حکومت کی جانب سے فاش غفلت کا سبب جمہوری سیاست ہے جبکہ پاکستان میں 115 افراد طوفانی بارش میں لقمۂ اجل بن گئے
- Published in آرٹیکل
- سب سے پہلے تبصرہ کرنے والے بنیں
- |
تحریر: انجینئر سہام، پاکستان
حال ہی میں پاکستان کے صوبوں پنجاب اور خیبر پختونخواہ کے کچھ حصّوں میں شدید بارش کے بعد پانی کے چڑھاؤ کی وجہ سے ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد 115 تک پہنچ گئی، جبکہ کئی اور لوگ زخمی ہوئے ہیں۔ زیادہ تر اموات چھتیں گرنے، ریزشِ زمین اور بجلی کے جھٹکے لگنے سے واقع ہوئیں ہیں۔ بعض شہروں میں ہونے والی بارش کی مقدار 130 ملی میٹر سے زائد ہے۔ پاکستان کے محکمۂِ موسمیات نے شمال مشرقی پنجاب اور کشمیر میں موسم شدید ہونے کی تنبیہ جاری کی ہے اور ان کا بیان ہے کہ مزید شدیدبارش متوقع ہے جس کی وجہ سے مزید سیلاب آ سکتے ہیں۔
پاکستان میں طغیانی بارش اور سیلاب ہر سال پابندی سے واقع ہوتے ہیں، مگر جمہوری حکومتیں اس بات سے قاصر ہیں کہ وہ انسانی جانوں کی حفاظت کیلئے موزوں اقدامات کرسکیں۔ پاکستان کے لوگ پچھلے کم از کم چار سالوں سے جان لیوا مون سون سیلابوں کا شکار ہیں۔ 2013ء میں ملک بھر میں سیلاب آنے کی وجہ سے 178 افراد ہلاک ہوئے اور کچھ 15 لاکھ شدید متاثر ہوئے۔2012ء میں 520 لوگ موت کے منہ میں چلے گئے جبکہ زخمیوں کی تعداد 1180 سے زائد تھی۔ 2010ء کا سیلاب پاکستان کی تاریخ کا بدترین سیلاب تھا جس نے ایک بڑے انسانی بحران کی صورت اختیار کر لی تھی، اور اس میں 1800 ہلاکتیں ہوئیں اور 12 ملین لوگ متاثرین میں سے تھے۔ پچھلے تین سالوں سے پاکستان عالمی موسمی خطرات کی فہرست، جسےانصاف کے عالمی مسائل پر نظر رکھنے والی این-جی-او جرمن واچ نے ترتیب دیا ہے، میں سب سے پہلے نمبر پر ہے۔ 2010ء میں پاکستان ملک گیر سیلابوں کی وجہ سے موسمی آفات سے سب سے زیادہ متاثر ملک کے طور پر درج تھا، اور 2011ء میں وہ اس ضمن میں تیسرے نمبر پر تھا۔
پچھلے چار سالوں میں مسلسل سیلاب کی تباہ کاریوں کے باوجود کوئی مناسب عملی اقدامات نظر سے نہیں گزرتے۔ این-سی-سی-پی (قومی موسمی تبدیلی حکمتِ عملی) جسے پچھلے سیلابوں کے بعد عوام کے غم وغصے کے ردعمل کے طور پر جاری کیا گیا تھا، اب پس منظر میں چلی گئی ہے۔ مئی 2013ء کے عام انتخابات میں اقتدار میں آنے کے بعد جلد ہی ن-لیگ نے وزارتِ موسمیاتی تبدیلی کو گھٹا کر محض ایک ڈویژن بنا چھوڑا اور اس کا بجٹ بھی بہت کم کر دیا گیا کیونکہ یہ مسئلہ اس وقت عوام کی نظر میں عملی اہمیت کا حامل نہیں تھا۔
اس موجودہ سانحے میں وزیرِ اعظم کو طوفانی بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے تباہی سے آگاہ ہونے میں ہی کئی دن لگ گئے۔ اتنی تاخیر کے بعد بھی محض ایک عمومی ہدایت جاری کرنے پر اکتفاء کیا گیا ہے، کہ تمام اہم شاہراہیں جو بارش کی وجہ سے منقطع ہوگئیں ہیں ان کی جلد از جلد مرمت کی جائے تاکہ امدادی کام تیز رفتاری سے عمل میں لایا جائے۔ مزید یہ کہ این-ڈی-ایم-اے کو ہدایت جاری کی گئی ہے کہ سیلاب کے نتیجے میں ہونے والے نقصان کا اندازہ لگایا جائے۔ تھوڑی بہت عقل سمجھ رکھنے والا بھی اندازہ لگا سکتا ہے کہ ان ساری ہدایات سے انسانی جانیں بچانے میں کیا مدد ملے گی؟ مگر وزیرِاعظم صاحب کو سب سے زیادہ فکر شاہراہوں کے صاف ہونے کی ہے تاکہ افغانستان پر قابض نیٹو افواج کو پہنچنے والے ہتھیاروں، سور کے گوشت اور شراب کی رسد میں کوئی تعطل نہ پیدا ہونے پائے، جیسا کہ 2010ء میں بھی اس معاملے کو انسانی جانیں پچانے سے زیادہ اہمیت حاصل تھی ۔
پاکستان کی عوام ہلاکت اور بربادی کا سامنا کر رہی ہے، جبکہ حکومت اور حزبِ اختلاف دونوں کو اپنے سیاسی تماشے سے فرصت نہیں ہے، جس میں وہ اپنے دھرنوں اور سڑکوں پر جشن منانے ، اسمبلی میں بیٹھ کر کھوکھلی تقاریر پر تالیاں بجانے اور الزامات کے اسی تبادلے میں مصروف ہیں جو کہ ماضی قدیم سے ہوتا چلا آرہا ہے۔ لہٰذیکم ستمبر 2012ء میں جب انگریزی روزنامہ ٹریبیون (Tribune) کی ایک خبر کے مطابق بارش اور سیلاب کی وجہ سے کم از کم 78 ہلاکتیں ہوئیں توعمران خان کی پارٹی پی-ٹی-آئی نے پنجاب کی ن-لیگی حکومت پر اعتراض کیا کہ انہوں نے سیلاب آنے کا انتباہ جاری نہیں کیا اور موسمیاتی مسائل کے لئے صرف6 ارب روپے مختص کیے۔ اسی طرح جب اگست 2014ء کے وسط میں شدید بارشوں نے کم از کم 16 لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا اور 80 سے زائد زخمی ہوئے تو وزیرِاعلیٰ خیبر پختونخواہ پرویز خٹک "آزادی مارچ" میں کنٹینر پر ناچنے میں مگن تھا، جس بات پر ن-لیگ سمیت کئی سیاسی حلقوں نے اس کی مذمت کی۔ جمہوریت میں سیاست دانوں کا کردار روم کے شہنشاہ نیرو کی طرح کا ہے کہ جس اثناء میں شہر جل رہا ہے، وہ بانسریاں بجانے میں مشغول ہیں۔
جمہوری حکومت، چاہے وفاقی ہو یا صوبائی، لوگوں کے امور کی دیکھ بھال میں بری طرح ناکام ہوچکی ہے ۔ جمہوریت کے علمبردار سیاست دان، حکومت ہو یا حزبِ اختلاف، ڈھٹائی سے لوگوں کے مسائل کو نظر انداز کرتے ہیں۔ یکے بعد دیگرے جمہوری حکومتوں کی انسانی زندگی کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکامی کی بنیادی وجہ دراصل جمہوریت کی اپنی اصلیت ہے۔ جمہوری طریقِ کار لوگوں کے امور کی دیکھ بھال کرنا نہیں ہے بلکہ ایک مخصوص سیاسی طبقۂِ اشرافیہ کے منافع کی دیکھ بھال کرنا ہے۔ جہاں بھی جمہوریت کا وجود ہے، وہاں ایک اونچے طبقے کی طرف سے کیے جانے والا عوام کا استحصال اور لوگوں کے مسائل سے چشم پوشی لا محالہ پائی جاتی ہے ۔ مغربی جمہوری نظاموں میں بھی امیر ترین لوگ وہی ہیں جن کہ ہاتھ میں براہِ راست یا بالواسطہ سیاسی طاقت کی کنجیاں ہیں۔ ان کے ہاتھوں میں دولت کے ارتکاز کو جمہوریت کے تحت انسان کے بنائے ہوئے قوانین کے ذریعے جائز اور قانونی عمل قرار دے دیا گیا ہے۔ لوگوں کے حقیقی مسائل پر ان کا انتہائی سست اور ناکافی ردعمل جس کی وجہ سے عوام کا غم وغصہ بھڑک اٹھا ہے کاترینا طوفان جیسے کئی قدرتی سانحوں میں دیکھا جا سکتا ہے۔ کاترینا طوفان اور اس کے بعد آنے والے سیلابوں میں کم از کم 1833 افراد مارے گئے، جس کا مطلب ہے کہ یہ 1982ء کے بعد امریکہ میں آنے والا سب سے مہلک طوفان تھا۔ ایک اندازے کے مطابق اس طوفان میں 108 ارب 2005ء کے امریکی ڈالر کی مالیت کی جائد2اد کا نقصان ہوا۔ کانگریس نے جب وفاقی، صوبائی اور مقامی حکومتوں کے ردِعمل کے متعلق تفتیش کی تو معلوم ہوا کہ ریڈ کراس اور FEMA کے پاس "رسد کی وہ موذوں استعداد نہ تھی جس سے وہ خلیج کے ساحل کے متاثرین کی اتنی بڑی تعداد کی مدد کر سکیں"۔ اس تفتیش کا نتیجہ یہ تھا کہ اس سانحہ میں ہونے والے جان و مال کے نقصان کی ذمہ داری حکومت کی تینوں سطحوں پر عائد ہوتی ہے۔ طوفان کے متاثرین کی امداد کیلئے پیسے جمع کرنے کیلئے امریکہ میں کانسرٹ منعقد کیا گیا، جس میں کانسرٹ کی تمام تررقم طوفان کے متاثرین کیلئے تھی۔ اس موقع پر موسیقار کانیے ویسٹ نے مرتب کئے ہوئے گانے کے الفاظ سے بالکل ہٹ کر حکومتی ردعمل پر سخت تنقید کی اور کہا کہ: "جارج بش کو 'کالے آدمیوں' کی پرواہ ہی نہیں ہے"۔ یہ ہے جمہوریت میں سیاست کی حقیقت کہ سیاست دانوں کو صرف اس بات سے مطلب ہوتا ہے کہ کسی طرح وہ ایک اور ٹرم کو یقینی بنا سکیں تا کہ زیادہ سے زیادہ ذاتی مفاد حاصل کیا جا سکے جبکہ ان کی توجہ لوگوں کے امور کی دیکھ بھال کی طرف ہونی چاہئے تھی۔
لوگوں کے معاملات سے غفلت برتنا جمہوریت کا ایسا جزولاینفک ہے کہ نتیجتاً جمہوریت کی طرف وہی لوگ مائل ہوتے ہیں جو فطری طور پر بے درد، مکار اور لالچی ہوتے ہیں۔ ماکیاویلی نے اپنی مشہور کتابThe Prince میں سیاست سے متعلق جو تفصیل بیان کی ہے وہ کچھ یوں ہے: "رہنماؤں کو ہمیشہ اپنے اصل مقاصد پوشیدہ رکھنے چاہییں، انہیں اپنی باتوں میں تضاد سے پچنا چاہیے اور بیشتر اوقات رحمدلی، ایمان، انسانیت، شفافیت اور مذہب سے عاری ہوکر اپنا کام کرنا چاہیے کیونکہ یہی ریاست کی بقا کی ضمانت ہے"۔ جیمز جانسن جو کہ CAS میں تاریخ کا ایک ایسوسی ایٹ پروفیسر ہے، جس نے 1996ء میں بہترین معلم کا تمغہ Metcalf حاصل کیا تھا، اس سے کسی موقع پر پوچھا گیا : "آپ کے خیال میں ماکیاویلی کا موجودہ امریکی سیاست کے بارے میں کیسا تاثر ہوتا؟"۔ اس نے جواب دیا: "وہ اپنے مشہور ناقابلِ فہم انداز میں مسکراتا، جیسے کہ کہہ رہا ہو کہ یہ تو کچھ جانا پہچانا لگتا ہے"۔ فلپ بابٹ جو دیگر کئی قابل ذکر کتابوں کے ساتھ ساتھ The Shield of Achilles, War, Peace and the Course of History کا مصنف ہے، اس نے لکھا ہے کہ: "ماکیاویلی امریکی دستور کا روحانی باپ ہے"۔
اگر واشنگٹن کے آقاؤں کا یہ حال ہےتو ہم ان کے ایجنٹوں اور پتلوں سے اس سے بہتر کیا توقع رکھ سکتے ہیں؟ موجودہ وزیرِاعظم کے چھوٹے بھائی شہباز شریف کی قیادت میں حکومتِ پنجاب نے 2012ء میں صرف 11 ماہ میں میٹروبس پراجکٹ؟ مکمل کرلیا۔ اس پراجکٹے سے اس کا ذاتی تعمیراتی مفاد پورا ہوا اور اس کو اس نے الیکشن کی مہم میں سیاسی کارڈ کے طور پر بھی استعمال کیا۔ تاہم اس سارے وقت میں ہنگامی صورتحال کیلئے سیلاب سے محفوظ ٹھکانے تعمیر کروانے کیلئے کوئی اقدامات نہیں کیے جاسکے۔ نکاسی کے نظام کے متعلق ایک WASA کے اہلکار کا یہ کہنا ہے کہ" دسمبر میں WASA نے ضروری نقشے، خاکے اور پانی اور نکاسی کے نظام سے متعلق اہم معلومات ترکی کے ماہرین کے پاس بھیجیں تاکہ وہ نکاسی کے نظام میں بہتری لانے کے بارے میں تجاویز دے سکیں"۔ ترکی کے ماہرین نے WASA کو یہ تجاویز دیں کہ وہ گٹرکے نالے اور بارش کے پانی کیلئے نالے الگ الگ متعین کردیں تاکہ بارش کے موسم میں یہ نالے رکاوٹوں کی وجہ سے بند نہ ہوجائیں ۔ انہوں نے یہ بھی رائے دی کہ حسبِ ضرورت نئے نالے بننے چاہییں اور پُرزور الفاظ میں یہ بھی کہا کہ سارا انحصار ان بیسیوں سال پرانے مجموعی نکاسی کے نظام پر نہیں ہونا چاہیے۔ انہوں نے مزید یہ بھی کہا کہ شہر میں ایسے پانی صاف کرنے والے پلانٹ ہونے چاہییں جن کا پانی پھر آبپاشی کیلئے استعمال ہوسکے، نہ کہ اس کا رخ دریا کی طرف موڑ دیا جائے۔ انہوں نے اس بات کی بھی تاکید کی کہ لوگوں کو اس بات کی تربیت دی جائے کہ وہ اپنے گھریلو کچرے کو مناسب طریقے سے ٹھکانے لگائیں بجائے اس کے کہ وہ سڑکوں اور گلیوں میں اڑتا پھرے۔ ان تجاویز پر سرے سے کبھی غور ہی نہیں کیا گیا۔
اسلام نے سیاست کا مطلب لوگوں کے امور کی دیکھ بھال کرنا متعین کیا ہے اور اس کو ایک فرض عمل قرار دیا ہے جس کی عدم ادائیگی کا نتیجہ یہ ہوگا کہ حکمران قیامت کے دن اللہ کے سامنے جوابدہ ہوگا۔ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا: كَانَتْ بَنُوْ إِسْرَائِيْلَ تُسَوِّسُهُمُ الْأَنْبِيَاءُ، كُلَّمَا هَلَكَ نَبِيٌّ خَلَفَهُ نَبِيٌّ، وَأَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِيْ، وَسَتَكُوْنُ خُلَفَاءُ فَتَكْثَرُ، قَالُوا: فَمَا تَأْمُرُنَا ؟ قَالَ: فُوْا بِبَيْعَةِ الْأَوَّلِ فَالْأَوَّلِ، وَأَعْطُوْهُمْ حَقَّهُمْ فَإِنَّ اللهَ سَائِلُهُمْ عَمَّا اسْتَرْعَاهُمْ [مسلم] "بنی اسرائیل کی سیاست انبیاء کیا کرتے تھے۔ جب بھی کوئی نبی کی وفات پاتا تو اس کی جگہ ایک اور نبی لے لیتا، مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا، البتہ خلفاء ہوں گے اور کثرت سے ہوں گے۔ انہوں نے پوچھا کہ آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ فرمایا: ایک کے بعد دوسرے کی بیعت کو پورا کرو اور انہیں ان کا حق دے دو کیونکہ اللہ یقیناً ان سے ان کے بارے سوال کرے گا جن کو اس نے ا ن کی رعیت میں دیا"۔ اور رسول اللہﷺ نے یہ بھی فرمایا:كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ فَالْإِمَامُ الَّذِي عَلَى النَّاسِ رَاعٍ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ وَالرَّجُلُ رَاعٍ عَلَى أَهْلِ بَيْتِهِ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ وَالْمَرْأَةُ رَاعِيَةٌ عَلَى أَهْلِ بَيْتِ زَوْجِهَا وَوَلَدِهِ وَهِيَ مَسْئُولَةٌ عَنْهُمْ وَعَبْدُ الرَّجُلِ رَاعٍ عَلَى مَالِ سَيِّدِهِ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْهُ أَلَا فَكُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِه [مسلم] "تم میں سے ہر ایک رکھوالا ہے اور اپنی رعیت کا ذمہ دار ہے۔ لہٰذا حکمران اپنے لوگوں کا رکھوالا ہے اور ان کے بارے میں ذمہ دار ہے۔ آدمی اپنے گھر والوں کا رکھوالا ہےاور وہ ان پر ذمہ دار ہے۔ عورت اپنے شوہر کے گھر کی رکھوالی ہے اور اس پر ذمہ دار ہے اور ایک آدمی کا غلام اس کے مال کا رکھوالا ہے اور اس پر ذمہ دار ہے۔ پھر سن لو، یقیناً تم میں سے ہر کوئی ایک رکھوالا ہے اور اپنی رعیت کیلئے ذمہ دارہے" ۔ حضرت عائشہؓ نے روایت کیا: سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ فِي بَيْتِي هَذَا 'اللَّهُمَّ مَنْ وَلِيَ مِنْ أَمْرِ أُمَّتِي شَيْئًا فَشَقَّ عَلَيْهِمْ فَاشْقُقْ عَلَيْهِ وَمَنْ وَلِيَ مِنْ أَمْرِ أُمَّتِي شَيْئًا فَرَفَقَ بِهِمْ فَارْفُقْ بِهِ' [مسلم] "میں نے رسول اللہﷺ کو اپنے اس گھر میں یہ کہتے ہوئے سنا: 'اے اللہ جس کو میری امت کے کچھ امور کی ذمہ داری سونپی گئی تو اس نے ان سے سختی کا معاملہ کیا تو تُو بھی اس سے سختی کا معاملہ کر اور جس کو میری امت کے کچھ امور کی ذمہ داری سونپی گئی اور اس نے ان سے نرمی کا معاملہ کیا تو تُو بھی اس سے نرمی کامعاملہ کر'"۔ اور فرمایا: مَا مِنْ وَالٍ يَلِي رَعِيَّةً مِنْ الْمُسْلِمِينَ فَيَمُوتُ وَهُوَ غَاشٌّ لَهُمْ إِلَّا حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ [بخاری] "کوئی حکمران ایسا نہیں جس کو مسلمانوں کی رعیت کی ذمہ داری دی جائے اور وہ ان سے خیانت کرتا ہوا مرے، اِلّا یہ کہ اللہ اس پر جنت حرام کردیتا ہے"۔
لہٰذا ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اسلام میں سیاست دان امت کے امور کی دیکھ بھال میں لگے رہتے ہیں۔ حضرت عمرؓ کو جب حکمرانی کی ذمہ داری سونپی گئی تو انہوں نے کہا : "اگر عراق کی سرزمین میں ایک جانور بھی ٹھوکر کھائے تو مجھے خوف ہے کہ اللہ اس کا حساب بھی مجھ سے لے گا کہ میں نے سڑک کیوں مرمت نہ کروائی"۔ جب رسول اللہﷺ کی وفات کے بعد مکہ میں سیلاب آیا تو آپؓ نے حکم دیا کہ کعبہ کی حفاظت کیلئے دو بند تعمیر کیے جائیں۔ علاوہ ازیں انہوں نے مدینہ میں بھی بند تعمیر کروائے تاکہ چشموں کے ابلنے سے سیلاب نہ آجائے اور اس طرح سیلاب کی وجہ کو جڑ سے ہی ختم کروادیا۔ مزید برآں، ایک قحط کے دوران، حضرت عمرؓ نے مصر میں ایک نہر کی تعمیر کا حکم دیا جو دریائےِ نیل کو سمندر سے متصل کرتی تھی۔ اس نہر کا مقصد یہ تھا کہ بحیرہ عرب کے راستے (حجاز تک) غلہ کی ترسیل کو آسان کیا جا سکے جبکہ اس سے قبل غلہ صرف زمینی راستے سے منتقل ہوا کرتا تھا۔ یہ نہر حضرت عمروؓ بن العاص کی نگرانی میں ایک سال کے اندر اندر پایۂ تکمیل تک پہنچ گئی۔ سلیمان ندویؒ لکھتے ہیں کہ اس کے بعد سے سرزمینِ حجاز کو آنے والے تمام وقتوں کیلئے قحط سے نجات مل گئی۔
حاصلِ کلام یہ ہے کہ جمہوریت ایسے سیاست دانوں کو جنم دیتی ہے جن کو برسرِ اقتدار صرف اپنے مفاد کی پرواہ ہوتی ہے اور ان کو لوگوں کا خیال صرف یہ ہوتا ہے کہ وہ عوام کو اتنا خوش رکھیں کہ اگلے الیکشن میں ان کی کرسی پکی رہے۔ مسلمان آج جن جن مسائل کا سامنا کررہے ہیں ان کا واحد حل یہ ہے کہ جمہوریت کا قلع قمع کر کے خلافت کا نظام قائم کیا جائے۔ جو مخلص اور باخبر سیاست دان آج خلافت کیلئے کام کر رہے ہیں وہ اس وقت پھر ایسا ماحول قائم کریں گے کہ مخلص سیاست دانوں کی پوری ایک نسل کے لئے زمین ہموار ہو جائے اور یہ ایسے لوگ ہوں گے جو کہ امت کے امور کی دیکھ بھال کرنے کے قابل بھی ہوں گے اوروہ تخلیقی انداز میں یہ کام سرانجام دیں گے۔