بسم الله الرحمن الرحيم
شام کا بابرکت انقلاب تاریخ میں ایک منفرد مثال پیش کرتا ہے۔
یہ انقلاب امت کے عنقریب بیدار ہونے کی تصدیق کرتا ہے۔
تحریر : احمد معاذ
الواعی میگزین، شمارہ نمبر 460-461
انتالیسواں سال
جمادی الاول – جمادی الثانی 1446ھ
بمطابق دسمبر – جنوری 2025ء
دنیا بھر کی عوام یکے بعد دیگرے ایسے واقعات کا مشاہدہ کر رہی ہے جو عالمی اور علاقائی سطح پر اُبھرنے والی ناگزیر تبدیلیوں کی عکاسی کرتے ہیں۔ دنیا کے تمام ممالک میں صورتحال غیر مستحکم نظر آتی ہے، جیسے دنیا کسی عظیم واقعے کی منتظر ہو جو کرۂ ارض کی تقدیر بدل کر رکھ دے اور تاریخ کو ایک نیا موڑ دے دے۔ خاص طور پر ہم جو کہ قدیم دنیا کے قلب یعنی الشام میں رہتے ہیں، جہاں معرکہ شدت اختیار کر چکا ہے۔ یہ ذکر اس پس منظر میں ہے کہ سابقہ مجرمانہ حکومت کے اندر سے جو ہمارے دوست خیال کئے جاتے تھے، وہ اب واضح طور پر ہمارے انقلاب کے خلاف دشمنوں کے ساتھ مل کر صف بندی کر رہے ہیں۔
چودہ سال قبل رونما ہونے والی عرب بہار سے لے کر اب تک دنیا ہر طرح کے سیاسی، معاشی، سماجی اور ثقافتی سطح پر بڑی اور تیز ترین تبدیلیوں کا مشاہدہ کر رہی ہے۔ تمام ضروری وسائل اور طاقت رکھنے کے باوجود، دنیا کی صفِ اول کی ریاست، یعنی امریکہ، ان تبدیلیوں پر اس طریقے سے قابو پانے میں ناکام رہی ہے جو اس کی برتری کو برقرار رکھ سکے۔ اس کے بجائے، امریکہ بھی دیگر ریاستوں کی طرح شدید مشکلات کا شکار ہے۔ وہ اپنی بگڑتی ہوئی معاشی مشکلات کا حل تک تلاش نہیں کر سکا، اور نسل پرستی کو ایک مرض کی طرح ابھرنے سے بھی نہیں روک سکا، جو کہ تیزی سے پھیلتا جا رہا ہے اور امریکہ کے ہر کونے میں معاشرتی تقسیم کا باعث بنتا جا رہا ہے اور امریکہ اس کا علاج کرنے سے قاصر ہے۔ بلکہ معاشی مشکلات نے امریکہ کو ایک ایسی دلدل میں دھکیل دیا ہے جہاں سے وہ ایسے واپس نہیں نکل سکتا جیسے کبھی اس کی سابقہ صورتحال ہوا کرتی تھی، باوجود اس کے کہ امریکہ کے پاس وافر صلاحیتیں ہیں اور فکری جدت کا وسیع دائرہ اثر بھی موجود ہے، جو کہ اگرچہ 2008ء کے بعد سے جمود کا شکار ہے۔ یہ وہ وقت تھا جب مالیاتی بحران نے امریکہ کو اور عالمی معیشت کو ہلا کر رکھ دیا تھا، جبکہ مالیات تو معیشت کی زندگی میں دوڑتے ہوئے خون کی مانند ہے۔ ابھی تک، امریکہ اس بحران سے نکلنے کے لیے حل تلاش کرنے میں ناکام رہا ہے۔ بلکہ اب تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کسی حل کی عدم موجودگی کے تناظر میں امریکہ نے اس بحران کے ساتھ گزارا کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ عالمی مہنگائی میں اضافہ ہونا، دنیا کی قیادت میں اپنی جگہ برقرار رکھنے کی ایک کاوش ہے۔ ان تمام مسائل کی اصل وجہ فکری بحران ہے، جو دنیا کو درپیش ہے۔ سرمایہ دارانہ نظریہ فکری جمود کے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے، جیسا کہ تمام سابقہ قومیں زوال کے مرحلے میں داخل ہوئیں جہاں غور وفکر کرنے کی صلاحیت منجمد ہو جاتی ہے اور مسائل کے حقیقی حل نکالنے میں ناکامی کا سامنا ہوتا ہے۔ ہر طبقۂ فکر کے مفکرین یہ تسلیم کر چکے ہیں کہ سرمایہ دارانہ نظریہ، جو کہ مذہب کو زندگی سے جدا کرنے کے عقیدے پر مبنی ہے، حِرص، طاقت کی چاہت اور انسانی حیات کی حقیقت کے خلاف ہٹ دھرمی کے عناصر کے ساتھ اپنی اساس میں ہی ناکامی کا خمیر لئے ہوئے ہے۔ کُرۂ ارض پر گزرے ہوئے ہر جابر اور تاریخ میں گزرے تمام تر فرعونوں کی طرح، سرمایہ دارانہ نظریہ کے مفکرین بھی نہ تو یہ دیکھ سکتے ہیں اور نہ ہی یہ محسوس کر سکتے ہیں یا حتیٰ کہ وہ اس حقیقت کو بھی ماننے کو تیار نہیں کہ وہ اب ڈوبتے چلے جا رہے ہیں۔ وہ اپنی حقیقت اور اپنی تباہی کی سطح کا اندازہ ہی نہیں کر سکتے۔ سائنسی اور ٹیکنالوجی کی برتری ہونے کے باوجود، ان کی صورتحال کی حقیقت یہ ہے۔ گزشتہ قوموں کے حالات میں ہمارے پاس اس کی سب سے بہترین مثالیں موجود ہیں۔ فرعون زوال پذیر ہو گیا، حالانکہ وہ اپنی سائنسی ترقی کی بلندی پر تھے۔ فرعون ہلاک ہو گیا تھا، حالانکہ وہ اپنی قوت کے عروج پر تھا، جبکہ ہمارے آقا موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم اس وقت اپنی کمزوری اور بے بسی کی انتہا کے باوجود کامیاب ہو گئے۔ اسی طرح، رومیوں اور فارسیوں کو بھی اس وقت دنیا کے تخت سے ہٹا دیا گیا، جبکہ وہ اپنی قوت کے عروج پر تھے اور دنیا کو آپس میں بانٹے ہوئے تھے۔ اور تبدیلی کی یہی حقیقت ہوتی ہے اور اس زندگانی کے لئے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی سنت بھی یہی ہے۔
جب بھی کوئی قائدانہ ریاست اپنے تمام سیاسی مسائل کے حل کے لئے عسکری طاقت کا سہارا لینے کے مرحلے پر پہنچ جائے تو یہ دراصل اس ریاست کی ناکامی اور عالمی قیادت کے تخت سے تنزلی کے قریب آنے کا اعلان ہے، باوجود اس کے کہ وہ اس حقیقت کو قبول کرنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرے اور کوئی ہم پلہ قوت بھی موجود نہ ہو۔ عالمی منظرنامے پر ایک بودا پن غالب ہے، جو ایک ہی لبرل سرمایہ دارانہ رنگ سے مزین ہے۔ دنیا کی سربراہ ریاست پر جو کچھ بھی اطلاق ہوتا ہے، تو مقابلے کی اس دوڑ میں شامل دیگر بڑی طاقتوں پر بھی وہی سب لاگو ہو جاتا ہے۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے ہم جس تہذیبی بانجھ پن کا سامنا کر رہے ہیں، اس کے باعث نوعِ انسانی کے لئے تبدیلی کی ضرورت نمایاں طور پر ظاہر ہو رہی ہے، باوجود اس کے کہ اس کمی پر پردہ ڈالنے کی کوششیں مسلسل جاری ہیں۔ دنیا میں پھیلا ہوا ظلم اور جنگل کے قانون کی واضح شکل کا ابھر آنا اس حقیقت سے پردہ کھینچ رہا ہے کہ انسانیت کے بدترین ادوار میں سے ایک کا خاتمہ بس قریب ہی ہے۔ تبدیلی کا پہیہ اپنی پوری رفتار سے گھوم رہا ہے تاکہ انسانیت کو ان برائیوں سے نجات دلائے جو انسانوں میں موجود شیاطین، یعنی عالمی نظام کے سر کردہ افراد، نے اس پر مسلط کر رکھی ہیں۔
اسلام بین الاقوامی نظام کا وارث بننے کا سب سے مضبوط امیدوار ہے، باوجود اس کے کہ اسلام پر شدید حملے کیے جا رہے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اسلام پر ہونے والے حملوں نے اس کی قوت میں مزید اضافہ ہی کیا ہے۔ اور یہ صورتحال ان تمام کوششوں کے باوجود ہے، جن میں اسلام کی غلط تعبیرات کو استعمال کرنا، اور یکے بعد دیگرے باطل ”اسلامی“تحریکوں کا پیش کرنا شامل ہے، جو کہ اسلام کے ابھرنے کا مقابلہ کرنے کے لئے امریکہ کے ہاتھوں حل کے طور پر پیش کی گئیں، اور جو کہ اسلام کے خلاف جنگ کا سب سے مؤثر طریقہ بنیں۔ تاہم، گزشتہ دہائی میں ہم نے اسلام کے صحیح فہم کے پھیلاؤ کا مشاہدہ کیا ہے، جس کے ساتھ تمام باطل ”اسلامی“ فکری رجحانات کا زوال بھی دیکھا گیا۔ یہ سب اس اسلام کے خلاف جنگ میں ایک کاری ضرب ثابت ہوا، جو کہ تمام اقوام بلکہ پوری نوعِ انسانیت کے لئے واحد تہذیبی متبادل اور امید کی کرن ہے۔
شام کا مبارک انقلاب تبدیلی کے عمل کو حاصل کر لینے کے لئے دنیا بھر کے مسلمانوں کو ایک زبردست امید پیش کرتا ہے، کیونکہ اس انقلاب کا نظریاتی پہلو، شام کی اسٹریٹجک اہمیت، اور مختلف ادوار میں جارحانہ مہمات کے دوران شام کے علاقے کا مسلمانوں کے لئے ہمیشہ سے ایک مستحکم پل کی حیثیت رکھنا شام کو اس اہمیت کا حامل بناتا ہے۔ شام ہمیشہ سے ہی افواج کی تیاری اور لشکروں کے پڑاؤ کا مرکز رہا ہے۔ اگرچہ یہ انقلاب بظاہر یوں لگتا ہے کہ دب چکا ہے، لیکن اس انقلاب کی چنگاریاں راکھ کے نیچے دبی ہوئی آگ کی مانند ہیں۔ یہ چنگاریاں ہر ہوا کے جھونکے کے ساتھ دوبارہ دہکنے لگتی ہیں، جو ان عناصر کے لیے ایک پیچیدگی پیدا کئے ہوئے ہیں جو اس آگ کو بجھا دینا چاہتے ہیں۔ وہ دھڑے، جو مختلف اسلامی فکری تحریکوں کی پیداوار تھے، انہیں ترک حکومت کے سپرد کر دیا گیا تاکہ امریکی خارجہ پالیسی کے منصوبوں کے مطابق ان سے معاملہ کیا جا سکے۔ تاہم، ترک حکومت، جو کہ ایک علاقائی طاقت اور نیٹو کی اہم رکن ہے، اب تک اس گھناؤنے کھیل اور امریکہ کی جانب سے تفویض کردہ نیچ کردار میں ناکام رہی ہے۔ ترک حکومت مسلمانوں کے ایک طبقے کی نظر میں ”اسلامی حکومت“ سمجھی جاتی ہے، حالانکہ یہ اپنی اصل میں ایک سیکولر حکومت ہے جو اسلامی لبادہ اوڑھے ہوئے ہے۔ اور شام میں عرب بہار کے آخری گڑھ کو دفن کرنے کی آخری کوشش کے مرحلے میں وقت اور اہم سنگِ میل کے قریب آنے کے ساتھ ہی ترک حکومت کا یہ لبادہ بھی گر چکا ہے۔
حالیہ دور نے یہ ظاہر کیا ہے کہ ترکی مکمل طور پر انقلاب ختم کرنے کے آخری مرحلے میں ناکام رہا ہے۔ اس ناکامی نے امریکہ کو کئی بار مداخلت کرنے پر مجبور کیا، تاکہ ترکی کی کی گئی غلطیوں کو درست کیا جا سکے۔ امریکہ نے اس ناکامی کی سنگینی کو محسوس کیا، کیونکہ اس کے نتیجے میں ایک ایسی عوام کی تحریک کے خلاف برسوں کی سخت محنت ضائع ہو سکتی تھی، جو بے پناہ عزم اور مصمم ارادے رکھتی ہے۔ یہی عزم اور ارادہ حقیقی رکاوٹ ہے، اور اس کے ساتھ ساتھ وہ شعور بھی جو اس انقلاب کے مخلص عناصر کے ذریعے پھیلایا گیا اور اس سے فریب دینے والوں کی چالوں کو بے نقاب کیا گیا۔ دھوکہ دینا انقلاب کے دشمنوں کے ترکش کا سب سے آخری تیر ہے۔ جونہی اس دھوکے کا ادراک ہو گیا اور وہ دھوکہ بے نقاب اور ظاہر ہو گیا، تو یہ انقلاب کے دشمنوں کی شکست کا پیش خیمہ بن گیا۔ تو پھر اُن باشعور مخلص عناصر کا کیا کہنا جو انقلاب کو ناکام بنانے کے منصوبوں کو آشکار کرتے ہیں، جبکہ ان کے پاس اسلامی عقیدہ سے ماخوذ حل اور متبادل نظام بھی موجود ہو، جو کہ دنیا کے ہر مسلمان کی خواہش ہے؟! یقیناً، آنے والے دنوں میں نتائج نہایت شاندار ہوں گے، ان شاء اللہ !
ترکی کی حکومت اس مقام تک جا پہنچی ہے کہ جہاں اس نے اپنے تمام وعدوں کو توڑ دیا ہے، اپنی باتوں سے مکر گئی اور اس حکومت نے اسی سابقہ مجرم نظام کو بچانے کے لئے سخت محنت شروع کر دی ہے، اور اس نظام کی باقیات کو مجبور کیا جا رہا ہے کہ وہ ترک حکومت کے ساتھ معمول پر آجائیں۔ یہ معاملہ آزاد علاقوں سے دستبردار ہونے اور انہیں بشار الاسد کے غنڈوں کے حوالے کرنے سے پہلے کا ہے، وہ بشار جو کہ اپنی تمام تر قانونی حیثیت کھو چکا تھا، خاص طور پر اس کے بعد جب شام کے لوگوں کے خلاف بشار الاسد کے اپنے جرائم انتہائی حد تک سفاک ترین تھے اور یہ کہ اس کی طرف سے غنڈوں اور ملیشیاؤں کا بلوایا جانا کہ وہ اس کی اپنی عوام کا قتل کریں اور انہیں اذیتیں دیں۔ اسد کی حکومت اپنی قانونی حیثیت کھو چکی تھی یہاں تک کہ روس اور ایران کے زیر کنٹرول علاقوں میں مختلف امور پر روس اور ایران کا تسلط ہونے کے پیش نظر شام کی حکومت ایک برائے نام حکومت بن کر رہ گئی تھی، جس کا ملک میں کوئی مضبوط فیصلہ کن اختیار نہ رہا تھا۔ ترکی کی اس نئی مہم کے اپنے اسباب، وجوہات اور عزائم ہیں، جن کی ہدایات امریکہ نے فراہم کی ہیں۔ ترکی امریکی ہدایات پر عمل کر رہا ہے، خاص طور پر یہودی وجود کو شام میں ایرانی موجودگی کے خلاف متحرک کرنے کے سلسلے میں۔ اور یہ سب اثر و رسوخ کی دوڑ میں مفادات کی جنگ ہے، جس میں امریکہ ترکی کو مستقبل کے ایک کردار کا وعدہ دے کر شام میں توازن پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے، اور اس میں ایران کی حکومت کے ساتھ باہمی تعاون شامل ہے۔ اور یہ سب نئی صف بندیوں اور خطے کی تشکیل کے منصوبوں کے تحت ہو رہا ہے، جو کہ ایک ایسے وقت میں طے پا رہے ہیں جب انقلابات اور مسلم عوام کی تحریک نے ان الحاق اور گٹھ جوڑ کو کمزور کر کے رکھ دیا ہے اور ان کے پاس یہ اہلیت ہی نہیں ہے کہ وہ اس تحریک کا سامنا کر پائیں سوائے اس کے وہ ظلم و جبر کا سہارا لیں، یعنی اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے پاس حقیقت میں مسلمانوں کا سامنا کرنے کے لئے شدید فکری فقدان ہے ۔
یہ منصوبے ایران اور ترکی کے درمیان خطے کی ریاستوں میں توازن کے قیام کی کاوشیں ہیں، جو کہ انہیں امریکہ کے منصوبوں کی خدمات کے بدلے میں دئیے جا رہے ہیں، خاص طور پر شام اور فلسطین میں ترکی اور ایران کی طرف سے کی جانے والی خدمات کے عوض۔ یہ کوششیں انتہائی اہمیت کی حامل ہیں، خاص طور پر ”طوفان الاقصیٰ“ اور غزہ کی جانب سے حیران کن حد تک ثابت قدمی کے بعد، حالانکہ دنیا کی بڑی طاقتیں یہودی وجود کے ساتھ کھڑی تھیں۔ اور غزہ کے لوگوں کی یہ ثابت قدمی اس کے باوجود تھی کہ عرب حکومتوں نے بے عملی اور ناکامی دکھائی اور یہاں تک کہ ان عرب حکومتوں نے اس جنگ میں یہودی وجود کے ہمراہ حقیقتاً عملی شمولیت رکھی۔ یہ سب عوامل اسلام اور کفر کے مابین تہذیبی تصادم کی ایک جھلک پیش کرتے ہیں۔ میری رائے میں یہ اسلام کے غالب آنے سے پہلے کا آخری مرحلہ ہے، خاص طور پر اس لیے کہ غزہ کی ثابت قدمی اور الشام کا انقلاب تاریخ میں ایک منفرد مثال پیش کرتے ہیں، جو کہ امت کے عنقریب بیدار ہونے کی تصدیق کرتے ہیں۔ مغربی عہدیداروں کی تنبیہات کے پیش نظر، مشرق وسطیٰ کی صورتحال خطرے کے ایک نازک ترین مرحلے تک پہنچ چکی ہے۔ اور یہ ایک ایسے وقت میں ممکنہ خطرے کی گھنٹی ہے، جب دنیا کے سب سے اہم خطے، اور اس کے جغرافیائی و اسٹریٹجک مرکز میں عالمی نظام کے پیدا کردہ مسائل کا کوئی مؤثر حل موجود نہیں ہے۔
اسلامی تہذیب ماضی میں بھی، اور آج بھی، مغربی تہذیب کا واحد حریف رہی ہے۔ اسلام، اپنے عقیدے، قوانین اور نظام کے ساتھ، اس خطے میں بیشتر انقلابوں کی محرک قوت تھا۔ اسلام کو اقتدار میں لانے کے لئے تحریکوں کی ناکامی کی بنیادی وجہ ان تحریکوں اور رجحانات کا اسلام کا درست فہم رکھنے میں غلط فہمی ہے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ مغرب کی حمایت اور ان تحریکوں کے عملی اقدامات کا فقدان بھی شامل حال رہا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ان تحریکوں کا منظرنامہ پر کبھی غالب آ جانا اور کبھی ناکامی کا سامنا ہونا بھی سبب کے طور پر رہا ہے۔ یہ صورتحال مغرب اور اس کی تہذیب کے لیے سب سے اہم کامیابی تھی، وہ مغربی تہذیب کہ جس کا سورج اب بس غروب ہوا ہی چاہتا ہے۔ اسلام کی اقتدار میں واپسی اس وقت ہی ممکن ہو گی جب مسلمان اپنے قدموں پر کھڑے ہوں گے اور اپنی ریاست کی بنیاد مضبوط بنیادوں پر رکھیں گے۔ یہ وہ خلافت ہوگی جو ایک ایسی جماعت کے زیر قیادت ہو، جو اسلام، اس کے قوانین، اس کے نظام اور اس طریقے سے گہری آگاہی رکھتی ہو، جو رسول اللہ ﷺ نے ہمیں سکھایا ہے۔ اسلامی ریاست کی واپسی کی راہ میں موجود کئی رکاوٹیں کمزور ہو چکی ہیں۔ مسلمان اپنے دین سے جڑ چکے ہیں اور اس کی ریاست کی واپسی کے لیے بے تاب ہیں۔ اب یہ بس کچھ ہی دیر کی بات ہے کہ اللہ ﷻ ان لوگوں کے لیے اپنے وعدے کو پورا کر دے جو اس دنیاوی زندگی میں حق کے مضبوط کلمے پر ایمان رکھتے ہیں، اور کرۂ ارض طویل عرصہ کی ناانصافی اور تاریکی سہنے کے بعد دوبارہ سے اپنے رب کی ہدایت سے منور ہو جائے۔ یہ صرف کچھ ہی دیر کی بات ہے کہ امت کی زندگی میں پھر سے رونق ہو جائے، تا کہ یہ امت اپنی کمزوری اور ذلت کو ترک کرے، اور اپنے دشمنوں کے سامنے سر اٹھا کر کھڑی ہو جائے۔ یہ بس کچھ ہی دیر کی بات ہے کہ امت اپنے رب کے پیغام کو مضبوطی سے تھام لے گی، اپنے دین کو مضبوطی سے پکڑ لے گی، اور ایک بار پھر سے دنیا میں نکل کھڑی ہو گی تا کہ انسانیت کے کندھوں سے غلامی اور استعمار کے برسوں کے بوجھ کو ہٹا دے، لوگوں کو اندھیروں سے روشنی کی طرف لے آئے، انہیں لوگوں کی غلامی سے نجات دلا کر لوگوں کے رب کی عبادت کی طرف لے آئے، انہیں دیگر نظاموں کے ظلم سے نکال کر اسلام کے عدل کی طرف لے آئے، اور دنیا کی تنگیوں سے نکال کر دنیا اور آخرت کی وسعت کی طرف لے جائے۔ اور یہ سب اللہ ﷻ کے لئے قطعی بھی مشکل نہیں ہے۔