بسم الله الرحمن الرحيم
نوید بٹ کے متعلق شہزاد شیخ کی گواہی
#KnowNaveedButt
#FreeNaveedButt
میری پہلی ملاقات نوید بٹ سے کراچی کے عزیز بھٹی پارک میں ہوئی تھی جب میں حزب التحریر کا رکن نہیں بنا تھا اور صرف ایک دارس تھا۔ وہ وہاں ہفتہ وار درس سے خطاب کرنے آئے تھے۔ لمبے چوڑے، صاف رنگت، چھوٹی چھوٹی داڑھی، ایک وجیہ انسان لیکن بہت ہی معمولی پینٹ شرٹ پہنے ہوئے تھے ۔ اس کے بعد میری ان سے دو مزید مختصر ملاقاتیں ہوئیں جن میں مجھے ان سے زیادہ بات چیت کرنے کا موقع تو نہیں ملا لیکن ان کے خوبصورت طرز کلام سے شدید متاثر ہوگیا۔ پھر جب میں رکن بن گیا تو 2006 میں مجھے پاکستان میں حزب التحریر کے میڈیا آفس سے منسلک کر کے ان کا نائب یعنی ڈپٹی ترجمان بنا دیا گیا۔ اس کے بعد حقیقی معنوں میں مجھے ان کی صحبت میں رہنے اور سیکھنے کا موقع ملا۔
پہلی بات جو مجھے ان کے متعلق حیران کن لگی کہ حزب میں بہت کم لوگ ہی انہیں نوید بٹ کہتے تھے۔ زیادہ تر لوگ انہیں ماموں کہتے تھے۔ میرے پوچھنے پر پتہ چلا کہ ان کا ایک بھانجا بھی حزب التحریر میں ہے اور چونکہ وہ انہیں ماموں ماموں کہتا ہے لہٰذا شباب کی اکثریت نے بھی نوید بٹ کو ماموں کہنا شروع کردیا۔ مجھے بھی انہیں ماموں کہنا ہی اچھا لگتا تھا اگرچہ ان کے ساتھ تعلق ایسا بن گیا تھا جیسے وہ میرے بڑے بھائی ہیں۔
مجھے ماموں کے حوالے سے دو تین واقعات یاد ہیں جو میں بھول نہیں سکتا۔ ماموں سال میں ایک آدھ بار کراچی کا دورہ کرتے تھے اور میں انہیں میڈیا والوں سے ملوانے کے لیے لے جاتا تھا۔ ایک دفعہ ایسے ہی ایک دورے پر وہ آئے ہوئے تھے اور ہماری ملاقات ایک اخبار کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر سے ہوئی ۔ وہ ریزیڈنٹ ایڈیٹر ماموں سے مل کر بہت متاثر ہوا اور ہمیں اپنے ایک وکیل دوست سے ملوانے لے گیا۔ وہ وکیل صاحب یہ بات ماننے کو تیار نہیں تھے کہ قرآن و سنت ہمیں سیاسی، معاشی، عدالتی یعنی زندگی کے ہر شعبے کے لیے نظام اور احکامات فراہم کرتا ہے۔ اس وکیل کا کہنا تھا کہ مجھے قرآن میں ایسا کوئی نظام نظر نہیں آتا۔ ماموں نے اس سے کہا کیا آئین پاکستان کوئی نظام دیتا ہے؟ اس پر وہ وکیل حیرت سے ماموں کو دیکھنے لگا۔ پھر ماموں نے اس سے کہا کہ آپ کے کمرے میں موجود یہ ڈھیروں قانون کی کتابیں اسی آئین پاکستان سے نکلی ہیں جو اس نظام کی تفصیلات فراہم کرتی ہیں۔ اس کے بعد ماموں نے کوئی آدھے درجن سے زیادہ فقہ کی مشہور کتابوں کے نام لے کر اس وکیل سے پوچھا کہ کیا آپ نے یہ کتابیں پڑھی ہیں۔ جس پر اس وکیل نے کہا کہ نہیں، تو پھر ماموں نے کہا کہ پھر آپ یہ کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ قرآن و سنت کوئی نظام زندگی نہیں دیتا۔ اس کے بعد وکیل کو مزید یہ کہنے کی ہمت نہ ہوئی کہ اسلام کوئی نظام زندگی نہیں دیتا۔ اور میں ماموں کی اسلامی قفہ کی کتابوں سے شناسائی پر حیرت کا مجسمہ بنا بیٹھا تھا۔
اسی طرح کے ایک دورے کے دوران دوپہر کے وقت پیاس نے ستایا تو ایک کولڈ ڈرنک والے کی دکان پر رک کر میں نے ایپل سڈرا کا آرڈر دیا۔ مجھے ایپل سڈرا بچپن سے ہی بہت پسند تھی اوراب وہ کم کم ہی ملتی تھی۔ ماموں نے پہلے تو وہ کولڈڈرنک قبول کی لیکن پھر دوسری منگوانے کا کہا۔ میں نے ماموں سے کہا خیریت آپ یہ کیوں نہیں پی رہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ اس کے متعلق شک میں مبتلا ہیں کہ کہیں اس میں شراب کی ملاوٹ تو نہیں۔ میں نے ان سے کہا کہ ایسا نہیں ہے لیکن اگر آپ مطمئن نہیں تو میں بھی اسے نہیں پیتا۔ انہوں نے ایک بار پھر فقہہ پر اپنی دسترس کا ثبوت دیتے ہوئے کہا کہ چونکہ آپ مطمئن ہیں لہٰذا آپ اسے پی سکتے ہیں لیکن میں اس سے مطمئن نہیں ہوں لہٰذا میں اسے نہیں پیوں گا۔ عموماً لیڈر حضرات اپنے کارکنوں یا عہدوں میں اپنے سے چھوٹوں پر اپنی بات تھوپتے ہیں لیکن ماموں نے اپنی ذاتی رائے کو مجھ پر مسلط نہیں کیا بلکہ مجھے میری رائے کے مطابق عمل اختیار کرنے کا موقع دیا۔
اور یہ واقعہ تو میں کبھی بھی بھول ہی نہیں سکتا، اور یہ سطور لکھتے ہوئے میری آنکھوں میں آنسو ہیں۔ ماموں کو ہماری اتنی فکر ہوتی تھی کہ ہمارے نہ بتانے کے باوجود وہ ہماری معاشی مشکلات اور پریشانیوں سے واقف ہوتے تھے۔ ایک بار میری ان سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے مجھے 50 ہزار روپے دیے۔ میں نے کہا ماموں یہ آپ مجھے کیوں دے رہے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ مجھے وراثت میں کچھ پیسے ملے ہیں اور میں جانتا ہوں کہ آپ بھی مشکلات کا شکار ہیں اس لیے یہ پیسے آپ کو دے رہا ہوں۔ میں نے کہا ماموں آپ خود کون سے اتنے خوشحال ہیں اور اگر وراثت میں کچھ پیسے آہی گئے ہیں تو آپ کو اسے خود پر اور اپنے گھر والوں پر خرچ کرنا چاہیے، آپ میرے ذمہ دار نہیں ہیں۔ لیکن انھوں نے مجھے وہ پیسے لینے پر مجبور کردیا۔ اس دن مجھے لگا میرا تو واقعی ایک بڑا بھائی بھی ہے۔ اور اس کے بعد ایک بار پھر انہوں نے مجھے تیس ہزار روپے دیے۔
جس دن ماموں کے اغوا کی خبر مجھے ملی میں ان سے ملنے کے لیے اپنے شہر سے روانہ ہوچکا تھا اور راستے میں تھا۔ مجھے کہا گیا کہ آپ واپس اپنے شہر چلے جائیں۔ ماموں کے اغوا کا دن اور اس کے بعد کا ایک مہینہ شاید میری زندگی کے مشکل ترین دن تھے۔ لیکن پھر کچھ صبر آہی گیا اور شباب کی بھرپور معاونت سے ان کی کمی کو پورا کرنے کی کوشش شروع کردی کہ جب کبھی وہ واپس آئیں تو انہیں اس بات کا افسوس نہ ہو کہ ان کے جانے کے بعد ان کے نائب نے ان کی تربیت کا حق ادا نہیں کیا اگرچہ مجھے لگتا ہے بلکہ یقین ہے کہ میں ان کی کمی کا دس فیصد بھی پورا نہیں کرسکا۔ ان آٹھ سالوں میں انہیں کئی بار خوابوں میں دیکھ چکا ہوں اور ہمیشہ اچھی صورت میں ہی دیکھا ہے۔ کوشش کرتا ہوں کہ کوئی نماز ایسی نہ گزرے جس میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے ان کی با حفاظت واپسی کی دعا نہ مانگوں۔ زندگی میں نبوت کے نقشِ قدم پر خلافت کے قیام کے بعد اگر کوئی دوسری شدید خواہش ہے تو ماموں کے سینے سے لگ جانا ہے۔
Latest from
- فلسطین اور غزہ کی آزادی کے لیے خلافت اور جہاد کے لیے وسیع سرگرمیاں
- اے مسلمان ممالک کی افواج! کیا تم میں کوئی صالح جواں مرد نہیں کہ وہ افواج کی قیادت کرے؟
- مسئلہ فلسطین عالمی برادری کا نہیں بلکہ امت اسلامیہ کا مسئلہ ہے۔
- عالمی سیاست کیوں اہم ہے؟!
- بے شک غزہ کلمہ گو مسلمانوں کا ایشو ہے، سینٹ کام کے ملازموں کا نہیں