بسم الله الرحمن الرحيم
جمہوریت سےعدم اطمینان اور ناامیدی ناگزیر ہے
خبر:
چند دن قبل شائع ہونے والی خبر کے مطابق کیمرج یونیورسٹی کے محققین نے چالیس لاکھ سے زائد لوگوں کے سیاسی رجحانات کا مطالعہ کیا اور اس مقصد کے لیے 1995 سے 2020 تک ہونے والے مختلف سروے رپورٹس سے حاصل ہونے والے اعدادوشمار کو استعمال کیا جو 154 ممالک کا احاطہ کرتے ہیں۔ 2019 میں جن لوگوں نے یہ کہا کہ وہ جمہوریت سے مایوس ہوئے ان کی تعداد 57.5فیصد پر پہنچ گئی۔ محققین نے کہا کہ 2019 میں جمہوریت سے بیزاریت اور ناامیدی کا پیمانہ تاریخ کے بدترین درجے پر پہنچ گیا۔
تبصرہ:
کئی مغربی جمہوریتیں، جن میں امریکا، آسڑیلیا اور برطانیہ شامل ہیں،جمہوریت سے مایوسی اور عدم اطمینان کے حوالے سے سب سے بلند سطح پر ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق، امریکا میں جمہوریت کے حوالے سے سب سے زیادہ "ڈرامائی اور غیر متوقع" عدم اطمینان دیکھا گیا ہے۔ اس رپورٹ نے امریکیوں کی جمہوریت سے مایوسی کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے:"امریکا کے لیے غیر معمولی دور کا خاتمہ ہوگیا-خود کو امریکا کیسے دیکھتا ہے اس میں گہری تبدیلی آئی ہے اور اسی وجہ سے دنیا میں اس کے مقام میں بھی"۔ تو جمہوریت کے حوالے سے امریکیوں کے رویے میں اس تبدیلی کی کیا وجوہات ہیں؟
پہلی بات تو یہ ہےکہ مغرب میں جمہوریت کو عموماً عوام کے سامنےایتھنز کے براہ راست جمہوری نظام کے طور پر ایسے پیش کیا جاتا ہے کہ جہاں لوگ اپنے حق حکمرانی کو کسی درمیانی واسطےیا ایجنٹ کے بغیر استعمال کرتے ہیں۔ لیکن عملی زندگی میں براہ راست جمہوریت نامی کوئی چیز نہیں ہے کیونکہ لوگ عملاً اُن نمائندوں کو منتخب کرنے پر مجبور ہیں جن کے متعلق یہ گمان کیا جاتا ہے کہ وہ ان کے نمائندگان کے طور پر حکمرانی کریں گے۔ لیکن منتخب نمائندگان ہمیشہ سب سے زیادہ طاقتور مفاداتی گروہو ں کے نمائندوں کے طور پر سامنے آتے ہیں جو عوام کے مفادات کو قربان کر کے، جنہوں نے ان کو منتخب کیا ہوتا ہے، طاقتور مفاداتی گروہوں کے مفادات کی نگہبانی کرتے ہیں۔ ایسا صرف اس لیے ممکن ہوتا ہے کیونکہ طاقتور مفاداتی گروہ بڑی بڑی رقمیں امیدواروں کو کامیاب کروانے کے لیے ان کی انتخابی مہم پر خرچ کرتے ہیں۔ اس کے بدلے میں منتخب نمائندہ یہ محسوس کرتا ہے کہ اب اُن پر عوام کی نہیں بلکہ اشرافیہ کے مفادات کی نگہبانی کرنا فرض ہے۔ حکومتی اہلکاروں اور کارپوریٹ اہلکاروں کے درمیان موجود رابطوں کے ذریعے اس بات کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ اشرافیہ کا قانون سازی کے عمل پر مکمل کنٹرول ہو۔ اس طرح قانون سازی کے عمل کا ایک بڑا حصہ اشرافیہ کی آزادیوں اور مفادات کی نگہبانی کے لیے وقف ہوجاتا ہے اور جمہوری عمل پر ووٹرز کاا عتماد مزید کم ہو جاتا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ حکومتی انتظامیہ اور قانون سازوں یعنی اسمبلی اراکین کے درمیان اکثر نئی قانون سازی کے امور پر بہت زیادہ سودے بازی ہوتی ہے جس کی وجہ سےپاس ہونے والا قانون اصل موجوزہ قانون کی بہت کمزور شکل رہ جاتا ہے۔ اور عوام کے جس مقصد کیلئے وہ قانون لایا جاتا ہے وہ حل نہیں ہوتا۔ اور جب حکومت اتحادی جماعتوں پر مشتمل ہوتی ہے تو یہ سودے بازی بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے اور اس طرح نیا قانون لوگوں کے مسائل حل کرنے کے حوالے سے غیر موثر ہوجاتا ہے۔ اس طرح لوگوں پر یہ تاثر مضبوط ہوجاتا ہے کہ جمہوریت ان کے مسائل حل نہیں کرتی اور اس لیے جمہوری عمل کا حصہ بننے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔
تیسری بات یہ ہے کہ حکومت اور قانون سازوں کے درمیان بڑھتی ہوئی تقسیم اور اختلاف قانون سازی کے عمل کو مفلوج کردیتی ہے۔ اقتدار سے چمٹے رہنے کی خواہش صحیح اور غلط کے پیمانے پر عمل کرنے پر غالب آ جاتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ عوام سیاسی اشرافیہ کو اس نظر سے دیکھتے ہیں جو کسی بھی قیمت پر اقتدار سے چمٹے رہنے کے لیے انصاف کاخون کرتے ہیں۔ ٹرمپ کے خلاف مواخذہ کی کارروائی اس کی تازہ اور واضح مثال ہے۔
اور سب سے آخری بات یہ کہ جمہوریت کی ناکامی کی جڑ اس حقیقت میں پنہاں ہے کہ انسان چند لوگوں کے مفاد کو پورا کرنے کے لیے قانون بنا رہے ہیں۔ انسان کمزورمخلوق ہے ، وہ مختلف تعصبات کا حامل ہے جس سے مکمل چھٹکارا پانا ناممکن ہے، اس پر مستزاد اس کا علم محدود ہے۔ لہٰذا اس وجہ سے اس کے ہاتھوں بنائے جانے والے قوانین ہمیشہ امتیازی ہوں گے اور عوام کی بڑی تعداد کو اس سے متنفر کردیں گے۔
اسلام میں انسان نہیں بلکہ اللہ قادر مطلق اور قانون ساز ہے۔ اسلام نے عوام کو خلیفہ منتخب کرنے کا حق دیا ہے جو ان پر اسلام کے مطابق حکمرانی کرتا ہے۔ خلیفہ کا کام صرف اتنا ہے کہ وہ وحی کے ماخذ ، یعنی قرآن و سنت سے قوانین اخذ کرے اور انہیں نافذ کرے۔ خلیفہ مجلس امت یا عوام کو خوش کرنے کے لیے قانون سازی میں کوئی سودے بازی یا سمجھوتے نہیں کر سکتا کیونکہ رب کے قوانین اٹل ہیں۔ یہ نظام مغربی جمہوریتوں کے برخلاف نہ صرف مسائل حل کرتا ہے بلکہ مسائل کا سامنا کرنے کے لیے خلافت کو استحکام اورپھرتی مہیا کرتاہے۔
﴿أَفَمَنْ يَمْشِي مُكِبًّا عَلَى وَجْهِهِ أَهْدَى أَمَّنْ يَمْشِي سَوِيًّا عَلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ﴾
"بھلا جو شخص چلتا ہوا منہ کے بل گر پڑتا ہے وہ سیدھے رستے پر ہے یا وہ جو سیدھے رستے پر برابر چل رہا ہو؟"(الملک 67:22 )
مصنف: عبد المجید بھٹی
حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے لیے لکھا گیا
Latest from
- فلسطین اور غزہ کی آزادی کے لیے خلافت اور جہاد کے لیے وسیع سرگرمیاں
- اے مسلمان ممالک کی افواج! کیا تم میں کوئی صالح جواں مرد نہیں کہ وہ افواج کی قیادت کرے؟
- مسئلہ فلسطین عالمی برادری کا نہیں بلکہ امت اسلامیہ کا مسئلہ ہے۔
- عالمی سیاست کیوں اہم ہے؟!
- بے شک غزہ کلمہ گو مسلمانوں کا ایشو ہے، سینٹ کام کے ملازموں کا نہیں