الخميس، 26 جمادى الأولى 1446| 2024/11/28
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

کیا امریکہ کا زوال حقیقی ہے یا خیالی؟ (حصہ دوئم)

تین اقساط پر مشتمل اس مضمون کے دوسرے حصے میں عابد مصطفٰی مختصراً ان افکار کا جائزہ لیں گے جنہیں مفکرین عظیم طاقتوں، خصوصاً امریکہ کے انحطاط کو ثابت یا پیشگوئی کرنے کیلئےاستعمال کرتے ہیں۔ پھر عابد مصطفٰی آگے چل کر کہانی کے انداز میں نہضہ (نشاۃ ثانیہ)کے فہم اور بڑی طاقتوں کے انحطاط کو بیان کرتے ہیں۔

امریکہ کے انحطاط کے موضوع نے بہت سے سوالات کو جنم دیا ہے جیسا کہ سپر پاور کا انحطاط کیسا ہوتا ہے؟ کیا امریکی انحطاط صرف معاشرتی، معاشی اور سیاسی میدان تک محدود ہے یا یہ امریکی معاشرے اور تمدن کے ہر جزو کا احاطہ کرتا ہے؟ امریکی انحطاط کی رفتار کیا ہے؟ کیا امریکی انحطاط اتنا شدید ہے کہ یہ تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے؟ اگر امریکہ تباہ ہونے کے قریب ہے تو یہ تباہی وقتی ہوگی یا مستقل؟ اس طرح کے سوالات نے پچھلے اور موجودہ تاریخ دانوں کے اذہان کو گھیرے رکھا ہے۔
سپرپاور کے زوال کے بارے میں کچھ مصنفین نے دلچسپ باتیں لکھی ہیں۔ پول کینیڈی اپنی کتاب "عظیم طاقتوں کا عروج اور زوال" میں لکھتے ہیں: "بڑی طاقتوں کا عروج اور زوال ان کی صنعتوں کے شرح نمو (بڑھنے کی رفتار) اور ریاستی اخراجات کی جی ڈی پی کے مقابل قیمت ہے"۔ کینیڈی کہتا ہے: "اگر ریاست تزویراتی طور پر خود کو حد سے زیادہ بڑھا دے گی تو اسے یہ خطرہ اٹھانا پڑسکتا ہے کہ بیرونی پھیلاؤ پر مجموعی اخراجات، حاصل ہونے والے فائدوں سے تجاوز کر سکتے ہیں"۔ جارڈ ڈائمنڈ جو کہ مزید جدید مصنف ہے اپنی کتاب، Collapse: How Societies Choose to Fail or Succeed (سقوط: معاشرے کس طرح کامیابی یا ناکامی کا انتخاب کرتے ہیں) میں لکھتا ہے کہ معاشروں نے خود کو اپنے آپ ہی تباہ کیا کیونکہ انہوں نے قدرتی ماحول کی تحقیر کی۔
امریکی انحطاط کے مخصوص موضوع پر جارج پیکر بحث کرتے ہوئے کہتا ہے کہ امریکی انحطاط امیر اور غریب کے درمیان معاشی فرق کی وجہ سے ہے۔ وہ کہتا ہے: "عدم مساوات معاشرے کو طبقاتی نظام میں جکڑ دیتی ہے، لوگوں کو ان کے پیدائشی حالات میں قید کر دیتی ہے جو کہ امریکی خواب کی سوچ کی نفی ہے۔ عدم مساوات شہریوں کے درمیان بھروسے کو زنگ آلود دیتی ہے اور ایسا تاثر دیتی ہے کہ جیسے کھیل میں دھاندلی ہوئی ہو۔ عدم مساوات وسیع اجتماعی مسائل کیلئے ٹھوس حل پیدا کرنے کی صلاحیت کو مجروح کر دیتی ہے کیونکہ وہ مسائل پھر اجتماعی نہیں لگتے۔ عدم مساوات جمہوریت کو کمزور کر دیتی ہے"۔ نیال فرگوسن اس بات کا قائل ہے کہ دنیا میں امریکی بالادستی میں کمی آہستہ اور مستقل نہیں ہوگی۔ وہ کہتا ہے کہ "سلطنتیں ایک پیچیدہ اور ڈھل جانے والے نظام کے طور پر برتاؤ کرتی ہیں، وہ کچھ انجانی مدت تک بظاہر توازن میں کام کرتی ہیں اور پھر ایک دم سے ڈھیر ہو جاتی ہیں"۔
گو کہ یہ تصورات انحطاط کے عوامل پر نظر ڈالتے ہیں، یہ عظیم طاقتوں کی تنزلی کا ڈھانچہ کھینچنے میں مددگار نہیں۔ جس چیزکی ضرورت ہے وہ ایک ایسا ماڈل ہے جو نہ صرف انحطاط کو واضح کرے بلکہ عظیم طاقتوں کے زوال کو بھی رقم کر سکے۔ اس تناظر میں، اسلام ایک ایسا نمونہ دے سکتا ہے جو قوموں کے عروج و زوال کا اندازہ لگائے۔
انحطاط کو سمجھنا، نشاۃ ثانیہ (revival) کو سمجھے بغیر ممکن نہیں۔ لہٰذا یہ ضروری ہے کہ ہم پہلے اس کو واضح کریں کہ نشاۃ ثانیہ سے ہمارا کیا مطلب ہے۔ اوکسفورڈ آن لائن ڈکشنری کے مطابق نشاۃ ثانیہ کا مطلب "کسی چیز یا شخص کے حالات، قوت یا قسمت میں بہتری ہے"۔ عیسائیت میں نشاۃ ثانیہ کا مطلب "جب پرہیزگاروں کی ایک اکائی خالق کے پیغام کا جواب دے" ہے۔لیکن نشاۃ ثانیہ کو اس زاویے سے دیکھنے کیلئے لسانی اور عیسائی تعریفیں نامکمل اور ناکافی ہیں۔
اسلام کے نقطہ نظر سے نشاۃ ثانیہ کی ایک مخصوص تعریف ہے اور اس کو یوں بیان کیا جاتا ہے "روحانی بنیاد پر فکری بلندی"۔ اس تعریف کی دو شرطیں ہیں اس سے پہلے کہ قوم کے نشاۃ ثانیہ کو مکمل اور درست تصور کیا جائے۔ ایک یہ کہ نشاۃ ثانیہ کی اساس آئیڈیالوجی یا مبداء(نظریہ حیات) پر ہو یعنی یہ انسان، حیات اور کائنات کے متعلق جامع فکر رکھتی ہو اور ان کے آپس میں تعلق کے بارے میں یعنی ما قبل اور ما بعد سے متعلق۔ یہ جامع فکر افکار اور نظاموں کے مجموعے کو جنم دیتی ہے جو زندگی کے ہر میدان کا احاطہ کرتے ہیں لیکن یہ جامع مبداء افکار اور نظاموں کے ساتھ صرف کتابوں اور الفاظوں میں موجود رہے گا جب تک ان کو زندہ کرنے کے لئے طریقہ موجود نہ ہو یعنی افکار اور نظاموں کو حیات بخشنے کے لئے۔ یہ صرف اس ہی وقت ممکن ہے جب طریقہ بھی جامع مبداء کی طرح ہو یعنی یہ طریقہ جامع مبداء سےہی پھوٹنا چاہئے۔ مثال کے طور پر شریعت کو جمہوریت کے ذریعے نافذ نہیں کیا جا سکتا۔ فکری آئیڈیالوجی یعنی مبداء اور طریقہ سے عاری کوئی بھی چیز نشاۃِ ثانیہ کو ایک مخصوص علاقے میں محدود کردے گی مثلاً سنگاپور کو معروف مواصلات کا مرکز تصور کیا جاتا ہے، جنوبی کوریاڈیجیٹل ٹیکنالوجی میں سر فہرست ہے اور جب طویل فاصلے تک بھاگنے والوں کو پیدا کرنے کی بات کی جائے تو کینیا کو بہترین گردانا جاتا ہے۔ ان باتوں کے باوجود ان تینوں ملکوں کو مکمل طور پر ترقی یافتہ نہیں سمجھا جاتا کیونکہ ان کا نشاۃِ ثانیہ محدود ہے۔ اس کی بنیادی وجہ ان قوموں کی نشاۃِ ثانیہ کے لئے آئیڈیالوجی یعنی مبداء کو اختیار کرنے میں ناکامی ہے۔ دوسرا، نشاۃِ ثانیہ کے لئے روحانی عنصر کا ہونا ضروری ہے یعنی یہ لازماًخالق کے وجود کا ادراک کرے۔ دوسرے لفظوں میں یہ جامع فکر خالق کے ادراک کی طرف رہنمائی کرے۔ یہ اس بات کی ضمانت دے گا کہ نشاۃِ ثانیہ روحانی لحاظ سے درست ہے۔
اس وقت دنیا میں موجود تین آئیڈیالوجیز (مبادی) یعنی اسلام، مغربی سرمایہ داریت (لبرل جمہوریت) اور کمیونزم میں صرف اسلام ہی نشاۃِ ثانیہ کے لئے بیان کی گئی شرائط پر پورا اترتا ہے۔ اس کا قطعاً یہ مطلب نہیں کہ وہ ممالک جہاں مغربی سرمایہ داریت اور کمیونزم نافذ ہے نشاۃِ ثانیہ کی راہ پر نہیں، بلکہ ان ممالک نے اپنی آئیڈیالوجی کی مدد سے نشاۃ ثانیہ کو حاصل کیا ہے، لیکن دونوں نشاۃِ ثانیہ باطل ہیں کیونکہ دونوں آئیڈیالوجیز روحانی پہلو کی انکاری ہیں۔ مغربی سرمایہ داریت خالق اور روز مرہ معاملات کے ساتھ اس کے تعلق کی انکاری ہے جبکہ کمیونزم خالق کے تصور کا سرے سے انکاری ہے۔
آج دنیا میں واحد درست آئیڈیالوجی اسلام ہے۔ اسلام شرط عائد کرتا ہے کہ انسان، حیات اور کائنات سب اللہ کی تخلیق ہیں اور اللہ تعالیٰ نے محمدﷺ کو تمام انسانیت کے لئے درست دین دے کر مبعوث فرمایا ہے۔ لہٰذا جو مسلمان پوری دنیا میں اسلامی طرز حیات کو زندہ کرنے کے لئے کوشش کر رہے ہیں انہیں اسلامی آئیڈیالوجی کو فکر اور طریقہ دونوں کے طور پر پورے دل سے قبول کرنا ہوگا۔ صرف اس ہی صورت میں امت مسلمہ کو نشاۃِ ثانیہ کی راہ پر گامزن کرنے کا سفر کامیاب ہوگا۔
جو بات ہم نے کی، اس کی بنیاد پر نشاۃِ ثانیہ کے تین واضح مرحلے ہیں: فکری ، سیاسی اور قانونی۔ فکری مرحلے میں فکری سوچ جامع تصور کو بناتی ہے جس کو پھر ان تصورات کے لئے بنیاد کے طور پر لیا جاتا ہے جو بنی نوع انسان کے مسائل کا حل ایک خاص نقطہ نظر سے دیں اور ان کے نفاذ کا طریقہ کار بھی فراہم کریں۔ اس مرحلے کے درمیان نئے تصورات معاشرے کے پرانے تصورات سے ٹکراتے ہیں اور اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ ان تصورات کی افادیت اور برتری کو معاشرے میں موجود فاسد افکار سے ممتاز کر دیا جائے۔ اس کے بعد سوچ کا سیاسی مرحلہ آتا ہے جہاں سیاسی سوچ کو استعمال کیا جاتا ہے تاکہ نئے تصورات کو معاشرے پر غالب کیا جائے اور موجودہ سیاسی اتھارٹی کے ساتھ تصادم کیا جائے تاکہ لوگوں کے امور کی دیکھ بھال کرنے میں اس کی عدم قابلیت کو آشکار کیا جائے۔ اس مرحلے میں معاشرے کی موجودہ سیاسی قیادت ہٹا دی جاتی ہے اور نئی قیادت ظاہر ہوتی ہے جو نئی فکر کے نفاذ کی سرپرستی کرتی ہے۔ آخر ی یعنی تیسرے مرحلے میں جب نئے تصورات کے پاس سیاسی اتھارٹی اور قوت آجاتی ہے، تب قانونی سوچ توجہ کا مرکز بن جاتی ہے کیونکہ بیشمار مسائل کھڑے ہوتے ہیں اور قانونی سوچ انہیں حل کرتی ہے۔
جب قوم نشاۃِ ثانیہ حاصل کر لیتی ہے تو اسے برقرار رکھنا لازمی ہو جاتا ہے۔ اس کا حصول اس طرح ہوتا ہے کہ سیاسی سوچ معاشرے میں موجود دوسری تمام سوچوں پر نگرانی کرے جیسا کہ فکری، قانونی، لسانی، سائنسی وغیرہ۔ لہٰذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ کسی بھی قوم کے لئے نشاۃِ ثانیہ کے تین مراحل ہیں فکری، سیاسی اور قانونی۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ سوچ کے یہ مراحل باہم جدا ہیں اور بیان کردہ مراحل میں ساتھ نہیں چلتے بلکہ سوچ کے سیاسی مرحلے میں سیاسی سوچ کے ساتھ فکری اور قانونی سوچ بھی قدم بہ قدم چلتی ہے لیکن سیاسی سوچ زیادہ نمایاں رہتی ہے۔ یہ اس وجہ سے ہے کہ توجہ معاشرے پرایک نئے تصور کو قائم کرنے کے لئے ہے جو اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک سیاسی جدوجہد نہ کی جائے جس کی وجہ سے سیاسی سوچ نمایاں رہے گی۔ یہی بات باقی مراحل پر بھی ثابت ہوتی ہے۔
اس ماڈل پر پہنچنے کے بعد اب قوموں کی نشاۃِ ثانیہ کو سمجھنا آسان ہوگیا ہے۔ اس ماڈل کی روشنی میں تین مثالیں توجہ طلب ہیں:
آپﷺ کی زندگی، جو کہ مکی اور مدنی زندگی پر محیط ہے، سوچ کے تین مختلف مراحل میں بانٹی جا سکتی ہے۔ ابتداء میں مکی دعوت جس میں فکری انداز غالب رہا اور آپﷺ کی جدوجہد میں فکری سوچ حاوی رہی۔ اس کے بعد شدید سیاسی جدوجہد کا دور ہے جو قریش کے قائدین کےخلاف تھا اور اس مرحلے پر سیاسی سوچ غالب رہی۔ جیسے ہی آپﷺ نے مدینہ میں پہلی اسلامی ریاست قائم کی تب قانونی سوچ غالب ہوگئی کیونکہ زندگی میں پیدا ہونے والے مسائل کے بارے میں احکامات نافذ کئے گئے ہوئے۔
یورپ میں نشاۃ ثانیہ پاپایئت کے خلاف یورپ کی فکری بیداری سے پیدا ہوا۔ اس کے بعد اصلاح کے دور نے شدید سیاسی عمل کی ابتداء کی یہاں تک کہ چرچ کی طاقت کو ریاست کی طاقت سے جدا کر دیا گیا اور سیکولرازم نے جنم لیا۔ اس کے بعد روشن خیالی کا دور ہے جو کہ فکری اور قانونی سوچوں پر مشتمل ہے اس ہی دوران جدید یورپین قانون کی دو بنیادی روایات نے جنم لیا۔ منظم قانونی نظام جس کا استعمال براعظم یورپ کے عظیم حصے پر ہوا اور انگریزی روایات جو کہ سابقہ مقدموں پر بنا ئے گئے قوانین پر مشتمل ہے۔
انیسویں صدی کی ابتداء میں کارل مارکس نے کمیونزم کے بنیادی اصول مرتب کیے اور ایک نئی فکر کا ظہور ہوا۔ اس کی شروعات قلیل مدت کی سیاسی حرکت سے ہوئی جوروس میں اکتوبر 1917ء کے بولشویک انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔ بولشویک کو ایک منجمد ریاست ملی جسے بیشمار مسائل درپیش تھے اور ان کے حل کے لئے قانونی سوچ کی ضرورت تھی۔
تینوں صورتوں میں جیسے ہی قوم نشاۃِ ثانیہ کی راہ پر گامزن ہو جاتی ہے سیاسی سوچ نہ صرف لوگوں کے معاملات کو چلاتی ہے بلکہ دوسری سوچوں کا بھی احاطہ کرتی ہے۔ لہٰذا معاشرے کی فکری اور قانونی فہم کی سطح کو برقرار رکھنا ریاست کے سیاسی فیصلوں پر منحصر ہوتا ہے۔
نشاۃِ ثانیہ اورانحطاط کے پیش کردہ ڈھانچے کا ایک اور خاصہ یہ ہے کہ یہ دونوں گردشی ہیں۔ دوسرے الفاظ میں قوموں کی نشاۃِ ثانیہ کے دنوں کے بعد انحطاط کے جھٹکے بھی آتے ہیں۔ مثلاً جب صلیبیوں نے یروشلم پر قبضہ کیا تو سو سالوں تک یہ واضح تھا کہ خلافت انحطاط میں ہے لیکن اس کے بعد نہضہ(نشاۃ ثانیہ) کا ایک مختصر دور آیا جب صلاح الدین ایوبیؒ نے صلیبیوں کو نکال باہر کیا یہاں تک کہ ہلاکو خان نے بغداد پر حملہ کردیا۔
خلافت دوبارہ کھڑی ہوگئی جب مملوکوں نے تاتاریوں کے جنگجو جتھوں کو شکست دی اور خلافت کو اس کی حقیقی شان پر لوٹادیا لیکن ہمیشہ ایسے نہیں ہوتا کہ قوموں کے انحطاط کے ادوار کے بعد مکمل نشاۃِ ثانیہ کا دور آجائے یعنی سوچ کے فکری، سیاسی اور قانونی پہلوؤں میں نشاۃِ ثانیہ (نہضہ)۔ یہی دلیل انحطاط پر بھی لاگو ہوتی ہے کہ سیاسی، فکری اور قانونی سوچوں پر مکمل انحطاط نہیں آتا جب قومیں ایک عرصے تک نشاۃِ ثانیہ میں وقت گزار لیتی ہیں۔
یہ سب کچھ بیان کر دینے کے بعد بہرحال یہ ممکن ہے کہ قوم کی مجموعی زندگی اور اس کی تنقیدی ہئیت یعنی ریاست کی بنیاد پر مکمل نشاۃِ ثانیہ یا انحطاط کا کچھ حد تک اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اموی خلافت کا عروج عمر بن عبدالعزیز کے دور میں ہوا۔ اموی خلافت کے بعد عباسی خلافت آئی جس نے خلیفہ ہارون الرشید اور ان کے فرزند کی حکمرانی میں بلندی حاصل کی۔ عباسی خلافت کے بعد عثمانی خلافت کا دور آیا۔ عثمانی ریاست کی بلندی کا دور سولویں صدی میں سلیمان القانونی کے دور میں آیا اس کے بعد عثمانی ریاست تیزی سے انحطاط کی طرف بڑھی یہاں تک کہ تباہ ہوگئی۔ ان شدید جھٹکوں کے باوجود امت محفوظ رہی اور آج یہ سوچ کے تمام مرحلوں میں بلندی کی طرف گامزن ہے سوائے اس کے تنفیذی حق یعنی خلافت کی کمی باقی ہے۔
اگر انحطاط اور نشاۃِ ثانیہ کے اندازے کے لئے وسیع دور پر نظر رکھی جائے تو اس قوم کے مقام کی بہتر تصویر ابھرتی ہے۔ لہٰذا خلافت کے بارے میں ہماری اس مثال سے یہ صاف واضح ہے کہ سیاسی، فکری اور قانونی سوچ خلافت راشدہ کے دور میں بلند ترین سطح پر تھیں اور عثمانی خلافت کے آخری ادوار میں پست ترین۔
آئیے ایک اور مثال لیتے ہیں قرونِ وسطیٰ کے دور کی جب برطانیہ جنگجو ٹولوں کا ایک مجموعہ تھا جو ہر وقت بیرونی حملہ آوروں کے رحم و کرم پر ہوتاتھا۔ لیکن سولہویں صدی کی ابتداء پر برطانیہ ملکہ الزبتھ اول کے دور میں ابھرا اورانیسویں صدی کے اواخر میں ملکہ وکٹوریا کے دور میں دنیا کی صف اول کی ریاست بن گیا۔ اس برطانوی سلطنت کا سنہری دور قلیل مدت کے لئے تھا اور برطانیہ نے جنگ عظیم دوئم کے بعد عالمی صف اول کی ریاست ہونے کا مرتبہ کھو دیا جب اس کی سلطنت حیران کن انداز میں سکڑ گئی۔ آج برطانیہ تنزلی کی طرف گامزن ایک بڑی طاقت ہے اور باوجود اس کے کہ اس کی قیادت برطانوی سلطنت کو دوبارہ بلند کرنے کے پُرعزم منصوبے رکھتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ برطانیہ سوچ کی تمام جہتوں میں تنزلی کو پلٹانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس مختصر بیان سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ وکٹورین دور کے وقت برطانیہ کی فکری، سیاسی اور قانونی سوچ اپنے عروج پر تھی اور آج یہ سب کی سب انحطاط کی جانب رواں ہیں۔
اگرچہ خلافت کے مختلف ادوار اور مختلف اقوام کے ادوار جن پر انحطاط کے ڈھانچے کو لاگو کر کے دیکھا جائے اور ان پر سوچ کے مختلف مرحلوں کا تفصیلی جائزہ لیا جائے، اس تحریر کے دائرے سے باہر ہیں، پھر بھی یہ ضروری ہے کہ سیاسی سوچ میں کمزوری اور قوموں پر اس کے اثرات پر روشنی ڈالی جائے۔
مثلاً: خلافت 1300 سالوں تک موجود رہی، یہاں تک کہ1924ء میں اس کا خاتمہ ہوا لیکن سیاسی سوچ میں کمزوری چاہے تنفیذی سطح پر ہو یا امت کی سطح پر، کئی صدیوں پہلے ہی شروع ہوگئی تھی۔ ایک معاملہ جس میں طاقت کے زور پر حاصل کی گئی بیعت کے طریقے کا غلط نفاذ کا تھا یعنی خلیفہ کی تقرری کا قانونی عقد، معاویہ اول کے دور میں بیعت کے طریقے کا غلط استعمال کیا گیا۔ جب معاویہ نے اثر و رسوخ رکھنے والے افراد کو اپنے بیٹے یزید کے لیے بیعت دینے پر مجبور کیا، جبکہ وہ خود زندہ تھے۔ لہٰذا ان تین سیاسی فیصلوں نے صدیوں تک مسلم امت کو متاثر کیا، یہاں تک کہ1924 میں خلافت کا خاتمہ ہوگیا۔ حکمرانی سے متعلق کچھ اسلامی مفاہیم شدید کمزور ہو چکے تھے اور درست قانونی فیصلوں کی جگہ غلط فہم نے لے لی تھی۔ دیگر غلط سیاسی فیصلوں میں اس بات کی اجازت دینا کہ اسلام اور بیرونی فلسفوں میں ہم آہنگی پیدا کی جائے، عربی زبان کی اہمیت سے بے رغبتی، اجتہاد کے دروازوں کا بند ہونا اور جہاد کو ترک کرنا۔ اس طرح سے سیاسی فیصلوں نے خلافت کو انحطاط کے راستے پر گامزن کیا۔ لوگوں کے ذہنوں میں اسلامی آئیڈیالوجی کو کمزور کیا اور قانونی نصوص سے درست استنباط کو آلودہ کر دیا۔
آئیے ایک اور مثال لیتے ہیں جہاں ایک بڑی طاقت بیرونی پالیسی کے حوالے سے غلط سیاسی فیصلہ لیتی ہے، جو عالمی سطح پر اس کے مقام کو اور اس کی اپنی آئیڈیالوجی کو پھیلانے کی صلاحیت کو شدید مجروح کر دیتی ہے۔ بہت سارے لوگوں کے لئے برطانیہ کا زوال ہندوستان کی آزادی سے شروع ہوااوراس کے بعد مشہور زمانہ سوئیز بحران نے برطانیہ کو دنیا کی صف اول کی ریاست کے مقام سے گرنے کو شدید تر کیا۔ دونوں واقعات نے نہ صرف برطانیہ کی بیرونی معاملات پر محدود صلاحیت کو واضح کیا بلکہ یہ تاثر بھی چھوڑا کہ برطانیہ ایک گرتی ہوئی عالمی طاقت ہے۔ اگرچہ یہ اور اس جیسے دیگر واقعات جس میں برطانیہ کو عالمی سطح پر استعمار مخالف لہر کی وجہ سے اپنی فتح کردہ زمینوں سے دستبردار ہونا پڑا دراصل برطانیہ کی اس خواہش کی بنا پر تھے کہ امریکہ جنگ عظیم دوئم میں شریک ہوجائے۔ برطانوی وزیر اعظم ونسٹن چرچل اوراس کے مشیروں نے امریکی قوت اور اس کی دنیا کی صف اول کی ریاست بننے کی جستجو کو بے وقعت سمجھا۔ آنے والے دنوں میں برطانیہ کو یہ سیاسی فیصلہ بہت مہنگا پڑا اور اس نے اپنی کافی کالونیاں امریکہ کے ہاتھوں کھو دیں۔ برطانوی ثقافت کو دیگر ممالک میں فروغ دینے کی اہلیت امریکی ثقافت نے روک دی اور اپنی آئیڈیالوجی کو پھیلانے کی برطانوی صلاحیت امریکہ کے بڑھتے ہوئے اثر سے شدید طور پر تھم گئی۔ مزید یہ کہ عالمی اداروں جیسے آئی ایم ایف، ڈبلیو ٹی او، یو این ا وغیرہ نے بھی اپنا حصہ ڈالا جو کہ امریکی کنٹرول میں کام کرتے تھے۔
ہم آخری مثال میں اس بات کو دیکھتے ہیں کہ سوویت یونین نے کس طرح اپنی آئیڈیالوجی پر سمجھوتہ کیا جب اس کا بیرونی ریاستوں سے سامنا ہوا۔ مثال کے طور پر 1961ء میں سوویت یونین نے دنیا کی سب سے بڑی سرمایہ دارانہ ریاست امریکہ سے بقائے باہمی کی کوشش کی جو کہ اس کی کمیونسٹ آئیڈیالوجی کے سراسر خلاف تھا۔خروشیو اور کینیڈی کے درمیان معاہدے نے فکری نقطہ نظر کے مطابق سوویت یونین کے انہدام کو تیز تر کر دیا کیونکہ کمیونزم سرمایہ دارانہ نظام سے کسی بھی قسم کی باہمی بقاء کو رد کرتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کی تباہی کی سوچ سے اس کو جگہ دینے کی طرف اس قدم نے بہت سارے لوگوں پر یہ حقیقت واضح کر دیا کہ کمیونزم ریاستوں کے خارجی تعلقات کی تنظیم کے لئے غیر عملی ہے۔
ان تمام سابقہ مثالوں میں نشاۃِ ثانیہ کی راہ پر گامزن قوم بری طرح متاثر ہوئی ہے جب ریاست نے غلط سیاسی فیصلے کیے۔ لہٰذا یہ ضروری ہے کہ قوموں اور تہذیبوں کے زوال کا اندازہ کرنے کے لئے سیاسی سوچ کے کردار پر نظر رکھی جائے۔
(تیسری تحریر میں عابد مصطفٰی اس بات کی جانچ پڑتال کریں گے کہ کیا دنیا میں امریکہ کا مقام واقعی انحطاط کی طرف بڑھ رہا ہے یا یہ ایک معمولی ناکامی ہے جس کے بعد امریکہ پوری طرح اپنی ساکھ کو بحال کر لے گا؟)

Read more...

کیا امریکہ کا زوال حقیقی ہے یا خیالی؟ (حصہ اوّل)

آج امریکہ کا عالمی سپرپاور ہونے کے ناطے انحطاط ایک ایسا اچھوتا موضوع نہیں رہا جو چند تجزیہ کاروں تک محدود ہو۔ اس کے برعکس اب یہ ایک معمول کی بات ہے کہ دنیا کے مختلف حصوں میں بہت سے لوگ امریکہ کے انحطاط کے بارے میں گفت و شنید اور بحث کر رہے ہیں جیسے یہ کوئی کھانے کی میز پر کرنے والی بات ہو۔ ان موضوعات میں اس انحطاط کی کیفیت پر بحث ہو رہی ہے کہ کیا امریکہ سیاسی، معاشی اور عسکری طور پر کمزور ہو رہا ہے؟ اور سب سے اہم سوال یہ ہے کہ امریکہ کے بعد اس کی جگہ کون لے گا۔
عمومی طور پر جو لوگ امریکی بالادستی کے کمزور ہونے پر بحث کر رہے ہیں ان کی دو اقسام ہیں: ایک وہ جو یہ کہتے ہیں کہ امریکی انحطاط عالمی منظر نامے پر ایک مستقل حیثیت اختیار کر چکا ہے اور دوسرے وہ جو یہ رائے رکھتے ہیں کہ امریکی انحطاط نہ صرف عارضی ہے بلکہ پلٹ بھی سکتا ہے۔ بعد والا گروہ یقینی طور پر یہ سمجھتا ہے کہ امریکہ دوبارہ ویسی ہی سپر پاور بن سکتا ہے جیسا کہ وہ پہلے کبھی ہوتا تھا۔ ان تین مضامین میں عابد مصطفیٰ امریکی انحطاط کا جائزہ لیں گےاور کیا امریکہ کی عالمی سیاست کو متاثر اور تشکیل دینے کی صلاحیت میں کوئی تبدیل واقع ہوئی ہے، پر بحث کریں گے۔

ابتدائیہ:
تہذیبوں کے ابتداء سے، انسانوں نے خود کو خاندان کی شکل میں منظم کیا جو بڑے قبائل کا حصہ ہوتےہیں۔ یہ قبیلے خاص وصف اور خصوصیات کے تحت منظم ہوتے ہیں جس میں عقیدےکو خاص اہمیت حاصل ہوتی ہے جو قبائل کو باہم یکجا کرتا ہے اور زندگی کے بارے میں ان کے نقطہ نظر کو تشکیل دیتا ہے۔
قبائل کے خاص عقیدے کے گرد جمع ہونے سے اقوام وجود میں آتی ہیں۔ یہ قومیں تنہا نہیں رہتیں بلکہ زندگی کا بہاؤ انہیں ایک دوسرے سے تفاعل اور مقابلہ کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ یہ مقابلہ دولت اور وسائل، زمین اور جغرافیہ، عزت اور مرتبہ، آئیڈیا لوجی یعنی نظریہ حیات کے لئے طاقت اور برتری کے لئے ہوتا ہے۔
مقاصد کے حصول کے لئے صدیوں پر محیط قوموں کے تفاعل نے دو طرفہ اور کثیرالفریقی تعلقات کو جنم دیا۔ انسانی معاشروں کے پیچیدہ ہونے کے ساتھ ساتھ قوموں کے درمیان تعلقات کا دائرہ بھی علاقائی سے عالمی ہو گیا ہے پھر ان تعلقات کی قیادت سب سے طاقتور قوم کے بیان کردہ اصولوں پر ہوتی ہے۔ صفِ اول کی ریاست کی عالمی صورتحال اور واقعات کو چلانے کی سیاسی قابلیت کو بین الاقوامی نظام کہتے ہیں۔
صفِ اول کی ریاست کے مقابل ہمیشہ کچھ ریاستیں ہوتی ہیں جو کبھی اس کے ساتھ کام کرتی ہیں اور کبھی اس کے خلاف اور اہمیت حاصل کرنے کیلئے اسے چیلنج کرتی ہیں۔ صف ِاول کی ریاست اور اس کے مقابل ریاستوں سے قریب طاقتور اقوام یا مضبوط طاقتیں ہوتی ہیں جن کے پاس صفِ اول کی ریاست اور اس کے مقابل ریاست یا ریاستوں کی جگہ لینے کی اہلیت ہوتی ہے۔
بین الاقوامی نظام اس ہی وقت تبدیل ہوتا ہے جب صفِ اول کی ریاست کو ختم یا مقابل ریاست سے تبدیل کر دیا جائے۔ یہ عموماً اس وقت ہوتا ہے جب صفِ اول کی ریاست میں بین الاقوامی نظام کو قائم رکھنے اور طاقتور اقوام جن میں مقابل ریاست بھی شامل ہے کہ حملوں سے خود کو محفوظ رکھنے کی قابلیت ماند پڑ جاتی ہے۔
لہٰذا بین الاقوامی نظام کبھی بھی یکساں نہیں رہتا بلکہ اس میں ہمیشہ تبدیلی کا امکان موجود رہتا ہے۔ بین الاقوامی نظام میں کس قدر تبدیلی ہو گی یہ بات براہ راست صفِ اول کی ریاست کے زوال سے منسلک ہے۔ یہ زوال جتنا شدید ہوتا ہے بڑی طاقتوں کو واقعات کو اپنے مقاصد کی طرف موڑنے اور بین الاقوامی نظام کو کمزور کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔
دور جدید میں ایک اور طرز کی طاقتور اقوام ابھری ہیں جو بڑی طاقتوں سے بھی زیادہ مضبوط ہیں۔ انہیں سپرپاور کہا جاتا ہے۔ سپر پاور کے پاس یہ قابلیت موجود ہوتی ہے کہ وہ عسکری طاقت کی نمائش کے ذریعے پوری دنیا میں اپنے مفادات کا تحفظ کرے۔ 1945ء سے پہلے صرف بڑی طاقتیں موجود تھیں، برطانیہ ایک بڑی طاقت اور صفِ اول کی ریاست تھی، جرمنی بھی ایک بڑی طاقت تھی اور برطانیہ کے مقابل تھی۔ 1945ء کے بعد اور سرد جنگ کے دوران صرف دو ریاستیں دنیا پر غالب تھیں۔ امریکہ اور سوویت یونین اور سپر پاور کے نام سے جانی جاتی تھیں، باقی بڑی طاقتیں ان کی مخالفت کرنے کے قابل نہ تھیں۔
امریکہ کا یک قطبی دور:
سرد جنگ کے دوران دو سپر پاورز باقی سب سے آگے تھیں اور دنیا کا بیشتر حصہ مغربی کیمپ اور مشرقی کیمپ سے وفاداری کی بنیاد پر تقسیم تھا لیکن سوویت یونین کے 1991ء میں انہدام کے بعد امریکہ نے خود کو ایک منفرد پوزیشن میں پایا۔ وہ نہ صرف دنیا کی صفِ اول کی ریاست تھی بلکہ سپر پاور بھی بن گئی۔ امریکی دہلیز پر بے مثال عالمی قوت اور مشرق سے مغرب تک تمام سیاسی معاملات کو تشکیل دینے کی امریکی اہلیت نے کچھ امریکی تبصرہ نگاروں کو حرص پر ابھارا۔ مشہور امریکی مفکر چارلس کرام تھامر نے دنیا کی واحد سپرپاور کے لئے آنے والے بڑے مواقعوں کو بیان کیا۔ خارجی سیاست کے مسائل پر ایک مضمون "امریکہ اور دنیا" میں اس نے لکھا:
"سرد جنگ کے بعد کا دور کثیرقطبی نہیں۔ یہ یک قطبی ہے۔ دنیا کی طاقت کا مرکز ایک ایسی ریاست، ریاست ہائے متحدہ امریکہ ہے جس کے ساتھ اس کے مغربی اتحادی بھی ہیں۔ سرد جنگ کے بعد کی دنیا کی سب سے امتیازی خصوصیت اس کا یک قطبی ہونا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کثیرالقطبی دنیا وقت کے ساتھ ابھرے گی۔ شاید کسی اور نسل میں ایسی عظیم طاقتیں ہوں گی جو امریکہ کی ٹکر کی ہوں گی اور دنیا اپنی ساخت میں پہلی عالمی جنگ سے قبل کے دور کی طرح ہوگی۔ لیکن ہم ابھی وہاں تک نہیں پہنچے نہ ہی کئی دہائیوں تک پہنچیں گے۔ یہ دور یک قطبی دنیا کا ہے"۔
اس کا ساتھ ایک اور مشہور مفکر فرانسس فوکو یامہ نے دیا جو اس سے قبل 1989ء میں قطعی اعلان کر چکا تھا کہ مغربی لبرل ازم تمام نظاموں کو شکست دے جا چکا ہے۔ 1989ء کی گرمیوں میں قومی مفاد (نیشنل انٹریسٹ) میں اپنے مضمون "تاریخ کا اختتام" (دی اینڈ آف ہسٹری) میں وہ لکھتا ہے:
"مغرب کی مغربی فکر کی بنا پر کامیابی سب سے پہلے اس بات سے واضح ہے کہ مغربی لبرل ازم کے متبادل کوئی بھی دوسرا نظام مکمل ناکامی سے دوچار ہوا ہے۔ ہم جس چیزکا مشاہدہ کر رہے ہیں وہ صرف سرد جنگ کا اختتام نہیں ہے یا جنگ کے خاتمے کے بعد کے دور کا گزرنا نہیں ہے بلکہ یہ تاریخ کا اختتام ہے، یہ انسانی فکری ارتقاء کا اختتام ہے اور انسانی حکومت کی مغربی لبرل جمہوریت کی شکل میں عالمگیریت مسلمہ ہوگئی ہے۔ یہ بات نہیں کہ اب ایسے واقعات نہیں ہوں گے اور عالمی تعلقات کا خاتمہ ہو جائے گا کیونکہ لبرل ازم کی فتح بنیادی طور پر افکار یا آگاہی کے میدان میں ہے اور حقیقی اور مادی دنیا میں یہ ابھی بھی نا مکمل ہے۔ لیکن یہ یقین کرنے کے لئے ایسے وزنی دلائل موجود ہیں کہ یہی وہ فکر ہے جو مادی دنیا کو ایک لمبے عرصے تک چلائے گی"۔
1993ء میں جب اس عظیم فتح سے امریکہ شادمان تھا اس نے اس کامیابی پر ایک مکمل کتاب لکھی اور اس کا نام "تاریخ کا اختتام اور آخری شخص" رکھا۔ اگلی دہائی تک یہ نظر آیا کہ شاید امریکہ کا دنیا بھر میں اپنی بالادستی اور سیاسی اثرورسوخ کو پھیلانے کے حوالے سے فوکویاما اور کروتھامرکا اندازہ درست تھا۔ عراق میں 1991ء میں صدام حسین کی شکست نے امریکہ کو اس قابل بنایا کہ وہ فوجی اڈوں، حفاظتی معاہدات اور اسرائیل اور فلسطین کے درمیان امن مذاکرات (میڈریڈ کانفرنس) کے ذریعے اپنے قدم خلیج فارس اور وسیع تر مشرق وسطیٰ میں جمائے اوربڑھائے اور یہ سلسلہ آج تک جاری و ساری ہے۔ یوں امریکہ کو اپنے مفادات کے تحت خطے کو تشکیل کرنے کی وہ طاقت مل گئی جو پہلے کبھی نہ تھی۔
یورپ میں یورپی یونین اور نیٹو کو زور شور کے ساتھ پھیلایا گیا تا کہ سوویت یونین سے نکلنے والے علاقوں جیسے اسٹونیہ، لیٹویا، لیتھونیا وغیرہ کو شامل کیاجائے۔ اس عمل نےیورپ پر امریکہ کی گرفت کو مزید مضبوط جبکہ روس کو مزید کمزور کر دیا۔ یورپ پر امریکی گرفت کی معراج یوگوسلاویا کے توڑنے کے لئے امریکی سیاسی اقدامات ہی تھے جس کے نتیجے بالآخر 1999ء میں کوسوو کی جنگ ہوئی اور کومانوف معاہدہ عمل میں آیا۔ مختصراً یہ کہ امریکہ نے یورپ اور روس دونوں کو کنارے سے لگا دیا۔
افریقہ میں بھی امریکہ نے قدیم یورپ کی اڑان کو روکنے کیلئے زبردست پیش قدمی کی۔ صومالیہ، کانگو، لائےبیریا میں عسکری حملے افریقہ میں برطانیہ اور فرانس کے اثر و رسوخ کو محدود کرنے کی ابتداء ثابت ہوئے۔ جبکہ بر اعظم لاطینی امریکہ میں معمولات ویسے ہی چلتے رہے کہ امریکہ نے براعظم میں وسیع سیاسی اثرو رسوخ کو برقرار رکھنے کے لئے جمہوریت کو فروغ دیا اور اس کی معیشت کو مزید اپنے قابو میں کیا۔
سیاسی اور عسکری غلبے کو اگر چھوڑ بھی دیں تو امریکہ نے کلنٹن انتظامیہ کے دورمیں عالمگیریت اور آزاد تجارت کے ذریعے امریکی ملٹی نیشنل کمپنیوں کیلئے دنیا کے بہت سے خطے کھولے۔ امریکہ کی برتری اتنی زبردست تھی کہ فرانس کے وزیر خارجہ نے دنیا پر امریکی غلبے کی وضاحت کرنے کیلئے "ہائی پر پاور" کا لفظ استعمال کیا۔ اس نئے لقب کا بہترین مطلب یہ ہو سکتا ہے "ایک ملک جو کہ ہر چیز پر غالب اور زور آور ہے"۔
تبدیلی کی ابتداء:
21ویں صدی کی شروعات نے امریکی سورج کو ہی دمکتے دیکھا لیکن اس بار بش کی صدارت میں نیو کنزرویٹوز امریکی طاقت اور یک ترفیت کو دنیا بھر میں امریکی مفادات کے حصول کے لئے بہترین انداز سے استعمال کرنے کے لئے نئے خیالات رکھتے تھے۔ عراق اور افغانستان پر امریکی حملے کو امریکی سیاستدانوں اور بش انتظامیہ کے حامیوں کی طرف سے بہت خوش آئند طور پر دیکھا گیا۔ لیکن امریکی غرور کے حق میں یہ ولولہ قلیل مدتی تھا اور اپریل 2013ء میں سقوط بغداد کے بعد امریکہ گوریلہ جنگ کے ایک ایسے نہ ختم ہونے والے تنازعہ میں پھنس گیا جس نے دنیا کے متعلق اس کی تعصب پسندانہ سوچ کو ظاہر کر دیا۔ 2004ء میں ابو غریب کے واقعات نے یہ بات بے نقاب کردی کہ عملاً امریکی اقدار کیا ہیں۔
عراق میں امریکہ کی عسکری قوت کے باوجود بش انتظامیہ کو بہت سے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا جیسے شیعہ سنی عوامی بغاوت، امریکی فوج کی طرف سے کی گئی قتل و غارت گری کےخلاف غصہ، امریکی ایجنٹوں کی طرف سے ماورائے عدالت کئے گئے قتل، ابو غریب کا داغ، سیاسی انتشار اور مسلم ممالک میں پھیلے ہوئے امریکہ مخالف جذبات۔ تین سال کے عرصے میں امریکہ عراق کے دلدل سے نکلنے کیلئے تگ و دو کرنے لگا۔ جس عراق کو بش انتظامیہ کے نیو کنزرویٹوز لبرل جمہوریت کے نمونے کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی وہ جلد ہی مشرق وسطیٰ میں امریکی حیثیت اور عالمی سطح پر اس کے وقار کو بچانے کی جنگ میں تبدیل ہوگیا۔
بش انتظامیہ کو اس کی نیو کنزرویٹو پالیسیوں کی وجہ سے تنقید نگاروں نے گھیر لیا۔ نمایاں ڈیموکریٹس، ری پبلیکن اورمتعدد مشہور سیاستدان عراق کے بارے میں بہت منفی صورتحال پیش کر رہے تھے اور امریکی پالیسی کو کڑی تنقید کا نشانہ بنا رہے تھے۔ 2006ء میں عراق اسٹڈی گروپ نے کہا: "عراق کی صورتحال انتہائی پریشان کن ہے اور بتدریج خرابی کی طرف بڑھ رہی ہے"۔
رچرڈ ہارس، جو کہ خارجہ تعلقات کی کونسل کا سابق صدر ہے، خطے میں امریکہ کی سیاسی واقعات کو ترتیب دینے کی قابلیت میں کمزوری کو بھانپ چکا تھا وہ کہتا ہے:
"سرد جنگ کے خاتمے اور عراق کے کویت پر حملے کے بعد امریکہ نے جس طرح خطے میں اپنی بالادستی ثابت کی ہے اس کی بنا پر پچھلی دو دہائیوں میں خطے میں امریکہ کا مقام تاریخی رہا ہے۔ لیکن اب ہم کوئی بنیادی تبدیلی دیکھ رہے ہیں۔ ابتدائی طور پر ابھی ہم انتشار دیکھ رہے ہیں، مزید پیچیدہ اور مزید مسائل سے گھرا ہوا مشرق وسطیٰ، جہاں امریکہ کی معاملات کو ترتیب دینے کی اہلیت ماند پڑ چکی ہے"۔
نیشنل انٹیلی جنس کونسل کے وائس چیئرمین گراہم فلر نے بیان کیا کہ عراق کی شکست کی وجہ سے امریکی اتحادی اور مخالف اس قابل ہوئے کہ وہ واقعات کو متاثر کرنے کی امریکی صلاحیت کو محدود کر سکیں۔ وہ 2006ء میں 'قومی مفاد ( نیشنل انٹرسٹ)' میں لکھتا ہے: "متعدد ممالک نے بہت سی ترکیبیں اور حربے استعمال کئے تاکہ بش ایجنڈے کو، ہزار وں چھوٹے زخموں کی موت ذریعے کمزور، تبدیل، پیچیدہ، محدود، معطل یا مسدود کر دیا جائے"۔
عین اس وقت جب کہ امریکی سیاسی قیادت عراق کی جنگ کے نتیجے میں امریکی برتری کو پہنچنے والے شدید نقصان پر سوچ و بچار کر رہی تھی، 2008ء کی گرمیوں میں عالمی معاشی بحران نے انہیں گھیر لیا۔ اس معاشی بحران کی شدت نے امریکہ کو مزید نقصان پہنچایا اور اہل رائے اور عام عوام کے اعتماد کو مزید مجروع کیا۔ ایلن گرین سپین، جو کہ اس وقت فیڈرل ریزرو کا چیئرمین تھا، نے کریڈٹ بحران جو کہ معاشی بحران کے بیچ و بیچ تھا، کو ان الفاظ میں بیان کیا: "صدی میں ایک بار ہونے والا کریڈٹ سونامی "۔ گرین سپین واحد آدمی نہیں تھا جو امریکہ کی ابتر صورتحال بیان کر رہا تھا بلکہ معاشی بحران کے فوری نتیجے میں امریکی انحطاط بحث و تمحیص کا ایک گرم موضوع بن گیا۔
عمومی طور پر دو گروہ بن گئے۔ پہلے گروہ کا نقطہ نظر یہ رہا کہ انحطاط بین الاقوامی نظام کا مستقل خاصہ ہے۔ لیکن جس چیز پر اختلاف تھا وہ زوال کی شدت کے پیمانے پر تھا۔ 2008ء میں امریکی نیشنل انٹیلی جنس کونسل نے پہلی مرتبہ اس بات کا اعتراف کیا کہ امریکہ کی عالمی طاقت پستی کی طرف رواں ہے۔ مستقبل کے بارے میں شائع کی جانے والی اپنی رپورٹ، 'گلوبل ٹرینڈز 2025' میں کونسل لکھتی ہے: "عالمی دولت اور معاشی طاقت کی مغرب سے مشرق کی طرف منتقلی شروع ہو چکی ہےاور موجودہ دور میں اس نوعیت کا واقع پہلے نہیں ہوا جو کہ امریکی صلاحیت میں انحطاط کا بنیادی سبب ہے۔ اور اس انحطاط میں عسکری سطح بھی شامل ہے"۔
تاہم ایسے بھی لوگ تھے جنہوں نے جلد امریکی انحطاط کی بلکہ اس کی مکمل تباہی کی بھی پیش گوئی کر دی تھی۔ ایسی ہی ایک شخصیت روسی پروفیسر آئیگور پیناریو ہے جس نے 2008ء میں کہا "ابھی اس بات کا 45 سے 55 فیصد امکان ہے کہ امریکہ ٹوٹ جائے گا"۔
ایک دوسرا گروہ بھی ہے جس کے حامیوں کا کہنا ہے کہ امریکہ کا عروج واپس بھی آسکتا ہے۔ یہ رائے رکھنے والوں میں امریکہ کے معتبر مفکرین بھی موجود ہیں۔ مثال کے طور پر بریزنسکی ابھی تک یہ کہتا ہے کہ امریکہ خود کو اس قابل کر لے گا کہ وہ موجودہ چیلنجز سے نبرد آزما ہو سکے۔ اپنی حالیہ کتاب 'تزویراتی نگاہ : امریکہ اور عالمی طاقت کا بحران' میں وہ کہتا ہے کہ:
"امریکہ کیلئے اصل چیلنج اور اگلی کئی دہائیوں تک جغرافیائی طور پر ضروری مشن، خود کو دوبارہ زندہ کرنا ہے اور مؤثر اور وسیع مغرب کی تشہیر کرنا ہے اس کے ساتھ ساتھ مشرق میں ایک مشکل توازن قائم کرنا ہے تاکہ چین کی عالمی ساکھ کو تخلیقی انداز میں جگہ دی جائے اور عالمی انتشار سے بچا جائے۔ یوریشیا میں مستحکم سیاسی، جغرافیائی توازن کے بغیر جو ایک نیا امریکہ کرے گا، معاشرتی بہبود نہیں ہوسکے گی اور انسانی بقاء کا مسئلہ پیدا ہوجائے گا"۔
فرائیڈمین اور مانڈلبام اسی طرح کے جذبات رکھتے ہیں اور یہ یقین رکھتے ہیں کہ امریکہ اپنے مخصوص کردار کی بنا پر مشکل چیلنجز سے نمٹتا ہے۔ اپنی کتاب That Used To Be US What Went Wrong With America- And How It Can Come Back میں وہ کہتے ہیں:
"امریکہ کے مستقبل کے بارے میں امید کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ تاریخ کے سفر میں شاز و نادر ہی ایسا ہوا ہے کہ امریکہ بڑے چیلنجز سے نمٹنے میں ناکام رہا ہو۔ ہماری بڑے چیلنجز سے نمٹنے میں ناکامی دراصل ایک غیر معمولی واقع ہے یا یوں کہا جا سکتا ہے کہ استثنائی ہے۔ جب کبھی بھی آزمائش ہوئی، چاہے اٹھارویں صدی کا انقلاب ہو یا بیسویں صدی کی سرد جنگ امریکہ اور امریکیوں نے کامیابی کی طرف راستے بنائے، سرزمین کا ماضی اس کے پر امید مستقبل کیلئے زرخیز زمین فراہم کرتا ہے"۔
دونوں گروہ جس بات کو رد نہ کر سکے وہ یہ ہے کہ امریکہ انحطاط سے گزر رہا ہے۔ ایک عجیب انداز میں امریکی انحطاط سے ایک اورصورت حال بھی جڑی ہوئی ہے اور وہ مغربی تہذیب اور طاقت کا انحطاط ہے۔ گزشتہ چند سالوں سے شدید ماحول، معاشرتی، معاشی اور سیاسی صورتحال نے مل کر مغربی تہذیب کو شدید کھچاؤمیں مبتلاء کر دیا ہے اور بیشتر ایسا ہوا کہ یہ (تہذیب) ان مسائل، جو کہ ان شدید حالات سے پیدا ہوتے، کو حل کرنے سے عاری رہتی۔
خیر یہ اس مضمون کا موضوع نہیں گو کہ یہ اس سے لا ینحل طور پر جڑا ہوا ہے۔ اس مضمون کا مرکز امریکی انحطاط ہے اور دوسرے مضمون میں ہم اس انحطاط کی وجوہات کو سمجھیں گے۔

Read more...

عوامی بیان: شمالی وزیرستان آپریشن

 

رمضان وہ مہینہ ہےجو چودہ سو سال تک دشمن کفار کے خلاف کامیابی کا مہینہ رہا ہے اور اس مہینے میں مسلمان فتح کی خوشیاں مناتے رہے ہیں۔
اسی ماہِ رمضان میں ایک طرف تو یہودی ریاست مسلمانوں کا پاک خون بے دریغ بہاتی رہی ۔۔۔
اور دوسری طرف راحیل-نواز حکومت شمالی وزیرستان میں امریکی احکامات کے عین مطابق اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے خلاف فوجی آپریشن کرتی رہی۔
اس صورتحال کا سب سے المناک پہلو یہ ہے کہ کفار کے ایجنٹوں نے کئی مہینوں کی پراپگنڈا campaign چلا کر عوام میں اس امریکی آپریشن کے لئے رائے عامہ ہموار کر نے کی پوری کوشش کی ہے۔
لوگ آج ہمیں کہتے ہوئے ملتے ہیں کہ ان دہشت گردوں کے ساتھ یہی ہونا چاہیے۔۔ ان کے خلاف آپریشن درست ہے۔۔۔
ان ایجنٹوں نے میڈیا اورفوج اور حکومت اور فوج کے درمیان اختلاف کا ڈرامہ رچا کر فوج میں لوگوں کویہ باور کروایا کہ لوگ فوج کے خلاف ہیں اور ہمیں اپنی قیادت کے پیچھے متحد ہو جانا چاہیے
چاہے قیاد ت سیاہ کرے یا سفید۔۔۔ حرام کرے یا حلال۔۔۔ امریکی احکامات مانے یا اپنے ذاتی مفاد پورے کرے۔۔۔ ہمیں اپنی قیادت کا ہر حکم آنکھیں بند کر کے ماننا ہے۔۔۔۔
دوسری طرف، عوام میں ایک خوف کی ایسی فضاء قائم کی گئی کہ جو کوئی ان اقدامات کے خلاف آواز بلند کرے گا اسے missing person بنا دیا جائے گا۔۔۔
اسی حوالے سے ایک اور کھوکھلا اور کالا قانون جس کا نام تحفظِ پاکستان ایکٹ رکھا گیا بنایا گیا۔۔۔۔
جس کا مقصد صرف اور صرف اس خوف کی فضاء کو قائم رکھنا ہے۔۔۔
لیکن اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔۔۔
اِنَّمَا ذٰلِكُمُ الشَّيْطٰنُ يُخَوِّفُ اَوْلِيَاۗءَهٗ فَلَا تَخَافُوْھُمْ وَخَافُوْنِ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ
"یہ شیطان ہی تو ہے جو تمہیں اپنے دوستوں (لشکر کفار) سے ڈراتا ہے۔ لہذا اگر تم مومن ہو تو اس سے نہ ڈرو بلکہ صرف مجھی سے ڈرو"
اور ہمیں عوام کو یاد کرانا ہوگا کہ ڈرنے کا حق صرف اللہ ہی سے ہے۔۔۔ اللہ کے علاوہ کسی کا خوف ہمیں حق بات کہنے سے نہ روکے۔۔۔۔
رسول اللہﷺ نے فرمایا:
((أَلَا لَايَمْنَعَنَّ أَحَدَ كُمْ رَهْبَةُ النَّاسِ أَنْ يَقُولَ بِحَقٍّ إِذَا رَآهُ أَوْ شَهِدَهُ فَإِنَّهُ لَا يُقَرِّبُ مِنْ أَ جَلٍ وَلَا يُبَاعِدُ مِنْ رِزْقٍ)) "جب تم میں سے کوئی حق بات کو دیکھ لے تو لوگوں کا خوف اُسے حق کوبیان کرنے سے نہ روکے کہ حق بات کہنا نہ تو موت کو قریب کرتا ہے اور نہ ہی رزق میں کمی کرتا ہے " (احمد)۔
اس سب صورتحال میں ہمیشہ کی طرح حزب التحریر کے مخلص اور بہادر سیاست دان امت کے سامنے اس سازش کو بے نقاب کرنے کے لئے موجود ہیں ۔۔۔
شمالی وزیرستان کے اس آپریشن کی حقیقت کو سمجھنے کے لئے سب سے پہلے ہمیں اس بات کو دیکھنا ہے کہ امریکہ کا اس خطے میں آنے کا مقصد کیا تھا۔
• چا ئنا اور روس کے قریب اپنی military bases بنانا
• وسط ایشاء کی تیل کی دولت پر قبضہ
• مسلمانوں کی واحد نیوکلیئر طاقت، پاکستان میں خلافت کے قیام کو روکنا۔۔۔۔
ان اہداف سے کوئی بھی شخص سمجھ سکتا ہے کہ امریکہ اس خطے میں واپس جانے کے لئے نہیں آیا۔۔۔کیونکہ یہ مقاصد مستقل نوعیت کے ہیں نہ کہ عارضی نوعیت کے۔۔۔۔
جب امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تو اس کا اندازہ یہ تھا کہ کچھ ہی سالوں میں وہ افغانستان میں اپنے مستقل قیام کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گا۔ ۔
لیکن اس کے اندازے غلط ثابت ہوئے ۔۔۔
إِنَّهُ فَكَّرَ وَ قَدَّرَ ۔۔۔ فَقُتِلَ كَيْفَ قَدَّرَ۔۔۔ ثُمَّ قُتِلَ كَيْفَ قَدَّرَ۔۔۔ ثُمَّ نَظَرَ۔۔۔ ثُمَّ عَبَسَ وَ بَسَرَ۔۔۔ ثُمَّ أَدْبَرَ وَ اسْتَكْبَرَ ۔۔۔
"اس نے فکر کیا اور تجویز کی۔۔ یہ مارا جائے اس نے کیسی تجویز کی ۔۔۔ پھر یہ مارا جائے اس نے کیسی تجویز کی
پھر تامل کیا۔۔۔پھر تیوری چڑھائی اور منہ بگاڑ لیا۔۔۔پھر پشت پھیر کر چلا اورغرور کیا" (سورۃ المدثر- 18-23)
پس امریکہ تکبر اور غرورمیں یہ بھول گیا کہ یہ مجاہدین ایک سپر پاور کو پہلے نیست ہ نابود کر چکے ہیں۔۔۔
تو اس جنگ کے 4 سے 5 سالوں بعد امریکہ کو ہوش آنا شروع ہوئی۔۔۔
اور تب انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ اس جنگ کو اب پاکستان کی فوج اور قبائلیوں کے درمیان ہونا چاہئے۔۔۔۔
مشرف کے دور میں وانا آپریشن شروع کیا گیا۔۔۔۔
پاکستان کی افواج میں ایمان رکھنے والے افسران نے اپنے seniors کے غلط احکامات ماننے سے انکار کر دیا۔۔۔
اور آپ کو یاد ہوگا کہ پاک فوج کی ایک پوری یونٹ نے مجاہدین سے لڑنے سے انکار کر دیا تھا۔۔۔ اور کئی دونوں تک ان کے پاس مہمان کے طور پر رہ کر واپس آگئے تھے۔۔۔
اسی طرح پاکستان کے ایک فوجی نے ایک میٹنگ کے بعد امریکی فوجیوں پر فائرنگ کر دی تھی۔۔۔۔
یہ وہ وقت تھا جب ایک طرف امریکہ کے پلان کے عین مطابق غدارِ اعظم مشرف نے لال مسجد کا آپریشن کیا ۔۔۔۔ دوسری طرف بلیک واٹر اور FBI ،CIA کے اہلکاروں نے پاکستان کے افواج اور عام عوام پر حملوں کا سلسلہ شروع کروا دیا۔۔۔
اس وقت کے بعد جب بھی کسی بھی علاقے میں کوئی آپریشن کرنا ہوتا۔۔ ۔ عین اسی علاقے سے کوئی لوگ اٹھتے اور کبھی مہران ائر بیس پر۔۔۔ تو کبھی مون مارکیٹ لاہور میں۔۔۔ کبھی اسلامی یونیورسٹی میں توکبھی پریڈلین میں دھماکے کر نا شروع ہوجاتے۔۔۔۔
اسی طریقے سے امریکی ایجنٹوں نے سوات آپریشن کے لئے رائے عامہ ہموار کی۔۔۔ اور مسلمانوں کے نقصان کا سامان کیا۔۔۔۔
یہی وجہ ہے کہ امریکہ اس قسم کے حملوں اور بم دھماکوں کو "مثبت "سمجھتا ہے۔
12 اکتوبر 2012 کو امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان ویکٹوریہ نولینڈ نے کہا
"یقیناً جس قدر پاکستانی عوام کی رائے عامہ ان (عسکری جنگجوؤں)کے خلاف ہوتی ہے، حکومت کو اُن کے خلاف جانے میں اسی قدرمدد ملتی ہے۔ یہ شاید اس خوفناک سانحہ کا 'مثبت' پہلو ہے"۔
اس سب کچھ کے باوجود امریکہ کی افغانستان میں صورتحال میں کچھ خاص تبدیلی نہ آئی۔۔۔
2008-2009 کے وقت میں افغانستان میں امریکی جنرل Stanley McCrystal نے کھلے الفاظ میں یہ بیان دیا کہ اگر بڑی تعداد میں مزید امریکی فوجی نہ بھیجے گئے تو امریکہ بہت برے طریقے سے افغانستان کی جنگ ہار جائے گا۔۔۔
یہ تھا امریکی فوج کا حال اس جنگ کے شروع ہونے کے 8 سال بعد۔۔۔۔
یہاں سے امریکی اہلکاروں نے پاکستان میں موجود غدار حکمرانوں سے حقانی نیٹورک کے خلاف آپریشن کرنے کی ڈیمانڈ دینا شروع کردی۔۔۔ اور ڈرون حملوں کی ایک بوچھاڑ شروع ہوگئی۔۔۔۔
ہر آنے والا امریکی جرنیل۔۔۔ ہر آنے والا امریکی سیاست دان شمالی وزیرستان میں حقانی نیٹورک کے خلاف آپریشن کرنے کی ڈیمانڈ کرنے لگا۔۔۔۔
لیکن اس وقت کے غدار حکمرانوں کے بس میں یہ نہ تھا کیونکہ عوام میں اور فوج میں امریکہ کے خلاف شدید نفرت تھی اور فوج میں اعلیٰ سطح تک حقانی نیٹورک کو اپناحلیف اور strategic asset مانا جاتا تھا۔۔۔
افواجِ پاکستان کے افسران کے نزدیک شمالی وزیرستان آپریشن کرنا پاگل پن سے کچھ کم نہ تھا۔۔۔
عوام کے خوف اور فوج کے اندر سے ایمان دار مخلص افسران کی مخالفت کے خوف سے امریکی ایجنٹوں کو یہ آپریشن ملتوی کرنا پڑا۔۔۔
اور پھرامریکی فوجوں کا پاکستان کی سرحدوں میں گس کر ، فوج کی اہم ترین کنٹونمنٹ ، ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے خلاف کاروائی اور کچھ ہی مہینوں بعد سلالہ پر پاک فوج کی پوسٹ پر امریکی حملے نے امریکہ کے خلاف جذبات کو کئی گناہ بڑھا دیا۔۔۔۔
انہی حالات کے بارے میں میجر جنرل اطہر عباس نے پول کھولا۔۔۔ کہ فوج کو 2011 میں اس آپریشن کے لئے تیار کیا جا چکا تھا۔۔۔
تو آخر کیوں یہ آپریشن نہیں کیا گیا۔۔۔ صرف اسی وجہ سے کہ یہ آپریشن امریکہ کی خاطر کرنا تھا۔۔۔ اور عوام اور فوج اس وقت امریکہ سے نفرت کے شدید جذبات رکھتے تھے۔۔۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد ہے:
إِنَّمَا يَنْهَاكُمْ اللَّهُ عَنْ الَّذِينَ قَاتَلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَأَخْرَجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ وَظَاهَرُوا عَلَى إِخْرَاجِكُمْ أَنْ تَوَلَّوْهُمْ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ فَأُوْلَئِكَ هُمْ الظَّالِمُونَ
"اللہ تعالیٰ تمھیں ان لوگوں سے محبت کرنے سے روکتا ہے جنہوں نے تم سے دین کی وجہ سے جنگ کی اور تمہیں تمھارے وطن سے نکالا اورتمہیں نکالنے میں دوسروں کی مدد کی، توجو لوگ ایسے کفار سے محبت کریں وہی لوگ ظالم ہیں" (الممتحنہ: 9)۔
اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قَاتِلُوا الَّذِينَ يَلُونَكُمْ مِنْ الْكُفَّارِ وَ لْيَجِدُوا فِيكُمْ غِلْظَةً وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ
"اے ایمان والو! ان کفار سے لڑو جو تمھارے آس پاس ہیں اور ان کو تمھارے اندر سختی پانا چاہیے اور جان رکھو کہ اللہ تعالیٰ متقی لوگوں کے ساتھ ہے" (التوبہ: 123)
اور اب جب امریکہ افغانستان کی حکومت سے اپنی Military Basesکو ایک مستقل حیثیت دینے کے لئے معاہدہ کر رہا ہے۔۔۔ تاکہ وہ اس خطے میں ایک چھوٹی تعداد میں اپنی افواج کو مستقل مقیم رکھ سکے تو اس کے لئے سب سے بڑا چیلنج وہ مجاہدین ہیں جو اس کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کے لئے تیا ر نہیں ہیں۔۔۔
ظاہر ہے امریکی فوجوں کی تعداد اگر کم ہو گی تو مجاہدین کے لئے امریکہ کو فیصلہ کن شکست دینا بالکل ممکن ہوگا۔۔۔ تو امریکہ کے لئے شمالی وزیرستان کے مجاہدین کے خلاف آپریشن بالکال ناگزیر ہو چکا ہے۔۔۔
ایسے وقت میں پاکستان کی سول اور فوجی قیادت میں موجود غداروں نے اس امریکی پلان کے عین مطابق فوج کو تیار کرنا شروع کیا۔۔۔
عارضی مذاکرات کا ایک ڈرامہ رچایا گیا۔۔۔۔
اسلام آباد کچہری اور کراچی ایئر پورٹ پر انتہائی مشکوک انداز میں حملے کروائے گئے۔۔
ان 'مثبت' حملوں سے عوام اور فوج کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کی گئی کہ دراصل شمالی وزیرستان میں آپریشن پاکستان کی بقا کے لئے ضروری ہے۔۔۔
ان دہشت گردوں سے لڑنے کی وجہ امریکی جنگ نہیں بلکہ یہ جنگ تو پاکستان کی جنگ ہے۔۔۔
اور پھر میڈیا پر ملی نغمے بجنے لگے۔۔۔ سوشل میڈیا پر خارجیوں کے فتوے لگنے لگے۔۔۔۔ اور یہ تائثر دیا جانے لگا کے یہ جنگ پاکستان کی جنگ ہے ۔۔۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ جنگ۔۔۔ اور خاص طور پر یہ آپریشن صرف اور صرف امریکہ کے لئے ہے۔۔۔
اس آپریشن کا مقصد افغانستان میں ناجائز امریکی قبضے کو استقامت دینا ہے۔۔۔
اس کا فائدہ صرف امریکہ کو ہے۔۔۔
اس کے پیچھے صرف امریکہ ہے۔۔۔۔
اور اس بات کی چار دلیلیں میں ابھی آپ کے سامنے رکھنا چاہوں گا۔۔۔
پہلی دلیل : اس آپریشن کے شروع ہونے سے چند ہفتوں قبل امریکہ کے نائب سیکریٹری خارجہ ویلیم برنز نے 9 مئی 2014 کو پاکستان کا دورہ کیا
اور سیاسی و فوجی قیادت میں موجود اپنے ایجنٹوں سے ملاقاتیں کیں
اور انہیں شمالی وزیرستان میں اُن جنگجوؤں کے خلاف کاروائی کا حکم دیا جو افغانستان میں امریکی افواج کے خلاف محاذ آرا ہیں۔
دوسری دلیل : پھراس آپریشن سے کچھ دن پہلے امریکی کانگریس نے پاکستان کی امداد کو شمالی وزیرستان میں آپریشن سے مشروط کردیا
تیسری دلیل : آپریشن شروع ہونے کے ساتھ ہی امریکہ نے شمالی وزیرستان میں آپریشن کے لئے کولیشن سپورٹ فنڈ(CSF)سے پاکستان کو رقم بھی فراہم کردی ۔
اور چوتھی دلیل: یہ کہ جب یہ آپریشن شروع ہوا۔ پاکستان افواج کےchairman joint chiefs of staff committee جنرل راشد محمود امریکی فوج کے ہیڈکوارٹر pentagon میں پورے ایک ہفتے کے ٹوئر پر موجود تھے۔۔۔
یقیناً شمالی وزیرستان کا آپریشن صرف امریکہ کو افغانستان میں اپنے ناجائز قبضے کو قائم رکھنے کے لئے کیا جا رہا ہے۔۔۔
شمالی وزیرستان کا یہ آپریشن صرف قبائلی مجاہدین سے غداری نہیں بلکہ پاکستان کے مسلمانوں سے غداری ہے۔۔۔
اور یہ صرف پاکستان کے عام مسلمانوں سے غداری نہیں بلکہ سب سے بڑھ کر یہ پاکستان کی افواج سے غداری ہے۔۔۔
ایسے میں میری آپ سب حضرات سے یہ گزارش ہے کہ آپ ہمارے ساتھ ملکر اس سازش کو بےنقاب کرنے میں ایک کردار ادا کریں۔۔۔
ہمیں امت کو یادکرانا ہوگا کہ یہ جنگ حقیقت میں امریکی جنگ ہے اور یہ آپریشن اصل میں امریکی ایماء پر کیا جا رہا ہے۔۔۔
ہمیں امت کو یاد کرانا ہوگا کہ مسلمان امت ایک امت ہے۔۔۔اور مسلمانوں سے لڑنے کی یہ جنگ فتنے کی جنگ ہے۔ ۔۔
اور پاکستان کی افواج کو اپنے مسلمان بھائیوں سے لڑنے کی بجائے غزہ میں یہودی ریاست سے لڑنا چاہئے۔۔۔ آج فلسطین میں ہمارے مسلمان بھائی ہماری افواج کو پکار رہے ہیں ۔۔۔ آخر پاکستان نے یہ ایٹمی ہتھیاراور میزائل کس لیے بنائے تھے۔۔۔ یہ وقت ہے ان ہتھیاروں کو یہودی ریاست کے خلاف استعمال کرنے کا۔۔۔
ہمیں امت کو یاد کرانا ہوگا حکمرانوں کا محاسبہ کرنا ہم سب پر لازم ہے اور اس عمل میں کوتاہی اللہ کے عذاب کا موجب ہے۔
رسول اللہﷺ نے فرمایا:
((إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لَا يُعَذِّبُ الْعَامَّةَ بِعَمَلِ الْخَاصَّةِ حَتَّى يَرَوْا الْمُنْكَرَ بَيْنَ ظَهْرَانَيْهِمْ وَهُمْ قَادِرُونَ عَلَى أَنْ يُنْكِرُوهُ فَلَا يُنْكِرُوهُ فَإِذَا فَعَلُوا ذَلِكَ عَذَّبَ اللَّهُ الْخَاصَّةَ وَالْعَامَّةَ)) "اللہ خاص لوگوں کے عمل کی وجہ سے عام لوگوں کو سزا نہیں دیتا۔ لیکن اگر ان کے سامنے منکر رونما ہو اور وہ اس کو روکنے کی صلاحیت رکھتے ہوں لیکن نہ روکیں تو پھر اللہ خاص و عام دونوں کو سزا دے گا" (احمد)۔
اور اس سب کچھ کے ساتھ ہمیں امت کو یہ یاد کروانا ہے کہ کفار کی ان شازشوں سے بچنے کا طریقہ صرف اور صرف خلافت کا قیام ہے۔۔۔
رسول اللہﷺ نے فرمایا،
إِنَّمَا الْإِمَامُ جُنَّةٌ يُقَاتَلُ مِنْ وَرَائِهِ وَيُتَّقَى بِهِ
"یقیناً خلیفہ ایک ڈھال کی مانندہے جس کے پیچھے رہ کر لڑا جاتا ہے اور اس کے ذریعے تحفظ حاصل ہوتا ہے"۔
اللہ تعالیٰ ہمیں کفار کی شازشوں کو بے نقاب کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔۔۔ اور جلد ہمیں مسلمانوں کی ڈھال یعنی خلافت عطاء فرمائے ۔۔۔ آمین۔ ۔۔

Read more...

کیا امریکہ کا زوال حقیقی ہے یا خیالی؟ (حصہ سوئم)

تین حصوں پر مشتمل اس مضمون کے آخری حصے میں عابد مصطفٰی اس بات پر بحث کرتے ہیں کہ آیا پچھلی ایک دہائی میں دنیا میں امریکہ کے وقار میں کمی آئی ہے یا نہیں۔ خصوصاً انہوں نے دنیا کے مسائل کے حل کرنے کے حوالے سے امریکہ کی سیاسی صلاحیت پر بحث کی ہے۔

پچھلے مضمون میں قوموں کے زوال کے اسباب کا تعین کیا گیا تھا اور ان اسباب میں سب سے اہم سوچ کی تین اقسام: سیاسی، فکری اور قانونی اور دنیا میں دوسری قوموں کے مقابلے میں کسی ایک قوم پر اس کے کیا اثرات ہوتے ہیں، پر بحث کی گئی تھی۔ یہ بات مشہور و معروف ہے کہ سب سے اہم سوچ سیاسی سوچ ہوتی ہے اور اس کے دوسری کسی بھی قسم کی سوچ پر سب سے زیادہ گہرے اثرات ہوتے ہیں۔ لہٰذا، مضمون کو مختصر رکھنے کے لئے ہم صرف سیاسی سوچ کے حوالے سے امریکہ کے زوال کے متعلق بات کریں گے۔ امریکہ کے زوال پر ہر قسم کی سوچ کے حوالے سے بحث کرنا اس مضمون کی حدود سے باہر ہے۔
امریکہ کے سیاسی زوال پر بحث کرتے ہوئے اس کے اندرونی اور بیرونی معاملات کو سامنے رکھاجانا چاہیے لیکن کیونکہ اس مضمون کو ایک مخصوص حد میں رکھنا ہے اس لئے میں صرف امریکہ کے بیرونی معاملات پر توجہ مرکوز کروں گا۔ لیکن یہ بات واضح رہے کہ ایک نظریاتی ریاست میں اندرونی اور بیرونی معاملات ایک دوسرے سے جڑے ہوتے ہیں۔ اگر اندرونی معاملات پر سیاسی سوچ میں زوال رونما ہوگا تو اس قوم کی بیرونی معاملات میں کارکردگی متاثر ہو گی اور بیرونی معاملات میں شدید سیاسی غلطیاں اندرونی معاملات کے لئے انتہائی خطرناک ثابت ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر امریکی حکومت کے 2008 میں پیدا ہونے والے معاشی بحران کو روکنے میں ناکامی نے اس کے اندرونی اور بیرونی دونوں طرح کے معاملات کو متاثر کیا۔ جبکہ دوسری جانب عراق و افغانستان کی جنگوں کے نتائج نے امریکہ کو بیرونی دنیا کے معاملات میں مداخلت کے حوالے سے بہت زیادہ محتاط رویہ اپنانے پر مجبور کردیا اور اس بنا پر امریکہ میں اس پر بہت بات کی گئی کہ بیرونی دنیا میں امریکہ کا کیا کردار ہونا چاہیے۔
28 مئی 2014 کو امریکی صدر اوبامہ نے امریکہ کی ویسٹ پوائنٹ ملٹری اکیڈمی کے گریجویٹس سے خطاب کرتے ہوئے امریکہ کو بین الاقوامی میدان میں درپیش مسائل پر ایک اہم بیان دیا۔ اس نے کہا کہ "امریکہ کو لازمی ہمیشہ دنیا کے امور پر رہنمائی فراہم کرنی ہے۔ اگر ہم نہیں کریں گے تو کوئی دوسرا نہیں کرے گا۔ یہ فوج جس میں آپ نے شمولیت اختیار کی ہے، اس عالمی قیادت کی کمر ہے اور رہے گی۔ لیکن ہر معاملے میں صرف فوجی حل یا اس کا اہم کردار ہماری قیادت کا لازمی حصہ نہیں ہوسکتا۔ محض اس وجہ سے کہ ہمارے پاس بہترین ہتھوڑا ہے، اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہر مسئلے کا حل کیل ہے"۔ یہ بیان اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ امریکہ نے پیچیدہ سیاسی مسائل کے حل کے لئے فوجی قوت پر بہت زیادہ انحصار کیا ہے اور اس کے نتیجے میں دنیا میں امریکہ کے سیاسی اثرو رسوخ میں کمی واقع ہوئی ہے۔ سیاسی اثرو رسوخ ضروری ہے، محض اس لئے نہیں کہ سیاسی حل پیش کیے جاسکیں بلکہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ ان کو نافذ بھی کیا جاسکے۔ اوبامہ کا اپنی تقریر میں فوجی قوت کو "اہم حصہ" قرار دینا اس بات کا ثبوت ہے کہ کئی سالوں بعد پہلی دفعہ بین الاقوامی مسائل کے حل کے لئے امریکہ کو اپنے سیاسی اثرورسوخ کو استعمال کرنے میں شدید مشکلات درپیش ہیں۔ اس لحاظ سے بین الاقوامی امور میں سیاسی حل پیش کرنے کے لئے سیاسی اثرو رسوخ کا ہونا کسی ملک کی سیاسی سوچ کے عروج و زوال کو جاننے سے متعلق ایک حقیقی پیمانہ ہے۔
امریکہ کے سیاسی اثرورسوخ سے مراد یہ ہے کہ امریکہ دوسری اقوام کے رویے کو اس طرح سےبدل سکے کہ وہ امریکہ کی جانب سے پیش کیے گئے سیاسی حل کو قبول اور نافذ کرنے پر مجبور ہوجائیں۔ اس بات کا عملی مظاہرہ یہ ہوگا کہ سیاسی اثرورسوخ کی بنا پر امریکہ کے پاس یہ صلاحیت ہو کہ وہ کسی بھی ملک کو اپنے قابو میں رکھ سکے یعنی اس کے حکمران، حکومت، سیاسی میدان، ریاستی ادارے (جیسا کہ عدلیہ، بیوروکریسی وغیرہ) اور فوج۔ اور اس صلاحیت کا اصل مقصد یہ ہوتا ہے کہ اس ملک کے لوگ امریکہ کی جانب سے دیے گئے سیاسی حل کی مخالفت نہ کریں یا نہ کرسکیں۔
کسی ملک پر جس قدر زیادہ سیاسی اثرو رسوخ ہوگا تو اسی قدر کم فوجی قوت کے استعمال کی ضرورت پیش آئے گی۔ اسی طرح اس بات کا الٹ بھی بالکل صحیح ہے یعنی جس قدر سیاسی اثرورسوخ کم ہو گا اسی قدر فوجی قوت کے استعمال کی ضرورت پیش آئے گی۔ یہاں پر فوجی قوت سے مراد سیاسی حل کو قبول کرنے یا نافذ کرنے کے حوالے سے رکاوٹوں کو عملی طور پر ہٹانا ہے۔
اس بات کی وضاحت کرنے کے لئے کہ کس طرح امریکہ کا بین الاقوامی سطح پر سیاسی اثرورسوخ کم ہوا ہے درج ذیل مثالیں ملاحظہ فرمائیں۔
ہم سب کو یاد ہے کہ کس طرح بش جونیئر ابراہم لنکن پر "مشن مکمل ہوا" کے بینر تلے تکبر کے ساتھ کھڑے ہو کر عراق کی فتح کی تقریر کررہا تھا۔ اس نے کہا کہ "اس جنگ میں ہم نے آزادی اور دنیا کے امن کے لئے لڑائی کی۔ ہماری قوم اور ہمارے اتحادی اس مقصد کے حصول پر فخر کرتے ہیں.....عراق کی جنگ میں امریکہ اور اس کے اتحادی فاتح رہے"۔ اس فتح مندی کی تقریر میں اس گوریلہ جنگ کی حقیقت کو چھپایا گیا تھا جس نے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو اپنی گرفت میں لے لیا تھا۔ امریکہ نے جلد ہی یہ جان لیا تھا کہ وہ عراق کی دلدل میں پھنس گیا ہے اور وہ اس دلدل سے نکلنے میں شدید دشواریوں کا سامنا کررہا ہے۔ یہ دلدل اس قدر مشکل تھی کہ جنگ کے اغراض و مقاصد: عراق میں جمہوریت کو پروان چڑھانا، تیل کی قیمتوں کو انتہائی کم کرنا اور فوجی اڈوں کا قیام تا کہ ہمسائیہ ممالک میں حکومتیں تبدیل کی جاسکیں، جلد بھلا دیے گئے۔ اس کی جگہ امریکہ ایک گوریلہ جنگ میں پھنس گیا اورعراق کے بنیادی مسائل، تحفظ کی فراہمی اور ایک کام کرنے والی حکومت کے قیام کو حل کرنا اس کے لئے مشکل ہوگیا۔
اور پھر جب معاملات کسی حد تک قابو میں آئے اور امریکہ اس قابل ہوا کہ اپنی مرضی کا آدمی چُن سکے جو عراق کی کمزور حکومت، کمزور اداروں اور کمزور فوج کو چلا سکے تو امریکہ عراق سے نکل گیا اور پیچھے عدم استحکام اور بدامنی کا آفریت چھوڑ گیا۔ باوجود اس کے کہ عراق کے تمام ریاستی ادارے امریکہ کے کنٹرول میں تھے، امریکہ کے پاس عراق کے سب سے بڑے مسئلے یعنی عدم استحکام کے حل کے لئے سیاسی اثرورسوخ انتہائی کم تھا۔ عراق اس بات کی بڑی واضح مثال ہے کہ جہاں امریکہ نے بھرپور فوجی قوت استعمال کی لیکن وہ سیاسی طور پر ناکام رہا۔ آج عراق کے صورتحال بد سے بدتر ہو چکی ہے اور ملک کسی بھی وقت ٹوٹ سکتا ہے۔ ایک بار پھر امریکہ عراق کو ٹکڑے کرنے کے لئے خفیہ فوجی ذرائع استعمال کررہا ہے اور اس بات کی امید کررہا ہے کہ اس طرح وہ عراق کے مختلف حصوں میں استحکام قائم کرنے میں کامیاب ہو جائے گا۔
اسی طرح افغانستان میں امریکہ کی کارکردگی عراق سے بھی زیادہ خراب ہے۔ فوجی لحاظ سے امریکہ طالبان کو شکست دینے میں ناکام رہا ہے۔ لیکن سیاسی محاذ پر امریکہ کی ناکامی، فوجی ناکامی سے بھی بڑھ کر ہے۔ 2001 میں ہونے والی بون کانفرنس کے وقت سے ہی امریکہ افغانستان میں ایک ایسی کامیاب حکومت قائم کرنے میں ناکام رہا ہے جس کی عملداری کابل تک ہی محدود نہ ہو۔ امریکی سیکریٹری خارجہ کی جانب سے عبداللہ اور غنی کے درمیان اختلافات کو ختم کرانے کے لئے جو معاہدہ کرایا گیا ہے وہ اس سلسلے کی ہی ایک مثال ہے۔ اس میں کوئی حیرانی کی بات نہیں کہ پہلے بھی امریکہ کو اپنی حکمت عملی تبدیل کرنا پڑی اور انخلاء کو کئی بار مؤخر کرنا پڑا۔ اور بالآخر مئی 2012 میں شکاگو میں ہونے والی نیٹو کانفرنس کے دوران امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے اپنی شکست تسلیم کرلی۔ اس کانفرنس کے بعد جو مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا اس میں تمام اتحادیوں کی جانب سے اس خواہش کا اظہار کیا گیا کہ افغانستان میں شروع کی جانے والی اس مہم جوئی کو اب ختم کیا جائے۔ اس اعلامیہ میں کہا گیا کہ "دس سال کی جنگ کے بعد اور جبکہ عالمی معیشت مشکلات کا شکار ہے، مغرب کی اقوام ایک ایسی جگہ پر اپنی توانائیاں نہ تو پیسے کی صورت میں خرچ کرنا چاہتی ہیں اور نہ ہی جانوں کی صورت میں جہاں صدیوں سے غیر ملکی کوششوں کی مزاحمت کی گئی ہے"۔
امریکہ کی سیاسی ناکامی صرف مشرق وسطٰی اور یوریشیا تک ہی محدود نہیں ہے۔ افریقہ میں امریکہ کی سیاسی اثرورسوخ کو بڑھانے کی کوشش بھی بری طرح سے ناکام رہی ہے۔ جولائی 2011 میں جنوبی سوڈان نے امریکی نگرانی میں ہونے والے استصواب رائے میں بڑی تعداد میں سوڈان سے علیحدگی کے حق میں رائے کا اظہار کیا۔ نیا ملک امریکہ نے سوڈان میں سے نکال کر بنایا تاکہ جنوب میں موجود تیل کے ذخائر پر کنٹرول حاصل کرسکے اور چین کے اثرو رسوخ کو محدود کرسکے۔ دو سال بعد اس نئے ملک میں مکمل خانہ جنگی شروع ہو گئی۔ جنوبی سوڈان کے اس انجام نے اس نئے ملک سے متعلق امریکہ کی جانب سے دِکھائی جانی والی امید پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ نیویار ک ٹائمز نے اس حوالے سے لکھا کہ "جنوبی سوڈان کئی حوالوں سے امریکہ کی تخلیق ہے۔ اس کے کمزور اداروں کو امریکہ نے اربوں ڈالر دے کر کھڑا کیا ہے۔ لیکن ایک زبردست اور خوفناک تنازعہ نے اوبامہ انتظامیہ کو افریقہ میں ہونے والی اس امریکی کامیابی کو بچانے کی کوششیں کرنے پر مجبور کردیا ہے"۔ ناکامی کے اس سلسلے میں جنوبی سوڈان واحد مثال نہیں ہے بلکہ افریقہ میں کئی اور ممالک بھی امریکہ کی سیاسی ناکامی کی کہانی بیان کرتے ہیں جہاں امریکہ حکومت، شہری اداروں اور اور فوج کو کنٹرول تو کرتا ہے لیکن اس کے باوجود تحفظ اور اچھی حکمرانی کے حوالے سے پائیدار سیاسی حل دینے سے قاصر ہے۔
امریکہ کے روس کے ساتھ تعلقات میں بہت ہی بُرا موڑ آیا ہے۔ ایک وہ وقت تھا جب مشرقی یورپ میں امریکہ طاقت کا سرچشمہ تھا اور اس کا سیاسی اثرورسوخ دور دور تک پھیلا ہوا تھا۔ روس عمومی طور پر پیچھے ہوتا تھا خصوصاً کلنٹن کے دور میں جب نیٹو اور یورپی یونین تیزی سے پھیل رہی تھی۔ لیکن پچھلے چھ سالوں میں امریکہ کے لئے حالات بہت زیادہ خراب ہو گئے ہیں۔ ابخازیہ اور جنوبی اوسیشیا کے خطوں کی جارجیا سے علیحدگی اور ان پر روس کے قبضے سے لے کر کریمیا کی روس میں شمولیت تک، روس نے مسلسل امریکہ کی بالادستی کو چیلنج کیا ہے اور امریکی اثرورسوخ کو ناصرف قفقاز بلکہ وسط ایشیا کے ممالک جیسے ازبکستان اور کرغستان سے باہر دھکیل دیا ہے۔ امریکہ کے سابق سیکریٹری دفاع رابرٹ گیٹس نے وال سٹریٹ جرنل میں لکھا کہ "ہم روس کو اپنا ساتھی بنانا چاہتے تھے لیکن پوٹن کی قیادت میں اب ایسا ممکن نہیں ہے۔ اس نے جو چیلنج کیا ہے وہ کریمیا یا یوکرین تک محدود نہیں ہے۔ اس کے اقدامات نے سرد جنگ کے بعد کے ورلڈ آرڈر کو چیلنج کیا ہے اور اس سے بڑھ کر آزاد ریاستوں کو اس بات کا حق ہونا کہ وہ جس کے ساتھ چاہیں تعلقات قائم کریں یا کاروبار کریں "۔ 1990 کی ابتداء سے امریکہ نے سوویت یونین کے خاتمے کے بعد پیدا ہونے والے خلا ءکو اپنے سیاسی اثرورسوخ سے پُر کرنے کی کوشش کی ہے لیکن اب کچھ عرصے سے پوٹن نے ان تمام کوششوں پر پانی پھیر دیا ہے۔ اور اب امریکہ کو پہلے سے بھی زیادہ طاقتور روس کا سامنا ہے جو امریکہ کے لئے ایسی مشکلات پیدا کررہا ہے جو پہلے نہیں تھیں۔ لہٰذا یہ امریکی پالیسی کی واضح ناکامی ہے۔
اس کے علاوہ ایشیا پیسفک میں امریکہ کے مدمقابل چین ہے۔ یہاں بھی ایک ابھرتی ہوئی طاقت چین کو ایک علاقائی طاقت تک محدود کرنے کی امریکی پالیسی ناکام ہوتی نظر آتی ہے۔ کئی برسوں سے ایشیا پیسفک میں امریکہ کی پالیسی رہی ہے کہ وہ چین کے ہمسائیہ ممالک کی مدد سے ایک زبردست سکیورٹی حصار قائم کرنے کی کوشش کرے جس کا مقصد چین کو اس کی اپنی سرحدوں کے اندر ہی محدود کرنا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ چین نے اس سکیورٹی حصار کو کئی بار مختلف زمینی تنازعات اور جارحانہ فوجی نقل و حرکت کے ذریعے توڑا ہے جس کے نتیجے میں امریکہ کو اپنی دفاعی قوت کو بڑھانا پڑا۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق چین کی یہ نقل و حرکت اتفاقی نہیں لگتی۔ اخبار لکھتا ہے کہ "تمام ایشیا میں چین امریکی اتحادیوں پر دباؤ ڈال رہا ہے، اس بات کی کوشش کررہا ہے کہ ان ممالک کے تعلقات کو کمزور کیا جائے جو امریکہ سے قریب ہیں اور جن کی وجہ سے اس خطے میں امریکہ کو دوسری جنگ عظیم سے بالادستی حاصل ہے"۔
چین کی اس نئی خود اعتمادی کو روکنے کے لئے اوبامہ انتظامیہ کو "یو۔ایس پیوٹ ٹو ایشیا" کے نام سے ایک پالیسی کا اجرا کرنا پڑا جس کے تحت امریکہ اپنی بحری قوت کے ساٹھ فیصد حصے کو یورپ سے ہٹا کر ایشیا پیسفک منتقل کردے گا۔ اس کے علاوہ امریکہ ایشیا پیسفک میں موجود ممالک کے ساتھ پرانے دفاعی معاہدوں کی تجدید اور ان کی وسعت کو توسیع دے رہا ہے جیسا کہ جاپان کو اس بات کی اجازت دینا کہ وہ اپنے آئین کو تبدیل کرے تاکہ ٹوکیو زیادہ بڑا کردار ادا کرسکے۔ لیکن ان تمام اقدامات کے باوجود امریکی اتحادی مطمئن نہیں ہیں اور واشنگٹن کے طویل مدتی کردار کے حوالے سے سوالات اٹھاتے رہتے ہیں۔ رائیٹرز لکھتا ہےکہ "ایشیائی اتحادیوں میں اس حوالے سے تشویش پائی جاتی ہے کہ اگر وہ چین کی جارحیت کا شکار ہوئے تو ان ممالک کے دفاع کے حوالے سے معاہدوں کے باوجود امریکہ نقصانات کو محدود کرنے کی غرض سے چین کے ساتھ اپنے انتہائی اہم تعلقات کو بچانے کی کوشش کرے گا کیونکہ چین دوسری بڑی عالمی معیشت ہے"۔
یہ چند مثالیں ہیں جہاں پچھلی ایک دہائی کے دوران امریکہ کی سیاسی قوت میں نمایاں کمزوری واقع ہوئی ہے۔ اسی طرح دوسرے براعظموں میں موجود ممالک سے متعلق امریکی سیاسی قوت میں کمی کی کئی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔ لہٰذا یہاں چند مثالوں کو پیش کرنا ضروری ہے۔
1۔ بیرونی دنیا میں امریکی سیاسی اثرورسوخ میں کمی سب سے پہلے بش جونیئر کے دور میں واقع ہوئی جب امریکہ نے 2003 میں عراق پر حملہ کیا۔ کسی بھی پیمانے کے لحاظ سے یہ ایک بہت ہی برا سیاسی فیصلہ تھا جس نے امریکی خارجہ پالیسی کے لئے کئی مشکلات پیدا کردیں۔ اگر عراق صدر بش کی سٹریٹیجک غلطی تھی تو شام کے مسئلے کے حل میں ناکامی اوبامہ کی سٹریٹیجک غلطی ہے اگرچہ ابھی یہ غلطی عراق کی غلطی کے درجہ کی نہیں لیکن کبھی بھی ہوسکتی ہے۔
2۔ امریکہ کی سیاسی قوت میں کمی اس وقت واقع ہورہی ہے جب امریکہ کی فوجی قوت اپنی بلندیوں پر ہے۔ لیکن اس کے باوجود امریکہ اپنی فوجی قوت کو سیاسی فائدے میں تبدیل نہیں کرسکا۔ امریکہ ممالک کو تباہ وبرباد کرنے میں تو ماہر ہے لیکن ان قوموں کو کھڑا کرنے میں انتہائی ناکام بھی ہے۔ قوموں کو کھڑا کرنے کے لئے ایک زبردست سیاسی فکر کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ لوگوں کے معاملات کو منظم کرنا ہوتا ہے لیکن ان کو تباہ کرنے کے لئے محض ان کے معاملات کو اپنے ہاتھ میں لینے کا حق جتانا ہوتا ہے۔
3۔ جہاں جہاں امریکہ کا سیاسی اثرورسوخ کم ہورہا ہے وہاں یا تو امریکہ کو کسی اہم قوت کی جانب سے سیاسی چیلنج درپیش ہے جیسا کہ یوکرین، یا پھر مقامی لوگوں کی جانب سے چیلنج کا سامنا ہے جن میں سیاسی بیداری پیدا ہوگئی ہے جن کی قیادت سیاسی تحریکیں کررہی ہیں۔ زیادہ تر مسلم ممالک اس دوسری قسم کے چیلنج کے زمرے میں آتے ہیں۔
4۔ اس بات میں کوئی مبالغہ آرائی نہیں ہے کہ 1980 اور 1990 کے مقابلے میں 2003 سے اب تک امریکہ نے خارجہ پالیسی کے معاملے میں کوئی ایک بھی کامیابی حاصل نہیں کی ہے۔ جو چند ایک سیاسی کامیابیاں حاصل بھی کیں تو وہ جلد ہی ناکامیوں میں تبدیل ہوگئیں اور کچھ تو اس کے لئے ایک ڈراؤنا خواب ہی بن گئیں۔
5۔ یہ مسلم دنیا ہے جہاں امریکہ کا سیاسی اثرورسوخ تیزی سے گر رہا ہے جبکہ کئی ممالک میں اہم ترین اداروں پر وہ اب بھی زبردست اثرورسوخ رکھتا ہے جیسا کہ پاکستان، شام اور مصر وغیرہ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان ممالک کی آبادی صرف امریکہ مخالف نہیں ہے بلکہ اس نے مغربی ثقافت اور نظریے سے بھی تعلق توڑ لیا ہے۔ یہ صورتحال بغیر فوجی قوت کے استعمال کے سیاسی معاملات کو حل کرنے کی امریکی صلاحیت کو شدید متاثر کرتی نظر آتی ہے۔
امید کی جاتی ہے کہ اس تین اقساط پر مشتمل مضمون میں پیش کیے جانے والے تصوارت سے قاری مستفید ہوں گے اور انہیں استعمال کرتے ہوئے قوموں کے عروج و زوال کے سلسلے کو سمجھنے میں کامیاب ہوں گے۔

Read more...

سوال اور جواب: داعش کی جانب سے خلافت کے قیام کے اعلان کے حوالے سے

 

تمام بھائیوں اور بہنوں کی جانب جنہوں نے ایک تنظیم کی جانب سے ریاست خلافت کے قیام سے متعلق سوال پوچھا اور آپ سب کے نام نہ لکھنے پر میں معذرت خواہ ہو ں کیونکہ ایک لمبی فہرست بن رہی ہے۔
اسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبراکاتہ
ہم پہلے بھی ایک مناسب جواب بھیج چکے ہیں اور میں ایک بار پھر یہ کہتا ہوں:
عزیز بھائیو اور بہنوں!
1- کسی بھی گروہ کے لئے، جس نے کسی جگہ خلافت کے قیام کا اعلان کرنا ہے، یہ ضروری ہے کہ وہ اس معاملے میں رسول اللہﷺ کے طریقہ کار کی پیروی کرے، اوراس منہج کے مطابق اس گروہ کے لئے اس جگہ پر واضح نظر آنے والا اختیار ہونا ضروری ہے تاکہ وہ اس جگہ پر اندرونی اور بیرونی سلامتی کو برقرار رکھ سکے اور جس جگہ خلافت کا اعلان کیا جا رہا ہواس جگہ میں وہ تمام خصوصیات ہونا ضروری ہیں جو کسی بھی ایک ریاست میں موجود ہوتی ہیں ۔۔۔ جب رسول اللہﷺ نے مدینہ میں اسلامی ریاست قائم کی تو انہوں نے مندرجہ ذیل صلاحیتیں حاصل کیں: اتھارٹی رسول اللہﷺ کے پاس تھی اور اندرونی و بیرونی سلامتی مسلمانوں کے ہاتھ میں تھی اور جو کچھ ایک ریاست میں ہونا چاہیے وہ مدینہ اور اس کے آس پاس کے علاقے میں موجود تھا۔
2- جس گروہ نے خلافت کے قیام کا اعلان کیا ہے نہ تو اس کے پاس اتھارٹی ہے، چاہے عراق ہو یا شام اور نہ ہی ان کے پاس یہ صلاحیت ہے کہ وہ اندرونی و بیرونی سلامتی کو برقرار رکھ سکیں۔ انہوں نے ایک ایسے شخص کو بیعت دی ہے جو کھل کر عوام کے سامنے بھی نہیں آسکتا بلکہ اس کی صورت حال اب بھی خفیہ ہے جیسا کہ ریاست کے قیام کے اعلان سے قبل تھی اور یہ عمل رسول اللہﷺ کے عمل سے متناقض ہے۔ رسول اللہﷺ کو ریاست کے قیام سے قبل غار ثور میں چھپنے کی اجازت تھی لیکن ریاست کے قیام کے بعد انہوں نے لوگوں کے امور کی دیکھ بھال سنبھال لی، افواج کی قیادت کی، مقدمات میں فیصلے سنائے، اپنے سفیر بھیجے اور دوسروں کے سفیر قبول کیے اور یہ سب کھلے عام، عوام کے سامنے تھا، لہٰذا رسول اللہ ﷺ کی صورتحال ریاست کے قیام سے قبل اور بعد میں بالکل مختلف تھی۔۔۔ اسی لیے اس گروہ کی جانب سے ریاست کے قیام کا اعلان محض ایک جذباتی نعرہ ہے جس میں کوئی وزن نہیں ہے۔ یہ بالکل ویسے ہی ہے جیسا کہ اس سے قبل بھی لوگ محض اپنی تسکین کے لئے بغیر کسی جواز اور وزن کےریاست کے قیام کا اعلان کرچکے ہیں ۔۔۔ تو کچھ تو وہ ہیں جنہوں نے خود کو خلیفہ کہلوایا اور کچھ نے خود کو مہدی کہلوایا جبکہ ان کے پاس نہ تو کوئی طاقت و اختیار تھا اور نہ ہی کوئی امن و سلامتی قائم کرنے کی صلاحیت۔ ۔۔
3- ریاست خلافت کی ایک شان و شوکت ہے، اور شریعت نے اس کے قیام کا ایک منہج بتایا ہے اور وہ طریقہ بھی بتایا ہے کہ کس طرح حکمرانی، سیاست، معیشت اور بین الاقوامی تعلقات کے احکامات اخذ کیے جاتے ہیں۔۔۔اور خلافت کے قیام کا اعلان محض نام کا اعلان نہیں ہوگا جس کو ویب سائٹ یا پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا پر جاری کردیا جائے بلکہ وہ ایک ایسا واقعہ ہوگا جو پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دے گا اور اس کی بنیادیں مضبوط اور زمین میں پیوست ہوں گی، اس کا اختیار اس جگہ پر اندرونی و بیرونی امن و سلامتی کو قائم اور برقرار رکھے گا اور وہ اس سرزمین پر اسلام کو نافذ کرے گی اور دعوت و جہاد کے ذریعے اسلام کے پیغام کو پوری دنیا تک لے کر جائے گی۔
4- یہ جو اعلان کیا گیا ہے محض الفاظ ہیں، جو اس گروہ کی حقیقت کو نہ تو بڑھا سکیں گے اور نہ ہی گھٹا سکیں گے۔ یہ گروہ دراصل اس اعلان سے قبل ایک مسلح تحریک تھا اور ریاست کے قیام کے اعلان کے بعد بھی ایک مسلح تحریک ہی ہے۔ اس کی حقیقت ان مسلح گروہوں کی سی ہے جوایک دوسرے کے خلاف اور حکومتوں کے خلاف مسلح جدوجہد کرتے ہیں جبکہ ان میں سے کسی کے پاس یہ صلاحیت موجود نہیں کہ وہ شام یا عراق یا دونوں جگہ اتھارٹی حاصل کرسکیں۔ اگر ان میں کوئی بھی گروہ، جس میں ISISبھی شامل ہے، دراصل کسی مناسب مقام پر اپنے اختیار کو قائم کرسکے، جہاں ریاست کے لیے درکار لوازمات موجود ہوں اور پھر خلافت کا اعلان کرے اور اسلام کو نافذ کرے تو ایسے معاملے کا مطالعہ کرنا ضروری ہوتا کہ آیا خلافت شرعی احکامات کے مطابق حقیقتاً قائم ہو گئی ہے یا نہیں؟ اور پھر اس معاملے کی چھان بین (پیروی) کی جاتی کیونکہ خلافت کو قائم کرنا تمام مسلمانوں پر فرض ہے نہ کہ صرف حزب التحریر پر، لہٰذا جو کوئی خلافت قائم کرتا تو پھر اس کی چھان بین کی جاتی۔۔۔لیکن اس وقت معاملہ ایسا نہیں ہے بلکہ تمام مسلح تحریکیں بشمول ISIS، کسی کے پاس بھی زمین کے کسی ٹکڑے پر نہ تو کوئی اختیار ہے اور نہ اس زمین پر کوئی امن و سلامتی قائم کرنے کی صلاحیت ہے۔ لہٰذا ISIS کی جانب سے خلافت کے قیام کا اعلان محض ایک نعرہ ہے جس کی اتنی بھی وقعت نہیں کہ اس کی حقیقت کی چھان بین بھی کی جائے اور دیکھنے والی آنکھ کے لئے یہ بالکل واضح ہے۔
5- لیکن جس چیز کا مطالعہ اور مشاہدہ کیا جانا ضروری ہے وہ اس اعلان کے نتیجے میں پیدا ہونے والے منفی نتائج ہیں جو عام اور سادے لوگوں میں خلافت کے حوالے سے پیدا ہوں گے۔ خلافت کی اہمیت ان کی نظر میں کم ہوجائے گی اور اس کی شان و شوکت کا تصور مسلمانوں کے اذہان میں گھٹ جائے گا کہ جیسے یہ ایک کمزور تصور ہے۔ یہ ایسا ہی ہے کہ جیسے ایک شخص مایوسی کے عالم میں کسی گاؤں یا بیچ چوراہے میں کھڑے ہو کر اپنی مایوسی نکالنے کے لیے اعلان کردے کے وہ خلیفہ ہے اور پھر چلتا بنے یہ سوچتے ہوئے کہ اس نے جو کیا اس میں بڑی بھلائی تھی! ایسا کرنے سے خلافت کی اہمیت کم ہوجائے گی اور اس کی عظمت عام مسلمانوں کے دلوں سے ختم ہوجائے گی اور پھر یہ ایک خوبصورت لفظ سے زیادہ اہمیت نہیں رکھے گی کہ جس کو فخر سے بولا تو جائے لیکن اس میں کوئی مادہ موجود ہ نہ ہو۔۔۔یہ وہ معاملہ ہےجس کا مشاہدہ کیا جانا ضروری ہے خصوصاً ایک ایسے وقت میں جب کہ خلافت کا قیام کسی بھی گزرے وقت سے زیادہ قریب آچکا ہے اور مسلمان اس کا انتظار بے چینی سے کررہے ہیں اور وہ دیکھ رہے ہیں کہ حزب التحریر رسول اللہﷺ کےاس طریقے پر بڑھتی چلی جارہی ہے جس کے ذریعے رسول اللہﷺ نے مدینے میں اسلامی ریاست قائم فرمائی تھی۔۔۔ اور امت حزب کے اعمال کا اور مسلمانوں کے حزب کے پیغام کو گلے لگانے کا براہ راست مشاہدہ کر رہی ہے ۔ مسلمان حزب کے ان اعمال کے نتیجے میں پیدا ہونے والی اسلامی اخوت کو دیکھ رہے ہیں اور وہ کامیابی کے ساتھ حزب کے ہاتھوں قائم ہونے والی خلافت کے قیام پر اور لوگوں کے معاملات کی عمدہ دیکھ بھال کرنے پر خوشی کا اظہار کریں گے اور یہ رسول اللہﷺ کے طریقہ کار پر چلنے والی خلافت راشدہ ہوگی۔۔۔اور یہ ہے وہ وقت جب یہ اعلان کیا جاتا ہے تاکہ خلافت کے متعلق عام لوگوں میں یہ تصور عام کیا جائے کہ جیسے وہ ایک پولیس سٹیٹ ہوگی۔۔۔
6- یہ تمام باتیں ایک سوال، بلکہ کئی سوالات کو جنم دیتی ہیں۔۔۔اس اعلان کا وقت جبکہ یہ اعلان کرنے والے کوئی اتھارٹی نہیں رکھتے جس کے ذریعے وہ اندرونی اور بیرونی امن اور سلامتی کو برقرار رکھ سکیں۔ حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے فیس بک اور میڈیا پرمحض اعلان ہی کیا ہے۔۔۔اس وقت کا چناؤ شکوک و شبہات پیدا کرتا ہے اور خاص طور پر اس لیے بھی کہ یہ مسلح گرو ہ کسی فکری بنیاد اور ڈھانچے پر قائم نہیں ہوتے جس کی وجہ سے مشرق و مغرب کے شیاطین کا ان میں داخل ہوجانا آسان ہے اور یہ بات ہر کوئی جانتا ہے کہ مغرب اور مشرق اسلام سے نفرت کرتے ہیں اور اسلام اور خلافت کے خلاف منصوبے بناتے ہیں اور وہ اس کے تصور کو بگاڑ دینا چاہتے ہیں کیونکہ وہ اس کا نام مٹانے میں ناکام ہو چکے ہیں ۔ لہٰذا وہ اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ خلافت محض ایک نام ہی رہ جائے جس کے تصور میں کوئی وزن نہ ہو۔ لہٰذاوہ یہ چاہتے ہیں کہ وہ واقعہ جو ایک عظیم واقعہ ہوتا اور جس کے نتیجے میں کفار حواس باختہ ہو کر رہ جاتے، اس کا علان ہمارے دشمنوں کے لیے ایک مذاق بن کر رہ جائے۔
7- اس بات کے ساتھ ساتھ جو یہ شیاطین کررہے ہیں، ہم مشرق اور مغرب میں موجود اسلام کے دشمنوں اور ان کے ایجنٹوں اور ان کے پیروکاروں کو بتا دینا چاہتے ہیں کہ وہ خلافت آج بھی معروف ہے جس نے صدیوں تک دنیا کی قیادت کیاور ان کی تمام تر چالوں اور سازشوں کے باوجود ناقابلِ تسخیر ہوگی ۔ ﴿وَيَمْكُرُونَ وَيَمْكُرُ اللَّهُ وَاللَّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ﴾ "اور وہ اپنی تدبیریں کررہے تھے اور اللہ اپنی تدبیر کررہا تھا اور سب سے زیادہ مستحکم تدبیر والا صرف اللہ ہی ہے" (الانفال:30)۔
اللہ نے ہمیں خلافت کے قیام کے لئے ایک مضبوط جماعت سے نوازا ہے جس میں ایسے مرد و خواتین شامل ہیں جنہیں کوئی دنیاوی کام اللہ کی یاد سے غافل نہیں کرتا، انہوں نے خلافت کے تصور کو اپنے دل و دماغ سے قبول کیا ہے، اس کے لیے جس چیز کی ضرورت ہے یہ اس کی تیاری کرتے ہیں اور اسلام سے احکامات اور آئین کو اخذکرتے ہیں جس میں حکمرانی اور انتظامی ڈھانچہ بھی شامل ہے۔ وہ اس کے حصول کے لیے عین رسول اللہﷺ کے طریقہ کار کے مطابق آگے بڑھ رہے ہیں۔۔۔اللہ کے حکم سے وہ ایک ایسی ڈھال ہیں جو کسی بھی غیر اسلامی فکر اور عمل کے خلاف مزاحمت کرتے ہیں۔ یہ وہ پتھر ہیں جس پر کفار اور ان کے ایجنٹوں کی سازشیں تباہ برباد ہوجاتی ہیں، اللہ کی دی ہوئی طاقت کی بدولت وہ ایسے باعلم سیاست دان ہیں جو اللہ کی مدد و نصرت سے اسلام اور مسلمانوں کے دشمنوں کے منصوبوں کے خلاف مزاحمت کرتے ہیں اور ان کے منصوبوں کو ان ہی پر الٹ دیتے ہیں، ﴿وَلَا يَحِيقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ إِلَّا بِأَهْلِهِ﴾ "اور بری تدبیروں کا وبال ان تدبیر کرنے والوں ہی پر پڑتا ہے" (فاطر:43)۔
اے میرے عزیز بھائیو!
خلافت کا معاملہ عظیم اور بہت بڑا ہے اور اس کا قیام دھوکہ دینے والے میڈیا میں محض ایک خبر نہیں ہوگی بلکہ اللہ کے حکم سے اس کا قیام ایک ایسا زلزلہ ہو گا جو بین الاقوامی آرڈر کو ہلا کر رکھ دے گا اور وہ تاریخ کے دھارے کا رخ ہی تبدیل کردے گا۔۔۔اور خلافت رسول اللہﷺ کے طریقہ کار کے مطابق ہی قائم ہو گی جیسا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا تھا اور جو اس کو قائم کریں گے وہ ویسے ہی ہوں گے جنہوں نے پہلی خلافت راشدہ قائم کی تھی۔ امت ان سے محبت کرے گی اور وہ امت سے محبت کریں گے، امت ان کے لیے دعا کرے گی اور وہ امت کے لیے دعا کریں گے، امت ان سے مل کر خوش ہو گی اور وہ امت سے مل کر خوش ہوں گے نہ کہ امت اپنے درمیان ان کے وجود کو نفرت کی نگاہ سے دیکھے گی۔۔۔ایسے ہوں گے وہ لوگ جو رسول اللہﷺ کے طریقہ کار کے مطابق آنے والی خلافت کو قائم کریں گے۔ اللہ یہ سعادت انہی کو دے گا جو اس کے حق دار ہوں گے اور ہم اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ ہم ان لوگوں میں سے ہوں اور ہم اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اس کو قائم کرنے کی قوت عطا فرمائے، ﴿فَاسْتَبْشِرُوا بِبَيْعِكُمُ الَّذِي بَايَعْتُمْ بِهِ﴾ "تو تم لوگ اپنی اس بیع پر جس کا تم نے معاملہ ٹھرایا ہے خوشی مناؤ" (التوبۃ:111)۔
اللہ سے بالکل بھی ناامید مت ہوں۔ اللہ آپ کی کسی بھی کوشش کو ضائع نہیں کرے گا اور جو دعا آپ اس سے کرتے ہیں اس کو رد نہیں کرے گا اور نہ ہی اس امید کو رد کرے گا جس کی آپ کو اللہ سے توقع ہے۔ لہٰذا اپنی کوششوں کو بڑھا کر ہماری مدد کریں تاکہ اللہ کے سامنے آپ میں موجود خیر ثابت ہوجائے اور اللہ آپ میں موجود خیر کو مزید بڑھا دے گا اور اس سنجیدہ کام میں محض نعروں اور باتوں کی وجہ سے کسی قسم کی سستی نہ برتیں۔
اسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبراکاتہ
آپ کا بھائی
3رمضان 1435 ہ
یکم جولائی 2014 م
میں دعا کرتا ہوں کہ یہ جواب کافی ہوگا۔ اللہ آپ کو کامیابی عطا فرمائے اور آپ کی مدد فرمائے اور اللہ ہم سب کی صحیح منزل کی جانب رہنمائی فرمائے۔
آپ کا بھائی
عطاء بن خلیل ابو الرشتہ
4 رمضان 1435 ہ
2 جولائی 2014 م

Read more...

سوال اور جواب: 'سلطان متغلب'

سوال: بعض (سوشل میڈیا) کے صفحات پر کچھ اس قسم کے تبصر ے دیکھنے کو ملے (حزب التحریر نے خلافت قائم کرنے کے لیے ایک طریقہ "طلب نصرہ" مقرر کر رکھا ہے جس کی وہ پابند ہے اور اس کے علاوہ وہ کسی اور شرعی طریقے کو نہیں مانتی .....حالانکہ ایک اور طریقہ بھی موجود ہے جو کہ 'سلطان متغلب' (زبردستی اقتدار پر قبضہ کرنے والے) کا طریقہ ہے، یعنی وہ شخص جو قوت اور قتال سے ریاست قائم کرے.....کچھ لوگوں نے یہ بھی کہا ہے کہ حزب التحریر نے جماعتی تعصب کی وجہ سے البغدادی کے اعلان پر اعتراض کیا،حزب خلافت کو اس وقت تک شرعی نہیں سمجھتی جب تک وہ خود اس کو قائم نہ کرے.....) کیا اس قسم کے اعتراضات کا کافی شافی جواب دینے کی زحمت کریں گے؟ اللہ آپ کو بہترین جزا دے۔
جواب:
1۔ خلافت کے قیام کے لیے شرعی طریقہ حزب التحریر نے متعین نہیں کیا ہے بلکہ یہ طریقہ شرع نے خود مقرر کر دیا ہے۔ اسلام کی دعوت کی ابتداء سے لے کر ریاست کے قیام تک رسول اللہﷺ کی سیرت طیبہ اس کا منہ بولتا ثبوت ہے.....ریاست کے قیام سے پہلے رسول اللہﷺ نے ان اہل قوت وطاقت سے نصرہ طلب کی جو اپنے ارد گرد کے علاقوں کی صورت حال کے مطابق ریاست کے لوا زمات کے حامل تھے۔ اسی وجہ سے رسول اللہﷺ طاقتور قبائل کے پاس جاتے، ان کو اسلام کی دعوت دیتے اور ان سے نصرہ طلب کرتے جیسا کہ ثقیف، بنی عامر، بنی شیبان اور انصار مدینہ سے نصرہ طلب کی جبکہ چھوٹے قبائل کو صرف اسلام کی دعوت دینے پر اکتفا کیا.....تمام تر مشکلات اور مشقتوں کا سامنا کرتے ہوئے بھی اس کام کو جاری رکھا اور مشقت کے باوجود کسی کام کو باربار کرنا شرعاً اس کے فرض ہو نے کی دلیل ہے جیسا کہ اصول میں ہے.....یوں رسول اللہﷺ نے اہل قوت اور طاقت سے نصرہ طلب کرنے کو جاری رکھا۔ کسی قبیلے نے آپﷺ کے قدم مبارک لہو لہان کر دیے، کسی نے آپﷺ کو روکا اور کسی نے شرائط رکھیں۔ اس کے باوجود رسول اللہ ﷺ اللہ کی طرف سے وحی کی وجہ سے اس پر ثابت قدم رہے اور اس طریقے کو تبدیل کرکے کوئی اور طریقہ نہیں اپنایا۔ آپﷺ نے اپنے صحابہ کو اہل مکہ سے لڑنے کی اجازت نہیں دی یا ریاست قائم کرنے کی غرض سے کسی قبیلےسے لڑنےکا حکم نہیں دیا حالانکہ آپﷺ کے صحابہ زبردست بہادر اور جنگجو تھے اور اللہ کے علاوہ کسی سے نہیں ڈرتے تھے لیکن اس کے باوجود آپﷺ نے ان کو لڑنے کا حکم نہیں دیا بلکہ اہل قوت و طاقت سے نصرہ طلب کرنے کے کام کو ہی جاری رکھا یہاں تک کہ اللہ نے آپﷺ کو وہ انصار مہیا کردیے جنہوں نے بیعت عقبہ ثانی میں آپﷺ کو بیعت دی۔ اس سے پہلے مصعب رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ کی اپنی اس مہم میں کامیاب ہوچکے تھے جس کی ذمہ داری رسول اللہﷺ نے ان کو سونپ دی تھی۔ اللہ سحا نہ وتعالیٰ کی جانب سے کچھ اہل قوت اور طاقت کو نصرت کی توفیق دینے کے ساتھ ساتھ آپ رضی اللہ عنہ نے اللہ کے اذن سے اسلام کو مدینہ کے گھر گھر میں داخل کیا اوراسلام کے لیے رائے عامہ ہموار کی۔ یوں یہ رائے عامہ اور انصار کی جانب سے بیعت باہم مل گئے، جس کی وجہ سے رسول اللہﷺ نے ایک صاف شفاف بیعت اور اہل مدینہ کی جانب سے رسول اللہﷺ کےپُر جوش استقبال سے مدینہ منورہ میں اسلامی ریاست قائم کر دی۔
ریاست قائم کرنے کا یہی وہ شرعی طریقہ ہے جس کی پیروی لازمی ہے کیونکہ افعال میں اصل شرع کی پابندی ہے۔ ایک مسلمان جب یہ چاہے کہ نماز کس طرح پڑھے تو اس کو چاہیے کہ نماز کے دلائل کو پڑھے، اگر جہاد کا ارادہ کرے تو جہاد کے دلائل کو پڑھے اور اگر ریاست قائم کرنے کا ارادہ کرے تو اس کے قیام کے دلائل رسول اللہﷺ کے افعال میں پڑھے۔ ریاست قائم کرنے کے دلائل صرف رسول اللہﷺ کی سیرت پر مبنی ہیں جس میں ان اہل قوت اور طاقت کو دعوت دینا شامل ہے جو اپنے ارد گر کی صورت حال کے لحاظ ریاست کے لوازمات کے حامل تھے ۔ ان کو اسلام کی دعوت دی اور ان سے ان کی رضا اور اختیار سے نصرت اور بیعت طلب کی کیونکہ ان کے ہاں اور ان کے علاقے میں عام بیداری سے پیدا ہو نے والی رائے عامہ پیدا کی جا چکی تھی.....
یوں خلافت قائم کرنے کا شرعی طریقہ اسلام میں واضح طور پر متعین ہے۔ اس سے یہ بھی واضح ہو گیا ہے کہ مذکورہ اعلان کرنے والوں نے رسول اللہﷺ کے اس طریقے کی پیروی نہیں کی۔
2۔ رہی بات 'سلطان متغلب' (زبردستی بننے والے حکمران ) کی جس کا ذکر فقہ کی بعض کتابوں میں ہے لیکن اس کا معنی سمجھنا ضروری ہے۔ صرف سلطان متغلب کا رٹہ لگانا کافی نہیں بلکہ یہ سمجھنا ضروری ہے کہ وہ کب اور کس طرح شرعی طور پر ہوتا ہے اور کب اور کس طرح غیر شرعی ہوتا ہے بلکہ امت پر وبال ہوتا ہے!
بے شک سلطان متغلب مسلمانوں کا خون بہانے اور قہر و جبر اور زبردستی سے ان پر مسلط ہونے کی وجہ سے گنہگار ہوتا ہے اور شرعی طریقے کی خلاف ورزی کرنے کی وجہ سے اس کی خلافت کا انعقاد ہی نہیں ہوتا..... تاہم بعض فقہاء یہ سمجھتے ہیں کہ سلطان متغلب کی حکومت اس وقت شرعی ہو سکتی ہے جب اس کے اندر کچھ شرائط پائی جائیں جن میں سے نمایاں یہ ہیں:
ا ۔ وہ ایسے ملک میں زبردستی حکمران بنے جس ملک کے اندر اپنے گردو پیش کے لحاظ سے ریاست کے لوازمات موجود ہوں، وہاں اس کی مستحکم حکومت قائم ہو اور وہاں خطے کے لحاظ سے داخلی اور خارجی طور پر امن و امان ہو ۔
ب ۔ اس ملک میں اسلام کو عدل اور احسان کے ساتھ نافذ کرے، لوگوں کے ساتھ حسن سلوک کرے، لوگ اس سے محبت کریں اور اس سے راضی ہو جائیں۔
ج ۔ اس ملک کے لوگ اپنی مرضی اور اختیار سے اس کو بیعت دیں، ان پر کوئی زبردستی اور جبر نہ کیا جائے۔ شرعی بیعت کی شرائط میں سے یہ بھی ہے کہ بیعت اس ملک کے لوگ دیں سلطان متغلب کا اپنا ٹولہ نہیں کیونکہ اس قسم کی شرعی بیعت ہی رسول اللہﷺ کی اقتدا ہے۔ رسول اللہﷺ نے سب سے پہلے مدینہ منورہ کے انصار سے ان کی رضامندی اور اختیار سے بیعت لی ، اپنے مہاجر صحابہ سےنہیں لی اور بیعت عقبہ ثانی اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
یو ں سلطان متغلب گنہگار ہے اور اس کی حکمرانی بھی اس وقت تک شرعی نہیں جب تک اس کے اندر مندجہ بالا تین شرائط نہ پائی جائیں۔ جب یہ تین شرائط پائی جائیں تب ہی سلطان متغلب رضامندی اور اختیار سے بیعت دیے جانے کے لمحے سے شرعی حکمران بنیں گے۔ یہ ہے سلطان متغلب کی حقیقت کہ شاید ذہین لوگ یہ ذہن نشین کر لیں.....اب یہ بات بھی واضح ہے کہ مذکورہ اعلان کرنے والے لوگوں نے ان تین شرائط کو پورا نہیں کیا بلکہ اپنے آپ کو اور اپنے اعلان کو ناحق طریقے سے مسلط کر دیا۔
جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے کہ انہوں نے صحیح شرعی طریقہ نہیں اپنایا حتی کہ سلطان متغلب کا طریقہ بھی اختیار نہیں کیا .....بلکہ اس کے برعکس خلافت کا اعلان کر بیٹھے۔ ان کے اندر وہ شرائط ہی موجود نہیں تھیں اس لیے ان کے اعلان کا شرعاً کوئی وزن اور قیمت نہیں بلکہ یہ ایسا لغو(بیہودہ) ہے جیسا کہ تھا ہی نہیں اور وہ بدستور ایک مسلح تنظیم ہیں۔
3 ۔ رہی یہ بات کہ حزب صرف اس خلافت کو شرعی سمجھتی ہے جس کو وہ خود قائم کرے گی، یہ بات مکڑی کے جال سے بھی کمزور ہے! یہ وہ بات ہے جو شیطان بعض ایسے چھوٹے دل والے اور تنگ نظر لوگوں کے دل میں ڈالتاہے جو بصارت اور بصیرت سے محروم ہیں.....حزب جو چاہتی ہے وہ یہ ہے کہ خلافت صاف شفاف اور غیر مشکوک طریقے سے قائم ہو۔ ہماری مثال "بچے کی ماں" کی ہے اس لیے ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ یہ بچہ قتل یا بے راہ نہ ہو..... بلکہ بچہ صحت مند، توانا ہو، اس کی اچھی دیکھ بھال ہو اور وہ توجہ کا مرکز بنے۔ مسئلہ یہ نہیں کہ اس بچے کی پرورش کون کرے.....ہم چاہتے ہیں کہ خلافت شایان شان طریقے سے کما حقہ قائم ہو۔ اس کی اتھارٹی عظیم الشان ہو۔ وہ داخلی طور پر اسلام کو شاندار طریقے سے نافذ کرے اور دعوت اور جہاد کے ذریعے اس کو دنیا کے سامنے پیش کرے، تب ہی یہ وہ خلافت راشدہ علی منھاج النبوۃ ہوگی جس کا اللہ نے وعدہ فرمایا ہے اور رسول اللہﷺ نے بشارت دی ہے اور وہ جابرانہ حکومتوں کو ختم کر دے گی.....جو بھی اس کو قائم کرے گا اس کو قائم کرنے کا حق ادا کرے گا خواہ وہ لوگ ہم ہوں یا کوئی اور جن کی بات سنی جائے گی اور ان کی اطاعت کی جائے گی، تب اللہ کے اذن سے زمین اپنے خزانے اُگل دے گی اور آسمان اپنے خیر کو اتارے گا۔ اس دن اہل اسلام عزت مند ہوں گے اور اہل کفر ذلیل ، اور اللہ ہی غالب اور حکمت والا ہے.....
ہم خلافت کے بارے میں یہی چاہتے ہیں کہ وہ اس طرح مبارک اور پاک صاف قائم ہو جیسا کہ رسول نے اس کو قائم کیا تھا اور آپﷺ کے بعد آپ کے خلفائے راشدین رضوان اللہ علیھم نے آپﷺ کی پیروی کی تھی .....ایسی خلافت جس سے اللہ اور اس کے رسول ﷺ اور مؤمنین راضی ہوں ، جس سے مسلمانوں کے دل سرور سے لبریز ہوں اور ان کے سر فخر سے بلند ہوں .....نہ کہ برائے نام کسی مشکوک خلافت کا اعلان ہو اور وہ بھی مسلمانوں کے خون سے آلودہ ہو۔
یقینا اس بات سے ہمیں تکلیف پہنچی کہ خلافت ایسی ہوتی ہے جس سے دنیا کانپ اٹھتی ہے کفار اور استعماریوں پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے لیکن اس واقعے سے ایسا کچھ بھی نہیں ہوا ۔ اس سے خلافت کی شان میں گستاخی ہوئی بلکہ وہ بے وقعت چیز لگنے لگی۔ اس اعلان پر تبصرہ کرتے ہوئے امریکہ کہتا ہے کہ "یہ کو ئی بڑی بات نہیں" جبکہ خلافت کے اعلان پر تو اس کو خون کے آنسو رونا چا ہیے تھا .....اس بات نے بھی ہمیں دکھ پہنچایا کہ وہ لوگ جن کی نظروں میں خلافت ایک عظیم الشان چیز تھی ایک معمولی چیز لگنے لگی اور اس اعلان کو انہوں نے ایک فضول واویلا سمجھا.....
حزب اسلام کا ایک امانت دار پہرہ دار ہے اور یہ اللہ کے معاملے میں کسی کو اہمیت نہیں دیتی۔ یہ ہر اچھے کام کرنے والے سے کہتی ہے کہ تم نے اچھا کیا اور برے کام کرنے والے سے کہتی ہے کہ تم نے برا کیا۔ یہ اس کے پیچھے کوئی جماعتی مفاد نہیں ڈھونڈتی نہ ہی فانی دنیا کی کسی متاع کی طلبگار ہے بلکہ ہم تو اس دنیا وما فیھا کو ایسا ہی دیکھتے ہیں جیسا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی اس حدیث میں رسول اللہﷺ نے فرمایا جس کو ترمذی نے روایت کی ہے کہ: «مَا لِي وَلِلدُّنْيَا، مَا أَنَا فِي الدُّنْيَا إِلَّا كَرَاكِبٍ اسْتَظَلَّ تَحْتَ شَجَرَةٍ ثُمَّ رَاحَ وَتَرَكَهَا» "میرا دنیا سے کیا لینا دینا، میں دنیا میں بس ایسا ہی ہو ں جیسا کہ ایک سوار ایک درخت کے سائے تلے سستاتا ہے پھر وہاں سے چل پڑتا ہے" حزب کے نزدیک دنیا وہی تھوڑا سا لمحہ ہے، جتنی دیر میں وہ اس درخت کے سائے میں بیٹھتی ہے جب وہ اس درخت کے نیچے ٹھراتی ہے، اس لمحے کو وہ خلافت کے کماحقہ قیام کے ذریعے شرعی احکامات کی تنفیذ کے لئے تندہی سے صالح اور صادق عمل میں مگن رہتی ہے جو صرف اللہ القوی العزیز کے اذن سے ہوگا۔
4 ۔ آخر میں حزب التحریر جس نے ساٹھ(60) سال سے زیادہ عرصہ رسول اللہﷺ کے طریقے پر خلافت کے قیام کے لیے جدوجہد میں گزارا ہے اور اس کی راہ میں سالہا سال ظالموں کے عقوبت خانوں میں کاٹے ہیں، تعاقب اور ظلم وستم کا سامنا کیا ہے، طاغوت کی طرف سے دیے جانے والا عذاب برداشت کیا ہے جس میں حزب کے بہت سارے شباب نے جام شہادت نوش کیا اور بہت سارے اذیتوں سے دوچار ہوئے ..... اب بھی حزب شدید ترین تشدد کے باوجود ثابت قدمی سے حق پر قائم اور نبوی طریقے پر گامزن ہے.....کیا کوئی ایسی جماعت جس کا یہ حال ہے آپ کا کیا خیال ہے کہ کسی جماعت کی جانب سے کما حقہ خلافت قائم کرنے پر اعتراض کرے گی، خواہ اس کو حزب قائم کرے یا کوئی اور .....؟ حزب کبھی اعتراض نہیں کرے گی بلکہ سجدہ شکر بجا لائے گی..... لیکن ساتھ ہی حزب خلافت کے نام کو ناحق استعمال کرنے والوں، اس کو مشکوک بنانے والوں اور اس کی شان میں گستاخی کرنے والوں کے خلاف مورچہ زن بھی ہے۔ اللہ کے اذن سے حزب ہمیشہ خلافت کے خلاف تمام سا زش کرنے والوں،اس کے بارے میں شکوک و شبہات پھلاانے والوں اور اس کی شان میں گستاخی کرنے والوں کے سامنے مضبوط چٹان ثابت ہو گی اور ان شاء اللہ خلافت ایسے لوگوں کے ہاتھوں قائم ہو گی جنہیں تجارت اور لین دین اللہ کے ذکر سے غافل نہیں کرتا ۔ وہ ایسے جوان مرد ہوں گے جو اس کے حقدار اور اہل ہیں،یوں خلافت کی صبح ایک بار پرں طلوع ہوگی ﴿وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ *بِنَصْرِ اللَّهِ يَنْصُرُ مَنْ يَشَاءُ وَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ﴾ "اور اُس دن مؤمنین اللہ کی مدد سے خوش ہوں گے وہ جس کی چاہتا ہے مدد کرتا ہے اور وہی غالب اور رحم کرنے والا ہے"

Read more...

اے مسلم ممالک کی افواج اور بالخصوص عرب ممالک کی افواج! یہودیوں کے جرائم پر تمہاری رگوں میں خون کیوں نہیں کھولتا کہ تم فلسطین کے مسلمانوں کی مدد کرو؟

مسلسل چھ دن سے، غاصب یہودی، اہل ِغزہ پر طرح طرح کا تباہ کن اسلحہ برسا رہے ہیں، جس سے انسان تو کیا پتھر اور درخت تک محفوظ نہیں.....یہودی غزہ کے مکینوں کی چھتیں انہی پر گرارہے ہیں اورجو ان گھروں کے ملبے تلے سے زندہ نکل کر گاڑی میں یا پیدل بچنے کی کوشش کرتا ہے، میزائل اس کے تعاقب میں آگرتا ہے.....ان کے جرائم کا دائرہ مساجداور معذور افراد کی دیکھ بھال کرنے کے مراکز تک پھیل چکا ہے۔ یہ جرائم بڑھتے جارہے ہیں جبکہ وہ ممالک جو فلسطین کے گرد موجود ہیں مقتولین اور زخمیوں کی گنتی کرنے میں مصروف ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ نمایاں کردار ان کا ہے جنہوں نے زخمیوں کیلئے گزرگاہیں کھول دی ہیں۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے وہ کہہ رہے ہوں کہ اگر کوئی غزہ کے محاصرے سے باہر آناچاہتا ہے تو اسے بری طرح زخمی ہونا پڑے گا۔ ایسےجیسےکم زخمی ہونا تک کافی نہیں.....اگرآپ کا خون بہہ رہا ہے تو آئیے خوش آمدید !!! پھریہ حکمران عطیات دینے میں مشغول نظر آتے ہیں حالانکہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ قتل کا نشانہ بننے والے کو کھانا دینے سے پہلے اسے قتل سے بچانے والے کی ضرورت ہوتی ہے۔ پھر یہ حکمران ثالث اور غیر جانبدار بن جاتے ہیں اور دونوں طر ف سے امیدیں لگاتے ہیں اور دونوں طرف جھکے جاتے ہیں۔ جب یہودی ریاست اہل غزہ کے خون سے خوب سیراب ہوجاتی ہے تب یہ امن و امان قائم کرنے کے لئے ثالثی کرنے لگتے ہیں۔ امن وامان کی صورتحا ل، جس کو یہودی ریاست آرام کے ایک وقفے کی نظر سے دیکھتی ہے، کچھ دیر تک برقرار رہتی ہے.....پھر وہ اس کے پرخچے اُڑا کر ظلم وستم کا ایک اور دور شروع کردیتے ہیں اوریہ سلسلہ یوں ہی جاری رہتا ہے ! اس سب کے باوجود آس پاس کے عرب حکمران غیر جانبداری کا راگ الاپتے رہتے ہیں تاکہ مغرب اور یہود یوں کی خوشنودی حاصل کریں۔ ان حکمرانوں کو نہ تو اللہ سے کوئی شرم آتی ہے اور نہ ہی اس کے رسولﷺ اور مؤمنین سے۔
یہ کوئی انہونی بات نہیں کہ ان ریاستوں کے حکمران دستبرداری اور ذلت کا رویہ اپناتے ہیں کیونکہ جب سے امت کا ان کے ساتھ واسطہ پڑا ہے یہی ان کی عادت رہی ہے۔ تعجب تو ان افواج پرہے جو اپنے دین اور امت کی نصرت کے لئے اسلحہ اٹھائے پھرتے ہیں پھروہ کیسے اپنے بھائیوں اور بہنوں پر اس وحشیانہ بمباری کو دیکھنا یا سننا گوارا کرلیتے ہیں۔ ان کے بہن بھائی لہو لہان ہوکر مدد کے لئے پکارتے ہیں مگر ان کی پکار پر کوئی لبیک کہنے والا نظر نہیں آتا! لیکن اگر یہ حکمران ان حالات کو نظر انداز کررہے ہیں اور افواج حرکت میں نہیں آرہیں تو ان افواج میں موجود فوجیوں کے والدین، بھائی اور بیٹے کہاں ہیں؟ تم ان کو اللہ کے راستے میں قتال کی ترغیب کیوں نہیں دیتے ہو ؟ تاکہ وہ ان بندوں کی مدد کریں اور ان علاقوں کو آزاد کرائیں، تاکہ تم اور تمہارے بیٹے جہاد کی بدولت اللہ تعالیٰ کی نعمت اور مہربانی کو حاصل کریں۔ جہاد ہی اسلام کے پہاڑ کا بلند ترین حصہ ہے .....پس ان کے اندر قوت اور تقویٰ پیدا کرو اور ان کو اس بات پر تیار کرو کہ وہ ان مسلمانوں کی نصرت کریں جو یہودی جرائم کا نشانہ بنے ہوئے ہیں، وَإِنِ اسْتَنْصَرُوكُمْ فِي الدِّينِ فَعَلَيْكُمُ النَّصْرُ "اگر دین کی وجہ سے تم سے کوئی مدد مانگے تو تم پر ان کی مدد واجب ہے " (الانفال :72)۔ ان کو اس بات پر تیار کرو کہ وہ ظلم اور نا انصافی پر خاموشی اختیار نہ کریں اور حکمرانوں کے مظالم اور اللہ، اس کے رسولﷺ اور مؤمنین کے ساتھ ان کی خیانت کا انکار کریں اور وہ گناہ کے کاموں میں اطاعت نہ کریں۔ ایسا کرکے آپ ان کو دنیا میں رسوائی اور آخرت کے عذاب سے بچاسکتے ہیں۔
اےمسلم ممالک بالخصوص عرب ممالک کی افواج !کیا تمہارے اندر ایک بھی ایسا باشعور آدمی نہیں جو غزہ کی نصرت کے لئے فوج میں سے اپنے بھائیوں کی قیادت کرے جس کی بدولت اس کی ایسی تاریخ رقم کی جائے گی جو اس کے لئے دنیا و آخرت میں سرخروئی کا باعث ہوگی ؟ کیا تمہارے اندر کوئی ایک بھی ایسا نہیں جو مسلم افواج کے عظیم قائدین کی یاد تازہ کرے جو ایک عورت کو چھڑوانے کےلئے شیروں کی طرح جھپٹ پڑتے اور کہتے : یَا خَیلَ اللہِ اِرکَبِی...."اے اللہ کے شہسوارو! سوار ہوجاؤ"۔
یہ بات ایک کھلی حقیقت ہے کہ حکمرانوں کی یہ کوشش ہے کہ وہ تمہیں دشمنوں کے ساتھ لڑائی سے روکیں بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ تم اپنے لوگوں کو تحفظ فراہم کرنے کی بجائے انہیں قتل کرو.....مگر ان حکمرانوں کی حفاظت کو ن کرتا ہے؟کیا وہ تم لوگ نہیں ہو؟ ان حکمرانوں کا اختیار تمہارے ہاتھوں میں ہے۔ اگر تم ان کے سامنے کھڑے ہوجاؤ اور اپنے لوگوں کی نصرت اور قتال فی سبیل اللہ کے لئے چل پڑو تو تم کامیاب ہو گے اور ان حکمرانوں کی نافرمانی کرکے ہی فلاح پاؤگے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا، لاَ طَاعَةَ لِمَخْلُوقٍ فِي مَعْصِيَةِ اللهِ "اللہ کی معصیت (نا فرمانی) میں کسی مخلوق کی اطاعت نہیں کی جاتی " (رواہ احمد والطبرانی)۔ تو کوئی ایسا باشعور شخص تمہارے اندر موجود ہے جو اللہ اور اس کے رسولﷺ کو نصرت دے؟ تمہارے اندر مصعب بن عمیر ، اسعد بن زرارہ، اسیدبن حضیر اور سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ جیسا کوئی ہے جنہوں نے اللہ سبحانہ و تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کو نصرت فراہم کی تو اللہ تعالیٰ نے ان کو دنیا اور آخرت کی کامیابی سے نوازا اور پھرحضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کی موت پر رحمٰن کا عرش حرکت میں آیا۔ یہ عزت اس لئے ملی کہ آپ رضی اللہ عنہ نے اللہ کے دین کی نصرت کی تھی۔ أخرج البخاري عَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، سَمِعْتُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ: «اِهْتَزَّ العَرْشُ لِمَوْتِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ»؟ بخاری نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے، وہ فرماتے ہیں : میں نے رسول اللہﷺ سے یہ فرماتے ہوئے سنا : "سعد بن معاذ کی موت پر عرش ہل گیا تھا"۔ تم میں سے کوئی بھی ایسا باشعور نہیں جو ان لوگوں کی سیرت پر چل کر خلافت قائم کرے اور خلیفہ مقرر کرے جو تمہیں دشمن سے لڑنے سے روکنےکی بجائے خود دشمن سے لڑنے میں تمہاری قیادت کرے گا کیونکہ امام کی قیادت میں ہی لڑا جاتاہے۔ مسلم نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے انہوں نے نبی ﷺ سے روایت کی ہے آپ ﷺ نے فرمایا، اِ نَّمَا الْإِمَامُ جُنَّةٌ، يُقَاتَلُ مِنْ وَرَائِهِ، وَيُتَّقَى بِهِ "بے شک امام ڈھال ہے، جس کے پیچھے رہ کر لڑا جاتا ہے اور اسی کے ذریعے تحفظ حاصل کیا جاتا ہے"۔ یقیناً امام ہی کی قیادت اور سربراہی میں یہود کے قبضے کا خاتمہ کیا جائے گا اور فلسطین کی مبارک سرزمین مکمل طور پر اسلامی دیار کی طرف لوٹا دی جائے گی.....خلیفہ، امیر المومنین حضرت عمر الفاروق رضی اللہ عنہ کی سیرت کو زندہ کرے گا جنہوں نے القدس اور اس کے آس پاس کی بابرکت سر زمین کو فتح کیا، اور خلیفہ صلاح الدین ایوبی کی سیرت کو زندہ کرے گا جنہوں نے القدس کوصلیبیوں سے آزاد کروایا اور وہ عبد الحمید کی سیرت کو زندہ کرے گا جنہوں نے القدس کی حفاظت کی اور یہودیوں پر واضح کیا کہ یہ سرزمین اُن کے نزدیک اُن کی جان اور مال سے زیادہ عزیز اور قیمتی ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ خلافت کو قائم کرنے کے لئے آسمان سے فرشتے نہیں اتریں گے جو یہود کے قبضے کے خاتمے اور فلسطین کی آزادی کے لئے ہمارے لشکر کی قیادت کریں۔ ہاں اس صورت میں اللہ تعالیٰ ہماری مدد کے لئے فرشتے نازل کرے گا جب ہم دل سے اور صدق واخلاص کے ساتھ زمین پر دوبارہ اسلامی زندگی کو واپس لانے اور خلافت کے قیام کے لئے عمل کریں گے، تبھی یہودسے قتال اور اللہ کے دین کی نصرت کےلئے لشکر روانہ ہوں گےاور تبھی ملائکہ کا نزول ہوگا جو ہمارے معاون ہوں گے۔ قرآن کریم میں اس کا تذکرہ اس طرح کیا گیا ہے: بَلَى إِنْ تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا وَيَأْتُوكُمْ مِنْ فَوْرِهِمْ هَذَا يُمْدِدْكُمْ رَبُّكُمْ بِخَمْسَةِ آلَافٍ مِنَ الْمَلَائِكَةِ مُسَوِّمِينَ "ہاں بلکہ اگر تم صبر اور تقویٰ اختیار کرو اور وہ لوگ اپنے اسی ریلے میں اچانک تم تک پہنچ جائیں تو تمہارا پروردگار پانچ ہزار فرشتے تمہاری مدد کو بھیج دے گا جنہوں نے اپنی پہچان نمایاں کی ہوگی " (آل عمران:125)۔ پس جب ہم صبر کریں گے اور تقویٰ اختیار کریں گے اور قتال کرتے ہوئے دشمن کے ساتھ ہماری مڈ بھیڑ ہوگی تب اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہزاروں فرشتوں کےساتھ ہماری مدد کرے گا.....یہی غزہ بلکہ دنیا بھر کے تمام مسلمانوں کی مدد کا طریقہ ہے، درحقیقت اسی کے لئے کام کرنا چاہئے۔
اے مسلمانو! اے مسلم ممالک بالخصوص عرب ممالک کی افواج ! غزہ کے اندر یہودی جرائم مسلسل جاری ہیں اور حکمرانوں نے اہل غزہ کی مدد کرنےکی بجائے مجرمانہ خاموشی اختیار کی ہوئی ہے اوراب تو وہ شاید روایتی مذمت کے الفاظ بھی اپنی زبانوں پر لانا نہیں چاہتے اور اگر مذمت کرتے بھی ہیں تو شرم کے مارے.....اور اس کے باوجود غزہ کے لوگ ایسے کارنامے سرانجام دے رہے ہیں کہ وہ علاقائی طور پر کار آمد اسلحہ خود ہی بناتے ہیں جس نے دشمن کے ہوش اڑادئے ہیں، اوران کے دل دہل گئے ہیں.....مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ مسئلہ صرف یہودی وجود کا خاتمہ کرکے ہی حل ہوگا اور یہ معاملہ واضح ہے کہ دشمن کو مغلوب کرنے اور اس کا خاتمہ کرنے کے لئے افواج کی ضرورت ہے کہ جب وہ حرکت میں آئیں گی تو یہودی ہل کے رہ جائیں گے.....حقیقت یہ ہے کہ یہودیوں کی پشت پناہی کرنے والے استعماری کفار اور ایجنٹ حکمران مسئلہ فلسطین کو امت مسلمہ کے مسئلہ سے گھٹا کر عرب مسئلہ کی طرف اور رفتہ رفتہ فلسطینی قومی مسئلہ کی طرف لانے میں کامیاب ہوگئے بلکہ اس کو آدھا کردیا ہے ! جس سے ہر دیکھنے والے کے نزدیک اب یہ واضح ہوگیا ہے کہ فلسطین مکمل طور پر اس وقت ہی آزادی حاصل کرے گا جب یہ مسئلہ ایک دفعہ پھر ایک اسلامی مسئلہ کی شکل اختیار کرے، اور مشرق بعید میں انڈونیشیا سے لے کر مغرب میں مراکش کے دارالحکومت رباط تک ہر مسلمان خواہ عام شہری ہو یا فوجی اس کو اپنا مسئلہ سمجھے اور وہ یہ جان لے کہ فلسطین کوئی دوست یا برادر ملک نہیں بلکہ یہ ہماری اپنی جان، اپنی سرزمین، عزت اور ایک ذمہ داری ہے.....کیونکہ مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا إِذَا اشْتَكَى مِنْهُ عُضْوٌ تَدَاعَى لَهُ سَائِرُ الْجَسَدِ بِالسَّهَرِ وَالْحُمَّى "جب اس کے کسی عضو میں درد ہو تو باقی جسم اس کی وجہ سے جاگتااور بے قرار ہتا ہے اور بیماری میں مبتلاء رہتا ہے" (مسلم عن نعمان بن بشیر)۔
اےمسلم ممالک بالخصوص عرب ممالک کی افواج !
حزب التحریر تمہیں پکارتی ہے اور تمہارے عزائم کو بیدار کرتی ہے۔ یہ مبارک سرزمین تو مسلم ممالک کے درمیان موتی کی حیثیت رکھتی ہے اور یہ مسلمانوں کا قبلہ اول ہے۔ یہیں سے ان کے پیغمبرﷺ کو معراج ہوئی، سو اپنے دشمن کے ساتھ قتال کے لئے اٹھو اور اپنے لوگوں کو نصرت دو، جیساکہ اللہ سبحانہ کا ارشاد ہے، انْفِرُوا خِفَافًا وَثِقَالًا وَجَاهِدُوا بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ "(جہاد کے لئے) نکل پڑو، چاہے تم ہلکے ہو یا بوجھل، اور اپنے مال وجان سے اللہ کے راستے میں جہاد کرو۔ اگر تم سمجھ رکھتے ہو تو یہی تمہارے حق میں بہتر ہے" (التوبہ:41)۔ اور ایسے مت ہوجانا جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں، يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَا لَكُمْ إِذَا قِيلَ لَكُمُ انْفِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ اثَّاقَلْتُمْ إِلَى الْأَرْضِ أَرَضِيتُمْ بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا مِنَ الْآخِرَةِ فَمَا مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا فِي الْآخِرَةِ إِلَّا قَلِيلٌ "اے لوگو جو ایمان لائے ہو! تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ جب تم سے کہا گیا کہ اللہ کے راستے میں ( جہاد کے لئے ) کوچ کرو تو تم بوجھل ہوکر زمین سے لگ گئے ؟ کیا تم آخرت کے مقابلے میں دنیوی زندگی پر راضی ہو چکے ہو؟ (اگرایسا ہے ) تو (یاد رکھو کہ ) دنیوی زندگی کا مزہ آخرت کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں، مگر بہت تھوڑا" (التوبہ :38)... ورنہ اللہ سبحانہ و تعالٰی فرماتے ہیں، يَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ ثُمَّ لَا يَكُونُوا أَمْثَالَكُمْ "اور اگر تم منہ موڑوگے تو تمہاری جگہ دوسری قوم پیدا کردے گا، پھر وہ تم جیسے نہیں ہوں گے" (محمد:38)۔

Read more...

فلسطین کے مسلمانوں کا قتل عام نواز شریف یہ وقت افسوس کے اظہار کا نہیں بلکہ افواج کولازمی حرکت میں لانے کا ہے

منگل اور بدھ کی درمیانی شب، 16 جولائی کو رات گئے نواز شریف کی جانب سے ایک بیان جاری کیا گیا جس میں غزہ، فلسطین کے مسلمانوں کے خلاف یہود کے ظلم و ستم کو قتل عام سے تشبیہ دی اور دنیا سے مطالبہ کیا کہ وہ یہود کی ننگی جارحیت کو روکیں۔ حزب التحریر نواز شریف سے سوال کرتی ہے کہ دنیا سے سوال کرنے سے پہلے وہ یہ بتائے کہ ایٹمی اسلحے اور مزائلوں سے مسلح دنیا کی ساتویں بڑی فوج کے کمانڈر ان چیف اور ایک مسلم حکمران ہونے کے ناطے تم نے یہود کی اس جارحیت اور فلسطینی مسلمانوں کے قتل عام کو روکنے کے لئے کیا عملی قدم اٹھایا؟ کیا تم نے اللہ سبحانہ و تعالٰی کا یہ فرمان نہیں پڑھا کہ، وَإِنِ اسْتَنْصَرُوكُمْ فِي الدِّينِ فَعَلَيْكُمُ النَّصْرُ "اگر دین کی وجہ سےتم سے کوئی مدد مانگے تو تم پر ان کی مدد واجب ہے" (الانفال :72)۔ تو راحیل-نواز حکومت تم نے اب تک افواج کو فلسطین کے مسلمانوں کو یہود کے ظلم اور قبضے سے آزادی دلانے کے لئے حرکت میں آنے کا حکم کیوں نہیں دیا؟
نواز شریف تم کس منہ سے یہ کہہ سکتے ہو کہ مسلم امت کی خاموشی اور غیر افادیت نے فلسطینی مسلمانوں کو غیر محفوظ اور یہود کو جارح بنا دیا ہے جبکہ تم اس مسلم امت کے سب سے طاقتور ملک کے حکمران ہونے کے باوجود اپنی افواج کو حرکت میں نہیں لاتے؟ مسلم امت خاموش نہیں ہے بلکہ اس کے حکمران مردہ لاشیں ہیں جو نہ سن سکتے ہیں اور نہ حرکت کرسکتے ہیں۔ فلسطین کے مسلمان امت مسلمہ کے حکمرانوں کو مدد کے لئے مسلسل پکار رہے ہیں اور پوری دنیا کے مسلمان اپنے حکمرانوں سے فلسطین کے مظلوم بھائیوں کو یہود کے ظلم اور قبضے سے نجات دلانے کے لئے افواج کو حرکت میں لانے کا مطالبہ کررہے ہیں ۔ تو اے راحیل-نواز حکومت! مسلم امت خاموش نہیں ہے بلکہ تم سمیت تمام مسلم حکمرانوں کے دل پتھر کے ہوچکے ہیں کہ جن کے دلوں پر اپنی مسلمان بہنوں، ماؤں اور بچوں کی چیخ و پکار کوئی اثر نہیں ڈالتی۔
اے مجرم حکومت! دنیا سے یہود کے ظلم و ستم کو روکنے کا مطالبہ کر کے تم امت کو بے وقوف نہیں بنا سکتے کہ تم نے اپنی ذمہ داری ادا کردی۔ پوری دنیا کے مسلمان یہ جان گئے ہیں کہ ان کے حکمران امریکہ کے حکم پر تو دنیا کے کسی بھی کونے میں اپنی افواج کو اقوام متحدہ کا جھنڈا تھما کر قربان کرنے کے لئے فوراً بھیج دیتے ہیں لیکن جب ان سے مسلمانوں کو کفار کے ظلم و ستم سے نجات دلانے کے لئے کہا جاتا ہے تو ان پر سکتہ طاری ہوجاتا ہے اور زمین سے چمٹ جاتے ہیں۔ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَا لَكُمْ إِذَا قِيلَ لَكُمُ انْفِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ اثَّاقَلْتُمْ إِلَى الْأَرْضِ "اے لوگو جو ایمان لائے ہو! تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ جب تم سے کہا گیا کہ اللہ کے راستے میں (جہاد کے لئے ) کوچ کرو تو تم بوجھل ہوکر زمین سے لگ گئے ؟ " (التوبہ:38)۔
راحیل-نواز حکومت ! تمھارا یہ بیان امت کو اب دھوکہ نہیں دے سکتا کیونکہ امت اب یہ جان چکی ہے کہ جمہوری حکمران ہو یا آمر، ان کا قبلہ، کعبہ نہیں بلکہ واشنگٹن ہے اوران کے دل اپنی امت کے ساتھ نہیں بلکہ کفار کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ اسی لیے پاکستان سمیت پوری دنیا کے مسلمانوں میں خلافت کے قیام کی چاہت بڑھتی جارہی ہے کیونکہ خلافت ہی وہ ریاست ہے جو مسلمانوں کو ان کے دشمنوں سے تحفظ فراہم کرتی ہے اور جس کے ذریعے امت اپنے دشمنوں سے لڑتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ، اِ نَّمَا الْإِمَامُ جُنَّةٌ، يُقَاتَلُ مِنْ وَرَائِهِ، وَيُتَّقَى بِهِ "بے شک امام ڈھال ہے ،جس کے پیچھے رہ کر لڑا جاتا ہے اور اسی کے ذریعے تحفظ حاصل کیا جاتا ہے "۔
شہزاد شیخ
ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان

 

Read more...

غزہ کے مسلمانوں کی حمائت میں حزب التحریر ولایہ پاکستان کے ملک بھر میں مظاہرے مسلم افواج لازمی فلسطین کو یہود کے قبضے سے آزادی دلائیں

مضان کے مہینے کے دوران جو کبھی مسلمانوں کے لئے فتوحات کا مہینہ ہوا کرتا تھا ، یہودی ریاست نے یہ ہمت کی ہے کہ وہ مسلمانوں کے مقدس خون کو غزہ، فلسطین میں بہائے۔ حزب التحریر ولایہ پاکستان ملک بھر میں مظاہرے کئے اور مسلمانوں کی افواج کو پکارا کہ وہ یہودی قبضے کا خاتمہ کریں۔ مظاہرین نے بینرز اور کتبے اٹھا رکھے تھے جن پر تحریر تھا کہ " اے پاک فوج! حرکت میں آؤ فلسطین کو آزاد کراؤ"، "صرف خلافت کا قیام ہی فلسطین سمیت دنیا بھر کے مسلمانوں کوظلم سے نجات دلائے گا"، "امت کی ڈھال خلافت خلافت"۔
حزب التحریر افواج پاکستان کو فلسطین کے مسلمانوں کی اس مضبوط پکار کی یاد دلاتی ہے جو رمضان سے قبل جاری کی گئی تھی، " کیا تمہارے اندر الاقصٰی سے والہانہ محبت نہیں، کیا تمہارے دل الاقصٰی میں سجدے کے شوق سے لبریز نہیں، کیا تمہارے دلوں میں الاقصٰی سے ملاقات کی تڑپ نہیں رہی ہے ؟ کیا تم رسول اللہﷺ کے اسراء کے مقام کے دیوانے نہیں ہو ، کیا تم اس مبارک سرزمین پر شہادت کے آرزومند نہیں ہو جہاں تمہارا خون صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کے مبارک لہو سے یکجا ہو ؟ الاقصٰی تم سے یہ سوال کر رہی ہے ، عمر فاروق رضی اللہ عنہ کہاں ہے ۔۔۔ صلاح الدین کہاں ہے۔۔۔ مسلمانوں کا خلیفہ کہاں ہے ، کیا رسول اللہ ﷺ کا مقام اسراء تمہارے نزدیک ایسی بے وقعت ہے کہ تمہاری آنکھوں کے سامنے یہود اپنی نجاست سے اس کو روندتے رہیں ؟ یہ خلافت کے انہدام کی یاد میں تمہاری طرف الاقصٰی کی منادی ہے،خلافت کو قائم کرو اور مجھے آزاد کراؤ ،خلافت کو قائم کرو اور مجھے بچاؤ۔۔۔"
مسجد اقصٰی کی جانب سے اس پکار میں مزید کہا گیا ہے کہ " اے افواج پاکستان ۔۔۔ امریکہ تمہیں اپنے ہی بھائیوں کو قتل کرنے پر لگارہا ہے۔۔۔ امریکہ تمہیں تباہ کرنے کے درپے ہے۔۔۔ امریکہ ہی تمہارا دشمن ہے،اس کی غلامی سے اپنے آپ کو نکالو۔۔۔ اپنے درمیان موجود ایجنٹوں کو اٹھا کر باہر پھینک دو۔۔۔مسلمانوں کو یکجا کرو،اپنے جسم کے ٹکڑوں کو دوبارہ جوڑدو۔ تم، افغانستان ، ہند کے مسلمان ،وادی فرغانہ اور قفقاز ایک ہی امت ہو اور تم اسلام کی مدد اور اقامت دین پر قادر ہو۔۔۔ لہٰذا حزب التحریر کی تمہیں پکارتی ہے کہ خلافت کو قائم کرو اور پنی بہادر افواج کو بیت المقدس کی طرف گامزن کردو اور تم یہ شرف حاصل کرنے کے اہل ہو"۔

Read more...

قابض بر طانیہ کوبرصغیر میں استحکا م فراہم کرنے میں سر سید احمد خان کا کر دار

 

عرفان پاشا
عمومی طور پر پاکستان میں چھپنے والی نصابی اور غیر نصابی کتب میں برصغیر پاک و ہند، تشکیل پاکستان اور 1857ء کی جنگ آزادی کے متعلق جومعلو ما ت امت کے نوجوانوں کو دی جا تی ہیں وہ غلط اور بد دیا نتی پر مبنی ہیں۔ واقعات کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جا تا ہے۔ تاریخ میں جن شخصیات کو ہمارے لیے ہیرو بنا کر پیش کیا جا تا ہے ان میں سے بہت سے براہِ راست انگریز کے ایجنٹ رہے ہیں جیسا کہ آج افغانستان میں امریکی قبضے کے تحت کرزئی اور اس کے حواریوں کی حقیقت ہے یا پھر عراق میں امریکہ کی قائم کردہ حکومت کا معاملہ ہے۔ انیسویں اور بیسویں صدی کے برصغیر کی صورتِ حال اس سے کچھ مختلف نہ تھی۔ انگریز نے اپنی عملداری میں اپنے وفادار لوگوں کی ایک کھیپ تیار کی، جو انگریز سے مر عوب ہو کر ان کے طر ف دار رہے اور اسلام کو توڑ مروڑ کر برطانیہ کے قبضے کو جواز فراہم کرتے رہے۔ اور انگریزوں کی حکومت مضبو ط کر نے کے لیے ان کے دست و بازو بنے رہے۔
انگریز جب بر صغیر میں آیا تو اس نے یہا ں اپنے قدم جما نے کے لیے مختلف ریاستو ں کے نو ابوں، راجو ں اور مہا راجوں کو خرید ناشروع کر دیا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے طاقت کے ایوانوں میں موجود لوگوں کو خریدینے کے لیے 90,000 پاؤنڈ سٹرلنگ سالانہ سیاسی رشوت کے طور پر خرچ کیے۔ برصغیرمیں کل ریاستوں کی تعداد 635 تھی۔ بیشتر راجے مہا راجے انگریز کے ساتھ مل گئے۔ ان کے ذریعے انگریز نے جا گیرداری نظام قائم کیا۔ جن راجوں نے انکا رکیا ان کے درباریو ں کو خرید ااور ان کے ذریعے سازشیں کر کے انھیں کمزور کیا اور فوج کے ذریعے ان کو فتح کیا گیا بقیہ ملک جہا ں مغلوں کی براہ راست عمل داری تھی وہاں بھی یہی طریقہ اپنا یا گیا۔ ریاستوں میں انگریز سرکا ر سے وفاداری اور مسلمانو ں سے غداری کے مر تکب درباریوں کے نام کچھ بھی ہو ں مگر وہ میرجعفراور میر صادق کے قبیلے ہی سے تعلق رکھتے ہیں۔ اور ملکی سطح پر جن لوگوں نے کھل کر انگریز سے وفاداری اور مسلمانوں سے غداری کی، ان میں سرسید احمد خان سر فہرست ہیں۔ افسو س کی بات یہ ہے کہ آج ایسی شخصیات کو ہمارے نصابِ تعلیم میں ہیرو اور مسلمانوں کا نجات دہندہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ یہ لوگ جہا ں انگر یز کو بر صغیر پر غالب رہنے اور مسلمانو ں پرکا میا ب حکومت کر نے کے گُر بتا تے رہے وہا ں مسلمانو ں کو اس با ت پرآمادہ کر تے رہے کے انگریز کے وفادار رہیں۔ انگر یز کو ایسے لوگ در کار تھے جو لو گوں میں عمومی طور پر عزت دار اور مقبول ہوں اور لو گ ان پر عتماد کرتے ہو ں۔
بر طانیہ بخوبی واقف تھا کہ جب تک وہ یہا ں کے عوام کو تقسیم نہیں کرے گا اس وقت تک وہ تادیر قابض نہیں رہ سکے گا۔ اور یہا ں کی دولت جس کو لو ٹنے کے ارادے سے وہ یہاں آیا تھا اس کے لو ٹنے میں کا میا ب نہیں ہو سکے گا۔ ہندو برصغیر میں اسلام کی حکمرانی کے تحت ایک ہزار سال تک مسلمانوں کے ساتھ امن و تحفظ کی زندگی بسر کر تے رہے تھے۔ انگریزوں نے سب سے پہلے ان کو تقسیم کیا۔ 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد انگریز نے ہندؤں کو نوازنے کا سلسلہ شروع کیا اور مختلف حیلوں بہانوں سے انہیں مسلمانوں سے دور کیا اور ایسی فضاء پیدا کردی کہ ہندو مسلمانوں کو اپنا دشمن تصور کرنے لگیں۔ ان اسالیب میں سے ایک ہندوستان میں فورٹ ولیم کالج کا قیام تھا جسے انگریزحکومت نے برطانیہ سے آنے والے نوجوان انگریز افسروں کو ٹریننگ دینے کے لئے قائم کیا تھا۔ ان افسران کو اردو سکھانے کا انتظام بھی اسی کالج میں کیا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ فورٹ ولیم کالج کے بانی گور نر جنرل ولزلی نے اس کے قیام کی اصل تاریخ جو کہ 10 جولائی 1800ء ہے، کوتبدیل کر کے 4 مئی 1800ء کر دیا۔ یہ تبدیلی اس لیے کی گئی کہ یہ ریا ست میسور کے نواب حیدر سلطان اور ٹیپو سلطان پر انگریزکی فتح کی سالگر ہ کا دن تھا۔ اس کا لج میں ہند و اور مسلم ادیب بھرتی کیے گئے۔ یورپی اور انگریزی زبان کے ساتھ ساتھ دوسری زبانوں کی کتابوں کا اردو ترجمہ کر ایا گیا۔ یہ دور مسلمانوں کے انحطاط اور زوال کے عروج کا دور تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس دور میں لکھی گئی نثر مسلمانوں کی غلامانہ ذہنیت کی عکاس ہے۔ انگریز نے اس دور کے نثرنگاروں کو نو ازا جو اردو نثر کے ذریعے انگریزوں کے مقاصد پورا کر تے تھے۔ مولوی نذیر احمد نے اردو کا پہلا ناول ''مرأة العروس'' لکھا جس میں ملکہ و کٹوریہ کی خو ب تعریفیں تھیں۔ انگریز نے اس ناول کے لکھنے پر مو لو ی صاحب کو سونے کی ایک گھڑی اور ایک خطیر رقم انعام میں دی۔
فورٹ ولیم کالج ہی وہ جگہ ہے جہا ں سے انگریز نے اردو ہندی تنازع کا آغاز کیا۔ انگر یز ہند ؤں کو باور کرانے میں کامیا ب رہے کہ مسلمان اُنکے کبھی خیر خواہ نہیں رہے اوراب یہ زبان کے ذریعے تمہیں مغلو ب کر رہے ہیں۔ حالا نکہ ہندوستان میں اس سے قبل جو زبا ن بولی جار ہی تھی اُسکا نام ہندی یا ہندوستانی زبان تھا۔ یہ وہی زبا ن ہے جو اس سے پہلے لشکری، ہندوی، ریختہ اور اردوئے معلی کہلائی جاتی تھی۔ نام بدلتے رہے مگر اس زبان کا رسم الخط ہمیشہ عربی رسم الخط ہی رہا۔ ہند ؤں نے انگریزوں کے اکسانے پر اس زبان کو ہندی اور اردو دو مختلف زبا نوں میں بانٹ دیا اور ہندی کو دیونا گری رسم الخط میں لکھنا پڑھنا شروع کر دیا۔ فورٹ ولیم کالج نے اس تنازعہ کا نہ صرف آغاز کیا بلکہ اس کو خوب ہوا بھی دی۔ اس جھگڑے پر خود سر سید نے لکھا پڑھی شروع کر دی۔ نواب محسن الملک نے خوب گرم جوش تقریر یں کیں، اس وجہ سے ہندو مسلم تفریق کو تقویت ملی اور یہ تفریق اس وقت انگر یزوں کی سیاسی ضرورت تھی۔ اس تنازع میں ہند ومسلم فسادات ہوئے۔ ان فسادات میں مر نے والے مسلمانو ں کو بہت سراہا گیا۔ زبان کے نام پر مرنے والوں کو شہید کہا گیا۔ مسلمانوں کی جو توانائیاں انگریز قبضے کے خلاف بھرپور مزاحمت پر صرف ہونی چاہئے تھیں ان کا محور محض اردو زبان کا دفاع بن گیا۔
یہی مسلم رہنما مسلمانوں کوایک طر ف تو سیا ست سے دور رہنے کی تلقین کرتے رہے لیکن جب انگریز نے دیکھا کہ عوام میں انگریز کی نفر ت ختم نہیں ہو رہی اور بار بار بغاوتیں اٹھ رہی ہیں تو 1885ء میں ایک انگریز سر اے اوہیوم کے گھر پر کانگریس کے نام سے ایک سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی گئی تاکہ عوام اسی پلیٹ فارم پر جمع ہو کر اپنی بھڑاس نکال لیں لیکن اس کے تمام لیڈرز حکو مت کے قبضے میں رہیں۔ پھر اسی جما عت کے ذریعے ہندو مسلم تقسیم کا ایک اور موقع انگریزوں کے ہاتھ آگیا۔ کانگریس کے تمام بڑے عہدے ہندؤں کو دئیے گئے اور مسلمانوں کو یہ احساس دلایا گیا کہ یہ جماعت صرف ہندوؤں کی ہے۔ خود سر سید نے مسلمانوں کو کانگریس سے دور رہنے کی تلقین کی۔ یوں بالآخر 1906ءمیں مسلمانوں نے اپنی ایک الگ جماعت آل انڈیا مسلم لیگ کے نام سے بنائی جو مسلمانوں اور ہندؤں کی سیاسی تقسیم کی علامت تھی۔
مذہبی تعلیم اور عام دنیاوی تعلیم علیحدہ علیحدہ کرنے کا آغاز بھی ہماری تاریخ کا ایک افسوس ناک باب ہے۔ برصغیر میں انگریز کی آمد سے قبل جو مدارس قائم تھے ان میں یہ دونوں نصاب ساتھ ساتھ پڑھا ئے جاتے تھے۔ بلکہ اگر اس دور کا نصاب اٹھا کر دیکھیں تو دنیاوی تعلیم کے کورسز دینی تعلیم سے کہیں زیادہ تھے۔ قرآن و حدیث کے علاوہ عربی، فارسی، فلسفہ و منطق، طب، فلکیا ت، حساب و الجبرا وہندسہ، جیو میٹری اور شاعری کے ساتھ ساتھ صرف و نحوکی تعلیم دی جا تی تھی۔ بر صغیر میں مسلمانو ں کی آمد سے قبل کسی ایسے مدرسے کا وجود نہیں ملتا جس میں یہ تمام علوم پڑھائے جاتے ہوں۔ انہی مدارس سے پڑھے ہوئے لو گ امور مملکت چلاتے تھے۔ اعلیٰ سر کاری عہدوں پر فائز ہو تے تھے، مؤر خ اور ادیب بنتے تھے، انجینئر اور طبیب بنتے تھے، حکیم اور استاد کا درجہ حاصل کرتے تھے۔ توجہ طلب بات یہ ہے کہ خالصتاً دینی تعلیم کا مدرسہ سب سے پہلے انگریزوں نے کلکتہ میں قائم کیا اور دنیاوی تعلیم کے لئے اس کے مقابلے الگ کالج بنایا۔ دنیاوی مدرسے سے پڑھنے والوں کو سرکاری عہدے ملنے شروع ہوئے اور دینی مدرسے والے مسجد کی چار دیواری تک محدود ہو گئے۔
یو ں دین اور دنیا کے نام پر مسلمان تقسیم ہوئے۔ اس کے ساتھ ساتھ مسالک اور مذہبی گروہوں کو ایک دوسرے کے آمنے سامنے کر دیا گیا۔ کچھ نا سمجھ علماء نے ایک دوسرے کے مسلک کے خلاف کتابیں لکھیں جن کو انگریز نے ان چھاپہ خانوں سے چھپوایا جو فورٹ ولیم کالج کے زمانے میں برصغیر میں لگائے گئے تھے۔ علماء نے مسلکی بنیادوں پر مناظرے اور مباحث شروع کئے۔ اسلام میں اختلاف رائے کو کفر کے فتوؤں کی بنیاد بنایا۔ انگریزوں نے ہی مر زا غلام احمد قادیانی جیسے ملعون کا فتنہ کھڑا کیا۔ یوں مسلمان غیر اہم مسائلNon-issuesمیں الجھتے گئے اور اصل بات اور راستے سے دور ہوتے گئے، یعنی انگریز کو برصغیر سے نکال کر اسلام کی حکمرانی کو قائم کرنا۔
سر سید نے 1857ء کی جنگ آزادی میں انگریز سے وفاداری کا بہترین ثبوت دیا اور بجنور میں بیس پورپین اور یوریشن لوگوں کو مسلمانوں سے بچایا۔ سرسید باقاعدہ اسلحہ لگا کر پوری پوری رات ان کے گھر کے باہر پہرہ دیتے۔ یاد رہے کہ بجنور میں سر سید دلیری اور جاں بازی کے ساتھ جن لوگوں کی حفاظت کرتے رہے وہ عام انگریز نہیں تھے بلکہ وہاں کے حکمران تھے۔ یہ ایسے ہی ہے کہ اگر آج کوئی شخص افغانستان میں قابض امریکی فوج کے عہدیداروں کے دفاع اور تحفظ کا کام سر انجام دے۔ اگر سر سید ان مسلمانوں کی جان بچاتے جو انگریزوں کی گولیو ں کا نشانہ بن رہے تھے تو یقیناً وہ مسلمانوں کے ہیرو کہلانے کے حق دار ہوتے۔ بہر حال اس کمال وفاداری کے بدلے میں انگریز نے جنگ کے بعد سر سید کو ایک ہزار روپے کی خلعت عطا کی اور دوسو روپے ماہوار کی پولیٹیکل پینشن دو نسلوں تک مقرر کی!
سر سید نے 1857ء میں علی گڑ ھ میں ایم۔ اے۔او سکول کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا۔ مسلمانوں کو یہ باور کرایا گیا کہ چونکہ وہ تعلیم اور سائنس میں پیچھے رہ گئے ہیں اس لئے آج اس ذلت اور رسوائی کی حالت کو پہنچے ہیں۔ چنا نچہ ان کو پہلے سائنس کے میدان میں خود کو منوانا ہوگا۔ علی گڑھ میں سائنس اور انگریزی پر خصوصی توجہ دی جانے لگی۔ دو سال کے بعد یہ سکول حکومت کی اجازت سے 1877ء میں کالج کا درجہ اختیار کرگیا۔ اور اس کا افتتاح بھی 18جنوری 1877ء میں قابض انگریز حاکم لارڈ لٹن سے کرایا گیا تھا۔ علی گڑھ ادارے کو قائم کرنے کے لئے نہ صرف سرکار کی طرف سے خطیر رقم چندے کے طور پردی گئی بلکہ وہاں پڑھانے کے لئے انگریز اساتذہ کی خدمات بھی لی جاتی رہیں۔ سائنٹیفک سوسائٹی کے تحت یورپ میں چھپنے والے مضا مین کو اردو ترجمہ کراکے چھپوایا جاتا جس میں ایسا مواد ہوتا جو اسلام کے افکار اور مسلمانوں کی تہذیب و ثقافت پر ضرب لگاتا تھا۔ کتابوں کے ترجمے اردو میں کرائے جاتے۔ انگریز یہ چاہتا تھا کہ جو لوگ انگریزی نہیں جانتے وہ اردو کے ذریعے انگریزی افکار اور تصورات تک رسائی حا صل کریں اور انگریز کی ترقی سے مرعوب ہوں۔ انگریز کے نزدیک انگریزی سے زیادہ ضروری انگریزیت اور اپنی مغربی ثقافت اور طرز حیات کا پرچار تھا جو وہ اردو اور انگریزی دونوں کے ذریعے کر رہا تھا۔
انگر یز بخوبی واقف تھا کہ جب تک مسلمان اپنی فکر اور عقیدے اور اسلا می طر زحیات اور قرآن سے کٹ نہیں جاتے اس وقت تک یہ دل سے ان کی حکومت کو تسلیم نہیں کریں گے۔ چنا نچہ اب اسلا م کی ایسی تشریح کی ضرورت تھی کہ جو انگریز کے مفاد میں ہو۔ سرسید نے اس کام کا بیڑا اٹھایا اور انگریزی راج سے وفاداری کی خا طر اسلام اور قرآن و سنت کو بھی تختہء مشق بنانے سے گریز نہیں کیا۔ انھو ں نے اسلام کو عقل اور سائنس کے اصولوں پر پرکھنا شروع کر دیا۔ سر سید کے بقول قرآن خالق کا قول ہے اور یہ کائنا ت اس کا فعل ہے۔ چنا نچہ خالق کو یہ زیبا نہیں ہے کہ اس کے قول و فعل میں تضاد ہو۔ ان کے نزدیک کائنات اور اس کے مظاہر ہمارے سامنے ہیں جن کو ہم دیکھ رہے ہیں۔ اس لئے یہ ایک اٹل حقیقت ہیں۔ انہو ں نے اس وقت کے سائنسی اصولوں کو بنیاد مانا (جو کہ خود انسان نے اپنی محدود عقل سے اخذکیے تھے) اورا س کے مطابق قرآن کی تفسیر شروع کر دی۔ قرآن کی جو بات اس وقت کی سائنسی ترقی اور عقلی سطح کی بنیاد پر درست ٹھہرتی اس کو مان لیتے ورنہ وہ ان آیات کی من مانی تفسیر کر کے قرآن کو ان سائنسی آرا کے مطابق ثابت کرنے کی کوشش کرتے۔ ان کی عقل میں یہ بات نہ آسکی کہ کائنات کے جن اصولوں کو وہ بنیاد مان کر قرآن پرکھ رہے ہیں یا اس کی تفسیر کر رہے ہیں وہ انسانی عقل نے سائنس کی بنیاد پر اخذ کئے ہیں اور سائنس کے نظریات اور قوانین نئی نئی تحقیقات کی وجہ سے بدلتے رہتے ہیں۔ اس کی چند مثالیں درج ذیل ہیں:۔
سر سیدکے نزدیک فرشتے کسی خاص مخلوق کا نام نہیں بلکہ یہ اللہ کی پیدا کی ہوئی قوتیں ہیں جو اس کائنات کا نظام چلانے کے لئے ہیں۔ اسی طرح جنات چونکہ کسی سائنسی تجربہ گاہ میں ثابت نہیں ہوتے اس لئے وہ بھی مخلوق نہیں ہیں۔ ان کے نز دیک جنت اور جہنم کا جو تصور مسلمانو ں میں پایا جاتا ہے وہ غلط ہے بلکہ اسی دنیا میں سکون اور نعمتوں سے معمور زندگی جنت جبکہ مصیبتوں اور تکالیف سے بھر پور زندگی جہنم ہے۔ انبیاء اور رسل کے معجزات کا سر سید نے اپنی کتاب ''تفسیر القرآن '' اور ''خطبات احمدیہ'' میں ببانگ دُہل انکار کیا ہے۔ وہ معجزات سے متعلق آیات کی تفسیر نہایت بھونڈے انداز میں کرتے ہیں۔ مثلاً ان کے بقول حضرت موسٰی علیہ السلام کا عصا مار کر پتھر سے بارہ چشمے جاری کرنے کا معجزہ مفسرین کی قرآن فہمی میں کجی اور غلط تفسیر کرنے کا نتیجہ ہے۔ اپنی کتاب تفسیر القرآن میں لکھتے ہیں کہ قرآن میں فقلنا اضرب بعصاک الحجر کا مطلب سمجھنے میں علماء اسلام اور علمائے لغت سے سخت غلطی ہوئی ہے۔ اس آیت کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ ''پس ہم نے کہا کہ اپنا عصا پتھر پر مارو''۔ فرماتے ہیں کہ اضرب کا مطلب ہے ''چلو '' بعصاک کا مطلب ہے ''چھڑی کے ذریعے سے'' اور الحجر کا مطلب ہے ''پہاڑ''۔ یوں ترجمہ یہ بنا کر ''اپنی چھڑی کے ذریعے پہاڑ پر چلو '' گویا کہ اس میں معجزے والی کوئی بات ہی نہیں ہے۔ پس موسیٰ علیہ السلام اپنے عصا کے سہارے پہاڑ پر چلے اور ایک جگہ پر انھوں نے بارہ چشمے دیکھ لیے۔ اپنے مطلو بہ معنیٰ اخذ کرنے کے لئے سر سید نے عربی قواعد ہی بدل ڈالے۔ عربی میں اگر اضرب ہو تو اس کا مطلب ''چلو '' ہو گا لیکن اگر صلہ ب ہو یعنی فعل کے بعد ب ہو تو اس کا مطلب ''اس سے مارو'' ہو گا۔ چنا نچہ اضرب بعصاک کا ترجمہ ''اپنی چھڑی سے مارو'' ہو گا نہ کہ ''اپنی چھڑی سے چلو''۔ دوسرے سے یہ کہ الحجر کا مطلب ''پتھر '' ہوتا ہے اور سرسید نے اس کا مطلب ''پہاڑ '' کیسے لے لیا اس کی وضاحت وہ خود بھی نہ کر سکے۔ اس طرح انہوں نے واقعہ معراج کا بھی انکار کیا۔ چونکہ سر سید حدیث کو معتبر نہیں مانتے تھے اس لئے اپنے مؤقف کو ثابت کر نے کے لئے صرف اور صرف قرآن کا سہارا لیتے تھے۔ سر سید اجتہاد کو اصلاح مذہب کا متبادل ومترادف گردانتے تھے۔ اجتہاد سے ان کی مراد دینی اصطلا ح نہیں بلکہ الحاد تھا۔ یعنی مغرب کے راستے میں دین کا جو حکم رکاوٹ بنے اس کی تاویل کر کے بدل دیا جائے یا اسے دین سے خارج کر دیا جائے۔ چونکہ فرشتوں کے وجو د کے منکر تھے اس لئے قرآن کورسول اللہﷺ کا کلام مانتے تھے۔
1857ء کی جنگ آزادی مسلمانو ں نے جذبہ جہاد اور کافر انگریز سے نفرت کی بناء پر لڑی، جیسا کہ آج افغانستان کے مسلمان قابض امریکی فوج کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ لیکن سر سید نے اس جنگ کو ''غدر'' اور ''بغاوت'' کا نا م دیا۔ گویا یہ آزادی کی جنگ نہیں بلکہ حکومت سے غداری اور بغاوت تھی۔ اپنے رسالے ''اسباب بغاوت ہند'' کے نام سے ہی انھوں نے ظا ہر کیا کہ یہ ایک بغاوت تھی جس کے اس خطے کے مسلمان مر تکب ہوئے۔ اس رسالے میں انھوں نے انگریزوں کو یہ بتایا کہ مسلمان پوری طرح آپ کے خیر خواہ ہیں مگر اس بغاوت کی وجہ یہ ہے کہ آپ نے ملک کی سیا سی کونسلو ں میں مسلمانوں کو نمائندگی نہیں دی اس لئے وہ آپ سے بدظن ہو گئے ہیں۔ گویا سر سید نے انگریزوں کو مسلمانوں پر کامیاب حکومت کرنے کا طریقہ بتایا۔ بعد میں انگریز نے سر سید کو سیاسی کونسل ممبر بھی بنا دیا۔
سر سید نے ''لا ئل محمڈ نز آف انڈیا'' کے نام سے ایک کتاب لکھنے کاارادہ کیا۔ اس کے تین شمارے جو1860ء سے 1861ء کے دوران چھپےجو سر سید کی انگریزوں سے وفاداری کا کھلا ثبوت ہیں۔ اس رسالے میں ایک جگہ لکھتے ہیں کہ ''جن مسلمانوں نے سرکار کی نمک حرامی اور بد خواہی کی، میں ان کا طرفدار نہیں ہوں، میں ان سے بہت ناراض ہو ں اور ان کو حد سے زیادہ بُرا جانتا ہو ں کیو نکہ یہ ہنگامہ ایسا تھا کہ مسلمانو ں کو اپنے مذہب کے بموجب عیسائیوں کے ساتھ رہنا چاہئے تھا جو اہل کتاب اور ہمارے مذہبی بھا ئی ہیں، نبیوں پر ایما ن لا ئے ہیں، خدا کے دیے ہوئے احکام اور خدا کی دی ہوئی کتاب اپنے پاس رکھتے ہیں، جس کی تصدیق کرنا اور جس پر ایمان لانا ہمارا عین ایما ن ہیں۔ پس اس ہنگامے میں جہاں عیسائیوں کا خون گرتا وہیں مسلمانوں کا بھی خون گرنا چاہیے تھا۔ پھر جس نے ایسا نہیں کیا اس نے علاوہ نمک حرامی اور گورنمنٹ کی ناشکری کے، جو کسی حال میں رعیت کو جائز نہ تھی اوراپنے مذہب کے بھی بر خلاف کیا۔ اس لئے بلا شبہ وہ اس لائق ہیں کہ زیادہ ان سے ناراض ہو ا جا ئے''۔
سر سید انگریز حکو مت کے لئے رائے عامہ ہموار کرنے کا کوئی موقع ہا تھ سے جانے نہ دیتے تھے۔ 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد ملکہ وکٹوریہ نے معافی نامے کا ایک اشتہار جاری کیا جس میں مسلمانو ں کے قتلِ عام پر معذرت کی گئی تھی۔ سر سید نے مراد آباد کے مسلمانوں کو اس کی اطلاع دی اور کہا کہ ملکہ معظمہ کی اس عنایت و مہربانی کا شکریہ ادا کرنا لازم ہے۔ چنانچہ ایک مشہور درگاہ شاہ بلاقی اس کے کام کے لئے تجویز کی گئی۔ 28جو لا ئی1859ء کو 15 ہزار لوگوں کو جمع کیا گیا۔ زیادہ سے زیادہ لوگ جمع ہو جائیں اس مقصد کے لئے وہاں کھانے کا اہتما م کیا گیا۔ نماز عصر کے بعد سر سید نے اجتماعی دعا کی جس کے متن کا کچھ حصہ ذیل میں ہے۔ فر ماتے ہیں ''الہٰی تیرا ایک بہت بڑا احسان اپنے بندوں پر یہ ہے کہ اپنے بندوں کو منصف اور عادل حاکموں کے سپر د کرے۔ سو برس تک تو نے اپنے ان بندوں کو جن کو تو نے خطہ ہندوستان میں جگہ دی ہے اس طرح عادل اور منصف حاکموں کے ہاتھ میں ڈالا۔ پچھلے کم بخت برسوں میں جب بسبب نہ ہونے ان حاکموں کے، ہماری شامت اعمال ہمارے پیش آئی، اب تُونے اس کاعوض کیا اور پھر وہی عادل اور منصف حاکم ہم پر مسلط کیے۔ تیر ے اس احسان کا ہم دل سے شکر ادا کرتے ہیں تو اپنے فضل و کرم سے اس کو قبول کر۔ آمین۔ اہلِ ہند جو اس اتفاقیہ آفت میں گرفتار ہو گئے تھے ان پر رحم کرنا تُو نے ہی ہمارے حکام کے دل میں ڈالا، تیرے ہی القا سے کوئین وکٹوریہ دام ظلھا نے پُر رحم اشتہار معافی جاری کیا۔ ہم دل سے شکر ادا کرتے ہیں اور اپنی جان سے ملکہ کو دعا دیتے ہیں، الہٰی تو ہماری اس دعا کو قبول کر آمین ! الہٰی ہماری ملکہ وکٹوریہ ہو اورجہاں ہو''۔ قارئین اس دعا کے ایک ایک لفظ سے مکاری، غداری، فریب اور دھوکا دہی جو سر سید مسلمانوں سے کر رہے تھے، ٹپک رہی ہے۔ اور ہر ہر لفظ انگریز کی وفاداری کی قسم کھا رہا ہے۔ اور ستم ظریقی یہ ہے کہ ایسی شخصیت کو آج ہمارے لیے رول ماڈل بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔
یہ امر اب مسلمانو ں پر واضح ہو چکا ہے کہ ان کے زوال کا سبب ان کی اسلام کے فہم میں کمزوری اور اسلام کا غلط نفاذ تھا۔ لیکن سر سید نے مسلمانوں کو زوال سے نکلنے کے لیے غلط حل تجویز کیا۔ ان کی دانست میں کامل دینِ اسلام سے پھوٹنے والے نظام ہائے حیات کو اختیار کیے بغیر، سائنس، ایجادات اور زندگی کے متعلق افکار میں محض مغرب کی تقلیدکرکے ہی مسلمان ترقی کر سکتے ہیں اور یہ انگریزوں کے تسلط اور قبضے کے تحت بھی ممکن ہے۔ اسلام کو بطور آئیڈیالوجی اختیار نہ کرنے کی وجہ سے ہی آج ہم سائنس اور ٹیکنالو جی میں بھی مغر ب سے پیچھے ہیں۔ چنانچہ اگر ہمیں ایک ترقی یافتہ امت بننا ہے تو ہمیں سب سے پہلے اسلا می عقیدہ کو نظام ہائے حیات کے لیے بنیاد کے طور پر اختیار کرنا ہو گا۔ نہ کہ ہم اندھادھند مغرب کی تقلید میں سائنس اور ٹیکنالو جی کے پیچھے بھا گنے لگ جا ئیں۔ اگر سائنس اور ٹیکنا لو جی میں کسی قوم کی نقالی کر لینا ہی کسی قوم کو ترقی یافتہ اور مہذب بناتا ہے اور اگر قرآن اور اسلا م نے تجربیت، سائنسی ترقی کو اقوام کے عروج اور ترقی کی اساس بنا یا ہے، جیسا کہ سر سید گمان کرتے تھے، تو پھر خود رسول اکرمﷺ نے سائنسی تجربیت اور عقلیت کے ذریعے انقلا ب برپاکیوں نہ کیا؟ خلافت راشدہ ان ایجادات اور دریافتوں سے خالی رہ کر بھی اسلام کا زریں دور کیسے کہلایا؟ اگر سائنس روشن فکری اور تہذیب کی اساس ہے تو انبیاء کم از کم سائنس دان تو ہوتے اور انسانیت کے لیے کچھ ایجادات تو کرتے۔ اگرچہ یہ بات صحیح ہے کہ اسلام جو عقیدہ اور فکر مسلمانو ں کو دیتا ہے، سائنسی ترقی اور ٹیکنا لو جی کا حصول اس کا لازمی نتیجہ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نبی کریمﷺ نے جس اسلامی معاشر ے کی بنیاد مدینہ کی ریاست میں رکھی تھی وہ معاشرہ بہت جلد ایک ترقی یافتہ معاشرہ بن گیا۔ آنے والے زمانے میں اس کے پاس جنگی سازوسامان، بحری بیٹرے، توپ، علوم وفنون کے ذخائر جیسے کہ طب، فلسفہ، سائنس جس میں کیمیا، ریاضی، الجبرا، ہندسہ، ہئیت، حیاتیات، سرجری، میڈیسن اور وہ سب کچھ جو مغرب نے کبھی خواب میں بھی سوچا نہ تھاموجو د تھا۔ لیکن یہ سب اسلامی عقیدے سے پھوٹنے والی فکرکا نتیجہ تھا جس پر اسلامی معاشرہ قائم تھا نہ کہ از خود یہ سب ترقی کی بنیاد تھا۔ اصل بات تو یہ ہے کہ معاشرے میں تبدیلی کا سبب فکر کی تبدیلی ہے اور ترقی اس کا نتیجہ ہے اور نتائج کبھی اسباب نہیں ہوا کرتے۔ جیسا کہ اللہ رب العزت نے فر مایا: ان اللہ لا یغیر مابقوم حتی یغیروا ما بانفسھم ''بے شک اللہ تعالی کسی قوم کی اس وقت تک حالت نہیں بدلتا جب تک وہ اس کو نہ بدلیں جو ان کے نفوس میں ہے'' (الرعد:11)۔
اور جہاں تک مسلمانوں کی حقیقت کا تعلق ہے تو ایسا نہیں تھا کہ اس وقت مسلمان علوم و فنون سے عاری اور جاہل، ان پڑھ، نکمے اور بد تہذیب تھے، جیسا کہ کچھ لوگوں میں یہ تاثر آج بھی پایا جاتا ہے۔ ہمیں آج تک یہ پڑھایا گیا کہ ہمارے مسلم حکمران سوائے عیاشی کے اور کچھ نہیں کرتے تھے جبکہ انگریز کی آمد سے قبل برصغیر کو سونے کی چڑیا کہا جاتا تھا۔ خوش حالی کا عالم یہ تھا کہ ایک شخص عبدالغفور کے اثاثے ایسٹ انڈیا کمپنی سے زیادہ تھے۔ بنگال کی جگت ہت سیٹھ فیملی کے پاس بینک آف انگلینڈ سے زیادہ سر مایہ تھا۔ 1775ء میں جنگ پلا سی کی لوٹ مار سے جو سرمایہ حاصل ہوا وہ پورے یورپ کے جی۔ ڈی۔ پی سے زیادہ تھا۔ کیپٹن الیگزینڈر ہمیلٹن کے مطابق صر ف دلی شہر میں دس ہزار سکول و کا لج مو جو د تھے اور پورے شہر میں ستر ہسپتال تھے۔ بنگال میں اسی ہزار سکول اورکالج تھے جن میں سے کسی میں بھی چار سو سے کم طالبعلم نہ تھے۔ کیپٹن الیگز ینڈر اپنی کتاب 'A Case For India' میں لکھتا ہے کہ مغلو ں کے زمانے میں ایک لا کھ پچیس ہزار اداروں میں طب کا علم پڑھا یا جاتا تھا۔ ابن بطوطہ کا سفر نامہ دیکھیں تووہ لکھتا ہے کہ بمبئی کے قریب ایک جگہ ہواز ہے جہاں دو اسکول مردوں اور تیرہ سکول عورتوں کے تھے اور پورے علاقے میں کوئی ایک شخص بھی ایسا نہ تھا خواہ وہ مر د ہو یا عورت جسے قرآن حفظ نہ ہو اور وہ اس کا ترجمہ نہ جا نتا ہو۔ دنیا کی سب سے بڑی سٹیل انڈسٹری برصغیر میں تھی اور یہ برتری 1880ء تک بر قرار رہی۔ یہی حال جہا ز رانی کے شعبے کا تھا۔ دنیا میں سب سے زیادہ جہاز یہاں بنتے تھے۔ بر صغیر کی درآمدات کبھی بھی برآمدات سے زیادہ نہ تھیں۔ ٹھٹھہ کے علا قے میں چار سو اعلیٰ تعلیمی ادارے تھے۔ لارڈ میکا لے کی 1835 ء کی تقریر کا وہ فقرہ جو اس نے برطانوی پالیمنٹ میں کی تھی اس با ت کی تصدیق کے لیے کافی تھا کہ یہ خوشحالی صرف چند لوگوں تک محدود نہ تھی بلکہ عوام عمو می طور پر خوشحال تھے۔ لارڈ میکا لے کہتا ہے کہ میں نے ہندوستان کے طول و عرض میں سفر کیا لیکن مجھے کسی طرف کوئی فقیر نظر آیا نہ چور دکھا ئی دیا۔ 1911ء کی مردم شماری جس کی رپورٹ مقبرہ انار کلی میں پڑی ہے جو انگریزوں نے کرائی تھی، اس کے مطابق یہا ں کی شرح خواندگی 90 فیصدسے زیادہ تھی اور 1941ء میں کر وائی جانے والی مر دم شماری میں شرح خواندگی 10 فیصد سے بھی کم ہو چکی تھی۔ آج اگر امریکہ ورلڈ ٹریڈ سنٹر، وائٹ ہا ؤس، کھلی کھلی سڑکیں، سو سو منزلہ عمارتیں بنائے تو یہ معاشی اور سائنسی ترقی ہے اور اگر ہمارے حکمرانوں نے شاہی قلعہ، بادشاہی مسجد، شالا مار باغ بنائے تو یہ عیش و عشرت قرار پایا۔ جبکہ یہ بڑی بڑی عمارتیں بنانے والے انجئنیر انہی مدرسوں کے فارغ التحصیل تھے جہا ں دنیا جہان کے علوم و فنو ن پڑ ھا ئے جا تے تھے۔ اور یہ عمارات ریاست کی خوشحالی اور دولت کی فراوانی کی واضح دلیل ہیں۔ لیکن سر سید کہ جس کی آنکھوں پر انگریزوں کی مرعوبیت کی پٹی بندھی ہوئی تھی، کی نظر سے یہ تمام حقائق اوجھل تھے۔ اگرچہ سر سید کا دور آج کی نسبت مسلمانوں کے اس شاندار ماضی کے بہت نزدیک تھا۔
یہ ہیں وہ لوگ جورہنمائی کے نام پر اس امت کے ساتھ رہزنی کر تے رہے۔ جو اخلاص کا دعویٰ مسلمانو ں سے کر تے رہے مگر وفاداری کا دم کفار سے بھرتے رہے۔ آج معاشرے کے ایک طبقے میں کفار سے مرعوبیت اور اپنی روشن تاریخ سے عدم آگاہی کی اہم وجہ یہ ہے کہ ہمارے نصابِ تعلیم کو اس انداز سے ترتیب دیا گیا ہے کہ وہ مسلمانوں کے اندر غلامانہ ذہنیت کو پروان چڑھاتا ہے اور ایسی شخصیات کو ہمارے لیے ہیرو بنا کر پیش کرتا ہے جو بذاتِ خود غلامانہ ذہنیت کے حامل تھے۔ خلافت کے قیام کے بعد تاریخ میں موجود اس ملاوٹ اور علمی خیانت کو بھی صاف کیا جائیگا۔ خیانت اور دھوکے بازی کی جو گرد ان غداروں نے اڑائی تھی جو ہماری تاریخ کے چہرے پر جم چکی ہے، خلافت کے کھرے نصابِ تعلیم سے یہ سب دھل جائے گی اور مسلمانوں کی درست تاریخ نکھر کر اس امت کے سامنے آجا ئیگی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں وہ دید ہ بینا عطا فرمائے جس سے ہم غلط کو غلط اور صحیح کو صحیح دیکھ سکیں۔ آمین۔

Read more...
Subscribe to this RSS feed

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک