الإثنين، 23 جمادى الأولى 1446| 2024/11/25
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

مغرب اپنی حد تک پہنچ رہا ہے جبکہ اسلام دوبارہ ابھر رہا ہے

 

فائق ناجح ، پاکستان

 

آج سے 100 سال پہلے مغرب یہ سوچ بیٹھا تھا کہ اس نے رسول اللہ ﷺ کے دور سے مسلسل چلی آرہی ریاستِ خلافت کا خاتمہ کر کے بالآخر اسلام کو شکست دے دی ہے۔ اس کے بعد کی دہائیوں میں مغرب نے مسلمانوں کے اوپر اس فتح کو پختہ کرتے ہوئے یورپی ویسٹ فیلی ریاستی ماڈل (Westphalian nation-state model) کو مسلم دنیا میں نافذ کیا اور اسلامی ریاست سے کٹی ہوئی ہر مسلم ریاست میں ایک نئی سیکولر قومی ثقافت کوپروان چڑھایا ۔ اور جب یہ بےپناہ پھیلی ہوئی یورپی ریاستیں اپنی افواج کو مسلمان علاقوں سے نکالنے پر مجبور ہوئیں تو ان نے نہایت اعتماد اور اطمینان کے ساتھ اختیار و اقتدار ایک ایسے مقامی ایجنٹ حکمران طبقے کے حوالے کر دیا جو اپنی تمام تر وفاداریاں مغرب کے ساتھ وابستہ کر چکا تھا، مغربی مفادات کا تحفظ کرتا تھا اور مسلمان علاقوں میں زندگی کے متعلق سیکولر لبرل نقطہ نظر نافذ کرتا تھا اور یوں مغربی پلان کی حفاظت ہوتی رہی۔ یقیناً مغرب اسلام کی اس شکست پر اتنا پراعتماد تھا کہ اس نے اپنے علاقے اس امید پر لاکھوں مسلمانوں کی آبادکاری کے لئے کھول دئیے کہ یہ مسلمان بھی اسی طرح مکمل طور پر مغربی سیکولر لبرل زندگی اور ثقافت اختیار کر لیں گے جیسا کہ ان سے پہلے ان کے غدار حکمرانوں نے مغربی نظریہ اپنایا۔ لیکن عثمانی خلافت کے خاتمے کے محض 50 سال بعد ہی دوبارہ سے اسلامی احیاء کے لئے خواہشات اورہل چل معاشرے میں نظر آنا شروع ہو گئی۔ اس کے جواب میں ایجنٹ حکمرانوں نے یا تو سطحی طور پر اسلامی روایات کو اپنانا شروع کردیا یا ظلم و جبر کی آمریتیں قائم کر کے اپنی حاکمیت کو تقویت پہنچائی  یا بعض حالات میں ان دونوں حربوں کو اکٹھے استعمال کیا۔ مغرب میں موجود مسلمان شہریوں کو پہلے تو کثیر الثقافتی (multiculturalism) کے دعوؤں سے ٹھنڈا رکھا گیا لیکن اس کے بعد بڑھتی ہوئی شدت کے ساتھ مغربی سیکولر لبرل روایات کو اپنانے پر مجبور کیا جانے لگا۔ آخرکار، گزشتہ دو دہائیوں میں نام نہاد "دہشت گردی کے خلاف جنگ" کے تحت مغرب نے اسلام کے احیاء  اور امت مسلمہ کو اپنے امور کا انتظام اپنے ہاتھوں میں لینے کو ہر ممکنہ ذرائع سے روکنے کیلئے ایک کھلم کھلا مربوط عالمی مہم کا آغاز کر رکھا ہے۔ اس کے باوجود اسلام کا احیاء جاری ہے،اور امت اپنی شناخت ، اپنی شاندار تاریخ اور اپنے اور تمام انسانیت کے لئے اپنی عظیم ذمہ داری کے متعلق زیادہ سے زیادہ باشعور ہوتی جارہی ہے۔ مغرب اسلام کے دوبارہ عروج اور نشاۃِ ثانیہ سے خوف صرف اس لئے نہیں رکھتا کہ اس کی مسلم علاقوں اور وسائل تک رسائی ختم ہو جائے گی بلکہ اس لیے بھی کہ مغرب اپنی ناقص اور بنیادسےکمزور تہذیب کی نزاکت اور عارضی بالادستی کی اصل پہنچ کو بخوبی جانتا ہے۔

 

مغربی تہذیب اپنے آپ کو صدیوں کی ترقی اور نشونما کی انتہاء کے طور پر پیش کرتی ہے اور اپنا نسب روم اور یونان سے جوڑ کر ہزاروں سالوں کی انسانی کامیابی و ترقی کی تکمیل کا دعویٰ کرتی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ مغربی تہذیب کی بنیاد مکروفریب، غلطیوں اور سمجھوتوں کےسوا کچھ بھی نہیں ہے۔ مغرب کے مفاد پرست نظریے کے سنگین نتائج اس کے زوال پذیر معاشی اور معاشرتی حالات، پستی کی طرف جاتے میڈیا اور تعلیمی معیارات، کرپٹ حکومتی اور غیر مستحکم خارجہ پالیسی میں واضح نظر آتے جا رہے ہیں۔

 

مغرب کا سرمایہ دارانہ معاشی نظام درحقیقت پہلے ہی ناکام ہوچکا ہے مگر اس کے نقائص کو متعدد نئی ساختہ اصطلاحات کے ذریعے چھپانے کی کوشش کی گئی ہے۔ ملکیت کی آزادی کے تصور پر ایک پورے معاشی نظام کی تشکیل صرف اور صرف طاقتورکے ہاتھوں کمزور کے اور امیر کے ہاتھوں غریب کے استحصال پر ہی منتج ہو سکتی ہے۔ ابتدا میں معاشی سرگرمیوں میں اضافہ ہوتا ہے، جیسے بیماری کے نتیجے میں بخار بڑھتا ہے۔ لیکن جیسے جیسے دولتمند معیشت سےپیسہ نکالتے جاتے ہیں اور تجارت کم سے کم ہاتھوں میں مرکوز ہوتی جاتی ہے تو معاشی سرگرمیاں کمزور اور کم ہوتی جاتی ہیں، جیسے کینسر سے متاثر جسم اپنے آپ کو خود ہی کھاجاتا ہے۔ صنعتی انقلاب کے ایک صدی کے عرصے میں ہی سرمایہ دارانہ نظام عملی طور پر ناکام ہوچکا تھا، اور بعدازاں کئی ترامیم اور تبدیلیوں کے ذریعے اسے پچایا جانا پڑا۔ کم از کم جزوی طور پر دولت کی معاشرے میں عادلانہ تقسیم کے لئے کینیزینزم (Keynesianism) کو متعارف کرایا گیا، لیکن اس کے ساتھ ساتھ کاغذی(fiat) کرنسی کو متعارف کرانے کے نتیجے میں دراصل حقیقی دولت اشرافیہ کے پاس ہی رہی جبکہ جعلی اور بےوقعت دولت(فیاٹ کرنسی) کی بڑھتی ہوئی مقدار عوام میں گردش کرنا شروع ہوگئی۔ اس کے نتیجے میں بڑھتی ہوئی افراط زر پر قابو پانے کے لئے حکومتوں نے کینیزینزم سے مونیٹرازم (monetarism) کی طرف رخ کر لیا، جس کے ساتھ ہی اشرافیہ کو نجی مالی سرمایہ کاری میں توسیع اور ایک متوازی اشرافیائی معیشت کی تخلیق کی صورت میں دولت پیدا کرنے کے لئے نئے راستےمیسر ہوگئے۔ سرمایہ دارانہ نظام صحیح معنوں میں دولت کا صرف چند ہاتھوں میں گردش کرنے کا مظہر پیش کرتا ہے، جبکہ باقی معاشرہ معاشی جمود میں جھونک دیا جاتا ہے۔ اگر مغربی ریاستیں اب تک نسبتاً خوشحال ہیں تو یہ ان کی مقامی معیشت کی مضبوطی کی بنیاد پر نہیں ہے بلکہ ان کی استعماری خارجہ پالیسی کی وجہ سے ہے جو انہیں پوری دنیا کی دولت اور وسائل تک رسائی فراہم کرتی ہے۔

 

مغرب کے ناکام معاشی نظام کے ساتھ ہم آہنگ اس کا ناکام معاشرتی نظام ہے۔ جس طرح ملکیت کی آزادی کے نتیجے میں معاشی استحصال پیدا ہوتا ہے، اسی طرح فرد کی آزادی معاشرتی استحصال کو جنم دیتی ہے۔ قوت اور طاقت رکھنےوالے، جو اپنی زندگی کے جوبن میں ہوتے ہیں، اپنی زندگیوں سے بھرپور لطف اندوز ہوتے ہیں، جبکہ کمزور اور بےسہارا، کم عمر اور عمر رسیدہ، جو تقریباً کسی خاندانی یا معاشرتی مدد کے بغیر ہوتے ہیں، ایک سخت جدوجہد میں زندگی گزارتے ہیں۔ اس اتنے بڑے محتاج طبقے کی طرف سے ممکنہ سیاسی نتائج سے خوفزدہ ہو کر، مغربی حکومتوں نے بڑے پیمانے پر اس خرچے میں اضافہ کیا ہے،جس کو وہ 'سماجی' اخراجات کہتے ہیں ، جو کہ ان کے بجٹ کا سب سے بڑا خرچہ بن چکا ہے۔ امریکی سرکاری اخراجات کا مشترکہ تخمینہ اس کے فوجی بجٹ سے دس گنا زیادہ ہے، جو عوامی اخراجات پر ایک ناممکن حد تک بڑا بوجھ ہے، لیکن اس کے باوجود مغرب میں بےپناہ لوگ غیریقینی کی صورتحال میں زندگی بسر کر رہے ہیں،یہاں تک کہ صرف ایک یا دو تنخواہوں کی تاخیر سے ادائیگی، ان کو مکمل معاشی بدحالی میں دھکیل سکتی ہے۔ یہ معمول بن چکا ہے کہ امریکی کانگریس میں ہر سال بجٹ کی مختلف مَدوں میں مختص کی جانے ہولی رقم پر جھگڑا ہوتا ہے، جس کی نوبت حکومتی کام کی بندش تک پہنچ جاتی ہے، اور یہ ایسے ہی چلتا رہتا ہے جب تک کہ کسی نئے سمجھوتے پر اتفاق نہیں ہوتا۔ آبادی کی نوعیت میں تبدیلیوں کی وجہ سے، عمر رسیدہ لوگوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے مالی اخراجات کا بوجھ ایک گھٹتے ہوئےکام کرنے والے طبقے کو برداشت کرنا پڑے گا جو کہ ایک ناممکن امر ہے۔ اس کے باوجود انفرادیت معاشرتی تعلقات کو مزید تباہ کر رہی ہے۔ کوئی بھی تہذیب مضبوط خاندانوں اور برادریوں کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی۔

 

مغربی تہذیب کی بیشتر کمزوریوں پر ان کا تعلیمی نظام اور میڈیا پالیسی پردہ ڈالے ہوئے ہے، جو کہ مغربی طرز ِزندگی کی مبینہ برتری کو ثابت کرنے کی کوشش میں گمراہ کن اعتقادات کی تعلیمات اور بدنیتی پر مبنی پروپیگینڈے کا استعمال کرتے ہیں۔ لیکن مغربی میڈیا کی نام نہاد ساکھ ان کے اپنے ممالک اور بیرونی ممالک میں بےنقاب ہوتی جارہی ہے، اس کی محض زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کی سوچ پر مبنی کوششوں نے اس کو کسی قسم کے بھی حقائق پہنچانے کے سنجیدہ کام سے منحرف کردیا ہے، اور یہ انحراف اس لئے بھی آسان ہوگیا کیونکہ میڈیا کو عوام تک حقائق پہنچانے کے آلہ کار کے طور پر تشکیل دینے کی بجائے محض آزادی رائے کے تصور پر قائم کیا گیا ہے۔ تعلیمی نظام پر بھی مستقل قابو  رکھا گیا ہے تاکہ ہر نئی نسل میں ان غلط تصورات کے متعلق ایک جھوٹا یقین پیدا کیا جا سکے جو مغربی تہذیب کی بنیاد ہیں۔ مگر مغربی تعلیم ان مغربی تجرباتی علوم (empiricism) کی وجہ سے کمزور پڑ رہی ہے جو کہ سوچنے اور فکر کرنے کے عمل میں حقیقت کے حسی ادراک کی اہمیت کو تو سمجھتے ہیں لیکن اس حقیقت کے درست معنی  سمجھنے کے لئے درکار سابقہ معلومات کی ضرورت کی نفی کرتے ہیں۔ پس، مغربی تعلیم ایک محدودتر، حقیقت سے دور اور بلواسطہ عمل بن گیا ہے جو کہ تعلیم کے کردار کو ایک نسل سے اگلی نسل تک علم کی منتقلی نہیں بلکہ محض طلباء کو حقیقت کے اوپر آزادانہ تجربات کرنے میں سہولت فراہم کرنا سمجھتا  ہے، گویا  انسان محض ایک جانور ہے جو اپنے سے سابقہ نسلوں سے تصورات سیکھنے سے عاجز ہے۔

 

    مغرب کے لوگوں کو یہ بتایا جاتا ہے کہ وہ اپنے امور کے خود نگہبان ہیں جبکہ درحقیقت مغربی نظامِ حکومت عوام کی نہیں بلکہ اشرافیہ کی خدمت کرتا ہے۔ مغرب کا "مخلوط حکمرانی" کا نظام اصل میں اشرافیہ کے مفادات کے واضح تحفظ کے لئے وضع کیا گیا تھا، جبکہ ایک بادشاہ کو تنفیذی اختیارات دینے کے ساتھ ظاہری طور پر عام آدمی کے مفادات کے تحفظ کا پہلو رکھا گیا۔ 19ویں صدی میں انقلابات کی کوششوں کے پیش نظر مغرب نے یہ دعویٰ کرنا شروع کیا کہ وہ اپنے نظام ِحکمرانی کو جمہوریت کی اقدار کے مطابق ڈھال رہا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ وہی نظام  کچھ سطحی تبدیلیوں کے ساتھ مسلسل نفاذ میں ہے۔کئی مغربی رہنما یہ جانتے ہیں کہ جمہوریت ایک فضول، ناقابل عمل تخیل ہے جو کہ صرف عوام کو حکومت کے ساتھ منسلک رکھنے کے لئے مفید ہے، یا پھر زیادہ سے زیادہ اس لئے کہ سیاستدان عوام کے لئے ایک سطحی تشویش کا اظہار کر سکیں جو  عوام کے غصے کو انقلاب میں بدلنے سے روک دے۔ جہاں یہ بات  ضروری ہے کہ لوگ مجموعی طور پر اپنے امور کی ذمہ داری اٹھائیں وہاں یہ ممکن نہیں کہ عوام مجموعی طور پر اپنے قوانین  تشکیل دے سکیں۔ بالآخر، ہر جمہوریت میں قوانین ایک مخصوص اشرافیہ کے مفاد میں بنائے جاتے ہیں، جس کے نتیجے میں حکمرانی کے ایسے نظام وجود میں آتے ہیں جو صرف عوام کے استحصال کو مزید بڑھانے میں کارگر ثابت ہوتے ہیں۔

 

مگر شاید مغرب نے سب سے بڑا ظلم اپنی خارجہ پالیسی کے ذریعے ڈھایا ہے۔ ایک پر اُمن ورلڈ آرڈر (world order) قائم کرنے کے نام پر  مغرب نے درحقیقت یورپی سامراجی ماڈل کو عالمی سطح تک وسیع کر دیا ہے۔ ان تاریخی سلطنتوں کا مقصد مقبوضہ کالونیوں کے مال اور وسائل کو لوٹ کر سامراجی قوم کے مفاد کے لئے استعمال کرنا تھا۔ مثال کے طور پر مسلم ہند وستان کرۂ ارض پر سب سے زیادہ بڑی، ترقی یافتہ اور خوشحال معیشت تھی لیکن برطانوی سامراج کی حکومت کے تحت ہندوستان دنیا کے سب سے غریب ترین علاقوں میں شمار ہونے لگا، جبکہ برطانیہ مال و دولت لوٹ کر عالمی طاقت بن گیا۔لیکن جب مغرب اپنی سلطنتوں کو ختم کرنے پر مجبور ہوا، جس کی ایک وجہ مغربی اقوام کی آپس کی دشمنی اور جنگیں تھی، تب مغرب نے اپنا سامراجی نظام خفیہ طور پر برقرار رکھنے کے لئے ایک جامع عالمی سیاسی، اقتصادی اور عسکری ڈھانچہ تشکیل دیا۔ مغربی طاقتوں کی سیاسی بالادستی کے تحفظ کے لئے مغربی قانونی نظریہ کی بنیاد پر بین الاقوامی قانون کو وضع کیا گیا جس کے نتیجے میں ان کو غیرمغربی ممالک کے معاملات میں مداخلت کرنے اور ان کو زبردستی مغربی قوانین اور روایات اپنانے پر مجبور کرنے کے لامحدود مواقع مہیا ہو گئے۔ اس تسلط کو تقویت بخشنے کے لئے اقوام متحدہ، بین الاقوامی مالیاتی فنڈ، عالمی بینک، عالمی تجارتی تنظیم، نیٹو فوجی اتحاد اور ان جیسی دیگر کئی تنظیموں کو بروئےکار لایا گیا جن کے تشکیل دیے جانے کا مقصد ہی مغربی برتری کو برقرار رکھنا تھا۔ عالمی اقتصادی اور تجارتی معاملات اس خوبی سے ترتیب دئے گئے  کہ مغرب باقی دنیا کی دولت، وسائل اور اقتصادی سرگرمیوں سے مستفید ہوسکے۔عالمی مالیاتی فنڈ(IMF) جیسے ادارے اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ مغرب کی ان ممالک تک مکمل رسائی ہوسکے جو رسمی طور پر آزاد ہونے کے باوجودعملاً نوآبادیاتی ریاستیں  ہی ہیں۔ مغربی عسکری برتری کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے مغربی اور غیرمغربی ممالک کے مابین "دفاعی" معاہدے تیار کیے جاتے ہیں۔ جہاں اس طرح کے انتظامات ناکام ہوجاتے ہیں وہاں مغرب عالمی امن کے نعرے کے بہانے سے ان رکاوٹ ڈالنے والے ممالک پر حملہ آور ہوکر قبضہ کرتا ہے اور اس بات کا لحاظ نہیں رکھتا کہ اس کی زد میں فوجی ہیں یا شہری، جوان ہیں یا بوڑھے، مرد ہیں یا خواتین۔ بلاشبہ ان کے فوجی نظریات ان کو دانستہ طور پر اس طرح کے ذرائع اور طریقے اختیار کرنے پر ابھارتے ہیں جن کے ذریعے وہ  دشمن کی مکمل آبادی کو براہ راست نشانہ بنانے کے اہل ہوتے ہیں۔

 

یہ ممکن نہیں کہ مغرب کی یہ بےباک بالادستی ہمیشہ کے لئے جاری رہے۔ اور نہ ہی یہ ممکن  ہے کہ مغرب اسی جھوٹے سیکیولر لبرل عقیدے پر قائم رہتے ہوئے اپنی اصلاح کر سکے۔ یہ عقیدہ کسی پرخلوص سوچ بچار یا تفتیش کے ذریعے نہیں اپنایا گیا بلکہ یہ ایک سمجھوتہ تھا جو کہ بغاوت پر مبنی مادیت پسند تحریک کو روکنے کےلئے کیا گیا تھا جو اشتراکیت کا پیش خیمہ تھی اور جس نے یورپ کی فرقہ وارانہ تنازعات کے بعد موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے عیسائی عقیدے کے خلاف فکری جدوجہد اور عیسائی یورپ کے بادشاہوں اور پادریوں کے دوہرے ظلم وستم کے خلاف سیاسی جدوجہد کی تھی۔ مادیت پرستی کو فکری طور پر شکست دینے یا مادیت پسند سیاسی تحریکوں کو دبانے میں ناکامی کے بعد مغربی حکمران طبقے نے سیکولر لبرل عقیدہ اپنا لیا اور اپنے اقتدار کے عہدوں کو بچانے کی خاطر اپنے مذہب پر سمجھوتہ کر لیا۔

 

عیسائی مغرب سوچ بچار(تفکیر)سے متعلق یونانی طریقہ کار اپنائے ہوئے تھا، جس کے مطابق منطق کے استعمال کے ذریعے کوئی بھی فکر ثابت کی جاسکتی ہے،اور نتائج ایسے خود عیاں اور عمومی نوعیت کے بنیادی مفروضوں سے اخذ کیے جاتے ہیں جن کا انتخاب ہی مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے لئے ہوتا ہے۔ نہ صرف یہ کہ اس طرح کی پیچیدہ منطق بذات ِخود قابل اعتراض تھی، بلکہ یونانی یہ خیال کرتے تھے کے ان کے عمومی مفروضوں کو الگ سے کسی قسم کے ثبوت درکار نہیں تھے کیونکہ ان کے مطابق ذہن حقیقت کے احساس اور سابقہ معلومات کے بغیر ہی محض سوچ و پچار کے ذریعے حقیقت تک پہنچنے کے قابل ہے۔ نتیجتا، خالق کے وجود کو ثابت کرنے کے لئے عیسائیت کے تمام نام نہاد ثبوت ظن اور گمان سے بڑھ کر کچھ نہ تھے خواہ وہ کائنات کی تخلیق پر مبنی ہوں، حقیقت کی موجودگی کے فلسفے پر مبنی ہوں یا اسباب اور ان کے نتائج پر مبنی ہوں۔ مادہ پرستوں نے عیسائیوں کے ہی استعمال کردہ یونانی عقلی طریقہ کار کو ہی اپناتے ہوئےنہایت آسانی سے ان کا مقابلہ کیا اور خود اپنے "ثبوت" گھڑ لیے جو کہ کائنات کے ازلی ہونے کا دعویٰ کرتے تھے۔ اسی کے جواب میں عیسائی مفکرین نے اپنے طریقہ تفکیر کو منطق کی بنیاد سے ہٹا کر تجرباتی بنیادسے تبدیل دیا۔ مغربی عقیدے کا سیکولر پہلو اسی empiricismکی سوچ کو اپنانے کی وجہ سے ہے جس کے مطابق قطعی علم صرف براہ راست حسی ادراک کے ذریعے ہی حاصل ہوتا ہے۔اب چونکہ مذہب کی بنیاد تو اس علم پر ہے جو اس دنیا سے ماورا ہے، لحاظہ  تمام مذہبی امور ظنی قرار پائے گئے اور ان کو فکری مباحثے سے خارج کر دیا گیا۔ یوں دین اور دنیا کی علیحدگی کی قیمت پر مادہ پرستوں کے مذہب پر فکری حملوں کو خاموش کیا گیا۔

 

باہمی سیاسی تعاون کے ذریعے یورپ کے بادشاہوں اور پادریوں نے عوام کا بےحد استحصال کیا اور تمام طاقت اور دولت اپنے تک محدود رکھی۔ اس کا مقابلہ کرنے کے لئے مغربی حکمران طبقے نے خود ہی مادہ پرست سیاسی افکار کے کچھ پہلوؤں کو اپنا لیا۔ مغربی عقیدے میں لبرل پہلو انہی آزادی اور جمہوریت کے مادہ پرست افکار میں ترامیم کرکے اپنانے کی وجہ سے پیدا ہوا ہے؛ مادہ پرست ایک طے شدہ ازلی کائنات پر یقین رکھتے تھے اور آزادی اور جمہوریت کے تصورات پیش کرتے تھے تاکہ انسان جانوروں کی طرح اپنی خود غرض جبلتوں اور خواہشات کو پورا کر سکے جو کہ مادہ پرستوں کے نزدیک کل انسانی فطرت ہیں۔ لبرل ازم اختیار کرنے سے مغرب اپنی حکمران اشرافیہ پر مادہ پرستوں کے سیاسی حملوں کو خاموش کرنے کے قابل ہوگیا۔

 

اگر مغرب اتنے بدصورت اور گھناؤنے سمجھوتے کے باوجود اب تک قائم ودائم ہے تو اس کی وجہ صرف وہ رفتار کی سستی ہے جس کے ساتھ یہ ان افکار اور قوائد میں تبدیلیاں اور ترامیم کرتا ہے جو اس کو گزشتہ دور سے میراث میں ملے ہیں۔ یہ گزشتہ دور نہ تو یونان کا ورثہ تھا اور نہ ہی روم کا بلکہ اسلام کا ورثہ تھا۔ مغرب نہ صرف ریاضی، طبعی علوم اور ٹیکنالوجی میں اسلامی تہذیب کا مقروض ہے بلکہ فنون عامہ، افکار، فلسفہ اور زندگی کے نظاموں میں بھی مکمل طور پر اسلامی تہذیب کا مرہون منت ہے ،جو کہ اس نے مسلمانوں سے حاصل کیے لیکن انہیں ایک غیراسلامی عیسائی طرز میں ڈھال دیا گیا۔ یہ جاننا ناممکن ہے کہ یونان نے درحقیقت انسانی تعلیم میں کتنا اضافہ کیا   کیونکہ اس سے قبل کی تہذیبوں کے تاریخی دستاویزات اب میسر نہیں، مثال کے طور پر قدیم زمانے میں اسکندریہ میں موجود عظیم مصری کتب خانے کا ضائع ہو جانے کی وجہ سے۔ اور اگرچہ روم اپنے دور کی سب سے بڑی طاقت تھی لیکن اس کے اصل دارالحکومت سمیت ریاست کے مغربی حصے کے تباہ ہو جانے سے مغرب غیرمہذب پسماندگی کا شکار ہو گیا تھا۔ یہ حقیقت میں اسلام کا عروج تھا جس نے مغرب کو دوبارہ ابھرنا نصیب کیا، اس کے اندلس میں مسلمانوں کے ساتھ تعلقات کی بنا پر،جہاں اسلام نے ایک حیرت انگیز ترقی یافتہ تہذیب کو جنم دیا تھا؛ اس کے بعد سِسلی (Sicily) میں مسلمان تہذیب کے ساتھ رابطے کی وجہ سے جس کو اس کے بعد میں آنے والے نارمن (Norman) حکمرانوں نے برطانیہ فتح کرنے کے بعد وہاں متعارف کیا؛ پھر اسلامی سرزمین کے مرکز کے ساتھ اس گہرے  ربط کی وجہ سے جو صلیبی جنگوں کے دوران قائم ہوا اور پھر عثمانی ریاست کے ساتھ تعلق کی وجہ سے جس کو صحیح معنوں میں دنیا کی پہلی عالمی سپرپاور کہا جاسکتا ہےجسے زمین اورسمندروں دونوں پر مکمل غلبہ حاصل تھا۔ مغرب اسلام کے سائے تلے زندگی بسر کرتا رہا یہاں تک کہ اندرونی کمزوریوں کی بنا پرعثمانی ریاست اپنے اولین ریاست کے مقام سے گر گئی۔ صرف تب جا کر اٹھارویں صدی کے آواخر میں مغرب مسلمانوں سے آگے نکلنے میں کامیاب ہوا، اس کی اقوام بڑی طاقتوں کی صفوں میں شمار ہونے لگیں اور اس کی تہذیب، مادہ پرستی کے ساتھ ایک شیطانی سمجھوتہ کر لینے کے بعد، اسلام کے سائے سے نکل کر ایک مختلف اور انتہائی غیر مذہبی راستہ پر چلنے لگی۔ یہ حقیقت کہ مغرب کے قدم ڈگمگارہے ہیں ان کے لئے نہایت واضح ہے جو اس کے نظریاتی پروپیگنڈا سے متاثر ہوئے بغیر حقیقت تک پہنچ سکتے ہیں۔ مغرب کا جھوٹا عقیدہ مسلسل اس اچھائی کے اثرات کو ختم کر رہا ہے جو اسلام کے ساتھ رابطے کی وجہ سے اس میں سرایت کر گئی تھی۔ ہر آنے والی نئی نسل کے ساتھ مغرب آزادی اور جمہوریت کے نام پر مزید مکروہ اعمال اپنا لیتا ہے، نوجوان اپنے بزرگوں کی اقدار کو مسترد کرتے ہیں ، اوربزرگ ان نوجوانوں میں پائے جانے والے رجحانات کو تسلیم یا قبول کرنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ ان لوگوں کے نزدیک جو دیکھنے والی آنکھ رکھتے ہیں،اگر مغربی تہذیب کے متبادل اسلامی تہذیب قائم ہو جائے تو مغربی تہذیب اپنی فوقیت برقرار نہیں رکھ سکے گی ۔ 

    

ماضی میں اسلامی ریاستِ خلافت کا کھو جانا کسی ناگزیر تہذیبی زوال کی وجہ سے نہیں تھا۔ کافر مغرب کے برخلاف، اسلام کا عقیدہ حق اور آج بھی درست ہے۔ مذہبی افکار کو ظنی سمجھنا غلط ہے۔ تفکیر اور سوچنے کا درست عمل اس قابل ہے کہ اس کے ذریعے ایسے قطعی فکری نتائج تک پہنچا جائے جن تک   انسان براہ راست احساس کے ذریعے نہیں پہنچ سکتا۔ اسلامی عقیدہ نہ تو ایسے عمومی بنیادوں پر انحصار کرتا ہے جن میں ظن اور گمان کا دخل ہو، اور نہ ہی غیرثابت شدہ خود عیاں مفروضوں پر منحصر ہے۔ اس کے برعکس اسلامی عقیدہ قطعی اوربراہِ راست حسی ادراک کے ذریعے سے قطعی اور مخصوص فکری نتیجے تک پہنچتا ہے،جس میں کسی قسم کے ظن یا گمان کی مداخلت نہیں۔ اسلامی تہذیب کا زوال اس کے عقیدے میں کسی قسم کے نقص کی بنا پر نہیں تھا بلکہ ان ناقص اجنبی افکار کی وجہ سے تھا جو عقیدے کے گرد جمع ہو گئی تھیں جس طرح مضبوط اور جاندار جڑوں کے گرد جھاڑیاں جمع ہو جاتی ہیں۔ یہی وہی خالص اسلامی عقیدہ ہے جو شعلے کی مانند کئی ادوار کے جمود کو راکھ کر رہا ہے اور امت کے اندر نئے سرے سے نشاۃِ ثانیہ کا راستہ ہموار کر رہا ہے۔ اسلام کی حقانیت سے متعلق پختہ فہم ایک مرتبہ پھر امت میں پھیل رہا ہے اور اس کے ساتھ ہی مغرب کی دھوکہ دہی بھی واضح ہوتی جا رہی ہے۔ اسلام کے عوام پر حکومت کرنے سے متعلق نظام مغرب کے تشکیل کردہ نظاموں سے کہیں اعلیٰ و برترہیں۔ یہ مسلم علاقوں میں نافذ اسلامی اقتصادی نظام تھا جس نے نہ صرف مسلمانوں کے لئے بلکہ ان سے تجارت کرنے والے مغربی ممالک کے لئے بھی بےمثال خوشحالی پیدا کی۔ یہ اسلام کا معاشرتی نظام تھا جس نے مضبوط گھرانوں اور برادریوں کے ذریعے مسلم معاشرے میں امن اور سکون قائم رکھا۔ یہ اسلام کا تعلیمی نظام تھا جس نے علم اور علم کے حصول کی بنیاد پر ایک اعلیٰ تہذیب کی بنیاد رکھی جس نے مغربی اشرافیہ کو مسلمان علاقوں کی طرف متوجہ کیا۔ یہ اسلام کا نظام حکمرانی تھا جس نے وسیع و عریض خطوں اور متنوع اقسام کے لوگوں کو امن اور عدل کے ساتھ اکٹھے رہنے کے قابل بنایا، اس ادراک کے ساتھ کہ ان کے حقوق محفوظ ہیں۔ اور یہ اسلام کی خارجہ پالیسی تھی جس نے سیاسی مفاہمت کو فوجی مقابلوں پر ترجیح دی اور جنگوں کو تربیت یافتہ افواج کے مابین پیشہ ورانہ لڑائیوں تک محدود کرکے بین الاقوامی حالات کو پرسکون اور مستحکم رکھا۔

 

مغرب اب جانتا ہے کہ وہ اسلام کو فکری شکست دینے میں ناکام ہوچکا ہے اور یہ صرف کچھ ہی وقت کی بات ہے کہ سیاسی میدان میں بھی اسلام فتح حاصل کرلے گا۔ مغرب کے حالیہ رہنما امریکہ نے نام نہاد "دہشت گردی کے خلاف جنگ" کے درپردہ لاکھوں فوجیوں کو مسلمان زمینوں میں لا کر اسلام کو روکنے کی ایک آخری کوشش کی ہے۔ مگر مغربی افواج مسلم آبادیوں پر قابو پانے میں ناکام رہیں اور محفوظ طریقے سے جس قدر جلدی ممکن ہوا ان علاقوں سے نکلنے پر مجبور ہوگئیں۔ امریکہ نے آج ایک مرتبہ پھر وہی سبق سیکھا ہے جو اس کی پیشرو کافر مغربی ریاستیں عرصے سے جانتی ہیں کہ مسلمانوں کو میدانِ جنگ میں شکست دینا ممکن نہیں۔ لہذا عراق اور افغانستان کی تباہکاریوں کے بعد امریکہ نے ایک نیا طریقہ اختیار کیا ہے یعنی مسلمان افواج کو ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرنا۔ چنانچہ اس نے ترکی کو شام میں مداخلت کے لئے، سعودی عرب کو یمن میں مداخلت کے لئے اور مصر کو لیبیا میں مداخلت کے لئے استعمال کیا۔ جن ممالک پر اس کے اپنے ایجنٹ حکمرانی کر رہے ہیں ان سے بھی خوفزدہ رہتے ہوئے امریکہ ان کو ایک دوسرے کے مابین متوازن رکھنے کی کوشش جاری رکھتا ہے، پس وہ سعودی عرب کو ایران کے خلاف اُکسا کر اور ترکی کو مصر کے خلاف اُکسا کرایسا کرتا ہے۔ مگر آخر کب تک مغرب خود دور رہتے ہوئے اس قسم کے حربوں کو برقرار رکھ سکتا ہے جبکہ وہ خود براہِ راست مسلمان علاقوں پر حکمرانی کرنے کے قابل نہیں۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے اذن سے مسلم امت جلد ہی اس ایجنٹ حکمران طبقے کا تختہ الٹ دے گی جو اس کے اوپر مسلط کیے گئے ہیں اور دوبارہ نبوت کے نقشِ قدم پر اسلامی خلافتِ راشدہ قائم کرے گی جو اسلامی طرز زندگی کی بحالی اور احیاءکرے گی، تمام مسلمان علاقوں کو یکجا کرے گی، مقبوضہ علاقوں کو آزاد کرائے گی اور ایک مرتبہ پھر اسلام کے نور کو پوری دنیا تک پہنچانے کا کردار ادا کرے گی۔

 

Last modified onاتوار, 22 اگست 2021 17:08

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک