الإثنين، 23 جمادى الأولى 1446| 2024/11/25
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

سوال وجواب :

 

ملک شام میں امریکہ اور روس کی حرکات

حریری سعودی حکومت  کا تابعدار ہے 

 

 

سوال و جواب

پہلا سوال :ہم جانتے ہیں کہ روس ملک شام میں امریکہ سے کیے گئے معاہدے کے تحت یا اس کے حکم کے تحت داخل  ہوا تھا تاکہ بشار حکومت کو برقرار رکھے یا  اپوزیشن کے ساتھ کسی سیاسی حل تک پہنچنے کے لئے ماحول تیار کرے؟ البتہ اس دوران یہ بھی دیکھا کیا گیا کہ امریکہ روس  کے ذریعہ بشارحکومت اور شامی اپوزیشن کو آستانہ، سوچی  ودیگر شہروں میں ساتھ بٹھا کر میٹنگ  کرنے کی کوششوں کو ختم کرنے کی کوشش کررہا ہےاوراگر امریکی میٹنگ میں شریک بھی ہوگا تو اردن کی طرح بطور مبصر ہو گا ، ان سب باتوں کا کیا مطلب ہے، شکریہ؟

 

جواب:

آپ کے سوال کا جوب ان دو لفظوں میں بیان کیا جا سکتا ہے: امریکہ کا غرور اور روس کی حماقت اور اس کی وضاحت اس طرح ہے:

1-یہ سچ ہے کہ روس کی مداخلت امریکہ کی رضامندی  یا پھر اس کے حکم سے ہوئی تھی  تاکہ امریکی مفادات کی تکمیل کی ہوسکے اور اس سے قبل ہم  نے اس بات کو 11 اکتوبر 2015 میں شائع  ایک خبرنامے کے ذریعہ  بیان کیا تھا کہ "۔ المیہ یہ ہے کہ امریکہ نے دنیا کو دکھایا کہ وہ  انقلابیوں کے ساتھ ہے چنانچہ ان کے خلاف سرعام جنگ کرنا اس کے لئے ممکن نہ تھا اور انہوں نے حکومت کو زبردست نقصان  پہنچادیا تھا ،  اورامریکی  متبادل حل ابھی بھی  تیار نہیں ہوسکا تھا چنانچہ اس کے گندے کھیل میں گندا  کام روس کو کرنا تھا چنانچہ روس  کاکردار پہلے حکومت کی  کھل کر حمایت و مدد کرنا  تھا اور پھرانقلابیوں کے خلاف لڑنے کے لئے کھڑا ہونا تھاتاکہ پھر ان کے خلاف جنگ کے لیے روس کو جواز مل سکےاوربشارحکومت  امریکی فرمان کے مطابق روس  کو جنگ کی  دعوت دینےکے لئے تیار تھی اور یہی کچھ انجا م پایا۔   روس نے امریکہ کی چاکری میں  اس گندے کھیل میں اپنا گھناؤنا شیطانی کردار ادا کرنا قبول کیا!"۔  اور ہم نے اس کی وضاحت18 نومبر2015 کو ایک سوال کےجواب میں بعنوان "ملک شام  میں برپا ہونے والی صورتحال" میں کی تھی، جس کے مطابق :

 

"ا۔ ملک شام میں 30 ستمبر 2015 کوروسی  جاحیت کے شروع ہونے سے فوری قبل 29 ستمبر2015 کو پوٹن اور اوبامہ نے ایک ملاقات کی تھی اور یہ 90 منٹ چلی تھی جس کےپہلے حصے میں یوکرین  کے بحران  پر بات ہوئی  جبکہ باقی وقت میں دونوں صدور نے اپنی توجہ ملک شام کے بحران پر رکھی " اس ملاقات کا نتیجہ فوراً اس طرح ظاہر ہوا کہ"30 ستمبر2015 کو روسی فیڈریشن کونسل نے ملک شام میں  روسی فضائی افواج کواستعمال کرنے کی  پوٹن کی درخواست کی اتفاق رائے سے منظوری دی۔۔۔۔  رشیا ء ٹوڈے 30/09/2015"۔ 

 

ب۔ حتی کہ جن علاقوں پر روس نے بمباری کی انہیں زیادہ تر امریکی مرضی کے مطابق نشانہ بنایا گیا تھا۔ 4 اکتوبر2015 کو سی این این نے بتایا کہ  :"جنرل آندرئی کارتاپولوف General Andrey Kartapolov جو روسی فوج کےجنرل اسٹاف  کا ملٹری آفیسر ہے، اس نے3 اکتوبر2015 ہفتےکی شام بتایا کہ ملک شام میں جن علاقوں میں روسی فضائی افواج نے بمباری کی ہے اس کی نشاندہی امریکی ملٹری کمان نے پہلے ہی ایسے علاقوں کے طور پر کی تھی جہاں صرف دہشت گرد رہتے ہیں "۔"

اس طرح امریکہ نے روس کو ملک شام میں متعارف کروایا تاکہ بشار حکومت کی حمایت و مدد کرے اور امریکی حل کے لئے ماحول تیارکرے۔ روس ملک شام میں اپنی  مرضی کا حل دینے کی غرض سے داخل نہیں ہوا اور نہ ہی وہ  ملک شام میں اپنی حرکات کا  خودمالک ہےالبتہ  روس کی حماقت  بالخصوص  ملک شام میں بے تحاشا   روسی ظلم کے بعد جب وہ گرتی ہوئی بشار حکومت کو چلائے رکھنے میں کامیاب ہواتو اس بات نے روس کو حماقت میں مبتلاء کردیا کہ وہ خوداس  سیاسی صورت حال کا حل دے سکتا ہے اور اس نے خیال کیا کہ امریکہ اس کی مخالفت نہیں کرے گا بلکہ وہ راضی رہے گا جب تک روس اس ظلم و بربریت کے کردار پر قائم ہے جس کے ذریعہ وہ بشار حکومت کو جاری رکھنے میں کامیاب ہے جیسا کہ امریکہ نے اسےکردار اداء کرنے کا حکم دیا تھا۔

 

2- اپنی اس غلط فہمی کی بناء پر روس نے آستانہ اور سوچی میں ملک شام کے مختلف فریقوں کو میٹنگ کی دعوت دی اور منصوبے بنائے اور اس میں شرکت کے لئے  امریکہ کو مدعو کیا  گیا تاکہ امریکہ  اس کے ہمراہ فعال کردارنبھائے:"بسکاف نے آج  یعنی ہفتے کے روز بتایا  کہ حالیہ دنوں میں  ملک شام کے  مسئلہ کے حل سےمتعلق مثبت  پیش رفت  ہوئی ہے، البتہ اس  پیش رفت کو اگلے مرحلہ میں لے جانے کے لئے مشترکہ جدوجہد درکار ہے   اور یہ تمام رو س سے اس بات  کا تقاضا کرتے ہیں کہ وہ امریکہ کے ساتھ مل کر ہرایک صورت حال  میں معاملات کو طئے کرتا رہے"( اورینٹ  نیوز 4/11/2017) ۔روس  یہ امید کررہا تھا کہ روسی صدر پوٹن اور امریکی صدر ٹرمپ کے درمیان ویتنام میں10 نومبر2017  کو APECسربراہی اجلاس کے دوران سربراہی ملاقات  ہوگی اور روس نے کھلے طور پر کئی باراس بات کا اعادہ کیا کہ دونوں صدر کے درمیان اس سمٹ کے دوران ملاقات  اس طرح ہونی چاہیے کہ جس سے یہ نشاندہی ہو کہ باہمی تعلقات  اورملک شام کے لئے روس کو امریکہ سے اشتراک  وتعاون درکار ہے  لیکن امریکہ نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا  بلکہ دونوں صدر کی جانب سے ایک مشترکہ بیان دینے پر اکتفاء کیا جو ظاہر کرے کہ گویا کوئی  ملاقات انجام پائی ہے حالانکہ بات چیت ملاقات کے درجہ پر نہیں ہوئی تھی بلکہ یہ بیان دونوں فریقین کے ماہرین کی جانب سے تیار کیا ہوا بیان تھا اور دونوں صدور نے صرف مصافحہ ہی کرنا  تھا ، اور یہ روس کی جانب سے امریکہ کو درخواست کرنے کی مثال ہے جو روس کے لئے سوائے ذلت اٹھانے کے کچھ اور نہیں ہے۔    

 

3- البتہ روس جانتا ہے کہ امریکہ کو ساتھ لئے بغیر وہ آگے بڑھ بھی نہیں سکتا اوراس امید سے ایک کے بعد دوسری درخواستیں کرتا رہاتاکہ کچھ جواب آجائے، اور یہ ایک قسم کی ذلّت ہے جو ظاہر ہونا شروع  ہوئی جیسا کہ اوپر بیان ہوا کہ روس کی جانب سےپوٹن اور ٹرمپ کے درمیان ملاقات   کرانے کا مطالبہ کیا گیا۔

اور چونکہ روس کو ملک شام کے مسلئے کے حل کو حاصل کرنے  کی جلدی ہے لہٰذا اس کے صدر نے مجرم بشار کو 20 نومبر2017 کے دن سوچی میں ملاقات کے لئے مدعو کیا اور اس کے بعد 21 نومبر2017 کو ٹرمپ سے  رابطہ کرکے اس کو بتایا کہ بشار کے ساتھ اس کی ملاقات وبات چیت کیسی رہی،"آج منگل کے روزروسی صدر ولادیمر پوٹن نے اپنے امریکی ہم منصب  ڈونلڈٹرمپ کو کال کی اور یہ بات چیت ملک شام کے بحران  اور بشارالاسد سے اس کی ملاقات کے نتائج  پر مرکوز رہی"(رشیاء ٹوڈے21/11/2017)۔

اس طرح روس جلدازجلد ملک شام کےبحران کا حل چاہتا ہے،  ہمیشہ کی طرح اس خام خیالی میں مبتلاء ہے کہ وہ ایک سوپر پاور ہے جو ملک شام میں مسئلہ کے حل کے لئے امریکہ کے برابر شریک ہے چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ وہ سیاسی حل حاصل کرنے کے لئے نہایت بےتاب ہے کیونکہ یہ اس کے لیے اس بحران سے باہر نکلنے کی بہترین صورت ہے اور ملک شام کا جلد سیاسی حل آنا روسی معیشت میں ہونے والی کمی کو بالخصوص روس  کی  شام میں فوجی  مداخلت کے سبب معاشی بوجھ کی وجہ سے مزید برباد ہونے سے بچائے گا۔ ان تمام باتوں کی وجہ سے روس نے میٹنگ کی خاطرپہل کی  تاکہ ظاہرہو کہ وہی اس ملاقات کی سربراہی کررہا ہے۔  چنانچہ اس نے بشار کو مدعو کیا پھر اردوان کو اور پھر روحانی کو بلایا اور پھر اس نے نام نہاد ملک شام کےمختلف لوگوں کے نمائندوں کو دعوت دی  تاکہ اس بحران کو حل کیا جاسکے۔ روس امریکہ سے بار بار درخواست کررہا ہے تاکہ جلد ازجلد حل  کے لئے اس کے ساتھ اشتراک کرےاوراس نے اپنی افواج کے انخلاء کےارادے کا اعلان بھی کیا ہے:" بہت ممکن ہے تاکہ روسی افواج کی ملک شام میں موجودگی میں بڑی تعداد میں کمی لائی جائے گی اور یہ اس سال کےاختتام تک شروع ہو جائے گا"-والیری گیراسیموف جو کہ روسی ہتھیار بند افواج کا چیف ہے اس نے جمعرات کے روز بیان دیا( ایورونیوز- 23/11/2017) البتہ امریکہ روس کی درخواست کا جواب دینے میں برابرتاخیر کئے جا رہا ہے۔

 

4- یہ ملک شام کےتعلق سے روس کے لئے امریکی گیم ہےیعنی اس کو اس دلدل میں پھنسا دیا جائے اور اس کے مطالبات کو نظرانداز کرتارہےاور کچھ معاملات  کے سوائےاس کے ساتھ اشتراک نہ کرے  اوروہ اشتراک بھی دیگرذرائع یعنی ایجنٹوں وغیرہ کے  ذریعہ کرے ، جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ روس ملک شام  کا سیاسی حل تلاش کرنے میں بری طرح ناکام ہونے والا ہےجیسا کہ روس ملک شام میں امریکہ کی بنائی زبردست دلدل میں دھنستا چلا جارہا ہے۔ امریکہ جس مقصد کے لئے  خاموش رہ کرروس کی حوصلہ افزائی کررہا ہے وہ امریکہ کی بالادستی کے لئے ملک شام میں انقلاب اور اسلامی صورت حال کے خلاف روس کے استعمال کو جاری رکھناہے۔ سوچی اور ماسکو میں نظر آنے والی میٹنگز ، تقریبات و کانفرنسوں  کے مناظر کے باوجودملک شام کے بحران کے حل میں روس کے پاس خود کاکوئی قائدانہ کردار نہیں ہے۔

اور جب تک روس کےسامنے امریکہ کا بنایا راستہ صاف  نظرنہیں  آتا ہےتب تک ملک شام میں حل کے لئے روس کی تمام پیش قدمیاں بےسود ہوں گی جوامریکہ کی شرکت کی محتاج ہوں گی اورامریکہ کے لئے جب اس کے متوقع حل کے لئے درکار عناصر تیار ہوجائیں گے تب  وہ اقوام متحدہ کے ذریعہ خود آگے بڑھ کر یا پھر خطے میں موجود اتحادیوں کے ساتھ ملک شام میں حل کو نافذ کرے گا۔

 

5- ملک شام میں امریکہ اور روس کی حرکات سے یہی کچھ ظاہر ہوتا ہے جو انشاء اللہ تمام  ناکام ہوں گی، اگر جنگجو گروہ صراط مستقیم  پر چلیں اور خطے کے امریکی وفادار ایجنٹوں سے اپنا تعلق توڑ لیں بالخصوص ترکی اور سعودی عربیہ کے ساتھ اور پھر اخلاص کے ساتھ حکومت کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہو جائیں اور امت کے دیگر مخلص افراد وگروہوں سے مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں تو انشاء اللہ ملک شام میں امریکہ اور روس ناکام ونامراد  رہیں گے جس سے اُن کی کمر ٹوٹ جائے گی اور وہ شکست کھا کر سب کچھ چھوڑ کر بھاگیں گے اور یہ سب کرنا اللہ کے لئے ذرا بھی مشکل نہیں ہے۔

==================

 

دوسرا سوال: لبنان کےالحریری نے اپنا استعفی واپس لے لیا اور 5 دسمبر2017 کو اس کی چیرمین شپ میں  کابینہ کا اجلاس ہوا اور اس کے بعد اس نے کہا کہ کابینہ نے طئے کیا ہے کہ وہ لبنان کے باہر کسی بھی معاملے میں مداخلت نہیں کریں گے۔ حریری کے افعال کو دیکھنے پر تضادات سامنے ظاہر ہوتے ہیں ۔ لبنان میں لمبے عرصہ  تک صدارتی خلاء باقی رہنے کے بعدحریری نے 20 اکتوبر 2016 کو اعون سے ملاقات کی اوریہ جانتے ہوئے کہ اعون اورحزب اللہ ایک ساتھ ہیں ان کے ساتھ صدارت اور حکومت کے متعلق اتفاق کرلیا۔ 4 نومبر 2017کو حریری نے سعودی عرب سے ہی اپنے استعفی کا اعلان کیا اور حزب اللہ پر اپنا غصے کا اظہار کیا، اور پھر اس کے بعد استعفی واپس لے لیا اور پھر دوبارہ سےاسی حکومت میں شامل ہوگیا جس میں حزب اللہ بھی شامل ہے۔ اس پس منظر اور تضاد کی کیا وجہ ہے؟ اور کیا  ایران اور اس کی پارٹی  کےاثر و رسوخ کو ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے؟ کیا موجودہ صورت حال کا فائدہ اٹھا کریہودی ریاست کی جانب سے لبنان یا حزب اللہ پر حملے کا آپ امکان دیکھتے ہیں ؟ اللہ آپ کو جزائے خیر عطا کرے۔

 

جواب:

سوال کے جواب کی مکمل وضاحت کے لئے ضروری ہوگا کہ ہم حریری خاندان اور سعودی عرب کے تعلقات کو پہلے بیان کریں : حریر ی سعودی عرب کا  فرمانبردار  وتابعدارہےاور اگر سعودی خاندان برطانیہ کا وفادار ہے تو یہی بات حریری، اس کے  برتاؤ اورلبنان میں اس کی پالیسی میں ظاہر ہوگا اور اگر سعودی حکمران امریکہ کا وفادار  نکلا ہوتو یہی کچھ حریری سے ظاہر ہوگا چنانچہ ہمارا جواب اس طرح ہے۔

 

1۔ لبنان کے سابق صدر مائیکل سلیمان کی صدارتی میعادمئی 2014 میں ختم ہوگئی تھی اور اس وقت سعودی عرب کا حکمران شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز تھا اور چونکہ شاہ عبداللہ برطانیہ کا وفادار تھا اور حزب اللہ کا ارادہ  مائیکل اعون کولبنان کا صدر بنانے کا  تھا اوریہ سب جانتے ہیں کہ حزب اللہ اور اعون دونوں کی پشت پناہی پر امریکہ کا حمایتی ایجنٹ ایران تھا چنانچہ شاہ عبداللہ  اعون کے صدر بنائے جانے کے لئے راضی نہیں تھا لہٰذا اس نے سعد حریری کو حکم دیا کہ وہ اعون کی صدارت کی مخالفت کرے اور سعد حریری  کی اپنی پالیسی سعودی پالیسی یعنی عبداللہ کی پالیسی سے بندھی ہوئی ہے۔ چنانچہ مئی 2014 میں صدر مائیکل سلیمان کی صدارتی میعاد ختم ہونے کے بعد سے لبنان کےصدر کا  عہدہ  گذشتہ تقریباً ڈھائی  سال سے خالی تھا اورپیر کے روز 31 اکتوبر2016  کو لبنان کی پارلیمنٹ نے سیشن بلایا اور ریپبلک کے صدر کے طور پراعون کا الیکشن کیا۔

 

2- اس تبدیلی کے لئے جو چیز کام کرگئی وہ سعودی عرب میں حکومت کا تبدیل ہونا تھا۔ سعودی بادشاہ عبداللہ 23 جنوری 2015 کو فوت ہوا اوراس کے بعداس کے بھائی سلمان  نے اقتدار سنبھالا۔ یہ بات  ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ شاہ سلمان امریکہ نواز ہے، چنانچہ سلمان نےبادشاہ بننے کے ساتھ شاہ عبداللہ کے برطانیہ نواز بیٹوں اور اس کے حامیوں کے پَر کترنے شروع کردئیے تھے جب تک  اس نے اقتدار پر پوری طرح  اپنی گرفت مضبوط نہیں کرلی۔ جب معاملات اس کے قابو میں آگئے اور الیکشن کے ذریعہ اعون کو صدر بناکرلبنان  کی صور ت حال کو امریکہ اپنی مرضی کے مطابق مستحکم  کرنا چاہتا تھا چنانچہ امریکہ نے شاہ سلمان کو حکم دیا تاکہ وہ سعد حریری کو اس کی مخالفت سے باز آنے کا حکم کرے چنانچہ اسی لئے سعد الحریری اعون کے پاس جاکر اس سے راضی ہوااوراس کو صدارت کے لئے نامزد کیا۔ دوسرے لفظوں میں شاہ عبداللہ کے دور سے سعد حریری کی سربراہی میں چلی آرہی اعون کی  مخالفت اب سلمان کے دور میں ختم ہوئی ہے!!، (صدر سعد الحریری  نے اپنی رہائش گاہ  بیت الوسط سےآکر مائیکل اعون کواپنے بلاک کے ممبران کی موجودگی میں ریپبلک کے صدر کے لئے نامزد کیا  جس کی سربراہی  صدر فواد سینیورا اور ممبر پارلیمنٹ باہیا حریری کررہے تھے، بعدازاں اس نے ایک تقریر کی جس میں کہا کہ :"جس  معاہدے کے نقاط پر ہم نے اتفاق کیا ہے اس کی بنیاد پر میں آپ کے سامنے مائیکل اعون کوریپبلک کے صدر کے عہدہ کے لئے نامزد کرتا ہوں ۔۔"(An-Nahar 20/10/2016)

اور اس کے بعد 31/10/2016 کو پارلیمنٹ  کا اجلاس منعقد ہوا اور اعون کو لبنان کا صدرمنتخب کیا گیا۔۔۔"المستقبل بلاک  کےسربراہ سعد الحریری کے تعاون سے صدارتی انتخاب کیا جاسکا جبکہ سابق لبنانی صدرمائیکل سلیمان کی مئی 2014 میں میعاد ختم ہونے کے بعد سے صدر کی یہ جگہ دوسال  پانچ مہینوں سے خالی تھی" (العربیہ- 31/10/2017)۔ چنانچہ اعون کا سعودی عرب  کا دورہ اس کے اظہار تشکر کے لئے تھا! جیسا کہ اوپر بیان کیے گئے حالات سے بھی واضح ہواہے کہ حریری سعودی عرب کی حکومت کی  تابعداری کرتا ہے چنانچہ وہ مخالفت یا حمایت جو بھی کرے تویہ سعودی حکمران کی جانب سے دئیے جانے والے حکم کے مطابق ہوگی۔

 

3- ٹرمپ کےامریکہ میں اقتدار میں آنے کے بعد اس نے 20 مئی 2017 کو سعودی عرب کا دورہ کیا تھا اور ایران اور حزب اللہ کے خلاف بیانات دئیے۔ اس نے جان بوجھ کر 50 مسلم مملکتوں کےنالائق  حکمرانوں کے سربراہی اجلاس میں یہ بیان دیا تاکہ ان کی توجہ کو فلسطین کے مسلمانوں کے مسائل سے ہٹاکر ایران پر لگائی جائے اور یہ قدم اگلے اقدام  کی تیاری کے لئے تھا جو" یروشلم کو یہودیوں کا دارلحکومت بنانا تھا"۔اورظاہر تھا اس کے بیانات نے ایران -عرب تنازعہ کو شدیدتربنادیا تھا اور یہ بتانےکی ضرورت نہیں کہ سعودی اور اس کےدیگرایجنٹوں نے بھی اسی شدیدانداز کو اختیارکیا  اور چونکہ خطے میں ایران کا مرکزی کردار لبنان میں حزب اللہ کی سرگرمیوں اور ملک شام میں مداخلت کا رہا ہے چنانچہ سعودی عرب نے سعد الحریری کو حکم دیا کہ وہ حزب اللہ و ایران کےمخالفت کرے۔ چنانچہ سلمان نے حریری کو سعودی عرب بلایا اور وہیں سے استعفی دینے کو کہا اور اس کی وجوہات  بیان کرنے کے لئے حزب اللہ اور ایران کے خلاف سخت کڑے الفاظ میں ایک بیان جاری کرنے کو کہا ۔ اور اس طرح حریری کو سعودی عرب لایا گیا اور اس نے سخت بیان دیا اور سعودی عرب سے ہی 4 نومبر2017 کو اپنے استعفی دینے کا اعلان بھی کیا ۔

 

4- امریکہ باخبر ہے کہ اس کے ایران و حزب اللہ مخالف بیانات سے کسی قسم کی لڑائی مراد نہیں ہے اور نہ برپا ہوگی لیکن اس متنازعہ بیان  کا مقصد خلیجی ممالک میں ایران کے خوف کو اپنے مقاصد کے لئے استعما ل کرنا ہےچنانچہ سعودی اور حریری کی جانب سے اس پیغام کا بھیجا جانا  امریکہ کومطلوب تھا البتہ تنازعہ کوآخری مرحلہ تک طول  دینا مطلوب نہیں تھا  یعنی  دیگر لفظوں میں امریکہ ایران کی پارٹی کو ختم نہیں کرنا چاہتا ہے البتہ لبنان میں  کسی تنازعہ کو بھڑکائے بغیر  ایک نپا تلا پیغام بھیجنا چاہتا تھا اور اس کے لئے امریکہ نے سعودی حکومت کو حالات  کو پرسکون کرنے کے لئے کہا یعنی وہ  حریری کواپنی آواز میں نرمی لانے کا حکم دے۔  انّشرہ  ویبسائٹ پر 4 دسمبر2017 کو رپورٹنگ ہوئی کہ "سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے کوئی بھی قدم امریکہ میں ٹرمپ کے اقتدار سنبھالنے کےبعد مکمل و براہ راست امریکی تعاون واشتراک کے بغیر نہیں اٹھایا ہے بالخصوص امریکی صدر کے سینئر مشیر جیرڈ کشر کے مشرقی وسطی کے دوروں کے بعد کیے گئےاقدامات جو کہ ٹرمپ کا داماد بھی ہےاور یہ دورے میڈیا  میں  شائع ہونے سے دور رہے۔ کشراوراس کے ہمراہ آیاامریکی  وفد سعودی عرب  میں چاردنوں تک مقیم رہا جس کےدوران ان کے بارہا مصر، اردن اور اسرائیل کے دورے ہوتے رہے۔ کشر کے جانے کے تقریباً  دو ہفتے بعد لبنان کا بحران اور سعودی عرب میں گرفتاریوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ لبنان میں آئے زبردست  سیاسی بحران کے دوران ان ملاقاتوں کے نتائج ظاہر ہونا شروع ہوئے کہ سعودی عرب کے ولی عہد اور امریکہ کے درمیان لبنان کے معاملے میں یہ مفاہمت طے تھی کہ حزب اللہ پردباؤ بنایا جائے گا تاکہ خطے میں وہ اپنی جسامت کوکم کرے کیونکہ وہ زیادہ بڑھ گئی ہے چنانچہ اس عنوان کے تحت سعودی ولی عہد نے لبنان کے وزیراعظم سعد الحریری کے ذریعہ لبنانی حکومت کے خلاف  حملہ بول دیا اور اس طرح  مائیکل اعون کے ساتھ سمجھوتے کے معاہدے کو ختم کردیا گیا جس کے تحت پچھلے سال صدارتی محل قصر بعبدہ  میں مائیکل اعون  کی رسائی و داخلہ ممکن ہوئی تھی۔ البتہ سعودی طریقہ کار متشدد اورسیاسی حکمت سے عاری تھا جس کی وجہ سے لبنان کی داخلی سلامتی کو خطرہ لاحق ہوگیا تھا جبکہ امریکی ادارے  بارہا اس  بات کو دوہرا رہے تھے کہ حزب اللہ پر جودباؤ بنایا جائے گا وہ   اس حد تک بنایا جائے گاکہ  اس سے صورت حال دھماکہ خیر نہ بن جائے البتہ جب  حالات قابو سے باہر ہونے لگے توامریکی ادارے اس بناء  پر حرکت میں  آئے کہ لبنان کی سلامتی ٹوٹنے کو ہے"۔۔( An-Nashra website: 04/12/2017) 

 

5- اس طرح حریری نے سعودی عرب کے کہنے پر نرمی اختیار کرنا شروع کردی اور سعودی عرب نے ہزیمت چھپانے کے لئے فرانس کے صدر کو بلایا اور بات چیت کی اور اس نے بھی حریری سے ملاقات کی اور پھر حریری نے فرانس کا سفر کیا اور پھر یہ ظاہر کرنے کے لئے مصر کا رخ کیاکہ وہ موزوں قدم اٹھانے کی خاطر ان سے مشاورت کررہا ہے جبکہ اس کے سفر پر نکلنے سے قبل ہی اس ڈرامے کو سعودی عرب میں لکھ دیا گیا تھا تاکہ حریری نرم ہو جائے اور استعفی نہ دے اور اس تعلق سے اس طرح واقعات سامنے آئے : حریری21 نومبر2017 کو لبنان  واپس لوٹا اور پھر22 نومبر2017 کو اعلان کیا کہ وہ اپنے استعفی دینے کے فیصلے پر نظر ثانی کرے گا اور پھر حزب اللہ کے خلاف بڑی حد تک نرمی پیدا کرکے بات کی کہ حزب اللہ اپنے گھر پر تو ہتھیار استعمال نہیں کرتا ہے گویا کہ وہ دوسروں کو یہ دھوکہ دینے کے لئے پہلے خود کو بے وقوف بنارہا تھا اوربھول گیا تھا کہ اس کے استعفی واپس لینے اور5 دسمبر2017 کو اپنی چئیر مین شپ میں کابینہ کی میٹنگ منعقد کرنے سے قبل تک حزب اللہ نے کئی دفعہ لبنان میں ہتھیاروں کا استعمال کیا ہے۔ حریری نے اپنے بیان میں کہا کہ :" حکومت  کے تمام ممبران کی جانب سے دیگر عرب ممالک کے معاملات میں مداخلت  کرنے سے دور رہنے کے متعلق تصدیق  آنے سے اب صورت حال تھم گئی ہے"، اور اس نے یہ بیان تب دیا جبکہ حزب اللہ کے جنگجو  ملک شام میں صبح شام لڑائی کررہے ہیں ۔

 

6- خلاصہ یہ ہے کہ حریری سعودی عرب کی حکومت اور اس کے حکمران  کی پالیسی کی تابعداری کرتا  ہےاور اس کی وفاداری  اس  کےاپنے احکام سے ظاہر ہوتی ہے اور یہ بات ڈھکی چھپی ہوئی نہیں ہے کہ اس کے متعلق لوگوں کو دھوکے  میں رکھنے کی کوشش بے کار ہے۔

چنانچہ کیا ایران اور اس کی پارٹی کے اثرونفوذ کو کم کرنے کی کوششں کی جائے گی؟ تو یہ ممکن ہے البتہ یہ ملک شام کے متعلق امریکی حل کو خاطر خواہ کامیابی ملنےکے بعد ہی ہوگا چنانچہ جب ایران اور حزب اللہ کا کردار مکمل ہو جائے گاتو ملک شام سے ان کا  انخلاء ہو سکے گا اور ایران اور اس کی پارٹی کے عسکری کردار میں کمی واقع ہوگی۔ آپ جان لیں کہ حزب اللہ ایرانی حکومت کی تابعدار ہے جس طرح حریری سعودی حکومت کا تابعدار ہےچنانچہ ایسی امید کی جاسکتی ہے کہ اگر ملک شام کا مسئلہ حل ہوا تو ایران کے انخلاء کے لئے کچھ بندوبست کیا جائے گا، اسی طرح اس کے بعد ایران  کی پارٹی حزب اللہ کے انخلاء کا بھی بندوبست کیا جائے گا۔ 

اور کیا یہودی ریاست کی جانب سے لبنان یا حزب اللہ پر جارحیت کا امکان ہے ؟ تو اس کا انحصار ملک شام کے حل کے بندوبست پر ہے اور اس حل کا انحصار موجودہ اور نئی بننے والی صورت حال پر ہوگا۔

 

21 ربیع الاول 1439 ہجری

9/12/2017

Last modified onمنگل, 09 جنوری 2018 02:46

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک