اقوام متحدہ میں اوبامہ کا خطاب اقوام متحدہ سے امید لگانے والوں کے منہ پر طمانچہ ہے
- Published in پاکستان
- سب سے پہلے تبصرہ کرنے والے بنیں
- الموافق
مسلمان کبھی بھی آزادیٔ رائے اور توہین رسالت ﷺ کو قبول نہیں کریں گے
اوبامہ کا اقوام متحدہ میں خطاب ان تمام لوگوں کے منہ پر طمانچہ ہے جو اس مسئلہ کو حل کرنے کے لیے اقوام متحدہ کا فورم استعمال کرنے کا فضول مشورہ دے رہے ہیں۔ اوبامہ نے اپنی تقریر میں یہ بات بالکل واضع کر دی کہ امریکی آئین کے تحت آزادیٔ رائے کی حفاظت کرنااس کے لئے انتہائی اہم اور مقدس ہے اور وہ اس توہین آمیز فلم پر پابندی نہیں لگا سکتا ہے۔ البتہ اوبامہ نے مسلمانوں کو یہ مشورہ ضرور دیا کہ مسلمان آزادیٔ رائے کے کفریہ تصور کو قبول کر لیں اور توہین رسالت ﷺ پر مشتعل ہونا چھوڑ دیں۔ حزب التحریر اوبامہ کو یہ بتادینا چاہتی ہے کہ اس کا یہ مطالبہ بے غیرت اور غدار مسلم حکمران تو بہت پہلے ہی قبول کر چکے ہیں اسی لیے اس وقت بھی اقوام متحدہ میں مسلم حکمران چاہے وہ زرداری ہو یا محمد مرسی توہین رسالت ﷺ کی سرپرستی کرنے والوں سے پوری گرم جوشی سے ملاقاتیں کر رہے ہیں لیکن امت مسلمہ کسی صورت مغرب کی اس کفریہ تہذیب کو قبول نہیں کرے گی جس میں انسانوں میں سب سے بہترین انسان کی توہین کرنے کو آزادیٔ رائے قرار دیا جائے۔ حزب التحریر اوبامہ کو یہ بھی بتا دینا چاہتی ہے کہ اگر وہ لیبیا میں امریکی سفیر کے قاتلوں کی گرفتاری سے پیچھے ہٹنے ولا نہیں تو مسلمان بھی توہین رسالت ﷺ اور اس کے مرتکب افراد کو کبھی قبول اور معاف کرنے والے نہیں۔ امریکہ کی اس فلم کی مذمت کرنا صرف بے غیرت مسلم حکمرانوں کو ایک معمولی جواز فراہم کرنا ہے جس کو استعمال کر کے یہ حکمران امت کے غصے کو کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جبکہ دوسری جانب امریکہ کا تکبر اس سطح پر ہے کہ وہ یہ مطالبہ کر رہا ہے کہ سفارت خانوں پر اضافی سیکورٹی اہلکاروں کی فراہمی ہی کافی نہیں بلکہ احتجاج کا یہ سلسلہ بھی ختم ہونا چاہیے۔ ایک طرف امریکہ مسلمانوں کو آزادیٔ رائے کو اپنانے کا حکم دے رہا ہے اور دوسری جانب مسلمانوں کو اپنے نبی ﷺ کی توہین کے خلاف احتجاج کا حق بھی دینے کو تیار نہیں۔ اوبامہ کا یہ کہنا کہ آج کی دنیا میں تشدد کی کوئی گنجائش نہیں جبکہ امریکہ اور مغرب کا پورا ماضی اور حال ریڈانڈینز سے لے کر ہیرو شیمہ ناگاساکی تک اور عراق و افغانستان سے لے کر پاکستان کے قبائلی علاقوں تک کروڑں بے گناہ معصوم لوگوں کے خون سے بھرا پڑا ہے۔ حزب التحریر امت پر یہ بات واضح کر دینا چاہتی ہے کہ اس مسئلہ کو اقوام متحدہ میں لے جا نا ہی حرام ہے کیونکہ اللہ سبحانہ و تعالی فرماتے ہیں:
أَلَمْ تَرَ إِلَى ٱلَّذِينَ يَزْعُمُونَ أَنَّهُمْ آمَنُواْ بِمَآ أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَمَآ أُنزِلَ مِن قَبْلِكَ يُرِيدُونَ أَن يَتَحَاكَمُوۤاْإِلَى ٱلطَّاغُوتِ وَقَدْ أُمِرُوۤاْ أَن يَكْفُرُواْ بِهِ وَيُرِيدُ ٱلشَّيْطَانُ أَن يُضِلَّهُمْ ضَلاَلاً بَعِيداً
کیا آپ ﷺ نے نہیں دیکھا ان لوگوں کو جو دعوی کرتے ہیں کہ ایمان لائے ہیں، اس پر جو آپ ﷺ کی طرف اور آپ ﷺ سے پہلے نازل ہوا، چاہتے ہیں کہ اپنے فیصلے طاغوت (غیر اﷲ) کے پاس لے جائیں حالانکہ ان کو حکم ہو چکا ہے کہ طاغوت کا انکار کر دیں۔ شیطان چاہتا ہے کہ وہ ان کو بہکاکر دور جا ڈالے'' (النسائ: 60)
اس مسئلہ کامستقل حل صرف اور صرف خلافت کا قیام ہے جو ایک ارب سے زائد مسلمانوں اور ساٹھ لاکھ مسلم افواج کو وحدت بخشے گی، امریکہ اور دوسری کافر حربی ریاستوں کے سفارت کاروں کو ملک بدر کرے گی جو مسلمانوں کے ساتھ حالت جنگ میں ہیں، ان کے سفارت خانوں کو بند کرے گی، نیٹو سپلائی لائن کو کاٹ دے گی اور مسلمانوں کی ساٹھ لاکھ فوج کو رسول اللہ ﷺ کی توہین کا ان کے شایان شان بدلہ لینے کے لیے جہاد کا حکم جاری کرے گی۔
پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان
شہزاد شیخ