الإثنين، 23 جمادى الأولى 1446| 2024/11/25
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية
چھ سودی اموال کے بارے میں  سوالوں کا جواب

بسم الله الرحمن الرحيم

بسم اللہ الرحمن الرحیم

چھ سودی اموال کے بارے میں سوالوں کا جواب

ہشام، ایمن الفجری، زکریا اور عین  الحق کو

عین الحق کا سوال:

  السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ہمارے فاضل شیخ،  اللہ آپ کی مدد اور تائید کرے اور حزب  اور امت کو فتح مبین سے نوازے

  میرا ایک سوال ہے جو کہ کھجور کی خرید وفروخت کے بارے میں ہے جو  مبادلہ (تبادلے) کی حدیث میں مذکور ان سات اصناف میں سے ہے۔  کیا کھجور کو   ادھار درہم کے بدلے فروخت کرنا جائز ہے؟ یعنی کیا یہ جائز ہے کہ   ایک کلو گرام کھجور خریدی جائے  اور اس کی قیمت  بعد میں ادا کی جائے؟ اللہ آپ کو جزائے خیر دے  ہماری راہنمائی کیجئے کیونکہ یہ کھجور کا موسم ، ہے اللہ آپ کو جزا دے ۔ختم شد

   زکریا کریمہ کا سوال

اللہ آپ کو برکت دے ،   ادائیگی میں تاخیر(قسطوں کی صورت میں ) کا کیا حکم ہے ؟ کیا یہ جائز ہے اگر سونا  کاغذی نوٹ کے بدلے خریدا گیا ہو؟۔

ایمن الفجاری کا سوال:

  سونا قرض پر خریدنے میں (کیوں حرام  ہے ) اور قرض میں کیا فرق ہے جو کہ جائز ہے جیسا کہ  سود  اور سرف کے موضوع پر نظام الاقتصاد کے آخری پیراگراف میں ہے؟۔ختم شد

ہشام اسیفان کا سوال:

  السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبر کاتہ ہمارے شیخ اور ہمارے امیر۔۔۔ سلام کے بعد ۔۔۔کتاب نظام الاقتصادی میں سود اور سرف کے باب میں صفحہ 259 میں حدیث ہے«الذهب بالذهب والفضة بالفضة والبر بالبر والشعير بالشعير والتمر بالتمر والملح بالملحمثلا بمثل...» "سونے کے بدلے سونا ، چاندی کے بدلے چاندی، گندم کے بدلے گندم، جو کے بدلے جو ، کھجور کے بدلے کھجور اور نمک کے بدلے نمک"۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا یہ چار غذائی اجناس  جن کا ذکر حدیث میں صراحت کے ساتھ ہے  ان میں لین دین نقدی کے لین دین  یعنی سونے چاندی کے لین دین کی طرح ہے؟  کیا میرے لیے جائز ہے کہ  ایک بوری آٹا خریدوں  اور اس کی قیمت  میرے کھاتے میں ادھار لکھ دی جائے  ؟ یا پھر نقدی کے لین دین  اور حدیث میں وارد غذائی اجناس میں کوئی فرق ہے؟ اسی طرح تیار مصنوعات اور خام میں کوئی فرق ہے؟۔۔۔ سوال کی طوالت پر معذرت خواہ ہوں ، اللہ برکت دے والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبر کاتہ۔

جواب:

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبر کاتہ

  آپ کے چاروں سوالات تقریباًایک جیسے ہیں اس لیے ان سب کا ہم ایک ہی جواب دیں گے۔ اس پر توجہ دیجئے کہ سودی اموال چھ ہیں سات نہیں جیسا کہ پہلے سوال میں کہا گیا ہے" سونا،چاندی، گندم،جو،کھجور اور نمک"۔

ان سوالات کےجواب یوں ہیں:

    1 ۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:«الذهب بالذهب، والفضة بالفضة، والبُر بالبُر، والشعير بالشعير، والتمر بالتمر، والملح بالملح مثلاً بمثل سواءً بسواء يداً بيد. فإذا اختلفت هذه الأصناف فبيعوا كيف شئتم إذا كان يداً بید " سونا سونے کے بدلے، چاندی چاندی کے بدلے، گندم گندم کے بدلے، جو جو کے بدلے، کھجور کھجور کے بدلے،   نمک نمک کے بدلے ، برابر برابر یکساں اور اس ہاتھ دو اس ہاتھ لو(ادائیگی اور وصولی ایک ساتھ )، اگر یہ اصناف مختلف ہوں تو جیسے چاہو  خرید فروخت کرو" اس کو بخاری اور مسلم نے عبادہ بن الصامت رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔

ان سودی اصناف کے اختلاف کی صورت میں نص واضح ہے، "جیسے چاہو بیچو"، یعنی پھر اس میں برابر ہونے کی شرط نہیں  مگر دونوں صورتوں میں قبضہ شرط ہے۔لفظ "اصناف" یہاں تمام سودی اموال کے لئے عام  ہے یعنی کہ یہ چھ اشیاء۔ ان  میں سے   کوئی چیزبھی مستثنیٰ نہیں جب تک کہ کوئی نص موجود نہ ہو اور جہاں کوئی نص موجود نہ ہو تو گندم کے بدلے جو  یا گندم کے بدلے سونا یا جو کے بدلے چاندی یا کھجور کے بدلے نمک  یا چاندی وغیرہ ، ان تمام  کا تبادلہ جائز ہے اس سے قطع نظر کہ تبادلے کی قیمت کیا ہے اور یا یہ کہ اس کی قیمت بعد میں ادا کی جائے گی مگر دست بدست ہو یعنی قرض نہ ہو۔ جو حکم سونے اور چاندی کا ہے وہی تمام کاغذی کرنسیوں پر بھی لاگو ہوتا ہے کیونکہ دونوں کی علت ایک ہے ان کا استعمال بھی قیمت اور اجرت کے طور پر ہی ہو تا ہے۔

2 ۔ سودی اصناف کی خرید وفرخت کے وقت ان پر قبضہ کرنے کے فرض ہونے کے بارے میں  حالت رہن میں استثنیٰ  چار اصناف  کے  نقدی سےخریدنے پر ہے وہ "گندم،جو،نمک اور کھجور ہیں" جیسا حدیث میں ہے جس کو مسلم نے  عائشہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے کہ : «اشْتَرَى مِنْ يَهُودِيٍّ طَعَامًا إِلَى أَجَلٍ، وَرَهَنَهُ دِرْعًا لَهُ مِنْ حَدِيدٍ»"رسول اللہ ﷺ نے ایک یہودی سے  کھانا ایک مقررہ وقت کے لیے خریدا  اور اپنے لوہے کا زین اس کے پاس رہن رکھا"۔ اس کا مطلب ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے کھانا قرض پر لیا  مگر رہن کے ساتھ۔ ان کا کھانا اس وقت سودی اصناف میں سے تھا۔جیسا کہ حدیث میں ہے کہ «الطعام بالطعام مثلاً بمثل وكان طعامنا يومئذٍ الشعير» " کھانا کھانے کے بدلے برابربرابر اور اس وقت ہمارا کھانا  جو تھا" اس کو احمد اور مسلم نے معمر بن عبد اللہ کے حوالے سے روایت کیا ہے۔اس لیے ان چار سودی اصناف کو  قرض پر خریدا جا سکتا ہے  جب کوئی چیزفروخت کرنے والے کے پاس رہن رکھی جائے  یہاں تک کہ اس کی قیمت ادا کردی جائے۔

3 ۔ اگر خریدار اور فروخت کرنے والے کا ایک دوسرے پر اعتماد ہو تو پھر رہن کی ضرورت نہیں۔ اس کی دلیل  اللہ کا یہ فرمان ہے : ﴿وَإِنْ كُنْتُمْ عَلَى سَفَرٍ وَلَمْ تَجِدُوا كَاتِبًا فَرِهَانٌ مَقْبُوضَةٌ فَإِنْ أَمِنَ بَعْضُكُمْ بَعْضًا فَلْيُؤَدِّ الَّذِي اؤْتُمِنَ أَمَانَتَهُ وَلْيَتَّقِ اللَّهَ رَبَّهُ﴾" اگر تم سفر میں ہو  اور لکھنے والا نہ ملے تو رہن قبضے میں دو،  اگر تمہارا ایک دوسرے پر اعتماد ہو  تو پھر جس کے پاس امانت ہے اس کو امانت ادا کرنی چاہیے  اور اپنے رب سے ڈرنا چاہیے"(البقرۃ2:283)، اس آیت کریمہ  سے معلوم ہو تا ہے کہ قرض میں رہن  سفر کے دوران ہے  مگر ایک دوسرے پر اعتماد ہو تو  پھر اس کی ضرورت نہیں۔ قرض پر خریدنے کے وقت رہن ان چاروں سودی اصناف پر بھی لاگوہے یعنی گندم،جو،نمک اور کھجور پر۔اورجیسا کہ اللہ فرماتا ہے﴿فَإِنْ أَمِنَ بَعْضُكُم بَعْضًا﴾"اگر تمہارا ایک  دوسرے پر اعتماد ہو"۔

یہ واضح طور پر اس پر دلالت کر تا ہے کہ  اس حالت میں رہن کی ضرورت نہیں۔

4 ۔ یوں چاروں سودی اصناف "گندم،جو،نمک اور کھجور" کو  قرض پر لینا جائز ہے جو نقد  کرنسی میں ادا کرنا ہو اور جس کے لیے کوئی چیز رہن(گروی) رکھی جائے یا نہ رکھی جائے جب خریدار اور فروخت کرنے والے ایک دوسرے پر اعتماد کرتے ہوں۔۔۔دونوں حالتوں میں ان اصناف کو قرض پر لینا جائز ہے، یعنی آپ نے جس نمک کے بارے میں پوچھا ہے اس کا خریدنا جائز ہے بشرطیکہ کہ آیت کریمہ میں موجود ﴿فَإِنْ أَمِنَ بَعْضُكُم بَعْضًا﴾"ایک دوسرے پر اعتماد کرتے ہوں " کی شرط پائی جاتی ہو۔

میں اس مسئلے میں اس کو ترجیح دیتا ہوں  اور اللہ ہی زیادہ علم وحکمت والا ہے۔

5 ۔ یاد رہے کہ  ابن بطال کی صحیح بخاری کی شرح  میں ہے کہ " اہل علم کے درمیان  کھانا معلوم قیمت پر ایک مقررہ مدت  کے لیے خریدنے کے جواز پر  کوئی اختلاف نہیں"۔

امام الجزیری کی کتاب الفقہ علی المذاھب الاربعۃ میں سودی اصناف کو خریدنے کے بارے میں ہے کہ "اگر ایک نقدی دوسرا کھانا ہو تو اس میں تاخیر درست ہے"۔

ابن قدامۃ المقدسی کی المغنی میں  انہوں نے  ان چار اصناف پر بات کرتے ہوئے ان چار اصناف کو ایک دوسرے کے بدلے قرض پر فروخت کرنے کی حرمت پر بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ " برخلاف اس کے کہ ان چارکو درہم یا دوسرے وزن کی جانے والی اشیاء کے بدلے قرض پر فروخت کیا جائے  تو رہن کی ضرورت ہوتی ہے"۔

خلاصہ:

1 ۔گندم ،جو،کھجور اور نمک کو نقد کے بدلے قرض پر فروخت کرنا جائز ہے  جس میں قرض کی ادائیگی کے لیے رہن رکھا جائے گا  یا اگر خریدار اور فروخت کرنے والے کا ایک دوسرے پر اعتماد ہو تو کوئی رہن رکھے بغیر بھی یہ تبادلہ جائز ہے لیکن ان دو حالتوں کے علاوہ جائز نہیں۔

2 ۔ سونے کو نقدی کے بدلے قرض پر خریدنا بالکل جائز نہیں  چاہے نقدی  سونے کی ہو یا کاغذی نوٹوں کی ہو، چاہے قرض پورا مقررہ وقت کے لیے ہو یا قسطوں پر ہو جس میں کچھ فوراً ادا کیا گیا ہو اور کچھ قسطیں باقی ہوں۔۔۔دوسری صورت میں یعنی  کچھ ادا کر کے مزید قسطیں باقی ہوں  تو جتنا فوراً ادا کیا ہے وہ لین دین درست ہے  باقی تمام قسطیں درست نہیں۔۔۔اگر ایسا ہو کہ ابتداء میں کچھ نہیں دیا گیا ہو بلکہ پورا موخر ہو تو یہ لین دین درست نہیں  کیونکہ سودی اصناف کا تبادلہ اس پر صادق آتا ہے۔

3 ۔ رہی بات سونا ،چاندی  ،ہر قسم کی نقدی اور سودی اصناف کو قرض پر لینے کی تو یہ اس شرط پر جائز ہے کہ   یہ نفع کے حصول کے لئے نہ ہو کیونکہ یہ فروخت کرنے اور تبادلہ کرنے سے مختلف ہے اگرچہ بظاہر ایک جیسے لگتے ہیں، خریدو فروخت اور تبادلہ میں  مال کو اسی مال سے یا مال کا کسی دوسرے مال سے تبادلہ کیا جاتا ہے،جبکہ قرض  مال کو کسی دوسرے آدمی کو دینا ہو تا ہے جس کو اس سے واپس لیا جائے گا۔ قرض  کسی کے ساتھ نرمی کے طور پر ہو تا ہے  اوراس کے دلا ئل  خرید وفروخت کے دلائل سے مختلف ہیں اورسودی اموال  کی خریدو فروخت  کے دلائل اس پر لاگو نہیں ہوتے جیسا کہ سونے کو ایک مقررہ وقت کے لیے فروخت کرنا۔۔۔بلکہ دلائل اس کے جواز  کو ظاہر کرتے ہیں، مسلم نے ابو رافع سے روایت کیا ہے کہ : أن رسول اللهﷺ استسلف من رجل بَكراً، فقدمت عليه إبل من إبل الصدقة، فأمر أبا رافع أن يقضي الرجل بَكره، فرجع إليه أبو رافع فقال: لم أجد فيها إلاّ خيَاراً رباعياً، فقال: أعطه إياه إن خيار النّاس أحسنهم #قضاء"رسول اللہ ﷺ نے ایک آدمی سے قرض پر ایک اونٹ لیا  پھر آپﷺ کے پاس صدقہ کے اونٹ آگئے تو ابورافع کو حکم دیا کہ اس آدمی کا قرض چکادو،  ابورافع  نے آکر کہا  ان میں اس جیسا کوئی نہیں بلکہ یہ سب چار سال کے اور اس سے بہتر ہیں  ، فرمایا : انہی میں سے دے دو  بہترین انسان وہ ہے جو  بہتر ادائیگی کرے"۔

  ابن حبان نے ابن مسعود سے انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے روایت کیاہے کہ : : «ما من مسلم يُقرض مسلماً قَرضاً مرتين إلا كان كصدقة مرة»"جو مسلمان کسی مسلمان کو دوبار قرض دیتا ہے تو یہ  ایک بار صدقہ دینے کے برابر ہے"، رسول اللہ ﷺ خود قرض لیا کرتے تھے۔

آپ کا بھائی عطا بن خلیل ابو الرشتہ

21 محرم 1437 ہجری

3 نومبر2015

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک