الإثنين، 23 جمادى الأولى 1446| 2024/11/25
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

سوال و جواب

امریکہ اور فرانس کا ایک دوسرے کی جانب دوبارہ بڑھنے کے اثرات

 

 

سوال:

امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ دورے سے جمعرات کو واپس آیا اور فرانس کے دورے کے متعلق بات کرتے ہوئے ٹرمپ نےنیویارک ٹائمزاخبار کےساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ “بے شک میکرون ایک زبردست آدمی ہے”۔اس نے مزید کہا ،”ذہین، طاقتوراور میرا ہاتھ تھامنا پسندکرتا ہے”۔ اور مزید کہا کہ “لوگ ابھی نہیں جانتے کہ اسےمیرا ہاتھ تھامنا بہت پسند ہے”(العربیہ ڈاٹ نیٹ- واشنگٹن، فرانس پیرس 20/07/2017)۔ امریکی صدر ٹرمپ 13 جولائی2017 کو پیرس کے دورے پر پہنچا جہاں موجودہ فرانسیسی صدرمیکرون نے گرم جوشی کے ساتھ ٹرمپ کا استقبال کیا ہےجبکہ سابق فرانسیسی صدر ہولاندنے امریکی صدرپراپنی ناراضگی ظاہر کی تھی اور اس کے ساتھ یورپین رہنماؤں کی جانب سے ٹرمپ پر سخت ترین الزامات بھی لگائے گئے تھے۔  امریکہ اور فرانس کےقریب آنے کی کیا وجوہات ہیں؟اورٹرمپ کے پیرس دورےکا کیا مقصد ہے؟ اس دورے کے ملک شام کی صورت حال پر کیا اثرات ہوں گے؟ بالخصوص جب کہ فرانسیسی صدر میکرون ملک شام کے متعلق نئی فرانسیسی و امریکی حکمت عملی کے متعلق بات کرتا ہے؟

 

جواب:

ٹرمپ کے لاابالی پن کی وجہ سے بین الاقوامی سیاست میں نمایاں طور پر کھلبلی مچی ہوئی ہےمثلاً نیٹو کی افادیت سے متعلق اُس کے چونکادینے والے بیانات پر امریکی پالیسی کے خلاف سخت ردعمل آیااور سب سے نمایاں اس کے خلاف جرمنی کا ردعمل رہا۔ الیکشن کے دوران اور الیکشن کےبعد21 جنوری 2017 کو بطورصدرعہدہ سنبھالنے کے بعد بھی ٹرمپ نےیورپی یونین کے ساتھ اپنی ناراضگی نہیں چھپائی ، اور اس نے برطانیہ کے یورپی یونین سے باہر نکلنےکے ریفرنڈم Brexit کی تعریف کی۔ بیلجیئم میں امریکی سفیر نے یورپی یونین کو ختم کرنے کی توقع ظاہرکی اورپھر امریکہ نے فرانس اورہالینڈ کے الیکشن کا انتظارکیا تاکہ یورپی یونین مخالف پارٹیاں برسراقتدار آجائےتویورپی یونین 2017 میں ختم ہوسکے۔ اس کے خلاف یورپ اٹھ کھڑا ہوا اورا س نے برطانیہ کے اس علیحدگی پسند رجحان کو فرانس اور ہالینڈ میں پہنچنے سے روک دیااوراس طرح یورپی اتحاد کے ٹوٹنے کے خطرے کو دور کردیا۔ اس کے بعدبین الاقوامی سیاست میں ٹرمپ کےلاابالی پن میں مزید اضافہ ہوا اوراسےاپنےفیصلوں پر پسپائی اختیار کرکے واپس لوٹنا پڑااور پھر ٹرمپ کوناٹو اتحاد کو بوسیدہ وناکارہ قرار دینے کی اپنی رائے کو بدلنا پڑا جیسا کہ وہ کہتا آیا ہے اور پھرکھلے طور پر اسے اس موقف سے پیچھےہٹنا پڑا۔   اس نے پیرس ماحولیات معاہدے سےامریکہ کو الگ کرلیا تھا اور پھر مذاکرات کی پیش کش کی اور شمالی کوریاکے ساتھ جنگ کے دہانے پر جا پہنچا تھا او رپھر واپس پلٹ گیا۔ اس نے چین کے خلاف منفی موقف اختیار کیا ہوا تھا اوراسی موقف کےساتھ اس بات کاانتظار کرتا کھڑا رہا کہ شمالی کوریا کےمسئلہ پراس کے نتائج کو دیکھےاور اس نے ملک شام کی جنگ پر بڑے زبردست بیانات دئیےاور پھر اس مسئلہ سے جڑے ہمسائیہ ممالک کو آستانہ (قازقستان) اور جنیواء مزاکرات کے بھروسے پر چھوڑدیا۔

 

مزید توجہ طلب اُس کی داخلی صورتحال میں مچا ہواہنگامہ ہے جوامریکی الیکشن کے دوران روس کی مدد لینے سے متعلق اس کی پالیسی کے موضوع پر اس کے خلاف اپوزیشن کی جانب سے کھڑا کیا گیا ہے۔ بین الاقوامی مسائل کے نتائج اوراپوزیشن کی مخالفت کی وجہ سےصدراوراس کی انتظامیہ کے روس کے ساتھ تعلقات امریکہ میں نہایت حساس معاملہ بنے ہوئے ہیں اور اس صورتحال نےامریکی و روسی معاہدے کی پیش رفت میں معاونت نہیں کی اور اس میں تاخیر ہوئی اور ٹرمپ کی روسی صدر کے ساتھ صرف ایک ملاقات ہوسکی جو ہیمبرگ جرمنی میں 7جولائی 2017 کو G20 سربراہی اجلاس کے دوران ہوئی ۔ یوں امریکہ روس تعلقات میں مزید پیچیدگی آئی ہے بالخصوص جب امریکی کانگریس کی جانب سے روس کے خلاف اضافی پابندیاں عائد کی جارہی ہیں اور اس پر مستزادامریکی الیکشن کے دوران روسی مداخلت پرمزید آتی ہوئی امریکی رپورٹوں نے امریکی صدر کے لئےداخلی طور پر پریشانی کھڑی کررکھی ہےاور ایسے وقت میں اس کے ملک کےروس کے ساتھ تعلقات بحال کرنا مزید مصیبت مول لینا ہے۔

 

ان تمام باتوں کی وجہ سے امریکہ اور یورپی یونین کے درمیان کی بین الاقوامی معاملات پر پالیسی انتشار کا شکار ہے اوراس دوران کبھی منفی اورکبھی مثبت کے درمیان جھولتی ہے جس کا تعلق ان یورپی ممالک کےمفادات اوران ممالک کا اس نئی امریکی صورتحال سے فائدہ اٹھانے کی قابلیت پر ہے۔ ہم ان یورپی ممالک کی صورت حال کا ٹرمپ کی پالیسی کے تحت جائزہ لیں گےاور پھر فرانس کی صورتحال پر نظر ڈالیں گے جس کی بناء پرٹرمپ کو پیرس میں مدعو کیا گیا اوروہاں گرم جوشی سے اس کا استقبال کیا گیا تھا۔

 

1- پہلےبرطانیہ کے متعلق: 21 جنوری 2017 کو ٹرمپ کے آتے ہی برطانوی وزیراعظم تھریسا مئے کے 26 جنوری کوہونے والے امریکی دورے اور امریکہ کے ساتھ تجارتی معاہدے پر دستخط کرنے کی جلدی، دیگر یورپین ممالک کےلئےبرطانیہ کی طرح یورپی یونین سے باہر نکلنے کے لئے ترغیب کے طور پر ایک اہم ماڈل تھا اور اس طرح برطانیہ نے امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات استوار کرلئےتھے۔ ٹرمپ انتظامیہ برطانیہ پر بڑی مہربان تھی لیکن جیسے ہی یورپی یونین کو برخاست کرنے کی امریکی امیدوں پر پانی پھر گیا جیسا کہ فرانس اور ہالینڈمیں یورپی یونین کی حامی پارٹیوں کی انتخابات میں جیت سے ظاہر ہے چنانچہ ٹرمپ کی برطانیہ کےحق میں رائےختم ہونا شروع ہو ئی کیونکہ امریکہ چاہتا تھا کہ برطانیہ یورپی یونین کو توڑنے کےعمل کی قیادت سنبھالےاور جب برطانیہ کا BREXIT فرانس اور ہالینڈ میں نہیں دوہرایا گیا تو امریکہ دوبارہ برطانیہ کے بین الاقوامی مفادات کو بگاڑنے میں لگ گیا جو برطانیہ کے لئے دھکّا تھا۔ امریکہ لیبیاء میں برطانوی مفاد کو نظر انداز کرکے اپنے ایجنٹ سیسی کو ہفتر کی حمایت کے لئے استعمال کر رہا ہے اورمزید دھچکا دینے کے انداز میں امریکہ نے اپنے ایجنٹوں کے ذریعے قطر پر دباؤ ڈالا جو عر ب اور مسلم خطے میں برطانیہ کا ہراول دستہ ہے۔ ان باتوں و دیگر وجوہات کی بناء پربرطانیہ کی پالیسی کو دھچکا لگا اور امریکہ کے صدر ٹرمپ پر سےبرطانیہ کا اعتماد اٹھ گیاہے۔ برطانیہ نےخود کو امریکہ کی ضربوں اور یورپی یونین کی سختی کے درمیان گھرا ہوا پایا جس کےساتھ اس نے مذاکرات کئےتھے تاکہ یورپی یونین سے باہر نکلےاور شبہات کے ان دائروں کے درمیان برطانوی وزیر اعظم نے جلدی الیکشن کروانے کا اعلان کردیا جو کہ حکومت میں شامل ممبران کے لئے بھی بڑا تعجب خیز تھا۔ برطانیہ کے 8جون 2017 کےالیکشن کے طئے کردہ مخصوص نتائج کے تحت برطانیہ اب یورپی یونین سے باہر نکلنے اور واپس لوٹنے کے درمیان گھوم رہا ہےاور الیکشن نتائج نے واضح کیا کہ BREXIT کے حامی کمزور تھےجس کی وجہ سے برطانیہ کے یورپی یونین میں برقرار رہنے کے ممکنات بڑھ گئے ہیں اگر براسلز کے ساتھ اس کو موافق معاہدہ طے کرنے میں ناکامی کا سامنا ہوتا ہے۔

 

2۔ اس سے جڑا سب سے اہم فریق روس ہے: اس سے قبل یورپی اور امریکی رجحان ایک تھے جب روس نے 2014 میں کریمیا کا روس سے الحاق کیا تھا اورمشرقی یوکرین بھڑک اٹھا تھا۔ امریکہ اور یورپکی جانب سے پابندیاں لگائے جانےسے روس کےصدر پوتن کے مشرقی یورپ میں سرحد کو آگے بڑھانے کے خطرہ سے متعلق امریکہ اور یورپ کی متفقہ رائے ظاہر ہورہی تھی البتہ امریکی الیکشن کے بعد سے ٹرمپ ان پابندیوں پر تنقید کرتا رہا ہے اور اس نے روس کے ساتھ مستحکم تعلق قائم کرنے کا عزم کیاجس کی وجہ سے یورپ کشمکش میں پڑ گیا ۔ امریکہ نے روس کی زیادتی کے خلاف یورپ کو تنہا کردیا ہےحالانکہ یورپی لیڈروں نے اس بات کو جان لیا تھا کہ امریکہ ہی نے اوبامہ انتظامیہ کے دور میں روس کو اس قدرابھرنے کا موقع فراہم کیا تھا بالخصوص روس کو ملک شام کی جنگ میں شامل کرنےکےبعداور ٹرمپ نے مزید آگےبڑھتے ہوئے بین الاقوامی مسائل میں دونوں فریقوں امریکہ و روس کے درمیان معاہدے کےاشارے دے کراس خطرے میں اضافہ کیا ہے جوبین الاقوامی بحران میں کردار اداء کرنےاوراپنا حصہ حاصل کرنے کی یورپ کی امیدوں کو ختم کردے گا ۔

 

3۔ جہاں تک جرمنی کا تعلق ہے تو اس نے امریکی پالیسی کو مسترد کرنے کے لئےاقدامات کھلے طور پرکئے ہیں ۔ اس نےنیٹو کے یورپی ممالک پر امریکی تنقید کو ردکیا اورانکار کیا کہ جرمنی اور یورپ دفاع کے معاملے میں امریکہ کے قرض دار ہیں اور امریکہ کا ماحولیات کے معاہدے سے الگ ہونے کو غلط قرار دیا اوراس پر دوبارہ کسی نئے مذاکرات سے انکارکیاہے۔ اس نے سعودی عرب کے ساتھ اسلحہ کی سودے بازی پر تنقید کی اور اس کو جلتے ہوئے خطے پر تیل انڈیلنے کا عمل قرار دیااور فرانس کے موقف میں تبدیلی آجانے کے باوجود بھی جرمنی اپنی بات پر قائم رہاہے۔ German Deutsche Welle کی شام کی نشریات کے مطابق:”جرمن چانسلر انجیلا مرکل کا موقفG20 کانفرنس کےدوران ٹرمپ کے خلاف سخت گیر تھا البتہ فرانس کےصدر میکرون کا موقف محتاط تھا تاکہ ٹرمپ کو ناراض نہ کردے” ۔ (Deutsche Welle, 14/7/2017)۔اس تمام صورتحال کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ جرمنی نے اپنے اقدامات تیز کردئیے ہیں تاکہ جرمنی کو سپر پاوربنایا جائےاور یہ سب کچھ نئی امریکی پالیسی کے تناظر میں ہورہا ہے ۔

 

4۔ اس کے بعد ہم ٹرمپ کے فرانس دورےکی اہمیت، فرانس اور امریکہ کی بظاہر نظر آنے والی قربت ، صدر ٹرمپ کوفرانس دورے پربلانے اور 13 جولائی2017 کے قومی دن کی تقریب میں شامل ہونے کی دعوت دینے کے پیچھے فرانس کا کیا مقصد ہے،جس کو فرانس نے امریکہ کی پہلی عالمی جنگ میں شمولیت کے 100 ویں یاددہانی کے طور پرنمایاں کرکے پیش کیا ہےجو ایک پرانی تقریب ہےجس کو خاص مقصد کے علاوہ کم ہی منایا گیا، پر بات کریں گے ۔ ایک ایسے موقع پر جب امریکہ سارے یورپ کے ساتھ اپنے تعلقات کشیدہ کررہا ہے ایسے میں فرانس کا امریکہ کو قومی دن کی تقریبات میں شامل کر نا ! میکرون نے منگل کے روز ٹیلی فون کر کے ٹرمپ کو پھر سے فرانس آنے اور اس کےقومی دن کی تقریبات میں شامل ہونے کی دعوت دی۔ پہلی مرتبہ دعوت نیٹو سربراہی اجلاس کے موقعہ پر گزشتہ مئی میں براسیلز میں دی گئی تھی (Elaph newsite,28/6/2017)۔جرمنی میں7 جولائی 2017 کو ہونے والی G20 سربراہی اجلاس میں فرانس نےسربراہان کے ساتھ(بالخصوص یورپ )ٹرمپ کی علیحدگی کو گرم جوشی سے ختم کیا جبکہ امریکہ کو ماحولیات پر معاہدے سے الگ کرنے پرسخت تنقید کا سامنا تھا۔ خود ٹرمپ کو ایسے ماحول میں میکرون کی جانب سے مدعو کرنے پرتعجب تھا ۔ ٹرمپ نے کہا کہ اسے فرانس کےپیرس ماحولیات معاہدے سے الگ ہونے کے فیصلہ لینے کے بعد اس دعوت کے ملنے پر بڑا “تعجب” ہوا ، جس پر 2014 میں195 ممالک نے دستخط کئے تھے (Al Arabiya.net, 20/07/07)۔

 

5۔ جہاں تک فرانس کے نئے طرزعمل کے اہداف کی بات ہے تواس پرغور کرنا چاہیے کہ فرانس جو یورپی یونین میں ٹرمپ کاسب سے کڑا تنقیدنگارتھا اوراُس کی پالیسی کےنتائج کو امریکہ فرانس تعلقات کے لئے خطرہ گردانتا تھا، اوریہ بات صرف سابق صدر ہالیند کے لئے سچ نہیں تھی بلکہ موجودہ صدرمیکرون بھی اپنے الیکشن کی شروعات سے اب تک ٹرمپ کے خلاف تھا۔ فرانس کا ٹرمپ کی جانب جھکاؤ کا یہ موقف حالیہ ایک ہفتے قبل کا ہےجوواضح طور پر امریکی صدر ٹرمپ کو دعوت دینے اور گرم جوشی سے استقبال اور اکرام و تعظیم سے صاف ظاہر ہوا ہےاوراس جھکاؤ کے مطالعہ کے دو پہلوہو سکتے ہیں اور دونوں ہی بڑے اہم ہیں۔

 

پہلا پہلویہ ہے کہ یہ جھکاؤ ملک شام کے پہلوسے تعلق رکھتا ہےبالخصوص جب میکرون نےاس کے متعلق اعلانات کیے:”وہ (یعنی میکرون)بشار کا کوئی قابل قبول متبادل نہیں دیکھتااور فرانس اب بشار کے اقتدار سے برطرف ہو جانے کو کسی بھی سمجھوتے کی شرط کے طور پر نہیں دیکھتا ہے” ۔(Reuters, June 21, 2017) اور اس کے بعد اور امریکی صدر کے استقبال سے قبل اس نے کہا: “ہم نےملک شام پر فرانس کی رائے کو تبدیل کیا ہےتاکہ ایک جامع سیاسی حل کی طرف پہنچا جائےاوراس کے لئے بشار کے برطرف ہونے کو شرط نہیں رکھی جائے گی” (Middle East, 13/7/2017)۔ اور یوں فرانس امریکہ کے قریب آگیاجو ملک شام کے اقتداراور مختلف گروہوں کی حمایت اپنے پاس رکھتا ہے۔ فرانس کا مقصداس طرز عمل سے ملک شام میں فرانس کو اداء کرنےکے لئے کردار حاصل کرنا ہے جس کی طرف کچھ عرصہ سے اس کی نظر بھی ہے۔ فرانس جانتا ہے کہ اس کو کسی کردار کی بو بھی نہیں مل سکے گی اگر امریکہ کی جانب سےاُسےاس کی اجازت نہ ملے۔ چنانچہ اسی لئےٹرمپ کا وہاں بڑی گرم جوشی کے ساتھ استقبال کیا گیا اور بشار کےاقتدار سے برطرف ہونے کی شرط بھی اس لئے ہٹا دی گئی کیونکہ امریکہ اس کو ابھی برطرف نہیں کرنا چاہتا ہےجب تک اس کوبشار کی جگہ لینے کے لئے کوئی دوسرا موزوں ایجنٹ مل نہیں جاتااور امریکہ کو ایسا ایجنٹ اب تک نہیں ملا ہے۔ یوں فرانس نے گزشتہ موقف سے دستبردار ہونا شروع کیا ہے کیونکہ وہ اس کی شرکت میں رکاوٹ تھااور فرانس نے “دہشت گردی کی مخالفت”کی دھن بجانی شروع کردی جو دھن ٹرمپ بجاتا ہے۔ فرانسیسی صدر ایمونویل میکرو ن نے امریکی ہم منصب ٹرمپ کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا کہ :”وہ اور صدر ٹرمپ اس پرمتفق ہیں کہ جنگ کے بعدکےعراق اور ملک شام کے لئےآگے کی کیا راہیں ہوں گی ۔ میکرون نے جمعرات کے روز فرانسیسی دارلحکومت میں کہاکہ وہ امریکی صدر ٹرمپ کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف ہرایک قدم لینے پر متفق ہیں ” (Russia Today, 13/7/2017)۔

 

اس کا دوسرا پہلوفرانس کا خوف ہے کہ جرمنی کا قداورکردار بڑا نہ ہوجائے۔ اس ڈر نے فرانس کو جرمنی کی مخالفت پر کھڑا کیا ہے، جبکہ جرمنی کاموقف ٹرمپ پر مزید سخت ہوتا جارہا ہے اورایسے میں فرانس ٹرمپ سے قریب آرہا ہے! امریکی صدر ٹرمپ کےفرانس دورے کے فوراً بعد اقوام متحد ہ میں فرانس کے سفیر Francois Delattre نے بیان دیا کہ:”ملک شام کے متعلق ذمہ دار گروہ میں اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کے ممبران اورمنسلک مقامی پارٹیاں شامل ہونی چاہیے”، مزید سفیر نے جمعہ کےروزشام میں سیکیورٹی کونسل کےایک بند سیشن کے دوران کہا کہ “اوپر بیان کی گئی ٹیم کی ذمہ داری ہو کہ وہ امن کی بحالی اورآگے کی راہ تیارکرے”۔ فرانسیسی سفیر نے مزیدکہا کہ اب سب سے اہم چیز بین الاقوامی برادری کو متحد کرناہے اورملک شام کےلئے خصوصی سفیر اسٹیفن ڈی مسٹورا Stefan de Mistura کے اقدامات کے ساتھ تعاون کیا جائے (Russia Today, 14/7/2017) ۔ اس طرح فرانس “ملک شام کے حالات کے متعلق ذمہ دار ٹیم” بنانے کے متعلق بات کرتا ہےجس میں اقوام متحدہ سیکیورٹی کونسل کے ممبران اور مقامی فریق شامل ہوں اور اس معاملہ کو طے کرنے کے لئےسیکیورٹی کونسل کےپانچ ممالک ٹھوس شروعات فراہم کریں یعنی جرمنی کو اس کردار سے باہر رکھا جائے کیونکہ سیکیورٹی کونسل میں جرمنی شامل نہیں ہےجو فرانس کی جانب سے جرمنی کے بڑھتے قد کے متعلق اس کا خوف ظاہر کرتا ہےاور وہ جرمنی کو بین الاقوامی کردار اداءکرنے کے کو ئی کردار حاصل کرنے نہیں دینا چاہتا ہے۔

 

6۔ اس طرح ٹرمپ کی یورپی یونین کو ختم کرنے کی پالیسی کے کامیاب نہ ہونے کی وجہ سےاور بالخصوص ٹرمپ کے فرانس کےدورے سے،امریکہ اور یورپ کے مابین کی عالمی سیاست میں اس حد تک زبردست تبدیلی واقع ہوئی ہےکہ چند میڈیا اداروں کے مطابق یہ ایک نئے ورلڈ آرڈر کی شروعات ہے۔ برٹش ٹائمز اخبار نے امریکی صدر ٹرمپ کی پیرس آمد کو نئے ورلڈ آرڈر کاآغاز قرار دیا جہاں فرانسیسی صدر ایمونوئل میکرون فرانس کو امریکہ اور جرمنی کے ساتھ ایک نئےقسم کے تعلقات میں داخل کررہے ہیں۔ اخبار نے مزید بیان کیا کہ ایمونوئل میکرون برطانیہ کے یورپی یونین سے باہر چلے جانےBREXIT کے بعدخود کویورپی یونین کے ایک حقیقت پسند سربراہ کےطور پر دیکھتے ہیں اوراخبار کے مطابق برطانیہ کے نکل جانے کے بعد یورپی کردار دوبارہ بانٹے جائیں گے۔ اخبار کے اداریہ نے یہ خلاصہ کیا کہ یورپی یونین کی تعمیر اس طرح کی گئی تھی کہ تنہا ء فرانس یا جرمنی غالب قوت نہ بن پائے اور اس طرح دونوں صدیوں کی آپس کی دشمنی پر قابوپانے میں کامیاب ہوسکے تھےاور تاکہ دونوں مل کر برطانیہ کی مدد سے یا برطانیہ کے بغیر یورپی یونین کی قیادت کرکے اس کو آگے لے جائیں۔ لیکن اب دونوں الگ منجدھارمیں بہہ رہے ہیں۔ فرانس ایمونوئل میکرون کی قیادت میں یورپ کی قیادت کی خواہش رکھتا ہے تو دوسری جانب جرمنی انجیلا مرکل کی قیادت میں جرمنی کی توجہ یورپ کو ایک ٹھوس موثر طاقت کے طور پر برقراررکھنے پرلگی ہے (Al-Wafd website, 14/7/2017)   ۔

 

7۔ لیکن ہم جواب کے خلاصے میں یہ بتانا چاہتے ہیں کہ فرانس کا خواب ،کہ وہ ملک شام کے جنگی میدان میں داخل ہو، زیادہ لمبے عرصہ تک نہیں چلے گااور امریکی موقف کی حقیقت سے ٹکرا کر رہے گاجو ملک شام کےبحران کویک طرفہ طور پرصرف اپنے قابو میں رکھنا چاہتا ہےاور امریکہ کی جانب سےجو نرمی فرانس کو دکھائی جارہی ہے اس کا مقصدصرف یورپی یونین کے اندر  فرانس اور جرمنی کے مابین کی مخاصمت کومزید بڑھانا ہے تاکہ یورپی یونین کو ختم کیا جاسکے۔

 

جہاں تک جرمنی کے بڑھتے ہوئے قدسے متعلق فرانس کےخوف کی بات ہے تو اس کا یہ خوف واقعی حقیقی ہےکیونکہ طاقتور ریاست کےلئے جو بنیادی عناصر درکار ہیں وہ جرمنی کے اندر موجود ہیں اور فرانس سے بقدر کہیں زیادہ مستحکم اوربکثرت ہیں اور یہ بات تاریخی اور جغرافیائی طور پر جانی گئی ہے۔ ایک ایسے وقت پر جبکہ موجودہ جرمنی دوسری عالمی جنگ کے معاہدوں کی وجہ سے عائد اخلاقی پابندیوں کو مسترد کررہا ہےجو اس کو ایک طاقتور فوجی کردارحاصل کرنے سے روکتے ہیں اور اس پر پابندی عائد کرتے ہیں کہ وہ اپنے فوجی کردار کو ختم کرتے ہوئے اور فوجی کردارکے بغیراپنی توجہ صرف صنعتی اور معاشی اثرورسوخ بڑھانےپر ہی لگائے۔ بہت ممکن ہے کہ جرمنی یورپ کے اندر دوبارہ ایسے ابھرکرآئےجو فرانس سے بالاتر اور آگے ہوخواہ امریکی ریاست کے مقابلے میں کسی درجہ میں اس کےقریب بھی پہنچ جائے۔

ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ان کے درمیان کے تنازعے کو شدید سے شدید تربنا دےاور ان کے دھڑے ٹوٹ کر بکھرنے لگیں۔

 

فَأَتَى اللَّهُ بُنْيَانَهُم مِّنَ الْقَوَاعِدِ فَخَرَّ عَلَيْهِمُ السَّقْفُ مِن فَوْقِهِمْ وَأَتَاهُمُ الْعَذَابُ مِنْ حَيْثُ لَا يَشْعُرُونَ

“اوراللہ نے ان کی عمارتوں پر بنیاد کی طرف سے پکڑا تو اوپر سےچھت ان پر آگری اور عذاب انہیں اس جگہ سے آیا جس کا انہوں نے گمان بھی نہ کیا تھا”(النحل: 26)

 

اوراسلام کی ریاست ان کی جگہ لے لےاور دنیا میں خیر کو پھیلائےاورحدیث میں بیان کردہ رسول ﷺ کا یہ قول حقیقت بن کرسامنے آئے، جومسند احمد میں تمیم الداری سے نقل کیا ہے کہ میں (تمیم الداری)نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے کہ ،

 

«لَيَبْلُغَنَّ هَذَا الْأَمْرُ مَا بَلَغَ اللَّيْلُ وَالنَّهَارُ وَلَا يَتْرُكُ اللَّهُ بَيْتَ مَدَرٍ وَلَا وَبَرٍ إِلَّا أَدْخَلَهُ اللَّهُ هَذَا الدِّينَ بِعِزِّ عَزِيزٍ أَوْ بِذُلِّ ذَلِيلٍ عِزًّا يُعِزُّ اللَّهُ بِهِ الْإِسْلَامَ وَذُلًّا يُذِلُّ اللَّهُ بِهِ الْكُفْرَ..»

“یہ معاملہ وہاں تک پہنچے گا جہاں تک دن اور رات پہنچتے ہیں ، اللہ کسی مٹی یا گھاس پھوس کےگھر کو اس میں دین داخل کئے بغیرنہ چھوڑے گاقوی کی عظمت اور ذلیل کی ذلت کے ساتھ، ایسی عظمت جو اللہ اسلام کوعطا ء کرے گا اورذلت جو کفار کو دے گا”

 

اسی طرح کی حدیث بیہقی نے سنن الکبری میں اورحکیم نے المستدرک میں نقل کی ہےاور یہ اللہ کی مدد ونصرت کے ذریعے تکمیل پائےگی اور اللہ کے لئےایسا کرنے میں کوئی مشکل نہیں ہے۔

 

29 شوال 1438 ہجری

23جولائی 2017 عیسوی

Last modified onپیر, 14 اگست 2017 02:32

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک