الإثنين، 23 جمادى الأولى 1446| 2024/11/25
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

سوال وجواب

حلب میں کیا ہوا اورسازشوں،غداریوں اور چھوڑ دینے کی ترغیبات کے حوالے سے کیا ہورہا ہے!

 

سوال:

26 نومبر 2016 کوحلب میں جنگ شروع ہوئی اور ابھی دو ہفتے نہیں گزرے تھےکہ شہریوں اورجنگجوؤں کےانخلاءاورجلا وطنی کی باتیں گردش کرنےلگیں۔۔۔ پھراس کےبعدابھی ہفتہ مکمل نہیں ہونے پایا تھا کہ حلب کےمشرقی اطراف سے رہائشی اورجنگجو افراد کا اپنے بال بچوں سمیت انخلاء تقریباً مکمل ہوگیا۔" رائٹرزبیروت-عمان-،   شام میں حلب کےمشرق میں واقع ایک میدان میں ہزاروں لوگ ان کو لےجانے والی بسوں اور ٹرکوں کے انتظار میں اکٹھے ہوئےجن میں سوار ہوکروہ ان علاقوں کو،جو شامی اپوزیشن کے زیر کنٹرول ہیں، چھوڑ کرمحفوظ مقامات کی طرف منتقل ہو سکیں۔یہ سب کچھ بین الاقوامی ریڈ کراس کمیٹی کے انخلاء آپریشنز کےضمن میں عمل میں لایا گیا۔کمیٹی پُرامید ہے کہ وہ انخلاء کاسلسلہ اتوارکے دن سے دوبارہ شروع  کرلےگی۔۔۔ رہائشیوں کا کہنا تھا کہ 15 ہزار کے لگ بھگ افرادحلب کے السکری گاؤں کےمرکزی میدان میں جمع ہوئے، ان کی اکثریت ان شہریوں کی ہے جو اپوزیشن کے زیرِکنٹرول علاقے میں سب سے آخر میں باقی رہ گئے تھے۔ان میں سے بھی اکثریت جنگجوؤں کے خاندانوں اور دیگر شہریوں پرمشتمل ہے،جبکہ وہاں اب بھی جنگجوؤں کی کچھ تعداد موجود ہے۔ انخلاءکے انتظامات کرنےوالوں کی طرف سے ہر خاندان کو ایک ایک ٹوکن دیا کیا گیا،ان سے کہا گیا کہ  وہ یہ  ٹوکن آنے والی بسوں میں سیٹ بکنگ کے طور پر استعمال کریں گے۔ رائٹرز انٹرنیشنل وعربی ایڈیشن ، 18 دسمبر 2016"۔ سوال یہ ہے کہ مشرقی حلب کوحکومت کے حوالے کرنے میں اس قدر تیزی کی کیا وجوہات ہیں؟ جبکہ سابقہ رپورٹس میں یہ کہا گیا تھا کہ حلب والے کم از کم ایک سال تک حکومت کے ساتھ مزاحمت  کرنے  کی قابلیت رکھتے ہیں؟اس کی وجہ کیا ہے؟ جنگجو  کمزور پڑ گئے یا سازشیوں کی سازشیں کارگرثابت ہوئی ہیں؟  شکریہ۔

 

جواب:

ناپاک امریکی منصوبے کے مطابق حلب بے رحم اور سخت حملوں کی زد میں آیا، اس منصوبے کا نفاذ روس و ایران اور اس کے  حامیوں اورہمنواؤں نے کیا۔ یہ حملے اتنے شدید تھے جو مضبوط پہاڑوں کو لرزا دیں ،مگرحلب والوں نے بے جگری سے مقابلہ کرتے ہوئے ان کےآگےسینہ سپر ہوئے اور اپنے دشمن جتھوں کو  گہرے اور مہلک زخم لگائے۔ بلا شبہ یہ مقابلہ لمبے عرصے تک جاری رکھا جا سکتا تھا مگر امریکہ نے ترکی کو حکم دیا کہ وہ  روس کی معاونت سے سازش اور مکر و فریب کو کام میں لاتے ہوئےحلب کے اندر داخل ہوجائے، چنانچہ ترکی نے امریکی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے ان دھڑوں کے ساتھ غداری کی جن کا حلب کے ساتھ رابطہ تھا، ان کو ہتھیار ڈالنے اور پسپائی پرمجبور کیا، جس کے نتیجے میں افراتفری پیدا ہوئی،اور یوں حلب کی حوالگی کے حالات پیدا کیے گئے۔ ترکی کے ذمہ یہ کام لگایا گیا تھا کہ وہ روس کے ساتھ تعاون کےذریعے امریکی پروگرام کو عملی جامہ پہنائے گا تاکہ شامی حکومت کے لیے مشرقی حلب میں داخلہ ممکن بنایا جاسکے۔۔۔چنانچہ حلب کے حکومتی جھولی میں جا گرنے کا باعث حکومتی طاقت نہیں، بلکہ مذکورہ سازشیوں کی سازشوں کے بل بوتے پر ہی ایسا ممکن ہوا۔ ترکی اور روس نے امریکی نگرانی میں ایسی سازشیں گھڑلیں جو ان کے درمیان متفقہ تھیں۔ پیوٹن نے اس حقیقت کو طشت ازبام کردیا اور اس حوالے سے اپنے شریک کار اردوان پر کسی قسم کا پردہ نہیں ڈالا بلکہ ایک پریس کانفرنس میں یہ  کہتے ہوئے ڈنکے کی چوٹ  پر اس کو رسوا کیا  کہ حلب میں  جو بھی ہوا ، یہ بعینہ ٖاس معاہدے کی ترجمانی ہے جس  پر اردوان کے ساتھ  اس  کے سینٹ پیٹرس برگ کے دورے کے دوران  اتفاق ہوا تھا۔ "روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے اس وقت  سیاسی بم دھماکہ کیا،  جب اس نے یہ راز فاش کردیا کہ  مشرقی حلب سے جنگجوؤں کے انخلاء کی کاروائی پر اتفاق ترک صدر رجب طیب اردوان کےگزشتہ اگست سینٹ پیٹرس برگ کے دورے کے دوران ہوا تھا ، ۔۔۔ روسی صدر نے آج جمعرات کے دن جاپان کے  وزیر اعظم شینزو ابی کے ساتھ ٹوکیو میں ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا : ماسکو  کا انقرہ کے ساتھ اس بات پر اتفاق ہوا ہے کہ    شہریوں کے تحفظ کو مقدم رکھتے ہوئے ترکی  ان جنگجوؤں کو نکالنے میں تعاون کرے  گا  جو اسلحہ   پھینکنے  پر متفق ہوجائیں۔ اس نے مزید کہا : میرے علم کے مطابق حلب میں جو کچھ ہورہا ہے، ٹھیک  اس معاہدے کی تعبیر ہے جس پر ترک صدر کے ساتھ اس کے  سینٹ پیٹرس برگ کے دورے میں اتفاق ہوا تھا۔۔۔۔"( 16 دسمبر2016 ،ایلاف اور سپوتنيك نيوزنے رپورٹ کیا)۔

 

پیوٹن کا بیان  نقل کرنے پر اس سوال کا جواب اگرچہ مکمل ہوچکا ہے،  مگر اس بات کی  مزید وضاحت کرنا چاہوں گا  کہ شیر دل  حلب ، بہادر ، خود دار اور سخت جان حلب پر ترکی نے ہی وار کیا اور اس کا خون رستا چھوڑا ، وہ حلب جسے ترکی ریڈلائن کہتا تھا ۔۔۔اسی طرح ان گروہوں کی طرف سے بھی حلب  کے ساتھ بے وفائی اور غداری برتی گئی جنہوں نے اُن گندی رقوم ہی کو سب کچھ سمجھ کرمیدان جنگ سے راہِ فرار اختیار کیا ، یہ رقوم  انہیں اُن  ممالک کے دروازوں سے ملتی رہتی ہیں جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ، اس کے رسول ﷺ اور مؤمنین  کے غدار  ہیں۔ اس لیے  اس کی مزید وضاحت ضروری سمجھتا ہوں۔

 

پہلا: حلب اور اس کے آس پاس  کے انقلابی کبھی بھی  اس حد تک  کمزور نہیں ہوئے تھے کہ  اتنے مختصر وقت میں وہ بد دل ہوجاتے! 26 نومبر 2016 کے دن سے تقریباً دو ہفتوں کے  مختصر عرصے میں ہی حکومتی افواج  اور اس کے اتحادی ہنانو گاؤں میں داخل  ہوئے جو حلب کا سب سے بڑا گاؤں ہے۔  پیش قدمی کرتے ہوئے الصاخور ، الشعار اور اس کے بعد قدیم حلب کے آس پاس کے علاقوں کو روندتے چلے  گئے۔  یہ  افواج غیر متوقع طور پر بسہولت  پیش قدمی کرتی رہیں، کیونکہ حلب کے راستے میں انہیں اردوان کی مداخلت کی وجہ سے  کسی قسم کی مزاحمت سامنے نہیں آئی،  جبکہ اس  سےپہلے انہیں شدید مزاحمت کا  سامنا کرنا پڑا تھا۔ دو دن آرام کر لینے کے بعد حکومتی افواج نے حلب شہر کے جنوبی  علاقے کی طرف پیش قدمی کرتے ہوئے شیخ سعید گاؤں پر قبضہ کیا۔  اس پیش قدمی کے دوران  جنونی بن کر شہریوں کے خون  کی حرمت ،  گھروں کو مسمار کرنے اور  جلادینے تک کو خاطر میں لائے بغیر فضائی اور زمینی حملے کرتے رہے، جس کے نتیجے میں قتل عام  بڑھتا گیا اور  دہشت  طاری  کرنے کے لیے خوفناک قسم کے حملے کرتے رہے۔ان تمام کا مقصد ان جنگجوؤں کو دہشت زدہ کرنا تھا جنہوں نے حلب  چھوڑنے سے انکار کیا  تھا تاکہ ان کو تیزی سے حلب شہر چھوڑنے پر مجبور کیا جائے۔۔  حلب پر عسکری حملے کے آغاز ہی سے ترکی شام  کے اندر روس  کی معیت میں پاگلوں کی طرح  دندناتا رہا ۔  بی بی سی کی2 دسمبر2016 کی رپورٹ کے مطابق:"مولود جاویش اوغلو نے کہا : ترکی روس اور ایران،  اسد کے اتحادیوں ، اور شام و لبنان کے ساتھ مشاورت کر رہا ہے  تاکہ شامی بحران کے کسی حل تک پہنچا جائے۔ اور ترک صدر رجب طیب اردوان نے شامی مسئلے پر روسی ہم منصب ویلادیمیر پیوٹن کے ساتھ  گزشتہ ہفتے کم از کم 3 دفعہ ٹیلیفونک بات چیت کی ، اس دوران جاویش اوغلو  نے روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف کے ساتھ ترکی میں  جمعرات  کے دن مذکورہ موضوع پر بحث کرنے کے لیے ملاقات کی"۔ یہ دوڑ دھوپ حلب میں قدم قدم پر  خون آشام درندگی  اور قتلِ عام کے طے شدہ منصوبے کا نفاذ تھا ، جبکہ اس کی تمام تفصیلات کی نقشہ گری واشنگٹن کی موافقت سے پہلے سے کی  گئی تھی،  جس کے بعد ہی روسی وترکی فریق اور ان کے حواری  اس کے نفا ذ کے لیے اُمڈ آئے۔             

   

دوسرا:  ترک اہلکار مذکورہ منصوبے پر عمل درآمد سے پہلے والے دنوں میں عجیب وغریب بیانات دے رہے تھے، اس سے پہلے ان کی طرف سے ایسے بیانات  سننے میں نہیں آئے تھے، بالخصوص حلب سے"دہشت گردوں" کو نکالنے کا حوالے  سے ایسے عجب و  غریب  بیانات پہلے نہیں دیے گئے تھے، مثلاً" ترک وزیر خارجہ مولود جاویش اوغلو نے شام کے شمال میں  حلب شہر  میں کشمکش بند کرنے کا مطالبہ کیا اور فتح الشام فرنٹ (سابق جبہۃ النصرۃ) کو فوری طور  پر حلب سے  نکال باہر کرنے کا مطالبہ کیا ۔۔۔"(الجزیرہ نیٹ،27 اکتوبر2016)۔  یہ شام سے متعلق امریکی قیادت میں منعقدہ لوزان ملاقات  کے بعد ہوا  اور اسی اثنا میں امریکہ  ترکی  کے ساتھ میدان تیار کرنے میں لگا رہا ۔ اگلے دن نمایاں طور پر ترک بیان بازی میں  تیزی اور گرمی  دیکھنے میں آئی۔ اتحاد پریس نے17 اکتوبر2016 کو رپورٹ کیا :" ترک وزیر خارجہ مولود جاویش اوغلو نے کہا ہے کہ النصرۃ فرنٹ کے دہشت گردوں سے حلب کو فوری طور پر پاک کردینا چاہیئے اورشامی اپوزیشن کے لیے ان سے الگ ہونا ضروری ہے۔ مولود جاویش کی یہ باتیں سویزر لینڈر کے شہر لوزان میں منعقدہ روس، امریکہ ، ایران، عراق، مصر ، ترکی ، سعودی عرب ، قطر اور اردن کے وزرائے خارجہ  کانفرنس  کے ایک  ہی دن   بعدمنظرِ عام پر آئیں،جس میں اقوام متحدہ کے سفیر برائے شام سٹیفن ڈی مستورا نے بھی شرکت کی۔ اقوام متحدہ کی جانب سے  دہشت گرد قرار دی گئی تنظیم جبہۃ النصرۃ کے حوالے سے  ترکی کا  مذکورہ موقف اپنی نوعیت کا پہلا موقف  سمجھا جاتا ہے "۔ جہاں تک روس اور ترکی کے درمیان معاہدے کاتعلق ہے ، تو اس کے بارے میں ترک پریس نے  سب سے پہلے31 اکتوبر2016 کو ترک اخبار " ینی شفق" کو موصول شدہ نامعلوم ذرائع کی رپورٹ نقل کرتے ہوئے لکھا:" ترکی اور روس کے درمیان ایک مفاہمت تک رسائی ہوچکی ہے ، ترکی وروس کے درمیان طے پانے والے اس نئے منصوبے کے مطابق حلب ، دیہی علاقے اللاذقیہ ، ادلب ،حسکہ، دیر الزور اور الرقہ سب  میں  حالات کو  جنگ سے قبل کی صورت پر بحال کیا جائے گا،بحالی کی کوششوں میں ان علاقوں کے جمہوری  ڈھانچے  کی رعایت ملحوظ رکھی جائے گی"۔  یہیں سے ترکی نے اردوان کی قیادت میں  تیز رفتاری سے  حلب "حوالگی " معاہدہ کے   دفعات  نافذ کرنے کے  لیے روس کے ساتھ قریبی اور مستحکم انتظامات  مکمل کیے!

 

تیسرا: امریکہ کچھ مدت تک پردے کے پیچھے چھپا رہا اور شامی سٹیج پراردوان نمودار ہوا، اس کے ساتھ ہی حلب پر حملہ شروع ہو گیا، ترکی نے اعلان کیا اور فوری  مجرم روس اور اپوزیشن کے مذاکرات  کار کے  وفد کے درمیان مذاکرات شروع ہو گئے جس میں احرار الشام، جیش المجاہدین، فیلق الشام اور شامی  گروپوں  کے محاذ نے شرکت کی۔۔ ( بحوالۂ ترک پریس،28 دسمبر2016)۔  یہ وفد اردوان  کے ڈالے ہوئے جال  میں آ گیا جو واشنگٹن میں تیارکیا گیا تھا، یہی مذاکرات    وہ کھڑکی ثابت ہوئے جہاں سے روس  اور اردوان  حلب کے منظر نامے پرمصیبتوں پر مصیبتیں  پھینک سکتے تھے۔ چنانچہ روس نے حلب سے "فتح الشام" کے  نکلنے کا مطالبہ کیا ۔ یہ مطالبہ ایسے وقت میں سامنے آیا جبکہ حلب  میں زمینی معرکہ شروع ہورہا تھا ۔ اس کے باوجود کہ یہ واضح طور پر ایک عرصے سے روس کا مطالبہ رہا  ، مگر اس کو ایک اور رُخ دیا گیا ، اس کو انقرہ میں ترک اہلکاروں کی موجودگی اور ان کی نگرانی میں پیش کیاگیا۔  اس کا مقصد یہ تھا کہ مسلح اپوزیشن کو ایک مضبوط پیغام دیا جائے کہ ترکی " دہشت گردوں " سے اُن کی جدائی کا خواہاں  ہے۔  مذاکرات بھی جاری رہے اور حلب میں قتل عام  اور دہشت اندازی  کے اقدامات بھی کیے جارہے تھے، پھر روس نے اگلے ہی دن حلب سے سارے جنگجوؤں کے نکل جانے کا مطالبہ کیا اور جب  مسلح اپوزیشن  کی طرف  سے مذاکرات میں شامل ہونے والوں کو یقین ہوا کہ یہ روسی مطالبہ ترکی کا مطالبہ بھی ہے تو وہ  حلب میں  موجود  اپوزیشن پر نکلنے اور   انخلاء کے لیے دباؤ ڈالنے لگے، یعنی یہ کہ حکومت اور اس کے اتحادیوں کو شہر حوالے کردیں۔ اس سے یہ بات بالکل واضح ہوئی کہ  روس و ایران اور شامی حکومت  کی زمینی و فضائی دہشت گردی  کے دوران ہی انقرہ  مذاکرات  میں شریک مسلح اپوزیشن کے وفد نے  ہی حلب کے اندر غداری   کے جراثیم پھیلا ئے ۔۔۔ جب لوگوں پر یہ واضح ہوگیا تو انقلابیوں نے حلب کے اندر سے مذاکرات کار وفد کو بتایا کہ وہ ہر گز شہر نہیں چھوڑیں  گے اور وہ شہر کا دفاع کریں گے ، پھر حلب کی مشترکہ فوج بنانے  کا اعلان کیا گیا۔

 

چوتھا: روس ایسی خبریں نشر کرنےلگا جن سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ انقلابیوں  کا ایک بازو ترکی کی طرف سے دباؤ کے سامنے جھک گیا ہے، جبکہ اسی بازو  کے عسکری و سیاسی قیادتیں ہی انقرہ میں ترکی اور روس کے ساتھ مذکرات  میں مصروف تھیں۔چنانچہ رشیا ٹو ڈے چینل نے16 دسمبر2016 کو رپورٹ دی:" روڈسکوئی نے بتایا کہ معتدل  اپوزیشن میں سےتقریباً 3500 مسلح افراد نے اپنا اسلحہ سپرد کیا ہے اور سرنڈر کر گئے ہیں، ان میں سے 3000 کو معافی دی جا چکی ہے "، حلب معرکوں کے دوران روس نےاس سے ملتی جلتی خبریں نشر کیں ۔۔۔ شہر سے ترکی کے وفادار عناصر نے  انخلاءکیا   اور  انہی کی نگرانی میں  شامی فوج اور اس کے اتحادیوں  کے آگے حلب کے دیہی علاقے چھوڑ دیے گئے  اوریہی کچھ  اُن کُرد گروپوں نے کیا جو حکومت کے وفادار ہیں۔ یوں ان گروپوں  نے ترکی کی   بے تعلقی کی تحریک  پر لبیک کہتے ہوئے اس کے دباؤ کے آگے سر نگوں ہوئے۔ یہ گروپ ترکی  کے بلاواسطہ دباؤ کا شکار ہوگئے یا پھر مذاکرات کار وفد یا ان کی عسکری وسیاسی قیادتوں کے گھٹنے ٹیک دینے سے پسپائی اختیار کرگئے۔یہی لوگ  ترکی میں  حاضر ہوئے تھےاور  ترکی ، سعودی عرب اور قطر وغیرہ کی طرف سے فراہم کردہ  زہریلے اور غلیظ  مال ودولت کے اندر لوٹ پوٹ ہوکر آئے۔ ترکی کی  جانب سے دی جانے والی ضمانتوں پر اپنے  آپ کو شامی فوج  کے حوالے کرنے، یا   پسپائی اختیار کرکے شکست  کے پس منظر  میں جب  یہ گروپ حلب کے اندر لڑنے سے دستبردار ہوئے ،جہاں  انہوں نے باقی گروپوں بالخصوص جنوبی حلب والوں  کو بے یارو مدد گار چھوڑا،  تو حلب  کو  حکومت کے حوالے کرنے کی کاروائی عملاً وقوع  پذیر ہوئی۔  اگر اس قسم کے منظرنامے  نہ ہوتے تو مجرم شامی فوج کے لیے حلب پر اس تیزی کے ساتھ قبضہ کرنا ممکن نہ ہوتا، حلب جو  شام کے شمال میں انقلاب کا گڑھ  اور امریکہ کے گلے میں کھٹکتا ایک بڑ ا  کانٹا ہے۔ یہ اس لیے کہ فوجی ماہرین کے اندازوں کے مطابق  حلب  پورے ایک سال  تک  مقابلے کی قوت رکھتا تھا۔  اسی طرح ایشیا نیوز نے7 دسمبر2016 کو  کہا، " اپوزیشن کے انٹرنیٹ پیجز نے  اپنے لیڈروں سے متعلق لیکس رپورٹ کیں، جسے ان صفحات میں " انقلابیوں کے ساتھ غداری " کا عنوان دیا گیا۔ ان صفحات میں اپنے قائدین کے حوالے سے اس خبر کی تصدیق کردی  کہ حلب کے  مسلح گروپوں  کے کچھ لیڈروں کی طرف سے  سرنڈر کرنے اور پورے شہر کے انخلاء کے حوالے سے واشنگٹن کے ساتھ بات چیت جاری ہے جس کا آغاز بدھ کی صبح ہوا ہے، اپنے پیجز میں انقلابیوں نے اپنے الفاظ میں اس کے بارے میں تاثرات کا یوں اظہار کیا " روس امریکہ معاہدے نے  حلب کو  شامی  حکومت اور ایران  کے سپرد کرنے پر قائدین کو مجبور کیا"۔

 

پانچواں: یہ تھی سازشوں اور فریب کاریوں کی داستاں۔ فوجی تناظر میں اور حلب  پر جنونی حملے کے بالمقابل  ترکی نے داعش کے خلاف الباب شہر پر ایک اور حملہ کیا،  حلب کی مکمل حوالگی کے لیے یہ ایک اور زہرتھا جو اردوان  نے پھیلایا، کیونکہ   یہ حملہ کرکےاسے ایک معقول وجہ  ہاتھ آگئی  ،یعنی اس  سے از خود اس بات کو جواز مل گیا  کہ  حلب شہر سے جنگجوؤں کو جلد از جلد انخلاء کرنا چاہئے کیونکہ الباب شہر میں اُسے (ترکی کو) اُن کی  ضرورت ہے۔  الباب پر اردوان کا  حملہ حلب پر حکومت اور اس کے اتحادیوں کے حملے  کے  وقت میں ہی کیا گیا۔  حلب میں مسلمانوں کا تحفظ اور ان کا دفاع ترک صدر اردوان کی نظروں میں کسی قیمت کے قابل نہیں، اس کی اگر کوئی آرزو ہے  تو یہ کہ امریکی  منصوبے کو نافذ کیا جائے۔ عاقبت نا اندیش ترک ِ ناداں کو  اس کی کوئی پروا نہیں کہ دنیا و آخرت میں اس کی کیا سزا ہوسکتی ہے ۔  ترکی نے اپنے وفادار گروپوں  سے لا تعلقی کرواکے  ان کے ساتھ  بد تمیزی  کی انتہاء کردی ا ور الباب کے معرکہ   کے دوران  " فرات کی ڈھال "  آپریشن  میں شمولیت کے لیے ان پر شدید دباؤ ڈالا ، جس کے باعث حلب  کا محاذکمزور ہوا۔ 8 دسمبر2016 کے دن حلب شہر کے جنوب میں واقع الشیخ سعید گاؤں کا دفاع کرنے والے جنگجوؤں کے ساتھ بد سلوکی کی انتہا کردی ،  اس گاؤں میں حکومتی فوج اور اس کے اتحادیوں کے لیے پیش قدمی کرنا مشکل  تھا ، انقلابی ان کو گزشتہ دو ہفتے سے پامردی اور قوت  کے ساتھ ناکوں چنے چبوا رہے تھے،مگر ترکی کے وفادار بعض دھڑوں کا الباب میں جنگ کے بہانے شہر سے انخلاء کرنے سے اس محاذ کو  پریشانی کا سامنا کرنا پڑا اور کمزور پڑ گیا ، یہی وجہ تھی کہ  انقلابیوں کے زیر ِکنٹرول باقی گاؤں والوں کے حوصلے  بھی ٹوٹ گئے ، اور وہ جنوب مغرب   کے صلاح الدین  اور السکری علاقے کی طرف سرکنے لگے ،وہاں ایک تنگ میدان میں   جو ان کے لیے  پہلے ہی ناکافی تھا، اکٹھے ہوگئے جبکہ اسی میدان میں  دوسرے دیہات سے بھاگ  کر آنے والے   شہریوں کی بڑی تعداد   بھی اُمنڈتی چلی آرہی تھی جس کی وجہ سے اس میدان میں  وہاں پر موجود لوگوں کے دم گھٹنے لگے۔  اسی اثنا میں   ترکی  نے اچانک اعلان کیا ، کہ حلب سے شہریوں اور مسلح لوگوں کو نکالنے کے حوالے سے ترکی  و روس میں معاہدہ ہوا ہے ۔" شامی اپوزیشن کے  ذرائع نے اس بات کی تصدیق کی کہ اسد حکومت کے ساتھ جنگ بندی اور حلب کے مشرق  میں  محاصرہ کیے گئے دیہاتوں کو  شہریوں  اور مسلح افراد سے خالی کرنے کا معاہدہ طے پا چکا ہے اور اس معاہدے پر  بدھ کی صبح سے عمل در آمد شروع کیا جائے گا۔ فرانسیسی نیوز ایجنسی  نے  نور الدین زنگی  گروپ کے انچارج   کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ یہ معاہدہ ترکی وروس کی نگرانی میں ہوا اور آئندہ چند گھنٹوں میں اس پر عمل در آمد شروع کیا جائے گا۔  ترک وزیر خارجہ مولود جاویش اوگلو نے آج اعلان کیا کہ اس کا ملک حلب کے اندر جنگ بندی کروانے ، بالخصوص شہریوں کو علاقہ چھوڑنے کے لیے آزادی دینے کے حوالے سے  روس  کے ساتھ روابط  بڑھائےگا۔۔۔" (اخبار الآن،13 دسمبر2016) ۔ اس اچانک   اور چونکا  دینے والے منظر نامے کو جس چیز نے مزید بھیانک کردیا وہ یہ کہ پہلے اعلان  یہ کیا گیا  کہ اس معاہدے کا نفاذ بہت جلد صبح  پانچ اور سات بجے کے درمیان ہو گا۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ لوگوں کے اذہان پر شکست  خوردگی کے  احساسات بجلی بن کر گریں اور انہیں کسی اور حل کے بارے میں سوچنے  ہی نہ دیں۔۔۔۔  اس تمام منصوبے کو ترکی نے ایسے پیش کیا جیسے یہ سب کچھ شہریوں کو بچانے کے لیے کررہا ہے!

 

چھٹا:  ترکی کے وفادار مسلح گروہوں نے  بے وفائی اور لا تعلقی کے اس پس منظر میں حلب سے  پسپائی شروع کی ،جسے کوئی بھی مسلمان قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ۔ روس نے  اپنے طور پر اس پر ڈینگیں مارنا شروع کیں( روسی چیف آف آرمی سٹاف نے 16 دسمبر کو مشرقی حلب میں معتدل اپوزیشن  کو دہشت گردوں سے الگ کردینے کی کاروائی مکمل کردینے کا اعلان کیا) جمعہ کے دن  شام میں روس کے مصالحتی  تعاون سینٹر" حمیمیم" نے مشرقی حلب سے مسلح جنگجوؤں اور ان کے خاندانوں کے انخلاء آپریشنز کے خاتمے  کا اعلان کردیا اور روس کی وزارت دفاع نے  کہا " شامی فوج مشرقی حلب میں علیحدگی پسندوں کے  اڈوں کو   تباہ کررہی ہے۔۔۔ (رشیا ٹوڈے،16 دسمبر2016)۔  یہاں سے  شامی انقلاب کے خلاف ترکی کی  سازشوں کے  تانے بانے  واضح ہونے لگے، کیونکہ ترکی کے وفادار گروپوں کو   ایک ایک کرکے نکالا گیا ، ان گروپوں نےاپنے پیچھے حلب کے رہائشیوں کو بے یار ومدد گار چھوڑا جن میں  مخلص جنگجوؤں کی تھوڑی سی  تعداد  بھی شامل تھی۔  ایسا اس لیے کیا تاکہ  انہیں" دہشت گرد" کا نام دے کر روس ، ایران اور حکومتی درندوں کے سپرد کرکے ان کا صفایا  کرنے کا موقع فراہم کیا جائے ۔جیساکہ  ترک وزیر خارجہ کے مذکورہ بالا بیانات اور روس کے "حمیمیم" مرکز کے بیان  سے  واضح ہے۔  اس کے بعد روس نے واضح اعلانات کیے کہ جنگجوؤں کے ایک ٹولے کو ایک گوشے میں اکٹھا کیا جائے،  یہ اعلانات ان کو پکڑ کر قیدی بنانے  اوران کا صفایا  کرنے کی پیش بندی تھی اور ان اعلانات  میں ان  شہریوں کی بڑی تعداد کا کوئی خیال رنہیں رکھا گیا جو ان جنگجوؤں کے ساتھ اسی  کونے میں محصور ومبحوس  ہوکر رہ گئے  تھے۔ روس کے ان اعلانات کےبالمقابل ترکی نے اعلان کیا کہ انخلاء کی کاروائیاں جاری  ہیں، جبکہ اس سے پہلے یہ کاروائیاں ٹہرگئی تھیں ۔  اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کاروائیوں کے باعث ترکی کے وفادار مسلح گروپ  انتہائی مشکل حالات کا سامنا کر رہے تھے جن کو حلب سے انتہائی جلدی میں نکالا گیا، یہ وہ گروپ تھے جو انخلاء  کے وسیع آپریشن  کے تحت پسپائی  کرنے پر متفق ہوئے تھے۔ اب ان گروپوں کو محسوس ہونے لگا ہے کہ وہ اردوان کے لگائے ہوئے پھندے میں پھنس گئے ہیں ،اور ان سے امریکہ  وروس کی انتہائی آرزو کی تکمیل کروانا چاہتا ہے ،جسے وہ معتدل اپوزیشن کا" دہشت گردوں" سے علیحدہ کردینے کا نام دیتے ہیں۔ اس طرح حلب کے اندر ایک نئی صورحال پیدا کی گئی  ، جہاں مخلص انقلابیوں کو نشانہ بنانا آسان ہو، تب  امریکہ ، روس اور اردوان نے امریکی منصوبے کی کامیابی پر ڈینگیں مارنا شروع کیں اور یہ اعلان کیا گیا کہ اس منظر نامے کو کسی الگ اور اجنبی  مقام کی طرف منتقل کیا جائے گا، یعنی آستانہ، قازقستان کی دارالحکومت کی طرف۔

 

ساتواں: امریکہ نے اگرچہ اپنے آپ کو پردے کے پیچھے چھپائے رکھا،اس میں اس کا ایک مقصد تھا جس کا حصول اوبامہ انتظامیہ کے باقی ماندہ مختصر  وقت کے لیے درکار تھا، نیز اس  منظر نامے پر اسے ترکی کی موجودگی پر اطمینان تھا جو اس کے ساتھ اپنی پرخلوص دوستی اور بے لوث محبت کے ثبوت فراہم کر چکا ہے ، مگر اس کے باجود امریکہ  کلی طور پر منظر نامے سے غائب بھی نہ رہا، بلکہ اپنی خوشی ظاہر کرنے کے لیے وقتاً فوقتاً معائنہ کرتا رہا ۔

 -ترک صدر رطیب اردوان نے کہا ہے کہ  اس نے امریکی صدر اوبامہ کے ساتھ بدھ کو ٹیلیفونک گفتگو کے ذریعے شام اور عراق کے حالات پر بات چیت کی۔ اردوان نے کہا " ترکی حلب سے شہریوں کے انخلاء کی نگرانی جاری رکھے گا ( رائٹرز،15 دسمبر2016)۔

-ترکی کی   حلب میں جنگ بندی کے لیے ثالثی   کی کوششوں پرصدر اوبامہ نے  اردوان کا شکریہ ادا کیا۔ جنگ بندی کا مقصد  اپوزیشن اور شہریوں کو پر امن انخلاء کے لیے راستہ دینا تھا ( یو ایس سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ سائٹ ٹویٹر،16 دسمبر2016)۔   

-امریکی وزیر خارجہ کا15 دسمبر2016  کوحلب کے انخلاء کی کاروائی سے متعلق بیان سے ان نتائج پر امریکی رضامندی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے، جو "مصالحتی وقفے" (سیز فائر) کے دوران اس کا بڑا خواب تھا ۔ یہ وقفہ کشت و خون کے ذریعے کرایا گیا  یا ان قدامات کے ذریعے جو اس نے گزشتہ کئی سالوں سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اسی طرح کیری کا یہ کہنا:" فی الحال  آگے بڑھنے سے پہلے حلب میں جو ہم چاہتے ہیں وہ معاندانہ کاروائیوں کا فوری اور پائیدار  روک تھام ہے،  جنگ روکنے کے  لیے واحد راستہ  مذاکرات  ہیں، جبکہ اپوزیشن نے بھی مذاکرات  کی طرف لوٹنے کی خواہش ظاہر کی  ہے۔۔۔"( ٹویٹر پر امریکی وزارت خارجہ کی ویب سائٹ، 16 دسمبر2016)۔

 

-اعلیٰ سطحی  سرکاری ذرائع سے، جو  پیرس کے ایک اجلاس میں شریک تھے، جو شام ، بالخصوص  حلب کی صورتحال سے متعلق  وزرائے خارجہ کی سطح پر منعقدکی گئی تھی،"القبس" کو پتہ چلا ہے کہ اجلاس کے دوران  امریکی سیکرٹری خارجہ جون کیری  کی گفتگو" شام کی سیاسی  ومسلح  اپوزیشن سے حتمی طور پر روس وایران اور بشار الاسد کے آگے کلی سرنڈر کرنے کے مطالبے پر جا کے ختم ہوتی تھی"۔ اسی ذرائع نے" القبس" کے ساتھ خصوصی  گفتگو میں  کہا کہ جون کیری نے اس اجلاس کے دوران حلب سے تمام جنگجوؤں کو نکالنے کا مطالبہ کیا، اس نے  شامی اپوزیشن پر زور دیا کہ وہ  غیر مشروط طور پر جنیوا مذاکرات کی میز پر آکر بیٹھ جائیں۔۔۔ ذرائع نے مزید  کہا کہ  شرکا کو اس وقت ایک جھٹکا سا لگا جب  انہوں نے اسد اور اس کے اتحادیوں پر دباؤ ڈالنے کے لیے ممکنہ آپشن استعمال کرنے سے متعلق پوچھا، تو کیری نے  کسی ہیر پھیر  کے بغیر  کہا" میرا صدر یعنی صدر اوبامہ نے  صرف داعش ISIS) ( کے خلاف جاکرلڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔۔۔۔ ( القبس میگزین کی ویب سائٹ،13 دسمبر 2016)۔

 

آٹھواں: یہ  کہ یہ ایک خونین  اسٹیج ہے اور مذکورہ بالا امور اس کے  اوزار وآلات ہیں جن کو بیان کیا گیا۔ حلب ،شام  میں جو کچھ ہوا  ، تر ک صدر اردوا ن نے ہی کیا جس کی آنکھوں میں شامی مسلمانوں کے خون کی کوئی قیمت نہیں ۔ یہ سب کچھ اس نے صرف امریکی خوشنودی کی خاطر سر انجام دیا۔ اور حلب میں  بہائے جانے والے خون کی آبشاریں  اور قتل عام  کی تباہیاں ۔۔۔ سارےکا سارا جراثیم  جو حلب شہر کے جسم میں چھوڑا گیا، اس کی وجہ وہ غلیظ مال و دولت ہے  جو گروپوں کے قائدین کو سعودیہ، ترکی وغیرہ سے  حاصل ہوئے، وہ اس مال کے آگے  جھک گئے اور ان کے حوصلے جواب دے گئے،جبکہ اس سے پہلے انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ وہ اپنی قوم اور ان کا خون فروخت نہیں کریں گے۔  آج  وہی لوگ ترکی اور سعودیہ کے بردہ فروش بازاروں  میں مٹر گشت کر تے نظر آرہے ہیں،  جبکہ اس خرید و فروخت کا ایک جز مکمل ہوچکا ہے اور اس کے تباہ کن نتائج بھی سامنے آرہے ہیں ، کاش کوئی  عبرت حاصل کرے؟  کیا ایسا بھی کوئی  شخص ہوگا  جو سیاسی رقوم لینے کو خود کشی نہ سمجھے؟

 

امریکی" مصالحتی وقفے " کے خاتمے کے بعد حلب اسٹیج  پر برپا ڈرامے کے بقیہ مناظر ذلت و رسوائی میں اپنے سابقہ مناظر سے کم نہیں کیونکہ جن کی اندر کچھ نہ کچھ شرم و حیا کی رمق باقی بچی  تھی، ان سے  یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ اس کو قازقستان کی دارالحکومت آستانہ  حاضر ہوکر   اُتار پھینکیں۔ اقوام متحدہ میں روسی نمائندے چورکین نے کہا ہےکہ  شام کے اندر حلب کی آزادی کے بعد اولین مشن  جنگی کاروائیاں روکنے اور شامی فریقوں کے درمیان از سرِ نو مذاکرات شروع کروانا ہے(رشیا ٹوڈے،16 دسمبر2016) ۔  رشیا ٹوڈے15/12/2016  کے مطابق اس سے قبل پیوٹن نے اعلان کیا تھا کہ اردوان کے ساتھ ان کا اس بات پر اتفاق ہوا ہے کہ روس اور ترکی شامی حکومت اور مسلح دھڑوں کے نمائندوں کے سامنے مذاکرات کی پیشکش  کریں۔ اسی طرح ترک پریس نے 16 دسمبر2016 کو ذکر کیا:" روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن  نے کہا ہے کہ وہ عنقریب  ترک صدر رجب طیب اردوان کے ساتھ قازقستان کی دارالحکومت آستانہ میں ملاقات کرے گا تاکہ شام میں جنگ بندی کے استحکام پر ان سے گفتگو کرے۔ روسی صدر نے جاپان  روانگی سے کچھ دیر قبل اپنے بیان میں کہا  کہ  شام سے متعلق اقوام متحدہ کے توسط سے طے پانے والے جنیوا مذاکرات میں ہونے والے معاہدات  کو  جلد از جلد عملی جامہ پہنایا جائے گا۔ روسی صدر نے  اشارہ کیا   کہ آئندہ  قدم پورے شام کی سطح پر جنگ بندی کا ہوگا۔پیوٹن نے انکشاف کیا کہ نئے مذاکرات شروع کرنے کے لیے  شام کے متنازع فریقوں  کو پیشکش کی جائے گی اور اس پر ترک صدر کے ساتھ اتفاق ہوچکا ہے۔ روسی صدر نے مزید کہا  کہ اس نے اپنے ہم منصب ترک صدر کے ساتھ مل کر   زبردست کوششیں کیں، جو حلب میں جنگ بندی کی تکمیل  تک جاری رہیں اور جس کے بعد محصورین کا انخلاء آسان ہوا"۔

 

یہ راستہ جو سپردگی اور تھوڑی بہت ترمیم کے بعد اسی اسدی حکومت کو قبول کرنے کا راستہ ہے، ترکی کا صدر اردوان اسی کی طرف مخالف مسلح گروپوں کو  ہنکا کرلے جار ہا ہے، اور امریکی منصوبے کے تحت اردوان کو ہی یہ کردار ادا کرنے کی خدمت سونپی گئی ہے۔ ادھر جبکہ جن شامی گروپوں کے قائدین  کے دلوں سے اخلاص کا جوہر مکمل طور پر  ناپید ہوچکا ہے،وہ  قازقستان کی دارالحکومت آستانہ جاکر اپنے آپ کو اور شام کو معمولی سی رقم کے بدلے  تختۂ دار پر چڑھانے کی حماقت کر رہے ہیں۔  اگر ان کے دلوں میں کچھ بھی اخلاص باقی ہو تو ان کے لیے ترک صدر اردوان کی کشتی سے چھلانگ لگا کر اپنی قوم کے ساتھ صدق  واخلاص سے  شامل ہونا ضروری ہے ، اس سے پہلے کہ اردوان ان کو پھینک دے اور یہ کام شروع بھی ہوچکا ہے۔  جہاں تک ان گروپس کے اندر مخلص لوگوں کی بات ہے تو ان پر لازم ہے کہ وہ اپنے قائدین کو راہِ راست پر لائیں یا ان کو تبدل کردیں کیونکہ گروپس  کےلیڈروں کو  کس نے یہ اجازت دی ہے کہ وہ امت کے انقلاب کو چند لاکھ ڈالروں  کے بدلے  دشمن روس وامریکہ کے ہاتھوں فروخت کردیں؟  جسے یہ  اللہ سبحانہ و تعالیٰ ، اس کے رسول ﷺ اور مومنین سے شرم کیے بغیر بیچ رہے ہیں!  شام والوں پر یہ آزمائشیں  اللہ کی طرف سے اس لیے آرہی ہیں، تاکہ شام کی مبارک سرزمین  پر  کھرے کھوٹے کو جدا کرے  ، شام  جو مسلمانوں کا سب سے بہترین مقام اور اسلام کا مسکن ہے۔

 

﴿لِيَمِيزَ اللَّهُ الْخَبِيثَ مِنَ الطَّيِّبِ وَيَجْعَلَ الْخَبِيثَ بَعْضَهُ عَلَى بَعْضٍ فَيَرْكُمَهُ جَمِيعًا فَيَجْعَلَهُ فِي جَهَنَّمَ أُولَئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ

" تاکہ اللہ ناپاک ( لوگوں ) کو پاک ( لوگوں) سے الگ کردے اور ایک ناپاک کو دوسرے نا پاک پر رکھ کر سب کاایک ڈھیر بنائے اور اس ڈھیر کو جہنم میں ڈال دے۔ یہی لوگ ہیں جو سراسر خسارے میں ہیں۔"( الانفال۔37)

 

نواں: آخر میں، نہ کہ آخری بار  ہم اردوان اور ان سب کو جنہوں نے حلب کے خلاف سازشیں کیں  ، اس کی حوالگی میں حصہ لیا اور اللہ  سبحانہ اور اس کے رسول ﷺ کے دشمنوں  کی خوشنودی کی خاطر جنگجوؤں کو بے یار ومددگار چھوڑا ،، ان کو  رسول اللہ ﷺ کی حدیث یاد دلاتے ہیں جسے ابن حبان ؒ نے اپنی صحیح میں قاسم  سے ، انہوں  نے ام المؤمنین  حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا  سے،  انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے روایت کی ہے ، آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

 

((مَنْ أَرْضَى اللَّهَ بِسَخَطِ النَّاسِ كَفَاهُ اللَّهُ، وَمَنْ أَسْخَطَ اللَّهَ بِرِضَا النَّاسِ وَكَلَهُ اللَّهُ إِلَى النَّاسِ))

" جس نے لوگوں کی ناراضگی مول کر اللہ کو راضی کیا ، اللہ لوگوں کی طرف سے کافی ہوجائے گا اور جس نے لوگوں کی خوشنودی کی خاطر اللہ کو ناراض کیا ، اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو لوگوں کے حوالے کردے گا"۔

 

دیکھو تو سہی! لوگ  ان کے بارے میں جس نفرت  و بیزاری  کا اظہار کر رہےہیں؟ اردوان نے اس کا خود مشاہدہ کیا اور اپنے کانوں سے سنا۔ حتی کہ اس کے اپنے  دوست پیوٹن نے بھی اس پر کوئی پردہ نہیں ڈالا ، بلکہ  سب کے سامنے ایک پریس کانفرنس میں اس کو بے نقاب کردیا! ۔ بے جا نہ ہوگا اگر وہ بات مکرر عرض کریں   جو ہم نے  شروع میں کہی تھی:

"روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے اس وقت  سیاسی بم دھماکہ کیا،  جب اس نے یہ راز فاش کردیا کہ  مشرقی حلب سے جنگجوؤں کے انخلاء کی کاروائی پر اتفاق ترک صدر رجب طیب اردوان کےگزشتہ اگست سینٹ پیٹرس برگ کے دورے کے دوران ہوا تھا ، ۔۔۔ روسی صدر نے آج جمعرات کے دن جاپان کے  وزیر اعظم شینزو ابی کے ساتھ ٹوکیو میں ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا : ماسکو  کا انقرہ کے ساتھ اس بات پر اتفاق ہوا ہے کہ  شہریوں کے تحفظ کو مقدم رکھتے ہوئے ترکی  ان جنگجوؤں کو نکالنے میں تعاون کرے  گا  جو اسلحہ   پھینکنے  پر متفق ہوجائیں۔ اس نے مزید کہا : میرے علم کے مطابق حلب میں جو کچھ ہورہا ہے ، ٹھیک  اس معاہدے کی تعبیر ہے جس پر ترک صدر کے ساتھ اس کے  سینٹ پیٹرس برگ کے دورے میں اتفاق ہوا تھا۔۔۔۔"( 16 دسمبر2016 ،ایلاف اور سپوتنيك نيوزنے رپورٹ کیا)۔

یہ  انجام اس دردناک عذاب کے علاوہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے ہر ایسے شخص کے لیے تیار کر رکھا ہے جو امتِ مسلمہ کا مجرم ہو یا اسلامی سرزمین کھودینے میں شریک ہوا ہو۔

 

﴿سَيُصِيبُ الَّذِينَ أَجْرَمُوا صَغَارٌ عِنْدَ اللَّهِ وَعَذَابٌ شَدِيدٌ بِمَا كَانُوا يَمْكُرُونَ

" جن لوگوں نے (اس قسم کی) مجرمانہ باتیں کی ہیں اُن کو اپنی مکاریوں کے بدلے میں اللہ کے پاس جا کر ذلت اور سخت عذاب کا سامنا ہوگا"( الانعام: 124)۔

 

ان  بد کردار وں سے جو ہم نے پہلے کہا تھا ،وہی بات  دہراتے  ہیں:  حلب میں خواہ کتنی ہی  تباہی اور بربادی مچا دی گئی ، اس سب کے باوجود،  پھر سے اٹھے گا اور سرزمین شام  بالخصوص حلب  امریکہ ، روس ،   ان کے حواریوں  اور حامیوں کے گلوں میں زہر آلود خنجر ثابت ہوگا ، یہ ان کے پہلوؤں  کا کانٹا بن کر ان کی راتوں کی نیندیں   اُڑاتا رہے گا اور ان کے جرائم کی وجہ سے  انہیں قتل کرتا رہے گا،وہ جس فتح  کا دعویٰ کر رہے ہیں ، زیادہ عرصے تک اس کا لطف نہیں اٹھاپائیں گے اور انہیں اس پر زیادہ اترانا نہیں  چاہئے،  یہ ایک شہر میں اُس وقت تک داخل ہونے کے قابل نہیں ہوتے،جب تک اس کو ملیا میٹ نہ کردیں اور اس کی اینٹ سے اینٹ نہ بجادیں تو اس کو  ایک  فرضی اور موہومہ فتح ہی کہا جا سکتا ہے۔۔۔۔یہ لوگ ایک جنگجو کو صرف اس وقت شکست دے سکتے ہیں جب  اس کو شہید ہی کردیں تو اسے کیا کہیے! اس کو شکست خوردہ کی فتح ہی کہہ سکتے ہیں۔۔۔۔۔اور جب یہ چند سو یا دو تین ہزار کے مقابلے میں تباہی پھیلانے والے راکٹ میزائلوں، دھماکہ خیز ڈرموں  اوراتحادی افواج کو اکٹھی کر کے بھی ان کا سامنا کرنے سے کتراتے ہیں  اور فضائی  لانچروں اوربحری  جنگی جہازوں کا سہارا لینے پر مجبور ہوتے ہیں تو اسے بھگوڑے اور بزدل کی فتح ہی کہہ سکتے ہیں جو میدانِ کارزار کے نڈر بہادر مردانِ حق  سے مرعوب ہو کر رہ گیا ہو، اس کو کون فتح کہتا ہے، انجام کار یہ  نیست ونابود ہوجاتی ہے، جس کا نام ونشان باقی نہیں رہتا ۔۔۔ بلا شبہ امریکہ وروس ، ان کے اتحادی اور  حواری یہ چاہتے ہیں کہ وہ  وحشیانہ جرائم   کرکے اپنے پیشروصلیبیوں اور منگولوں اورتاتاری یاروں کی کردار کو زندہ کریں ، انہوں نے بھی عراق اور شام میں  درندگی کی انتہاکی تھی۔ مگر موجودہ صلیبیوں اور ان کے ہمنواؤں نے اپنے پیشرؤں کے انجام سے عبرت نہ لی، ان کو مسلمانوں نے اپنے ممالک سے اکھاڑ پھینکا تھا ،وہ  دوبارہ  اٹھ کھڑے ہوئےاور اسلام اور مسلمانوں کی شان وشوکت پھر لوٹ آئی، ان کی ریاست خلاف پھر سے مضبوط ہوگئی اور ہرقل کا شہر قسطنطنیہ کو فتح کیا جو بعد میں "استنبول " کے نام سے مشہور ہوا، وہ آگے بڑھتے ہوئے ماسکو کے قریب پہنچ کر ویانا کے دروازوں  پر دستک دی، دن بدلتے رہتے ہیں ، صبح کے انتظار میں بیٹھا شخص اس کی روشنی جلد دیکھ لیتا ہے۔

 

﴿وَسَيَعْلَمُ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَيَّ مُنْقَلَبٍ يَنْقَلِبُونَ

"اور ظلم کرنے والوں کو عنقریب پتہ چل جائے گا کہ وہ کس انجام کی طرف پلٹ رہے ہیں" ( الشعراء: 227)۔

 

19ربیع الاول 1438ہجری

18 دسمبر 2016 عیسوی         

Last modified onبدھ, 11 جنوری 2017 14:38

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک