الثلاثاء، 24 جمادى الأولى 1446| 2024/11/26
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

خبر اور تبصرہ

 چین-پاکستان اقتصادی راہداری گیم چینجر(کھیل کی تبدیلی) نہیں ہے

بلکہ یہ غیر ممالک پر ہمارے انحصار کو بڑھا دے گا

 

خبر:  

14 مئی 2017 کو وزیر اعظم نواز شریف نے کہا کہ ون بیلٹ – ون روڈ کے تحت چین-پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کا منصوبہ خطے کے تمام ممالک کے لیے کھلا ہے اور اسے' کسی صورت سیاست زدہ نہیں کرنا چاہیے'۔  

 

تبصرہ:   

جب سے سی پیک کا منصوبہ بنایا گیا ہے پاکستان کی حکومت نے اسے پاکستان کی معیشت کے لیے گیم چینجر (کھیل کی تبدیل) کے طور پر پیش کیا ہے۔ پاکستان میں کئی لوگوں نے اس منصوبے کے حوالے سے حکومت کی جانب سے  کیے جانے والے بلند بانگ دعووں پر اعتراضات اور ان کی تردید کی ہے۔  سی پیک کے حوالے سے سب سے عام پریشانی اس پر لیے جانے والے قرضوں اور ان قرضوں پر سود کی ادائیگی کے حوالے سے ہے۔ پاکستان پہلے ہی غیر ملکی قرضوں کی دلدل میں دھنسا ہوا ہے یہاں تک کہ ہر سال ایک ارب ڈالر سے زائد ان غیر ملکی قرضوں پرسود ادا کیا جاتا ہے۔  یہ ایک مشہور و معروف بات ہے کہ ان غیر ملکی قرضوں کی اصل رقم اور اور ان پر سود کی ادائیگی کے لیےپاکستان کو مزید غیر ملکی قرضے حاصل کرنا پڑتے ہیں۔ اور اب سی پیک کے نام پر لیے جانے والے بھاری قرضوں کی وجہ سے غیر ملکی قرضے اور ان قرضوں پر سالانہ سود کی ادائیگی میں مزید اضافہ ہوجائے گا۔ ایک بروکریچ ہاوس کے تخمینے کے مطابق پاکستان 50 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری پر اگلے تیس سالوں میں چین کو 90 ارب ڈالر ادا کرے گا۔ ٹاپ لائن سیکیوریٹیز نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا کہ اہم معاشی ماہرین نے تخمینہ لگایا ہے کہ 2020 کے بعد سالانہ اوسطاً 3 سے 4 ارب ڈالر ادائیگیاں کرنی ہوں گی۔ "سی پیک پر اوسط سالانہ ادائیگی 3 ارب ڈالر ہو گی۔(درمیانی مدت کے لیے) 2020 سے 2025 کے مالیاتی عرصے میں  یہ ادائیگیاں 2 سے 5.3ارب ڈالر یعنی اوسطاً3.7ارب ڈالر سالانہ ہوں گی"، سعد ہاشمی، جو ایک بروکریج ہاوس سے وابستہ ہیں، نے یہ بات ایک رپورٹ میں کہی جس کا عنوان ہے، "پاکستان کے بیرونی  اکاونٹ کے حوالے سے خدشات اور سی پیک پر ادائیگیاں"۔  لہٰذا بہت آسانی سے اس بات کا تصور کیا جاسکتا ہے کہ جو بھی معاشی حل چل ہو گی اس کا سب سے زیادہ فائدہ چین کو ہوگا اور پاکستان کے حصے میں زیادہ تر قرضے اتارنے کا  "پھل" ہی آئے گا۔ 

 

ایک بات ہمارے  ذہنوں میں بہت واضح ہونی چاہیے کہ سی پیک کا منصوبہ  پاکستان کی سوچ کا نہیں بلکہ چین کی سوچ کا نتیجہ ہے۔ چین اب ایک سرمایہ دار ریاست ہے اور کسی بھی دوسری سرمایہ دار ریاست کی طرح چین بھی  کمزور ریاستوں کے مفادات کی قربانی کی قیمت پر صرف اپنے مفادات کے حصول کے لیے ہی کام کرتا ہے۔ ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ چینی سرمایہ کاری نے سری لنکا میں کیا صورتحال پیدا کردی تھی جب سری لنکا نے 2008 میں 300 ملین ڈالر کی چینی قرضے سے ایک بندرگاہ کی تعمیر شروع کی تھی۔ کچھ عرصے بعد جب سر لنکا کے لئے اس قرضے کو واپس کرنا مشکل ہوگیا  تو چین نے اس قرض کے عوض  ہمبنٹوٹا(Hambantota) بندرگاہ اور اس سے متعصل صنعتی زون کی 15000 ایکڑ زمین  کو اپنی ملکیت میں لینا چاہا۔ اس صورتحال نے سر لنکا کی عوام کو مشتعل کردیا اور ملک میں مظاہرے ہونے شروع ہو گئے۔ سر ی لنکا کی حکومت نے صورتحال کو ٹھنڈا کرنے کے لیے بندرگاہ اور صنعتی زون کی منتقلی کے معاہدے کو التوا میں ڈال دیا لیکن سر لنکا میں چین کے سفیر  نے کہا کہ اگرچہ وہ اور چینی صدر سر لنکا کے ساتھ صبر کا مظاہرہ کرنا چاہتے ہیں لیکن ہوسکتا ہے کہ سرمایہ کار اتنے صبر کا مظاہرہ نہ کریں۔

 

قوموں کی تعمیر استعماری ریاستوں کے پیسوں، ٹیکنالوجی اور منصوبوں پر نہیں ہوسکتی۔ آج کی دنیا کی تمام بڑی صنعتی معیشتیں اس مقام پر اس وجہ سے نہیں پہنچیں کہ انہوں نے اپنے ممالک کے دروازے مقامی صنعت اور زراعت کو نقصان پہنچانے کی قیمت پر بیرونی طاقتوں کےلیے کھول دیے تھے ۔ ان سب نے اپنی معیشتوں کی بیرونی اثرات سے حفاظت اور اپنے لوگوں کو ہر قسم کی سہولیات اور مراعات فراہم کیں تھیں۔ لیکن جب یہ ایک بار بڑی معیشتیں بن گئی تو انہوں نے آزاد تجارت اور مقامی معیشتوں کی حفاظت کے خاتمے پر زور دینا شروع کردیا۔  پاکستان اور امت مسلمہ دنیا کی ایک بڑی معیشت بن سکتے ہیں اگر ان کے پاس ایک ایسی مخلص قیادت ہو جو اسلام کو مکمل طور پر نافذ کرے۔ اسلام کا معاشی نظام  ہر طرح کی سہولیات اور مراعات  ریاست خلافت کے شہریوں کو فراہم کرتا ہے کہ وہ ریاست کے وسائل سے مستفید ہو کر اپنی اور ریاست کی معیشت کو عظیم بنائیں ناکہ بیرونی طاقتوں کی معیشتوں کو مضبوط کیا جائے۔ اور ایسا کرنا کوئی خواب نہیں جس کی تعبیر ممکن ہی نہ ہو کیونکہ اگر ہم نے ماضی میں ایک ریاست، خلافت،قائم کی  اور وہ معاشی میدان میں دنیا کی صف اول کی معیشت بن گئی تو ایسا ایک بار پھر کیا جاسکتا ہے اگر ہم اسلام کو مکمل طور پر نافذ کریں۔ لہٰذا ہمیں بیرونی طاقتوں کی معاونت پر بھروسہ اور انحصار نہیں کرنا چاہیے بلکہ مکمل بھروسہ اور انحصار اسلام پر کرنا چاہیے اور نبوت کے طریقے پر خلافت کو قائم کرنا چاہیے جو اسلام کا معاشی نظام کرے گی اور ہمیں ایک بار پھر خوشحال بنا دے گی۔

 

فَإِمَّايَأْتِيَنَّكُممِّنِّىهُدًىفَمَنِٱتَّبَعَهُدَاىَفَلاَيَضِلُّوَلاَيَشْقَىٰطوَمَنْأَعْرَضَعَنذِكْرِىفَإِنَّلَهُمَعِيشَةًضَنكاً

"پھر اگر تمہارے پاس میری (اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی)  ہدایت پہنچے، تو جس کسی نے میری ہدایت کی پیروی کی وہ نہ تو گمراہ ہوگا اور نہ ہی پریشانی و مایوسی کا شکار ہوگا۔ لیکن جس کسی نے میرے(اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے) ذکر (قرآن) سے منہ موڑا تو اس کی زندگی تنگ ہوجائے گی"(طہ:124-124)

 

حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے لیے لکھا گیا

شہزاد شیخ

ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان

Last modified onاتوار, 21 مئی 2017 20:05

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک