سیلاب کی تباہ کاریوں نے امت میں موجود خیرکو ظاہر کردیا ہے اور حکمرانوں کے شر کو بے نقاب کردیاہے
- Published in پاکستان
- Written by Super User
- سب سے پہلے تبصرہ کرنے والے بنیں
- الموافق
جولائی کے آخری ہفتے اور اگست کے آغازمیں ،مون سون کی موسلا دھار بارشوں کے نتیجے میں دریاؤں اور ندی نالوں میں طغیانی آگئی اورپانی بپھر کر دریاؤں ، ندی نالوں اور ڈیموں سے باہر آ گیا، جس کی وجہ سے خیبر پختونخواہ، بلوچستان اور جنوبی پنجاب کے شہروں میں بے شما رسڑکیں، پُل، گھر اور بجلی کی لائنیں زیر آب آگئیں ۔ اس طغیانی نے چارسدہ، نوشہرہ، پشاور، مردان، سوابی، سوات، شانگلہ کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے۔ ہزاروں لوگ ڈوب کر ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ لاکھوں کی تعداد میں لوگ بھوکے پیاسے کھلے آسمان تلے موجود ہیں اور سیلابی پانی کے نتیجے میں جنم لینے والی ٹائی فائیڈاور ہیضے کی بیماریوں کا شکار ہوکر موت کا سامنا کر رہے ہیں۔
جہاں تک اُن مسلمانوں کا تعلق ہے جو سیلابی پانی میں بہہ گئے یا اب پیٹ کی بیماریوں میں جاں بحق ہورہے ہیں تواُن کے لیے شہداء کا سا اجر ہے، جیسا کہ رسول اللہ ا نے ارشاد فرمایا:
((ماتعدون الشھید فیکم؟ قالو: یا رسول اللّٰہ من قتل فی سبیل اللّٰہ فھو شہید، قال: اِن شھداء أمتی اذاً لقلیل، قالو: فمن ھم یا رسول اللّٰہ؟ قال: من قتل فی سبیل اللّٰہ فھو شھید، ومن مات فی سبیل اللّٰہ فھو شہید، ومن مات فی الطاعون فھو شہید، ومن مات فی البطن فھو شھید، والغریق شھید))
''تم اپنے میں کس کو شہید تصور کرتے ہو؟ انہوں(صحابہ) نے کہا: اے اللہ کے رسول ا،وہ شخص شہید ہوتا ہے جو اللہ کی راہ میں مارا جائے۔ آپ انے فرمایا: تب تو میری امت میں کم لوگ شہید ہونگے۔ انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! تو پھر کون لوگ شہید ہیں؟ آپ انے فرمایا: جوشخص اللہ کے راہ میں مارا جائے، وہ شہید ہے، اور جو شخص اللہ کی راہ میں فوت ہوگیا وہ شہید ہے ، اور جو شخص طاعون کی بیماری میں مر گیا وہ شہید ہے اور جوشخص پیٹ کی بیماری میں مر گیا وہ شہید ہے اور جو شخص ڈوب کر مر گیا وہ شہید ہے۔‘‘ (مسلم)
بے شک اللہ کی راہ میں موت بہترین موت ہے جو مسلمانوں میں سے بہترین اور سب سے متقی لوگوں کو نصیب ہوتی ہے ۔
جہاں تک پاکستان اور پاکستان سے باہر بسنے والے لاکھوں مسلمانوں کا تعلق ہے تو وہ اپنے بھائیوں کی تکالیف پر غمزدہ ہیں اورپاکستان میں موجود انتشار کی فضا کے باوجود اپنے بھائیوں کے لیے صاف پانی، خوراک، ادویات اور کپڑوں کی شکل میں امداد بھیجنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ سب رسول اللہ ا کی امت میں موجود خیر کو ظاہر کرتا ہے۔ بے شک یہ امت ایسی ہی ہے جیسا کہ رسول اللہ ا نے اِس کے متعلق بیان فرمایا ہے:
((مَثَلُ الْمُؤْمِنِیْنَ فِی تَوَادِّھِمْ وَ تَرَاحُمِھِمْ وَ تَعَاطُفِھِمْ مَثَلُ الْجَسَدِ اِذَاشْتَکٰی مِنْہُ عُضْوٌ تَدَاعیٰ سَاءِرُالْجَسَدِ بِالسَّھْرِ وَالْحُمّٰی))
''آپس میں محبت رحمت اور مہربانی میں مومنین کی مثال ایک جسم کی سی ہے کہ جب اس کے ایک حصے کو تکلیف پہنچتی ہے تو پورا جسم بے خوابی اور بخار میں مبتلا ہوتاہے۔‘‘(مسلم)
اور کتنا بڑا فرق ہے اس امت اورپاکستان اور پاکستان سے باہر امت کے حکمرانوں کے درمیان ۔ ان حکمرانوں کے پاس مجموعی طور بیسیوں لاکھ فوج اور کھربوں ڈالر کے وسائل موجود ہیں ، لیکن اِن حکمرانوں کی طرف سے مسلمانوں کی اِس ابتر صورتحال اور شدید ضرورت کے موقع پر اب تک کا ردعمل کیا ہے؟:
جہاں تک پاکستان کے حکمرانوں کا تعلق ہے ، تو جب سیلاب کی شدت میں اضافہ ہوا اور اس کی تباہ کاریوں کے نتیجے میں اموات کی تعداد بڑھنے لگی تو پاکستان کاصدر آصف علی زرداری یورپ کے حکمرانوں کے ساتھ مسکراہٹوں کا تبادلہ کرنے اور ان کے ساتھ اُٹھنے بیٹھنے کے لیے پاکستان سے روانہ ہو گیا۔ اور پاکستان کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کوملک کے اندرایمرجنسی کی صاف اور واضح صورتِ حال کے باوجودکئی دنوں کے بعد اب کابینہ کی ایک ''ایمرجنسی‘‘ میٹنگ کرنے کا خیال آیا ہے۔ کیا یہ حکمرانوں کی ذمہ داری نہ تھی کہ وہ فوری طور پر متاثرہ علاقوں کا رخ کرتے تاکہ وہ بذاتِ خود انتظامی کاموں کی براہِ راست نگرانی کرتے، بجائے یہ کہ وہ فقط ٹیلی ویژن رپورٹوں کو دیکھتے رہتے ،کہ گویا یہ تباہ کاریاں کسی اور ملک میں ہورہی ہوں؟ کیا یہ اِن حکمرانوں کی ذمہ داری نہ تھی کہ وہ متاثرہ علاقوں میں خوراک اور پانی کی وافر سپلائی کو یقینی بناتے ؟ تاکہ متاثرہ علاقوں میں سپلائی کی کمی کی وجہ سے قیمتوں میں ہوشربا اضافہ نہ ہوتا، جیسا کہ متاثرہ علاقوں میں صورتِ حال یہ ہے کہ ایک روٹی کی قیمت 25روپے تک جاپہنچی ہے ،جبکہ غیر متاثرہ علاقوں میں یہ 2روپے میں دستیاب ہے۔ کیا یہ اِن حکمرانوں ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ لوگوں کی مدد کے لیے لاکھوں کی تعداد میں فوجی جوانوں کو متحرک کرتے نہ کہ فقط چند ہزار فوجی جوانوں کو جو اس قدر وسیع بحران کے مقابلے میں بے بس نظر آتے ہیں، جبکہ دوسری طرف انہی حکمرانوں نے ڈیڑھ لاکھ کے قریب فوجی جوانوں کو قبائلی علاقوں میں امریکہ کی فتنے کی جنگ میں جھونک رکھا ہے۔ یہ ظالم حکمران افغانستان میں موجود صلیبیوں کے لیے شراب اور ہتھیار لے جانے والی سپلائی لائن کی حفاظت کے لیے پورے ملک کوتہہ وبالا کرنے کے لیے تیار ہیں لیکن اِس کے برعکس مسلمانوں کی مشکلات کو دور کرنے کے لیے انگلی ہلانے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں۔ اور حد تو یہ ہے کہ یہ حکمران سیلاب زدگان کے لیے امریکہ کی انتہائی معمولی مدد کو خوش آمدید کہہ رہے ہیں تاکہ اُس دشمن امریکہ کے اِمیج کو پاکستان کے عوام کی نظر میں بہتر بنایا جائے ،جو ہرروز پاکستان کے مسلمانوں پر ڈرون برسا رہا ہے۔
اور جہاں تک بیرونِ پاکستان دیگر مسلم ممالک کے حکمرانوں کا تعلق ہے، تو وہ پاکستان کے حکمرانوں سے بالکل مختلف نہیں۔ وہ مجبوراً ''امت‘‘ اور ''وحدت‘‘کا لفظ استعمال کرتے ہیں کیونکہ مسلمان اپنے آپ کو ایک امت سمجھتے ہیں اور حکمرانوں سے بھی اس تصور کا مطالبہ کرتے ہیں ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ الفاظ ان حکمرانوں کے حلق سے نیچے نہیں اترتے۔ یہ حکمران اطمینا ن سے مسلمانوں کو مرتا ہوادیکھتے ہیں گویا یہ مسلمان نہیں بلکہ جانور ہیں اور دوسری طرف یہ امت کے وسیع وسائل کو بے دردی سے لُوٹ کر انہیں مغربی بینکوں میں جمع کرنے پر لگے ہوئے ہیں، اُس وقت کے لیے جب یہ اپنے ہی لوگوں کو چھوڑکر فرار ہو جائیں گے۔ یہ حکمران اپنی عوام کو اتنا ہی دیتے ہیں جو اُن کے نزدیک عوام کو خاموش کرنے کے لیے کافی ہو، تاکہ اِن حکمرانوں کے خلاف عوام کا غصہ بے قابو نہ ہوجائے، بالکل اس طرح جیسے کوئی شخص بھوکے جانور کے سامنے کھانے کا نوالہ پھینکتا ہے، اس خوف سے کہ کہیں وہ اسے کاٹ نہ لے۔ تاہم مجموعی طور پریہ حکمران بحران کے موقع پر بھی مسلمانوں کے ساتھ ویسا ہی سلوک کرتے ہیں جیسا کہ عام دنوں میں، پس وہ دونوں حالتوں میں عوام کو زیادہ تر بنیادی ضروریات سے محروم رکھتے ہیں۔
پاکستان سمیت تمام مسلم ممالک پر مسلط حکمرانوں کو مسلمانوں کی کوئی پرواہ نہیں کیونکہ یہ حکمران جس سرمایہ دارانہ نظام کو نافذ کررہے ہیں،وہ صرف حکمران ٹولے اور اُس کے حواریوں کے مفادات کے تحفظ کے لیے ترتیب دیا گیا ہے۔ پوری دنیا میں ایک ایلیٹ (elite)طبقہ ہی دنیا کے اہم ترین وسائل پر قابض ہے اور اس نے اربوں لوگوں کو بھوک ، پیاس اور بے سرو سامانی میں مبتلاکررکھا ہے۔ اور بحران کے وقت محض یہی توقع کی جا سکتی ہے کہ یہ نظام لوگوں کے ساتھ اِس سے بھی بُرا سلوک کرے گا۔ اور دنیا کے لوگوں نے 2005ء میں اِس امر کا مشاہدہ بھی کیا، جب سرمایہ داریت کے علمبردارامریکہ کی جنوبی ریاستوں میں آنے والے سمندری طوفان قطرینہ کے موقع پر بش حکومت نے وہاں کے شہریوں کو بھوک، پیاس اور پرتشدد جرائم کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا۔ فی الحقیقت سرمایہ داریت ایک کفریہ نظام ہے جولوگوں کی اکثریت کو بنیادی ضروریات سے بھی محروم کر کے ایک چھوٹے سے طبقے کو اعلیٰ ترین آسائشیں فراہم کرتا ہے ۔ بلاشبہ اب اس نظام کے اختتام کا نقارہ بج چکا ہے، بالکل اسی طرح جیسا کہ اسے نافذ کرنے والے حکمرانوں کے اختتام کا وقت اب قریب پہنچ گیاہے۔
اے پاکستان کے اہلِ قوت ! اے پاکستان کی مسلح افواج کے آفیسر حضرات!
کیا جو سب کچھ آپ دیکھ چکے ہیں وہ اس بات کے لیے کافی نہیں کہ آپ اِن بدترین حکمرانوں کے خلاف متحرک ہوں؟ کیا آپ انہیں بھول جائیں گے کہ جن کے تحفظ کی آپ نے قسم اٹھائی تھی؟ کیا وہ امتِ مسلمہ کہ جس نے ملکہ وکٹوریہ کے دورِ حکومت میں قحط زدہ آئرلینڈ کے لیے خوراک کے جہاز بھیجے تھے، اِس بات کی بھی مستحق نہیں کہ اُن کی بنیادی ضروریات کا تحفظ کیا جائے؟ کیا وہ عظیم امتِ مسلمہ کہ جو خلافت کے تمام ادوار میں مظلوم غیرمسلموں کو پناہ دیتی رہی، آج امن اور سیکورٹی اُس کا حق نہیں؟ کیا یہ اعلیٰ ظرف امت مسلمہ اِس بات کی حق دار نہیں کہ اِن پر اعلیٰ ظرف حکمران مقرر ہوں جو اس کی تنہائی اور مایوسی میں شریک ہوں،جو اس امت کے لیے اتنا روئیں کہ ان کا سینہ دُکھنے لگے اور و ہ اس امت کی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے انتھک محنت کریں، اپنی نیندوں اورتھکن سے شَل بازؤں کی پرواہ کئے بغیر اس امت کی تکالیف دور کرنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھیں، بالکل اُسی طرح جیسے دوسرے خلیفۂ راشد عمرؓ کے دور میں مدینہ میں قحط کے موقع پر ہوا تھا۔ مدینہ سے سینکڑوں میل دور شام کے والی ابو عبیدہ بن الجراح نے اونٹوں کا ایک اتنا بڑا قافلہ بھجوایاکہ جس کی لمبائی کے متعلق انہوں نے عمرؓ کو لکھا:''میں ایسا قافلہ بھجوا رہا ہوں کہ جس کا پہلا اونٹ جب مدینہ پہنچے گا تو آخری اونٹ یہاں شام میں ہوگا ‘‘۔ مزید برآں بعد میں ابو عبیدہ بن الجراح بذاتِ خود مدینہ آگئے اور اُس ٹیم میں افسر کے طور پر کام کیا جو اِس آفت سے نبٹنے کے لیے قائم کی گئی تھی اور جس کی سربراہی حضرت عمرؓ بذاتِ خود کررہے تھے۔ صحرا ئی قصبوں سے لاکھوں کی تعداد میں لوگ پہلے ہی مدینہ میں اکٹھا ہوچکے تھے اور جب مناسب تعداد میں راشن مدینہ پہنچ گیا، تو عمرؓ نے اپنے لوگوں کو عراق ،فلسطین اور شام کی طرف بھیجا تاکہ وہ امدادی قافلوں کو عرب کے صحرا میں اندر تک بسنے والوں تک لے جائیں ،یوں لاکھوں لوگوں کو لقمہ اجل ہونے سے بچا لیاگیا۔ بے گھر ہوئے افرادکیلئے حضرت عمرؓ ہر رات کھانے کا انتظام کرتے تھے جس میں ایک اندازے کے مطابق ہر رات ایک لاکھ سے زائد لوگ کھانا کھاتے تھے۔اگر اسلامی حکومت یہ سب کچھ ایسے دور میں سرانجام دے سکتی ہے جب پیغام رسانی اونٹوں اور گھوڑں کے ذریعے ہوا کرتی تھی ، تو آج ہوائی جہاز اور انٹرنیٹ کے دور میں ریاستِ خلافت کیا کچھ ممکن بنا سکتی ہے؟!
اے پاکستان کے اہلِ قوت! اے پاکستان کی مسلح افواج کے آفیسر حضرات!
یہ کافی نہیں ہے کہ آپ صرف لوگو ں کی مدد کرنے کیلئے امدادی کاروائیوں کا حصہ بنیں ۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے آپ کو اس سے کہیں بڑھ کر صلاحیتیں بخشیں ہیں، جن کے بارے میں آپ سے اُس دن سوال کیا جائے جب ہر کسی کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے سامنے پیش کیا جائے گا،اور جب اس کے غصے اور سزا سے بچنے کیلئے کوئی عذر کام نہ آئے گا۔ یہ آپ کی ذمہ داری ہے کہ آپ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی خوشنودی کی خاطر دلیرانہ قدم اٹھاؤ، جو اس بات کو یقینی بنائے گا کہ مسلمانوں کا خلیفہ ٔراشد ، اسلام کی حکمرانی کے تحت، اللہ کی خوشنودی کی خاطر، رہتی نسلوں تک امت کی ضروریات کو پورا کرے، خواہ وہ بحران کا وقت ہو یا عام حالات ہوں۔ تو اے بھائیو! آپ خلافت کے قیام کیلئے کب نُصرۃ دیں گے؟
( وَسَیَعْلَمُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْآ أَیَّ مُنْقَلَبٍ یَنْقَلِبُوْنَ)
''جنہوں نے ظلم کیا ہے ،وہ جلد ہی جان لیں گے کہ وہ کس کروٹ الٹتے ہیں‘‘(الشعراء :227)
24شعبان 1431ھ حزب التحریر
5اگست 2010ء ولایہ پاکستان
www.hizb-pakistan.com