآئیں اورمباہلہ کریں،اس کاذکر سورہ آل عمران کی آیت نمبر 61 میں ہے ،ارشادہے (فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنْفُسَنَا وَأَنْفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَةَ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ "آپ یوں فرمادیجئے کہ آجاؤ ہم (اورتم) بلاکرجمع کرلیں اپنے بیٹوں کواورتمھارے بیٹوں کواوراپنی عورتوں کواورتمہاری عورتوں کواورخود اپنے تنوں کواورتمہارے تنوںکوپھرہم (سب مل کر) خوب دل سے دعاء کریں اس طورپرکہ اللہ کی لعنت بھیجیں،ان پرجو(اس بحث میں ) ناحق پرہوں "(آل عمران: 61 )۔لیکن عہد رسالت میں ان دونوں فریقوں نے یہ نہیں کیا۔نہ تویہودی اب تک موت کی تمناکرسکے اورنہ نصاریٰ نجران نے مباہلہ کی چیلنج کوقبول کیا۔ یہی ان پرقطعی حجت ہے اگروہ عقل رکھتے ہیں۔ امام احمد ؒنے یہ حدیث نقل کی ہے اورتفسیر طبری میں بھی مذکورہے ، لوان الیہود تمنواالموت لماتواولراوا مقاعدھم من النار،ولوخرج الذین یباھلون رسول اللہ ﷺ لرجعوالایجدون اھلاًولامالاً "اگریہود موت کی تمناکرتے تووہ مرجاتے اورجہنم میں اپنے ٹھکانے ان کونظر آتےاوراگررسول اللہﷺ کے ساتھ مباہلہ کرنے والے باہرآتے تواس حال میں لوٹتے کہ اپنا کوئی مال اوراہل وعیال نہ پاتے۔" (تفسیرطبری 1/424،مسندِاحمد 1/148)
4۔ یہود اپنی تعفن زدہ حقیقت کے نتیجے میں اپنے کالےانجام کاسامناکرنے کی وجہ سے موت سے خائف ہیں ،اس وجہ سے وہ تمام لوگوں سے زیادہ اس حیات دنیوی سے شدید محبت کرتےہیں،بلکہ مشرکین سے بھی بڑھ کرزیادہ محبت کرتے ہیں،جن کادنیاوی زندگی کے علاوہ کسی دوسری زندگی پر ایمان نہیں ۔توان مشرکین کی تمام تر محبت اس زندگی کے ساتھ اس لئے ہے کہ ان کاکسی دوسری زندگی کاعقیدہ ہی نہیں لیکن اس کے باوجود یہود ان مشرکین سے بھی زیادہ دنیاکی زندگی سے محبت کرتے ہیں۔ ٖآخری آیت میں ان کی اس حالت کابیان ہے،چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
وَلَتَجِدَنَّهُمْ أَحْرَصَ النَّاسِ عَلَى حَيَاةٍ وَمِنْ الَّذِينَ اَشْرَكُوا يَوَدُّ أَحَدُهُمْ لَوْ يُعَمَّرُ أَلْفَ سَنَةٍ وَمَا هُوَ بِمُزَحْزِحِهِ مِنْ الْعَذَابِأَنْ يُعَمَّرَ وَاللَّهُ بَصِيرٌ بِمَا يَعْمَلُونَ (96) "اور آپ ضرور انہیں لوگوں سے زیادہ زندگی کا حریص پائیں گے،مشرکوں سے بھی زیادہ۔ ان میں سے کوئی کہتا ہے کہ کاش !وہ ہزار سال کی عمر پائے!مگر عمر پانا انھیں عذاب سے نہیں بچا سکتا۔ اور اللہ دیکھ رہا ہے جو وہ کرتے ہیں"
تواس آیت میں جس زندگی کاذکرہے اس سے مطلق زندگی مراد ہے ،یعنی کوئی بھی زندگی۔لیکن آیت کے اس دوسرے ٹکڑے کےمفہوم کےذریعے اس کی مطلقیت کومقید کیاگیا( يَوَدُّ أَحَدُهُمْ لَوْ يُعَمَّرُ أَلْفَ سَنَةٍ )یعنی لمبی عمر ۔
اس آیت میں ( أَحَدُهُمْ ) کی ضمیر مشرکین کی طرف لوٹانابھی جائز ہے ،اور معنی اس طرح ہوگاکہ یہود ان مشرکین سے بھی بڑھ کرزندگی کے حریص ہیں جن میں ایک ایک آدمی ہزارسالہ زندگی کی خواہش کرتاہے کیونکہ یہ مشرکین تودنیاکی زندگی کے علاوہ کسی دوسری زندگی کوجانتے تک نہیں ،اس لئے وہ اس زندگی میں ممکن حد تک عرصہ دراز تک زندہ رہناچاہتے ہیں۔ اوراس میں یہ بھی ممکن ہے کہ ضمیریہود کی طرف لوٹے ،پھر معنی کچھ یوں بنتاہے کہ ان میں سے ہرایک طویل زندگی کاخواہشمند ہوتاہے ۔یہی راجح ہے اوراس کاقرینہ اللہ تعالیٰ کایہ قول ہے(وَمَا هُوَ بِمُزَحْزِحِهِ مِنْ الْعَذَابِ أَنْ يُعَمَّرَ)ٖ ۔پس مشرکین کااس بات پرایمان نہیں کہ آخرت بھی ہوگی توان کاعذاب سے خائف ہونابھی متصور نہیں۔جہاں تک یہود کی بات ہے توانہیں توآخرت اوروہاں کے عذاب کایقین ہے۔ عذاب کایقین اس لئے ہے کہ اپنے بداعمال کاانہیں احساس ہے ،تووہ کبھی بھی موت کوپسند نہیں کریں گے،تاکہ حتی الامکان عذاب سے بچ سکے۔تو اللہ تعالیٰ جانتے ہیں کہ خواہ ان کی عمریں کتنی لمبی ہوجائیں ،ہزارسال یااس سے بھی زیادہ،عذاب بہرحال انہیں آپکڑےگا،کیونکہ آخرکار انہوں نے مرکر اپنے رب کے پاس لوٹنا ہے۔