الإثنين، 23 جمادى الأولى 1446| 2024/11/25
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

سوال کا جواب

نُصرۃطلب کرنا اور حزب اس وقت  کس مرحلے میں ہے؟

 

سوال:

السلام علیکم شیخ۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ آپ کو اپنے نیک اعمال کا بدلہ دے اور  اس راستے پر ثابت قدم رہنے میں مدد فرمائے۔ میرا سوال خلافت قائم کرنے کے لیے نبو ت کے طریقۂ کار سے متعلق ہے۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں  کہ اس طریقے میں تین مراحل ہیں۔۔۔اس پیرا گراف سے میں یہ سمجھی ہوں کہ طلبِ نصرت کا تعلق دوسرے مرحلے سے ہے۔ میں نے حزب کے کئی  قابلِ اعتماداشخاص سے اس کے بارے میں پوچھا، مگر اس تصور سے متعلق ان کی آراء منقسم نظر آئیں۔ کوئی کہتا ہے کہ طلبِ نصرت تیسرے مرحلے سے متعلق عمل ہے ،جبکہ کچھ حضرات کا خیال ہے کہ اس  کا تعلق دوسرے مرحلے کے ساتھ ہے،چنانچہ یہ عمل معاشرے  کے ساتھ تعامل وتفاعل(interaction) کے متوازی چلتا رہتا ہے۔  ان مختلف جوابات کے تناظر میں، میں جاننا چاہوں گی کہ موجودہ حالات میں حزب کس مرحلے میں ہے۔جزاک اللہ خیراً

                                         اُم زید، بلجیئم

 

جواب:

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکاتہ

آپ نے " تبدیلی کے لیے حزب التحریر کا منہج" کے کتابچہ  میں سے مندرجہ ذیل مقام سے متعلق  پوچھا ہے:

۔۔۔۔حزب اس مطالعے کے بعد اس  نتیجے پر پہنچی کہ نصرت طلب کرنے کا کام پہلے مرحلے میں تربیت کے کا م سے اور دوسرے مرحلے میں تفاعل کے کام سے مختلف ہے۔ اگرچہ دوسرے مرحلے یعنی تفاعل کے مرحلے میں یہ چیز حاصل ہوجاتی ہے۔ نیز یہ اس طریقے کا جزو ہے، جس کی اتباع اُس وقت  واجب ہوجاتی ہے جب دعوت کی ذمہ داری اُٹھانے والوں کے سامنے معاشرےکے راستے مسدود اور جامد ہوجائیں، اور ان  کو سخت ایذائیں دی جانے لگیں۔ اس لیے حزب نے اپنے اعمال میں نُصرت حاصل کرنے کے عمل کا بھی اضافہ کیا، اور اسے اصحابِ قوت سے طلب کرنا شروع کیا، اور یہ کام دو مقاصد کے پیش نظر کیا گیا:

 

نمبر1: تحفظ حاصل کرنے کی غرض سے تاکہ دعوت کا کام سلامتی و اطمینان سے کیا جاسکے۔

نمبر2: خلافت کے قیا م کے لیے حکمرانی حاصل کرنے کی خاطر، تاکہ زندگی، ریاست اور معاشرے میں اللہ تعالیٰ کے احکامات کو دوبارہ نافذ کیا جاسکے۔

                  حزب نے نصرت طلب کرنے کے ساتھ ساتھ وہ تمام کا م بھی جاری وساری رکھے، جو وہ پہلے سے کرتی چلی آرہی تھی۔ یعنی  حلقات کی صورت میں مرتکز تثقیف (تربیت)، امت کی اجتماعی تربیت و تثقیف کا سلسلہ،امت کو اسلام کی ذمہ داری اٹھانے کے لیے تیار کرنے پر توجہ اور امت میں رائے عامہ پیدا کرنا، کفریہ استعماری طاقتوں کے خلاف جد و جہد، ان کے منصوبوں کو بے نقاب کرنا اور ان کی سازشوں سے خبردار کرنا، حکمرانوں کو سرزنش کرنا اور امت کے امور کی دیکھ بھال اور اس کے مفادات کو اختیار کرنا۔ چنانچہ تیسرا مرحلہ تب آئے گا جب خلافتِ راشدہ کا قیام ہوگا اور اس دن مسلمان اللہ کی نصرت پر خوشی منائیں گے۔۔۔الخ)یہاں تک منہج  کی عبارت ختم ہوئی۔ آپ نے یہ بھی پوچھا ہے کہ  کیانصرت طلب کرنے کا عمل دوسرے مرحلے میں ہوتا ہے ، یعنی تفاعل کے مر حلے میں؟ ، یا تیسرے مرحلےیعنی اقتدار حاصل کرلینے کے مرحلے میں؟۔۔۔ آپ نے یہ بھی پوچھا ہے کہ حزب اس وقت کہاں کھڑی ہے؟

 

اسی جیسے سوال کا ہم اس سے پہلے بھی13 شعبان 1434ہجری بمطابق 22 جون 2013ء  کو تفصیلی جواب دے چکے ہیں ، شاید آپ نے وہ جواب نہیں پڑھا، اس لیے اسی کو یہاں نقل کیے دیتا ہوں،  یہ بالخصوص آپ کے سوال کی پہلی شق  کا براہ ِراست جواب ہے، لیجیے:

نصرت طلب کرنا  تفاعل کے مرحلے کے اواخر میں ہوتا ہے، جب اہل ِقوت ہمارے اس مطالبے کو قبول کریں  گے  اور وہ تبدیلی لانے کی قابلیت بھی رکھتے ہوں ، تب تیسرا مرحلہ  ان شاء اللہ گویا قریب آیا ہوگا۔ ہم نے اپنی  کتابوں ، بالخصوص " المنہج" میں  اس مسئلے کی تفصیل بیان کی ہے، چند امور کی وضاحت یہ ہے:

 

1-    رسول اللہ ﷺ نے تفاعل کے مرحلے  میں ہی  نصرت  طلب کرنے کے کام کا آغاز کیا، جن دنوں  رسول اللہ ﷺ کے چچاابو طالب کی وفات ہوئی اس وقت  مکّہ کا معاشرہ جمود  کا شکار تھا اور آپ ﷺ کے آگے دعوت کی  راہیں مسدود تھیں۔ ابو طالب کی موت کی وجہ سے قریش کی طرف سے رسول ﷺ کی ایذا رسانی میں  اضافہ اور شدت آگئی جو وہ آپ ﷺ کے چچا ابوطالب کی زندگی میں  نہیں کرسکتے تھے، اس لیے ابوطالب کی زندگی میں   رسول اللہ ﷺ کو جو حمایت حاصل تھی ،ان  کی موت کے بعد اس میں کمی واقع ہو گئی۔ پس اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو وحی کی  کہ اپنے آپ کو عرب قبائل پر پیش کریں، یعنی ان سے اپنے لیے پشت پناہی اور نصرت طلب کریں  تاکہ آپ ﷺ  امن و سلامتی کے ساتھ اللہ کے پیغام کو پہنچا سکیں۔ ابنِ کثیر نے اپنی سیرۃ کی کتاب میں علی بن ابی طالبؓ سے روایت کیا کہ انہوں  نے بیان کیا؛ جب اللہ نے اپنے رسول ﷺ کو عرب قبائل پر پیش کرنے کا حکم دیا تو آپ ﷺ میرے اور ابوبکر کے ساتھ "منیٰ" گئےجہاں ہمارا سامنا عربوں کی ایک مجلس سے ہوا"۔ ابن ِکثیر نے ابن عباس سے العباسؓ کا یہ قول نقل کیا کہ انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، لا أرى لي عندك ولا عند أخـيك مَنَعَة، فهل أنت مخـرجي إلى السوق غداً حتى نقرّ في منازل قبائل النـاس - وكانت مجمع العرب - قال: فقلت هذه كِنْدَة وَلَفُّها، وهي أفضل من يَحُجُّ من اليمن، وهذه منازل بكر بن وائل، وهذه منازل بني عامر بن صعصعة، فاختر لنفسك، قال: فبدأ بكندة فأتاهم لا أرى لي عندك ولا عند أخـيك مَنَعَة، فهل أنت مخـرجي إلى السوق غداً حتى نقرّ في منازل قبائل النـاس - وكانت مجمع العرب - قال: فقلت هذه كِنْدَة وَلَفُّها، وهي أفضل من يَحُجُّ من اليمن، وهذه منازل بكر بن وائل، وهذه منازل بني عامر بن صعصعة، فاختر لنفسك، قال: فبدأ بكندة فأتاهم"میں دیکھتا ہوں کہ مجھے آپ اور آپ کے بھائی کے ذریعے سےتحفظ حاصل نہیں ہے، تو کیا آپ کل میرے ساتھ بازار چلیں گے تاکہ ہم عرب قبائل کے مسکنوں میں وقت گزار سکیں۔ تو میں (العباس) نے کہا: یہ بنوکِندہ ہے اور یہ یمن سے حج پر آنے والوں میں سے سب سے بہترین ہیں، اور یہ بکر بن وائل کے خیمے ہیں، اور یہ بنی عامر بن صعصعہ کے پڑاؤہیں۔ تو آپ ﷺ انتخاب کرلیں کس کے پاس جانا ہے۔ تو آپ ﷺ نے بنوکنِدہ سے شروعات کی اور ان کے پاس گئے"۔

 

2-    اس وقت کے اہلِ قوت(قبائل) پر  جن سے رسول اللہ ﷺ نصرت طلب کر رہے تھے ،یہ واضح تھا  کہ ان سے اس بات کا مطالبہ کیا جارہا ہے کہ  وہ رسول ﷺ کی حفاظت کریں اور ان کے درمیان رہ کر اُنہیں ایک ایسا ڈھانچہ تشکیل دینے کا موقع دیا جائے جہاں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے احکامات نافذ کیے جائیں، یعنی انہیں واضح طور پر اس بات کا ادراک تھا  کہ نصرت ایک ریاست کو قائم کرنے کے لیے ہوگی جو حکومت بھی کرے گی اور جہاد بھی کرے گی۔ یہی وجہ تھی کہ بنو عامر بن صعصعہ سے جب رسول ﷺ نے نصرت دینے کی بات کی تو انہوں نے جواب دیا کہ :أرأيتَ إنْ نَحْنُ بَايَعْنَاكَ عَلَى أَمْرِكَ، ثُمَّ أَظْهَرَكَ اللَّهُ عَلَى مَنْ خَالَفَكَ، أَيَكُونُ لَنَا الْأَمْرُ مِنْ بَعْدِكَ؟ قَالَ: الْأَمْرُ إلَى اللَّهِ يَضَعُهُ حَيْثُ يَشَاءُ قَالَ: فَقَالَ لَهُ: أفَتُهدَف نحورُنا لِلْعَرَبِ دُونَكَ، فَإِذَا أَظْهَرَكَ اللَّهُ كَانَ الْأَمْرُ لِغَيْرِنَا! لَا حَاجَةَ لَنَا بِأَمْرِكَ؛ فَأَبَوْا عَلَيْهِ"آپ یہ بتائیں کہ اگر ہم آپ کو اس معاملے میں  بیعت دیں ،پھر  اللہ تعالیٰ آپ کو مخالفین پر غلبہ دے دیں ، تو کیا آپ کے بعد حکومت ہماری ہوگی؟ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا : یہ تو اللہ کے اختیار میں ہے جس کو چاہے دیدیں۔ انہوں نے کہا کہ  آپ کے   ساتھ رہ کر ہماری گردنیں عربوں کی تیروں اور نیزوں کا نشانہ بنیں، مگر جب آپ کو غلبہ ملے تو حکومت ہمارے علاوہ کسی اور کو مل جائے، ہمیں آپکی ایسی حکومت کی کوئی ضرورت نہیں، یعنی انہوں نے انکار کیا"۔ اس سے معلوم ہوا کہ انہیں بخوبی اس بات کا ادراک تھا کہ نصرت ریاست قائم کرنے کے لیے مانگی جارہی ہے، لہٰذا وہ چاہتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ کے بعد وہی اس ریاست کے حکمران بنیں۔ اسی طرح  جب رسول اللہ ﷺ نے بنو شیبان سے نصرت طلب کی، تو اس قبیلے نے کہا:وإنما نزلنا بين ضرتين، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ما هاتان الضرتان»؟ قال: أنهار كسرى ومياه العرب، وإنما نزلنا على عهد أخذه علينا كسرى لا نحدث حدثا ولا نؤوي محدثا، وإني أرى هذا الأمر الذي تدعو إليه مما تكرهه الملوك، فإن أحببت أن نؤويك وننصرك مما يلي مياه العرب فعلنا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ما أسأتم في الرد إذ أفصحتم بالصدق، وإن دين الله لن ينصره إلا من أحاطه من جميع جوانبه" ہم دو سوکنوں کے درمیان رہتے ہیں۔تو آپ ﷺ نے پوچھا: کون سی دو سوکنیں؟ انہوں نے کہا: کسریٰ کی نہریں اور عرب کے دریا، کسریٰ کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت ہم یہاں رہ رہے ہیں،کہ ہم نہ کوئی گڑبڑ  کریں گے، نہ ہی  کسی گڑ بڑ  کرنے والے کو اپنے ہاں پناہ دیں گے،  میں سمجھتا ہوں کہ جس کا م کی دعوت آپ دے رہے ہیں ، بادشاہ اس کو ناپسند کرتے ہیں، پس اگر آپ  چاہتے ہیں کہ ہم عربوں کے پانیوں کے آس پاس سے آپ کی حفاظت کریں اور مدد دیں تو ہم ایسا کر سکتے ہیں، اس پر آپ ﷺ نے فرمایا: چونکہ آپ لوگوں نے سچ بولا ہے ،اس لیے آپ لوگوں کاجواب بُرا نہیں، لیکن بے  شک اللہ کے دین کی مدد و حمایت وہ لوگ کرسکتے ہیں جو اس کو ہر طرف سے حفاظت فراہم کرسکتے ہوں"۔ تو وہ جانتے تھے کہ نصرت کے معنی  عرب و عجم پر حکومت اور ان کے ساتھ جہاد کرنا ہے۔ اس لیے عربوں سے قتال پر تو انہوں نے اتفاق کیا مگر فارس والوں(ایرانیوں) سے نہیں۔

 

3-    پھر جب اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فیصلہ کیا تو بیعتِ عقبہ ثانیہ ہوئی جو مدینہ میں ریاست کے قیام کے لیے نصرت دینے پر ہوئی تھی۔ اس بیعت کے بعد ہی تیسرے مرحلے کا  آغازہوا یعنی ریاست کا قیام۔

 

4-    ان تمام سے یہ واضح ہوتا ہے کہ طلبِ نصرت تیسرے مرحلے سے پہلے  تھی یعنی تفاعل کے مرحلے میں۔

 

5-    حزب نے یہی کیا  ،  گزشتہ صدی کی چھٹی دہائی  میں طلبِ نصرت کا کام شروع کیا اور اب تک مسلسل اس عمل میں کوشاں ہے، ہماری اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ  اس امت کو ایسے انصار سے نوازے جو اولین انصار کی سیرت   کو پھر سے تازہ کریں ،اور اسلامی ریاست قائم کی جائے ، خلافتِ راشدہ کی ریاست ، اور رسول اللہ ﷺ کا  جھنڈا العقاب بلندیوں پر لہرا یا جائے، اس دن مؤمنین اللہ کی نصرت پر خوشی منائیں گے۔ ۔۔۔۔۔۔یہاں تک اسی جواب کو نقل کیا گیا جو پہلے بھی دیا گیا  تھا۔

جہاں تک یہ بات ہے کہ حزب اس وقت کس مرحلے میں کھڑی ہے، تو یہ بھی مندرجہ بالا مضمون سے واضح ہو ا ،بلاشبہ یہ تیسرے مرحلے میں نہیں کھڑی ہے، کیونکہ اس مرحلے کا مطلب ہے، حکومت کو اپنے ہاتھ میں لینااور عملی طور پر  ریاست کی شکل میں اسلام کا جامع   اور  انقلابی نفاذ۔ اس مقصد میں اگر چہ حزب  کو اب تک کامیابی نہیں ملی، مگر حزب مرحلہ تفاعل کے بالکل آخری سرے پر کھڑی ہے۔ حزب  خلافتِ راشدہ کے قیام کے ذریعے اسلامی زندگی کو واپس لانے کے لیے اللہ کے اذن سے سنجیدگی سے کام کررہی ہے، تاکہ انسانیت کو جہالت اور کفر کی اندھیروں سے نکال کرحق اور اسلام کی روشنیوں کی طرف لائے، اور حزب ا س پر یقین رکھتی ہے کہ اللہ کے اذن سے ایسا ہوکر رہے گا، لیکن ہر چیز کا ایک وقت مقرر ہے۔

 

امید ہے کہ بات بالکل واضح ہوچکی  اور منہج کے کتابچے میں مذکورہ پیراگراف کے متعلق آپ کا التباس ختم ہوگیا۔

                                                                                                           

آپ کا بھائی عطاء بن خلیل ابو الرشتہ

22رجب 1440ہجری

29 مارچ 2019 عیسوی

Last modified onجمعہ, 21 جون 2019 03:45

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک