بسم الله الرحمن الرحيم
میکرون صاحب! مسلمان تمہاری اسلام کیخلاف سیکولر تہذیبی جنگ کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں!
میکرون صاحب! تم کہتے ہو کہ تم اسلام کیخلاف سیکولر اقدار اور لبرل طرزِ زندگی کے ذریعے ایک نظریاتی جنگ لڑنا چاہتے ہو، تو جان لو کہ ہم مسلمان نظریات کی یہ جنگ لڑنے کے لیے ہر دم تیار ہیں۔
تو آپ کونسے فکری ہتھیاروں سے ہم پر حملہ کرنا چاہتے ہیں؟ کیا آپ کا استدلال یہ ہے کہ سیکولرازم کے عقیدے نے مہذب ریاستوں کو قائم کیا ہے جن کی بنیاد شائستہ اقدار پر ہے؟ یہ کیسی شائستہ اقدار ہیں کہ یہ ریاستیں "لبرل" آزادیوں کی آڑ میں لوگوں کے مقدس عقائد پر دشنام طرازی کو اپنا طرہِ امتیاز سمجھتی ہیں، اورمذہبی اقلیتوں کے تشخص کو داغدار کرنا اور ان کو قابل نفرت بنا کر ان کے ساتھ دوسرے درجے کے شہری کا سلوک کرنا، کیا یہ وہ اعلی تہذیب ہے جس کے آپ دعویدار ہیں؟ کیا آپ اسے تہذیب یافتہ ہونا سمجھتے ہیں کہ مسلمان بچوں کو خوفزدہ کرنے کے لیے ان کے گھروں پر چھاپے ماریں وہ بھی محض اس وجہ سے کہ وہ اپنے نبی ﷺ کے توہین آمیز خاکوں کی اشاعت کو قبول نہیں کرتے ،کیونکہ وہ اپنے نبیﷺ سے بے حد محبت کرتے ہیں؟ یا پھر یہ تہذیب یافتہ ہونا ہے کہ اپنی موقع پرستی پر مبنی سیکولر سیاسی چالوں کےذریعے مذہبی اقلیتوں کو خوفناک ولن بنا کر پیش کرنا جس سے آپ کے متعصب اور نسل پرست ووٹر خوش ہو؟ کیا دوسروں ملکوں کے وسائل کی لوٹ مار اور قتل وغارت اور ان کو استعمار کے پنجے میں جکڑنا، تہذیب یافتہ ملک ہونے کی نشانی ہے؟ یا پھردنیا میں آمروں کی حکومتوں کواسلحہ بیچ کر سپورٹ کرنا جیسا کہ سعودی عرب، جس نے اس اسلحے کا یمن کی آبادیوں پر بے دریغ استعمال کیا، تہذیب یافتہ ہونا ہے؟ یا شائد جنگ و جبر سےتنگ بے سہارا اوربے یارومددگار مہاجرین کو کیڑوں مکوڑوں کی طرح سمجھنا اور ان کو ایک قابل عزت رہائش اور پناہ نہ دینا تہذیب یافتگی ہے!
تہذیبوں کے اس تصادم میں، کیا آپ کا یہ دعویٰ ہے کہ سیکولرازم ہی وہ دین ہے جو مختلف نسلوں اور اعتقادات کے لوگوں کو اکٹھا کر سکتا ہے جبکہ آپ کا نظام قوم پرستانہ اور یورپ زدہ نظریات سے اٹا ہوا ہے۔ سیکولر سیاستدانوں کی جانب سے مختلف کمیونیٹیز کے درمیان خوف، نفرت، غصہ اور تقسیم پیدا کرنے کے لیے، اسلاموفوبیا کا استعمال اور اسلامی عقائد کو بدنام کرنا، اس سب کے علاوہ ہے۔ آپ کیسےمُصر ہیں کہ سیکولرازم ایک وحدت پیدا کرنے والی قوت ہے جب کہ ان سیکولر ریاستوں میں دنیا بھر میں دائیں بازو کی متعصب اور فسطائی تنظیمیں اور تحریکیں غالب ہو چکی ہیں ۔ اور آپ کی جرات کیسے ہوئی کہ آپ یہ اعلان کریں کہ اسلامی عقائد علیحدگی پسندی کی طرف لے کر جاتے ہیں جبکہ دراصل آپ اور آپکے ہمنوا سیکولر سیاستدان مسلمانوں کوان کے مذہبی عقائد کی بنیاد پر 'ففتھ کالم'، 'اندرونی دشمن'، اور 'دوسرے لوگ' جیسے القابات سے نواز کر علیحدگی پسندی پر مبنی بیانیے کو پھیلا رہے ہیں اور آپکی حجاب اور نقاب پر پابندیاں مسلمان خواتین کو معاشرے میں بھرپور کردار ادا کرنے سے روک رہی ہیں!
آپ کو پتا ہونا چائیے کہ یہ اسلام تھا جس نے تمام رنگ و نسل اور ثقافتی پسِ منظر رکھنے والے لوگوں کو چین سے لیکر سپین تک ایک نظام تلے یکجا کیا، ایک ریاست کے لیے ایک ہی قانون ،جس نے عصبیت کو لوگوں کے دلوں سےاکھاڑ پھینکا۔ وجہ یہ ہے کہ اسلام کا بنیادی عقیدہہی عصبیت جیسی موذی فکر کو مسترد کرتا ہے اورقومیت جیسے تصورات کو بھی جو عصبیت کو پروان چڑھاتے ہیں۔ درحقیقت، رسول اللہﷺ، جن کی مبارک ذات کو آپ طعن وتشنیع کا نشانہ بناتے ہو، نے فرمایا:
فَلَيْسَ لِعَرَبِيٍّ عَلَى عَجَمِيٍّ فَضْلٌ، وَلَا لِعَجَمِيِّ عَلَى عَرَبِيٍّ فَضْلٌ، وَلَا لِأَسْوَدَ عَلَى أَبْيَضَ فَضْلٌ، وَلَا لِأَبْيَضَ عَلَى أَسْوَدَ فَضْلٌ، إِلَّا بِالتَّقْوَى
" کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی فضیلت حاصل نہیں اور نہ ہی کسی عجمی کو کسی عربی پر کوئی فضیلت حاصل ہے۔ اسی طرح، کسی گورے کو کسی کالے پر کوئی برتری حاصل نہیں اور نہ ہی کسی کالے کو کسی گورے پر کوئی برتری حاصل ہے، ہاں مگر تقویٰ کی بنیاد پر."
مزید برآں، یہ ہمارے محبوب پیغمبرﷺ ہی تھے، جنہوں نے مدینہ میں اسلامی حکومتی نظام بنایا جس کے قانون کے تحت تمام لوگ برابر تھے اورتمامافراد کو بلا تمیزیکساں حقوق اور شہری تحفظ حاصل تھے خواہ وہ کالے ہو یا گورے، مسلم یا غیر مسلم، مردہو یا عورت، امیر ہو یا غریب۔ اس نظام ، جس پر تم انتہاء پسندی اور بنیاد پرستی کے ٹھپے چسپاں کرتے ہو، نے پوری دنیا کو دکھایا کہ کیسے اپنے سے الگ مذہبی سوچ رکھنے والے لوگوں کی ضروریات اور حقوق کا خیال رکھا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر میثاقِ مدینہ نے یہ طے کیا تھا کہ ریاست کے تمام غیر مسلم شہریوں کو بغیرکسی دشنام طرازی، زیادتی اور خوف و ہراس کے اپنے مذہبی عقیدے اور عبادات کرنے کا حق حاصل ہوگا۔ بلاشبہ، ہمارے پیغمبرﷺ نے فرمایا :
أَلَا مَنْ ظَلَمَ مُعَاهِدًا، أَوِ انْتَقَصَهُ، أَوْ كَلَّفَهُ فَوْقَ طَاقَتِهِ، أَوْ أَخَذَ مِنْهُ شَيْئًا بِغَيْرِ طِيبِ نَفْسٍ، فَأَنَا حَجِيجُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ
" جس کسی نے بھی کسی معاہد یا ذمی کو ضرر پہنچایا یااس سے اس کی استطاعت سے زیادہ وصول کیا، میں قیامت کے دن اس کی شکایت کروں گا۔"
یہ ہی وجہ ہے کہ ماضی کے متعدد غیر مسلم لکھاریوں اور تاریخ دانوں نے اسلامی خلافت کے نظام کی تعریف کی، وہی نظام جس کے دوبارہ قیام کو تم روک رہے ہو، جیسا کہ ایچ۔ جی۔ ویلز، جنہوں نے خلافت کے انصاف کے بارے میں لکھا کہ: " انہوں نے منصفانہ برداشت کے عظیم رواجوں کی داغ بیل ڈالی۔ انہوں نے سخاوت اور برداشت کے جذبے سے لوگوں کو متاثر کیا ۔ وہ انسان دوست اورعملی لوگ تھے۔ انہوں نے ہمدردی کے جذبے پر معاشرے کو قائم کیا جس میں ظلم اور معاشرتی نا انصافی ناپیدتھی جس کا مثال اس سے پہلے نہیں ملتی تھی۔"
اور ول ڈیورنٹ، امریکی مصنف اور تاریخ دان، نے اپنی کتاب 'دا سٹوری آف سویلائیزیشن- دی ایج آف فیتھ' میں لکھا: " اموی خلافت کے دور میں، معاہد، عیسائی، زرتشت، یہودی اور سبائی، سب لوگ برداشت کے اس معیار سے محظوظ ہو رہے تھے جو کہ آج ہمیں عیسائی ممالک میں بھی میسر نہیں۔ وہ اپنی مذہبی رسومات کو آزادی سے ادا کر سکتے تھے اور ان کے کلیسائیں اور خانقاہیں محفوظ تھیں۔ ان کو اس سے خودمختاری کا احساس ہوتا تھا کہ وہ علماء اور قاضیوں کے مذہبی قوانین کے تابع تھے۔" واقعتاَ، خلافت نے نہ صرف اپنے غیر مسلم شہریوں کا تحفظ کیا بلکہ ایک حقیقی مہذب ریاست کی طرح، ان دیگر عقائد رکھنے والے لوگوں کو، جو ظلم کا شکار تھے ، بچایا اور پناہ مہیا کی۔ جیساکہ سلطان بایزید دوئم نے پندرہویں صدی عیسوی میں، ڈیڑھ لاکھ یورپی یہودیوں کو بچانے کے لیے، جو سپین کے عیسائیوں کے ظلم کا شکار تھے، اپنا پورا بحری بیڑہ روانہ کیا اور ان کو اسلامی سرزمین میں پناہ دی۔
جناب میکرون صاحب! اور کونسا ’فکری تیر‘ آپ کے ترکش میں ہے؟ کیا آپ کا استدلال یہ ہے کہ سیکولرازم کا مبداء روشن خیالی(سترہویں صدی) کے دور سے ابھرا ہے، جبکہ اس کی پیدائش ہی خدا کی ریاست سے جدائی کے سمجھوتے پر ہوئی ہے جس نے اس سوال ہی کو نظر انداز کر دیا کہ کونسا عقیدہ فکری لحاظ سے درست ہے اور اس بحث سے پہلو تہی اختیار کر لی کہ بنی نوع انسان کے لیے قانون بنانے کا اختیار کا زیادہ حقدار کون ہے؟ خالق یا اس کی مخلوق۔ اور یہ دعویٰ کرنا کیسے ممکن ہے کہ سیکولرازم کی بنیاد روشن فکری پر ہے جبکہ مسلمانوں کو اس کے تصورات کو اندھے ایمان کے ساتھ منوانے کے لیے سخت قوانین، پابندیوں اور خوف کا سہارا لیا جارہا ہے نہ کہ ایک عقلی بحث کے ذریعے!
بہرحال، ہمارا ایمان، اسلام، اندھے ایمان کو مسترد کرتا ہے اور ایک فرد سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اسے عقلی دلائل کےذریعے اپنائے، نہ کہ رٹے ہوئے اصولوں کے ذریعے، بوجہ یہ کہ اسلام کا حق عقلی دلائل کے ذریعے ثابت ہے۔ قرآن میں فرمایا گیا:
﴿وَمَا يَتَّبِعُ أَكۡثَرُهُمۡ إِلَّا ظَنًّاۚ إِنَّ ٱلظَّنَّ لَا يُغۡنِي مِنَ ٱلۡحَقِّ شَيًۡٔاۚ إِنَّ ٱللَّهَ عَلِيمُۢ بِمَا يَفۡعَلُونَ﴾
"اور ان میں سے اکثر لوگ صرف گمان پر چل رہے ہیں۔ یقیناً گمان، حق (کی معرفت) میں کچھ بھی کام نہیں دے سکتا۔ یہ جو کچھ کررہے ہیں یقیناً اللہ کو سب خبر ہے۔" (یونس۔ آیت ۳۶)
اضافی طور پر، سیکولر حکومت کے برعکس، اسلام اپنے عقائد کو منوانے کے لیے کسی قسم کے جبر سے منع کرتا ہے۔ جیسا کہ سورتہ البقرا کی آیت256 میں ذکر ہے:
﴿لَآ إِكۡرَاهَ فِي ٱلدِّينِۖ قَد تَّبَيَّنَ ٱلرُّشۡدُ مِنَ ٱلۡغَيِّۚ ﴾
"دین کے بارے میں کوئی زبردستی نہیں، ہدایت ضلالت سے روشن ہوچکی ہے۔"(سورہ البقرہ: 256)
شاید جناب میکرون آپ اس بات کی وکالت کریں گے کہ ریاستوں کے اندر مذہب کو کنارہ کش کرنے سے صحت مند اور مکمل معاشرہ تشکیل پائے گا۔ اگر ایسا ہے تو پھر کیوں 2011 میں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی رپورٹ کے مطابق فرانس کو دنیا کی پریشان ترین قوم کا درجہ دیا گیا؟ ہر پانچ میں سے ایک شخص کلینکل ڈپریشن کا شکار پایا گیا اور فرانس کے اپنے میڈیا نے اسے پریشانی کا عالمی چمپئین قرار دیا۔ دوسرا نمبر امریکہ کو ملا جو کہ دنیا کی سب سے بڑی سیکولر طاقت رکھنے والی ریاست ہے۔ اور اگر واقعی لبرل اور سیکولر طرزِ زندگی اطمینان اور خوشی کی ضمانت ہے تو پھر ’یورو۔سٹیٹ‘ کے مطابق ہر سال فرانس میں کیوں2 لاکھ 20 ہزار لوگ خودکشی کی کوشش کرتے ہیں؟ جواب بہت ہی واضح ہے کہ جتنا زیادہ مذہب اور خالق کو سیکولرازم کے اندر زندگی اور معاشرے سے پرے دھکیلا جا رہا ہے اتنا ہی لوگوں کی زندگیوں میں روحانی خلاء پیدا ہو رہا ہے اور نتیجتاً معاشی، معاشرتی، اخلاقی اور دیگر مسائل کا پہاڑ معاشرے کے افراد کے سر پر آن پڑا ہے جس کا مقابلہ کرنے سے وہ قاصر ہیں۔مثلاً ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا کی مالدار اقوام میں سے ایک ہونے کے باوجود، کورونا وائرس کی وباء پھیلنے سے بھی قبل، Stistica کے مطابق فرانس میں 7 میں سے1 شخص (9 ملین) افراد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں، اسی طرح 5 میں سے ایک شخص 3 وقت کا کھانا نہیں کھا سکتا ہے (ماخذ: Secours Populaire)۔ اور کورونا کی وباء سے قبل بے روزگاری کی سطح بلند تھی اور بڑھ رہی تھی۔ قرضے اور معاشی بوجھ اب لوگوں پر مزید بڑھ چکا ہے اور یہی سب کچھ دنیا بھر میں باقی سیکولر ریاستوں میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ مزید برآں لبرل آزادیوں اور سرمایہ دارانہ سیکولر نظام نے مادیت، لذت پسندی اور انفرادیت پر مبنی طرز زندگی کو فروغ دیا ہے جس سے شراب نوشی، منشیات اور جرائم کی بھی وباء پھیل چکی ہے۔ The independent کے مطابق، فرانس میں10 میں سے 1 شخص شراب نوشی کے مرض میں مبتلاء ہے اور Santé Publique France کے مطابق ہر روز 110 سے زیادہ لوگ شراب نوشی کی وجہ یا پھر اس سے متعلق حادثے میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
اس کے برعکس اسلام زندگی میں ایک واضح مقصد مہیا کرتا ہے اور ساتھ ہی ایک روحانی ذریعہ بھی مہیا کرتا ہے جس کے ذریعے مشکلات اور پریشانیوں سے نبرد آزما ہوا جا سکے، اس وجہ سے پریشانی اور فکرمندی سے نجات ملتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اسلام انفرادیت، لذت پسندی، مادیت، شراب نوشی، منشیات کے استعمال اور اپنی خواہشات کی تکمیل میں نتائج سے لا پرواہ، تباہ کن خود غرضی کا خاتمہ کرتا ہے۔ نتیجتاً اسلام ایک ایسا ذمہ دار مائنڈ سیٹ پیدا کرتا ہے جس کے اندر اپنی خود احتسابی اور خالق کی جانب سے طے کردہ بلند اخلاقی معیار کے مطابق دوسروں سے برتاؤکا احساس ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ اسلامی نصوص انسانی مسائل کے ایسے جامع اور درست حل پیش کرتےہیں جس سے پر سکون اور پر امن معاشرے جنم لیتے ہیں جو ایسی برکت پاتے ہیں جس سے تمام لوگوں کو فائدہ ہوتا ہے، نہ کہ صرف سرمایہ داریت کی طرح صرف ایک مخصوص اشرافیہ کا فائدہ۔ اس کا اظہار خلافت کے تحت قائم صدیوں پر محیط اسلامی حکومت میں ہوا۔ پس جب شمالی افریقہ میں فرانس نے اپنی استعماریت کے مرہون منت، غربت اور معاشی ناکامی کی ایک داستان رقم کی، اسی سرزمین پر خلیفہ عمر بن عبدالعزیز کے دور میں اسلامی معاشی نظام کے نفاذ کی وجہ سے کوئی زکواۃ لینے والا نہ تھا۔ اس وقت کے گورنر یحییٰ بن سعد نے کہا: ’مجھے عمر بن عبدالعزیز نے افریقہ سے زکواۃ وصول کرنے کے لیے بھیجا۔ زکواۃ کی وصولی کے بعد جب میں نے اسے غریب لوگوں میں تقسیم کرنے کا ارادہ کیا تو کسی غریب کو نہ تلاش کر سکا۔‘
مسٹر میکرون! آپ یہ الزام لگاتے ہیں کہ قدامت پسندانہ اسلامی عقائد تشدد اور شہریوں کے قتل کا باعث بن سکتے ہیںاور ساتھ ہی یہ لغو دعویٰ کرتے ہو کہ سیکولرازم نے کسی کی جان نہیں لی۔تو کیا مسلمانوں کو قتل و غارت سے روکنے کے لیے کسی ایسی سیکولر ریاست سے سبق لینے کی ضرورت ہے جو ایک خونی انقلاب کے نتیجے میں پیدا ہوئی اور جس کی بنیاد خوف اور خونریزی پر ہوئی؟ اور کیا ہمیں تشدد سے روکنے کے لیے ایک ایسی استعماری حکومت سے سبق حاصل کرنے کی ضرورت ہے جس کے ہاتھ لاکھوں معصوم لوگوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں اور جس کی خارجہ پالیسی نے الجیریا اور روانڈہ میں قوموں کا قبرستان بنایا ہے؟ اسلام تو اندھے تشدد اور معصوموں کا خون بہانے کو سخت ناپسند کرتا ہے حتیٰ کہ جنگ کے دوران بھی۔ اسلام کے پہلے خلیفہ ابو بکر الصدیقؓ نے اپنے سپاہیوں کو جنگ کے دوران بھی خون ریزی کی حد متعین کر کےبتائی اور کہا: "دھوکہ نہ دینا اور حد سے تجاوز نہ کرنا، غداری نہ کرنا، لاشوں کی بے حرمتی نہ کرنا، چھوٹے بچوں کو قتل نہ کرنا، نہ ہی کسی بوڑھے یا عورت کو، کھجور کے درختوں کو نہ کاٹنا اور نہ ہی جلانا، پھلدار درختوں کو نہ کاٹنا، کسی بھیڑ، گائے یا اونٹ کو مت ذبح کرنا ماسوائے کھانے کے، اور ایسے لوگوں کو تنگ نہ کرنا جنہوں نے اپنی زندگیاں خانقاہوں کے لیے وقف کر دی ہوں، ان کو اس چیز کے لیے چھوڑ دینا جس کے لیے انہوں نے اپنے آپ کو وقف کر رکھا ہو۔" پس جو لوگ اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لیے لوگوں کو قتل کرتے ہیں ان کے اعمال مفاد پرستی کی سیکولر سرمایہ دارنہ ذہنیت کی عکاسی کرتے ہیں، نہ کہ اسلامی ذہنیت کی!
مسٹر میکرون! ہو سکتا ہے کہ آپ کا یہ خیال ہو کہ آپ اسلام کیخلاف سیکولر نظریات کی یہ جنگ عورتوں اور ان کے حقوق کے میدان میں جیت جائیں۔ شاید، آپ کا یہ خیال ہو کہ آپ فرسودہ اور استعماریت کے خود ساختہ ور خود فریبی پر مبنی اس بیانیے کو آگے بڑھا کر ،کہ سیکولرازم عورت کو عزت دیتا ہے اور اسلام عورت پر ظلم کرتا ہے، یہ امید کرتے ہو کہ دنیا آپ کے چوراہوں میں ہزاروں فرانسیسی خواتین کے اپنے اوپر تشدد کیخلاف مظاہرے نظر انداز کر دے گی، جو آپ کے سیکولر لبرل نظام کے سائے میں ہو رہا ہے۔ کیا آپ کا خیال ہے کہ آپ اس حقیقت کو پسِ پردہ ڈال دیں گے کہ ہر سال فرانس میں2 لاکھ 19 ہزار خواتین گھریلو تشدد کا نشانہ بنتی ہیں (Euronews) اور ہر تین دنوں میں ایک عورت اپنے موجودہ یا سابقہ 'پارٹنر' کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اتر جاتی ہے (France24) یا پھر یہ حقیقت کہ فرانس کی آدھی سے زیادہ خواتین کو جنسی ہراسگی کا سامنا ہے (Statista) اور 10 میں سے 1 سے زیادہ خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی ہو چکی ہے (Foundation Jean Jaures thinktank) یا یہ حقیقت کہ فرانس کی پارلیمنٹ، جو سیکولرحکومت کا قلب ہے، جنس پرستی سے بھری ہوئی ہے۔ اور آپ کو یہ بات معلوم ہے کہ ان اعداد و شمار کی جھلک دنیا کی دیگر سیکولر ریاستوں میں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ مزید برآں، آپ ڈھٹائی سے یہ دعویٰ کیسے کر سکتے ہیں کہ سیکولر نظام عورتوں کو عزت دیتا ہے جبکہ سیکولر ریاستوں نے لبرل جنسی آزادیوں کے نام پرحسن، اشتہاربازی، فحش فلموںاور عصمت فروشی کی صنعتوں کو کھلی چھٹی دے رکھی ہے کہ وہ عورتوں کا جنسی استحصال کریں اور ان کو ایک جنس شے کے طور پر متعارف کریں اور ان کو یہ اجازت دیں کہ وہ عورتوں کی تذلیل سے منافع کمائیں۔ اور آپ کے خیال میں کہ عورتوں کے لیے آزادی کا یہ کیسا احساس ہے کہ وہ اکیلے بچوں کی پرورش کریں، اپنے بچوں کی ضروریات اور ان کو پالنے کے لیے اکیلے جدوجہد کریں کیونکہ لبرل جنسی آزادیوں کی وجہ سے شادی اور عائلی زندگی کو تو بس صرف لذت کے لیے چند دفعہ کے لابالی جنسی تعلق نے کچل کرکے رکھ دیا ہے۔
مزید برآں مضحکہ خیز طور پر سیکولر حضرات حجاب اور جلباب کو عورتوں پر باعث ظلم قرار دیتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ اسلام کے معاشرتی نظام کا حصہ ہیں جو ایک جامع قوانین کا مجموعہ ہے جو مردوں اور عورتوں کے درمیان معاملات کو موثر طریقے سے منظم کرتے ہیں تاکہ دونوں اصناف کے درمیان زندگی کے تمام شعبوں میں تعاون کو یقینی بنایا جا سکے اور جنسی خواہشات کی تکمیل کو صرف شادی تک محدود کر دیا جائے۔ پس یہ ایک ایسا نظام ہے جو عورتوں کی جنسیت اور ان کے جنسی استحصال کو سختی سے روکتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ عورتوں کے حسن کا کسی بھی مقصد کے لیے استحصال کو روکتا ہے جو معاشرے میں ان کے وقار کو ٹھیس پہنچائے۔ یہ سب اقدامات معاشرے میں خواتین کے لیے ایک باعزت ماحول پیدا کرتے ہیں جس میں وہ ایک فعال پبلک زندگی گزار سکیں جس میں کسی قسم کی ہراسگی یا گزند کو خوف نہ ہو۔ ساتھ ہی یہ اقدامات شادی کے تقدس، عائلی زندگی کی ساکھ اور بچوں کے حقوق کا تحفظ کرتے ہیں۔ اور جبکہ سیکولرازم ہر اس چیز کو، جو فحش اور غیر مہذب ہو ، مناتا ہے اور ہر باحیاء اور پر اخلاق چیز کو جرم گردانتا ہے، اسلام اس کے مقابلے میں ہر باشرف اور صالح اعمال کو اپناتا ہے حتیٰ کہ ایک زبانی تہمت کو بھی بدترین جرم گردانتا ہے جس سے عورتوں کا وقار مجروح ہو۔
بلاشبہ حضرت محمدﷺ، جن کو پاک نام کو تم آلودہ اور بدنام کرنےکی کوشش کرتے ہو، نے فرمایا کہ ایک مرد کے مقام کا اندازہ اس کے خواتین سے اچھے برتاو سے لگایا جاتا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا ؛
إِنَّمَا النِّسَاءُ شَقَائِقُ الرِّجَالِ، ما أكرمهن إلا كريم وما أهانهن إلا لئيم
"عورتیں مردوں کا آدھا حصہ ہیں۔ صرف ایک باشرف آدمی ہی عورتوں سے عزت سے پیش آتا ہے اور صرف ایک جاہل ہی عورتوں کیساتھ برا سلوک کرتا ہے۔"
آپﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ
أَكْمَلُ الْمُؤْمِنِينَ إِيمَانًا أَحْسَنُهُمْ خُلُقًا وَخِيَارُكُمْ خِيَارُكُمْ لِنِسَائِهِمْ
"مومنوں میں سب سے بہترین وہ ہیں جو اپنے برتاو میں سب سے بہتر ہیں اور تم میں سے سب سے بہتر وہ ہے جو اپنی بیویوں کیساتھ سب سے اچھا ہے۔"
اس سب کے بعد بھی، جناب میکرون، آپ کیسے یہ جسارت کرتے ہیں کہ اسلام بحران میں ہے جبکہ یہ تو سیکولرازم ہے جو ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ آپ کے پاس کوئی ایسا فکری ہتھیار نہیں جس سے آپ اسلام پر ضرب لگا سکیں۔ اسی وجہ سے آپ عاجز آکر جھوٹ، توہین اور کالے قوانین اور پابندیوں کا سہارا لے رہے ہیں جس سے آپ یہ نظریاتی جنگ لڑ سکیں، یہ جانتے ہوئے کہ سیکولرازم، اسلام سے نظریات کی جنگ پہلے ہی ہار چکا ہے۔ بےشک، مغرب میں بہت سے سیکولرازم اور جمہوریت کے افکار سے بے غرض ہو گئے ہیں کیونکہ وہ اس کے پرفریب دعوؤں اور وعدوں کی قلعی کھلتے ہوئے دیکھ چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آپ مسلمانوں سے ان کی اسلامی اقدار اور نظام کے بارے میں ایک مباحثے کی بھی اجازت دینے کے لیے تیار نہیں جس میں وہ بتا سکیں کہ وہ بنی نوع انسان کو کسی چیز کی دعوت دے رہے ہیں، بلکہ ان پر اپنے ایمان کے اظہار پر قدغن لگا رہے ہیں اور ان کی آواز کو دبا رہے ہیں۔ مگر ہم بطور مسلمان اپنے اسلامی عقائد سے دستبردار نہیں ہوں گے قطع نظر اس سے کہ آپ ہم پر جیسی بھی جھوٹی چھاپ تھوپیں۔ کیونکہ نہ صرف یہ عقائد مبنی برحق ہیں بلکہ آج دنیا سیکولر اور دیگر انسان کے بنائے ہوئے نظاموں کی وجہ سے پریشان ہے اوراسلام کے قوانین اور اس کی اعلیٰ اقدار کی تلاش میں سرگرداں ہے جس کی ضرورت اس سے زیادہ پہلے کبھی نہ محسوس کی گئی۔
تو جناب میکرون، آپ اس جنگ کو جاری رکھیں اگر آپ چاہیں، مگریہ جان لیں کہ یہ ایک ایسی جنگ ہے جو آپ کبھی نہیں جیت سکتے۔
﴿أَفَمَنۡ أَسَّسَ بُنۡيَٰنَهُۥ عَلَىٰ تَقۡوَىٰ مِنَ ٱللَّهِ وَرِضۡوَٰنٍ خَيۡرٌ أَم مَّنۡ أَسَّسَ بُنۡيَٰنَهُۥ عَلَىٰ شَفَا جُرُفٍ هَارٖ فَٱنۡهَارَ بِهِۦ فِي نَارِ جَهَنَّمَۗ وَٱللَّهُ لَا يَهۡدِي ٱلۡقَوۡمَ ٱلظَّٰلِمِينَ﴾
"پھر آیا ایسا شخص بہتر ہے جس نے اپنی عمارت کی بنیاد اللہ سے ڈرنے پر اور اللہ کی خوشنودی پر رکھی ہو، یا وه شخص، کہ جس نے اپنی عمارت کی بنیاد کسی گھاٹی کے کنارے پر جو کہ گرنے ہی کو ہو، رکھی ہو، پھر وه اس کو لے کر آتش دوزخ میں گر پڑے، اور اللہ تعالیٰ ایسے ظالموں کوہدایت نہیں دیتا۔" [سورۃ توبہ: 109]
ڈاکٹر نظرین نواز
ڈائریکٹر شعبہ خواتین مرکزی میڈیا آفس حزب التحرير
Latest from
- فلسطین اور غزہ کی آزادی کے لیے خلافت اور جہاد کے لیے وسیع سرگرمیاں
- اے مسلمان ممالک کی افواج! کیا تم میں کوئی صالح جواں مرد نہیں کہ وہ افواج کی قیادت کرے؟
- مسئلہ فلسطین عالمی برادری کا نہیں بلکہ امت اسلامیہ کا مسئلہ ہے۔
- عالمی سیاست کیوں اہم ہے؟!
- بے شک غزہ کلمہ گو مسلمانوں کا ایشو ہے، سینٹ کام کے ملازموں کا نہیں