الجمعة، 27 جمادى الأولى 1446| 2024/11/29
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

حکومت کی جانب سے فاش غفلت کا سبب جمہوری سیاست ہے جبکہ پاکستان میں 115 افراد طوفانی بارش میں لقمۂ اجل بن گئے

 

تحریر: انجینئر سہام، پاکستان
حال ہی میں پاکستان کے صوبوں پنجاب اور خیبر پختونخواہ کے کچھ حصّوں میں شدید بارش کے بعد پانی کے چڑھاؤ کی وجہ سے ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد 115 تک پہنچ گئی، جبکہ کئی اور لوگ زخمی ہوئے ہیں۔ زیادہ تر اموات چھتیں گرنے، ریزشِ زمین اور بجلی کے جھٹکے لگنے سے واقع ہوئیں ہیں۔ بعض شہروں میں ہونے والی بارش کی مقدار 130 ملی میٹر سے زائد ہے۔ پاکستان کے محکمۂِ موسمیات نے شمال مشرقی پنجاب اور کشمیر میں موسم شدید ہونے کی تنبیہ جاری کی ہے اور ان کا بیان ہے کہ مزید شدیدبارش متوقع ہے جس کی وجہ سے مزید سیلاب آ سکتے ہیں۔
پاکستان میں طغیانی بارش اور سیلاب ہر سال پابندی سے واقع ہوتے ہیں، مگر جمہوری حکومتیں اس بات سے قاصر ہیں کہ وہ انسانی جانوں کی حفاظت کیلئے موزوں اقدامات کرسکیں۔ پاکستان کے لوگ پچھلے کم از کم چار سالوں سے جان لیوا مون سون سیلابوں کا شکار ہیں۔ 2013ء میں ملک بھر میں سیلاب آنے کی وجہ سے 178 افراد ہلاک ہوئے اور کچھ 15 لاکھ شدید متاثر ہوئے۔2012ء میں 520 لوگ موت کے منہ میں چلے گئے جبکہ زخمیوں کی تعداد 1180 سے زائد تھی۔ 2010ء کا سیلاب پاکستان کی تاریخ کا بدترین سیلاب تھا جس نے ایک بڑے انسانی بحران کی صورت اختیار کر لی تھی، اور اس میں 1800 ہلاکتیں ہوئیں اور 12 ملین لوگ متاثرین میں سے تھے۔ پچھلے تین سالوں سے پاکستان عالمی موسمی خطرات کی فہرست، جسےانصاف کے عالمی مسائل پر نظر رکھنے والی این-جی-او جرمن واچ نے ترتیب دیا ہے، میں سب سے پہلے نمبر پر ہے۔ 2010ء میں پاکستان ملک گیر سیلابوں کی وجہ سے موسمی آفات سے سب سے زیادہ متاثر ملک کے طور پر درج تھا، اور 2011ء میں وہ اس ضمن میں تیسرے نمبر پر تھا۔
پچھلے چار سالوں میں مسلسل سیلاب کی تباہ کاریوں کے باوجود کوئی مناسب عملی اقدامات نظر سے نہیں گزرتے۔ این-سی-سی-پی (قومی موسمی تبدیلی حکمتِ عملی) جسے پچھلے سیلابوں کے بعد عوام کے غم وغصے کے ردعمل کے طور پر جاری کیا گیا تھا، اب پس منظر میں چلی گئی ہے۔ مئی 2013ء کے عام انتخابات میں اقتدار میں آنے کے بعد جلد ہی ن-لیگ نے وزارتِ موسمیاتی تبدیلی کو گھٹا کر محض ایک ڈویژن بنا چھوڑا اور اس کا بجٹ بھی بہت کم کر دیا گیا کیونکہ یہ مسئلہ اس وقت عوام کی نظر میں عملی اہمیت کا حامل نہیں تھا۔
اس موجودہ سانحے میں وزیرِ اعظم کو طوفانی بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے تباہی سے آگاہ ہونے میں ہی کئی دن لگ گئے۔ اتنی تاخیر کے بعد بھی محض ایک عمومی ہدایت جاری کرنے پر اکتفاء کیا گیا ہے، کہ تمام اہم شاہراہیں جو بارش کی وجہ سے منقطع ہوگئیں ہیں ان کی جلد از جلد مرمت کی جائے تاکہ امدادی کام تیز رفتاری سے عمل میں لایا جائے۔ مزید یہ کہ این-ڈی-ایم-اے کو ہدایت جاری کی گئی ہے کہ سیلاب کے نتیجے میں ہونے والے نقصان کا اندازہ لگایا جائے۔ تھوڑی بہت عقل سمجھ رکھنے والا بھی اندازہ لگا سکتا ہے کہ ان ساری ہدایات سے انسانی جانیں بچانے میں کیا مدد ملے گی؟ مگر وزیرِاعظم صاحب کو سب سے زیادہ فکر شاہراہوں کے صاف ہونے کی ہے تاکہ افغانستان پر قابض نیٹو افواج کو پہنچنے والے ہتھیاروں، سور کے گوشت اور شراب کی رسد میں کوئی تعطل نہ پیدا ہونے پائے، جیسا کہ 2010ء میں بھی اس معاملے کو انسانی جانیں پچانے سے زیادہ اہمیت حاصل تھی ۔
پاکستان کی عوام ہلاکت اور بربادی کا سامنا کر رہی ہے، جبکہ حکومت اور حزبِ اختلاف دونوں کو اپنے سیاسی تماشے سے فرصت نہیں ہے، جس میں وہ اپنے دھرنوں اور سڑکوں پر جشن منانے ، اسمبلی میں بیٹھ کر کھوکھلی تقاریر پر تالیاں بجانے اور الزامات کے اسی تبادلے میں مصروف ہیں جو کہ ماضی قدیم سے ہوتا چلا آرہا ہے۔ لہٰذیکم ستمبر 2012ء میں جب انگریزی روزنامہ ٹریبیون (Tribune) کی ایک خبر کے مطابق بارش اور سیلاب کی وجہ سے کم از کم 78 ہلاکتیں ہوئیں توعمران خان کی پارٹی پی-ٹی-آئی نے پنجاب کی ن-لیگی حکومت پر اعتراض کیا کہ انہوں نے سیلاب آنے کا انتباہ جاری نہیں کیا اور موسمیاتی مسائل کے لئے صرف6 ارب روپے مختص کیے۔ اسی طرح جب اگست 2014ء کے وسط میں شدید بارشوں نے کم از کم 16 لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا اور 80 سے زائد زخمی ہوئے تو وزیرِاعلیٰ خیبر پختونخواہ پرویز خٹک "آزادی مارچ" میں کنٹینر پر ناچنے میں مگن تھا، جس بات پر ن-لیگ سمیت کئی سیاسی حلقوں نے اس کی مذمت کی۔ جمہوریت میں سیاست دانوں کا کردار روم کے شہنشاہ نیرو کی طرح کا ہے کہ جس اثناء میں شہر جل رہا ہے، وہ بانسریاں بجانے میں مشغول ہیں۔
جمہوری حکومت، چاہے وفاقی ہو یا صوبائی، لوگوں کے امور کی دیکھ بھال میں بری طرح ناکام ہوچکی ہے ۔ جمہوریت کے علمبردار سیاست دان، حکومت ہو یا حزبِ اختلاف، ڈھٹائی سے لوگوں کے مسائل کو نظر انداز کرتے ہیں۔ یکے بعد دیگرے جمہوری حکومتوں کی انسانی زندگی کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکامی کی بنیادی وجہ دراصل جمہوریت کی اپنی اصلیت ہے۔ جمہوری طریقِ کار لوگوں کے امور کی دیکھ بھال کرنا نہیں ہے بلکہ ایک مخصوص سیاسی طبقۂِ اشرافیہ کے منافع کی دیکھ بھال کرنا ہے۔ جہاں بھی جمہوریت کا وجود ہے، وہاں ایک اونچے طبقے کی طرف سے کیے جانے والا عوام کا استحصال اور لوگوں کے مسائل سے چشم پوشی لا محالہ پائی جاتی ہے ۔ مغربی جمہوری نظاموں میں بھی امیر ترین لوگ وہی ہیں جن کہ ہاتھ میں براہِ راست یا بالواسطہ سیاسی طاقت کی کنجیاں ہیں۔ ان کے ہاتھوں میں دولت کے ارتکاز کو جمہوریت کے تحت انسان کے بنائے ہوئے قوانین کے ذریعے جائز اور قانونی عمل قرار دے دیا گیا ہے۔ لوگوں کے حقیقی مسائل پر ان کا انتہائی سست اور ناکافی ردعمل جس کی وجہ سے عوام کا غم وغصہ بھڑک اٹھا ہے کاترینا طوفان جیسے کئی قدرتی سانحوں میں دیکھا جا سکتا ہے۔ کاترینا طوفان اور اس کے بعد آنے والے سیلابوں میں کم از کم 1833 افراد مارے گئے، جس کا مطلب ہے کہ یہ 1982ء کے بعد امریکہ میں آنے والا سب سے مہلک طوفان تھا۔ ایک اندازے کے مطابق اس طوفان میں 108 ارب 2005ء کے امریکی ڈالر کی مالیت کی جائد2اد کا نقصان ہوا۔ کانگریس نے جب وفاقی، صوبائی اور مقامی حکومتوں کے ردِعمل کے متعلق تفتیش کی تو معلوم ہوا کہ ریڈ کراس اور FEMA کے پاس "رسد کی وہ موذوں استعداد نہ تھی جس سے وہ خلیج کے ساحل کے متاثرین کی اتنی بڑی تعداد کی مدد کر سکیں"۔ اس تفتیش کا نتیجہ یہ تھا کہ اس سانحہ میں ہونے والے جان و مال کے نقصان کی ذمہ داری حکومت کی تینوں سطحوں پر عائد ہوتی ہے۔ طوفان کے متاثرین کی امداد کیلئے پیسے جمع کرنے کیلئے امریکہ میں کانسرٹ منعقد کیا گیا، جس میں کانسرٹ کی تمام تررقم طوفان کے متاثرین کیلئے تھی۔ اس موقع پر موسیقار کانیے ویسٹ نے مرتب کئے ہوئے گانے کے الفاظ سے بالکل ہٹ کر حکومتی ردعمل پر سخت تنقید کی اور کہا کہ: "جارج بش کو 'کالے آدمیوں' کی پرواہ ہی نہیں ہے"۔ یہ ہے جمہوریت میں سیاست کی حقیقت کہ سیاست دانوں کو صرف اس بات سے مطلب ہوتا ہے کہ کسی طرح وہ ایک اور ٹرم کو یقینی بنا سکیں تا کہ زیادہ سے زیادہ ذاتی مفاد حاصل کیا جا سکے جبکہ ان کی توجہ لوگوں کے امور کی دیکھ بھال کی طرف ہونی چاہئے تھی۔
لوگوں کے معاملات سے غفلت برتنا جمہوریت کا ایسا جزولاینفک ہے کہ نتیجتاً جمہوریت کی طرف وہی لوگ مائل ہوتے ہیں جو فطری طور پر بے درد، مکار اور لالچی ہوتے ہیں۔ ماکیاویلی نے اپنی مشہور کتابThe Prince میں سیاست سے متعلق جو تفصیل بیان کی ہے وہ کچھ یوں ہے: "رہنماؤں کو ہمیشہ اپنے اصل مقاصد پوشیدہ رکھنے چاہییں، انہیں اپنی باتوں میں تضاد سے پچنا چاہیے اور بیشتر اوقات رحمدلی، ایمان، انسانیت، شفافیت اور مذہب سے عاری ہوکر اپنا کام کرنا چاہیے کیونکہ یہی ریاست کی بقا کی ضمانت ہے"۔ جیمز جانسن جو کہ CAS میں تاریخ کا ایک ایسوسی ایٹ پروفیسر ہے، جس نے 1996ء میں بہترین معلم کا تمغہ Metcalf حاصل کیا تھا، اس سے کسی موقع پر پوچھا گیا : "آپ کے خیال میں ماکیاویلی کا موجودہ امریکی سیاست کے بارے میں کیسا تاثر ہوتا؟"۔ اس نے جواب دیا: "وہ اپنے مشہور ناقابلِ فہم انداز میں مسکراتا، جیسے کہ کہہ رہا ہو کہ یہ تو کچھ جانا پہچانا لگتا ہے"۔ فلپ بابٹ جو دیگر کئی قابل ذکر کتابوں کے ساتھ ساتھ The Shield of Achilles, War, Peace and the Course of History کا مصنف ہے، اس نے لکھا ہے کہ: "ماکیاویلی امریکی دستور کا روحانی باپ ہے"۔
اگر واشنگٹن کے آقاؤں کا یہ حال ہےتو ہم ان کے ایجنٹوں اور پتلوں سے اس سے بہتر کیا توقع رکھ سکتے ہیں؟ موجودہ وزیرِاعظم کے چھوٹے بھائی شہباز شریف کی قیادت میں حکومتِ پنجاب نے 2012ء میں صرف 11 ماہ میں میٹروبس پراجکٹ؟ مکمل کرلیا۔ اس پراجکٹے سے اس کا ذاتی تعمیراتی مفاد پورا ہوا اور اس کو اس نے الیکشن کی مہم میں سیاسی کارڈ کے طور پر بھی استعمال کیا۔ تاہم اس سارے وقت میں ہنگامی صورتحال کیلئے سیلاب سے محفوظ ٹھکانے تعمیر کروانے کیلئے کوئی اقدامات نہیں کیے جاسکے۔ نکاسی کے نظام کے متعلق ایک WASA کے اہلکار کا یہ کہنا ہے کہ" دسمبر میں WASA نے ضروری نقشے، خاکے اور پانی اور نکاسی کے نظام سے متعلق اہم معلومات ترکی کے ماہرین کے پاس بھیجیں تاکہ وہ نکاسی کے نظام میں بہتری لانے کے بارے میں تجاویز دے سکیں"۔ ترکی کے ماہرین نے WASA کو یہ تجاویز دیں کہ وہ گٹرکے نالے اور بارش کے پانی کیلئے نالے الگ الگ متعین کردیں تاکہ بارش کے موسم میں یہ نالے رکاوٹوں کی وجہ سے بند نہ ہوجائیں ۔ انہوں نے یہ بھی رائے دی کہ حسبِ ضرورت نئے نالے بننے چاہییں اور پُرزور الفاظ میں یہ بھی کہا کہ سارا انحصار ان بیسیوں سال پرانے مجموعی نکاسی کے نظام پر نہیں ہونا چاہیے۔ انہوں نے مزید یہ بھی کہا کہ شہر میں ایسے پانی صاف کرنے والے پلانٹ ہونے چاہییں جن کا پانی پھر آبپاشی کیلئے استعمال ہوسکے، نہ کہ اس کا رخ دریا کی طرف موڑ دیا جائے۔ انہوں نے اس بات کی بھی تاکید کی کہ لوگوں کو اس بات کی تربیت دی جائے کہ وہ اپنے گھریلو کچرے کو مناسب طریقے سے ٹھکانے لگائیں بجائے اس کے کہ وہ سڑکوں اور گلیوں میں اڑتا پھرے۔ ان تجاویز پر سرے سے کبھی غور ہی نہیں کیا گیا۔
اسلام نے سیاست کا مطلب لوگوں کے امور کی دیکھ بھال کرنا متعین کیا ہے اور اس کو ایک فرض عمل قرار دیا ہے جس کی عدم ادائیگی کا نتیجہ یہ ہوگا کہ حکمران قیامت کے دن اللہ کے سامنے جوابدہ ہوگا۔ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا: كَانَتْ بَنُوْ إِسْرَائِيْلَ تُسَوِّسُهُمُ الْأَنْبِيَاءُ، كُلَّمَا هَلَكَ نَبِيٌّ خَلَفَهُ نَبِيٌّ، وَأَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِيْ، وَسَتَكُوْنُ خُلَفَاءُ فَتَكْثَرُ، قَالُوا: فَمَا تَأْمُرُنَا ؟ قَالَ: فُوْا بِبَيْعَةِ الْأَوَّلِ فَالْأَوَّلِ، وَأَعْطُوْهُمْ حَقَّهُمْ فَإِنَّ اللهَ سَائِلُهُمْ عَمَّا اسْتَرْعَاهُمْ [مسلم] "بنی اسرائیل کی سیاست انبیاء کیا کرتے تھے۔ جب بھی کوئی نبی کی وفات پاتا تو اس کی جگہ ایک اور نبی لے لیتا، مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا، البتہ خلفاء ہوں گے اور کثرت سے ہوں گے۔ انہوں نے پوچھا کہ آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ فرمایا: ایک کے بعد دوسرے کی بیعت کو پورا کرو اور انہیں ان کا حق دے دو کیونکہ اللہ یقیناً ان سے ان کے بارے سوال کرے گا جن کو اس نے ا ن کی رعیت میں دیا"۔ اور رسول اللہﷺ نے یہ بھی فرمایا:كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ فَالْإِمَامُ الَّذِي عَلَى النَّاسِ رَاعٍ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ وَالرَّجُلُ رَاعٍ عَلَى أَهْلِ بَيْتِهِ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ وَالْمَرْأَةُ رَاعِيَةٌ عَلَى أَهْلِ بَيْتِ زَوْجِهَا وَوَلَدِهِ وَهِيَ مَسْئُولَةٌ عَنْهُمْ وَعَبْدُ الرَّجُلِ رَاعٍ عَلَى مَالِ سَيِّدِهِ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْهُ أَلَا فَكُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِه [مسلم] "تم میں سے ہر ایک رکھوالا ہے اور اپنی رعیت کا ذمہ دار ہے۔ لہٰذا حکمران اپنے لوگوں کا رکھوالا ہے اور ان کے بارے میں ذمہ دار ہے۔ آدمی اپنے گھر والوں کا رکھوالا ہےاور وہ ان پر ذمہ دار ہے۔ عورت اپنے شوہر کے گھر کی رکھوالی ہے اور اس پر ذمہ دار ہے اور ایک آدمی کا غلام اس کے مال کا رکھوالا ہے اور اس پر ذمہ دار ہے۔ پھر سن لو، یقیناً تم میں سے ہر کوئی ایک رکھوالا ہے اور اپنی رعیت کیلئے ذمہ دارہے" ۔ حضرت عائشہؓ نے روایت کیا: سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ فِي بَيْتِي هَذَا 'اللَّهُمَّ مَنْ وَلِيَ مِنْ أَمْرِ أُمَّتِي شَيْئًا فَشَقَّ عَلَيْهِمْ فَاشْقُقْ عَلَيْهِ وَمَنْ وَلِيَ مِنْ أَمْرِ أُمَّتِي شَيْئًا فَرَفَقَ بِهِمْ فَارْفُقْ بِهِ' [مسلم] "میں نے رسول اللہﷺ کو اپنے اس گھر میں یہ کہتے ہوئے سنا: 'اے اللہ جس کو میری امت کے کچھ امور کی ذمہ داری سونپی گئی تو اس نے ان سے سختی کا معاملہ کیا تو تُو بھی اس سے سختی کا معاملہ کر اور جس کو میری امت کے کچھ امور کی ذمہ داری سونپی گئی اور اس نے ان سے نرمی کا معاملہ کیا تو تُو بھی اس سے نرمی کامعاملہ کر'"۔ اور فرمایا: مَا مِنْ وَالٍ يَلِي رَعِيَّةً مِنْ الْمُسْلِمِينَ فَيَمُوتُ وَهُوَ غَاشٌّ لَهُمْ إِلَّا حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ [بخاری] "کوئی حکمران ایسا نہیں جس کو مسلمانوں کی رعیت کی ذمہ داری دی جائے اور وہ ان سے خیانت کرتا ہوا مرے، اِلّا یہ کہ اللہ اس پر جنت حرام کردیتا ہے"۔
لہٰذا ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اسلام میں سیاست دان امت کے امور کی دیکھ بھال میں لگے رہتے ہیں۔ حضرت عمرؓ کو جب حکمرانی کی ذمہ داری سونپی گئی تو انہوں نے کہا : "اگر عراق کی سرزمین میں ایک جانور بھی ٹھوکر کھائے تو مجھے خوف ہے کہ اللہ اس کا حساب بھی مجھ سے لے گا کہ میں نے سڑک کیوں مرمت نہ کروائی"۔ جب رسول اللہﷺ کی وفات کے بعد مکہ میں سیلاب آیا تو آپؓ نے حکم دیا کہ کعبہ کی حفاظت کیلئے دو بند تعمیر کیے جائیں۔ علاوہ ازیں انہوں نے مدینہ میں بھی بند تعمیر کروائے تاکہ چشموں کے ابلنے سے سیلاب نہ آجائے اور اس طرح سیلاب کی وجہ کو جڑ سے ہی ختم کروادیا۔ مزید برآں، ایک قحط کے دوران، حضرت عمرؓ نے مصر میں ایک نہر کی تعمیر کا حکم دیا جو دریائےِ نیل کو سمندر سے متصل کرتی تھی۔ اس نہر کا مقصد یہ تھا کہ بحیرہ عرب کے راستے (حجاز تک) غلہ کی ترسیل کو آسان کیا جا سکے جبکہ اس سے قبل غلہ صرف زمینی راستے سے منتقل ہوا کرتا تھا۔ یہ نہر حضرت عمروؓ بن العاص کی نگرانی میں ایک سال کے اندر اندر پایۂ تکمیل تک پہنچ گئی۔ سلیمان ندویؒ لکھتے ہیں کہ اس کے بعد سے سرزمینِ حجاز کو آنے والے تمام وقتوں کیلئے قحط سے نجات مل گئی۔
حاصلِ کلام یہ ہے کہ جمہوریت ایسے سیاست دانوں کو جنم دیتی ہے جن کو برسرِ اقتدار صرف اپنے مفاد کی پرواہ ہوتی ہے اور ان کو لوگوں کا خیال صرف یہ ہوتا ہے کہ وہ عوام کو اتنا خوش رکھیں کہ اگلے الیکشن میں ان کی کرسی پکی رہے۔ مسلمان آج جن جن مسائل کا سامنا کررہے ہیں ان کا واحد حل یہ ہے کہ جمہوریت کا قلع قمع کر کے خلافت کا نظام قائم کیا جائے۔ جو مخلص اور باخبر سیاست دان آج خلافت کیلئے کام کر رہے ہیں وہ اس وقت پھر ایسا ماحول قائم کریں گے کہ مخلص سیاست دانوں کی پوری ایک نسل کے لئے زمین ہموار ہو جائے اور یہ ایسے لوگ ہوں گے جو کہ امت کے امور کی دیکھ بھال کرنے کے قابل بھی ہوں گے اوروہ تخلیقی انداز میں یہ کام سرانجام دیں گے۔

Read more...

خبر اور تبصرہ خلافت لائن آف کنٹرول کو مٹا کر کشمیر کے مسلمانوں کو آزاد کروائے گی

خبر: ایک بیان میں پاکستان آرمی نے کہا کہ کیپٹن سرفراز "لائن آف کنٹرول پر شکمہ سیکٹر پر بھارتی فوج کی بلا اشتعال گولہ باری کے نتیجے میں جاں بحق ہوئے"۔ اسی بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ 16 ستمبر کی رات سوا گیارہ بجے ایک اور سپاہی اس وقت شدید زخمی ہوا جب بھارتی افواج نے سکردو کے قریب شکمہ سیکٹر میں فائرنگ کی۔ نریندر مودی نے پاکستان پر الزام لگایا ہے کہ وہ کشمیر میں بالواسطہ جنگ کررہا ہے۔ بھارتی حکومت کی پریس انفارمیشن بیورو کی ویب سائٹ کے مطابق مودی نے کہا کہ فوجی "جنگ سے زیادہ دہشت گردی کی وجہ سے نقصان اٹھا رہے ہیں"۔

تبصرہ: حالیہ ہفتوں میں پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر میں واقع لائن آف کنٹرول پر کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔ لائن آف کنٹرول مسلم کشمیر سے گزرنے والی وہ لکیر ہے جس نے کشمیر کو آزاد کشمیر اور بھارتی مقبوضہ کشمیر میں تقسیم کیا ہوا ہے۔ بھارت لائن آف کنٹرول پر پاکستان کی جانب رہنے والے شہریوں اور فوجیوں کو مسلسل نشانہ بنا رہا ہے جس کے نتیجے میں کئی افراد ہلاک و زخمی اور املاک کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ شروع میں الیکٹرونک میڈیا نے ان واقعات کو زیادہ نمایاں طور پر نشر نہیں کیا کیونکہ ان کی پوری توجہ دارلحکومت اسلام آباد میں ہونے والے دھرنوں پر تھی۔ اس کے علاوہ واشنگٹن میں بیٹھے اپنے آقاؤں کی ہدایت کے مطابق راحیل-نواز حکومت نے بھی بھارتی جارحیت کی مذمت کرنے کی ضرورت محسوس نہ کی کیونکہ ایسا کرنا بھارت کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کے عمل کو نقصان پہنچا سکتا تھا ۔ لیکن جب یہ واقعات تواتر سے ہونے لگے اور الیکٹرانک میڈیا نے بھارتی جارحیت اور اس کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں کو نمایاں طور پر نشر کرنا شروع کیا تو راحیل-نواز حکومت بھارتی جارحیت کی مذمت کرنے پر مجبور ہوگئی۔
پاکستان نے کشمیر سے متعلق اپنے موقف کو اس وقت تبدیل کیا جب 1996 میں کلنٹن انتظامیہ نے بھارت کو اپنے اثرورسوخ کے دائرےمیں داخل کرنے کا فیصلہ کیا۔ اُس سے قبل امریکہ کشمیر کو متنازعہ علاقہ قرار دیتا تھا اور اقوام متحدہ کی قرارداوں کے مطابق اس کا فیصلہ کرنے کا حامی تھا۔ امریکہ نے ہمیشہ کشمیر کے مسئلہ کو بھارت کو پریشان کرنے اور دباؤ میں لانے کے لئے ایک ڈنڈے کے طور پر استعمال کیا۔ لہٰذا 1947 سے 2000 تک امریکہ نے پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں کے ذریعے کشمیر کے مسئلے کو بین الاقوامی سطح پر بھارت کو شرمندہ کرنے کے لئے استعمال کیا۔ اس عہد میں پاکستان نے کشمیر کے مسلمانوں کی سیاسی، مالی بلکہ فوجی مدد بھی کی اور پاکستان بھر میں کشمیری جہادی تنظیموں کو آزادانہ کام کرنے کی اجازت دے رکھی تھی۔ بھارت نے پاکستان کی جانب سے دخل اندازی کو روکنے کے لئے لائن آف کنٹرول پر پانچ سو کلومیٹر طویل لوہے کی باڑ لگانے کی کوشش کی لیکن وہ اپنے اس مقصد میں کامیاب نہیں ہو پاتا تھا کیونکہ جب بھی بھارت یہ باڑ لگانے کی کوشش کرتا پاکستانی فوج زبردست فائرنگ اور گولہ باری شروع کردیتی تھی۔ لیکن جب امریکہ نے بھارت کو اپنے زیر اثر لانے کے لئے ڈنڈے کی جگہ گاجر کی پالیسی اختیار کی تو پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں نے پاکستان کی کشمیر پالیسی کو امریکہ کی پالیسی کے مطابق ڈھال دیا۔ اس کے بعد کشمیری جہادی تنظیموں پر پابندی لگا دی گئی اور ان کی سرگرمیوں کو دہشت گردی قرار دے دیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی بھارت نے فوراً 2004 میں 500 کلومیٹر طویل باڑ کو لگانے کا کام پاکستانی فوجیوں کی جانب سے بغیر کسی مزاحمت کے مکمل کرلیا اور مشرف نے کشمیر کو پانچ حصوں میں تقسیم کرنے کا ایک نیا حل پیش کیا جس کے مطابق دو حصوں پر پاکستان، دو حصوں پر بھارت کا براہ راست کنٹرول ہوگا جبکہ وسطی کشمیر پر قوام متحدہ کی زیر نگرانی پاکستان اور بھارت کا مشترکہ کنٹرول ہوگا۔
بھارت میں بی۔جے۔پی کی حکومت بن جانے کے بعد امریکہ بہت پُرامید ہے کہ مودی بھارت کی اسٹبلشمنٹ اور دانشوران کو کشمیر کے مسئلے کو امریکی منصوبے کے مطابق حل کرنے پر راضی کرلے گا۔ لیکن اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے پہلے مودی کو اپنے متعلق ایسا تاثر مضبوط کرنا ہے کہ وہ ایک سخت گیر آدمی ہے جو پاکستان سے نفرت کرتا ہے اور پاکستان سے ہر وقت پنجہ آزمائی کے لئے تیار رہتا ہے چاہے اس کی نوعیت فوجی ہی کیوں نہ ہو۔ یہ تاثر مودی کو اس قابل کرے گا وہ بھارت میں موجود تمام سٹیک ہولڈرز کو اپنا ہمنوا بنا سکے۔ جہاں تک پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت کا تعلق ہے تو انہیں کوئی شرم نہیں، لہٰذا وہ مسلمانوں کے حقوق کی پروا کیے بغیر ہر وہ حل قبول کر لیں گے جو امریکہ پیش کرے گا۔
پاکستان کی تاریخ یہ ثابت کرتی ہے کہ چاہے جمہوریت ہو یا آمریت، ہر حکمران نے مسئلہ کشمیر کو امریکی مفاد میں استعمال کیا ہے۔ کشمیر اور اس کے لوگوں کو صرف خلافت ہی آزادی دلوا سکتی ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالٰی اور اس کے رسولﷺ کی جانب سے یہ فرض ہے کہ مقبوضہ مسلم علاقوں کو آزاد کرایا جائے۔ لہٰذا آنے والی خلافت مسلم علاقوں کے درمیان موجود سرحدوں کو مٹا دے گی، ان میں موجود مادی اور فوجی وسائل کو یکجا کرے گی اور ان کی مدد سے ایک ناقابل شکست مسلم افواج اور مجاہدین کی ملین فوج تیار کرے گی جو سری نگر کی جانب مارچ کریں گے اور ایک بار پھر کشمیر میں اسلام کا جھنڈا سربلند کریں گے۔
وَأَنْفِقُواْ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ وَلاَ تُلْقُواْ بِأَيْدِ يكُمْ إِلَى ٱلتَّهْلُكَةِ وَأَحْسِنُوۤاْ إِنَّ ٱللَّهَ يُحِبُّ ٱلْمُحْسِنِينَ
"اللہ تعالیٰ کی راہ (جہاد) میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ پڑو اور سلوک و احسان کرو اللہ تعالٰی احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے" (البقرۃ:195)

حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے لیے لکھا گیا
شہزاد شیخ
ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان

 

Read more...

سلامتی کونسل کو خیر مقدم نہیں کہتے اور نہ ہی اس کی سزاؤں سے خوشی ہوئی

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے یمن کے حوالے سے منعقدہ خصوصی مشاورتی نشست کا اختتامی بیان جاری کردیا۔ یہ میٹنگ29 اگست 2014 کو کونسل کے صدر اوراقوام متحدہ میں برطانیہ کے مستقل نمائندے مارک لائل گرانٹ کی صدارت میں ہوئی ۔بیان میں تنبیہ کی گئی کہ سیاسی استحکام میں رکاوٹ بننے والوں، بالخصوص حوثیوں پر سزائیں عائد کی جائیں گی۔ بیان میں کہا گیا کہ: "سلامتی کونسل کو یمن میں امن وامان کی صورتحال پرگہرا افسوس ہے، جو عبد الملک الحوثی کی قیادت میں حوثیوں کی کاروائیوں کے باعث بگڑ چکی ہے اورحوثی لوگ عبد الملک کے ساتھ تعاون اس لئے کرتے ہیں تاکہ سیاسی حکومت کی منتقلی کو سبوتاژ کیا جائے اور یمن کے امن کو تہس نہس کردے"۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ : "سلامتی کونسل عبداللہ یحییٰ الحاکم (ابوعلی الحاکم ) کی امارت تلے حوثی فورسز کی کاروائیوں کی مذمت کرتی ہے، جس نے 8 جولائی کو یمن بریگیڈ ہیڈ کوارٹر اور عمران کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ سلامتی کونسل حوثیوں کو دعوت دیتی ہے کہ :1۔ عمران سے اپنی فورسز نکال کر اس کو یمنی حکومت کے کنٹرول میں دیدیں، 2۔ یمنی حکومت کے خلاف جوف میں تمام معاندانہ مسلح کاروائیاں بند کردیں، 3۔ صنعاء اور اس کے اطراف میں قائم کئے گئے چیک پوائنٹ اور کیمپس ختم کردیں"۔
بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ: "ایک اور پہلو سے، سلامتی کونسل تمام ممبر ممالک کو دعوت دیتی ہے کہ وہ یمن کو غیر مستحکم کرنے اور اس کے اندر کشمکش بھڑکانے کے لئے مداخلت سے باز رہیں اور وہ سیاسی حکومت کی منتقلی میں تعاون کریں"۔
ہم پہلے ہی متعدد پریس ریلیز میں یہ واضح کر چکے ہیں کہ مغرب اور سلامتی کونسل کی آغوش میں اپنے آپ کو پھینک دینا خطرناک ہے ۔ اس کونسل کو اگر کسی چیز کی فکر ہے تو صرف یہ کہ وہ اس کے اندر موجود طاقتور ممالک کے مفادات کا تحفظ یقینی بنائے۔ یہ کونسل لوگوں کو خائف کرنے، ملکوں کے ٹکڑے کرنے اور فتنے کھڑے کرنے کا ایک استعماری آلہ کار ہے جبکہ اس نےمسلمانوں کے کسی ایک مسئلے کی حمایت نہیں کی۔ اگر چہ کچھ لوگوں کو سلامتی کونسل کی کاروائیوں پر بظاہر ہمدردی کا دھوکہ ہوجاتا ہے مگر ایسی کاروائیاں اندرونی طورپر عذاب کا سامان لئے ہوئے ہوتی ہیں، یہ سراب ہوتی ہیں جس سے انسان کو دھوکہ ہوجاتا ہے اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ہمارے لئے ان کے ذریعے طاقت حاصل کرنا حرام قرار دیا ہے بلکہ ہمیں ان کے بارے میں چوکنا رہنے کا حکم دیا ہے اور ہمیں بتا یا ہے کہ یہ لوگ آپ سے اس وقت تک راضی نہیں ہوں گے جب تک کہ آپ ان کے دین وملت کو نہ اپنا لیں ۔ تو ان کا دین دھوکے اور فریب کا لباس پہن کر آرہا ہے یعنی جمہوریت اور سول وجمہوری حکومت جیسے شرع مخالف افکار اور نظام۔
ہم ریاست اورباہمی گفت وشنید کرنے والی قوتوں، بلکہ جنگجوؤں کو بھی یمن کے اندر ان مداخلتوں کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ ان مداخلتوں پر دستخط ان ہی لوگوں نے کئے تھے بلکہ ان مداخلتوں کے لئے سرخ جھنڈا ان ہی لوگوں نے لہرایا تاکہ وہ یمن میں آکر اپنے اثر ونفوذ اور اس کے وسائل پر کشمکش اور لڑائی کا آغاز کریں ۔ ان کا مقصد صرف ان حقیر مقاصد کا حصول تھا جو خطے کے ان ممالک نے انہیں سمجھا دیے ہیں، جیسے سعودیہ اور ایران، جن کے مغرب کے ساتھ روابط ہیں۔ یہ ممالک استعماری منصوبے کا حصہ ہیں جن کے اندر سے مغرب یمن میں اپنے مفادات کے لئے کشمکش کے لئے راہ نکالتا ہے۔ یہ وہی اینگلو امریکی تنازعہ ہے جسے سیاست دان تو کیا عام لوگ بھی جانتے ہیں۔ بے شک سیاسی بے وقوفی یمن کی سیاسی طاقتوں کے لئے ایک مصیبت ہے کیونکہ یہ اب بھی اس گھمنڈ میں ہیں کہ وہ اچھا کردار ادا کر رہی ہیں۔ ان کو یہ احساس ہی نہیں کہ ہم سیاسی خود کشی کررہے ہیں۔ جب یہ بے وقوف ایسے کام کر ڈالتے ہیں کہ جن کے خطرناک نتائج کا انہیں کوئی ادراک نہیں ہوتا اور بعد میں پتہ چلتا ہے کہ ان کی کاروائیاں اس استعمار کے مفاد میں جارہی ہیں جس کو یہ لوگ طرح طرح کی گالیاں دیتے رہتے ہیں بلکہ کبھی کبھار یہ طاقتیں ایک طرف استعمار کے خلاف لڑنے کا دعویٰ کرتی ہیں جبکہ دوسری جانب اسی استعمار کے ثقافتی باقیات اور نظام حیات کو اختیار کرتی ہیں۔ ان میں سے کچھ وہ ہیں جو ملک کو فرقہ واریت اور مذہبی تعصب کی طرف لے جارہے ہیں ۔ ایسا کرکے وہ مغرب کی خدمت ہی کرتے ہیں بلکہ مغرب کو اپنا دل دے بیٹھے ہیں اور مغرب کی مہرومحبت اور عنایات کے حصول کے لئے اس کی پسندیدہ اصطلاحات کو استعمال کرکے اس کی چاپلوسی کرنے سے نہیں شرماتے ، جیسے دہشت گردی، تکفیری یا شیعہ اور روافض وغیرہ جیسی اصطلاحات ؟ اور اللہ کے بندوں کو وہ نام دینے سے شرماتے ہیں جو اللہ نے ان کا رکھا ہے یعنی مسلمان، ﴿هو سماكم المسلمين﴾ "اسی نے تمہارا نام مسلمان رکھا" (الحج:78)۔
سلامتی کونسل کے بیان میں مضحکہ خیز بات یہ کہی گئی کہ "سلامتی کونسل تمام ممبر ممالک کو دعوت دیتی ہے کہ وہ یمن کو غیر مستحکم کرنے اور اس کے اندر کشمکش بھڑکانے کے لئے مداخلت سے باز رہیں اور سیاسی حکومت کی منتقلی میں تعاون کریں"۔ کیا یہ مداخلتیں اس لئے نہیں ہورہیں کہ اس نے اپنے خوشامدیوں کو اس کے احکامات دیے ہیں تاکہ وہ یمن میں اپنے مفادات پر کشمکش شروع کریں ؟ پھر جب کشمکش کے طرفین (اینگلو امریکن) کسی مصالحت یا یمن کے وسائل میں شراکت پر متفق ہوجاتے ہیں تو یہ نوکر اپنے آقا کے اوامر کے خلاف قدم اٹھائیں گے۔ یہ بہت دور کی بات ہے ۔ تو ان تنظیموں سے وہی لوگ دھوکہ کھا جاتے جن کی سوچ غلاموں کی ہو کیونکہ ایسے لوگ اپنے مفادات خود حاصل نہیں کرسکتے ۔ وہ ایسا نہیں کرسکتے کیونکہ ان کا اختیار ان لوگوں کے ہاتھوں میں ہوتا ہے جو ان کوسرمایہ فراہم کرتے ہیں۔
اے یمن والو! رسول اللہﷺ نے تمہارے جس ایمان اور حکمت کے بارے میں بتایا ہے اس کی رو سے تم پر لا زم ہے کہ اپنے مسائل کو اپنے پروردگار کی کتاب اور سنت رسولﷺ کی روشنی میں حل کرو اور استعماری کفار سے تقویت حاصل کرنا تمہارے اوپر حرام ہے، خواہ کسی بھی نوع کی ہو۔ تو کفار کو اپنے اوپر اختیار مت دو، اللہ سبحانہ فرماتے ہیں (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَتَّخِذُواْ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاء مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ أَتُرِيدُونَ أَن تَجْعَلُواْ لِلّهِ عَلَيْكُمْ سُلْطَانًا مُّبِينًا) "اے ایمان والوں! مؤمنین کو چھوڑ کرکفار کو اپنا دوست مت بناؤ، کیا تم یہ چاہتے ہو کہ تم پر اللہ کی واضح حجت قائم ہوجائے؟" (النساء:144)۔ حزب التحریر تمہیں اس چیز کی طرف بلاتی ہے جس میں تمہارے لئے دنیا او ر آخرت کی خیر ہے ۔ یہ وہ حزب ہے جو اندھا دھند تعصب کرتی نہ ہی کسی کے ساتھ مخاصمت اس کو حکم شرعی کی مخالفت پر کھینچ لاسکتی ہے۔ یہ کبھی بھی اللہ کے غضب اور غصے پر خوش نہیں ہوتی۔ یہ حزب تمہیں ایک امت بنانے کی قابلیت رکھتی ہے اور یہ تمہارے درمیان اختلافات کو دوسری خلافت راشدہ کے سائے میں سدھار سکتی ہے جس کا اللہ نے وعدہ کیا ہوا ہے، اور تمہارے نبیﷺ نے اس کی بشارت دی ہے ۔ ہم اسی کی طرف تمہیں بلاتے ہیں تاکہ اپنے حالات کو ٹھیک کرسکو ۔ اللہ تمھارے ساتھ ہے اور وہی تمہارا دوست اور کارساز ہے ۔

Read more...

دنیا اور امریکہ کو مسلمانوں کے خون اور دھماکہ خیز ڈرموں سے شہریوں کے قتل کی کوئی فکر نہیں

پریس ریلیز
اگست 2012 سے سفاک بشارالاسد کی حکومت نے پہلی مرتبہ دھماکہ خیز ڈرموں کا استعمال شروع کیا اور اب تک شام کے معصوم شہریوں پر ان ڈرموں کی بارش کی جارہی ہے جو ان پرتباہی و بربادی لاڈالتی ہیں۔ یہ بیرل دوسرے بموں اور میزائلوں کے مقابلے میں کم قیمت ہوتے ہیں اور حکومتی افواج ان کو دہشت انگیز اسلحے کے طور پراستعمال کرتی ہیں کیونکہ ان کوفضا سے ہیلی کاپٹر کے ذریعےآسانی سے پھینکا جاسکتا ہے اورپھر چشم زدن میں شہریوں پر بلا امتیاز موت چھا جاتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق شام میں اب تک 6000 بیرل بم استعمال کئے گئے ہیں جس کے باعث 20 ہزار سے زائد افراد لقمہ اجل بن گئے۔
ایسا لگتا ہے کہ قرارداد نمبر 2139 جس کو اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے سلامتی کونسل نے 22 فروری 2014 کومنظور کیا تھا جو اس قسم کے اسلحے پر پابندی عائد کرتی ہے ،کے نفاذ کے لئے ٹھوس اقدامات نہیں کئے گئے۔ موجودہ صورتحال کو دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ اس کااستعمال برابر جاری رہے گا۔ بشار حکومت کی شام کے مسلمانوں کا خون بہانے کی پیاس بڑھ گئی ہے اور ان ڈرموں کا بہت زیادہ استعمال کررہی ہے اور اب اس کا دائرہ نئے علاقوں تک وسیع کردیا گیا ہے۔ چنانچہ صرف حلب میں ہیومن رائٹس واچ نے 650 حملوں کے اعداد وشمار شائع کئے جن میں ان ڈرموں کواستعمال کیا گیا۔ یہ حملے قرارداد کی منظوری اور 14 جولائی 2014 تک کے عرصے میں کئے گئے۔ اس کے باوجود امریکہ اور مغربی ریاستوں نے جنگی جرائم کے ارتکاب پر مشتمل ان رپورٹوں کے حوالے سے بہت محتاط ردعمل دیا اور اس دوران اس کے ایجنٹوں کی طرف سے بڑے پیمانے پر کی جانے والی منظم اور سنگدلانہ کارروائیوں پرمعمولی سی دلچسپی کا مظاہرہ کیا اور ان کا وطیرہ یہی رہے گا۔ اسی قابلِ اعتراض خاموشی نے عراق کے اندر فرقہ وارانہ حکومتی نظام کی حوصلہ افزائی کی تاکہ عراق میں بھی شام کی مثال دہرائی جائے۔ چنانچہ عراق کے مختلف علاقوں، فلوجہ سے لے کر کرمہ، تکریت اور بیجی سے لے کرموصل تک میں بڑے پیمانے پر ان دھماکہ خیز ڈرموں کا استعمال شروع کیا گیا ہے۔
یہ امریکہ اور یورپین قائدین کی کھلی منافقت ہے جو شام اور عراق میں ان کے ایجنٹوں کے طرف سے مسلمانوں کے اجتماعی قتل پر خاموشی کی صورت میں ہمیں نظرآتی ہے .....جبکہ غزہ پر بدترین انتقامی حملوں کے دوران یہودی ریاست کو ان کا لامحدودتعاون حاصل رہاہے،ان یہودی حملوں نے انسانوں اور درختوں اور پتھروں تک کو بھسم کر چھوڑا۔ یہ سب کچھ بغیر کسی شک و شبہ کے اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ انسانیت کی خیرخواہی اور انسانی زندگی کے احترام کے دعوے مکمل طور پر جھوٹے، کھوکھلے اور گمراہ کن دعوے ہیں جو زمینی حقائق سے کسی طرح میل نہیں کھاتے ۔ مجموعی طور پر ان ممالک کو مسلمانوں کے حقوق اور ان کے خون کے ا حترام کی کوئی پرواہ نہیں ۔ وہ بعض اوقات مسلمانوں پر کئے جانے والے مظالم کی مذمت کرتے ہوئے ناپسندیدگی کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں مگر عین اسی وقت وہ اپنے ایجنٹوں اور دوستوں کے جرائم پر چپ سادھ لے لیتے ہیں جب اپنا مفاد پیش نظر ہو.....اس بنا پر موت کے یہ ڈھانچے جو دنیائے اسلام کے اندر بوئے گئے ہیں صرف مسلمانوں میں تفرقہ ڈالنے اوران کی قوت کو منتشر کرنے اور ان کے علاقوں کو مختلف ٹکڑوں اور باہمی خون خرابےکے میدانوں میں تقسیم کرنے کے لئے ہیں تاکہ ان کے ذخائر کو لوٹنے اور ان کے توانائی کے وسائل پر کنٹرول حاصل کرنے میں کوئی دشواری نہ ہو اور اس سے بھی زیادہ اہم بات ان کے نزدیک یہ ہے کہ نبوت کے نقش قدم پر دوسری ریاستِ خلافت کے قیام کو روکا یا مؤخر کیا جائے.....وہ ریاستِ خلافت جو ان کے جھوٹ اور فریب کاریوں کو بے نقاب کرے گی، ان کی زبانوں کو لگام دے گی اور ان کے ان جھوٹے دعوؤں کی قلعی کھول کے رکھ دے گی کہ ہم حق، بھلائی، عدل وانصاف اور انسانی احترام کے محافظ ہیں جبکہ دنیا ان کے مظالم اور فساد انگیزیوں کی آماجگاہ بنی ہوئی ہے۔ مگر ان کی یہ ساری کوششیں ناکام ہوں گی۔ جہاں تک ہم حزب التحریر کی بات ہے تو ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ اُمتِ مسلمہ اب دنیا کی قیادت اور زمام ِ کاراپنے ہاتھ میں لینے کے بہت زیادہ قریب ہے یہ امر اللہ کے لئے کوئی مشکل نہیں، حق تعالیٰ کاارشاد ہے:
﴿يُرِيدُونَ لِيُطْفِؤُوا نُورَ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ ط وَاللَّهُ مُتِمُّ نُورِهِ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ * هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ﴾
"وہ لوگ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنی پھونکوں سے بجھا دیں، مگر اللہ اپنے نور کو پورا کرکے رہے گا ،خواہ کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔ وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسولﷺ کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا تاکہ اسے تمام ادیان پر غالب کر دے،خواہ مشرکوں کو ناگوار ہی ہو " (الصف :8-9)

Read more...

یورپ کے اندرونی اختلافات، امریکہ-یورپ تعلقات اور ریاست ِ خلافت کا اِن کے خلاف ممکنہ لائحہ عمل


تحریر:کامران شیخ
آج کا یورپ جو یورپی یونین کی شکل میں بظاہر متحد نظر آتا ہے۔ اپنی بنیادوں میں وطن پرستی (Nationalism)، منفعت اور خود غرضی کی اساس پر مبنی سوچ اور اپنے ہی کروڑوں لوگوں کے خون بہا نے و الی جنگوں کا خوفناک ماضی لئے ہوئے ہے۔
یورپی ممالک نے ایک دوسرے کو اٹھارویں اور انیسویں صدی میں بالعموم اور بیسویں صدی میں بالخصوص جنگوں کی شکل میں شدید نقصان پہنچایا تھا۔ آخر کار اپنے خونریز ماضی سے پیچھا چھڑانے کیلئے جنگ عظیم دوئم کے بعدیورپ نےمعاشی بنیادوں پر متحد ہونے کا فیصلہ کیا اور 1951 میں European Coal and Steel Community اور 1958ء میں European Economic Community کی بنیاد ڈالی تاکہ یورپ کو معاشی مفادات کی بنیاد پر ایک ایسا پلیٹ فارم مہیا کیا جائے جو انہیں مجبور کردے کہ آپس کے اختلافات کے باوجود ایک دوسرے کی سرحدوں کا احترام کریں اور اپنی عوام، جو کہ صدیوں کی جنگوں اور ناقص معاشی پالیسیوں سے بیزار تھی، کی خوشحالی اور مادی ترقی کے لیے کام کریں۔ شروع میں یورپ کے صرف چھ ممالک فرانس، جرمنی، ہالینڈ، بلجیم، اٹلی اور لگسمبرگ نے اِن دو اداروں کی بنیاد ڈالی اور یورپ میں موجود وسائل کو مشترکہ پالیسیوں کے تحت سمیٹنا شروع کیا اور آہستہ آہستہ یورپ کے باقی ممالک بھی اِن پلیٹ فارمز پر شامل ہونا شروع ہوئے۔ آخر کار سوویت یونین کے ٹوٹنے سے اور کمیونزم کے زوال کے بعد 15 یورپی یونین کے ممالک نے اِن دو اداروں کو Maastricht Treatyکے تحت 1993ء میں یورپی یونین کی شکل دی تا کہ معاشی فوائد کے علاوہ سیاسی طور پر بھی اس طرح متحرک ہوا جائے کہ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد پیدا ہونے والے خلا کو پُر کر سکیں اور اگر ممکن ہو تو دنیا کے افق پر امریکہ کے علاوہ یورپی یونین کو بھی ایک مضبوط سیاسی طاقت کے طور پر منوایا جا ئے۔ اس خواہش کو رکھنے والے ممالک میں یورپ کے دو ستون جرمنی اور فرانس پیش پیش تھے جبکہ موجودہ یورپی یونین میں اب 28 ممالک شامل ہیں۔ ایک اہم بات ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ یورپ کو اکٹھا کرنے کے محرکات معاشی سے زیادہ سیاسی تھے جن میں سب سے اہم یورپ کو دوبارہ جنگوں میں ملوّث ہونے سے روکنا تھا جو بار بار وطن پرستی (Nationalism) اور مفادات کے ٹکراؤ کی وجہ سے پھوٹ پڑتی تھیں۔
1993ء میں یورپی یونین نے اپنے قیام کے بعد قابل ذکر حد تک معاشی ترقی کی اور کئی اقدامات کے ذریعے اپنے آپ کو امریکہ کے سامنے ایک مضبوط معاشی طاقت کے طور پر لا کھڑا کیا۔ یورپ کے ممالک کو آپس میں مزید مربوط کرنے کے لیے کئی پالیسیز بھی نافذ کی گئیں جن میں پہلے سے نافذ یورپ کی Singly Market یعنی Free Trade Zone کے علاوہ یورپی یونین میں شامل تمام ممالک پرداخلی طور پر عدلیہ، تجارت، زراعت، ماہی گیری اور علاقائی ترقی کے لئے یکسا ں قوانین کا نفاذ اور خارجی طور پر لوگوں، services یعنی خدمات، اشیاء اور سرمائے کا بِلا روک ٹو ک تبادلہ یقینی بنانا ہے۔ اس کے ساتھ شنگین ویزہ (schengen visa) نے بھی یورپ کو پوری دنیا کے لوگوں کے لیے توجہ کا ایک بہت بڑا مرکز بنادیا۔ یورپی ممالک، جو اپنے آپ کو معاشی طور پر مضبوط ہوتا دیکھ رہے تھے، نےاپنے آپ کو دنیا کی سب سے بڑی معشیت بنانے کے لیے 2002ء میں اپنی ملکی کرنسیوں سے دستبردار ہو کر واحد کرنسی یورو کو اختیار کرلیا۔ اِس وقت یورو زون یعنی یورو کرنسی کو اختیار کرنے والے ممالک کی تعداد 18ہو چکی ہے۔
1993ء میں یورپی یونین کے آغاز کے بعد سے 2007ء تک بین الاقوامی سطح پرمعاشی عناصر (Economic Factors) مستحکم ہونے کی بدولت یورپی ممالک نے معاشی میدان میں خوب ترقی کی گو کہ سیاسی اور فوجی اعتبار سے یورپ تب بھی امر یکہ کے اثرو رسوخ کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا، لیکن اِس معاشی ترقی کی بدولت وہ یہ سمجھنے لگے کہ شاید انہوں نے اختلافا ت سے بھر پورماضی سے پیچھا چھڑا لیا ہے اور اب اُن کی ترقی کا دارو مدار یورپی یونین کے اتحاد پر ہی ہے۔ لیکن 2008ء میں آنے والے معاشی بحران نے جس کا آغاز امریکہ سے ہوا تھا یورپ کو بھی بُری طرح اپنی لپیٹ میں لے لیا اور وہ ممالک جو منفعت کی بنیاد پر اکٹھے ہوئے تھے بحران شدید ہوتے ہی دوبارہ اِن اختلافات کی جانب لوٹ آئے جو کہ یونین کی بنیا د وں میں شامل تھی اور جن کی اساس ہم مذہب ہونے کے باوجود مختلف قومی ریاستوں (Nation States) میں بٹے ہونا تھا۔ آئیے اِس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ یورپ کا بحران کس نوعیت کا ہے اور اِس نے کس طرح یورپی ممالک کی بنیادوں میں موجود اختلافا ت کو ایک مرتبہ پھر سامنے لاکھڑا کیا ہے۔
نومبر 2008ء میں جب عالمی مالیاتی بحران اپنے مرکز امریکہ سے شروع ہوا تو یورپ نے سرکاری طور پر کساد بازاری اور معاشی سکڑاؤ کے شروع ہونے کا اعلان کیا۔ پھر پے در پے اقتصادی اور مالیاتی بحران نمودار ہونے لگے مثلاً سٹاک مارکیٹس کا بحران، کمپنیوں اور بنکوں کا دیوالیہ ہونا وغیرہ۔ پھر اِن ممالک کی طرف سے اِن مالیا تی اداروں کے بچانے کے لیے بے تحاشہ پیسہ لگایا گیا جو اس مسئلے کو حل کرنے کی بجائے ان ملکوں پر بہت بھاری بوجھ بن گیا جس نے بہت تیزی سے Sovereign Debt Crisis یعنی ریاستی قرضوں کے بحران کی شکل لے لی جو تا دمِ تحریر جاری ہے۔ یورو کا بحران اُس وقت نمایا ں ہوا جب بڑی عالمی کرنسیوں خاص کر ڈالر کے مقابلے میں یورو کی قیمت گرنے لگی اوراس کے بعد ہی Sovereign Debt یعنی ریاستی قرضوں کا بحران شروع ہوا۔ ریاستی قرضے اُس وقت بحران کی شکل اختیار کر جاتے ہیں جب ایک ریاست کے قرضے اُس کی آمدن اور GDPسے بڑھ جائیں اور وہ ملک اپنے قرضوں کو Treasury Bonds کی شکل میں دوسرے ممالک، بنکوں اور عالمی اِداروں کو جاری کرتا ہے جن پر وہ انہیں شر ح سود بھی ادا کر تا ہے لیکن اگروہ ملک اس قابل نہ رہے کہ بانڈز پر ہر دم بڑھتے سود اور انشورنس ویلیو کی رقم ادا کر سکے جبکہ دوسری طرف وہ اُس قرضے کو بھی ادا کرنے سے عاجز ہو جائے تو اُسکے جاری کردہ Treasury Bonds پر ان ممالک اور مالیتی اداروں کا اعتماد گھٹ جاتا ہے اور وہ ان سے پیچھا چھڑانے کی کوشش میں لگ جاتے ہیں یوں ایسا بحران جنم لیتا ہے جو نہ صرف اس ملک کے پورے اقتصادی نظام کو متاثر کرتا ہے بلکہ سیاسی استحکام اور حکومتی پوزیشن کو بھی ہلا کر رکھ دیتا ہے۔
یورپ کا یورو زون اُس وقت کے بعد سے شدید متاثر ہوا جب 2011ء میں یونان کے ریاستی قرضوں کے بارے میں یہ خبر عام ہوگئی کہ وہ اپنے قرضے ادا کرنے کے قابل نہیں رہا جو کہ 350 ملین یورو یا 482 بلین ڈالرز کے مساوی تھے۔ یہ قرضے اُس کی سالانہ پیداوار (GDP) سے 160 فیصد زیادہ تھے یہاں تک کہ اس کا بجٹ خسارہ 13.6 فیصد تک پہنچ گیا جبکہ یورپی یونین میں شامل ممالک کے لیے بجٹ خسارے کی حد 3.5 فیصد ہے۔ یہ بحران اتنا شدید ہوا کہ آخر کار یونان کے وزیر اعظم پاپا نڈریو کو اپنی مدت پوری ہونے سے پہلے ہی مستعفی ہونا پڑا۔ یہی حال اُس وقت اٹلی کا بھی تھا جب ریاستی قرضوں کے بحران کو حل نہ کرنے کی وجہ سے اٹلی کے وزیر اعظم بر لسکونی کو بھی اپنی حکومت سے ہاتھ دھونا پڑے۔ اسی قسم کے بحرانوں کا سا منا یورپ کے مزید ممالک آئرلینڈ، پرتگال اور سپین کو بھی کرنا پڑا حتی کہ Sovereign Debt Crisis نے فرانس جیسے ملک کوبھی اپنی لپیٹ میں لے لیا جو یورپی یو نین کا ایک بڑا ملک ہونے کے ساتھ ساتھ یورو زون کا بھی ایک بڑا ملک ہے۔ آج اس معاشی بحران کا سامنا کرتے ہوئے یورپ کو تقریباً 6 سال ہونے کو آئے ہیں لیکن اب تک یورپ اس سے نکلنے میں کامیاب نہیں ہو سکا جس کی بنیادی وجہ یونین کے مجموعی فائدے کے بارے میں سوچنے کی بجائے ہر ملک کا وطنیت اور مفاد کی بنیاد پر سوچنا ہے۔
یورپی یونین کے دو اہم ترین ستون جرمنی اور فرانس ہیں۔ یہی دو ممالک سب سے زیادہ یہ خواہش رکھتے ہیں کہ یونین کو ایک مضبو ط بلاک بنائیں تا کہ دنیا میں اپنی سیاسی بر تری کے خواب کو پورا کر سکیں۔ فرانس اور جرمنی دونوںہی یورو زون کے مسائل کو حل کرنے کے لیے کام کررہے ہیں لیکن یوں لگ رہا ہے کہ اس بحران پر قابو پانے اوراس کو حل کرنے کے طریقہ کار پر ان دو ملکوں میں بھی بنیادی اختلافا ت پائے جاتے ہیں۔ یہ اس لیے ہے کیونکہ اقتصادیات کا موضوع ریاستوں کی بالا دستی کے موضوع سے ٹکرا تا ہے اور اس کی وجہ ان دونوںمما لک کااپنے آپ کو یورپی یونین کے دو بڑے لیڈر سمجھنا ہے۔ اس لیے ان دونوں کے درمیان پس پردہ بالا دستی کی رسہّ کشی چلتی رہتی ہے کہ کون اس اتحاد کے فیصلوں پر اثر انداز ہو گا اور کس کی بات مانی جائے گی۔ فرانس نے ان بحرانوں کے حل کے لیے اقتصادی حکومت بنانے کی پیشکش کی جو ہر ملک پر ایک مخصوص اقتصادی پالیسی نا فذ کرے گی اور ہر ملک اس کا پابند ہو جبکہ جرمنی نے اکنامک مینجمنٹ قائم کرنے کی تجویز دی یعنی ایسا اسٹرکچر اور فریم ورک بنایا جائے جو صرف پابندیاں لگائے اور اقتصادی حکومت بنانے کی تجویز سے اتفاق نہیں کیا کیونکہ اس سے ہر ملک کو یہ تاثر ملے گا کہ ان کی حکومتوں سے بھی کوئی بڑا ادارہ ہے جو انہیں حکم جاری کرتا ہے اور اس طرح اُنہیں اپنی بالادستی خطرے میں نظر آئے گی۔ یہی وجہ ہے کہ فرانس کی اس تجویز کو پورے یورپ میں پذیرائی نہ مل سکی۔
یورپی یونین کے حوالے سے جرمنی کے کردار کو سمجھنا انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ یورپ کے اکٹھا ہونے کے بعد سے بالعموم اور یورپی یونین کے قیام کے بعد سے بالخصوص پورے یورپ کی منڈیوں سے سب سے زیادہ معاشی فائدہ جرمنی نے اٹھایا اور پورے یورپ کے وسائل کو اپنے اور اپنی عوام کی خوشحالی کے لیے استعمال کیا ہے تو بے جانہ ہوگا۔ جرمنی معاشی اعتبار سے یورپی یونین اور یوروزون کا سب سے طاقتور ملک ہے۔ اس کی مضبوط معیشت کا سا را دارو مدار اس کی برآمدات پر ہے جو اس کے GDP کا 40 فیصد ہے۔ جرمنی دنیا کا دوسرا سب سے بڑا برآمد کنندہ ہے۔ یورپ Free Trade Zone ہونے کی وجہ سے 500 ملین سے زائد لوگوں کی ایک وسیع مارکیٹ ہے۔ جرمنی ایک ایسا ملک ہے جس کی زرعی اور صنعتی پیداوار انتہائی بڑے پیمانے پر تیار ہونے کے بعد ایک وسیع مارکیٹ چاہتی ہیں۔ یورپ کا Free Trade Zone ہونا ہر لحاظ سے جرمنی کو فائدہ پہنچاتا ہے۔ جرمنی کی وسیع برآمدات نے یورپ کے تمام ممالک کی منڈیوں پر اجارہ داری قائم کر رکھی ہے جس کے باعث جرمنی پورے یورپ سے مفادات سمیٹتا ہے۔ دوسری طرف معاشی اعتبار سے یورپ کا سب سے زیادہ مضبوط ملک ہو نے کی وجہ سے یورپین سینٹرل بینک میں نسبتاً سب سے زیادہ حصہ جرمنی کا ہے جس کی وجہ سے اس کے مفادات ہمیشہ محفوظ رہتے ہیں۔ یورپ میں یورو کی قدریہی یورپین سینٹرل بینک ہی کنٹرول کر تا ہے۔ لہٰذا ہم اندازہ لگاسکتے ہیں کہ اگر جرمنی سینٹرل بینک میں سب سے بڑا حصہ دار ہے تو وہ اس کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے اور اس طرح وہ اس بینک کے ذریعے پورے یورپ کی مالیاتی پالیسی پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اس طرح جرمنی کو معلوم ہے کہ پورے یورپ کو یورپی یونین کے چارٹر کے تحت جوڑے رکھنے اور انہیں ایک ہی کرنسی کی چھتری تلے جمع رکھنے میں اس کا اپنا ہی مفاد ہے۔ مگر دوسری طرف اس کے معاشی مفادات اور پالیسیاں یورپ کے معاشی بحران کے حل میں ایک اہم رکاوٹ ہیں۔ یورپ کا تقریباً ہر ملک ہی جرمنی کے ساتھ تجارتی خسارے کا شکار ہے حتی کہ یورپ کا دوسرے بڑے ملک فرانس کے بھی اربوں یورو جرمنی کے ساتھ تجارتی خسارے کی وجہ سے ڈوب چکے ہیں یہی تجارتی خسارہ ان ممالک کے بجٹ میں بجٹ خسارے کا باعث بنتا ہے۔ دوسری طرف یورپین سینٹرل بینک میں جرمنی کا اثر و رسوخ بھی دوسرے ممالک کے معاشی معا ملات پر اثر انداز ہوتا ہے۔
لیکن اس کے ساتھ ساتھ جرمنی یورپی یونین کو مزید کمزوری سے بچانے کے لیے یورپی ممالک کو ریاستی قرضوں کے بحران سے نکالنا بھی چا ہتا ہے۔ لیکن اس کے لیے وہ اپنے ریاستی مفادات کسی صورت داؤ پر نہیں لگا نا چاہتا۔ جرمنی کی طرف سے یورپ کو بحران سے نکالنے کے لیے کئی اقدامات تجویز کیے گئے ہیں جو کہ مندرجہ ذیل ہیں:
1) یورپی یونین قانون سازی کے تحت برسلز جو کہ یورپی یونین کا بیلجیم میں دارالحکومت ہے کو یورپی سینٹرل بینک کے ذریعے یہ اختیار دے کہ وہ اُن تمام ممالک کے بجٹ کو، جو ریاستی قرضوں کے بحران کا شکار ہیں، کنٹرول کر سکے۔
2) ایسے ممالک ہر صورت اپنی مالیاتی پالیسی میں سادگی کے اصول اختیار کرنے والے اقدامات اپنائیں یعنی ریاستی اخراجات اور عوامی ترقیاتی منصوبوں پر اُٹھنے والے خرچوں کو کم کریں۔
3) یورپی یونین کی طرف سے مقروض ریاستوں کو بین الاقوامی سطح پر کوئی مدد فراہم نہ کی جائے۔
4) ریاستی قرضوں میں ڈوبے ممالک کے یورپی یونین کے الیکشن میں، جو ہر پانچ سال بعد ہوتے ہیں، ووٹ ڈالنے کا اختیارمنجمد کر دیا جائے۔
5) ایسے ممالک سادگی کے اصولوں کے تحت اپنے عوام کی تنخواہوں کی سطح کو کم کریں۔
6) بجٹ کو بڑھانے کے لیے بجٹ خسارے کی اجازت دینے والے ممالک کی مالی مدد بند کر دی جائے۔
7) ہر ملک اپنے آئین میں بجٹ خسارے کی حد مقرر کرے تاکہ نادہندہ ہونے کی صورت میں اُسے یورپی یونین سے نکلنا نہ پڑے۔
لیکن یورپی ممالک کی حکومتیں جرمنی کی ان تجاویز کوماننے کے لیے تیار نہیں ہیں کیونکہ ایک طرف تو عوامی ترقیاتی منصوبوں پر رقم کم کرنے اور عوام کی تنخواہوں کو کم کرنے سے انہیں اپنے ہی ملک میں اپنی عوام کی مخالفت مول لینا پڑے گی دوسری طرف انہیں 2009ء میں طے پانے والے لسبن معاہدہ (Lisbon Treaty) میں تبدیلیاں کرنا پڑیں گی۔ لسبن معاہدہ یورپی یونین پر حکمران ہے اور یورپی ممالک ان پر پہلے ہی بڑی مشکل سے راضی ہوئے تھے اور اپنے قومی مفادات کو چھوڑنے پر راضی نہیں تھے۔ پھر یہ تجاویز کسی بھی ملک کے اقتدار اعلٰی(Sovereignty) میں براہ راست مداخلت تھیں جس کے لیے یورپی ممالک کبھی بھی متفق نہیں ہو سکتے۔ لہٰذا اب تک یورپی یونین اس بحران سے نکلنے میں ناکام نظر آتی ہے کیونکہ ہر ریاست یونین سے بڑھ کر اپنے مفادات کو مقدم رکھتی ہے۔
جہاں تک Austerity Measures یعنی سادگی پر مبنی اقدامات کی بات ہے تو مقروض ممالک ایک حد سے زیادہ سادگی اپنا نے کے لیے تیار نہیں کیونکہ انہیں اپنی عوام پر مزید ٹیکسوں سمیت کئی ایسے اقدامات اٹھانا پڑیں گے جو اُن کی حکومت کو انتہائی غیر مقبول بنادیں گے۔ ان مقروض ممالک کا کہنا ہے کہ چونکہ یورپ کے امیر ممالک نے یورپی Free Trade Zone اور دوسری پالیسیوں کے تحت یورپ کے وسائل کو زیادہ استعمال کیا ہے لہٰذا ریاستی قرضوں کے بحران کو حل کرنے کے لیے بڑے ممالک ہی ان قرضوں کا بوجھ اٹھائیں اور قرضوں میں پھنسے ہوئے ممالک، جن میں یونان، اٹلی، پرتگال، آئر لینڈ اور سپین سرفہرست ہیں، کو مزید قرضے بھی دیتے رہیں تا کہ یہ مما لک defaultنہ کریں اور یورپی یونین کو مزید خطرے سے بچائیں۔ لیکن امیر ممالک خصوصاً جرمنی جو پہلے ہی بہت قرضے دے چکے ہیں مزید ایسے قرضے نہیں دینا چاہتے جن کی واپسی کی کوئی امید نہ ہو بلکہ وہ مقروض ممالک کو سادگی پر مبنی اقدامات اٹھانے کی ترغیب دیتے ہیں۔ دوسری طرف ہر ملک کے اندرطبقاتی فرق (Class difference) بھی شدید اختلا فات کا باعث بن رہا ہے۔ ہر ملک کانچلا اور درمیانہ طبقہ (Lower and Middle class) یہ سمجھتے ہیں کہ عوام جو اس بحران کے سبب پہلے ہی بڑھتی ہوئی بے روز گاری اور ٹیکسوں کے بوجھ کا شکار ہیں، سادگی پر مبنی اقدامات کا نشانہ بھی وہی بنیں گے اور اشرافیہ کو اس کی کوئی قیمت نہیں چکانی پڑے گی۔ لہٰذا ان کا مطالبہ ہے کہ ان کے ملک کی اشرافیہ کو ہی اس کا بوجھ اٹھانا چاہیے جنہیں پہلے ہی حکومتوں نے کئی مراعات اور ٹیکسوں میں چھوٹ دے رکھی ہے۔ کئی ممالک کے عوام یورپی یونین کو ہی اپنے مسائل کی بنیادی وجہ سمجھتے ہیں کیو نکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس یونین سے بڑے ممالک ہی فائدہ اٹھاتے ہیں لہٰذا ان ممالک میں یونین سے نکلنے کی آوازیں بڑھتی جارہی ہیں۔
جرمنی ایک طرح سے شدید مخمصے اور کشمکش کا شکار ہے۔ اگر قرضوں میں ڈوبے تمام ممالک سادگی پر مبنی اقدامات اٹھائیں تو اس سے جرمنی کی برآمدات، جو اس کی معیشت کے لیے آکسیجن اور ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں، پر شدید ضرب پڑے گی کیونکہ ان اقدامات سے لوگوں کی قوت خرید کم ہو جائے گی۔ لہٰذا جرمنی نہ چاہتے ہوئے بھی ان ممالک کو یورپین سینٹرل بینک کے ذریعے قرضے جاری کرواتا رہتا ہے تاکہ ان ممالک میں جرمنی کی مصنوعات کے لیے طلب اور قوت خرید دونوں برقرار رہیں۔
جرمنی نے قرضوں میں پھنسے ممالک کی مدد کے لیے قائم کردہ فنڈ European Stabilization Fund میں بھی اپنا حصہ 450 بلین یورو سے بڑھا کر 1000 بلین یورو کر دیا ہے۔ پھر اس نے کچھ عرصہ قبل سپین کی بیمار معشیت کو بھی 100 بلین یورو کا قرضہ دیا۔ یہ تمام اقدامات اس بات کی دلیل ہیں کہ جرمنی اس یونین کو بچانے کے لے سر توڑکوششیں کر رہا ہے کیونکہ اگر ایک ملک بھی defaultکر گیا تو اُسے یورپی یونین سے نکلنا پڑے گا اور اگر ایک مرتبہ یہ سلسلہ شروع ہوگیا تو جرمنی بھی نہیں جانتا کہ یہ سلسلہ کہاں ختم ہوگا اور یونین کے وجود کو شدید خطرات سے دو چار کردے گا۔ لیکن جرمنی یہ بھی چاہتا ہے کہ باقی ممالک اپنے بجٹوں کو منظم کریں اور ریاستی قرضوں کے بحران سے خود چھٹکارا پائیں۔ لیکن ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا اور یورو کرنسی بدستور خطرے میں ہے۔ جرمنی کی چا نسلر انجیلا مر کل نے یوروزون کے مستقبل کے بارے میں متنبہ کرتے ہوئے تاکید سے کہا تھا کہ ''جرمنی نہیں چاہتا کہ کوئی بھی ملک دیوالیہ ہو کیو نکہ ایک کے دیوا لیہ ہونے کامطلب ہے سب کا دیوالیہ ہونا''۔ پھر ایک موقع پر اپنی کرسچن ڈیموکریٹک پارٹی کی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ "یورپ دوسری عالمی جنگ کے بعد اپنے مشکل ترین دورسے گزر رہا ہے اگر یورو ناکام ہوگیا تو یورپ ناکام ہو جائے گا"۔
جرمنی کی طرف سے بکثرت تجاویز، یورپین سٹیبلائزیشن فنڈ میں اضافہ اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ اپنے ریاستی مفادات کے تحفظ کے ساتھ سا تھ یورپ، یورپی یونین اور یورو کو ریاستی قرضوں کے بحران سے نجات دلانا چاہتا ہے اس بات کو جانتے ہوئے کہ یورو یورپی یونین کی کامیا بی کا راز ہے اور یورو کا زوال یورپ کا زوال ہے۔
اس بحران کے سیاسی اور معاشرتی منفی اثرات بھی یورپ پر کم نمایاں نہیں۔ جیسے پہلے بات ہوئی کہ ہر ملک اس بحران کی قیمت چکانے کے لیے متوسط درجے اور اشرافیہ کے طبقات میں تقسیم ہے جبکہ دوسری طرف یورپ میں بے روز گاری کی شرح ہر دم بڑھ رہی ہے۔ 2013ء میں یورپ میں بے روز گاری کی شرح کی اوسط 11.6 فیصد تھی جبکہ 11 ممالک میں یہ شرح 10-17 فیصد اور دو ممالک سپین اور یونان میں بالتر تیب 25 اور 26.5 فیصد ہے۔ بے روز گاری کی یہ شرح کسی بھی لحاظ سے کسی بھی ملک کے لیے خطرناک قرار دی جا سکتی ہے۔ اس بے روز گاری کی وجہ سے یہ ممالک بہت سے دوسرے معاشرتی مسائل کا شکار بھی ہو رہے ہیں جبکہ سیاسی طور پر اس صورتحال کا الزام یورپی یونین کے سر تھوپتے ہیں۔
جہاں تک برطانیہ کا تعلق ہے جو کہ اس اتحاد کا بڑا اہم رکن ہے تو وہ اٹلانٹک کارنر کے ایک مقام پر کھڑا یورپ کی حالت زار کا تماشہ دیکھ رہا ہے اوراپنے آپ کو اتحاد کی تباہی اور اس مالیاتی بحران جس کا وہ خود بھی شکار ہے، کے نتائج سے بچانے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہا ہے لیکن وہ اتحاد کی مشکلات کو حل کرنے میں اس قدر دلچسپی نہیں لے رہا جس قدر وہ مفادات اور غنائم کی تاک میں بیٹھا ہے۔ چونکہ وہ یوروزون میں داخل ہی نہیں ہوا لہٰذا اپنی کرنسی پاؤنڈ سٹرلنگ سے دستبردار نہیں ہوا اور یورو کو اختیار کرنے میں دلچسپی کا اظہار بھی نہیں کرتا اس لیے یورو کا معاملہ اس کے لیے کسی اہمیت کا حا مل نہیں۔ برطانیہ کے اندر بھی ایسی آوازیں اُٹھ رہی ہیں جو یورپی یونین سے علیحدگی کی باتیں کرتی ہیں تاکہ کوئی اس پر یورو کو اپنانے کے لیے دباؤ نہ ڈالے۔ برطانیہ کے سابق وزیر خارجہ ولیم ہیگ نے ایک موقع پر کہا کہ ''یورو اجتماعی حماقت ہے اور وہ بہت جلد تاریخ کے کوڑے دان کا حصہ بن جائے گا''۔ پھر یورو زون کو تشبیہ دیتے ہوئے کہا کہ "یہ ایک ایسی جلتی ہوئی عمارت ہے جس میں آگ سے بچ نکلنے کے دروازے ہی موجود نہیں"۔ ایک اور موقع پر برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے کہا کہ ''یورو بحران صرف یورپی معیشت کے لیے ہی نہیں بلکہ ساری دنیا کی معیشت کے لیے خطرے کے گھنٹی ہے''۔ یورپ کے سیاستدانو ں کو برطانیہ کی دوغلی پالیسی اور بدیانتی کا علم ہے چنانچہ یورپی کمیشن کے سابق صدر باروسو نے یہ کہتے ہوئے اشارہ کیاکہ ''ان اتحادی ممالک کو چاہیے کہ جو یورو میں شامل ہونے کی تائید نہیں کرتے کہ وہ اُن ممالک کے راستے میں رکاوٹ کھڑی نہ کریں جو اس سمت میں آگے بڑھنا چاہتے ہیں''۔
اس سب کے باوجود جب تک یہ یونین قائم ہے برطانیہ کا یورپی یونین سے نکلنے کا کوئی ارادہ نہیں کیونکہ اس سے وہ سیاسی اور معاشی فوائد حاصل کرتا ہے۔ برطانیہ عا لمی سطح پر سیاسی مفادات کے حصول کے لیے یورپ کو اس بات کی طرف کھینچتا ہے کہ وہ عالمی امور پر اس کے مفاد کے مطابق رائے اختیار کرے بلکہ یورپی یونین سے سے نکلنا اس کے لیے نقصان دہ ہوگا اسی لیے وزیر اعظم کیمرون نے یہ کہتے ہوئے وضاحت کی کہ ''یورپی یونین سے نکلنا برطانیہ کے قومی مفاد میں نہیں جس وقت ہم یورپی یونین سے نکلے ہمارے حالت ناروے کی طرح ہو جائے گی یعنی برسلز سے ہونے والے ہر فیصلے سے ہم متاثر تو ضرور ہوں گے لیکن کسی فیصلے میں شریک نہیں ہوں گے''۔ ساتھ ہی وہ برطانیہ کی بالادستی سے دستبردار ہونے کے لیے بھی تیار نہیں جب اُس نے کہا کہ ''برسلز میں یورپی کمیشن کے اختیارات کے بڑے حصے کو قومی حکومتوں کو دے دینا چاہیے''۔ یوں برطانیہ یورپی یونین سے نکلنا بھی نہیں چاہتا جبکہ یورو زون میں شامل بھی نہیں ہونا چاہتا۔
یورپی یونین کا 28 ممالک میں بٹے ہونا اور اس میں ایک مضبوط سیاسی لیڈر شپ کا نہ ہونا اس کو صرف معاشی ہی نہیں بلکہ سیاسی اور فوجی محاذ پر بھی نقصان پہنچا رہا ہے۔ یورپ کی فوجی طاقت کو امریکہ نیٹو کے ذریعے اپنے مفادات کے لیے استعمال کر رہا ہے جبکہ2000 ء سے بڑے یورپی ممالک، جن میں جرمنی، فرانس، اٹلی اور سپین شامل ہیں، یہ کوشش کر رہے ہیں کہ یورپین آپریشنل ہیڈ کوارٹر قائم کیا جائے جس کے تحت علیحدہ یورپین فورس بنائی جائے جو کہ نیٹوسے علیحدہ اور امریکی اثر سے آزاد ہو اور یورپ کے سیا سی اور فوجی اہداف حاصل کرنے کے لیے استعمال کی جائے۔ لیکن اب تک اس ارادے کو کمزور یورپی سیاسی قیادت کی وجہ سے عملی جامہ نہیں پہنا یا جا سکا کیونکہ دوسری طرف برطانیہ اس منصوبے کی شدید مخالفت کر رہا ہے کیو نکہ وہ سمجھتا ہے اس طرح یورپ پر اس کا اثر ورسوخ کم ہو جائے گاجبکہ وہ ہر حالت میں یورپ پراثرو رسوخ رکھنا چاہتا ہے۔ اس ضمن میں یورپ کی طرف سے تازہ ترین کوشش 2011ء میں کی گئی جب پانچ یورپی ممالک جرمنی، فرانس، اٹلی، سپین اور پولینڈ نے ایک خفیہ مراسلہ یورپی یونین کی وزیر خارجہ Lady Ashton کو ارسال کیا جس میں اُسے برطانیہ کو نظر انداز کرتے ہوئے آپریشنل ہیڈ کوارٹر بنانے کی ہدایت کی گئی اور یقین دلایا گیا کہ اُسے ان ممالک کی طرف سے ہر ممکن تعاون دستیاب ہوگا۔ لیکن یہ خفیہ مراسلہ منظر عام پر آگیا اور برطانیہ نے اس پر شدید غم و غصہ کا اظہار کرتے ہوئے یورپی پارلیمنٹ میں اسے ویٹو کرنے کی دھمکی دیدی۔ یاد رہے کہ اس معاملے میں برطانیہ کو امریکہ کی حمایت بھی حاصل ہے جو ہر صورت یورپی یونین کو کمزور دیکھنا چاہتا ہے اور چاہتا ہے کہ یورپ صرف نیٹوکی شکل میں ہی مشترکہ فوجی صلاحیت رکھے جس کا فائدہ صرف امریکہ ہی اٹھاتا رہے۔ دوسری طرف امریکہ نے یورپ کی کئی ریاستوں خاص طور پر مشرقی یورپ کی ریاستوں کے ساتھ سکیورٹی کے نام پر فوجی معا ہد ات کر رکھے ہیں۔ وہ ان معاہدات کے ذریعے اُن کی سکیورٹی کو یقینی بنانے کا دلاسہ بھی دیتا ہے جس کی وجہ سے مشرقی یورپ کی یہ ریا ستیں جو خود بھی یورپی یونین کا حصہ ہیں یورپ کی علیحدہ فورس بنانے میں دلچسپی نہیں رکھتیں۔ یوں یورپ کے بٹے ہونے اور مضبوط سیاسی قیادت کی عدم موجودگی کی وجہ سے یونین اس معاملے میں بھی کوئی پیش رفت نہ کر سکی۔ اس بات پر جھنجھلاہٹ کا اظہار کرتے ہوئے یورپی کمیشن کے سابق صدر Prodi نے کہا کہ ''یورپ اس بات کا متحمل نہیں ہو سکتا کہ اپنے معاشی معاملا ت تو خود سنبھالے جبکہ سکیورٹی کی ذمہ داری امریکہ کے حوالے کردی جائے''۔
یورپ کا توانائی کی ضروریات میں خود کفیل نہ ہونا بھی اسے بہت کمزور کرتا ہے، خاص کر گیس کے معاملے میں۔ یورپ اپنی گیس کی ضروریات کا صرف 35 سے 40 فیصد خود مہیا کرتا ہے جبکہ اپنی ضرورت کا ایک تہائی حصہ روس سے حاصل کرتا ہے جو یورپ کو خطرناک حد تک روس کا محتاج بنادیتا ہے۔ اس محتاجی کے باعث یورپ روس کی 2008ء میں جارجیا اور 2014ء میں یوکرائن کے خلاف جارحیت کے خلاف چاہتے ہوئے بھی کچھ نہ کر پایا اور روس نے گیس کے کارڈ کو سیاسی طور پر استعمال کرتے ہوئے یورپ کو بے بس کر دیا۔
یونین کی ان تمام کمزوریوں اور موجودہ معاشی اور ریاستی قرضوں کے بحران کو حل نہ کرنے کی صلاحیت اور اس کے نتیجے میں بڑھتی بے روز گاری اور دوسرے مسائل یورپ کی عوام کی رائے یونین کے خلاف کر رہے ہیں۔ اس کا واضح ثبوت پچھلے ماہ بر طانیہ اور فرانس میں ہونے والے یورپی پارلیمنٹ کے انتخابات تھے جن میں لوگوں نے اُن جماعتوں کو ووٹ دیا جویورپی یونین کو اپنے ممالک کی ترقی کے لیے رکاوٹ سمجھتے ہیں اور یونین کے زیادہ تر اختیارات ریاستی حکومتوں کو دلوانا چاہتے ہیں۔ ان جماعتوں کو ملنے والی سیٹیں اب تک ہونے والے تمام انتخابات کی تاریخ میں سب سے زیادہ ہیں گو کہ اسکے باوجود یورپی یونین کے ٹوٹنے کا فی الفور خطرہ نہیں لیکن انتخابات کے نتائج یونین کے خلاف بڑھتے ہوئے عوامی غصہ کی ترجمانی کرتے ہیں۔ یورپ کے دانشور اور مفکرین ان الیکشن کے نتائج کے یورپی اسٹبلشمنٹ کے خلاف ووٹ قرار دے رہے ہیں۔ لہٰذ یورپی یونین کی 2008ء تک کی معاشی کامیابیاں جس نے دنیا بھر کے پالیسی سازوں کے ذہن میں یہ سوال پیدا کر دیا تھا کہ یورپی یونین آنے والے سالوں میں کیا کچھ بن سکتی ہے، اس کی حالیہ ناکامیوں نے اس سوال کو تبدیل کر کے ایک نیا سوال ان کے ذہنوں میں ڈال دیا ہے کہ ان بحرانوں اور کمزور عوامی حمایت کے ساتھ یہ یونین کب تک قائم رہ سکتی ہے۔
یہ تمام دلائل اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ یورپی یونین محض مفادات کی بنیاد پر اکٹھے ہونے والے ممالک کا اتحاد ہے یہ ایک مضبوط سیاسی وحدت(political entity) نہیں بلکہ 28 ریاستوں کا ایک غیر فطری اتحاد ہے جو اپنے اندر کئی کمزوریاں رکھتا ہے جس میں سب سے اہم قومیت کی بنیاد پر تقسیم ہے اور یہی اس کا سب سے بڑا مسئلہ ہے جو اسے کبھی ایک مضبوط سیاسی قوت نہیں بننے دے گا۔
آئیے اب کچھ بات امریکہ کے حوالے سے ہو جائے۔ امریکہ کسی ایسے بلاک یا نظر یاتی ریاست کے وجود کو برداشت نہیں کر سکتا جو اس کے سپر پاور ہونے کی حیثیت کو چیلنج کرے۔ ہم آنے والی نظر یاتی ریاستِ خلافت کے قیام کو روکنے کے لیے تو امریکی کوششوں سے اچھی طرح آگاہ ہیں، آیئے دیکھتے ہیں کہ خود اپنی بڑھتی ہوئی کمزوریوں کے باوجود یہ یورپ کو کس طرح کمزور کرنے کی کوشش کرتا ہے اور کس طرح اسے دنیا میں ایک مضبوط بلاک کی شکل میں ابھر نے نہیں دیتا۔
معاشی طور پر امریکہ نے یورپ کے بحران سے بھر پور فائدہ اٹھایا۔ ایک طرف تو اسے یہ موقع ملا کہ وہ لوگوں کی توجہ اپنی مالی اور اقتصادی بدحالی سے ہٹائے اور ان کی نگاہ اس حقیقت سے پھیر دے کہ اس بحران کی اصل وجہ وہ خود ہے۔ دوسری طرف اس نے یورپ کے عوام کا یونین کے اتحاد اور یورو کرنسی پر کم ہوتے اعتماد کو مزید کم کرنے کے لیے یورپ کی معاشی مدد سے انکار کر دیا تاکہ امریکہ اور ڈالر کے مقابلے میں یورپ اور یورو کا اثر و رسوخ بڑھنے نہ پائے۔ امریکہ چاہتا ہے کہ یورپ اس کے زیرِ دست رہے اور اس کے پیچھے پیچھے چلے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اُس کی اُس قدر ہی مدد کرتا ہے کہ وہ اس کے ماتحت رہے۔ امریکہ نے دو سال پہلے یورپ کی درخواست کے باوجود ریاستی قرضوں کے بحران میں مدد کے لیے آئی ایم ایف میں اپنے فنڈز کو دوگنا کرنے سے انکار کر دیا تاکہ یورپ اس بحران سے نکل نہ سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ مشہور کریڈٹ ریٹنگ کمپنیوں جیسے Standards and Poor's اور Moody's and Fitch وہ امریکی کمپنیاں ہیں جو یورپی ممالک کی معاشی حالت کو مزید ڈانوا ڈول کرنے میں کردار ادا کر رہی ہیں، چنانچہ ان کمپنیوں نے سپین، یونان، اٹلی، پرتگال کے ساتھ ساتھ 21 یورپی بینکوں کی درجہ بندی میں کمی کردی۔ ان بینکوں میں یورپ کے کئی بڑے بینک بھی شامل ہیں جس نے یورپ کو مزید مالی مشکلات سے دو چار کردیا۔ اس کے علاوہ امریکہ ریاستی اور فوجی اعتبار سے بھی یورپ کو کمزور اور تقسیم رکھنے کی کوشش مندرجہ ذیل ذرائع سے کرتا ہے:
1) نیٹو کو قائم رکھ کر جو کہ سوویت یونین کی expansion policy کو مدِ نظر رکھ کریورپ کو تحفظ فراہم کرنے کے بہانے 1949ءمیں بنائی گئی تھی۔ 1991ء میں سوویت یونین کے انہدام کے بعد اصولی طورپر اسے ختم ہو جانا چاہیے تھا مگر اس کو ختم نہ کرنا اور اس کو اپنی قیادت میں اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنا امریکہ کی پالیسی ہے۔ اسی نیٹوکو وہ ایک طرف اسلام کے خلاف استعمال کرتا ہے اور دوسری طرف اس کے بہانے یورپ کو اپنی علیحدہ فورس بنانے نہیں دیتا۔
2) برطانیہ، جو کہ مکمل طور پریورپی یونین میں شامل نہیں ہونا چاہتا بلکہ اپنا آزاد اور بالادست و جود قائم رکھنا چاہتا ہے، اپنا مفاد یورپ سے بھی حاصل کرنا چاہتا ہے اور امریکہ کا ساتھ بھی نہیں چھوڑنا چاہتا۔ اس وجہ سے وہ یونین کے اندر تقسیم اور اختلاف کا باعث بھی بنتا ہے اور یہ چیز امریکی مفادات کا تحفظ جو کمزور یورپی یونین سے جڑا ہوا ہے یقینی بناتی ہے۔
3) مشرقی یورپ کے کئی ممالک جو 2003ء میں یورپی یونین میں شامل ہوئے تھے جن میں پولینڈ، بلغاریہ، چیک ریپبلک، ہنگری، رومانیہ اور دوسرے شامل ہیں ان میں سے زیادہ تر ممالک کے ساتھ امریکہ کے فوجی و سکیورٹی معاہدات ہیں جو ایک طرف یونین پر امریکی اثر و رسوخ کو بڑھاتے ہیں تو دوسری طرف وہ ان ممالک کو یونین کی علیحدہ فورس بنانے کے خلاف بھی استعمال کرتا ہے۔
4) امریکہ دنیا میں زیادہ تیل پیدا کرنے والے ممالک پر گہرا اثر و رسوخ رکھتا ہےاور یہ چیز یورپ کو امریکہ پر انحصار کرنے پر مجبورکرتی ہے۔ دوسری طرف امریکہ کا تیسری دنیا کے ممالک کے حکمرانوں پر گہرا اثر و رسوخ بھی دنیا بھر کی تجارت اور دوسرے معا ہدات میں یورپ کے مقابلے میں امریکہ کے غلبے کو یقینی بنا تا ہے۔
ان وجوہات کی بناہ پر امریکہ کا یورپ پر پلڑا بھاری دکھائی دیتا ہے گو کہ امریکہ خود بھی شدید اقتصا دی بحران کا شکار ہے۔ امریکہ میں بھی بے روز گاری کی شرح بڑھ رہی ہے اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کی وجہ سے تیس ریاستوں میں امریکہ سے علیحدگی کی آوازیں بھی سننے کو ملتی ہیں۔ ساڑھے چار کروڑ سے زائد افراد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں مگر دو وجوہات کی بنیاد پر امریکہ کی ریاست کو یورپی یونین کے مقابلے میں ٹوٹنے کا خطرہ نہیں۔
1) امریکہ کی فیصلہ سازی یورپی یونین کی طرح 28 ممالک میں تقسیم نہیں بلکہ تمام فیصلے واشنگٹن ڈی سی میں ہی ہوتے ہیں۔ یہ امر اُس کی سیاسی طاقت کو تقسیم نہیں ہونے دیتا۔
2) امریکہ کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانے اور اس کی حیثیت کو چیلنج کرنے والی کوئی نظریاتی ریاست فی الحال موجود نہیں۔
اس کے باوجود یورپ جب اور جہاں موقع پائے امریکی مفادات کو نقصان پہنچانے کی تاک میں لگا رہتا ہے۔ امریکہ نے جب چا ہااقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل سے اپنے مفادات اور منصوبوں کے مطابق قرار دار کو پاس کروا لیتا چاہے وہ کسی ملک کے خلاف پابندیاں لگانے کا معاملہ ہو یا کسی ملک پر حملہ کرنے کا۔ مگر2003ء میں فرانس اور جرمنی نے عراق کے خلاف سکیورٹی کونسل کو امریکہ کی حمایت کرنے اور دنیا کو عراق پر حملہ کرنے کے لیے اکٹھا ہونے سے روک دیا۔ فرانس نے با لخصوص ایسی مہم چلائی کہ ایک طرف تو سکیورٹی کونسل نے امریکہ کو عراق پر حملہ کرنے کی اجازت نہیں دی بلکہ جب امریکہ نے اکیلے ہی عراق پر چڑھائی کی تو فرانس نے امریکہ کو ایک ایسی ریاست کے طورپر مشہور کیا جو بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں اڑاتی ہے اور اپنے غرور میں کسی اصول اور ضابطے کی پر واہ نہیں کرتی۔ اس طرح پوری دنیا میں امریکہ کا image متاثر ہوا۔
دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ گو کہ امریکہ نیٹو کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتا ہے مگر بعض یورپی ممالک اہم مواقع پر اپنے فوجیوں کی تعداد کم کر کے، واپس بلوا کر یا فوجیوں کو نہ بھجوا کر اہم مہمات میں امریکی مفادات کو نقصان پہنچانے کے لیے نیٹو کے پلیٹ فارم کو استعمال کرتے ہیں۔ عراق کے خلاف جنگ میں برطانیہ کے علاوہ کوئی دوسرا یورپی ملک شامل نہ ہوا۔ جبکہ افغانستان کے خلاف جنگ میں گو کہ یورپی ممالک شروع میں نیٹو کے پلیٹ فارم سے امریکہ کے ساتھ شامل تھے لیکن پچھلے چار سے پانچ سالوں میں یورپی ممالک کی اس حمائت میں واضح کمی آئی ہے بلکہ کئی ممالک نے تو اپنی پارلیمنٹ سے منظوری نہ ملنے کے بہانے کو استعمال کرتے ہوئے سرے سے فوج بھیجنے سے ہی انکار کر دیا جبکہ برطانیہ سمیت چند ایسے ممالک بھی ہیں جو اپنے فوجیوں کی تعیناتی افغانستان کے اُن اضلاع میں کرواتے ہیں جہاں طالبان کا خطرہ کم سے کم ہے اور خطر ناک علاقوں میں زیادہ تر امریکی افواج کو ہی شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس وجہ سے اس جنگ میں نیٹو افواج کی بجائے امریکی افواج کی اموات زیادہ ہیں۔
یورپ عام طور پر امریکی انتخابات والے سال بھی امریکہ کے لیے مسائل کھڑے کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ بات مشہور ہے کہ تمام امریکی حکومتیں انتخابات والے سال کسی نئے مسئلہ یا تنازع میں الجھنا نہیں چاہتیں تاکہ آنے والے انتخابات میں اُن کی ساکھ متاثر نہ ہو اور اس صورت حال کا فائدہ مضبوط یورپی ممالک اٹھاتے ہیں اور انتخابات والے سال مختلف انداز سے امریکی حکومت پر دباؤ ڈالتے نظر آتے ہیں۔
اس ساری گفتگو سے باطل نظریہ حیات (آئیڈیالو جی) کے تمام علمبرداروں کی حقیقت واضح ہو جاتی ہے۔ یہ تمام ممالک ایک ہی مذہب سے تعلق رکھنے کے باوجود جس نظریہ حیات (آئیڈیالوجی) پر یقین رکھتے ہیں وہ ان میں صرف مادیت اور منفعت کے حصول کی لالچ ہی پروان چڑھاتی ہے اور اسی وجہ سے یہ ایک دوسرے سے بھی صرف فائدے کی بنیاد پر ہی رشتہ استوار کرتے ہیں اور فائدے کے حصول کی خاطر یہ ایک دوسرے کی جڑیں کاٹنے سے بھی نہیں چوکتے اور ان کے دل آپس میں ٹکراتے ہیں۔ انہوں نے پوری دنیا کے لوگوں کو باطل نظریہ حیات (آئیڈیالوجی) سے پھوٹنے والے ظالمانہ اور استحصالی نظام کی زنجیروں میں جکڑ رکھا ہے۔ وہ نظام جو خود شدید مشکلات کا شکار ہے اور ان ممالک کی بنیادوں میں شدید کمزوریاں پیدا کرچکا ہے۔ آج اگر کمی ہے تو صرف ایک ایسی ریاست کی جو حق نظریہ حیات (آئیدیالوجی) کی بنیاد پر وجود میں آئے اور ان کی کمزوریوں کو سیاسی بصیرت کے ذریعے مکمل ناکامی میں بدل دے۔ آج پوری دنیا کو ریاست خلافت کی ضرورت ہے جو اسے کفر کے اندھیرے سے نکال کر حق کے نور کی طرف لے جائے۔ ان کے آپس کے اختلافا ت اور ان کے نظام کو بار بار بحران سے دو چار ہوتا دیکھ کراحساس ہوتا ہے کہ جیسے اللہ کےاِذن سے قائم ہونے والی خلافت کے لیے راہ ہموار ہو چکی ہے۔ خلافت کے قیام سے پہلے ہی الحمد اللہ ان ممالک کے عوام اور کئی دانشو ر اور مفکرین اپنے نظام کی خامیوں کے خلاف احتجاج کرتے اور تحریر یں لکھتے نظر آتے ہیں لیکن بد قسمتی سے کسی دوسرے نظریہ حیات (آئیڈیا لوجی) کے سامنے نہ ہونے کی وجہ سے اپنے ہی باطل نظام سے حل ڈھونڈھنے پر مجبور ہیں۔ لیکن انشا ء اللہ خلافت کے قیام کے ساتھ ہی خلافت کی قیادت اور ہزاروں سیاست دان جو کہ تیار بیٹھے ہیں اسلام کی دی ہوئی ہدایت اور سیاسی بصیرت کے ذریعے وہ اقدامات کریں گے جو انشا ء اللہ کفار کے باطل نظریہ حیات (آئیڈیالوجی) کو مزید ناکامی سے دو چار کرنے اور اسلامی نظریہ حیات (آئیڈیالو جی) کو اس پر غالب کرنے میں زبر دست کامیابیاں سمیٹ سکیں۔
خلافت اپنے قیام کے ساتھ ہی مضبوط میڈیا اور دنیا بھر میں پھیلے ہوئے شباب چاہے وہ یورپ میں ہوں امریکہ، مشرقی وسطیٰ یا کہیں بھی، کے ذریعے سر مایہ دارانہ نظام کی غلاظت اور باطل فکر کو دنیا کو لوگوں پر بے نقاب کرے گی اور اسلامی ریاست کے اندر اسلام کے قوانین اور نظاموں سے پیدا ہونے والے ثمرات اور خوشحالی کی تصویر انہیں دکھائے گی جو یقیناً ان لوگوں میں آگاہی کے ساتھ ساتھ اپنے نظام کے خلاف نفرت بھی پیدا کرے گی اور یاد رہے کہ اس سے پہلے سوویت یونین بھی ایک نظریاتی ریاست کے طور پر ایسا کر چکا ہے سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف سوویت یونین کے پرو پیگنڈا نے ہی ان ریاستوں کومجبور کر دیا تھا کہ اپنی آئیڈیالوجی میں فلاحی ریاست (welfare state) کے تصور کا پیوند (patchwork) کریں تاکہ پرو پیگنڈا سے متاثر ہوتی عوام کو مطمئن کرسکیں۔
ریاستِ خلافت اپنی خارجہ پالیسی اور اسلام کے حکم کے مطابق دوسرے مسلم علاقوں کو اپنے اند ضم کرنے کا عمل تیز کرے گی اس عمل میں وسطی ایشیاء اور مشرق وسطیٰ میں اسلام کے حق میں موجود عوامی رائے عامہ، شباب اور اہل قوت میں ہونے والا کام انتہائی مدد گار ثابت ہوں گے۔ وسطی ایشیائی ریاستوں اور مشرق وسطیٰ میں شامل ممالک تیل اور گیس کی دولت سے مالا مال ہیں۔ ان علاقوں کو اسلامی ریاست اپنے اندر ضم کرنے کے بعد یہاں کے تیل اور گیس کے ذخائر کی براہ راست مالک ہوگی اور یہ چیز اسلامی ریاست کو دنیا کے باقی ممالک پر زبر دست برتری دلائے گی۔ اسلامی ریاست یورپ سمیت باقی دنیا کے وہ ممالک جو مسلمانوں کے ساتھ حالت جنگ میں نہ ہونے کی وجہ سے غیر حربی ہیں تیل اور گیس فراہم کرنے کی پالیسی کے تحت امریکہ اور گنتی کے چند یورپی ممالک کے تسلط سے نجات دلائے گی اور ان کے کیمپ سے نکالے گی۔ اس کے لیے وہ ان ممالک سے مختصر مدتی معاہدات بھی کر سکتی ہے۔
یاد رہے کہ یورپ آج کے روس جو اب نظریاتی ریاست نہیں رہا، کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھا سکا جب روس نے جار جیا اور یوکرائن کے خلاف جارحیت کی کیونکہ یورپ روس کی گیس کا محتاج ہے تو کل آنے والی نظر یاتی ریاست خلافت کی پھیلنے کی پالیسی (expansion policy) کے خلاف یورپ یا امریکہ کا برا ہ راست سامنے کھڑا ہونا اتنا آسان دکھا ئی نہیں دیتا اور اگر ایسا خطرہ ہوا بھی تو خلافت بھاری صنعت اور فوجی میدان میں تیز تر ترقی اور پہلے سے موجود زبر دست افواج اور ان میں موجود جذبہ جہاد کے ذریعے اس سے نپٹنے کے لیے تیار ہو گی۔
یہ اسلامی ریاست ہی ہوگی جو اِس وقت دنیا پر نافذ ڈالر کی حکمرانی کا خاتمہ کر دے گی کیو نکہ اسلامی ریاست ہی سونے اور چاندی کی کرنسی کا اجرا ء کرے گی۔ صرف یہی کرنسی آج ڈالر کی طلب کو کم کر سکتی ہے کیو نکہ دنیا خود بھی جانتی ہے کہ اصل دولت کاغذی کرنسی نہیں بلکہ سونا اور چاندی ہے۔ اسلامی ریاست اور خاص کر وسیع ہوتی اسلامی ریاست میں اس کرنسی کا نفاذ دنیا میں امریکہ اور ڈالر کی سیاسی اورمعاشی ساکھ کو شدید دھچکا پہنچائے گا اور اس سے دنیا میں امریکی اثر و رسوخ کم کرنے میں زبر دست مدد ملے گی۔ اس کے علاوہ کئی دوسرے اقدامات کے ذریعے امریکی کمزوریوں کا فائدہ اٹھا کر اس کی 30 ریاستوں کے اندر وفاق سے علیحدہ ہونے کی خواہش کے عمل کو بھی ہوا دی جا سکتی ہے۔ اگر یہ عمل بہت تیز نہ بھی ہو تو بھی امریکہ کی توجہ بیرونی محاذوں سے ہٹاکر اندرونی مسائل کی طرف موڑنے میں مدد گار ثابت ہوگی۔ دوسری طرف کئی مسلم علاقے جن میں آج امریکی اڈے موجود ہیں اور دنیا میں امر یکی بالادستی کا ذریعہ ہیں، اسلامی ریاست میں ضم ہو کر امریکی ٹھکانے نہیں رہیں گے۔ امریکہ سے اس کے اڈوں کا اس طرح چھن جانا دنیا پر اس کی بالا دستی کو انشا ء اللہ و اپسی کے سفر پر گامزن کر دے گا۔
دوسری طرف وہ غریب ممالک جو مسلم علاقے نہیں ہیں، اسلامی ریاست اپنی expansionپالیسی کو جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ ان ممالک کو انتہائی آسان شرائط پر قرضے اور بعض اوقات محض امداد دے کر عالمی بینک، آئی۔ ایم۔ ایف اور امریکی تسلط سے نجات دلائے گی اور ان میں اسلامی ریاست سے ہمدردی اور دوستی کے جذبات پیدا کرے گی۔ اس طرح پوری دنیا کو باطل آئیڈیالوجی کے علمبردار وں سے آہستہ آہستہ کاٹنے کے عمل میں مدد ملے گی۔
یہ سارے اقدامات گو کہ زبر دست سیاسی بصیرت کے متقاضی ہیں لیکن ہم جانتے ہیں کہ آنے والی خلافت کی قیادت اسلام کی بنیاد پر حاصل ہونے والی اس سیاسی بصیرت کی حامل ہے اور اس قیادت کی نگرا نی میں تیار ہونے والے ہزاروں لاکھوں فرزندانِ اسلام پوری دنیا کو اسلام کے نور سے منور کرنے اور انسانیت کو ہدایت اور فلاح کے راستے پر گامزن کرنے کےلیے بے چین بیٹھے ہیں۔
اللہ ربّ العزت اس قیادت اور ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین!

Read more...

اوباما کے استعماری اتحاد میں شامل ہونا جرم ِعظیم اور عظیم ترین غداری ہے ﴿سَيُصِيبُ الَّذِينَ أَجْرَمُوا صَغَارٌ عِنْدَ اللَّهِ وَعَذَابٌ شَدِيدٌ بِمَا كَانُوا يَمْكُرُونَ﴾ "عنقریب مجرموں کواپنی سازشوں کی وجہ سے اللہ کی طرف سے ذلت اورشدید عذاب سے دوچار ہو


بدھ 10 ستمبر 2014 کو اوباما نے آئی ایس آئی ایس تنظیم (داعش) اور دہشت گردی کا بہانہ بنا کر خطے کے لیے قاتل استعماری اتحاد کی قیادت کے اپنے منصوبے کا اعلان کر دیا.....اس سے پہلے امریکی سیکریٹری خارجہ جان کیری کہہ چکا ہے کہ اس اتحاد میں چالیس ممالک شامل ہوں گے اوریہ منصوبہ مہینوں نہیں بلکہ سالوں پر محیط ہو گا، امریکہ عراقی فوج کو تربیت دے گا اور اسے مسلح کرے گا اور معتدل اپوزیشن کی مدد کرے گا ! اوباما اتحاد کو عملی جامہ پہنانے کے لیے جمعرات 11 ستمبر 2014 کو امریکی وزیر خارجہ کیری کی سربراہی میں خطے کے اسلامی ممالک کا اجلاس سعودی عرب کے شہر جدہ میں ہوا۔ اس اجلاس میں سعودی عرب، اردن، مصر، لبنان، ترکی، عراق اور خلیج کے چھ ممالک شامل تھے.....جہاں تک ایران کا تعلق ہے جو اس اجلاس میں نہ ہونے کے باوجود موجود تھا اور وہی عراق، شام حتی کہ لبنان کی تباہی کا اصل ذمہ دار ہے، اُس کو اِس اتحاد میں اعلانیہ شامل ہونے کی ضرورت نہیں بلکہ اُس کے اور امریکہ کے درمیان گٹھ جوڑ افغانستان اور عراق پر قبضے کے وقت سے ہی قائم ہے جو کبھی پسِ پردہ ہو تا ہے اور کبھی کھلے عام۔ اس کے علاوہ کل ہی خامنائی نے آئی ایس آئی ایس تنظیم (داعش) کے خلاف لڑنے میں امریکہ کے ساتھ ساز باز کی حمایت کا اعلان کر دیا ! اور اس اعلان کی خبر کچھ نیوز ایجنسیوں نے 5 ستمبر 2014 کو ہی نشر کردی تھی .....اس طرح جان کیری اسلامی خطے میں اوباماکے اتحادی آلہ کاروں کی قیادت کر رہا ہے جو کہ نکمّے حکمران ہیں اور شرم و حیا سے عاری ہیں بلکہ اس اتحاد کی تشکیل اور اس کے آلہ کار بننے کے لیے امریکہ سے التجا کر رہے ہیں! رسول اللہﷺ نے سچ فرمایا ہے : ((إِذَا لَمْ تَسْتَحْيِ فَاصْنَعْ مَا شِئْتَ)) "جب تم میں شرم نہ رہے تو جو چاہو کرو" (بخاری نے ابو مسعود سے روایت کیا ہے)۔
اے مسلمانو! اس اتحاد کے لیے امریکہ نے جو بہانہ تراشا ہے وہ عذر لنگ اور ایک جھوٹ ہے.....جو کوئی دہشت گردی کے خلاف لڑے اس کے لیے ضروری ہے کہ خود اس کے ہاتھ صاف ہوں نہ کہ وہ خود دہشت گردی کے درخت کی جڑ ہو، اس کی آبیاری کرنے والا اور اس کی پرورش کرنے والا ہو! افغانستان، عراق میں شرمناک قتل و غارت اور بگرام، ابوغریب اور گونتاناموبے میں رسوائے زمانہ تشدد کی پشت پناہی کرنے والا کون ہے؟ کیا یہی امریکہ نہیں ؟ پھر برما اور وسطی افریقا میں مسلمانوں کا وحشیانہ قتل عام جس سے جنگل کے درندے بھی کانپ اٹھیں، کیا یہ دہشت گردی نہیں جو امریکہ سن اور دیکھ رہا ہے بلکہ اس کی پشت پناہی کر رہا ہے۔ برمی حکومت کی جانب سے مسلمانوں پر حملوں کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ امریکہ اور برما کے درمیان اقتصادی تعاون میں بھی روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے .....اس کو ہم کیسے نظر انداز کریں ؟ شام کے سرکش بشار الاسد کی جانب سے کی جانے والی قتل و غارتگری کی مہم کا پشت پناہ کون ہے ؟! جس کے جرائم نے انسانیت سے بڑھ کر شجر اور حجر کو بھی اپنے لپیٹ میں لے لیا ہے۔ یہ اس لیے کہ امریکہ اس کا متبادل ایک ایسا ایجنٹ تیار کر رہا ہے جس کا منہ اس کے موجودہ ایجنٹ بشار سے کم کالا ہو جبکہ بشارکا کردار اب ختم ہو نے والا ہے .....پھر کوئی عقل والا صاحب بصیرت و بصارت شخص ایسا ہو سکتا ہے جو امریکہ کی طرف سے ایک مسلح تنظیم سے لڑنے کے لیے چالیس ممالک کے اتحاد کی سچائی کو ذرہ برابر تسلیم کر لے بلکہ صرف وہ شخص اس کی تائید کر سکتا ہے جس کی آنکھوں پر پردہ پڑا ہو بلکہ وہ مکمل اندھا ہو ؟ اب معاملات خفیہ اورچھپے ہوئے نہیں ہیں بلکہ سازشیں دن دھاڑے ترتیب دی جارہی ہیں.....!
اے مسلمانو ! یقیناً خطے کے لیے اوباما کا قاتل استعماری منصوبہ امریکی اثر ونفوذ کو ایک ایسے کھلے دروازے سے داخل کر نے کے لیے ہے جس کو غدّار مسلم حکمرانوں کے ہاتھوں کھولا جارہا ہے جو اللہ، اس کے رسولﷺ اور مؤمنوں سے حیا نہیں کرتے۔ پہلے امریکی اثرونفوذ ایسے چور دروازوں سے داخل ہوا کر تاتھا جن دروازوں کی نشان دہی امریکہ کے لیے یہ غدار مسلم حکمران خفیہ طور پر کیا کرتے تھے لیکن اب تو یہ ایسے دروازوں سے داخل ہو رہا ہے جس کو یہ حکمران، کسی شرم و حیا کے بغیر، اس کے لیے اپنے ہاتھوں سے کھول رہے ہیں.....! اوباما کا اتحا د دہشت گردی کے خلاف لڑنے کے لیے نہیں بلکہ دو مقاصد کی خاطر خطے پر کنٹرول حاصل کر نے کے لیے ہے: پہلا مقصد، خطے کے کالے سونے (یعنی تیل) کی یقینی اور مسلسل فراہمی اور اس کو امریکی اسٹوروں میں بھر نے کے سلسلے کو جاری رکھنا ہے جبکہ دوسرا مقصد اسلامی ممالک میں مداخلت کر کے خلافت راشدہ علٰی منہاج النبوۃ کی واپسی کو روکنا ہے۔ امریکہ اور اس کے آلہ کار یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اپنی سازش اور چال سے ایسا کر سکیں گے، (وَمَكْرُ أُولَئِكَ هُوَ يَبُورُ) "اور انہی لوگوں کا مکر ہی تباہی سے دوچار ہو گا" (فاطر:10)۔ یہی وہ دو مقاصد ہیں جن کے لیے امریکہ کوشش کر رہا ہے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ تو وہ پردہ ہے جس کو امریکہ اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لئے استعمال کررہا ہے!
اے مسلمانو! مسلمانوں کے علاقوں میں موجود سیاسی خلاء اس خطے میں موجود ممالک کو غیر محفوظ کررہا ہے اور استعماری کفار کو لشکر کشی اور اتحاد قائم کرنے، بلاخوف و خطر گمراہ کن پروپیگنڈا اور سازشیں کرنے کا موقع فراہم کر رہا ہے۔ سیاسی خلاء ہی اس خطے کے لیے زہر قاتل ہے اوریہ سیاسی خلاء اس وجہ سے نہیں ہے کہ مسلمانوں کے علاقوں میں حکومتیں موجود نہیں بلکہ یہ خطرناک سیاسی خلاء اس وجہ سے پیدا ہورہا ہےکہ امت پر ایسا نظام حکمرانی مسلط کیا گیا ہے جس کا اُس کے عقیدے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اور یہ صورتحال امت کے وجود کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کا سبب ہے جس سے اس امت کے معاملات خراب ہورہے ہیں اور یہ امت افراتفری، کمزوری اور ذلت کی آماجگاہ بن گئی ہے۔ اوریہی سرحدیں اور اِن پر غدّاروں کی حکمرانی وہ وجوہات ہیں جن کی بنا پر استعماریوں کو مسلم ممالک پر یلغار کرنے میں آسانی ہورہی ہے.....تقریباً ایک صدی پہلے خلافت کے خاتمے کے وقت سے اس سیاسی خلاء نے زمین اور اس پر بسنے والوں کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ لہٰذااستعماری کفار اور ان کی تہذیب کے رنگ میں رنگے ہوئے لوگ سازشوں اور اسلحہ کے ذریعے مسلمانوں کی جانب سے اسلام کی حکمرانی کی واپسی کی کسی بھی کوشش کے خلاف شدید مزاحمت کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے کفار، جن کی سربراہی امریکہ کررہا ہے، نے لبرل، سرمایہ دارانہ یا اشتراکی آمرانہ یا جمہوری حکومتوں کو دوام بخشنے اور ان کی حمائت جاری رکھنےکا تہیہ کر رکھا ہے اورکبھی بے رنگ مخلوط حکومتیں قائم کر لیتے ہیں جس میں مخالف نظریات کے لوگ شامل ہوتے ہیں! تو اس طرح امریکہ اور اس کے اتحادی مسلمانوں کے علاقوں میں ظلم و نا انصافی اور نسل کشی کے دور کو جاری و ساری رکھتے ہیں اور امت پر ذلیل ترین اورگرے ہوئے حکمرانوں کو سرکس کے شیروں کے طور پر مسلط کرتے ہیں جو امریکہ اور کافر مغرب کے سامنے "ہاتھ جوڑے" کھڑےرہتے ہیں حتی کہ حالت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ امریکہ انہی کے علاقوں میں خون کی ہولی کھیلنے کے لیے انہی کو لے کر اتحاد قائم کر رہا ہے.....پھر بھی یہ حکمران اس کو بڑی کامیابی قرار دیتے ہیں! (قَاتَلَهُمُ اللَّهُ أَنَّى يُؤْفَكُونَ) "اللہ ان کو ہلاک کرے کہ یہ کہا ں بھٹکے جارہے ہیں" (المنافقون:4)۔
اے مسلمانو! یہ معاملہ مذاق نہیں بلکہ بڑا سنجیدہ ہے، اور یہ کوئی معمولی معاملہ بھی نہیں بلکہ اللہ، اس کے رسولﷺ اور مؤمنوں کے نزدیک یہ بہت بڑا معاملہ ہے اور حزب التحریر وہ جماعت ہے جو اپنے لوگوں سے جھوٹ نہیں بولتی بلکہ ان کی رہنمائی کرتی ہے، تمہیں خبردار کرتی ہے اور تمہارے سامنے یہ وضاحت کر تی ہے :
اس اتحاد کا قیام اور مسلمانوں کے علاقوں میں اس کی بقاء بہت بڑا اور انتہائی شر انگیزمعاملہ ہے۔ یہ بہت بڑا جرم اور اسلام میں حر ام ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا : ((لا تَسْتَضِيئُوا بِنَارِ الْمُشْرِكِينَ)) "مشرکوں کی آگ سے روشنی مت لو" اس حدیث کو البیھقی نے السنن الکبریٰ میں انس بن مالک سے روایت کیا ہے۔ اور کسی قوم کی آگ سے مراد جنگ میں ان کی موجودگی ہے کیونکہ رسول اللہﷺ کا یہ بھی فرمان ہے: ((فَلَنْ أَسْتَعِينَ بِمُشْرِكٍ)) "میں ہر گز کسی مشرک سے مدد نہیں لوں گا" اس حدیث کو مسلم نے عائشہ رضی اللہ عنھا سے روایت کیا ہے۔ ابن داؤد اور ابن ماجہ نے عائشہ رضی اللہ عنھا سے روایت کیا ہے کہ : ((إِنَّا لا نَسْتَعِينُ بِمُشْرِكٍ)) "ہم کسی مشرک سے مدد نہیں لیتے"۔
اگر احمق حکمرانوں نے مسلمانوں پر ظلم و بربریت اور کافروں کے سامنے جھکنے اور ان کی وفاداری کو جاری رکھا جو کہ فتنہ ، مصیبت اور تباہی ہے تو صرف یہ ظالم حکمران ہی نہیں بلکہ ان کے ظلم پر خاموش رہنے والے بھی اللہ کے عذاب سے نہیں بچیں گے، (وَاتَّقُوا فِتْنَةً لَا تُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْكُمْ خَاصَّة) "اس فتنے سے بچو جو تم میں سے صرف ظالموں کو ہی اپنی لپیٹ میں نہیں لے گا" (الانفال:25)۔ اور رسول اللہﷺ نے فرمایا : ((إِنَّ النَّاسَ إِذَا عُمِلَ فِيهِمْ بِالْمَعَاصِي فَلَمْ يُغَيِّرُوا أَوْشَكَ اللَّهُ أَنْ يَعُمَّهُمْ بِعِقَابٍ)) "اگر لوگوں کے درمیان گناہ کا ارتکاب کیا جارہا ہو اور وہ اس کو روک نہ دیں تو قریب ہے کہ اللہ ان سب پر عذاب نازل کر دے" اس حدیث کو عثمان ابو الدانی نے الفتن میں ابو بکر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔
کفار کے اس جال کو کاٹ دینا فرض ہے جس کو اوباما مسلمانوں کے علاقوں میں پھیلانا چاہتا ہے اور اس میں وہ حکمران اس کی مدد کر رہے ہیں جنہوں نے تھوڑی سی دنیا بلکہ کسی اور کی دنیا کی خاطر اپنا دین بیچ دیا ہے! اس جال کے مضبوط ہو نے اور کھیتوں اور پہاڑوں تک اس کے پھیلنے کے انتظار سے پہلے ہی اس کو کاٹ دینا زیادہ آسان ہے...
ہم مسلمانوں کی افواج سے مخاطب ہیں! کیا تم میں کوئی ذہین آدمی نہیں جو اللہ، اس کے رسولﷺ اور مؤمنوں سے حکمرانوں کی اس خیانت کو مسترد کر دے ...؟...؟کیا تم میں کوئی ایسا ہدایت یافتہ آدمی نہیں جو اپنے دین اور اپنی عزت و آبرو پر غیرت مند ہو اور اللہ کے دشمنوں کے سامنے ڈٹ کر ان کے جال اور رسّی کو کاٹ دے ...؟کیا تم میں کوئی ایسا سمجھدار آدمی نہیں جو ان احمقوں کا قصہ تمام کر کے انصار کی سیرت کو دہرا دے، اسلام کی حکمرانی کے قیام کے لیے ہمیں نصرت دے جو نبوت کے طرز پر خلافت راشدہ ہو گی...؟
یقیناً حزب التحریر تمہاری ہمتوں کو جگا رہی ہے اور تمہارے عزائم کو بلند کر رہی ہے کہ تم ایسا قدم اٹھاؤ جو اللہ اور اس کے رسولﷺ کو محبوب ہو تاکہ اس اتحاد کی کمر توڑ کر رکھ دو اس سے پہلے کہ زمین اور انسان دشمنوں کے اس جال میں جکڑ دئیے جائیں تب تم ندامت کا احساس کرو گے لیکن اس وقت ندامت کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا...
((هَذَا بَلَاغٌ لِلنَّاسِ وَلِيُنْذَرُوا بِهِ وَلِيَعْلَمُوا أَنَّمَا هُوَ إِلَهٌ وَاحِدٌ وَلِيَذَّكَّرَ أُولُو الْأَلْبَابِ))
"یہ لوگوں کے لیے اعلان ہے اس سے ان کو ڈرنا چاہیے اور یہ جان لینا چاہیے کہ وہی ایک ہی معبود ہے اور عقل والوں کو نصیحت حاصل کرنی چاہیے " (ابراھیم:52)
اے اللہ ہم نے پہنچا دیا .....اے اللہ تو گواہ رہنا

Read more...

خبر اور تبصرہ فوج اور حکومت کے درمیان خفیہ رسہ کشی

خبر:

پاکستان میں جاری سیاسی بحرا ن اس وقت سے طول پکڑتا جا رہا ہے جب گزشتہ ہفتے کے دن یعنی 23 اگست 2014 کو حکومتی نمائندوں اور تحریک انصاف کے درمیان بات چیت کا تیسرا دور کسی پیش رفت کے بغیر اختتام کو پہنچا۔ تحریک انصاف کے راہنما شاہ محمود قریشی نے یہ مطالبہ کیا ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف کو 30 دن کے لیے استعفی دینا چاہیے تاکہ انتخابات میں دھاندلی کی آزادانہ تحقیقات ہو سکیں۔اسی طرح تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے بھی وزیر اعظم کی برطرفی کا مطالبہ کیا اور اپنے حمایتیوں سے کہا کہ اس مطالبے کے پورا ہو نے تک ملک کے طول و عرض میں دھرنے جاری رہیں گے۔
تبصرہ:
1 ۔بعض تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ وہ اسلامی ممالک جن میں عرب اور غیر عرب دونوں شامل ہیں جو عرب بہارکا شکار ہوئے اب تک اس کے اثرات سے نہیں نکل سکے۔ اسی طرح بعض تجزیہ نگار یہ گمان کرتے ہیں کہ وہ ممالک، جہاں یہ بہار نہیں پہنچی، محفوظ ہیں اور وہاں کے رہنے والے اپنے حکمرانوں کے ساتھ خوش و خرم رہ رہے ہیں جو اگر چہ کسی بھی طرح اپنے ان ہم عصر حکمرانوں سے کم ظالم نہیں جو عرب بہار کا چکار بنے تھے۔ تا ہم یہ دونوں قسم کے تجزیہ نگار غلطی پر ہیں۔ بہت سے ممالک میں اگر چہ ہنگامے نہیں پھوٹے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہاں کے لوگ اپنی حکومتوں اور نظام سے راضی ہیں۔ حالات کسی بھی ایسی جماعت یا عوامی رہنما کے لیے بالکل تیار ہیں جو ان حکمرانوں کو برطرف کرنے میں عوام کی قیادت کرے، خواہ وہ لیڈر امت کی اسلامی شناخت کا مظہر نہ ہو اور نہ ہی ان کی اس خواہش کو پورا کرنے کا ارادہ رکھتا ہو کہ اللہ کی زمین پر اللہ کے احکامات نافذ کیے جائیں جیسا کہ عمران خان اور طاہر القادری۔ یہ اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان کے عوام بھی خود پر مسلط نااہل حکمرانوں کو اکھاڑ پھینکنے کے لئے اسی قدر بے چین ہیں جس قدر کہ عرب بہار کے ممالک میں موجود ان کے مسلمان بھائی۔
2 ۔ پاکستانی عسکری قیادت میں موجود غداروں اور ان کے پشت بان امریکہ نے عوام اور افواج میں موجود ان جذبات سے فائدہ اٹھانا چاہا کہ لوگوں کی توجہ وزیرستان کے مجرمانہ آپریشن سے ہٹا دی جائے جس کا مقصد افغانستان پر امریکی قبضے کو مستحکم کرنا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ عوام خائن سیاسی اور عسکری قیادت کے اختلافات کی بحث میں مشغول ہو جائیں جو اپنے آقا امریکہ کی خدمت پر متفق ہیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ سیاسی اور عسکری قیادت وزیرستان آپریشن کے بارے میں متفق نہیں ہے۔ درحقیقت دونوں کے اپنے سیاسی زرائع ہیں اور وہ دونوں انہیں اپنے مفادات کے حصول کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ لہٰذا عسکری قیادت میں موجود غداروں نے نواز حکومت اور پارلیمنٹ پر دباؤ ڈالنے کے لیے ان جذبات سے فائدہ اٹھایا تاکہ وہ شمالی وزیرستان آپریشن کی حمایت کریں جس کو عوام اور فوج کا ایک بڑا حصہ مسترد کرتے ہیں، خصوصا درمیانی رینک کے افسران اور ان سے نیچے والے افسران اور جوان اور لڑنے والے سپاہی۔ اس کے علاوہ فوجی قیادت میں موجود غدار یہ ظاہر کرنا چاہتے ہیں جیسے ان کے تو ہاتھ بندھے ہوئے ہیں اور صورتحال کی ذمہ داری نواز شریف پر ڈالی جائے تاکہ اس آپریشن کے خلاف فوج میں موجود غصے کا رخ ان کی جانب سے نواز شریف کی جانب مڑ جائے۔ جہاں تک نواز شریف کا تعلق ہے تو وہ اپنے امریکی آقا کا شکر گزار ہے کہ اس نے اسے تاریخ کے کوڑے دان سے نکال کر ایک بار پھر اقتدار دلوادیا ہے اس لیے وہ اپنا کردار ادا کرنے کو تیار ہے۔
3 ۔ عسکری قیادت میں موجود غداروں نے عمران خان اور طاہر القادری اور ان کی جماعتوں کی پشت پناہی کی تاکہ حکومت کے خلاف عوام اور فوج میں موجود لوگوں کے جذبات کو استعمال کیا جائے تا کہ حکومت پر دباؤ ڈالا جائے اور اپنے خلاف موجود غصے کا رخ حکومت کی جانب پھیر دیا جائے۔ فوجی قیادت میں موجود غدار فوج کے سامنےایسا ظاہر کررہے ہیں کہ حکومت نے تحریک طالبان سے مذاکرات پر اصرار کیا جبکہ عسکری قیادت میں موجود غدار فوجی آپریشن شروع کرنا چاہتے تھے۔ اگرچہ نواز شریف نے انتہائی نازک موقع پر اس آپریشن کے حق میں اپنی حمائت فراہم کی لیکن اس کے ساتھ عسکری قیادت میں موجود غداروں نے اس جانب بھی افواج کی توجہ مبذول کروائی کہ حکومت سابق آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کو ڈرا دھمکا رہی ہے اور اس کے خلاف مقدمہ چلا رہی ہےاور خاص طور پر وزیر دفاع خواجہ آصف کے استعفیٰ کا مطالبہ کیا جانے لگا۔ عسکری قیادت میں موجود غداروں نے خاص طور پر حکومت کی بھارت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی پالیسی سے اپنی ناپسندیدگی کا اظہار بھی کیا۔ یہ وہ سارے اسباب ہیں جن کی وجہ سے فوجی قیادت میں موجود غداروں نے عمران خان اور طاہر القادری اور ان کی پارٹیوں کے ذریعے حکومت کو سبق سکھانے کا فیصلہ کر لیاہے۔ اس کے بعد امید ہے کہ حکومت سبق حاصل کر لے گی اور اسی سمت میں چلے گی جس کی جانب فوجی قیادت چلانا چاہتی ہے۔ لیکن امت بدستور اس حقیقی قیادت کے انتظار میں ہے جو ان امریکی ایجنٹوں کی سرکوبی میں اس کی قیادت کرے گی اوران پر ان کے رب کی شریعت کو خلافت راشدہ علی منہاج النبوۃ کے سائے میں نافذ کرے گی اور بے شک اللہ کے اذن سے بہت جلد ایسا ہی ہونے والا ہے۔

یہ تبصرہ ابوعمر نے حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے ریڈیو کے لیے لکھا ہے۔

Read more...

پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریاں جمہوری حکمران اور سیاست دان پاکستان کو سیلاب سے بچانے کے لئے کوئی قدم نہیں اٹھاتے

ایک بار پھر جمہوری حکمران پاکستان اور اس کے عوام کو سیلاب کی تباہ کاریوں سے ممکنہ بچاؤ کی تدابیر اختیار کرنے میں ناکام ہوگئے ہیں۔ حکمران خود پر ہونے والی تنقید سے بچنے کے لئے اس کی ذمہ داری محکمہ موسمیات پر ڈال رہے ہیں کہ انہوں نے پیشگی اطلاع نہیں دی تھی۔ حزب التحریر ان نام نہاد عوامی نمائندگی کا دعویٰ کرنے والے حکمرانوں سے سوال کرتی ہے کہ کیا وہ اس بات سے بے خبر تھے کہ 2010 سے اب تک پاکستان میں تین سیلاب آچکے ہیں جن میں سے 2010 کا سیلاب پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا سیلاب تھا؟ کیا یہ جمہوری و عوامی حکمران اس بات سے بھی بے خبر تھے پاکستان پچھلے تین سالوں میں عالمی موسمی تغیراتی انڈیکس میں پہلے نمبر پر آرہا ہے؟ یہ حکمران جو خود کو عوامی نمائندے کہتے نہیں تھکتے اگر واقعی عوام کی مشکلات اور تکالیف دور کرنے کو اپنی ذمہ داری سمجھتے تو کس طرح ان باتوں سے بے خبر ہوسکتے تھے؟
جمہوریت کے گُن گانے والے حکمرانوں نے 2010 میں پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے سیلاب سے نقصانات کے ذمہ داروں کا تعین کرنے اور آنے والے دنوں میں ان نقصانات سے بچنے کے لئے سپریم کورٹ کی ہدایت پر بننے والے کمیشن کی رپورٹ پر عمل کرنا تو دور کی بات بلکہ اس رپورٹ کو دفن کردیا۔ ان تجاویز پر پہلے پی۔پی۔پی نے اور پھر پی۔ ایم۔ایل(ن) کی جمہوری حکومتوں نے کوئی توجہ نہیں دی۔ جمہوری سیاست دان عوام کے خوان پسینے کی کمائی سے حاصل ہونے والی ٹیکس کی رقم کو بڑے بڑے شہروں میں پانی کے نکاس کے منصوبے شروع کرنے کے لئے استعمال تو نہیں کرتے لیکن اربوں روپوں کی لاگت سے تیار ہونے والی میٹرو بس سروس شروع کرتے ہیں کیونکہ زمین کے نیچے بچھنے والے نکاسی کے پائپ کسی کو نظر نہیں آتے اور بارشیں کون سی روز روز ہوتی ہیں لیکن سڑک پر دوڑتی میٹرو بسیں روزانہ ہر کوئی دیکھ سکتا ہے اور پھر اگلی انتخابی مہم میں اپنی کارکردگی جتانے کے لئے ایسے منصوبوں کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے۔
درحقیقت جمہوریت ایسے سیاست دان پیدا کر ہی نہیں سکتی جو عوام کے دکھ درد اور تکالیف کو دور کرنا اپنا اولین فرض سمجھتے ہوں۔ دنیا میں جمہوریت اور انسانی حقوق کے خود ساختہ علمبردار امریکہ میں بھی عوام کو قدرتی آفات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔2005 میں امریکہ میں کاترینہ طوفان کے بعد لوگوں کی دیکھ بحال میں ہونے والی ناکامی کی وجوہات کا تعین کرنے کے لئے کانگریس کی تفتیشی رپورٹ میں کہا گیا کہ "F.E.M.A (فیڈرل ایمرجنسی مینجمنٹ ایجنسی) اور ریڈ کراس کے پاس وہ صلاحیت موجود نہیں تھی کہ وہ متاثرین کی بڑی تعداد کو مدد فراہم کرسکتے"۔ اس رپورٹ میں طوفان سے ہونے والی تباہ کاریوں کی ذمہ داری وفاقی، ریاستی اور شہری،تینوں حکومتوں پر ڈالی گئی۔
اسلام نے سیاست کو لوگوں کے امور کی دیکھ بھال کرنا اور فرض قرار دیا ہے اور اس فرض میں کوتاہی یا ناکامی پر حکمرانوں کو قیامت کے دن اللہ کے غضب کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہی وجہ ہے کہ خلیفہ راشد حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے یہ فرمایا تھا کہ "اگر عراق کی زمین پر کوئی جانور بھی گر پڑا تو مجھے ڈر ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالٰی سڑک کو ٹھیک نہ رکھنے پر میرا محاسبہ کریں گے"۔ پاکستان کے عوام کو یہ جان لینا چاہیے کہ چاہے جمہوریت ہو یا آمریت دونوں میں حکمران خود کو عوام اور اپنے رب اللہ سبحانہ و تعالٰی کے سامنے جوابدہ نہیں سمجھتے۔ یہ صرف خلافت کا نظام ہے جس میں خلیفہ، عوام اور اللہ سبحانہ و تعالٰی، دونوں کے سامنے جوابدہ ہوتا ہے اور اللہ کے سامنے جوابدہی سب سے سخت ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایاکہ مَا مِنْ وَالٍ يَلِي رَعِيَّةً مِنْ الْمُسْلِمِينَ فَيَمُوتُ وَهُوَ غَاشٌّ لَهُمْ إِلَّا حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ "اس شخص کا کوئی والی نہیں جو مسلمانوں کے امور کی ذمہ داری لیتا ہے اور انہیں دھوکہ دیتے دیتے مر جاتا ہے سوائے اس کے کہ اللہ اس پر جنت کو حرام کردیتے ہیں" (بخاری)۔ تو پاکستان کے عوام کو جمہوریت اور آمریت دونوں کو رد کرتے ہوئے خلافت کے قیام کی جدوجہد میں حزب التحریر کا ہمسفر بن جانا چاہیے کہ صرف خلافت کا قیام ہی ہمیں دنیا میں ہماری مشکلات کو دور کرنے میں ہماری معاون ہوگی اور آخرت میں اللہ سبحانہ و تعالٰی کی خوشنودی کا باعث بنے گی۔
شہزاد شیخ
ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان

Read more...

حزب التحریر نے پاکستان بھر میں بیانات کی مہم چلائی حقیقی تبدیلی خلافت ہے جو افواج پاکستان سے نصرۃ طلب کرنے کی ذریعے سےہی آئے گی

حزب التحریر ولایہ پاکستان نے پاکستان بھر میں عوامی بیانات کی مہم چلائی۔ اس مہم کا مقصد جمہوریت اور آمریت کے تماشے کو بے نقاب کرنا تھا جس نے پاکستان کو تباہ وبرباد کردیا ہے۔ مساجد اور عوامی مقامات پر خطاب کرتے ہوئے حزب التحریر کے شباب نے عوام سے کہا کہ موجودہ سیاسی جماعتیں چاہے وہ حکمرانی میں ہوں یا حزب اختلاف میں ، موجودہ اس کفریہ نظام کی حمائت کر کے خود کو بے نقاب کرچکی ہیں جس کو برطانوی راج اپنے پیچھے چھوڑ گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ یہ جماعتیں امت کی اسلام کی بنیاد پرتبدیلی کی مقدس اور پاک خواہش کو استعمال کرتے ہوئے جمہوریت کی ترویج کررہے ہیں جو صرف ان جماعتوں اور ان کے واشنگٹن میں بیٹھے ہوئے آقاوں کو فائدہ پہنچاتی ہے۔
مقررین نے امت سے کہا کہ وہ سیاسی جماعتوں سے جمہوریت کو دھتکارنے اور خلافت کے قیام کی جدوجہد کرنے کا مطالبہ کریں۔ انہوں نے کہا کہ حقیقی تبدیلی صرف خلافت کا قیام ہے کیونکہ خلافت اللہ سبحانہ و تعالٰی اور رسول اللہ ﷺ کے احکامات کو نافذ کرتی ہے جبکہ جمہوریت امریکی ایجنٹوں کی خواہشات کو قوانین بنانے کا اختیار دیتی ہے۔
مقررین نے امت سے کہا کہ وہ حزب التحریر میں شمولیت اختیار کریں اور اس کے ساتھ مل کر خلافت کے قیام کی فرضیت کو پورا کریں جو اللہ سبحانہ و تعالٰی نے ان پر عائد کی ہے۔ انہوں نے امت سے کہا کہ وہ افواج پاکستان میں موجود اپنے والد، چچاؤں، بیٹوں اور دوستوں سے مطالبہ کریں کہ وہ اسلام کی حکمرانی کے قیام کے لئے نصرۃ فراہم کریں بالکل ویسے ہی جب انصارِ مدینہ نے رسول اللہﷺ کی دعوت پر مدینہ میں پہلی اسلامی ریاست کے قیام کے لئے انہیں نصرۃ فراہم کی تھی۔ اللہ تعالیٰ ان تمام لوگوں کو اجر عظیم عطا فرمائے جو ظالم حکمرانوں کے سامنے بہادری کے ساتھ کلمہ حق بلند کرتے ہیں اور کسی ملامت گر کی ملامت کی پروا نہیں کرتے اور اللہ کی رضا کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
﴿مَا يَلْفِظُ مِن قَوْلٍ إِلا لَدَيْهِ رَقِيبٌ عَتِيدٌ﴾
"کوئی بات اس کی زبان پر نہیں آتی مگر ایک نگہبان اس کے پاس تیار رہتا ہے" (ق:18)

Read more...

افواجِ پاکستان کوجمہوریت کی حمایت کرنے کی بجائے خلافت کے قیام کے لئے نُصرہ فراہم کرنی چاہیے


پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیان ہونے والی طویل اور پرتشدد محاذ آرائی کے دوران امریکہ نے بار بار اس بات پر زور دیا کہ وہ جمہوریت کی حمایت کرتا ہے۔ جب یہ بحران پروان چڑھ رہا تھا تو اس دوران پاکستان میں موجود امریکی سفیر مد مقابل جماعتوں سے ملاقاتوں میں مصروف تھا اور اس نے سب پر واضح کیا کہ وہ صرف ایسی تبدیلی کی حمایت کرے گا جو جمہوریت کے آئین کے مطابق ہو گی۔ پھر جب بحران سنگین ہوتا چلا گیا تو امریکی دفتر خارجہ کے نائب ترجمان نے 22 اگست 2014 کو بیان دیا کہ "امریکی سفیر کی پاکستان میں کئی عہدیداروں سے اکثر ملاقاتیں رہتی ہیں" اوراس بیان کے دوران امریکی نائب ترجمان نے ایک مرتبہ پھر جمہوریت کے آئین پر عمل کرنے پر زور دیا۔ اس کے بعد 29 اگست 2014 کو جب پرتشدد ٹکراؤکا خطرہ منڈلا رہا تھا، امریکی دفتر خارجہ نے پھر اس بات پر زور دیا کہ "پر امن مظاہرے اور آزادیٕٔ اظہار...جمہوریت کے اہم پہلو ہیں "۔
جہاں تک ان لوگوں کا تعلق ہے کہ جن کے ذریعے امریکہ پاکستان اور اس کی افواج کو کنٹرول کرتا ہے تو انہوں نے بھی اپنے آقا کی بات کوہی دہرایا کہ وہ جمہوریت کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔ راحیل-نواز حکومت نے یکم ستمبر 2014 کوآئی.ایس.پی.آر (ISPR) کے ذریعے یہ بیان دیا کہ "فوج ایک غیر سیاسی ادارہ ہے جو کئی موقعوں پر جمہوریت کی حمایت کا واضح اظہار کرچکا ہے"۔ جہاں تک پاکستان تحریک انصاف کا تعلق ہے تو اس نے اعلان کیا کہ اس کی جدوجہد جمہوریت ہی کے لیے ہے اور یوں اس نے خود کو پاکستان کے عوام کے سامنے بے نقاب کردیا ہے کہ موجودہ حکومت کی طرح وہ بھی پاکستان پر حکمرانی کرنے کی اہل نہیں ہے۔یکم ستمبر 2014 کو عمران خان نے بڑے فخر سے کہا کہ "میری اٹھارہ سال کی جدوجہد انصاف اور 'جمہوریت' کے لیے ہے"۔
پس امریکہ نے براہِ راست بھی اور اپنے ایجنٹوں کے ذریعے بھی اس بات کو واضح کر دیا ہے کہ جمہوریت ہی کی حمایت کی جائے گی کیونکہ آمریت کی طرح جمہوریت بھی پاکستان میں امریکہ کے مفادات کو یقینی بناتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 12 دسمبر 2012 کو بی.بی.سی کو انٹرویو دیتے ہوئے پاکستان میں امریکی سفیر رچرڈ اولسن نے پورے اعتماد سے اعلان کیا تھا کہ پاکستان میں "ہمارا گھوڑا جمہوریت ہے"۔ جی ہاں ! یقینا، یہ جمہوریت ہی ہے جسے امریکہ اپنے مفاد کے مطابق چلاتا ہے چاہے کوئی بھی اس گھوڑے کا سوار بن جائے ، خواہ وہ پی پی پی ہو، پاکستان مسلم لیگ (ن) ہو یا پاکستان تحریک انصاف۔
جمہوریت کی باگ ڈور حقیقتاً امریکہ ہی کے ہاتھوں میں ہے کیونکہ جمہوریت اللہ سبحانہ و تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ سے بغاوت کا نظام ہے۔جمہوری نظام اسمبلیوں میں موجود مرد و خواتین کو قانون ساز قرار دیتا ہے اور انہیں اس بات کا اختیار دیتا ہے کہ وہ ان احکامات کو پسِ پشت ڈال دیں جنہیں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے نازل کیا ہے اور اپنی مرضی اور خواہش کے مطابق قوانین بنائیں جبکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرما چکا ہے: (وَأَنِ احْكُمْ بَيْنَهُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ وَاحْذَرْهُمْ أَنْ يَفْتِنُوكَ عَنْ بَعْضِ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ إِلَيْكَ) "(اے محمدﷺ) ان کے درمیان اللہ کی اتاری ہوئی وحی کے مطابق حکمرانی کریں اور ان کی خواہشات کی پیروی ہرگز نہ کیجئے گا اور خبردار رہیں کہ کہیں یہ اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ بعض احکامات کے بارے میں آپ کو فتنے میں نہ ڈال دیں" (المائدہ:49)۔ امریکہ پاکستان کے حکمرانوں اور اسمبلیوں کے اراکین سے مسلسل رابطے رکھتا ہےاور ان کے ذریعے پاکستان کے قوانین کو اپنے مفادات کے مطابق بنواتا ہے۔ لہٰذا یہ جمہوریت ہی ہے جس نے پاکستان میں اسلام کے نفاذ کو روک رکھا ہے اور اس کی بجائے امریکی مفادات کے حصول کو یقینی بنارہی ہے۔
پس جمہوریت کے ذریعے امریکہ اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ نجکاری کے ذریعےپاکستان کے توانائی کے وسیع ذخائراور معدنیات کی دولت کی لوٹ کھسوٹ جاری ر ہے اور پاکستان ایک طاقتور معاشی طاقت کے طور پر نہ ابھرسکے۔ جمہوریت اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ پاکستان کی طاقتور افواج کو مغربی مفادات کی تکمیل کے لئے تودنیا کے کونے کونے میں بھیجا جائے لیکن جب کشمیر و فلسطین کے مسلمان اپنی افواج کو پکاریں تو انہیں بیرکوں میں ہی پڑا رہنے دیا جائے۔ آج جمہوریت ہی پاکستان میں امریکہ کے قائم کردہ وسیع جاسوسی اور نجی فوجی نیٹ ورک کو کام کرنے کی اجازت دیے ہوئے ہے جو ہماری افواج پر حملے کرواتی ہیں تا کہ ان حملوں کو جواز بنا کرپاکستانی افواج کو امریکہ کی جنگ لڑنے کے لئے قبائلی علاقوں میں بھیجا جاسکے۔ اس کے علاوہ اس لاحاصل اور تباہ کن جدوجہد کا بندوبست کرکے کہ کون اس امریکی گھوڑے یعنی جمہوریت پر سواری کرے گا، امریکہ مسلمانوں کے رخ کو پاکستان میں خلافت کے قیام کے ذریعے امریکی راج کے خاتمے سے پھیرنا چاہتا ہےکیونکہ صرف خلافت ہی پاکستان کے وجود کو امریکی موجودگی اور اس کے اثرو نفوذ کی غلاظت سے پاک کرسکتی ہے۔
اے پاکستان کے مسلمانو! جمہوریت سے منہ موڑ لو، اس سے کوئی امید نہ لگاؤکیونکہ یہ کفر کا نظام ہے، جسے تمہارے سروں پر اس لیے نافذ کیا گیا ہے تاکہ تمہاری اعلیٰ تمناؤں اور عظیم صلاحیت کو کچلا جا سکے۔ آپ پر لازم ہے کہ آپ تمام سیاسی جماعتوں سے مطالبہ کریں کہ وہ جمہوریت کے خاتمے اور خلافت کے قیام کے لئے کام کریں۔ اور آپ پر یہ بھی لازم ہے کہ حزب التحریر میں شمولیت اختیار کریں جس کا نظریہ حیات اسلام ہے اور جو رسول اللہﷺ کے طریقے کے مطابق خلافت کے قیام کی جدوجہد کررہی ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: (وَلْتَكُنْ منكُمْ أمّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ ويَأمُرُونَ بِالمَعْرُوفِ ويَنْهَوْنَ عَنِ المُنْكَرِ وَأُولئكَ هُمُ المُفْلِحُون) "اور تم میں کم ازکم ایک جماعت ضرور ایسی ہونی چاہیے جو خیر کی طرف دعوت دے اور نیکی کا حکم دے اور برائی سے منع کرے اور یہی لوگ کامیاب ہیں" (آل عمران:104)۔
اے افواج پاکستان! یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ پاکستان میں حقیقی تبدیلی آپ پر ہی منحصر ہے اور باقی مسلم دنیا کی بھی یہی حقیقت ہے۔ مصر کی افواج کی رضامندی اس بات کا سبب بنی کہ مرسی کو جمہوری گھوڑےکے سوار کے طور پر لایا گیا اور پھر مصری افواج کے حرکت میں آنے کے نتیجے میں ہی مرسی کےا قتدار کا خاتمہ ہوا اور پھر جمہوریت کے گھوڑے پر سواری کے لیے ایک نیا سوارجنرل سیسی آگیا۔ ترکی میں بھی جمہوریت فوج کے کندھوں پر کھڑی ہے۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو آج ہمارے لوگ اس لیے مصائب کا شکار ہیں کیونکہ آپ کی قیادت میں موجود غدار آپ کی طاقت کو جمہوریت کے امریکی گھوڑے کو برقرار رکھنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ تو آپ کس طرح اس بات کی اجازت دے سکتے ہیں کہ آپ کی طاقت کو جمہوریت کے کفریہ اور اللہ سے بغاوت پر مبنی نظام کی خاطر استعمال کیا جائے؟!
اے افواج پاکستان ! جان لیں کہ یہ آپ کی قیادت میں موجود غدار ہی ہیں جو جمہوریت کے تسلسل کو یقینی بنائے ہوئے ہیں اور اسلام کی واپسی کو روکے ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ غدار ہر اس آفیسر کو ترقیاں دیتے ہیں اور انعامات سے نوازتے ہیں جو ہمارے دشمن امریکہ کے سامنے جھکنے کے لیے تیار ہو اور دنیا کے مال و دولت کے بدلے اپنے لوگوں اور اپنے دین کو بیچ دے۔ اور یہی وجہ ہے کہ آپ کی قیادت میں موجود غدار ہر اس آفیسر کو سزا دیتے ہیں جواسلام کا مضبوط حامی ہو جیسا کہ بریگیڈئر علی خان جیسی معزز شخصیت ، جنہیں پندرہ مہینے تک محبوس رکھنے کے بعد قید کی سزا سنائی گئی اور وہ اب تک جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں جبکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ خلافت کے قیام کے جشنِ استقبال میں انہیں کندھوں پر اٹھایا جاتا ۔ تو آپ کیسے اپنی طاقت و قوت کے موجودہ غلط استعمال کو قبول کرسکتے ہیں جبکہ آپ نے اللہ کے سامنے یہ قسم اٹھا رکھی ہے کہ آپ اس ملک اور اس کے لوگوں کی حفاظت کریں گے؟!
جان لیں کہ رسول اللہﷺ نے ایک خاص طریقہ کار پر چلتے ہوئے اسلامی ریاست قائم کی اور تمام تر مشکلات و مصائب کے باوجود آپﷺ اس طریقہ کار سے پیچھے نہیں ہٹے اور وہ طریقہ کار یہ تھا کہ طاقت و قوت کے حامل لوگوں سے اسلامی ریاست کے قیام کے لئے نُصرہ طلب کی جائے۔ پس رسول اللہﷺ ذاتی طور پر عرب قبیلوں کے جنگجو سرداروں سے ملے اور ان سے دین کے مکمل اور فوری نفاذ کے لئے نصرۃ طلب کی۔ اے افواجِ پاکستان یہ آپ کےآباؤ اجداد تھے اور آج آپ ان کے جانشین ہیں۔ رسول اللہ ﷺ صبر و استقامت کے ساتھ اسی طریقہ ٔکار پر کاربند رہے اور اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈرے اور نہ ہی کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی کوئی پروا کی یہاں تک کہ اللہ نے انصارِ مدینہ کے مختصر لیکن مخلص اور بہادر جنگی گروہ کے ذریعے آپﷺ کی مدد کا اہتمام فرما دیا جنہوں نے عقبہ کے مقام پر آپﷺ کو بیعت دی، جو کہ اس دین کے نفاذ و تحفظ کی خاطر لڑنے کی بیعت تھی ۔
رسول اللہﷺ کا اختیار کردہ طریقہ کار اس بات کو فرض بناتا ہے کہ اسلام کو حکمرانی اور ریاست کے طور پرقائم کرنے کے لئےنصرۃ دی جائے۔ لہٰذا آج حزب التحریر آپ کے سامنے موجود ہے اور آپ سے خلافت کے قیام کے لئے نصرۃ کا مطالبہ کررہی ہے۔ یہی وہ راستہ ہے کہ جس سے آپ اس دنیا اور آخرت دونوں جہانوں میں عزت حاصل کریں گے،جب آپ ظلم کی حکمرانی کا خاتمہ کریں گے اور نبوت کے نقشِ قدم پر خلافت کو قائم کردیں گے۔ امام احمدبن حنبل روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ((ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا جَبْرِيَّةً فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةً عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ ثُمَّ سَكَتَ)) "پھر ظلم کی حکمرانی ہو گی اور اس وقت تک رہے گی جب تک اللہ چاہے گا۔ پھر اللہ اس کا خاتمہ کردے گا جب وہ چاہے گا۔ اور پھر خلافت قائم ہوگی نبوت کے نقشِ قدم پر۔ اس کے بعد آپﷺ خاموش ہوگئے"۔

Read more...
Subscribe to this RSS feed

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک