الإثنين، 23 جمادى الأولى 1446| 2024/11/25
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

 

ایسے شخص کی مثال جو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی مقرر کردہ حدود کو قائم رکھتا ہے

اور وہ شخص جو ان حدود سے تجاوز کرتا ہے

 

الواعی میگزین 382، ذوالقعدہ 1439، جولائی 2018ء

Al-Waie Magazine 382, Dhul Qi’adah 1439, July 2018

(عربی سے ترجمہ)

 

نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،

 

«مَثَلُ القَائِم في حُدُودِ اللَّه والْوَاقِع فيها ، كَمثل قَومٍ اسْتَهَموا على سَفِينَةٍ ، فَأَصابَ بَعْضُهم أعْلاهَا ، وبعضُهم أَسْفلَهَا ، فكان الذي في أَسفلها إذا استَقَوْا من الماء مَرُّوا على مَنْ فَوقَهمْ ، فقالوا لو أنا خَرَقْنا في نَصِيبِنَا خَرقا ولَمْ نُؤذِ مَنْ فَوقَنا ؟ فإن تَرَكُوهُمْ وما أَرَادوا هَلَكوا وهلكوا جَميعا ، وإنْ أخذُوا على أيديِهِمْ نَجَوْا ونَجَوْا جَميعا»

اللہ کی حدود پر قائم رہنے والے اور ان کے خلاف کرنے والےکی مثال ایسے لوگوں کی سی ہے جنہوں نے ایک کشتی پر سوار ہونے کے سلسلے میں قرعہ ڈالا۔ جس کے نتیجہ میں بعض لوگوں کو کشتی کے اوپر کا حصہ اور بعض کو نیچے کا حصہ ملا۔ پس جو لوگ نیچے والے تھے، انہیں دریا سے پانی لینے کے لیے اوپر والوں کے پاس سے گزرنا پڑتا۔ انہوں نے سوچا کہ کیوں نہ ہم اپنے ہی حصہ میں ایک سوراخ کر لیں تاکہ اوپر والوں کو ہم کوئی تکلیف نہ دیں۔ اب اگر اوپر والے بھی نیچے والوں کو من مانی کرنے دیں گے تو کشتی والے تمام ہلاک ہو جائیں گے اور اگر اوپر والے نیچے والوں کا ہاتھ پکڑ لیں تو یہ خود بھی بچیں گے اور ساری کشتی بھی بچ جائے گی“۔

 

اس حدیث کے معانی بہت اہم اور عظیم ہیں، جو نیکی کا حکم دینے اور برائی سے منع کرنے کے وسیع موضوع کو اجاگر کرتے ہیں یعنی (امر بالمعروف و نہی عن المنکر)۔ یہ حدیث ایک ایسے معاشرے کی خصوصیات بیان کرتی ہے جہاں نافرمانی (معصیت) کا ارتکاب ہو سکتا ہے۔ یہ حدیث وضاحت کرتی ہے کہ معاشرے کا سفینہ صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے احکامات پر قائم رہنے سے محفوظ رہے گا۔ معاشرہ راہِ راست پر ہونے یعنی استقامت سے ہی بچتا ہے اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے احکامات کی خلاف ورزی کی وجہ سے غرق ہو جائے گا۔ یہ حدیث یہ نشاندہی کرتی ہے کہ اسلامی معاشرے میں ایک ایسی اتھارٹی (سلطان) کو ہونا چاہیے جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے احکامات اور حدود کی بنیاد پر ہو تاکہ معاشرے کو محفوظ رکھا جا سکے۔

جہاں تک رسول اللہ ﷺ کے فرمان « القَائِم في حُدُودِ اللَّه» جو اللہ کی حدود قائم کرتا ہےکا تعلق ہے، اس بارے میں یہ حدیث بیان کرتی ہے کہ یہ وہ شخص ہے جو کشتی کی رہنمائی کرتا ہے، اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی حدود کی حفاظت کرتا ہے اور ان کا دفاع کرتا ہے۔ یہ ایسا شخص ہے جو امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے ذریعے معاشرے میں لوگوں کی زندگی کو محفوظ رکھتا ہے، چاہے وہ معاشرے کے اچھے یا برے افراد ہوں، وہ شخص کسی بھی شریر آدمی کو اس بات سے روکتا ہے کہ وہ سفینہ میں، یعنی اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے دین میں سوراخ نہ کرے کہ کہیں سفینہ ڈوب ہی نہ جائے۔ اور یہ صرف خلیفہ کے ذریعے ممکن ہے، جس کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، «الإِمَامُ جُنَّةٌ» امام ایک ڈھال ہے۔ (مسلم)

 

رسول اللہ ﷺ کے اس ارشاد: «الْوَاقِع فيها»جو ان میں تجاوز کرتا ہے کا مطلب ہے کہ یہ ایسا شخص ہے جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی حدود کی خلاف ورزی کرتا ہے، ان اوامر میں مشغول ہوتا ہے جن سے اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے منع کیا ہے، اپنی خواہشات کی پیروی کرتا ہے اور تجاوز کرنے کی جرأت کرتا ہے۔

 

رسول اللہ ﷺ کے ارشاد :

 

«كَمثل قَومٍ اسْتَهَموا على سَفِينَةٍ ، فَأَصابَ بَعْضُهم أعْلاهَا ، وبعضُهم أَسْفلَهَا»

”ان کی مثال ایسے لوگوں کی سی ہے جنہوں نے ایک کشتی پر سوار ہونے کے سلسلے میں قرعہ ڈالا۔ جس کے نتیجہ میں بعض لوگوں کو کشتی کے اوپر کا حصہ اور بعض کو نیچے کا حصہ ملا“۔

 

اس حدیث میں معاشرے کی ترکیب کی ایک حقیقی تصویر نظر آتی ہے، اور اس حقیقت کو واضح کرتی ہے جسے رسول اللہ ﷺ واضح مثال کے ساتھ پیش کرنا چاہتے ہیں۔ یہ ان تمثیلات میں سے ہے جو ان لوگوں کے لیے بہترین طور پر سمجھی جاتی ہیں جو اسلام کے لیے کام کرتے ہیں۔ لفظ 'استھام' کا مطلب ہے، قرعہ اندازی کرنا، ان لوگوں کے درمیان جو کشتی میں سوار ہونا چاہتے ہیں (یعنی معاشرے کی کشتی میں)۔ کشتی دو منزلوں پر مشتمل ہے، اس لیے وہ اپنی اپنی جگہ کا انتخاب کرنے کے لیے قرعہ اندازی کرتے ہیں۔ کچھ لوگ اوپر کی منزل پر ہیں، جبکہ دوسرے نیچے کی منزل پر ہیں۔ بعض لوگوں کو اوپر کی منزل پر ہونے کا حق ہے، جبکہ کچھ دوسرے لوگ نیچے کی منزل پر ہونے کے مستحق ہیں۔

 

رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد :

 

«فكان الذي في أَسفلها إذا استَقَوْا من الماء مَرُّوا على مَنْ فَوقَهمْ ، فقالوا لو أنا خَرَقْنا في نَصِيبِنَا خَرقا ولَمْ نُؤذِ مَنْ فَوقَنا ؟»

”پس جو لوگ نیچے والے تھے، انہیں سمندر سے پانی لینے کے لیے اوپر والوں کے پاس سے گزرنا پڑتا۔ انہوں نے سوچا کہ کیوں نہ ہم اپنے ہی حصہ میں ایک سوراخ کر لیں تاکہ اوپر والوں کو ہم کوئی تکلیف نہ دیں“۔

 

اس کا مطلب ہے کہ جو لوگ نچلی منزل پر ہیں، جب وہ سمندر سے پانی لینا چاہتے ہیں تو انہیں اوپر کی منزل پر جانا پڑتا ہے۔ تو اگر وہ ایسا کہیں کہ، 'ہم اوپر کی منزل والوں کو پریشان کر رہے ہیں، ان پر بوجھ ڈال رہے ہیں اور بار بار ان کے پاس جا کر مشکلات پیدا کر رہے ہیں'۔ اور اس مسئلے کا حل وہ یہ تجویز کر لیں کہ اپنی ہی منزل میں ایک سوراخ کر لیں تاکہ براہ راست سمندر سے پانی لے سکیں۔ تو کیا اوپر کی منزل کے لوگ انہیں ایسا کرنے کی اجازت دے دیں کہ وہ اپنی مرضی سے یہ کام کر لیں، اور یہ جواز پیش کریں کہ نچلی منزل والے پانی لینے کے لئے اپنے حق کو استعمال کر رہے ہیں اور انہیں اپنی مرضی کے طریقے اختیار کرنے کی آزادی ہے؟ کیا انہیں ایسا کرنا چاہیے ؟

 

رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد کہ :

 

«فإن تَرَكُوهُمْ وما أَرَادوا هَلَكوا وهلكوا جَميعا ، وإنْ أخذُوا على أيديِهِمْ نَجَوْا ونَجَوْا جَميعا»

”اب اگر اوپر والے بھی نیچے والوں کو من مانی کرنے دیں گے تو کشتی والے تمام ہلاک ہو جائیں گے اور اگر اوپر والے نیچے والوں کا ہاتھ پکڑ لیں تو یہ خود بھی بچیں گے اور ساری کشتی بھی بچ جائے گی“۔

 

اب اگر اوپر والے لوگ نیچے والوں کی غلط حرکت کو نظر انداز کر دیں تو پانی ان پر چڑھ آئے گا اور سب کو غرق کر دے گا۔ تاہم، اگر اوپر والے انہیں روکتے ہیں تو سب بچ جائیں گے۔ اسی طرح، اگر کوئی نافرمان، جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی حدود کی خلاف ورزی کرتا ہے، اپنی نافرمانی اور برائی کو لوگوں کے سامنے کھل کر ظاہر کرتا ہے، تو لوگوں کو اس کے ساتھ کیسا سلوک کرنا چاہیے؟ کیا انہیں اسے اس جواز کے ساتھ چھوڑ دینا چاہئے کہ اس کے اپنے حقوق اور آزادیاں ہیں کہ وہ اپنی مرضی سے جو چاہے کرے، ایسی صورت میں وہ شخص پورے معاشرے کو ڈبو دے گا ؟ یقیناً، ہر دانا شخص کا جواب اس حوالے سے بالکل واضح ہے۔ لہٰذا، ہر ظالم کو روکنا لازمی ہے۔

 

یہ حدیث ایسے بیش قیمت الفاظ کا مجموعہ ہے جس کے موتی نہایت انمول اور نایاب ہیں :

 

رسول اللہ ﷺ نے کشتی کے مسافروں کی درجہ بندی ان کے مال و دولت، مرتبہ اور نسل کی بنیاد پر نہیں کی۔ بلکہ حدیث میں یہ تفریق اس بات سے ہے:«القَائِم في حُدُودِ اللَّه»”جو اللہ کی حدود قائم کرتا ہے“، یعنی ایک طرف وہ ہے جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی شریعت کو نافذ کرتا ہے، اللہ کی ہدایت سے رہنمائی حاصل کرتا ہے اور دوسری طرف وہ شخص ہے،«الْوَاقِع فيها» ”جو ان کی خلاف ورزی کرتا ہے“، یعنی وہ شخص جو حرام عمل کا ارتکاب کرنے کے ذریعے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے دین کو چیلنج کرتا ہے۔ حقیقی طاقت نہ تو زمینوں میں وسعت حاصل کر لینے سے ملتی ہے اور نہ ہی وہ دنیاوی اقدار اپنا لینے سے ملتی ہے جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے منقطع کرتی ہوں۔ بلکہ حقیقی طاقت تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے، اللہ سبحانہ و تعالیٰ پر ایمان لانے سے اور ایسے ایمان کی عظمت سے ہی حاصل ہوتی ہے۔ یہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے اس فرمان کی طرح ہے:

 

﴿وَلَا تَهِنُواْ وَلَا تَحۡزَنُواْ وَأَنتُمُ ٱلۡأَعۡلَوۡنَ إِن كُنتُم مُّؤۡمِنِينَ

”پس کمزوری نہ دکھاؤ اور نہ ہی غمگین ہو، اور تم ہی غالب رہو گے اگر تم مؤمن ہو“ (سورۃ آل عمران؛ 3:139)۔

 

اللہ پر ایمان لانا اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے احکامات کو قائم کرنا ہی بلند مرتبہ اور رہنمائی کا ذریعہ ہے۔

 

یہ حدیث ظاہر کرتی ہے کہ اسلامی معاشرہ کو مکمل طور پر تمام احکام شریعت کے نفاذ پر مبنی ہونا چاہیے، اور کفر کے نظاموں کو ترک کرنا چاہیے تاکہ معاشرے کی حفاظت کی جا سکے۔ اور یہی مسلمانوں کے سفینہ (کشتی) کی حقیقت ہے کہ اسے ایسا ہونا چاہیے۔

 

اور اس سفینہ کے لئے لازمی ہے کہ اس کا ایک ایسا کپتان ہو جو بہترین قیادت کے لیے موزوں ہو۔ یہ ایک قرینہ ہے جس کے معانی یہ ہیں کہ معاشرے میں لازمی کوئی ایسا ہو جو اختیار رکھتا ہو، تاکہ وہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی حدود کی خلاف ورزی کرنے والوں کو روک سکے۔ یعنی معاشرے میں ایک اسلامی ریاست ہونی چاہیے۔

 

جب گناہ ظاہر ہوتا ہے، تو یہ نہ صرف اس شخص کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے جس نے گناہ کا ارتکاب کیا ہو، بلکہ اسے بھی نقصان پہنچاتا ہے جس نے گناہ نہیں کیا۔ گناہ دونوں کے لیے آخرت اور دنیاوی زندگی میں نقصان کا باعث بنتا ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتے ہیں:

 

﴿وَٱتَّقُواْ فِتۡنَةٗ لَّا تُصِيبَنَّ ٱلَّذِينَ ظَلَمُواْ مِنكُمۡ خَآصَّةٗۖ وَٱعۡلَمُوٓاْ أَنَّ ٱللَّهَ شَدِيدُ ٱلۡعِقَابِ

”اور اس فتنہ سے بچو جو تم میں سے صرف ظالموں کو ہی نہیں آن پکڑے گا، اور جان لو کہ اللہ سخت عذاب دینے والا ہے“ (سورۃ الانفال؛ 8:25)۔

 

کشتی کی حدیث یہ بتاتی ہے کہ ایک مسلمان کو اپنی خواہشات کی پیروی میں گھِر نہیں جانا چاہئے یا اسلام کی حدود سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے۔ بلکہ، مسلمان کو اپنے ہر امر اور ہر عمل کا جوابدہ ہونا ہے، نہ صرف اپنی نجات کے لئے بلکہ دوسروں کی نجات کے لیے بھی۔

 

پورا معاشرہ اس سفینہ کی مانند ہے، جس پر نیک، گناہ گار، باخبر اور غافل سبھی سوار ہیں۔ یہ کشتی انہیں اپنی منزل کی طرف لے جاتی ہے۔ یہ کشتی ان لوگوں کی رہنمائی میں چلتی ہے جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی حدود کو قائم کرنے میں استقامت دکھاتے ہیں اور یہ کشتی نافرمانی سے متاثر ہوتی ہے۔

 

یہ حدیث بتاتی ہے کہ کشتی زندگی کے راستے پر چلتی ہے، ایک منزل کی طرف۔ کشتی کو زمین پر لنگر انداز ہونا ضروری ہے، کیونکہ کشتی ہمیشہ سمندر میں نہیں رہ سکتی، اسے اپنا مسکن نہیں بنا سکتی۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ معاشرے کے لیے کوئی مقصد ہونا چاہیے جسے حاصل کیا جا سکے۔ انتشار کا نتیجہ اس دنیا اور آخرت میں تباہی ہوگی، جبکہ استقامت کا نتیجہ اس دنیا اور آخرت میں نجات ہوگا۔ اس طرح، گناہ گار اپنے آپ کو جہنم کی آگ میں دھکیل دیتا ہے، جب کہ وہ اللہ کی حدود کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ جبکہ نیک شخص اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی حدود کو قائم کرتے ہوئے جنت میں نجات حاصل کرتا ہے۔

 

اس حدیث کو تقویت دیتی ہوئی دیگر احادیث بھی ہیں جو اس کے معنی کے ساتھ ہم آہنگ ہیں، اور اسے حمایت اور تصدیق فراہم کرتی ہیں۔ جب زینب بنت ابی سلمہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا، "کیا ہم تباہ ہو جائیں گے جب کہ ہمارے درمیان نیک لوگ موجود ہوں؟" تو رسول اللہ ﷺ نے جواب دیا،« نَعَمْ إِذَا كَثُرَ الْخَبَثُ» ”ہاں، اگر فساد زیادہ ہو جائے“ [مسلم] یعنی جب بہت زیادہ فساد اور برائی ہو جائے، تو یہ معاشرے کی تباہی کا باعث بنے گا۔ پھر ہمارے رہنما ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اسی معنی کے ساتھ مسلمانوں کو خبردار کیا، جب انہوں نے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے اس کلام کی تشریح بیان کی،ابو بکر صدیقؓ نے فرمایا: ”اے لوگو! تم اس آیت کی تلاوت کرتے ہو

 

﴿ يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ عَلَيۡكُمۡ أَنفُسَكُمۡۖ لَا يَضُرُّكُم مَّن ضَلَّ إِذَا ٱهۡتَدَيۡتُمۡۚ

”اے ایمان والو! اپنی فکر کرو کسی دوسرے کی گمراہی سے تمہارا کچھ نہیں بگڑتا اگر تم خودراہِ راست پر ہو“ (المائدہ:105)،

 

لیکن میں نے رسول اللہ ﷺ  کویہ کہتے سنا ہے

 

«إِنَّ النَّاسَ إِذَا رَأَوْا الظَّالِمَ فَلَمْ يَأْخُذُوا عَلَى يَدَيْهِ أَوْشَكَ أَنْ يَعُمَّهُمْ اللَّهُ بِعِقَابِهِ‏»

” جب لوگ کسی ظالم کوظلم کرتا دیکھیں اور اسے نہ روکیں تو قریب ہے کہ اللہ ان سب کو سزا دے“ (احمد)۔

 

  لہٰذا ابو بکر صدیقؓ نے آیت کی غلط تشریح کو مسترد کیا  جسے تنہائی اختیار کرنے اور ظالموں کے مظالم کو نظر انداز کرنے کے لیے دلیل بنایا جاتا تھا۔

 

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

 

«إذا لم تقل أمتي للظالم يا ظالم فقد تودع منها»

”اگر میری امت ظالم کو "او ظالم" کہہ کر نہ روکے تو امت اپنی بھلائی کو کھو دے گی“۔

 

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

 

«لَتَأْمُرُنَّ بِالْمَعْرُوفِ، وَلَتَنْهَوُنَّ عَنِ الْمُنْكَرِ، أَوْ لَيُسَلِّطَنَّ اللَّهُ عَلَيْكُمْ شِرَارَكُمْ، ثُمَّ يَدْعُو خِيَارُكُمْ فَلا يُسْتَجَابُ لَكُمْ»

”تم ضرور بالضرور نیکی کا حکم دو گے اور برائی سے منع کرو گےورنہ خطرہ ہے کہ تم میں سے بدترین لوگ تم پر مسلط کر دئیے جائیں گے پھر تم میں سے اچھے لوگ  دعائیں کریں گے اور ان کی دعا قبول نہیں کی جائے گی“ (الْمُعْجَمُ الْكَبِيرُ الطبرانی)۔

 

رسول اللہ ﷺ نے (ایک قدسی حدیث میں) فرمایا:

 

«مُرُوا بِالْمَعْرُوفِ ، وَانْهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ ، قَبْلَ أَنْ تَدْعُونِي ، فَلَا أُجِيبُكُمْ ، وَتَسْأَلُونِي فَلَا أُعْطِيكُمْ ، وَتَسْتَنْصِرُونِي فَلَا أَنْصُرُكُمْ»

”تم ضرور بالضرور نیکی کا حکم دو گے اور برائی سے منع کرو گےورنہ تم مجھے (اللہ کو) پکارو گے لیکن تمہاری پکار کا جواب نہ دیا جائے گااور تم مجھ سے مانگو گے  تو تمہیں عطا نہ کیا جائے گا اور تم مجھ سے مدد مانگو گے تو تمہاری مدد نہیں کی جائے گی“۔

 

یہ حدیث مغرب کے اس تصور کے بالکل متضاد ہے جو کہ مغرب مسلمانوں کے درمیان رائے عامہ (عرف عام)  کے طور پر فروغ دے رہا ہے۔ مغرب کہتا ہے کہ یہ ذاتی آزادی پر مبنی ہونی چاہیے، اور مغرب ان لوگوں پر دقیانوسی ہونے کا الزام لگاتا ہے جو برائی سے منع کرتے ہیں، لوگوں کے معاملات میں مداخلت کرتے ہیں، ان کی نجی زندگی میں دخل اندازی کرتے ہیں وغیرہ۔ تاہم، جب بھی کبھی برائی ظاہر ہو تو برائی کا ان تمام لوگوں کے ذریعے منع کرنا ضروری ہے جو ایسا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں؛ ورنہ، کشتی ڈوب جائے گی۔ لہٰذا، معاشرے میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کرنے کی خصوصیات ہونی چاہئیں۔ اور یہ تصور آج کل کے شخصی آزادیوں کے تصورات، اظہارِ رائے کی آزادی، ملکیت کی آزادی، اور اجتماع کی آزادی کے بالکل برعکس ہے، جو کسی شخص کو توہین کرنے، گناہ کا ارتکاب کرنے اور کفر کی طرف بلانے کی اجازت دے دیتا ہے۔ اس شخص کو جوابدہ نہیں ٹھہرایا جاتا کیونکہ وہ آئین کے مطابق ان سب چیزوں کو اپنے حقوق سمجھتا ہے۔

 

Last modified onجمعرات, 21 نومبر 2024 21:06

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک