الأربعاء، 25 جمادى الأولى 1446| 2024/11/27
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

D-8 کانفرنس: اسلامی ممالک کے درمیان تعاون کو بڑھانے کی ایک اور کمزور کوشش ہے

22 نومبر سے اسلام آباد میں آٹھ ترقی پزیرمسلم ممالک کی کانفرنس شروع ہونے والی ہے جس میں معاشی معاملات کے ساتھ علاقائی اور عالمی مسائل پر بھی بات کی جائے گی۔ ان معاملات پر بات چیت کے علاوہ پاکستان اس کانفرنس کے ذریعے دنیا کو یہ دیکھانا چاہتا ہے کہ ملک کی عمومی صورتحال خصوصاً امن و امان کی صورتحال پوری طرح سے اس کے قابو میں ہے۔ حال ہی میں وزارت خارجہ کے ایک نمائندے نے یہ کہا کہ حکومت ایک واضع پیغام دینا چاہتی ہے کہ امن امان کے مسائل کے باوجود پاکستان ایک محفوظ ملک ہے۔ D-8 تنظیم کا قیام 1997 میں اس وقت کے ترک وزیر اعظم اربکان کے ہاتھوں ظہور پزیر ہوا تھا۔ اس تنطیم کے رکن ممالک میں بنگلادیش، مصر، انڈونیشیا، ایران، ملیشیا، نائجیریا، پاکستان اور ترکی شامل ہیں۔ ان ممالک کی مشترکہ قومی پیداوار 3.2 ٹریلین ڈالر، مجموعی افواج کی تعداد تقریباً تیس لاکھ اور آبادی تقریباً دنیا کی آبادی کا 13 فیصد ہے۔ اس کے علاوہ D8 ممالک زبردست فوجی ساز و سامان بھی رکھتے ہیں جس میں پاکستان کے سو کے قریب ایٹمی ہتھیار بھی شامل ہیں۔ ان تمام شاندار اعداد و شمار کے باوجود D8 کا دنیا کی معیشت اور عالمی امور پر انتہائی معمولی اثر و رسوخ ہے۔ D8 کی کمزور کارکردگی کوئی انھونی بات نہیں ہے۔ مسلم دنیا کی ہر معاشی اور سیاسی تنظیم کا یہی حال ہے۔ او۔آئی۔سی، عرب لیگ یا GCC سب کی ایک ہی کہانی ہے اور یہ صورتحال اس وقت تک جاری رہے گی جب تک مسلم دنیا کے حکمران ان تنظیموں سے امیدیں وابستہ رکھیں گے اور یورپی یونین کے نمومنے کی نقل کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے۔ ان تنظیموں سے امیدیں وابستہ رکھنا بے وقوفی ہے۔ یہ تنظیمیں مسلم ممالک کو مزید کمزور کرتی ہیں اور اس کی دو اہم وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ عالمی معاشی بحران نے یورپی یونین کی خامیوں کو واضع کر دیا ہے اور یہ ثابت ہو گیا ہے کہ سیاسی اتحاد کے بغیر کسی بھی قسم کے معاشی اتحاد کا ناکام ہونا لازمی امر ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ان تنظیموں کا حقیقی فائدہ نا تو امت کو ہوتا ہے اور نا ہی اس کے قائدین کو بلکہ صرف اور صرف استعماری طاقتیں ان کے وجود سے فائدہ اٹھاتی ہیں۔ اس بات کے باوجود کہ اگر مسلم دنیا کی سڑکوں پر زبردست مظاہرے بھی ہو رہیں ہوں تب بھی امریکہ او۔آئی۔سی اور عرب لیگ کو اپنی پالیسیوں کی ترویج اور نفاذ کے لیے استعمال کرتا ہے اور D8 کا معاملہ بھی اس سے کچھ مختلف نہیں ہے۔ اگر مسلم دنیا اس صورتحال سے نکلنا چاہتی ہے تو اسے قومی ممالک کے بھیانک تصور کو لازمی چھوڑنا ہو گا جس کی وجہ سے مسلمان تقسیم ہو گئے ہیں اور پچاس سے زائد ممالک میں قید ہو گئے ہیں۔ مسلمان اپنی قسمت کے خود مالک بن سکتے ہیں اگر وہ مغربی تصور کی بنیاد پر وجود میں آنے والی ان تنظیموں کی صورت میں اپنے امور کو منظم کرنے سے انکار کر دیں۔

مسلم امہ کو متحد کرنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ ہے کہ خلافت کو دوبارہ قائم کیا جائے۔ خلافت امریکہ کی طرح مختلف ریاستوں کی فیڈریشن نہیں ہے جہاں ہر ریاست خود اپنا قانون بناتی ہیں لیکن دفاع، معیشت اور خارجہ پالیسی وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ ناہی خلافت یورپی یونین کی طرح کی کوئی یونین ہے جہاں تنظیم کی ہر ریاست نے اپنے کچھ معاشی معاملات یورپی یونین کے ہیڈکواٹر برسلز کے حوالے کر دیے ہیں جبکہ باقی تمام معاملات ریاستوں کی پارلیمنٹ کے فیصلوں کے مطابق طے پاتے ہیں۔ خلافت ایک و حدت پر مبنی ریاست ہے جہاں مسلمان اپنا ایک لیڈر چنتے ہیں اور اسے اپنی اطاعت کا یقین دلاتے ہیں جبکہ خلیفہ ان پر قرآن، سنت رسول اللہ ﷺ اجماعہ اصحابہ اور قیاس کی بنیاد پر حکومت کرتا ہے۔ خلافت پچاس سے زائد مسلم ممالک کو ایک ریاست میں ضم کرے گی اور دنیا کی طاقتور ترین ریاست کو قائم کرے گی جو حقیقت میں مغرب کے معاشی، فوجی اور سیاسی اثر و رسوخ سے آزاد ریاست ہو گی۔

میڈیا آفس حزب التحریر ولایہ پاکستان

Read more...

پشاور میں کیانی کے غنڈوں نے رکن حزب التحریر کو اغوا کر لیا حزب التحریر کے شباب کا اغوا اور ان کے خلاف جھوٹے مقدمات خلافت کے قیام کو روک نہیں سکتے

آج دوپہر پشاور، حیات آباد فیز 3 میں واقع خٹک مارکیٹ سے رکن حزب التحریر ڈاکٹر ذوالفقار کوجنرل کیانی کے غنڈوں نے سینکڑوں لوگوں کی موجودگی میں اس وقت اغوا کر لیا جب وہ اپنے بچوں کو اسکول سے لے کر واپس گھر جا رہے تھے۔ ایک طرف جنرل کیانی قوم سے یہ اپیل کرتا ہے کہ جب تک کسی پر الزام ثابت نہ ہو جائے اس کو مجرم نہ سمجھا جائے لیکن حزب التحریر کے شباب کو ان کے بچوں کے سامنے اس طرح اغوا کیا جاتا ہے جیسے وہ جیل توڑ کر بھاگے ہوئے مفرور مجرم ہوں۔ دراصل جنرل کیانی کی اس امت اور اس کی افواج کے خلاف غداریاں امت اور افواج دونوں پر واضع ہو چکی ہیں اور اب خلافت کے قیام کی پکار بھی امت اور اس کی افواج کی پکار بن چکی ہے۔

اس صورتحال سے گھبرا کر پہلے جنرل کیانی نے 5 نومبر کو ایک دھمکی آمیز بیان جاری کیا لیکن اس کے باوجود حزب کی مسلسل تیز تر ہوتی سیاسی جد و جہد سے خوفزدہ ہو کر اب جنرل کیانی ان غلیظ ہتھکنڈوں پر اتر آیا ہے اور حزب کے شباب کو جو سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے اور اسلام کے نظام خلافت کے قیام کی پر امن سیاسی جد و جہد کر رہے ہیں، ان کے معصوم بچوں کے سامنے اٹھا کر حزب اور اس کے شباب کو خوفزدہ کرنا چاہتا ہے۔ اس وقت نہ صرف حزب کے شباب کو اغوا کیا جا رہا ہے بلکہ ان کے خلاف جھوٹے اور بے بنیاد مقدمات بھی قائم کیے جا رہے ہیں جس کی تازہ مثال کل لاہور میں ڈیفنس اے کی پولیس کی جانب سے حزب کے پانچ شباب کے خلاف نفرت انگیز پوسٹر لگانے کے الزام میں مقدمے کا اندراج ہے جبکہ ایسا کوئی واقع سرے سے پیش ہی نہیں آیا۔ حزب التحریر جنرل کیانی کو یہ بتا دینا چاہتی ہے کہ نہ تو اس سے قبل پاکستان میں حزب التحریر کے ترجمان نوید بٹ کا اغوا اور شباب کے خلاف سینکڑوں جھوٹے مقدمات حزب اور اس کے شباب کو خوفزدہ کر سکے ہیں اور نہ ہی اب ڈاکٹر ذوالفقار کا اغوا اور لاہور میں جھوٹے مقدمات کا اندراج حزب کی جد و جہد میں کسی کمی کا باعث بنیں گے۔

حزب التحریر نے پاکستان، اس کی عوام اور افواج کے خلاف جنرل کیانی کی غداریوں کو مزید بے نقاب کرنے کے لیے ایک پمفلٹ جاری کر دیا ہے جس کا عنوان ہے "اے کیانی! یہ تم ہو جو پاکستان کو کمزور کر رہے ہو اور خود کو اپنی قوم سے جدا کر رہے ہو کیونکہ تم اس خلافت کے قیام کو روک رہے ہو جسے مسلمان اپنا نظام سمجھتے ہیں

جنرل کیانی یہ جان لے کہ اسلام، اس امت اور اس کی افواج کے خلاف کفار کی مدد و معاونت کر کے اس نے انتہائی گھاٹے کا سودا کیا ہے کیونکہ یہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا وعدہ ہے کہ خلافت قائم ہو کر رہی گی۔ لہذا اس کے لیے صرف دو ہی راستے ہیں یا تو افواج پاکستان کی قیادت سے سبکدوش ہو جائے اور ان مخلص لوگوں کے لیے راستہ چھوڑ دے جو پاکستان سے کفریہ سرمایہ دارانہ نظام اور امریکی راج کا خاتمہ کر کے خلافت کے قیام کے ذریعے اللہ کے دین کو نافذ کرنا چاہتے ہیں یا پھر اس امت، اس کی افواج اور سب سے بڑھ کر اللہ سبحانہ و تعالی کے غیض و غضب کا شکار ہونے کی تیاری کر لے۔

ثم تکون الخلافة علی منھاج النبوة
"پھر نبوت کے نقشِ قدم پر یہ خلافت قائم ہو گی۔" (مسنداحمد)

پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان

شہزاد شیخ

Read more...

غدار حکمران کراچی کو بھی امریکی جنگ کی آگ میں جھونک دینا چاہتے ہیں کراچی کے حالات کے ذمہ دار سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غدار ہیں

سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غدار پاکستان کے سب سے بڑے شہر اور معاشی انجن کراچی کو امریکی جنگ کی آگ میں جھونک دینے کی تیاری کر رہے ہیں۔ شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کے لیے عوامی حمائت کے حصول میں زبردست ناکامی کے بعد کراچی کی صورتحال کی ذمہ داری قبائلی مسلمانوں پر ڈال کر سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غدار دہشت گردی کے خلاف نام نہاد امریکی جنگ کو قبائلی علاقوں کے بعد اب پاکستان کے بڑے شہروں تک پھیلا دینا چاہتے ہیں۔ یہ بات پاکستان کے عوام جان چکے ہیں کہ اس امریکی جنگ کا مقصد افواج پاکستان اور مخلص مسلمانوں کے درمیان فتنے کی جنگ کو جاری رکھنا اور دنیا کی ساتویں اور مسلم دنیا کی واحد ایٹمی طاقت پاکستان کو اس امریکی جنگ کے ذریعے ایک کمزور اور بھارت کی طفیلی ریاست میں تبدیل کرنا ہے۔ کراچی میں قتل و غارت گری، اغوا برائے تاوان اور بھتہ خوری کو اس لیے پھلنے پھولنے دیا جا رہا ہے تا کہ کراچی کے لوگ فوج سے درخواست کریں کہ وہ کراچی میں امن و عامہ کی صورتحال بہتر کرنے کے لیے مداخلت کرے۔ اندرونی امن وعامہ کو قائم رکھنا پولیس کا کام ہے نہ کہ فوج کا، بلکہ فوج کا کام تو ملک اور اِس کے باسیوں کو امریکہ کی جارحیت سے محفوظ رکھنا ہے۔

9 اگست 2011 کو اس وقت کے سندھ کے وزیر داخلہ منظور وسان نے امریکی قونصل جنرل 'ولیم مارتھن' سے ملاقات کرنے کے بعد بتایا کہ امریکہ کراچی شہر کی صورتحال پر قابو پانے کے لیے جدید آلات اور دوسری expertise دینے کے لیے تیار ہے۔ یہ بیان اس بات کا ثبوت ہے کہ کراچی میں آپریشن کا مطالبہ درحقیقت امریکہ کا مطالبہ ہے۔ کراچی جہاں ریاست کے تمام ادارے پولیس، رینجرز، فوج، عدلیہ، انتظامیہ اور سیاسی جماعتیں موجود ہوں وہاں یہ کہنا کہ اس شہر کی ابتر صورتحال کے ذمہ دار قبائلی مسلمان ہیں ایک کھلا جھوٹ ہے اور کراچی کے عوام اس حقیقت کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ درحقیقت سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غدار جن علاقوں میں امریکی فتنے کی جنگ کو پھیلانا چاہتے ہیں وہاں کے حالات کو پہلے امریکی سی۔آئی۔اے، بلیک واٹر اور ریمنڈ ڈیوس نیٹ ورک کے ذریعے خراب کیا جاتا ہے اور اس کی ذمہ داری قبائلی مسلمانوں پر ڈال دی جاتی ہے۔ پھر حکومتی رٹ کی بحالی کے نام پر اس علاقے میں فوجی آپریشن شروع کر دیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں اس علاقے کی معاشی اور معاشرتی زندگی تباہ و برباد ہو جاتی ہے اور پاکستان مزید کمزور ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جن علاقوں میں بھی فوجی آپریشن شروع کیا گیا وہاں آج کے دن تک زندگی معمول پر نہیں آسکی کیونکہ مقصد امن وامان اور حکومتی رٹ بحال کرنا نہیں ہوتا بلکہ فتنے کی جنگ کو مزید بھڑکانا اور دنیا کی طاقتور مسلم ریاست پاکستان کو کمزور کرنا ہوتا ہے۔

حزب التحریر پچھلے ایک سال سے امت کو خبردار کرتی آ رہی ہے کہ سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غدار اس فتنے کی جنگ کو پاکستان کے بڑے شہروں تک پھیلا دینا چاہتے ہیں۔ لہذا حزب ایک بار پھر امت کو خبردار کرتی ہے کہ جس طرح انھوں نے غدار حکمرانوں کی تمام سازشوں کو مسترد کرتے ہوئے شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کی حمائت سے انکار کیا ویسے ہی سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں کی کراچی کو امریکی جنگ کی آگ میں جھونکنے کی اس سازش کو بھی ناکام بنا دیں اور کراچی میں فوجی آپریشن کی حمائت سے انکار کر دیں۔

حزب التحریر افواج پاکستان میں موجود مخلص افسران سے مطالبہ کرتی ہے کہ سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں کو فوراً ہٹائیں اور خلافت کے قیام کے لیے حزب التحریر کو نصرة فراہم کریں۔ آپ کی خاموشی ان غداروں کو اپنی سازشوں میں مسلسل ناکامی کے باوجود اپنے آقا امریکہ کی خوشنودی کے لیے اس امت کے خلاف مزید سازشیں کرنے کی ہمت اور طاقت فراہم کر رہی ہے۔ صرف خلافت کا قیام ہی پاکستان کو فتنے کی اس امریکی جنگ سے نجات دلائے گا اور مسلم افواج کے ہتھیار اپنے مسلمان بھائیوں کے خلاف استعمال ہونے کے بجائے مقبوضہ مسلم علاقوں کو کفار کے تسلط سے نجات دلانے کے لیے استعمال ہوں گے۔

 

پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان

شہزاد شیخ

Read more...

ملالہ یوسفزئی پر حملے میں ریمنڈ ڈیوس نیٹ ورک ملوث ہے ملالہ پر حملہ دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کے لئے عوامی حمائت حاصل کرنے کی انتہائی سفاکانہ کوشش ہے

ملالہ یوسفزئی پر حملہ سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں کی دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کو ملک کے مزید علاقوں تک پھیلانے کے لئے عوام کی حمایت حاصل کرنے کی ایک انتہائی سفاکانہ کوشش ہے۔ ماضی میں کبھی ایک جعلی ویڈیو تو کبھی GHQ پر حملے کو سوات اور قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشنز کے لئے جواز کے طور پر استعمال کیا گیا۔ لیکن پھر عوام امریکہ اور سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں کے اس طریقہ واردات کو سمجھ گئے۔ یہی وجہ ہے کہ مہران نیول بیس کراچی اور کامرہ میں فضائی اڈوں پر حملوں کے باوجود غدار حکمران اس امریکی جنگ کو پاکستان کے مزید علاقوں تک پھیلانے کے لئے عوام کی حمائت حاصل کرنے میں ناکام رہے۔

لوگ یہ جان چکے ہیں کہ سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غدار ہی ہیں جنھوں نے بلیک واٹر اور ریمنڈ ڈیوس جیسے امریکی دہشت گرد تنظیموں اور لوگوں کو ملک میں آزادانہ نقل و حرکت کرنے کی جازت دی ہوئی ہے اور پھر یہی ریمنڈ ڈیوس نیٹ ورک فوجی تنصیبات پر حملے کرواتا ہے اور ان حملوں کی ذمہ داری فوراً قبائلی علاقوں کے مسلمانوں پر ڈال دی جاتی ہے۔ سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غدار اپنی اس حکمت عملی میں ناکامی کے بعد عوامی حمائت کے حصول کے لئے ایک نئے اور مزید سفاکانہ طریقہ واردات کے ساتھ سامنے آئے ہیں اورانھوں نے چودہ سالہ معصوم ملالہ یوسفزئی کو اپنے مکروہ عزائم کی بھینٹ چڑھانے کی کوشش کی ہے۔

جنرل کیانی اور سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غدار اگر اسلام کی حفاظت اور مسلمانوں کے ناحق خون بہنے پر اتنے ہی فکر مند ہوتے توامریکہ اور مغرب کی جانب سے رسول اللہ ﷺ کی شان میں مسلسل ہونے والی گستاخیوں پر موت کی سی خاموشی اختیار نہ کرتے، سلالہ کے چوبیس فوجی جوانوں کے مقدس خون کا سودا نیٹو سپلائی لائن کھول کر نہ کرتے، قبائلی علاقوں کے مسلمان مردوں، عورتوں اور معصوم بچوں کو امریکی ڈرونز کے رحم کرم پرنہ چھوڑ دیتے، قوم کی بیٹی عافیہ صدیقی کواس کے بچوں کے ساتھ کافر امریکہ کے حوالے نہ کرتے، کراچی سمیت پورے ملک میں جاری قتل و غارت گری کے واقعات پر خاموشی اختیار نہ کرتے اور پاکستان میں حزب التحریر کے ترجمان نوید بٹ کی طرح لوگوں کو ان کے بچوں کے سامنے اپنے غنڈوں کے ہاتھوں اغوا نہ کرواتے اور ہزاروں لوگ اپنے پیاروں کی تلاش میں عدالتوں کے سالوں سے چکر نہ لگا رہے ہوتے۔

جنرل کیانی کی 13 اگست 2012 کی کاکول اکیڈمی کی تقریر کہ "انتہاپسندی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ ہماری جنگ ہے اور ہم اس کو لڑنے میں حق بجانب ہیں اور اس باری میں کوئی شک نہیں رہنا چاہیے ورنہ ہم تقسیم ہوں جائیں گے اور خانہ جنگی کا شکار ہو جائیں گے" اور ملالہ یوسفزئی پر قاتلانہ حملے کے موقع پر جاری ہونے والے بیان کہ "ہم لڑیں گے چاہے اس کی کوئی بھی قیمت چکانی پڑے" سے واضع ہے کہ سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غدار جنرل کیانی کی قیادت میں قوم کو اس بات پر مجبور کرنے کی سفاکانہ طریقے سے کوشش کر رہے ہیں کہ قوم نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ کو اسلام کے خلاف امریکی جنگ نہ سمجھے بلکہ اس کو اپنی جنگ سمجھ کر قبول کر لے۔ حزب التحریر معاشرے کے تمام طبقات سے اپیل کرتی ہے کہ وہ سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں اور ریمنڈ ڈیوس نیٹ کی اس مذموم اور سفاکانہ دہشت گردی کی بھرپور مذمت کریں۔

حزب التحریر افواج پاکستان میں موجود مخلص افسران سے مطالبہ کرتی ہے کہ سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں کو فوراً ہٹائیں اور خلافت کے قیام کے لئے حزب التحریر کو فوری نصرة فراہم کریں۔ آپ کی خاموشی ان غداروں کو اس امت کے خلاف مسلسل سازشیں کرنے کا حوصلہ فراہم کر رہی ہے۔ صرف خلافت ہی پاکستان کو اس امریکی جنگ کی دلدل سے نکال سکتی ہے اور پاکستان اور خطے کو امریکی اثر و رسوخ سے پاک کر سکتی ہے۔

پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان
شہزاد شیخ

 

Read more...

گیس کی مصنوعی قلت اور قیمتوں میں اضافہ عوام کے ساتھ جمہوریت کا انتقام ہے

صرف خلافت ہی امت کو مہنگی توانائی اور اس کی قلت سے نجات دلائے گی

2اکتوبر2012کو مشیر پیٹرولیم و قدرتی وسائل ڈاکٹرعاصم حسین نے اس بات کا اعتراف کیا کہ تیل و گیس کی کئی کمپنیوں نے پچھلے چند سالوں کے دوران گیس کے ذخائر دریافت کرنے کے باوجود انھوں نے نئے ذخائر کی دریافت کا اعلان نہیں کیا تھا کیونکہ انھیں اس کی کم قیمت مل رہی تھی لیکن پیٹرولیم پالیسی 2012کے اعلان کے بعد یہ کمپنیاں نئے دریافت شدہ ذخائر سے نئی قیمتوں پرگیس کی پیداوار دینے کے لیے تیار ہو گئیں ہیں ۔ اس ظالم حکومت نے 2012کی پیٹرولیم پالیسی میں نئے دریافت ہونے والے ذخائر سے حاصل ہونے والی گیس کی قیمت 3.24 ڈالرMMBTUسے بڑھا کر 6ڈالرMMBTU کردی ہے۔یہ ہے سرمایہ دارانہ نظام کا کمال کہ انسانی اور ملکی ضرورت کی ایک انتہائی اہم چیز کی پیداوار صرف اس لیے نہیں لی جارہی تھی کیونکہ چند کمپنیوں کو ان کی مرضی کا منافع حاصل نہیں ہورہا تھا ۔ یہ مجرمانہ اور ظالمانہ فعل اس وقت اختیار کیا گیا جب ملک میں گیس کی قلت کی وجہ سے ہزاروں صنعتیں ہفتوں بند رہیں، لاکھوں مزدور بے روزگاری کا شکار ہو کر فاقوں پر مجبور ہوئے اور ملکی معیشت کو اس کے نتیجے میں کھربوں روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔ جمہوری حکمران اس حقیقت کو پہلے دن سے جانتے تھے لیکن انھوں نے چار سال تک خاموشی اختیار کی اور جب گیس کی قلت کا بحران انتہأ کو پہنچ گیا تونئی پیٹرولیم پالیسی کا اعلان کرکے ساتھ ہی عوام کو یہ خوش خبری بھی سنائی کہ اس سال سردیوں میں گیس کی قلت میں کمی واقع ہو جائے گی۔ OGDCL(آئل اینڈ گیس ڈیولپمنٹ کارپوریشن لمیڈڈ)،جس کا پاکستان کی تیل کی پیداوار میں حصہ 58فیصد اور گیس کی پیداوار میں 27فیصد حصہ ہے ، نے مالیاتی سال 2011-12میں بعد از ٹیکس 91ارب روپے کا خالص منافع کمایا جو کہ 2010-11کے مالیاتی سال سے 27ارب روپے زائد ہے۔اگر صرف ایک کمپنی کا ایک سالانہ منافع اس قدر زیادہ ہے تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ باقی کمپنیاں بھی سالانہ اربوں روپے کمارہی ہیں اور اب نئی قیمتوں کے اطلاق کے بعد ان کے منافعوں میں مزید کئی گنا اضاٖفہ ہوجائے گا۔ مشیر پیٹرولیم کا بیان اس حقیقت کا اعتراف ہے کہ جمہوریت اور آمریت دونوں صورتوں میں سرمایہ دارانہ نظام ہی نافذ ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ امریکہ اور استعماری طاقتیں مسلم ممالک میں آمر اور جمہوری دونوں طرح کے حکمرانوں کی حمائت کرتے ہیں کیونکہ دونوں صورتوں میں حکمران امریکہ اور مغربی طاقتوں کی منشأ کے مطابق پالیسیاں بناتے ہیں۔

اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا کہ کئی ممالک زبردست قدرتی وسائل رکھنے کے باوجود ان ممالک کے عوام غربت کی دلدل میں دھنسے ہوتے ہیں جبکہ ملٹی نیشنل کمپنیاں اور حکمران اس دولت سے اپنی تجوریاں بھر رہے ہوتے ہیں کیونکہ آمریت اور جمہوریت میں تیل، گیس اور معدنی وسائل کو آزاد معیشت کے نام پر نجی ملکیت میں دے دیا جاتا ہے۔صرف خلافت ہی امت مسلمہ اور انسانیت کو اس ظلم سے دلائے گی کیونکہ اسلام نے قانون سازی کا حق انسانوں سے لے کر کرہمیشہ کے لیے کرپشن کے اس دروازے کو بند کردیا ہے۔ اسلام تیل،گیس اور تمام معدنی وسائل کو امت کی ملکیت قرار دیتا ہے اور ریاست پر لازم کرتا ہے کہ وہ ان وسائل کو امت تک صرف اس پر آنے والی لاگت کی قیمت پر پہنچائے۔ نبی ﷺ نے فرمایا:

((المسلمون شرکاء في ثلاث في الماء والکلأ والنارو ثمنہ حرام))

''تمام مسلمان تین چیزوں میں مشترک ہیں:آبی ذخائر،چراگاہیں یا جنگلات،اورآتش(توانائی کے وسائل)۔ اوراِن کی قیمت حرام ہے‘‘(داود)۔

اسلام کے صرف اس ایک حکم کے نفاذ سے کھربوں روپے کا منافع جو اس وقت حکمرانوں اورملٹی نیشنل کمپنیوں کی تجوریوں میں جارہا ہے اس کا رخ عوام کی جانب مڑ جائے گا، امت کو سستی اور وافر توانائی کے وسائل میسر ہوں گے اور سستی توانائی کی بدولت صنعتیں زبردست ترقی کریں گی۔

پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان
شہزاد شیخ

 

Read more...

حزب التحریر کا اسلام آباد میں مراکش کے سفارت خانے کے باہر مظاہرہ

مراکش میں حزب التحریر کے رکن کو قید و بند کی سزا خلافت کے قیام کو روک نہیں سکتی

حزب التحریر نے اسلام آباد میں مراکش کے سفارت خانے کے باہر مراکش میں حزب التحریر کے رکن سامی ناجم کی قید کی سزا کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا۔ مظاہرین نے بینرز اور پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر تحریر تھا: "حزب التحریر کے شباب کو قید کی سزا خلافت کے قیام کو نہیں روک سکتی" اور "اے مراکش کے جابر! جلد ہی خلافت قائم ہونے والی ہے جو تمھارے جرائم کا بدلہ گی"۔ مظاہرین سامی نجم کے خلاف جھوٹے مقدمے کے خاتمے اور ان کی رہائی کا مطالبہ کر رہے تھے۔ مظاہرین نے مراکش کے ظالم بادشاہ کے خلاف زبردست نعرے بازی کی اور اسے خبردار کیا کہ جلد ہی آنے والی خلافت اس امت کے خلاف اس کے جرائم پر اس کا سخت محاسبہ کرے گی۔ مظاہرین نے انسانی حقوق کی تنظیموں سے بھی مطالبہ کیا کہ وہ مراکش میں حزب کے رکن کے خلاف بے بنیاد مقدمے اور اس کی قید کے خلاف آواز بلند کریں۔ مظاہرین نے ایک احتجاجی مراسلہ بھی مراکش کے سفارت خانے میں جمع کروایا جس میں مراکش کے ظالم بادشاہ کو اس کے ظلم پر خبرادار کیا گیا تھا اور سامی نجم کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ آخر میں مظاہرین سامی نجم کی رہائی اور خلافت کے قیام کے حق میں نعرے لگاتے ہوئے پر امن طور پر منتشر ہو گئے۔

نوٹ: سامی نجم کی عمر 37 سال ہے۔ وہ پیشے کے اعتبار سے Software Developer ہیں۔ سامی نجم کو 3 فروری 2012 کو ان کے گھر سے گرفتار کیا گیا تھا اور ان پر مراکش کی بادشاہت کے خلاف بیرونی مالی مدد لینے اور پرتشدد طریقے سے سازش کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ ان کی گرفتاری کے چھ ماہ بعد مراکش کے وزیر انصاف مصطفی رامید نے یہ تسلیم کیا کہ وہ سیاسی قیدی ہیں۔ ان پر مراکش کے کریمنل قانون کی دفعہ 201 اور 206 کے تحت مقدمہ دائر کیا گیا۔ عدالت نے 5 جون 2012 کو دفعہ 201 کے تحت لگے الزام میں انھیں بے گناہ قرار دیا لیکن دفعہ206 کے تحت مجرم قرار دیا اور دس ماہ قید کی سزا دی۔ 11 ستمبر 2012 کو عدالت نے سامی نجم کی اپیل کو مسترد کیا اور ان کی قید کو بڑھا کر اٹھارہ ماہ کر دیا۔

میڈیا آفس حزب التحریر ولایہ پاکستان

 

 

 

Read more...
Subscribe to this RSS feed

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک