الجمعة، 27 جمادى الأولى 1446| 2024/11/29
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

ڈاکٹر اسماعیل شیخ کو رہا کرو مہم ڈاکٹر اسماعیل کی بیوی نے حکومتی غنڈوں کی مذمت کی جو اسلام کے نام پر قائم پاکستان کا مذاق اڑارہے ہیں

آج ڈاکٹر اسماعیل شیخ کی بیوی اور ان کے وکیل جناب عمر حیات سندھو ایڈوکیٹ سپریم کورٹ آف پاکستان نے کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔ ایڈوکیٹ عمر حیات سندھو نے میڈیا کو ڈاکٹر اسماعیل شیخ کے اغوا اور اب تک کی عدالتی کاروائی سے آگاہ کیا۔
ڈاکٹر اسماعیل شیخ کو جمعہ 18 اپریل 2014 کی صبح تقریباًنو بج کر تیس منٹ پر راحیل-نواز حکومت کی ایجنسیوں کے اہلکاروں نے ان کی گاڑی سمیت اغوا کرلیا جب وہ اپنے گھر سے نکلے ہی تھے۔ پھر اسی دن تقریباً دو بجے دوپہر بارہ سے تیرہ سادہ لباس اہلکار کلاشنکوفوں سے لیس بلٹ پروف جیکٹوں میں ملبوس پولیس موبائلوں میں ڈاکٹر اسماعیل شیخ کے گھر پہنچےاور زبردستی گھر میں داخل ہوگئے جبکہ ان کے ساتھ کوئی خاتون اہلکار بھی نہیں تھیں۔ ان لوگوں نےڈاکٹر اسماعیل شیخ کی تمام فیملی کے اصل پاسپورٹ، ڈاکٹر اسماعیل اور ان کی بیوی کے لیپ ٹاپ،ان کے موبائل فون، دو گاڑیوں کی اصل رجسٹریشن کاپیاں، گھر کی اصل ملکیتی دستاویزات، کچھ نقدی اور زیورات قبضے میں لے لیے ۔
ایڈوکیٹ عمر نے کہا کہ21 اپریل 2014 کو ایک رٹ پٹیشن نمبر 2094 سندھ ہائی کورٹ میں دائر کی گئی جس کی باقاعدہ سماعت 22 اپریل 2014 کو سندھ ہائی کورٹ کی ڈویژن بینچ میں ہوئی۔ اس ڈویژنل بینچ نے متعلقہ حکام اور اداروں کو نوٹس جاری کیے اور یہ حکم دیا کہ 30اپریل 2014 کو ڈاکٹر اسماعیل شیخ کو پیش کیا جائے۔ اس وقت سے کئی پیشیاں ہو چکی ہیں لیکن حکومتی غنڈوں نے انہیں آج پیش نہیں کیا جو کہ پاکستان کے عدالتی نظام کا مذاق اڑا نے کے مترادف اور توہین عدالت ہے۔ یہ حکومتی غنڈے مسلسل ڈاکٹر اسماعیل کے گھر کی خواتین کو خوفزدہ کرنے کی کوشش کرتے رہے تا کہ وہ ان کی رہائی کی کوششوں سے باز آجائیں۔ دراصل راحیل-نواز حکومت کے غنڈوں نے خلافت کے داعی ڈاکٹر اسماعیل شیخ کی زبان بندی کی کو شش کر کےپاکستان کے وجود کا مذاق اڑایا ہے جو اسلام کے نام پر قائم کیا گیا تھا۔
ڈاکٹر اسماعیل کی بیوی اور ان کے وکیل نے کہا کہ ڈاکٹر اسماعیل ایک مشہور و معروف ڈینٹل سرجن ہیں جن کی خدمات سے ہزاروں طالب علم اور مریض فیضیاب ہو چکے ہیں ۔ انہوں نے اپنی زندگی کو اسلام اور اس کی امت مسلمانوں کے لئے وقف کررکھا ہے۔ وہ فکری و سیاسی جدوجہد پر یقین رکھنے واے شخص ہیں اور کبھی بھی کسی مجرمانہ سرگرمی میں ملوث نہیں رہے۔ مسز منیرا اور ان کے وکیل نے میڈیا، انسانی حقوق اور وکلاء کی تنظیموں سے مطالبہ کیا کہ وہ ڈاکٹر اسماعیل کے ساتھ روا رکھے جانے والے ظلم کو اجاگر کریں اور ان کی بازیابی کے لیے اپنا کردار ادا کریں کیونکہ اگر آپ اس ظلم کے خلاف خاموش رہے تو یہ غنڈوں اور مجرموں کو تقویت بخشنے کا باعث ہو گا۔
وَمَا نَقَمُوا مِنْهُمْ إِلاَّ أَن يُؤْمِنُوا بِاللَّهِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ
"یہ لوگ اُن ایمان والوں سے کسی چیز کا بدلہ نہیں لے رہے تھے سوائے یہ کہ وہ اللہ غالب لائقِ حمد کی ذات پر ایمان لائے تھے" (البروج:8)

 

 

 

Read more...

عراق اور شام میں لڑنے والی تنظیموں اور قبائل کو پکار : آپس میں نہ لڑو!!!امریکہ تمہار ی آپس کی لڑائی سے فائدہ اٹھا کر تمہارے علاقوں میں عسکری مداخلت کر تا ہے

 

عراق اور شام میں پے در پے واقعات رونما ہو رہے ہیں، دوسری طرف 18 اگست 2014 کو اوبامانے ایک تقریر کی، جبکہ22 اگست 2014 کوامریکہ کے وزیرِ دفاع چَک ہیگل اورچیف آف اسٹاف جنرل ڈیمپسی کی جانب سے پریس کانفرنس میں خطے میں اوباما کی طویل مدت کے لیےعسکری مداخلت کی پالیسی کا ذ کر کیا گیا۔۔۔ اورامریکی مداخلت کی مدد کے لیے بین الاقوامی اتحاد قائم کرنے کی جانب اقدامات کا بھی اشارہ دیا گیا۔۔۔ یہ سب اقدامات خطے ہی کے بعض سیاسی اور عسکری افراد کی جانب سے اپنے آپ کو بچانے کے لیے امریکہ کو مداخلت کی دعوت دینے کے بعد سامنے آئے! امریکہ نے بھی عملاً عراق میں عسکری مداخلت شروع کر دی۔۔۔شامی اتحادی کونسل نے 16 اگست 2014 کوامریکہ سے التجا ءکی کہ وہ عراق کی طرز پر شام میں بھی مداخلت کرے اور اس کے سامنے آہ و زاری کرتے ہوئے کہا کہ یہ دوہرا معیار کیوں، کہ امریکہ عراق میں تو مداخلت کرتا ہے اور شام میں نہیں !
عراق اور افغانستان پر وحشیانہ حملوں اور پاکستان اور یمن میں ڈرون حملوں کے بعد خطے کے لوگوں اور مسلمانوں نے امریکہ کو مسترد کر دیا تھا۔۔۔ اب کچھ لوگ پھر اسی سے خیر کی امید کر کے خوشی خوشی عسکری مداخلت کے لیے اس کے سامنے ہاتھ جوڑ رہے ہیں! یہ شر انگیزی کی انتہا ہے۔ یہ آ بیل مجھے مار ہے! یہ ایسا ہی ہے کہ کسی شخص پر سانپ حملہ کرے اور وہ اُس کو ہزار بار خوش آمدید کہے اور خود اس کو اپنے گھر میں داخل ہونے دے تاکہ وہ سانپ اُس کو، اُس کے بچوں کو اور تمام گھر والوں کو ڈس کر قتل کردے! ایسا لگتا ہے کہ امریکی آگ سے چنگاری مانگنے والوں کی آنکھوں پر پردہ پڑا ہواہے، ان کے کانوں پر مہر لگا دی گئی ہے اور یہ آنکھوں کے اندھے ہیں!
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کس چیز نے حالات کو اس قدر ناگفتہ بہ صورت حال تک پہنچا دیا ؟ آخر امریکہ اس کے لیے کیوں تیار ہوا کہ منصوبے اور سازشیں بنا کر مداخلت کا ارادہ کرے۔۔۔کس چیز نے خطے کے بعض لوگوں کی جانب سے یہ قدم اٹھوایا کہ وہ بغیر کسی شرم و حیا کے دن دیہاڑے یہ مطالبہ کر رہے ہیں ؟ اس ساری صورت حال پر غور کرنے والا یہ دیکھ سکتا ہے کہ شام اور عراق میں انقلاب کے لیے کھڑی ہو نے والی تحریکیں آپس میں خون خرابے پر اتر آئیں جس سے امریکہ نے فائدہ اٹھایا۔۔۔شروع میں یہ تحریکیں ظالم اور جابر حکمرانوں کو برطرف کر نے کے لیے بر پا ہوئی تھیں، پھر یہ راستے سے ہٹ گئیں، سوائے ان کے کہ جن پر اللہ کا رحم وکرم رہا، ان میں سے اکثر استعماری کفار سے لڑنے یا ظالم حکومتوں کو ہٹانے کی بجائے آپس میں ایک دوسرے کا خون بہانے لگے! اس سب کے باوجود بھی اِن تنظیموں نے اپنے آپ سے یہ سوال نہیں کیا کہ آخر کیوں ہم حکومتوں کے ہاتھوں سے نکلے ہوئے علاقوں میں آپس ہی میں لڑرہے ہیں؟ آخر یہ لڑائی اِن آزاد علاقوں میں ہی ایک دوسرے کے خلاف کیوں ہو رہی ہے اور آخر ہم باقی علاقوں کو کیوں ان ظالم حکومتوں سے آزاد نہیں کرارہے؟!
اے مسلمانو! حزب التحریرمیں ہمارا موقف یہ ہے کہ ہم تنظیمِ داعش (I.S.I.S)، دوسری مسلح اسلامی تحریکوں اور قبائل کو آپس کی لڑائی روکنے اور باہم صلح کرنے کی دعوت دیتے ہیں اور ان سب سے کہتے ہیں کہ ظالموں کی طرف مائل مت ہو ورنہ آگ تمہیں چھو لے گی۔۔۔ہم مسلمانوں کے مفاد میں ان سے مخاطب ہیں، یہ مناظر ہمارے دلوں کو چیر کر رکھ دیتے ہیں کہ جب ہم تنظیمِ داعش (I.S.I.S) اور دوسری اسلامی جماعتوں کو ایک دوسرے کی گردنیں کاٹتے ہوئے، دونوں جانب سے تکبیریں بلند کر تے ہوئے اور ساتھ ہی ایک دوسرے کو ذلیل کرتے ہوئے دیکھتے ہیں! ہم انتہائی رنج و الم کی حالت میں ان سے مخاطب ہیں اورہم آرزو اور امید کے سا تھ ان سے مخاطب ہیں:
اولاً: تنظیمِ داعش (I.S.I.S) سے کہ اللہ سے ڈرو اور مسلمانوں کو قتل مت کرو۔ اللہ کے نزدیک مسلمان کا خون انتہائی عظیم ہے اور خلافت کے ناحق اور جھوٹے اعلان سے رجوع کرو، خلافت قائم کرنے کا طریقہ مجہول نہیں بلکہ معلوم ہے۔ رسول اللہﷺ نے اپنی سیرت طیبہ میں ریاست قائم کرنے کے طریقے کو واضح انداز سے بیان کیا ہے اور وہ طریقہ یہ ہے کہ کسی ایسے ملک میں جس کے اندر ریاست کے تمام لوازمات موجود ہوں، اہل قوت سے نصرہ طلب کرنا اور پھر اس ملک کے باشندوں کی جانب سے برضا و رغبت بیعت حاصل کرنا۔۔۔تنظیمِ داعش نے شریعت کے طریقے کی کوئی پابندی نہیں کی اور جو بھی کام شرع کو پس پشت ڈال کر کیا جائے گا اس میں تنازعات اور فتنے پیدا ہوں گےاور ان کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ تنظیمِ داعش اور دوسری عسکری تنظیموں میں خون خرابہ ہو گیا، ان کے تعلقات خون آلود ہو گئے، حالات یہاں تک پہنچ گئے ہیں کہ تنظیمِ داعش جس علاقے میں پہنچتی ہے لوگ اس کے سائے میں امن اور خوشی محسوس کر نے کی بجائے وہاں سے گھر بار چھوڑ کر بھاگ جاتے ہیں۔۔۔اس تنظیم کو چاہیے کہ اپنی غلطیوں کا ازالہ کرے اور غلطی سے رجوع کرنا فضیلت والی بات ہے۔
دوئم: ہم اُن تحریکوں سے مخاطب ہیں، جو امریکہ، مغرب اور ان کے ایجنٹوں اور بغل بچوں سے مدد مانگ رہے ہیں، کہ استعماری کفار سے مدد مانگنا تمہاری غلطی اور بصارت اور بصیرت سے محروم ہو نے کا ثبوت ہے۔امریکہ اور مغرب کیونکر ان ایجنٹوں کو برطرف کر نے میں تمہاری مدد کریں گے جن کو انہوں نے خود اس منصب پر بِٹھا یا ہے؟ ہاں وہ صرف اس صورت میں ایسا کریں گے اگر تم ان سے بھی بڑے ایجنٹ بن کر ان کی کمی کو پورا کرو۔ ہر عقل والا شخص جانتا ہے کہ ان سے مدد مانگنا سراب کے پیچھے بھاگنا ہے تو کیا تم میں عقل والے لوگ نہیں؟
سوئم: قبائل سے اور صاحب مروت مردوں اور اسلامی جذبات کے حاملین سے خطاب کرتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ لوگ تمہاری قدر اور احترام کرتے ہیں، تم آپس میں لڑنے والی ان مسلمان تنظیموں میں سے کسی ایک کی طرف داری مت کرو کیونکہ یہ استعماری کفار سے تو لڑہی نہیں رہے۔ اگرچہ انہوں نے سرکش حکومتوں کو برطرف کر نے کے لیے ان کے خلاف خروج کا اعلان کیا تھا لیکن یہ ان حکومتوں کے خلاف اکھٹے نہیں ہو رہے بلکہ سازش کے تحت ایک دوسرے کو قتل کر رہے ہیں۔اس لیے آہنی ہاتھوں سے ان کو پکڑو اور ان کو ہدایت کی طرف لوٹاؤ تاکہ ان کا اسلامی تشخص پھر بحال ہو اور یہ سب ایک ہو کر خلافت راشدہ کے سائے میں آئیں جس کے سائے میں لوگ خوف نہیں امن محسوس کریں گے۔تقسیم، بندر بانٹ اور علاقائیت کے بت کو پاش پاش کردو۔۔۔
چہارم: اوران لوگوں سے جو اس آیت سے مطابقت رکھنے والے لوگوں میں سے ہیں: ﴿اِلاّ مَنْ رَحِمَ رَبُّکَ﴾ "سوائے ان کے کہ جن پر تمہارے رب نے رحم فرمایا" (ہود:119)۔ جنہوں نے اللہ کے ساتھ اپنے عہد کو نبھا یا ہے اورخلافت راشدہ کے قیام کے لیے اللہ اور اس کے رسولﷺ کی مدد کا عہد کر رکھا ہے۔۔۔جنہوں نے دوسری اسلامی تحریکوں سے دست وگریبان ہو نے سے اپنے آپ کو بچا یا، اور وہ جس مقصد کے لیے نکلے تھے اس کے حصول کی جدو جہد میں مصروف ہیں۔۔۔تم جس حق پر ہو اس پر ثابت قدم رہو، کسی کا یہ کہنا تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا کہ تمہاری جمعیت ان تنظیموں سے کم ہے جو ایک دوسرے کا خون بہارہی ہیں کیونکہ اللہ کے ہاں چھوٹی سچائی کا وزن بڑی برائی سے زیادہ ہے اور اچھا انجام متقین کے لیے ہے ﴿وَنُرِيدُ أَنْ نَمُنَّ عَلَى الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا فِي الْأَرْضِ وَنَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً وَنَجْعَلَهُمُ الْوَارِثِينَ﴾ "ہمارا ارادہ ہے کہ ان لوگوں پر احسان کریں جن کو زمین میں ستایا گیا ہے اور ہم ان کو راہنما اور روئے زمین کا وارث بنا نا چا ہتے ہیں" (القصص:5)۔
اے مسلمانو! حزب التحریر ساٹھ سال سے زیادہ عرصے سے اِس حق پر ثابت قدم ہے جس کی طرف وہ دعوت دیتی ہے۔ حزب روئے زمین پر اسلام کی حکمرانی قائم کرنے کے لیے رسول اللہﷺ کے طریقہ کار پر کاربند ہے اور اس سے بال برابر بھی نہیں ہٹتی، حالانکہ بے سرو پا باتیں بھی کی گئیں اور یہ پرو پیگنڈا بھی کیا گیا کہ طلبِ نصرہ ایک لمبا راستہ ہے اور اس کی بجائے حکمرانی کو لوگوں پر بزورِ قوت مسلط کر نے کا طریقہ زیادہ قریب اور مختصر ہے لیکن جن لوگوں نے یہ باتیں کیں وہ یہ بات نہیں سمجھ سکے کہ مسئلہ کسی بھی طرح اقتدار پر قابض ہونے کا نہیں اور نہ ہی اپنی مرضی سے کوئی سا بھی راستہ اختیار کر نے کا ہے بلکہ مسئلہ خلافت علٰی منہاج ِنبوت کا ہے اور اس کا طریقہ وہ ہے جس کو رسول اللہﷺ نے اختیار کیا اور اللہ سبحانہُ العزیز الحکیم کی نازل کردہ وحی کے ذریعے واضح کر دیا۔۔۔ اس کے علاوہ کوئی اور طریقہ اگر اقتدار تک جلدی پہنچا بھی دےتو ایسا اقتدار بیمار اور دردناک ہو گا جس سے اللہ، اس کے رسولﷺ اور مومنین راضی نہیں ہوں گے۔۔۔اس لیے خلافت کسی خالی خولی نعرے کا نام نہیں جس کا زمین پر کوئی وجود تک نہ ہو۔۔۔ بلکہ خلافت امن اور اطمینان کا نام ہے۔ لوگ اس سے بھاگیں گے نہیں بلکہ اس کی طرف دنیا بھر سے ہجرت کریں گے۔ اس کے سائے میں امن اور عافیت سے رہیں گےاور اس کے خوف اور ظلم سے فرار نہیں ہوں گے۔۔۔خلافت میں لوگوں کی جان مال عزت و آبرو اور گھربار محفوظ ہوں گے، خلافت میں خون نہیں بہا یا جائے گا، عزتیں پامال نہیں ہوں گی، گھر نہیں گرائے جائیں گے، لوگوں کے مال پر دست درازی نہیں کی جائے گی۔۔۔ خلافت خیر کو صرف مسلم علاقوں میں ہی نہیں پھیلائے گی بلکہ اپنی تہذیب کو چار دانگ عالم تک پہنچائے گی، خلافت میں مسلم اور غیر مسلم دونوں امن سے رہیں گے اور ہر کوئی عدل اور اطمینان سے اپنا حق لے گا۔
بے شک حزب التحریر ہی وہ قائد ہے جو اپنے لوگوں سے جھوٹ نہیں بولتی، جو کہ تم ہی میں سے ہے اور تمہارے ساتھ ہے اور اس پکار کے ساتھ تمہاری طرف متوجہ ہے اور ہر اس دل والے اور عقل والے کو پکار تی ہے جو سننے اور دیکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے کہ وہ اپنی بھر پور کوشش کرے خواہ یہ کوشش کسی چھوٹے سے عمل کی صورت میں ہی کیوں نہ ہو، وہ مسلمانوں کے درمیان اِس خونریزی کو روکے جو خونریزی تنظیمِ داعش اور دوسرے گروپوں کے درمیان یا قبائل کے ساتھ ہو رہی ہے۔۔۔ممکن ہے کوئی ایسا کرنے میں کامیاب ہوجائے۔۔۔اور مسلمان ایک دوسرے کا خون بہانے سے باز آجائیں۔۔۔حز ب پکارتی ہے کہ تم عسکری اتحاد کی جانب سے اس مداخلت، جو امریکہ کی قیادت میں ہونے جا رہی ہے، کے خلاف شانہ بشانہ، صف بستہ کھڑے ہوجاؤ جس سازش کی قیادت امریکہ کر رہا ہے، تاکہ اس اتحاد کا مقابلہ مقتل میں یکجا ہو کر کیا جاسکے اور اس کے شر سے بچا جاسکے۔۔۔ یہ پکار اللہ کے اذن سے پرخلوص اور سچی ہے، ہم اس کے ذریعے ہر اس شخص سے مخاطب ہیں جس کے پاس دل ہے یا وہ سن کر گواہی دے سکتا ہے، جس کا اسلام اور مسلمانوں کی مدد میں موثر کردار ہو گا اور جو کافروں کے مکر کو ناکام بنا دے گا۔۔۔ جولوگ سنتے ہی نہیں اور دیکھتے ہی نہیں ان کے بارے میں القوی العزیز نے ہمیں بتا دیا ہے ﴿إِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِنْدَ اللَّهِ الصُّمُّ الْبُكْمُ الَّذِينَ لَا يَعْقِلُونَ﴾ "بے شک اللہ کے نزدیک وہ لوگ بدترین جانور ہیں، کہ جو گونگے بہرے ہیں اور وہ عقل بھی نہیں رکھتے" (الانفال:22)۔

Read more...

سوال کا جواب: عراق کی سیاسی صورت حال میں پیش رفت

سوال :
حالیہ دنوں میں ذرائع ابلاغ میں یہ خبر گردش کرتی رہی کہ امریکی جہازوں نے عراق کے شمال میں الدولۃ تنظیم کے بعض ٹھکانوں پر فضائی حملے کیے ہیں ۔۔۔اوبامہ اور بعض امریکی عہدہ داروں کے بیانات بھی سامنے آئے کہ یہ اقدام انسانی بنیادوں اور نسل کشی کے واقعات ہونے کے خوف سے اٹھا یا گیا، حالانکہ شام میں اس سے زیادہ شدید اور سنگدلانہ خونریزی کے واقعات رونما ہوئے مگر امریکہ نے مداخلت نہیں کی بلکہ عراق ہی میں الانبار اور الفلوجہ میں زبردست قتل و غارت کی گئی اور امریکہ نے کوئی مداخلت نہیں کی جس کا یہ مطلب ہے کہ عراق کے شمال میں امریکی ہوئی جہازوں کے بمباری کا حقیقی سبب انسانی محرکات نہیں کیونکہ واقعات کے تسلسل کو مدنظر رکھنے سے یہ سمجھا جاسکتا ہے۔۔۔اب سوال یہ ہے کہ : اگر یہ بات درست ہے اور حملوں کا سبب یہ نہیں ۔۔۔تو مجھے امید ہے کہ اگر ممکن ہو سکے حالیہ واقعات کے بارے میں اپنے سیاسی تجزئیے کے مطابق حقیقی سبب کو بیان کریں گے اور اللہ آپ کو بہترین جزا دے۔
جواب :
1۔ جی ہاں آپ نے جو کہا ہے کہ انسانی محرکات اس کا سبب نہیں درست ہے۔ امریکی اقدامات اور اس کی مداخلت کے واقعات کو پیش نظر رکھنے والا یہ دیکھ سکتا ہے کہ انسانی بنیادوں کا اس سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں، عراق اور افغانستان میں اس کے جرائم بھی اس کے منہ بولتا ثبوت ہیں۔۔۔ابو غریب اور گونتاناموبے کے عقوبت خانوں میں تشدد بھی اس پر شاہد ہے۔۔۔میانمار میں قتل وغارت اور اجتماعی نسل کشی، ان اندوہناک واقعات کے بعد بھی جن کا مسلمانوں نے سامنا کیا امریکہ نے کوئی ایسا قدم نہیں اٹھا یا جو میانمار حکومت کے لیے تکلیف دہ تو دور کی بات اس کو پریشان کر سکے۔۔۔بلکہ اس کے بر عکس اس کے ساتھ اقتصادی تعلقات کو بڑھا یا۔۔۔اس موضوع پر امریکی جرائم کا احاطہ کرنے کے لیے ہزاروں صفحات درکار ہیں۔
2۔ امریکہ 2003 میں عراق پر قبضہ کرنے کے بعد سے ہی عراق کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے لیے تیار ی کررہا ہے، چنانچہ پال بریمر نے فرقہ وارانہ اور مسلکی بنیاد وں پر جو دستور وضع کیا جس میں ہر گروہ اور مسلک کے لیے حصہ مقرر کیا گیا ۔۔۔اس کو جمہوریہ کے سربراہ، پارلیمنٹ کے سربراہ اور وزیر اعظم کے لیے الگ الگ کیا، چونکہ وزیر اعظم ہی حکمرانی کے اختیارات کا مالک ہے بریمر نے اس کو ایک مذہبی منصب کا روپ دیا اس لیے دوسرے عناصر کے لیے یہ اشتعال اور انارکی پھیلانے کے قابل بن گیا۔۔۔اس لیے صورت حال اس قدر بگڑ گئی کہ عراق عملاً منقسم ہو گیا : شمال مشرق میں کرد، مغرب اور شمال میں سنی اور جنوب اور بغداد میں شیعہ ۔۔۔
3۔ لکھا گیا دستور خود کہتا ہے کہ نظام صوبوں کے مابین فیڈریشن پر مبنی ہو گا جس میں صوبوں کے پاس زیادہ تر اختیارات ہوں گے، اسی وجہ سے امریکہ عراق کو تین ٹکڑوں میں بانٹنے کی راہ ہموار کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ ہرٹکڑا اپنے اندرونی مسائل خود حل کرے گا بلکہ اپنے اندرونی تنازعات کو دوسرے ٹکڑے میں داخل نہیں کرے گا۔ امریکہ اس راستے پر گامزن رہا اور 2011 میں عسکری لحاظ سے عراق سے نکلنے کے بعد ایک ایسے سکیورٹی معاہدے کو عملی جامہ پہنایا جس کے ذریعے عراق میں حکومت کو منظم کیا مگر اس نے امن اس طریقے سے قائم کیا کہ عراق کو مختلف علاقوں میں تقسیم کیا لیکن انہیں ایک کمزور جوڑ کے ذریعے متحد رکھا تا کہ مستقبل میں عراق کی حتمی تقسیم کی پالیسی کا پیش خیمہ ثابت ہو اگر یہ ممکن ہو۔ لہٰذا وہ عراق کی سکیورٹی کو اس زاویے سے دیکھتا ہے یعنی کہ اگر ایک خطہ دوسرے خطے میں مداخلت کرے تو یہ سکیورٹی کا مسئلہ ہے لیکن اگر ایک خطے کے اند سکیورٹی مسائل پیدا ہوں لیکن وہ دوسرے خطے کی سکیورٹی کو خراب نہ کرے تو کوئی مسئلہ نہیں۔
4۔ اس بنا پر اگر سنیوں کے مسائل انہی کے علاقے تک محدود ہوں، کردوں کے مسائل انہی کے علاقے تک محدود ہوں یا شیعوں کے مسائل ان کے علاقے تک محصور ہوں تو اس کو امن و امان کے حوالے سے کوئی ایسی تشویش نہیں ہو گی جو اس کو مداخلت پر اکسائے اور جب تک بغداد تینوں خطوں کے لیے راہ گزر رہے اگرچہ وہ بغداد کے ساتھ ایک کمزور رشتے سے جڑے ہوں ۔۔۔اسی لیے جوں ہی کوئی ایک ٹکڑا دوسرے میں دست درازی کر تا ہے تو امریکہ اس کو امن میں خلل قرار دے کر مذکورہ سکیورٹی معاہدے کو جواز بنا کر مداخلت کرتا ہے۔ اسی طرح اگر کوئی ٹکڑا مرکز "بغداد" کی طرف بڑھنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ اس کو امن وامان میں خلل قرار دے کر مداخلت کرتا ہے۔۔۔عراق کے ساتھ اس قسم کے سکیورٹی معاہدے کی تکمیل کے لیے امریکہ اس وقت سے پیش رفت کررہا ہے جب صرف کردوں کے لیے مخصوص ٹکرا تھا۔۔۔لیکن پھر اس کے بعد حالیہ سالوں میں باقی ٹکڑوں کے لیے بھی صورت حال کو عملاً تیار کیا گیا: سنیوں کا علاقہ، شیعوں کا علاقہ۔۔۔اس مقصد کے لیے شیعہ اور سنی کے درمیان عداوت کا بیچ بونے کے لیے خباثت پر مبنی منصوبہ بنایا جس سے نفرت پروان چڑھے۔ امریکہ کا پروردہ نوری المالکی خاص طور پر فرقہ پرست تھا جس نے دوسروں کو بھی مشتعل کیا جس سے تقسیم کے لیے ماحول سازگار ہو گیا اور وہ اپنی سازش میں کامیاب ہو گیا۔ پھر المالکی نے سنیوں اور کردوں کے درمیان بھی عداوت کا بیچ بویا یہاں تک کہ عراق کی تقسیم بہت سارے لوگوں کا مطالبہ بن گیا۔۔۔المالکی اس عداوت کو پروان چڑھانے اور علاقائیت اور تقسیم کے لیے راہ ہموار کرنے میں کامیاب ہو گیا یہی امریکہ کی جانب سے دیا جانے والا فرض منصبی تھا جس کو پورا کرنے کے لیے اس کو وزیر اعظم بنا یا گیا تھا۔۔۔آج یہ مقصد پورا ہو گیا اور المالکی عراق میں لوگوں کے درمیان عداوت کا ماحول پیدا کر نے میں کا میاب ہو گیا اور اس کا کردار بھی اختتام کو پہنچ گیا۔ اب ایسی حکومت کی ضرورت ہے جو حالات کو کنٹرول کرے، اس عداوت کی فضاء سے فائدہ اٹھائے تاکہ ان ٹکڑوں اور علاقوں کو اس طرح منظم کرے کہ یہ اپنی اپنی جگہ خود مختار اور مرکز کے ساتھ برائے نام مربوط ہوں۔ وہ شکل اختیار کریں جس کو متحدہ ریاست کہا جاتا ہے۔۔۔یوں مالکی کا کردار ختم ہو گیا اور اس کے آقا امریکہ نے بھی اس کو ذلیل کر کے ایک طرف پٹخ دیا، حتی کہ اس کو گود لینے والے ایران نے بھی اس کو نظر انداز کر دیا۔ ایسا لگ رہا ہے کہ امریکہ کی خدمت اور اس کے مفادات کے لیے یہ سب کچھ کرنے کے بعد اور ایران کی خدمت اور اس چاپلوسی کرنے کے بعد دونوں کی جانب سے اس ذلت آمیز طریقے سے دھتکارنے پر المالکی سیخ پا اور غصے میں ہے ۔۔۔اگر یہ شخص عقل والا ہو تا تو اس کوکوئی تعجب نہ ہوتا کیونکہ تمام ایجنٹوں کایہی حال ہوتا ہے کہ جب ان کا کام پورا ہو جاتا ہے تو ان کوسڑک کے کسی کنارے پھینک دیا جاتا ہے، کچھ کو ایسی سڑک پر پھینک دیتا ہے جس میں پتھر نہیں اور کچھ کوایسی سڑک پر جس پر پتھر ہیں جو ان کے جسموں کو لہو لہان کر دیتے ہیں۔۔۔!
5۔ اس وجہ سے امریکہ نے سنی علاقوں میں رونما ہو نے والے خونریزی کے واقعات کو جو قبائل، الدولۃ تنظیم، بعثیوں اور نقشبندیوں کے درمیان ہوئے، اہمیت نہیں دی۔قتل و غارت کے تمام واقعات کو امن وامان کا مسئلہ بھی نہیں سمجھا کیونکہ یہ ایک ہی ٹکڑے کے اندر پیش آرہے تھے۔۔۔اسی طرح 10 جون 2014 کو الدولۃ تنظیم کے موصل، تکریت یا کسی اور علاقے میں داخل ہو نے کو امن میں خلل قرار نہیں دیا اور نہ ہی اسے اجتماعی نسل کشی قرار دیا اور نہ اس کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی سے تعبیر کیا۔۔۔کیونکہ یہ قتل غارت ایک ہی خطے کے اندر تھی ۔۔۔لیکن اس نے الدولۃ تنظیم اور دوسرے سنی گروپوں کے بغداد کے قریب پہنچنے کو خطرناک اور امن وامان کے لیے تشویشناک قرار دیا اور فوراً سکیورٹی ماہرین روانہ کر دیے جیسا کہ بساکی نے 16 جون 2014 کو ان کے بغداد سفارت خانے روانگی کی تو ثیق کر دی۔ بغداد کا سفارت خانہ ہی دنیا بھر میں امریکہ کا سب سے بڑا سفارت خانہ ہے جو سازشوں کا گڑھ ہے جہاں انسانیت کے خلاف جرائم میں خبیث ترین اسالیب استعمال کیے جاتے ہیں۔۔۔پھر 31جون 2014 کو امریکہ نے 300 فوجی مزید روانہ کیے۔ اس کے علاوہ ہیلی کاپٹر اور بغیر پائلٹ کے جہاز بھی بھیج دیے، پینٹاگان نے بغداد ائر پورٹ میں سکیورٹی ماہرین بھی تعینات کر نے کا اعلان کر دیا ۔ پینٹا گان کے ترجمان ایڈمیرل جوکیربی نے کہا کہ 200 فوجی عراق پہنچ گئے ہیں تاکہ عراقی دار الحکومت میں موجود سفارت خانے اور بغداد کے بین الاقوامی ائرپورٹ پر تنصیبات کی حفاظت میں مدد کر سکیں، جبکہ 100 مزید فوجی بغداد روانہ کرنے کا فیصلہ ہو چکا ہے "تاکہ لوجسٹک اور امن کے لیے مدد فراہم کریں"۔۔۔یہ سب ان تنظیموں کو بغداد میں داخل ہو نے سے روکنے کے لیے دھمکی تھی اسی لیے بغداد پر حملے کم ہوئے بلکہ رک گئے۔۔۔حالانکہ اس وقت مالکی اور اس کی فورسز کی عسکری صورت حالت خراب تھی اور یہ تنظیمیں با آسانی بغداد میں داخل ہو سکتی تھیں لیکن انہوں نے امریکہ کی جانب سے دھمکی کے اشاروں کو سنجیدگی سے لیا اور واپس ہو گئیں۔۔۔!
6۔ یو ں عراق میں امریکہ کے مرتب کردہ طریقہ کار سے ہٹ کر کسی واقعے کے رونما ہو نے کو ہی امریکہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دے رہا ہے، ایسا کچھ ہو نا ہی اس کے نزدیک اجتماعی نسل کشی کا خطرہ ہے اور امن و امان میں خلل اور سرخ لکیر کو پار کرنا ہے۔۔۔لیکن اس امریکی سرخ لکیر کو پار کیے بغیر جس قدر بھی قتل و غارت کی جائے اور خون کی ندیاں بہائی جائیں، انسان، درخت اور پتھروں کو بھی تباہ کیا جائے بشرطیکہ اس سے امریکہ کے مفادات پورے ہوتے ہوں اور اس کے منصوبے کے مطابق ہو تو وہ جرم نہیں۔۔۔یہی وجہ ہے کہ الدولۃ تنظیم کا سنی علاقوں سے آگے بڑھ کر کردستان کے قریب پہنچنا امریکہ کے نزدیک امن میں خلل اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور اجتماعی نسل کشی ہے، جیسا کہ اوبامہ نے9 اگست 2014 کو نیویارک ٹائم کو انٹرویو کے دوران عسکری مداخلت اور عراق کے شمال میں فضائی حملوں کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا: "اگر صورت حال منفرد ہو اور اجتماعی نسل کشی کا خطرہ ہو اور کوئی ریاست وہاں ہماری موجود گی کی خواہش بھی رکھتی ہو ۔۔۔ تب ایسا کرنا ہمارے لیے ضروری ہے"۔ یہ بات وہ ایسے وقت میں کر رہا ہے جب شام میں اس سے کئی گنا زیادہ خونریزی ہوئی ہے اور جلا کر راکھ کر دینے والے مائع مواد کے ڈرم گرائے جارہے ہیں ۔۔۔لیکن اس سے اوبامہ نے اجتماعی نسل کشی کا خطرہ محسوس نہیں کیا ! اس لیے شام کے سفاک کی جانب سے قتل و غارت کے خلاف مداخلت نہیں کی۔۔۔لیکن اس نے عراق کے شمال میں خطرے کے کردستان کے علاقے کے قریب ہو نے پر ہی مداخلت کر دی، چنانچہ 8 اگست 2014 کو اپنے خطاب میں مداخلت کا اعلان کردیا۔ اس کے نائب جوبائڈن نے البرازانی کو فون کر کے امریکی حمایت کا یقین دلایا، پھر 9 اگست 2014 کو ہفتے کے دن سے امریکہ نے فضائی حملے شروع کردیئے۔۔۔
7۔ امریکی مداخلت کا بنیادی سبب الدولۃ تنطیم کی جانب سے کر دستان کے علاقے میں حملوں کو روکنا ہے تا کہ امریکی پالیسی کے مطابق عراق کو ایسے تین ٹکڑے بنانے کی راہ ہموار کی جائے جو خود مختار ہوں اور جن کے مرکز سے را بطہ برائے نام ہو اور ایک ٹکڑا دوسرے پر قبضہ نہ کرے۔ وہ عراق کو پہلے کی طرح ایک ریاست باقی رکھنا نہیں چاہتا بلکہ چاہتا ہے کہ اس کو تین مختلف خطے بنا کر بعد میں اپنی پالیسی کے مطابق بالا آخر قانونی طور پر عملاً تقسیم کر دے۔ ساتھ ہی وہ ان ٹکڑوں کے اندر داخلی تنازعات کو امن وامان کے لیے کوئی ایسا مسئلہ نہیں سمجھتا جو اس کے معاہدے کے خلاف ہو جس کی رو سے امریکہ کو مداخلت کی اجازت ہے۔۔۔
یہ ہے مداخلت کا سبب۔ مداخلت کا سبب کوئی انسانی محرک یا اجتماعی نسل کشی کا خوف نہیں۔۔۔سرمایہ دار ریاستیں جن کا سرغنہ امریکہ ہے، کے ہاں کسی انسانی یا اخلاقی عوامل کا کوئی وزن نہیں بلکہ ان کے لیے مسئلہ اپنی سازشوں کو کامیاب کرنا اپنے منصوبوں کی ترویج کرنا خواہ اس کے لیے نسلوں اور فصلوں کو تبا ہ کرنا پڑے۔۔۔یہ ہیں وہ استعماری کفار جو مؤمن کے بارے میں کسی رشتے کا پاس رکھتے ہیں نہ ہی کسی تعلق کا لحاظ ، بلکہ وہ جہاں بھی گئےان کے ہاتھ خون سے رنگے ہو ئے ہیں وہ خود اپنے خلاف گواہ ہیں، جو کچھ وہ کر ہے ہیں ان کے لیے ہلاکت ہے۔
8۔ آخر میں کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ وہ امت مسلمہ جس نے صدیوں تک دنیا کی قیادت کی وہ آج ان سرکش اور ذلیل حکمرانوں کے نیچے ہے جو امت کی گردن پر سوار ہیں جنہوں نے اس کو استعماری کفار اور ان کے ایجنٹوں کا اکھاڑا بنا یا ہوا ہے جہاں وہ اپنی سازشوں اور ریشہ دوانیوں کو عملی جامہ پہنا تے ہیں۔۔۔نوے سال سے بھی زیادہ عرصہ پہلے خلافت کے انہدام پر خاموش رہنے کی وجہ سے اس امت پر مصائب کے پہاڑ ٹوٹے ہیں کیونکہ وہ ڈھال ہی اس کے ہاتھ سے گرگئی جس سے اس کی حفاظت ہو تی تھی اور جو ان کی نگہبانی کرتی تھی ۔۔۔لیکن وہ چیز جس سے یہ مصائب ہلکے ہو جاتے ہیں وہ ہے امت کے اندر بیداری کی پر اثرلہر جس کا ہم مشاہدہ کر رہے ہیں۔آج یہی امت ایک بار پھر قوت اور چستی سے انگڑائی لے رہی ہے۔۔۔اس سے بھی بڑھ کر اللہ کے اذن سے جو چیز غموں کو ہلکا کر دیتی ہے وہ دعوت کے ان پاکبازشہسواروں کا وجود ہے جنہوں نے اپنا دن رات ایک کیا ہوا ہے، جو ایک ایسی متقی اور پاک حزب کی شکل میں جدو جہد کر رہے ہیں جو نبوت کے نقش قدم پر خلافت راشدہ کے قیام کے ذریعے اسلامی زندگی کو واپس لانے کی زبردست کوشش کر رہی ہے ۔ تب ہی یہ امت وہی عزت اور کامرنی حاصل کر لےگی جیسا کہ اس کو پہلے حاصل تھی اور واقعی وہ بہترین امت ثابت ہوگی جس کو لوگوں کو راہ راست پر لانے کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔ اوریہ اللہ کے لیے کوئی مشکل بھی نہیں ۔۔۔ ﴿وَلَتَعْلَمُنَّ نَبَأَهُ بَعْدَ حِينٍ﴾ "اور کچھ ہی عرصے بعد تمہیں اس کی خبر ملے گی"

Read more...

"صرف غزہ ہی نہیں بلکہ پورا فلسطین مسلم افواج کو پکار رہا ہے " کے عنوان سے منعقد کی گئی عالمی میڈیا کانفرنس کا اختتامی بیان جسے حزب التحریر نے 19شوال 1435ھ بمطابق 15 اگست 2014 م کو بیروت - لبنان میں منعقد کیاتھا

حزب التحریر کی یہ کانفرنس "صرف غزہ ہی نہیں بلکہ پورا فلسطین مسلم افواج کو پکار رہا ہے " کے عنوان سے منعقد ہوئی ۔ مصر، اُردن اور ترکی سے تشریف لانے والے حزب التحریر کے میڈیا نمائندگان نے اپنی تقریروں میں اس بات پر زور دیا کہ فلسطین کے حوالے سے امت کی یہ ذمہ داری ہے کہ غزہ بلکہ پورے فلسطین کی آزادی کے لئے افواج کو روانہ کیا جائے۔ انہوں نے فوجیوں اور فوج کے افسران کے رشتہ داروں اور اہل خانہ کو پکارتے ہوئے کہا کہ وہ فوج میں اپنے رشتہ داروں کو اہل غزہ کی مدد اور الاقصیٰ کی آزادی کے لئے تیار کریں اورانہیں امت کے حوالے سے اپنی عسکری ذمہ دار یوں کو نبھانے کا احساس دلائیں، اور یہ کہ وہ امت پر مسلّط حکمرانوں کے بے رحمانہ احکامات ماننے سے انکار کریں.....لبنان میں حزب التحریر کے میڈیا آفس کے صدر نے بھی اپنی تقریر میں فلسطین سے متعلق مذاکرات اور معاہدوں اور ان کے اندر موجود سازشوں پر روشنی ڈالی۔انہوں نے اپنی تقریر میں کہا کہ فلسطین کے مسئلے کو یہ قرار دینا کہ یہ "فلسطینی مسئلہ " ہے دراصل بددیانتی ہے یا پھر اس مسئلے کو ناکامی سے دوچار کرنے کی کوشش ہے۔
غزہ سے ریکارڈشدہ ایک تقریر حاضرین کو سنائی گئی جو فلسطین میں حزب التحریر کے میڈیا آفس نے تیار کی تھی اور اس کی پریزنٹیشن بھی آفس کی طرف سے دی گئی ،جس میں غزہ میں ہونے والی ہلاکتوں، تباہی کو بیان کیا گیا جس کی منصوبہ سازی یہودی وجود کی طرف سے کی گئی تھی ۔ انہوں نے بہادرلوگوں اور افواج سے پکار پکار کر یہ مطالبہ کیا کہ وہ اس مبارک سرزمین کی نصرت وآزادی کے لئے اُٹھ کھڑے ہوں ۔ شام میں حزب التحریر کے میڈیا آفس کی طرف سے بھی ریکارڈ شدہ تقریر نشر کی گئی جس میں بتا یا گیا کہ سیدنا محمد رسول اللہﷺ کے پیرو کار تمام لوگوں سے جدا ایک امت ہے، ان کی جنگ ایک ہے اور ان کا امن بھی ایک ہے اور شام کے لوگ غزہ والوں کے درد میں برابر کے شریک ہیں.....
اسی طرح مرکزی میڈیا آفس کے ڈائریکٹر نے بھی اپنی تقریر میں پڑوسی مسلم ممالک کی افسوسناک صورتحال پر زور دیا، جن کا طرز عمل ہی یہودی ریاست کے تکبر اور غزہ میں مسلمانوں پر ظلم وستم میں اضافے کا جواز بنا ...... اور یہ کہ یہودی مبارک سرزمین کے غاصب ہونے کے علاوہ ایک بد دیانت قوم ہے.... انہوں نے مسلم افواج اور بالخصوص پڑوسی مسلم ممالک کی افواج کو مخاطب کرتے ہوئے مزید کہا:
ہم یہ جانتے ہیں کہ آسمان سے فرشتے نازل ہوکر ہمارے لئے خلافت قائم نہیں کریں گے اورنہ ہی ہماری افواج کی قیادت کریں گے بلکہ اللہ تعالیٰ تب ہی ہماری مدد کے لئے فرشتوں کو بھیجے گا جب ہم سنجیدگی، صدق واخلاص کے ساتھ دنیا میں اسلامی زندگی کے از سر نو آغاز اور خلافت قائم کرنے کے لئے عمل کریں گے، ہماری افواج یہود کے ساتھ قتال اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے دین کی نصرت کے لئے حرکت میں آئیں گی، تب غالب اور طاقتور اللہ فرشتوں کو نازل کردے گا جن کے ذریعے ہماری مدد فرمائی جائے گی گا اور ایسا کبھی نہیں ہوگا کہ وہ ہمارے نائب بن کر ہماری طرف سے لڑیں گے ۔ قرآن کی آیات اس پر شاہد عدل ہیں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں (بَلَى إِنْ تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا وَيَأْتُوكُمْ مِنْ فَوْرِهِمْ هَذَا يُمْدِدْكُمْ رَبُّكُمْ بِخَمْسَةِ آلَافٍ مِنَ الْمَلَائِكَةِ مُسَوِّمِينَ) "ہاں ! بلکہ اگر تم صبر اور تقویٰ اختیار کرو اور وہ لوگ اپنے اسی ریلے میں اچانک تم تک پہنچ جائیں تو تمہارا پروردگار پانچ ہزار فرشتے تمہاری مدد کرنے بھیج دے گا جنہوں نے اپنی پہچان نمایاں کی ہوئی ہوگی" (آل عمران:125)۔
پھر سوال وجواب کا ایک سیشن ہوا جس میں صحافیوں اور میڈیا کے لوگوں کی طرف سے مختلف سوالا ت کئے گئے،جن کا نہایت شفافیت اور گہرائی کے ساتھ جوابات دئے گئے۔
آخر میں بطور خلاصہ کے مندرجہ ذیل تین نکات پر زور دیا گیا جن کو اس کانفرنس نے سفارشات بلکہ ذمہ داریوں کا نام دیا، جن کے لئے اُمت پر کام کرنا واجب ہے۔
1۔مسلم علاقوں کی آزادی، لوگو ں کی حفاظت اور دشمنوں کے ناپاک ہاتھوں کو کاٹنے کے لئے مسلم افواج کا متحرک ہونا فرض ہے۔ اگر افواج حرکت میں نہیں آتیں تو اُمت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ افواج کو ان پر مسلط حکمرانوں کے طوق کو گلے سے اتار پھینکنے کے لئے اُکسائے کیونکہ فوج اور اہل قوت ہی ہیں جو ان حکمرانوں کو کرسئ اقتدار پر بٹھاتے اور ان کے اقتدار کی بقاء کا باعث ہیں اور یہ افواج ہی ہیں جو ان کی رکھوالی کرتی ہیں ۔اس لئے اگر افواج اللہ کا ساتھ دینے کا فیصلہ کریں تو ان حکمرانوں کا زوال اور ان کی تبدیلی ممکن امر ہے جو ان شاء اللہ بالکل بھی مشکل نہیں۔
2۔ تمام وقتی حل اورمسلمانوں کے عزائم کو ناکام بنانے کی تمام کوششوں کو مسترد کرتے ہیں ۔ مثلاً غزہ میں بین الاقوامی فوج یا عالمی مبصرین کی تعیناتی اور فلسطین کی دو ریاستی حل جیسے حتمی قراردادیں یا ان جیسی دیگر سازشیں.....کیونکہ اہل غزہ نے مقامی طور پر تیار کئے گئے اسلحے کے ذریعے وہ کارنامے انجام دئے جن سے دنیا والوں کے دل دہل جاتے ہیں اور یہودی ریاست میں بھونچال آگیا .....تو آپ اندازہ کریں کہ جب پوری مسلم دنیا کی افواج حرکت کریں گی تو کیا غضب ڈھائیں گی۔
3۔ ذلت و خواری اور بے بسی کی دلدل میں پھنسی ہوئی اس اُمت کو حقیقی آزادی صرف ریاست خلافت راشدہ علی منہاج النبوۃ کے دوبارہ قیام کے ذریعے حاصل ہوگی جو اللہ کی شریعت پر فیصلہ کرنے والے ایک خلیفہ کی بیعت سے وجود پاتی ہے تاکہ اُمت کی بہترین حفاظت وتربیت اوردیکھ بھال کرسکے ۔ وہ خلیفہ جو مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کا خاتمہ کردے گا اور صرف غزہ ہی نہیں بلکہ پورے فلسطین اور تمام مسلم سرزمینوں کو کفار کے قبضہ سے آزاد کرائے گا.....وہ ریاست خلافت جو امت مسلمہ کو اس کی عزت و شرف اور قو ت وطاقت کو واپس لوٹا دے گا اور ایک دفعہ پھر امت عالمی حالات کو نیا رخ دینے کے لئے دنیا کی قیادت کرے گی اور انسانیت کو اس کی خیر وبھلائی کے راستے پر گامزن کردے گی ۔
تو حزب التحریر آپ کو اسی کی دعوت دیتی ہے.....

عثمان بخاش
ڈائریکٹرمرکزی میڈیاآفس
حزب التحریر

Read more...

حزب ِ ایران کاقلمون میں پہنچنے والے نقصانات پر پردہ ڈالنے کے لئے عرسال میں شامی انقلابی مسلمانوں سے وحشیانہ انتقام

شام میں حزب ِ ایران نے بڑے بڑے نقصانات اٹھانے، شام کے بابرکت انقلاب میں اپنے وجود کو مسلمانوں کے خون سے رنگین کردینے اور قلمون میں گزشتہ دنوں شکست سے دوچار ہونے کی وجہ سے اسے اپنے حامیوں کے سامنے انتہائی مشکل صورتحال کا سامنا کرنا پڑا۔ اپنی اس شرمدگی اور خفت کو چھپانے کے لئے حزب ایران نے عرسال کے گاؤں میں جو شام کی سرحد کے ساتھ لگتا ہے، مسلمانوں کا بدترین قتل عام کیا اور اپنے جرائم میں ایک اور جرم کا اضافہ کیا۔ عرسال کا گاؤں بے گھر ہونے والوں کے لئے ایک پناہ گاہ تھا جو بیرل بموں کی وجہ سے اپنے گھروں کو چھوڑنے پر مجبور ہوئے کیونکہ یہ شام لبنان سرحد کے قریب ہی واقع ہے ۔ اب یہ بات مکمل طور پرواضح ہوچکی ہے کہ وہ گروہ جو امریکہ کے مخالف تصور کیے جاتے تھے جیسا کہ حزب ایران، انہوں نے مسلمانوں کے خلاف جو جرائم سرانجام دیے ہیں وہ کسی بھی طرح ان کے آقاؤں کے جرائم سے کم نہیں جو امریکہ کی ایجنٹ ہیں جیسا کہ بشار اور ایران۔ یہ حکمران کسی بھی طرح بچوں، بوڑھوں اور عورتوں کو قتل کرنے میں یہودی وجود سےپیچھے نہیں ہیں ۔ اور یہ سب کچھ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر کیا جارہا ہے ۔ حزب ایران نے لبنانی فوج کو عرسال میں ہمارے مسلمان بھائیوں کے خلاف جنگ میں پورے طریقے سے پھنسا دیا ہے ۔
اے شام کے مسلمانو! یہ واضح ہوچکا ہے کہ اس حکومت کو گرا دینے کے لئے صرف تمہارے نکل کھڑے ہونے اور اللہ کی شریعت نافذ کرنے کی صدا دینے سے مشرق ومغرب تمہارے خلاف ایک ہوگئے اور امریکی قیادت تلے کافر ممالک نے تم پر ایک ہی کمان سے وار کیا اوراس کی وجہ ایک ہی ہے جس کو اللہ نے اپنی معزز کتاب میں ذکر کیا ہے (وَمَا نَقَمُوا مِنْهُمْ إِلَّا أَنْ يُؤْمِنُوا بِاللَّهِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ) "اور وہ ایمان والوں کو کسی اور بات کی نہیں، صرف اس بات کی سزاد ے رہے تھے کہ وہ اس اللہ پر ایمان لے آئے تھے جو بڑے اقتدار والا، بہت قابل تعریف ہے" (البروج:8)۔
لہٰذا موجودہ مسئلہ ان کے لئے موت و حیات کا مسئلہ ہے اور آپ کے لئے بھی یہ ایسا ہی ہونا چاہئے۔ یہ لوگ اللہ کی حکمرانی کے قیام کے نتیجے میں اپنی بادشاہت، تہذیب اور مفادات کے شدید نقصان کو خاموشی سےختم ہوتے نہیں دیکھیں گے اور یہ وہ حکمرانی ہو گی جو اسلام کو معیشت، عدالت اور معاشرتی زندگی کا مکمل حصہ بنا دے گی۔ ہمیں قتل، تشدد، محاصروں اور بھوک سے پیدا ہونے والے شدید مسائل کے باوجود لازمی اسی راہ پر چلتے رہنا ہے جس پر رسول اللہﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مضبوطی کے ساتھ چلتے رہے۔ آپﷺ نے قریش کی طرف سے مختلف قسم کی پیشکشیں پیش کیے جانے پر فرمایا تھا ((والله لو وضعوا الشمس في يميني والقمر في يساري على أن أترك هذا الأمر ما تركته حتى يظهره الله أو أهلك دونه)) "اللہ کی قسم اگر یہ لوگ میرے دائیں ہاتھ میں سورج اور بائیں میں چاند رکھ دیں، کہ میں اس کام سے دستبردار ہو جاؤں تو میں نہیں چھوڑ سکتا جب تک یا تو اللہ اسے غالب کردے یا میں اسی راہ میں فناہ ہوجاؤں"۔ اس سے یہ واضح ہے کہ آپﷺ کی نظر میں یہ مسئلہ زندگی وموت کا مسئلہ تھا کہ وہ اسلام کو غلبہ دلا دیں یا پھر اللہ کے راستے میں موت آجائے ۔ سو تم صبر سے کام لو اور ڈٹے رہو، یہاں تک کہ اللہ کا فیصلہ آجائے اور زمین میں خلافت واستحکام عطا کرنے کا وعدہ پورا ہوجائے اور نبوت کے نقش قدم پر خلافت کے لوٹ آنے کی رسول کریمﷺ کی بشارت پوری ہوجائے، تب ظالموں کو اپنے انجام کا پتہ لگ جائے گا۔
اے دنیابھر کے مسلمانو! قتل وغارت گری ، تعاقب، شہر بدری، بھوک اور منفی پروپیگنڈا کی جس صورتحال کا ہم سامنا کررہے ہیں، ان سب کا ایک ہی سبب ہے کہ اسلام کا اقتدار امت کی زندگی میں مفقود ہے یعنی آج وہ امام ہمارے درمیان موجود نہیں جس کی قیادت میں جنگ کی جاتی ہے اور وہی تحفظ فراہم کرتا ہے۔ شام کی سرزمین میں ہمارے بھائیوں کے ساتھ جو ہورہا ہے، اللہ کے سامنے اس کا جواب ہمیں دینا پڑے گا ۔ ہم نے ان کی مدد کرنے پر جو خاموشی اختیار کی ہوئی ہے اور جس بزدلی کا مظاہر کیا ہے، اس پر ہماری باز پرس ہوگی۔ ہم سے اس بارے میں بھی پوچھا جائے گا کہ مغرب کی طرف سے اپنے مفادات کی رکھوالی کروانے کے لئے مسلط کردہ حکمرانوں کو ہٹا کر اس ظلم اور بدحالی کو ختم کرنے کے لئے کیا کام کیا، وہ حکمران جن کی جنگ اللہ اور اس کے رسولﷺ کے ساتھ ہے۔ ہم سے اس بارے میں سوال ہوگا کہ اس خلیفہ کو مقرر کرنے کے لئے کیا عمل کیا جس کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ مسلمانوں کی نصرت اور ان کی حفاظت کے لئے لشکر روانہ کرے اور ان کو ایذا پہنچانے والوں سے انتقام لے۔
(لِلَّهِ الْأَمْرُ مِنْ قَبْلُ وَمِنْ بَعْدُ وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ * بِنَصْرِ اللَّهِ يَنْصُرُ مَنْ يَشَاءُ وَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ)
"اس سے پہلے اور اس کے بعد بھی اختیار اللہ ہی کا ہے۔اس روز مسلمان شادمان ہوں گے اللہ کی مدد سے۔ وہ جس کی چاہتا ہے مدد کرتا ہے۔ اصل غالب اور مہربان وہی ہے۔ "(الروم:4-5)۔
احمد عبدالوہاب
ولایہ شام میں حزب التحریر کے میڈیا آفس کے سربراہ

Read more...

خبر اور تبصرہ پاکستان میں انقلاب کبھی بھی جمہوریت یا آمریت کے ذریعے نہیں بلکہ صرف خلافت کے ذریعے ہی آسکتا ہے

خبر: 14اگست 2014 کو دو اپوزیشن کی جماعتوں نے پاکستان کے آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے دارلحکومت لاہور سے آزادی اور انقلاب مارچ کا آغاز کیا ۔ ان مارچوں کا ہدف پاکستان کا دارلحکومت اسلام آباد تھا۔ اپوزیشن کی ان دونوں جماعتوں نے نواز شریف اور ان کے بھائی شہباز شریف کے استعفے کا مطالبہ کیا۔ ان جماعتوں نے اپنے حامیوں کو یہ یقین دلایا تھا کہ موجودہ حکمرانوں کے دن گنے جاچکے ہیں جس کے بعد ایک نیا پاکستان وجود میں آئے گا۔
تبصرہ: ریاست پاکستان اسلام کے نام پر قائم کی گئی تھی۔ برصغیر کے مسلمانوں سے یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ وہ اس نئی مملکت میں اسلام کے زیر سایہ زندگی بسر کرسکیں گے۔ لیکن پاکستان کے قیام کے بعد سے اس کے امور و معاملات برطانوی راج کی جانب سے چھوڑے گئے کفریہ نظام کے مطابق چلائے جارہے ہیں۔ یکے بعد دیگرے آنے والے حکمران پاکستان کے مسلمانوں کے اس خواب کو پورا کرنے میں ناکام رہے کہ زندگی کے ہر میدان میں اسلام کا نفاذ ہو۔ جب جمہوری حکمران ناکام ہوئے تو فوجی آمروں نے مداخلت کی اور عوام کو یقین دلایا کہ وہ تبدیلی لائے گی جس کا ان کو ایک عرصے سے انتظار ہے۔ لیکن فوجی آمر بھی اسی رستے پر چلتے رہے جو برطانوی راج پیچھے چھوڑ گیا تھا یعنی حکمرانی اللہ کی اتاری ہوئی وحی کی بنیاد پر نہیں کی جائے گی۔ اسی طرح جب فوجی آمر، لوگوں کی خواہش کو پورا کرنے میں ناکام ہوئے تو ایک بار پھر جمہوری حکمرانوں کو لایا گیا اور انھوں نے لوگوں کو یقین دلایا کہ چونکہ اب جمہوریت آچکی ہے لہٰذا لوگوں کی خواہش ہی مقدم ہو گی۔ لیکن انہوں نے کبھی بھی لوگوں کی اس خواہش کو پورا نہیں کیا ۔ اور اس طرح پچھلی سات دہائیوں سے کرسی کی تبدیلی کا کھیل جاری و ساری ہے۔
1947 سے جمہوریت و آمریت کا یہ تماشہ چل رہا ہے اور اب لوگ اس سے بیزار ہو گئے ہیں۔ 2011 سے تبدیلی کی شدید خواہش کو محسوس کیا جارہا ہے کیونکہ لوگ مشرف کی روشن خیال اعتدال پسندی اور زرداری کی مفاہمت کی سیاست کے نتائج دیکھ چکے تھے۔ درحقیقت ان دونوں پالیسیوں کا مقصد حکمرانوں کے ذاتی مفادات اور خطے میں امریکہ کے مفادات کا تحفظ تھا۔ اور اب موجودہ جمہوری حکومت کی انتہائی ناقص کارکردگی کے بعد لوگ جمہوریت اور آمریت دونوں سے ہی سخت بیزار ہو گئے ہیں۔ پاکستان کے عوام حقیقی تبدیلی چاہتے ہیں، ایسی تبدیلی جو اسلام کی بنیاد پر ہو جہاں زندگی کے ہر شعبے میں اسلام نافذ ہو۔ وہ یہ یقین رکھتے ہیں کہ اسلام کے پاس ہی وہ طاقت ہے جو ان کے مسائل کو حل کرسکتی ہے چاہے وہ معاشی ہوں یا عدالتی، سیاسی ہوں یا فوجی۔
یہ صورتحال امریکہ اور پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت میں موجود اس کے ایجنٹوں کے لئے ناقابل قبول ہے۔ امریکہ کے ایجنٹ اس وقت تبدیلی، حقیقی جمہوریت یا 1973 کے آئین کو اس کی حقیقی روح کے مطابق نافذ کرنے کے نعرے لگا رہے ہیں جس کا مقصد لوگوں کو گمراہ کرنا ہے جو پاکستان کو اسلام کا قلعہ دیکھنے کی شدید خواہش رکھتے ہیں۔ لوگوں نے بھی یہ بات محسوس کرلی اور اسی وجہ سے انہوں نے ان آزادی اور انقلاب مارچوں میں بڑی تعداد میں شرکت نہیں کی ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ لوگ حزب التحریر کے پکار پر لبیک کہہ رہے ہیں جو یہ ہے کہ جمہوریت اور آمریت دونوں کو مسترد کرو اور اس خلافت کو قائم کرو جس کا آئین مکمل طور پر اسلام پر مبنی ہے۔
حقیقی تبدیلی یا انقلاب صرف اسی صورت میں آئے گا جب خلافت رسول اللہﷺ کے طریقے کے مطابق قائم ہو گی۔ اور وہ طریقہ یہ ہے کہ کرپٹ نظام اور ایجنٹ حکمرانوں کے خلاف سیاسی و فکری جدوجہد اور افواج سے نصرۃ طلب کی جائے۔ موجودہ کرپٹ نظام میں کوئی حقیقی تبدیلی نہیں آسکتی جو کہ اپنی بنیاد سے ہی کرپٹ ہے کیونکہ وہ انسانوں کا بنایا گیا ان برطانوی قوانین کا ہی تسلسل ہے جو ہم پر برطانوی استعماری دور میں مسلط کیے گئے تھے۔ ہم حقیقی تبدیلی کو صرف اسی صورت دیکھ سکتے ہیں جب حکمرانی کی بنیاد اللہ سبحانہ و تعالٰی کی وحی قرار دی جائے۔
وَأَنِ احْكُمْ بَيْنَهُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللہُ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ وَاحْذَرْهُمْ أَنْ يَفْتِنُوكَ عَنْ بَعْضِ مَا أَنْزَلَ اللہُ إِلَيْكَ
"(اے محمدﷺ) آپ ان کے معاملات میں اللہ کے نازل کر دہ قوانین کے ذریعے ہی حکمرانی کریں، اوران کی خواہشات کی تابعداری ہرگز نہ کیجئے گا اور ان سے ہوشیار رہیں کہ کہیں یہ آپ کو اللہ کے اتارے ہوئے کسی حکم سے اِدھر اُدھر نہ کردیں" (المائدہ:49)۔
حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے لیے لکھا گیا
شہزاد شیخ
ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان

Read more...

غزہ کے مسلمانوں کے لئے حزب التحریرکے میڈیا آفس کی جانب سے عالمی سوشل میڈیا مہم

حزب التحریرکے مرکزی میڈیا آفس نے غزہ کے مسلمانوں کے مصائب اور یہود کی جارحیت اور بل آخر ان کے ریاستی وجود کے خاتمے کے عملی حل کو اجاگر کرنے کے لئے ایک عالمی سوشل میڈیا مہم شروع کی ہے۔ فلسطین کے مسلمانوں کو ہمارے مظاہروں اور پیسوں کی ضرورت نہیں ہے ۔ انہیں جس چیز کی ضرورت ہے وہ یہ کہ مسلم افواج حرکت میں آئیں جن کے پاس یہودی ریاستی وجود کے خاتمے کے لئے کافی طاقت اور صلاحیت موجود ہے۔ مسلم افواج میں موجود مخلص افسران کو اس بات پر مجبور کرنے کے لئے وہ حرکت میں آئیں اور غدار حکمرانوں کو اکھاڑ پھینکیں جنہوں نے انہیں غزہ کے مسلمانوں کی عزت اور مقدس خون کی حفاظت کرنے سے روک رکھا ہے، حزب التحریر نے سوشل میڈیا مہم شروع کی ہے۔ اس مہم کے حوالے سے مندرجہ ذیل فیس بک اور ٹوئٹر اکاونٹ بنائے گئے ہیں:
https://www.facebook.com/MuslimArmies4Gaza
https://twitter.com/MArmies4Gaza
حزب التحریر ولایہ پاکستان، پاکستان کے مسلمانوں سے، جو مسلم حکمرانوں کی بے حسی پر سخت غصے کا شکار ہیں، درخواست کرتی ہے کہ وہ ان اکاونٹس پر اپنے جذبات کا اظہار کریں اور پاکستان کی طاقتور مسلم افواج اور یہودی وجود کے چاروں جانب موجود مسلم افواج سے اس بات کا مطالبہ کریں کہ وہ اپنی طاقت و قوت کو فلسطین، اس کے عوام اور مسجد الاقصٰی کی آزادی کے لئے استعمال میں لائیں۔
وَإِنِ اسْتَنْصَرُوكُمْ فِي الدِّينِ فَعَلَيْكُمُ النَّصْرُ
"اگر دین کی وجہ سےتم سےکوئی مدد مانگے تو تم پر ان کی مدد واجب ہے" (الانفال:72)

Read more...

حزب التحریر ولایہ شام نے غزہ کی حمایت میں ادلب کے مضافات میں مظاہرہ کیا

حزب التحریر ولایہ شام نے شمالی ادلب کے مضافات الدانا شہر میں غزہ کے بھائیوں کی حمایت میں مظاہرہ کیا ،جنہیں دنیا کی افواج نے بے یار و مدد گار چھوڑ دیا ہے ۔ مظاہرین نے بینرز اُٹھا رکھے تھے جن پر اُمت ِمسلمہ کی وحدت اور نبوَّت کے نقش ِقدم پر خلافت کے دوبارہ قیام کے مطالبات درج کئے گئے تھے۔
مظاہرے سے حزب التحریر ولایہ شام کے میڈیا آفس کے سربراہ نے خطاب کیا ۔ انہوں نے کہا کہ مسلم علاقوں ، بالخصوص غزہ میں ہونے والے واقعات انسانیت کے ماتھے پر بدنما داغ ہے۔
انہوں نے اقوام ِعالم کی بُزدلی کو واضح کیا ،بالخصوص مسلم ممالک کے حکمرانوں کے کردار پر روشنی ڈالی جن کو مغربی کفار نے ہماری گردنوں پراس لئے مسلط کررکھا ہے تا کہ وہ اسلام کا مقابلہ اور یہودیوں کی پشت پناہی کریں اور مسلم علاقوں کے مزید ٹکڑے کئے جانے کی کوششوں کو کامیاب بنائیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ افواج کے پر یہ واجب ہے کہ وہ مسلمانوں کو نصرۃ فراہم کریں اورالاقصیٰ کو آزادی سے ہمکنار کرائیں۔
انہوں نے اپنے خطاب کے اختتام پر مسلمانوں کو اپنے حکام کے خلاف خروج کرنے اور خلیفہ کو مقرر کرنے کی دعوت دی، وہ خلیفہ جو مسلمانوں کو تحفظ فراہم کرے۔

الاستاذ احمد عبدالوہاب
ولایہ شام میں حزب التحریرکے میڈیا آفس کے سربراہ

Read more...
Subscribe to this RSS feed

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک