الإثنين، 23 جمادى الأولى 1446| 2024/11/25
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

عالمی شہریت- ایک مغربی ایجنڈا

مریم انصاری - پاکستان

 

مسلم ممالک میں تعلیمی نظام پر نوآبادیات اور نئی نوآبادیات (Neocolonialism) کا اثر مسلم امت پر واضح ہو چکا ہے۔ اکیسویں صدی میں تِھنک ٹینکس اور حکومتی پالیسی کو متاثر کر کے مسلم ممالک کے تعلیمی نصاب میں مغربی ممالک کی طرف سے مسلسل مداخلت کی گئی۔ اس مضمون میں ہم پاکستان میں چوتھی اورپانچویں جماعتوں کے لیے معاشرتی علوم کے نئے واحد قومی نصاب (SNC) میں شامل کیے گئے شہریت کے تصور کو زیر بحث لائیں گے۔ شہریت کا مغربی تصور پہلے ہی او- لیول کے نصاب میں موجود ہے جو پاکستان میں پڑھایا جاتا ہے ، کیونکہ او لیول کا نصاب برطانیہ کے سیکولر معیار کے مطابق ہے۔


اقوامِ متحدہ ایک خطرناک ایجنڈے کے مطابق مغربی نظریات کے تصورات کو عالمگیر universal بنانے کے لیے شہریت کے تصور کو فروغ دیتی ہے۔ سرمایہ داریت کی مغربی آئیڈیالوجی کئی ذرائع سے پوری دنیا میں پھیل چکی ہے۔ اقوامِ متحدہ بھی ایک ایسا ہی مؤثر ذریعہ ہے جسے سرمایہ دارانہ نظام مسلم سرزمین میں تعلیمی نظام کے ذریعے اپنے نظریات کو پھیلانے کے استعمال کرتا ہے۔ مغربی تعلیمی نظاموں کو اپنانے سے مسلم نسلوں کے خیالات کو سرے سے بدل دیا گیا ہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ انہیں بھرپور انداز میں غیر ملکی ثقافت سے روشناس کروا یا گیا جسے اس انداز سے پیش کیا جاتا ہے کہ مغرب اپنے افکار ، ثقافت اور تہذیب میں اعلیٰ و برتر ہے۔ انگریزی، سائنس، تاریخ اور معاشرتی علوم جیسے مضامین اس مقصد کو آسان بناتے ہیں۔ اس حکمت عملی کے نتیجے میں کچھ تصورات، جیسے جمہوریت اور قومی ریاست دنیا کے معاشروں میں عام اور عالمگیر ہو گئے ہیں۔

 

کسی بھی نظریہ کے لیے اپنے عقیدے، نظریات اور نظام کو دنیا کے سامنے پیش کرنا فطری بات ہے۔ اسلام کا مقصد بھی اپنے عقائد،نظریات اور نظام کو پیش کرکے دنیا پر غالب ہونا ہے۔ تاہم، اس مقصد کو حاصل کرنے کا اسلامی طریقہ، ذرائع اور انداز بہت مختلف ہیں۔ مغرب سرمایہ داروں کے فائدے کے لیے اپنا ورلڈ آرڈر مسلط کرنا چاہتا ہے، جبکہ اسلام انصاف پر مبنی ورلڈ آرڈر قائم کرتا ہے۔ مغرب نے 20 ویں صدی کا پہلا نصف قومی ریاستوں کے تصور کو فروغ دینے میں صرف کیا۔ اقوام متحدہ کو عالمی نظام کو ایک نئی طرز پر ترتیب دینے کے لیے بنایا گیا تھا۔ اسی سلسلے میں عثمانی خلافت کوختمکر دیا گیا اور مختلف لوگوں کو، جو کئی صدیوں سے اسلام کی حکمرانی میں رہتے تھے، خود ارادیت ، قوم پرستی اور قومی ریاستوں کے نام پر دوسری سرزمینوں پر ہجرت کرنے پر مجبور کر دیا گیا۔ قومی ریاست کی خودمختاری نئے عالمی نظام میں سرایت کر گئی اور کسی بھی ریاست کو فوج کشی کے ذریعے اپنی سرحدوں کے بڑھانے کو 'بین الاقوامی قانون' کے تحت غیر قانونی قرار دے دیا گیا۔ یہ اسلامکی خارجہ پالیسی پر براہ راست حملہ تھا۔ اس طرح قومی ریاستوں کو عام کر دیا گیا۔ مزید یہ کہ جمہوریت کو ایک بہترین اور ترقی پسند نظام حکمرانی کے طور پر پیش کیا گیا۔ تاہم اس کمزور تصور میں پایا جانے والا تضاد ظاہر تھا۔ جمہوریت کا پرچار کرنے والے مغرب نے بادشاہوں اور آمروں کے بھیس میں ایجنٹ حکمران بنائے اور اپنے مقاصد کو آگے بڑھانے کے لیے ان سے تعلقات قائم کیے۔ چنانچہ حقیقت میں جمہوریت کا تصور مغرب کے مقرر کردہ ایک پیمانے سے زیادہ کچھ نہیں جس سے وہ کسی بھی قوم کی ترقی کا تعین کرتے ہیں۔

 

دوسری جنگ عظیم کے بعد اور اقوام متحدہ کی تشکیل کے ساتھ ، شہریت کی بنیاد قومیت پر طے کر دی گئی نہ کہ عقیدہ کی بنیاد پر۔ امت کا تصور مٹ گیا اور مسلمان آزادی کے دھوکے میں اپنے نوآبادیاتی آقاؤں کے پیش کردہ پرچموں کے وفادار بن گئے۔ 20 ویں صدی کے آخر میں ، مغربی نظریہ نے عالمگیریت(globalization)  کے رجحان کو بہت زیادہ فروغ دیا۔ اس تصور کا حقیقی ایجنڈا ایک ہم آہنگ اور متحد دنیا کے دھوکے میں چھپا ہے۔ عالمگیریت کی کئی تعریفیں ہیں: "عالمگیریت قومی معیشتوں کو تجارت ، براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری (کارپوریشنز اور ملٹی نیشنلز کے ذریعے) ، قلیل مدتی سرمائے کے بہاؤ ، مزدوروں اور عمومی طور پر انسانیت کے بین الاقوامی بہاؤ ، اور ٹیکنالوجی کے بہاؤ کے ذریعے بین الاقوامی معیشت میں ضم کرتی ہے " (بھاگوتی ، 2006) اور "عالمگیریت دنیا بھر کی معیشتوں اور معاشروں کا بڑھتا ہوا انضمام ہے" (کولیئر اور ڈالر ، 2001)۔

 

یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ 'عالمگیریت' کی اصطلاح کسی خاص قسم کے معاشرے کا تعین نہیں کرتی اور یہ دنیا بھر میں مقامی توسیع اور انضمام کا ایک عمل ہے۔ تاہم ،غور کرنے سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ یہ ایک مغربی نظریہ ہے جو مغرب سے مشرق تک پھیل گیا ہے۔ جبکہ خیالات ، اقدار یا نظاموں کی مشرق سے مغرب کوئی منتقلی نہیں ہوئی ہے۔ عالمگیریت وہ عمل ہے جس کے ذریعے مغربی آئیڈیالوجی نے سیکولرزم کے اپنے عقیدے ، آزادی کے نظریات ، انسانی حقوق کی اقدار اور دنیا بھر میں اس کے جمہوریت کے نظام کو فروغ دیا ہے۔ عالمی سطح پرمشہور کی گئی ثقافت اس حقیقت کا ثبوت ہے۔ یہ مغربی نظریہ ہے جو عالمی شہری کے تصور کو جو مغربی اقدار کو مجسم کیے ہوئے ہے، فروغ دینے کی کوشش کرتا ہے ۔ لہذا جو کوئی بھی اس کے مطابق نہیں ہے وہ انتہا پسند ہے یا عدم برداشت کا قائل ہے۔ اس طرح ، مغربی نظریہ نے یہ بیانیہ تخلیق کیا ہے کہ ایک اچھا شہری وہ ہے جو اس کی اقدار کو اپناتا ہے۔

 

نیا معاشرتی علوم کا نصاب 'عالمی شہری' پر زور دیتے ہوئے شہریت کے موضوع سے شروع ہوتا ہے اور مندرجہ ذیل کلیدی تصورات کی تعریف سامنے رکھتا ہے: شہری،عالمی اور ڈیجیٹل شہری، حقوق اور ذمہ داریاں،تنوع، رواداری، امن اور تنازعات کا انتظام، عام آداب (صفحہ 25)۔ یہ الفاظ بظاہر بے ضرر لگتے ہیں لیکن یہ سب اپنے اندر ایک نظریاتی مفہوم رکھتے ہیں جو مغربی نظریے کی بالادستی کو آسان بناتے ہیں۔ یہ مفاہیم ذیل میں زیر بحث ہیں۔

 

موضوع نمبر1 - شہریت:معیار 1 - شہری حقوق اور ذمہ داریوں کی شناخت کریں اور بتائیں کہ وہ وقت کے ساتھ کیوں بدل سکتے ہیں۔

کسی بھی معاشرے میں شہریت کے تصورات کی وضاحت اس معاشرے کے عقائد سے ہونی چاہیے۔ ایک جمہوری معاشرے میں ، شہریوں کے حقوق اور ذمہ داریوں کی وضاحت پارلیمنٹ یا کانگریس کے بنائے گئے قوانین سے ہوتی ہے۔ یہ تصورات کئی صدیوں کے ارتقاء کا نتیجہ ہیں کیونکہ یہی انسان کے بنائے ہوئے قوانین کی فطرت ہے۔ 1960 کی دہائی میں ، برطانیہ میں شہریوں کو ہم جنس پرستی کی اجازت نہیں تھی۔صرف 50 سال کے عرصے میں  نہ صرف اس سرگرمی کوقبول کرنے کے لیے قانون میں تبدیلی کی گئی ہے ، بلکہ اسے نئے سرے سے ایک بنیادی حق کے طور پر متعین کر دیا گیا ہے۔ مزید قانون سازی نے ہم جنس پرستوں کو شادی اور گود لینے کے حقوق کی اجازت بھی دے دی ہے۔ اس طرح مغربی قوانین کی وقت کے ساتھ تبدیل ہو نے کی فطرت واضح ہے۔ SNC جمہوریت کے نظام کو فروغ دیتا ہے جس کی وجہ سے جمہوریت کی تاریخی ترقی نصابی کتب میں شامل کر دی گئی ہے۔ اسے ایک مسلسل ارتقاء کرتے ہوئے نظام کے طور پر پیش کیا گیا ہے جو معاشرے میں بہتری لاتا ہے۔SNC کے مطابق ایک اچھا شہری وہ ہے جو جمہوریت کی پیروی کرتا ہے اور حکومت کی بہترین شکل کے طور پراس کی تشہیر کرتا ہے اور سیکولرازم ، آزادی اور جمہوریت کی اقدار پر یقین رکھتا ہےجو سب مغربی نظریے کے بنیادی ستون ہیں۔

 

 SNC مسلمانوں کے نظامِ خلافت کے بارے میں ذکر نہیں کرتا ، جس میں حاکمیت اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی ہے اور قوانین وقت اور جگہ کے ساتھ تبدیل نہیں ہوتے۔ حکمرانی کی بنیاد قرآن اور سنت ہے ، جس میں نئے معاملات پر اصولوں کی بنیاد پر اجتہاد کی اجازت دی گئی ہے۔ یہ قوانین زمان و مکان کی وجہ سے تبدیل نہیں ہوتے۔ اسلام کے مطابق شہری کا تصور وہ ہے جو اسلامی خلافت کے سائے میں رہتا ہے۔ خلافت کے اندر کے رہنے والے شہری مسلمان بھی ہو سکتے ہیں اور غیر مسلم بھی۔ ان کا تعلق کسی بھی نسل سے ہو سکتا ہے۔ غیر مسلم شہریوں کو اہل ذمہ ،یعنی معاہدے کے لوگ کہا جاتا ہے۔ وہ معاہدہ کرتے ہیں کہ ریاست کے قوانین کی اطاعت کریں گے اور بدلے میں ریاست ان کی جان ، مال اور عزت کی حفاظت کرے گی۔ اسلامی تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے جو ثابت کرتی ہے کہ خلافت وہ واحد حقیقی ریاست تھی جس نے اپنے شہریوں کے حقوق کا تحفظ کیا۔ کوئی دوسری آئیڈیالوجی ایسا نہیں کر سکی۔ اسلامی آئیڈیالوجی کی کامیابی مسلم حکمرانوں کے تقویٰ کے تصور کی وجہ سے تھی ، جو اہل ذمہ کے تحفظ کو اپنی ذمہ داری سمجھتے تھے۔ یہ عمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی پر مبنی سنت سے پروان چڑھا ہے۔

 

ہم پر یہ فرض ہے کہ ہم اہلِ ذمہ کو وہ تحفظ دیں جو مسلمانوں کو حاصل ہے، جس کی وجہ رسول اللہ ﷺ کے یہ الفاظ ہیں

«أَلا مَنْ قَتَلَ نَفْسًا مُعَاهِدًا لَهُ ذِمَّةُ اللَّهِ وَذِمَّةُ رَسُولِهِ فَقَدْ أَخْفَرَ بِذِمَّةِ اللَّهِ، فَلا يُرَحْ رَائِحَةَ الْجَنَّةِ، وَإِنَّ رِيحَهَا لَيُوجَدُ مِنْ مَسِيرَةِ سَبْعِينَ خَرِيفًا»

"بے شک جو شخص کسی معاہد کو قتل کرتا ہے یعنی جس کو اللہ کی طرف سے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے عہدِ امان حاصل ہے ، تو اس نے اللہ کے ساتھ عہد اور اس کے رسول کے عہد کی خلاف ورزی کی ہے اور وہ جنت کی خوشبو تک نہیں سونگھے گا۔ اگرچہ اس کی خوشبو ستر سالوں کی مسافت سے محسوس کی جا سکتی ہے"،

 

ترمذی نے نقل کیا۔ اوربخاری نے اسے ان الفاظ کے ساتھ نقل کیا ،

«مَنْ قَتَلَ مُعَاهَدًا لَمْ يَرِحْ رَائِحَةَ الْجَنَّةِ وَإِنَّ رِيحَهَا تُوجَدُ مِنْ مَسِيرَةِ أَرْبَعِينَ عَامًا»

"جس نے کسی معاہد کو قتل کیا (جس کو مسلمانوں نے تحفظ کا عہد دیا ہوا ہو) وہ جنت کی خوشبو تک نہیں سونگھے گا حالانکہ اس کی خوشبو چالیس سال کے فاصلے پر سونگھی جا سکتی ہے"۔

 

کافر اہلِ ذمہ کے وہی حقوق ہوتے ہیں جو مسلمانوں کو ان کے معاملات کو سنبھالنے اور اپنی زندگی کو محفوظ بنانے کے حوالے سے حاصل ہیں۔ ابو موسیٰ اشعریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:

أَطْعِمُوا الْجَائِعَ، وَعُودُوا الْمَرِيضَ، وَفُكُّوا الْعَانِيَ 

"بھوکے کو کھانا کھلاؤ ، بیمار کی عیادت کرو اور قیدی کو (تاوان ادا کر کے) رہائی دلاؤ"

 

بخاری۔ اور اپنی سنن میں ابو داؤد کی روایت ہے

«عَلَى أَنْ لاَ تُهْدَمَ لَهُمْ بَيْعَةٌ، وَلاَ يُخْرَجَ لَهُمْ قَسٌّ، وَلاَ يُفْتَنُوا عَنْ دِينِهِمْ مَا لَمْ يُحْدِثُوا حَدَثًا أَوْ يَأْكُلُوا الرِّبَا»

"ان کا کوئی چرچ مسمار نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی ان کا کوئی پادری نکالا جائے گا۔ ان کے مذہب میں کوئی رکاوٹ نہیں آئے گی (کہ انھیں زبردستی ان کے عقیدے سے دور کیا جائے) جب تک وہ ہمارے معاملے میں کوئی ایسی چیز متعارف نہ کرائیں جو اس میں سے نہیں یا سودلیں"۔

 

رسول اللہ ﷺ ان کے بیماروں کی عیادت کرتے تھے ، جیسا کہ بخاری نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے ،

«كَانَ غُلاَمٌ يَهُودِيٌّ يَخْدُمُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم فَمَرِضَ، فَأَتَاهُ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم يَعُودُهُ، فَقَعَدَ عِنْدَ رَأْسِهِ فَقَالَ لَهُ ‏‏ أَسْلِمْ ‏‏‏.‏ فَنَظَرَ إِلَى أَبِيهِ وَهْوَ عِنْدَهُ فَقَالَ لَهُ أَطِعْ أَبَا الْقَاسِمِ صلى الله عليه وسلم‏.‏ فَأَسْلَمَ، فَخَرَجَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم وَهْوَ يَقُولُ ‏‏ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَنْقَذَهُ مِنَ النَّارِ»

"ایک نوجوان یہودی لڑکا رسول اللہﷺ کی خدمت کرتا تھا، وہ بیمار ہو گیا۔ چنانچہ نبی ﷺ اس سے ملنے گئے۔ آپ ﷺ اس کے سرہانے بیٹھے اور اسے اسلام قبول کرنے کے لیے کہا۔ لڑکے نے اپنے والد کی طرف دیکھا ، جو وہاں بیٹھا ہوئے تھا؛ اس نے کہا کہ ابوقاسم کی اطاعت کرو اور لڑکے نے اسلام قبول کر لیا۔ رسول اللہ ﷺ یہ کہتے ہوئے باہر آئے :تمام تعریفیں اس اللہ کی ہیں جس نے اس لڑکے کو آگ سے بچا لیا"۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کفار سے ملنے ، ان کے ساتھ شائستہ اور ملنسار رہنے کی اجازت ہے۔

 

بخاری نے عمرو بن میمون سے ، انھوں نے عمر بن خطابؓ سے روایت کیا جنھوں نے اپنی موت کے وقت مشورہ دیا، "اور میں اپنے بعد خلیفہ کو یہ اوریہ مشورہ دیتا ہوں ، اور اسے مشورہ دیتا ہوں کہ اللہ اور اس کے رسول کی قسم ، وہ اہلِ ذمہ کے عہد کو پورا کرے ، ان کی خاطر لڑے اور انہیں ان کی طاقت سے زیادہ کام کرنے پر مجبور نہ کرے"۔

 

اسلام کےاولین ادوار کے علماء نے اس طرح مسلمانوں پر ذمیوں کے حقوق کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ مشہور مالکی فقیہ ، شہاب الدین القرافی فرماتے ہیں: "تحفظ کا عہد ہم پر اہلِ ذمہ کی کچھ ذمہ داریاں عائد کرتا ہے۔ وہ ہمارے پڑوسی ہیں ، ہماری پناہ اور حفاظت میں ہیں، اللہ، اس کے رسول ﷺ اور دینِ اسلام کی ضمانت پرہیں۔ جو کوئی ان میں سے کسی ایک کے ساتھ، ان کے بارے میں طے کردہ ذمہ داریوں، کی خلاف ورزی کرتا ہے ،چاہے صرف گالی دے کر ہی اس کی ساکھ کو بدنام کرتا ہے ، یا اسے کوئی چوٹ پہنچاتا ہے یا اس میں کسی کی مدد کرتا ہے ، اس نے اللہ ، اس کے رسول ﷺ اور دین کی ضمانت کی خلاف ورزی کی ہے"۔

 

موضوع نمبر1 - شہریت: معیار 1 - انسانی حقوق- اقوام متحدہ کے بیان کردہ بنیادی انسانی حقوق کی پہچان کریں۔

نصاب میں بیان کردہ یہ معیار واضح طور پر اقوام متحدہ کے ایجنڈے کے مطابق ہے جیسا کہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے اعلامیہ (UNDHR) کی شق 18 جس میں کہا گیا ہے کہ: ہر ایک کو سوچ ، ضمیر اور مذہب کی آزادی کا حق حاصل ہے۔ اس حق میں اپنے مذہب یا عقیدے کو تبدیل کرنے ، اپنے مذہب یا عقیدے کی ترویج خواہ یہ اکیلے ہو یا معاشرے میں دوسروں کے ساتھ ،عوامی سطح پر ہویا نجی طور پر ، عمل ، عبادت اور مشاہدے  کی آزادی شامل ہے۔

 

UNDHR میں زیر بحث انسانی حقوق مسلمانوں کے لیے معیار نہیں ہو سکتے۔ اسلام نے اپنے عقیدے کے مطابق حقوق کا تعین کیا ہے۔ ایک بار جب ایک مسلمان ایک فکری عقیدہ قائم کر لیتا ہے ، تو اس کے خیالات ، اقدار اور جذبات اسلام کے معیار کی بناء پر متعین ہو تے ہیں ، جس سے وہ ایک ممتاز اسلامی شخصیت کے طور پر سامنے آتا ہے۔ اسلام اپنے بنیادی افکار پر سوال اٹھانے کی اجازت نہیں دیتا ، اور بحث یا اختلاف رائے کی اجازت صرف مباح معاملات تک محدود ہے ۔ اسلام عقائد پرعمل کرنے کے معاملے میں اپنے شہریوں کے حقوق کی حفاظت کرتا ہے اور خلیفہ کو اس بات پر مجبور کرتا ہے کہ وہ شریعت کی طرف سے دیے گئے تمام حقوق کی حفاظت کرے۔

 

()موضوع نمبر1- شہریت: معیار 1 – تنوع(diversity) اور رواداری – اس بات کا ادراک کریں کہ تمام افراد کو مساوی حقوق حاصل ہیں ، چاہے کسی بھی طرح کے مذہبی اور نسلی اختلافات ہوں ، اور رائے میں انفرادی اختلافات کا احترام کرنا سیکھیں۔

 

تنوع اور رواداری جمہوری معاشروں کی بنیاد سمجھے جاتے ہیں۔ یہاں رواداری اور کسی بھی نظریے یا مذہب کو اختیار کرنے کا حق بہت اہمیت رکھتا ہے۔ مغربی ممالک خود کو جمہوریت اور آزادی کے لیے مثالی نمونہ سمجھتے ہیں۔ تاہم ، یورپ میں اسلامی اقدار کے حوالے سے عدم برداشت کے رویے نے ان انسانوں کے بنائے ہوئے ناقص خیالات کے تضاد کو بے نقاب کر دیا ہے۔ یورپی ممالک میں برقع ، چہرے کے نقاب اور میناروں پر پابندی غیر مغربی مذاہب اور ثقافتوں کے لیے عدم برداشت کی مثالیں ہیں۔ مغربی میڈیا مسلمانوں اور اسلام کے خلاف نفرت انگیز تقریروں سے بھرا ہوا ہے اور عدم برداشت کی فضا پیدا کر رہا ہے جس کی وجہ سے مسلمانوں کے خلاف پرتشدد جرائم میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ممتاز مغربی رہنما اور سیاستدان اسلام سے اپنی نفرت کو روکے نہیں رکھتے بلکہ وہ اسلامی آئیڈیالوجی کو بدنام کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے جو نفرت اور عدم برداشت کا باعث بنتا ہے۔ اسلامی لباس پر پابندی مسلمانوں کو مغربی ثقافت میں ضم ہونے  پر مجبور کرتی ہے جس سے تنوعdiversity  کے تصورکا جھوٹ ثابت ہو جاتا ہے جسے مغرب فروغ  تو دیتا ہے ، لیکن اس پر عمل نہیں کرتا۔

 

اسلام کے مطابق لوگوں کے عقائد کو طاقت کے زور پر تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ اسلام نے اپنے تمام شہریوں کو عقیدہ یا نسل سے قطع نظر تحفظ فراہم کیا۔ اسلام اپنے غیر مسلم شہریوں کو ان کے گھروں میں ان کے عقائد پر عمل کرنے کی اجازت دیتا ہے، تاہم  انہیں اس بات کی اجازت نہیں ہوتی کہ وہ معاشرے میں اپنے عقیدے کی ترویج کریں۔ اسلام سے پہلے ، وہ سلطنتیں جو قوموں کو فتح کرتی تھیں وہ لوگوں پر ظلم کرتی تھیں اور انہیں اپنے طرز زندگی پر چلنے کیلئے مجبور کرتی تھیں۔ مغربی آئیڈیالوجی بھی امریکہ کی مقامی آبادی اور آسٹریلیا کے باشندوں کی نسل کشی کے لیے  مشہور ہے۔ یہ مغربی نظریہ ہے جو تنوع کو برداشت نہیں کرتا تھا۔ عیسائی مشنریوں کو افریقہ ، ایشیا ، لاطینی امریکہ اور جنوبی امریکہ بھیجا گیا تاکہ لوگوں کو عیسائیت قبول کرنے پر مجبور کیا جائے۔ مغرب کایہ بیانیہ کہ وہ ایک متنوع اور روادار معاشرہ پیدا کرتا ہے، بالکل جھوٹ ہے جسے امریکہ میں حالیہ Black Lives Matterتحریک نے بھی بے نقاب کر دیا ہے۔ جمہوریت کے 300 سال بعد بھی امریکہ اپنے شہریوں کو مساوی حقوق نہیں دیتا۔

امت مسلمہ کے لیے 'تنوع اور رواداری' میں پوشیدہ خطرہ یہ ہے کہ اسے اسلام کے عقیدہ پر حملہ کرنے کے لیے بنایا گیا ہے۔ رسول اللہﷺ نے خبردار کیا کہ کچھ لوگ اسلام کے حقیقی عقیدے سے ہٹ جائیں گے۔ عباسی خلافت کے دوران ، جب معتزلہ نے غلط عقائد کو اختیار کیا تو علماء نے ان کو چیلنج کیا اور انہیں عقائد کی فروعات میں مسلمانوں کواپنی رائے پر مجبور کرنے سے روکا۔ جو لوگ حدیثیں گھڑتے تھے ان کے ساتھ محدثین کے دور میں نمٹا گیا جنہوں نے علمِ حدیث میں ترقی کے ذریعے اسلام کی حفاظت کی۔ اسلامی حکومت کے 1300 سالوں کے دوران ، اسلام کے عقیدے اور نظاموں کو امت ، علماء اور حکمرانوں نے محفوظ رکھا۔ شریعت ایک مسلمان کو مرتد ہونے سے روک کر اسلامی عقیدے کی حفاظت کرتی ہے۔ مرتدین کے ساتھ سختی سے نمٹا جاتا ہے اور موت کی سزا کی حد کا اطلاق ہوتا تھا جب تک کہ وہ توبہ نہ کریں۔ اس طرح اسلامی عقیدے کی بالادستی برقرار رہتی تھی۔ اسلام فقہ میں صرف اس نص میں اختلاف کی اجازت دیتا ہے جو اپنے معنی میں غیر قطعی (ظنی) یا اپنے ثبوت میں ظنی ہو۔ اسلام کسی کو اسلام کا عقیدہ تبدیل کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ اسلام مسلمانوں کو اپنے دین کو تبدیل کرنے اور قطعی احکامات کو ترک کرنے سے بھی منع کرتا ہے۔

 

موضوع نمبر 1 - شہریت: معیار 1 - اظہارِ رائے کی آزادی کی اہمیت کی وضاحت کریں۔

آزادئ اظہار ایک اور جھوٹ ہے جو خاص طور پر11/9 کے بعد بے نقاب ہو چکا ہے۔ جو بھی دہشت گردی کے خلاف جنگ پر سوال اٹھاتا ہے اسے انتہا پسند قرار دے دیا جاتا ہے۔ مغرب میں سینکڑوں افراد کو ان کی رائے اوراظہار کی آزادی کی وجہ سے گرفتارکیا گیا اور حراست میں لیا گیا جو کہ مغربی حکومتوں کے بیانیے کے خلاف تھی۔ ہولوکاسٹ کے خلاف بولنا ، اور اس کے حقائق پر سوال اٹھانے کے ساتھ ساتھ ایک یہود ریاست کی وجود کی بحث کواٹھانے کو یہود مخالف(anti-Semitic) کا لیبل لگا دیا جاتا ہے اور اس نظریے کے حامیوں کو جیل میں ڈال دیا جاتا ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ کوئی بھی معاشرہ بغیر کسی پابندی کے اپنے شہریوں کو آزادئ اظہار کی اجازت نہیں دے سکتا۔ آزادئ اظہار بھی ایک معیار ہے جسے مغرب ترقی کو ماپنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ اسلام مسلمانوں کے قول و فعل کو پابند کرتا ہے اور ان کو اس حد تک محدود رکھتا ہے جو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کیلئے قابلِ قبول ہے۔ SNC سیکولر ذہن رکھنے والے افراد کے لیے دروازہ کھول دے گا کہ وہ اسلام کے بنیادی اصولوں کو تختۂ مشق بنانا شروع کردیں اور اس طرح اگلی نسل کو اسلامی تصورات کے بارے میں کنفیوژ کریں۔ یہ پہلے ہی اسکولوں اور یونیورسٹیوں میں واضح ہے ، جہاں سیکولر اور اسلام پسند طالب علموں کے درمیان تقسیم واضح ہو چکی ہے۔

 

موضوع نمبر 1 - شہریت: معیار 1 - امن اور تنازعات سے نپٹنا - گھر اور اسکول میں تنازعات کو حل کرنے کے لیے بحث اور مذاکرات کی اہمیت کو سمجھیں۔

پاکستان میں مصنوعی اقوامِ متحدہ (Mock United Nations) خاص طور پر نجی اسکولوں کی سالانہ سرگرمیوں میں ایک مشہور سرگرمی ہے جس میں طلباء کو اقوام متحدہ کے انداز میں متنازعہ مسائل پر بحث کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ بحث کے لیے ہدایات کے دو اصول ہیں - ایک یہ کہ مذہبی احکامات دلیل کا حصہ نہیں بن سکتے اور دوسرا یہ کہ آپ کو کسی تصور کی وکالت کرنی ہے چاہے آپ اس پر یقین نہ بھی رکھتے ہوں۔ یہ بنیادی تصورات اس سوچ کو فروغ دیتے ہیں کہ کچھ بھی مطلقاً (absolute)سچ یا جھوٹ نہیں ہے، ہر شخص کوئی بھی عقیدہ رکھ سکتا ہے اور اس کا برملا اظہار کر سکتا ہے۔ اس طرح ، رائے اور اظہار کی آزادی کو بغیر کسی پابندی کے ایک عالمی قدر کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ تاہم ، جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ مغربی نظریات میں تضادات کا مطلب یہ ہے کہ مغرب کو ہمیشہ یہ محسوس ہو گا کہ ان اصولوں سے استثنیٰexception پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر اسلامی ریاست کی خارجہ پالیسی کے طور پر جہاد کی بات کرنا مغرب میں گرفتاری کا باعث بن سکتا ہے۔ لہٰذاSNC یہ پرچار کرنے کی کوشش کررہاہے کہ مغرب کے پاس امن کو فروغ دینے کے لیے بہترین ذرائع موجود ہیں اور وہ اس تصور کو عالمگیر بنانے کی کوشش کرے گا۔ مذاکرات اور امن کے عمل مغربی خارجہ پالیسی کی ایک خصوصیت بن چکے ہیں اور انہیں امن لانے کے بہترین طریقے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ قابض یہودی وجود کےساتھ تعلقات کو معمول بنانا اور امریکہ کے ساتھ افغان جنگجوؤں کی مفاہمت کچھ مثالیں ہیں جو یہ ظاہر کرتی ہیں کہ تنازعات کو حل کرنے کے اس تصور کو مسترد کرنا کتنا اہم ہے ،کیونکہ یہ مغربی خارجہ پالیسی کا ایک آلہ ہے۔ اسلام کی امن کے بارے میں اپنی ہدایات ہیں ، لیکن یہ اس عمل میں مسلمانوں پر ظلم نہیں ہونے دیتا۔ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے،

﴿وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوهُمْ وَأَخْرِجُوهُمْ مِنْ حَيْثُ أَخْرَجُوكُمْ﴾

"اور ان کو جہاں پاؤ قتل کردو اور جہاں سے انہوں نے تمھیں نکالا ہے  وہاں سے تم بھی ان کو نکال دو"(البقرۃ 2: 191)۔

لہذا اسلام میں امن اور تنازعات کے حل کا تعین اسلام ہی کرے گا نہ کہ اقوام ِمتحدہ کے باطل تصوارت۔

 

موضوع نمبر 1 - شہریت: معیار 1 - عام آداب - آج کی مہذب دنیا میں عام آداب کو پہچانیں اور ان پر عمل کریں۔

مغرب مہذب ہونے پر فخر کرتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ فحاشی اور بے حیائی کے عام ہونے کے ساتھ کیسے مہذب ہے؟ یہ کیسے مہذب ہے جب اس کے اپنے شہری بھوکے اور غیر محفوظ ہیں؟  یہ کیسے مہذب ہے جب یہ جنگوں میں ممنوعہ ہتھیار استعمال کرتا ہے ؟ یہ کیسے مہذب ہے جب یہ اپنے قوانین کو توڑتا ہے اور دوسری قوموں پر حملہ کرتا ہے جس کے نتیجے میں کئی سالوں پر محیط جنگ ہوتی ہے اور شہر ، قصبے اور فطرت مکمل تباہ ہو جاتے ہیں؟ SNC مغربی تہذیب کو ایک معیار کے طور پر رکھنا چاہتا ہے اور مغربی عقائد اور افکار کو عالمگیر(universal) بنانے کی کوشش کررہا ہے۔

 

معاشرتی علوم کے نصاب کے حصوں کا یہ مختصر تجزیہ ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان کے بچوں کو ایک نئی شناخت دی جا رہی ہے۔ یہ عالمگیر شہری کی شناخت ہے۔ یہ شناخت کمزور مغربی تصورات پر قائم کی گئی ہے جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے اور اس کے نتیجے میں وہ مسلمان پروان چڑھیں گے جو جھوٹے مغربی نظریات کوفروغ دیں گے اور امت کو اسلامی آئیڈیالوجی سے منحرف کریں گے۔ مسلم علاقوں میں تعلیمی نصاب اسلام کے عقیدے اور اقدار کا عکس ہونا چاہیے۔ طلباء کو اس کی اقدار میں ڈوبا ہونا چاہیے اور اپنے ورثے پر فخر کرنا چاہیے اور ان کو اسلامی نقطہ نظر سے شہریت کے تصورات سکھائے جانے چاہئیں۔ اسلام اسلامی ریاست کے اچھے مسلمان شہری کی تعریف یوں کرتا ہے کہ جو اسلامی عقیدہ میں پختہ یقین رکھتا ہو، اسلامی شخصیت کا حامل ہو اور اسلامی آئیڈیالوجی کی حفاظت چاہتا ہو۔ مسلمان شہری حکمرانوں کا محاسبہ کرتا ہے ، معاشرے میں امربالمعروف و نہی عن المنکر کے ذریعے اسلامی اقدار کی حفاظت کرتا ہے ۔یہ مسلمان شہری اس بات کا ادراک رکھتا ہے کہ اسے اہلِ ذمہ کی حفاظت اللہ کی عبادت کے طور پر کرنی ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ اسے صحیح آئیڈیالوجی کو دنیا میں پھیلانے اور مغربی آئیڈیالوجی کے اندھیروں سے انسانیت کو نجات دلانے کے لیے اسلامی ریاست کی توسیع کی حمایت کرنی ہے۔SNC کو مسترد کرنا اور ریاستِ خلافت کے قیام کا مطالبہ کرنا ضروری ہے ، جو اسلامی عقیدے پر مبنی تعلیمی نصاب کو یقینی بنائے گی۔

 

Last modified onاتوار, 22 اگست 2021 17:28

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک