الثلاثاء، 24 جمادى الأولى 1446| 2024/11/26
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

بر صغیر پاک و ہند کی تحریک خلافت

تحریر: افضل قمر ، پاکستان

 

پہلی جنگ عظیم کے بعد بر صغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کی سب سے بڑی سیاسی پیش رفت تحریک خلافت تھی۔  اس تحریک کی بنیاد اس لیے رکھی گئی کیونکہ یہ بات تقریباً واضح ہو گئی تھی کہ ہارنے والی طاقتیں اب اپنے حکمرانوں کو معزول کردیں گی۔ عثمانی خلافت کے معاملے میں اس کا مطلب سلطان کی معزولی تھا۔  اس کے علاوہ اس کا یہ مطلب بھی تھا کہ خلافت بھی ختم کردی جائے گی۔ ریاست بذات خود ختم کردی جائے گی جس کا مطلب یہ تھا کہ عرب علاقے تقسیم کرکے انہیں آزادی دے دی جائے گی، ریاست کے یورپ میں واقع علاقے مزید کم ہو جائیں گے، اور اس کے ساتھ ہی ہنگری کی ریاست ختم کر کے اسے آزادی دے دی جائے گی۔

 

برصغیر پاک ہند کے مسلما ن خلافت کے لیے  پریشان  تھے۔ خلافت تحریک نے برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کو جوش سے بھر کر متحرک ا  ور تمام مسلمان سیاسی قوتوں کو اس تحریک کا حصہ بننے پر مجبور کردیا۔ تحریک کی پہچان علی برادران، مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی جوہر،  تھے۔ مولانا محمد علی جوہر  اس وقت جیل گئے جب انہوں نے مسلمان فوجیوں کو عراق بھیجنے سے روکنے کے لیے تحریک خلافت کو استعمال کیا۔ ان مسلمان فوجیوں کو بھیجنے کا مقصد عرب علاقوں پر قبضہ کرنا تھا۔ انہیں اس بات پر مجرم قرار دیا گیا کہ انہوں نے ممبئی (سابقہ بمبئی) میں اس حوالے سے لیفلٹ تقسیم کیے تھے۔

 

  خلافت تحریک نے طاقت اس بات سے پکڑی کہ مسلمانوں کی یہ خواہش تھی کہ مقدس مقامات کے ساتھ ساتھ کافی علاقہ خلیفہ کے کنٹرول میں رہے تا کہ وہ  کسی حد تک آزاد رہے۔  اس وقت  شاید تحریک خلافت کا سب سے اہم سبق  یہ تھا کہ ہندوں کے ساتھ اپنے مستقبل کو نتھی کرنا بے کار ہے۔ مولانا محمد علی جوہر نے تحریک خلافت  کے لیے انڈین نیشنل کانگریس  کی حمایت حاصل کی۔ اس مقصد کے حصول کے لیے انہوں نے بھارت کی آزادی  اورگائے کے ذبحہ کو روکنے کے مطالبے کو اپنے دیگر مطالبات کا حصہ بنایا۔ اس  تحریک کا ایک نتیجہ تو یہ نکلا کہ اس نے  بھارت کو  مولانا ابوالکلام  آزاد  کی صورت میں ایک اعلیٰ پائے کا سیاست دان دیا۔ آزاد کے ساتھ  ساتھ کئی مسلمان تحریک خلافت کے ذریعے سیاسی میدان میں اترے اور جب خلافت ختم کردی گئی تو وہ بھارت کی آزادی کے لیے کام کرتے رہے، اور کانگریس کو اپنے سیاسی خواہشات کے اظہار کے لیے چنا۔

 

اس تحریک کا ایک اور اہم رخ  یہ تھا کہ 1857 میں مغل حکمرانی کے خاتمے کے بعد پہلی بار بھارتی مسلمان  سیاست میں پوری شدت کے ساتھ داخل ہوئے۔ 1857 کے بعد سر سید احمد خان نے مسلمانوں کو مشورہ دیا تھا کہ وہ سیاست سے دور رہیں، اور مسلمانوں نے کافی حد اس مشورے پر عمل بھی کیا۔ لہٰذا جب کانگریس قائم ہوئی تھی تو مسلمان اس کے قیام میں شامل نہیں تھے۔  آل انڈیا مسلم لیگ کے قیام کو کانگریس کو پکڑنے کی کوشش کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے ، خصوصاً جب آل انڈیا مسلم لیگ کانگریس کے اتنے قریب آگئی کہ عملاً 1917 میں کانگریس میں ضم ہوگئی۔ تحریک خلافت نے یہ دیکھایا کہ مسلمان ہندوستان کی آزادی  یا اس دور کے کسی بھی دوسرے نعرے سے سیاسی طور پر اتنے متحرک نہیں ہوتے تھے جتنا کہ خلافت کے مسئلہ پر وہ سیاسی طور پر متحرک ہوئے تھے۔

 

تحریک خلافت کا ایک نتیجہ یہ بھی نکلا کہ اس کے ذریعے بہت سارے لوگ سیاست میں داخل ہوئے جو اس سے پہلے اس  میدان کے کھلاڑی نہیں تھے۔ جب تحریک خلافت ایک مایوس کن نتیجے پر ختم ہوئی  کیونکہ وہ اپنے اہداف کو حاصل نہ کرسکی، تو بہت سارے مسلمان سیاسی پلیٹ فارم سے محروم ہوگئے۔ کچھ کانگریس میں چلے گئے لیکن دوسرے آل انڈیا مسلم لیگ میں چلے گئے کیونکہ وہ آزادی کے ساتھ مسلمانوں کی ریاست بھی چاہتے تھے۔

 

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس حوالے سے کچھ واضح نہیں ہے کہ برصغیر کے مسلمان درحقیقت کیا چاہتے تھے۔ کیا جو انڈین نیشنل کانگریس چاہتی تھی مسلمان بھی وہی چاہتے تھے جو کہ ایک طرح  برطانوی راج کا  ہی ہم شکل نظام تھا۔ یا وہ خلافت کا حصہ بننا چاہتے تھے؟ جب خلافت ختم ہوگئی تو دوسری خواہش تو ممکن نہ رہی۔ یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ جب تحریک خلافت شروع ہوئی تھی اس وقت آئرلینڈ اپنی آزادی کے حصول کے بہت قریب تھا ، اور یہ ایک ایسی مثال تھا جس نے بر صغیر کےتمام سیاست دانوں کو متاثر کیا تھا۔ صرف مسلمان ہی اس تجربے سے سیکھ نہیں رہے تھے کہ آزادی کے بعد کا برصغیر پاک و ہند  کس طرح کا ہوگا۔

 

خلافت کے خاتمے نے برصغیر کے مسلمانوں کو شدید پریشانی میں مبتلا کردیا جس کا اظہار صرف تحریک خلافت کی ہی صورت میں نہیں ہوا بلکہ  ریشمی رومال تحریک اور تبلیغی جماعت کا قیام بھی اسی صورتحال کا نتیجہ تھی۔  تحریک خلافت کے بعد آل انڈیا مسلم لیگ دوبارہ کھڑی ہوئی۔ 1920 میں مسلم لیگ  سائمن کمیشن سے ملاقات کرنے کے سوال پر تقسیم ہو گئی۔ اس کمیشن سے ملاقات کےمخالف دھڑے کے سالانہ کنونشن  میں علامہ سر محمد اقبال نے اپنے صدارتی خطبے میں مسلمانوں کی ایک  الگ ریاست کی تجویز پیش کی تھی۔ آل انڈیا مسلم لیگ دوبارہ اکٹھی ہوگئی لیکن اُس  نے اِس خیال کو1940 تک ایک باقاعدہ پالیسی کے طور پر اختیار نہیں کیا  تھا۔

 

تحریک خلافت نے تحریک پاکستان کو دو حوالوں سے متاثر کیا؛ اول، تحریک خلافت سے نکلے ہوئے افراد، اور دوئم، پہلی تحریک کا زبردست اثر۔ یہ نہیں بھولنا چاہیے  کہ وہ لوگ جو پہلی بار تحریک خلافت کے ذریعے سیاست کے میدان میں آئے تھے ان کی بڑی تعداد  آل انڈیا مسلم لیگ کے ذریعے اس میدان میں موجود رہی۔ اگرچہ وہ پارٹی پالیسی کے خلاف نہیں گئے لیکن وہ پارٹی کی پالیسیوں کو ایسے اختیار کرتے تھے جو ان کے پچھلے سیاسی تجربے کے سے ہم آہنگ ہوتی۔  ان دونوں وجوہات کی وجہ سے تحریک خلافت نے تحریک پاکستان  اور  پاکستان کی آئیڈیالوجی کو متاثر کیا۔

 

لہٰذا پاکستان محض نو آبادیاتی نظام کے خلاف ردعمل  کا نتیجہ نہیں جیسا کہ مسلمانوں نےخلافت کے خاتمے پر ردعمل دیا تھا۔ پاکستان میں بظاہر دو طرح کے لوگ ہیں۔ ایک وہ جو مصطفی کمال اور کمال ازم  یعنی عثمانی خلافت کے خاتمے کے بعد ترکی میں قومی ریاست کے تصور کے حامی ہیں۔  اس چیز نے شاید کچھ حد تک پاکستان کی نئی ریاست کے لیے قومی شناخت کی خواہش کو پیدا کیا۔ لیکن اس کے ساتھ پین اسلامک نظریے کے حامل لوگ بھی ہیں جو پاکستان کو اسلام کی لیبارٹری کے طور پر دیکھتے ہیں۔  اس سے  یہ مفروضہ پیدا ہوا کہ اسلام کو جدید شکل میں ڈھالنے کی ضرورت ہے۔  یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اس چیز کی ضرورت صرف  نوآبادیاتی  نظام کے تجربے کی وجہ سے محسوس نہیں ہوئی ، بلکہ خلافت کے خاتمے  اور اسلام کو عملاً ختیارکرنے میں حائل ہونے والی مشکلات  کی وجہ سے یہ خیال پیدا ہوا۔ پاکستان میں پین اسلامک تحریکوں کی مقبولیت  اور قبولیت کی ایک وجہ یہ بھی ہے ، چاہے وہ عالمی اسلامی لیگ ہو یا او۔آئی ۔ سی ہی کیوں نہ ہو۔

 

اس نئی ریاست کی جو مشکل ہے وہ یہ کہ اس کے حکمران سابقہ استعماریوں کی حمایت میں  اس کے قیام کے مقصد سے منحرف  ہوگئے ہیں۔ پاکستان صرف اسی صورت میں اپنے قیام کے مقصد کو حاصل کرسکتا ہے اگر وہ خلافت کا حصہ بن جائے۔ خلافت صرف عثمانی خلافت تک محدود نہیں ہے بلکہ وہ ریاست ہے جو نبوت کے طریقے کے مطابق اسلام کو مکمل طور پر نافذ کرتی ہے۔ کوئی بھی جماعت جو اس ہدف کے حصول کے لیے کام نہیں کرتی درحقیقت ہمیں ہماری منزل سے دور لے جانے کا باعث ہے۔

اس کے علاوہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،

 

وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعاً وَلاَ تَفَرَّقُواْ وَاذْكُرُواْ نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُم أَعْدَآءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَاناً وَكُنتُمْ عَلَى شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنقَذَكُمْ مِّنْهَا كَذلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ ءَايَـتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ

"اللہ تعالیٰ کی رسی کو سب مل کر مضبوطی سے تھام لو۔ اور پھوٹ نہ ڈالو، اور اللہ تعالیٰ کی اس وقت کی نعمت کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے، تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی، پس تم اس  کی مہربانی سے بھائی بھائی ہو گئے اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پہنچ چکے تھےتو اس نے تمہیں بچا لیا۔ اللہ تعالیٰ اسی طرح تمہارے لیے اپنی نشانیاں بیان کرتا ہے تا کہ تم ہدایت پاؤ"

(آل عمران:103)۔

 

خلافت تحریک  اس خواہش پر مبنی تھی کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے احکامات  کی اتباع کی جائے۔ پاکستان اسی خواہش کی تکمیل کے لیے وجود میں لایا گیا تھا جو اب تک پوری نہیں ہوسکی ہے۔  جب تک یہ خواہش پوری نہیں ہو گی وہ جدوجہد جاری رہے گی۔   

           

Last modified onجمعہ, 26 مئی 2017 21:40

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک