الأربعاء، 25 جمادى الأولى 1446| 2024/11/27
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

سیلاب کی تباہ کاریوں نے امت میں موجود خیرکو ظاہر کردیا ہے اور حکمرانوں کے شر کو بے نقاب کردیاہے

جولائی کے آخری ہفتے اور اگست کے آغازمیں ،مون سون کی موسلا دھار بارشوں کے نتیجے میں دریاؤں اور ندی نالوں میں طغیانی آگئی اورپانی بپھر کر دریاؤں ، ندی نالوں اور ڈیموں سے باہر آ گیا، جس کی وجہ سے خیبر پختونخواہ، بلوچستان اور جنوبی پنجاب کے شہروں میں بے شما رسڑکیں، پُل، گھر اور بجلی کی لائنیں زیر آب آگئیں ۔ اس طغیانی نے چارسدہ، نوشہرہ، پشاور، مردان، سوابی، سوات، شانگلہ کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے۔ ہزاروں لوگ ڈوب کر ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ لاکھوں کی تعداد میں لوگ بھوکے پیاسے کھلے آسمان تلے موجود ہیں اور سیلابی پانی کے نتیجے میں جنم لینے والی ٹائی فائیڈاور ہیضے کی بیماریوں کا شکار ہوکر موت کا سامنا کر رہے ہیں۔

جہاں تک اُن مسلمانوں کا تعلق ہے جو سیلابی پانی میں بہہ گئے یا اب پیٹ کی بیماریوں میں جاں بحق ہورہے ہیں تواُن کے لیے شہداء کا سا اجر ہے، جیسا کہ رسول اللہ ا نے ارشاد فرمایا:

((ماتعدون الشھید فیکم؟ قالو: یا رسول اللّٰہ من قتل فی سبیل اللّٰہ فھو شہید، قال: اِن شھداء أمتی اذاً لقلیل، قالو: فمن ھم یا رسول اللّٰہ؟ قال: من قتل فی سبیل اللّٰہ فھو شھید، ومن مات فی سبیل اللّٰہ فھو شہید، ومن مات فی الطاعون فھو شہید، ومن مات فی البطن فھو شھید، والغریق شھید))
''تم اپنے میں کس کو شہید تصور کرتے ہو؟ انہوں(صحابہ) نے کہا: اے اللہ کے رسول ا،وہ شخص شہید ہوتا ہے جو اللہ کی راہ میں مارا جائے۔ آپ انے فرمایا: تب تو میری امت میں کم لوگ شہید ہونگے۔ انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! تو پھر کون لوگ شہید ہیں؟ آپ انے فرمایا: جوشخص اللہ کے راہ میں مارا جائے، وہ شہید ہے، اور جو شخص اللہ کی راہ میں فوت ہوگیا وہ شہید ہے ، اور جو شخص طاعون کی بیماری میں مر گیا وہ شہید ہے اور جوشخص پیٹ کی بیماری میں مر گیا وہ شہید ہے اور جو شخص ڈوب کر مر گیا وہ شہید ہے۔‘‘ (مسلم)
بے شک اللہ کی راہ میں موت بہترین موت ہے جو مسلمانوں میں سے بہترین اور سب سے متقی لوگوں کو نصیب ہوتی ہے ۔

جہاں تک پاکستان اور پاکستان سے باہر بسنے والے لاکھوں مسلمانوں کا تعلق ہے تو وہ اپنے بھائیوں کی تکالیف پر غمزدہ ہیں اورپاکستان میں موجود انتشار کی فضا کے باوجود اپنے بھائیوں کے لیے صاف پانی، خوراک، ادویات اور کپڑوں کی شکل میں امداد بھیجنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ سب رسول اللہ ا کی امت میں موجود خیر کو ظاہر کرتا ہے۔ بے شک یہ امت ایسی ہی ہے جیسا کہ رسول اللہ ا نے اِس کے متعلق بیان فرمایا ہے:

((مَثَلُ الْمُؤْمِنِیْنَ فِی تَوَادِّھِمْ وَ تَرَاحُمِھِمْ وَ تَعَاطُفِھِمْ مَثَلُ الْجَسَدِ اِذَاشْتَکٰی مِنْہُ عُضْوٌ تَدَاعیٰ سَاءِرُالْجَسَدِ بِالسَّھْرِ وَالْحُمّٰی))
''آپس میں محبت رحمت اور مہربانی میں مومنین کی مثال ایک جسم کی سی ہے کہ جب اس کے ایک حصے کو تکلیف پہنچتی ہے تو پورا جسم بے خوابی اور بخار میں مبتلا ہوتاہے۔‘‘(مسلم)

اور کتنا بڑا فرق ہے اس امت اورپاکستان اور پاکستان سے باہر امت کے حکمرانوں کے درمیان ۔ ان حکمرانوں کے پاس مجموعی طور بیسیوں لاکھ فوج اور کھربوں ڈالر کے وسائل موجود ہیں ، لیکن اِن حکمرانوں کی طرف سے مسلمانوں کی اِس ابتر صورتحال اور شدید ضرورت کے موقع پر اب تک کا ردعمل کیا ہے؟:

جہاں تک پاکستان کے حکمرانوں کا تعلق ہے ، تو جب سیلاب کی شدت میں اضافہ ہوا اور اس کی تباہ کاریوں کے نتیجے میں اموات کی تعداد بڑھنے لگی تو پاکستان کاصدر آصف علی زرداری یورپ کے حکمرانوں کے ساتھ مسکراہٹوں کا تبادلہ کرنے اور ان کے ساتھ اُٹھنے بیٹھنے کے لیے پاکستان سے روانہ ہو گیا۔ اور پاکستان کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کوملک کے اندرایمرجنسی کی صاف اور واضح صورتِ حال کے باوجودکئی دنوں کے بعد اب کابینہ کی ایک ''ایمرجنسی‘‘ میٹنگ کرنے کا خیال آیا ہے۔ کیا یہ حکمرانوں کی ذمہ داری نہ تھی کہ وہ فوری طور پر متاثرہ علاقوں کا رخ کرتے تاکہ وہ بذاتِ خود انتظامی کاموں کی براہِ راست نگرانی کرتے، بجائے یہ کہ وہ فقط ٹیلی ویژن رپورٹوں کو دیکھتے رہتے ،کہ گویا یہ تباہ کاریاں کسی اور ملک میں ہورہی ہوں؟ کیا یہ اِن حکمرانوں کی ذمہ داری نہ تھی کہ وہ متاثرہ علاقوں میں خوراک اور پانی کی وافر سپلائی کو یقینی بناتے ؟ تاکہ متاثرہ علاقوں میں سپلائی کی کمی کی وجہ سے قیمتوں میں ہوشربا اضافہ نہ ہوتا، جیسا کہ متاثرہ علاقوں میں صورتِ حال یہ ہے کہ ایک روٹی کی قیمت 25روپے تک جاپہنچی ہے ،جبکہ غیر متاثرہ علاقوں میں یہ 2روپے میں دستیاب ہے۔ کیا یہ اِن حکمرانوں ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ لوگوں کی مدد کے لیے لاکھوں کی تعداد میں فوجی جوانوں کو متحرک کرتے نہ کہ فقط چند ہزار فوجی جوانوں کو جو اس قدر وسیع بحران کے مقابلے میں بے بس نظر آتے ہیں، جبکہ دوسری طرف انہی حکمرانوں نے ڈیڑھ لاکھ کے قریب فوجی جوانوں کو قبائلی علاقوں میں امریکہ کی فتنے کی جنگ میں جھونک رکھا ہے۔ یہ ظالم حکمران افغانستان میں موجود صلیبیوں کے لیے شراب اور ہتھیار لے جانے والی سپلائی لائن کی حفاظت کے لیے پورے ملک کوتہہ وبالا کرنے کے لیے تیار ہیں لیکن اِس کے برعکس مسلمانوں کی مشکلات کو دور کرنے کے لیے انگلی ہلانے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں۔ اور حد تو یہ ہے کہ یہ حکمران سیلاب زدگان کے لیے امریکہ کی انتہائی معمولی مدد کو خوش آمدید کہہ رہے ہیں تاکہ اُس دشمن امریکہ کے اِمیج کو پاکستان کے عوام کی نظر میں بہتر بنایا جائے ،جو ہرروز پاکستان کے مسلمانوں پر ڈرون برسا رہا ہے۔

اور جہاں تک بیرونِ پاکستان دیگر مسلم ممالک کے حکمرانوں کا تعلق ہے، تو وہ پاکستان کے حکمرانوں سے بالکل مختلف نہیں۔ وہ مجبوراً ''امت‘‘ اور ''وحدت‘‘کا لفظ استعمال کرتے ہیں کیونکہ مسلمان اپنے آپ کو ایک امت سمجھتے ہیں اور حکمرانوں سے بھی اس تصور کا مطالبہ کرتے ہیں ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ الفاظ ان حکمرانوں کے حلق سے نیچے نہیں اترتے۔ یہ حکمران اطمینا ن سے مسلمانوں کو مرتا ہوادیکھتے ہیں گویا یہ مسلمان نہیں بلکہ جانور ہیں اور دوسری طرف یہ امت کے وسیع وسائل کو بے دردی سے لُوٹ کر انہیں مغربی بینکوں میں جمع کرنے پر لگے ہوئے ہیں، اُس وقت کے لیے جب یہ اپنے ہی لوگوں کو چھوڑکر فرار ہو جائیں گے۔ یہ حکمران اپنی عوام کو اتنا ہی دیتے ہیں جو اُن کے نزدیک عوام کو خاموش کرنے کے لیے کافی ہو، تاکہ اِن حکمرانوں کے خلاف عوام کا غصہ بے قابو نہ ہوجائے، بالکل اس طرح جیسے کوئی شخص بھوکے جانور کے سامنے کھانے کا نوالہ پھینکتا ہے، اس خوف سے کہ کہیں وہ اسے کاٹ نہ لے۔ تاہم مجموعی طور پریہ حکمران بحران کے موقع پر بھی مسلمانوں کے ساتھ ویسا ہی سلوک کرتے ہیں جیسا کہ عام دنوں میں، پس وہ دونوں حالتوں میں عوام کو زیادہ تر بنیادی ضروریات سے محروم رکھتے ہیں۔

پاکستان سمیت تمام مسلم ممالک پر مسلط حکمرانوں کو مسلمانوں کی کوئی پرواہ نہیں کیونکہ یہ حکمران جس سرمایہ دارانہ نظام کو نافذ کررہے ہیں،وہ صرف حکمران ٹولے اور اُس کے حواریوں کے مفادات کے تحفظ کے لیے ترتیب دیا گیا ہے۔ پوری دنیا میں ایک ایلیٹ (elite)طبقہ ہی دنیا کے اہم ترین وسائل پر قابض ہے اور اس نے اربوں لوگوں کو بھوک ، پیاس اور بے سرو سامانی میں مبتلاکررکھا ہے۔ اور بحران کے وقت محض یہی توقع کی جا سکتی ہے کہ یہ نظام لوگوں کے ساتھ اِس سے بھی بُرا سلوک کرے گا۔ اور دنیا کے لوگوں نے 2005ء میں اِس امر کا مشاہدہ بھی کیا، جب سرمایہ داریت کے علمبردارامریکہ کی جنوبی ریاستوں میں آنے والے سمندری طوفان قطرینہ کے موقع پر بش حکومت نے وہاں کے شہریوں کو بھوک، پیاس اور پرتشدد جرائم کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا۔ فی الحقیقت سرمایہ داریت ایک کفریہ نظام ہے جولوگوں کی اکثریت کو بنیادی ضروریات سے بھی محروم کر کے ایک چھوٹے سے طبقے کو اعلیٰ ترین آسائشیں فراہم کرتا ہے ۔ بلاشبہ اب اس نظام کے اختتام کا نقارہ بج چکا ہے، بالکل اسی طرح جیسا کہ اسے نافذ کرنے والے حکمرانوں کے اختتام کا وقت اب قریب پہنچ گیاہے۔

اے پاکستان کے اہلِ قوت ! اے پاکستان کی مسلح افواج کے آفیسر حضرات!

کیا جو سب کچھ آپ دیکھ چکے ہیں وہ اس بات کے لیے کافی نہیں کہ آپ اِن بدترین حکمرانوں کے خلاف متحرک ہوں؟ کیا آپ انہیں بھول جائیں گے کہ جن کے تحفظ کی آپ نے قسم اٹھائی تھی؟ کیا وہ امتِ مسلمہ کہ جس نے ملکہ وکٹوریہ کے دورِ حکومت میں قحط زدہ آئرلینڈ کے لیے خوراک کے جہاز بھیجے تھے، اِس بات کی بھی مستحق نہیں کہ اُن کی بنیادی ضروریات کا تحفظ کیا جائے؟ کیا وہ عظیم امتِ مسلمہ کہ جو خلافت کے تمام ادوار میں مظلوم غیرمسلموں کو پناہ دیتی رہی، آج امن اور سیکورٹی اُس کا حق نہیں؟ کیا یہ اعلیٰ ظرف امت مسلمہ اِس بات کی حق دار نہیں کہ اِن پر اعلیٰ ظرف حکمران مقرر ہوں جو اس کی تنہائی اور مایوسی میں شریک ہوں،جو اس امت کے لیے اتنا روئیں کہ ان کا سینہ دُکھنے لگے اور و ہ اس امت کی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے انتھک محنت کریں، اپنی نیندوں اورتھکن سے شَل بازؤں کی پرواہ کئے بغیر اس امت کی تکالیف دور کرنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھیں، بالکل اُسی طرح جیسے دوسرے خلیفۂ راشد عمرؓ کے دور میں مدینہ میں قحط کے موقع پر ہوا تھا۔ مدینہ سے سینکڑوں میل دور شام کے والی ابو عبیدہ بن الجراح نے اونٹوں کا ایک اتنا بڑا قافلہ بھجوایاکہ جس کی لمبائی کے متعلق انہوں نے عمرؓ کو لکھا:''میں ایسا قافلہ بھجوا رہا ہوں کہ جس کا پہلا اونٹ جب مدینہ پہنچے گا تو آخری اونٹ یہاں شام میں ہوگا ‘‘۔ مزید برآں بعد میں ابو عبیدہ بن الجراح بذاتِ خود مدینہ آگئے اور اُس ٹیم میں افسر کے طور پر کام کیا جو اِس آفت سے نبٹنے کے لیے قائم کی گئی تھی اور جس کی سربراہی حضرت عمرؓ بذاتِ خود کررہے تھے۔ صحرا ئی قصبوں سے لاکھوں کی تعداد میں لوگ پہلے ہی مدینہ میں اکٹھا ہوچکے تھے اور جب مناسب تعداد میں راشن مدینہ پہنچ گیا، تو عمرؓ نے اپنے لوگوں کو عراق ،فلسطین اور شام کی طرف بھیجا تاکہ وہ امدادی قافلوں کو عرب کے صحرا میں اندر تک بسنے والوں تک لے جائیں ،یوں لاکھوں لوگوں کو لقمہ اجل ہونے سے بچا لیاگیا۔ بے گھر ہوئے افرادکیلئے حضرت عمرؓ ہر رات کھانے کا انتظام کرتے تھے جس میں ایک اندازے کے مطابق ہر رات ایک لاکھ سے زائد لوگ کھانا کھاتے تھے۔اگر اسلامی حکومت یہ سب کچھ ایسے دور میں سرانجام دے سکتی ہے جب پیغام رسانی اونٹوں اور گھوڑں کے ذریعے ہوا کرتی تھی ، تو آج ہوائی جہاز اور انٹرنیٹ کے دور میں ریاستِ خلافت کیا کچھ ممکن بنا سکتی ہے؟!

اے پاکستان کے اہلِ قوت! اے پاکستان کی مسلح افواج کے آفیسر حضرات!

یہ کافی نہیں ہے کہ آپ صرف لوگو ں کی مدد کرنے کیلئے امدادی کاروائیوں کا حصہ بنیں ۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے آپ کو اس سے کہیں بڑھ کر صلاحیتیں بخشیں ہیں، جن کے بارے میں آپ سے اُس دن سوال کیا جائے جب ہر کسی کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے سامنے پیش کیا جائے گا،اور جب اس کے غصے اور سزا سے بچنے کیلئے کوئی عذر کام نہ آئے گا۔ یہ آپ کی ذمہ داری ہے کہ آپ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی خوشنودی کی خاطر دلیرانہ قدم اٹھاؤ، جو اس بات کو یقینی بنائے گا کہ مسلمانوں کا خلیفہ ٔراشد ، اسلام کی حکمرانی کے تحت، اللہ کی خوشنودی کی خاطر، رہتی نسلوں تک امت کی ضروریات کو پورا کرے، خواہ وہ بحران کا وقت ہو یا عام حالات ہوں۔ تو اے بھائیو! آپ خلافت کے قیام کیلئے کب نُصرۃ دیں گے؟

( وَسَیَعْلَمُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْآ أَیَّ مُنْقَلَبٍ یَنْقَلِبُوْنَ)
''جنہوں نے ظلم کیا ہے ،وہ جلد ہی جان لیں گے کہ وہ کس کروٹ الٹتے ہیں‘‘(الشعراء :227) 
24شعبان 1431ھ                     حزب التحریر
5اگست 2010ء                          ولایہ پاکستان

www.hizb-pakistan.com

Read more...

ایک چاند، ایک رمضان، ایک عید اور ایک امت! ان ایجنٹ حکمرانوں نے ایک بار پھر امت واحدہ کو رمضان کے مسئلہ پر تقسیم کر دیا

ان ایجنٹ حکمرانوں نے ایک بار پھر ایک ارب سے زائد امت واحدہ کو رمضان کی شروعات پر تقسیم کر دیا ہے۔ عرب و عجم میں نظر آنے والے چاند کو مسترد کر کے پاکستان کے حکمرانوں نے نہ صرف مسلم امت کی جمعیت و وحدت توڑی بلکہ کروڑوں مسلمانوں کا روزہ بھی ضائع کر دیا۔ رسول اللہ ﷺ کی حدیث کے مطابق تمام مسلمان چاند کے دیکھے جانے پر رمضان شروع کریں اور چاند کے دیکھے جانے کی صورت میں رمضان ختم کر کے عید الفطر منائیں۔ حدیث میں رنگ، نسل، قومیت اور علاقے کی کوئی تخصیص نہیں کی گئی ہے۔ چنانچہ اگر دنیا کے ایک حصہ میں رہنے والے مسلمان چاند دیکھ لیں تو وہ دیگر تمام مسلمانوں کے لئے کافی ہوتا ہے۔ لیکن افسوس ان حکمرانوں نے اسلام کے اس حکم کو مسترد کر کے قومیت پر مبنی روئیت کی بدعت کو رائج کیا۔ یہ اسی پالیسی پر عمل ہے جس کا اعلان برطانوی وزیر خارجہ لارڈ کرزن نے خلافت کے خاتمے کے بعد کیا تھا۔ اس نے کہا تھا: ''ہمیں ہر اس چیز کو ٹھکانے لگا دینا چاہئے جو مسلمانوں کی نسل کے درمیان کسی بھی قسم کا اسلامی اتحاد پیدا کرتی ہو۔ جیسا کہ ہم پہلے ہی خلافت کو ختم کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ لہذا ہمیں یہ کوشش کرنا چاہئے کہ مسلمان میں دوبارہ اتحاد پیدا نہ ہو سکے، نہ فکری اتحاد نہ تمدنی اتحاد‘‘۔ ہم امت کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ قومیت پر مبنی چاند کو مسترد کرتے ہوئے امت مسلمہ کے چاند کی پیروی کریں۔ روئیت کے اس مسئلے نے بھی خلافت کی عدم موجودگی کی وجہ سے سر اٹھایا ہے اور خلافت کے قیام سے یہ مسئلہ بھی دم توڑ جائیگا۔

نوید بٹ
پاکستان میں حزب التحریر کے ترجمان

 

Read more...

حزب التحریر بلاول ہاؤس کے ترجمان کے بے بنیاد الزامات کی سختی سے تردید کرتی ہے دنیا کی سب سے بڑی اسلامی سیاسی جماعت کے سامنے ایک ملک کے اپوزیشن راہنمائ کی کیا حیثیت ہے؟

حزب التحریر بلاول ہائوس کے ترجمان اعجاز درانی کے اس الزام کی تردید کرتی ہے جس میں انہوں نے نہ صرف حزب کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہے بلکہ یہ بھی الزام لگا یا ہے کہ برمنگھم میں کیا جانے والا حزب کا مظاہرہ مسلم لیگ ن کے رہنما چوہدری نثار کے کہنے پر کیا گیا تھا۔ اس بیان سے پیپلز پارٹی اور بلاول ہائوس کے ترجمان کی جہالت عیاں ہوتی ہے جنہیں یہ بھی علم نہیں کہ دنیا کی سب سے بڑی اسلامی سیاسی پارٹی ، حزب التحریر کا، جو چالیس سے زائد ممالک میں کام کر رہی ہے، عسکریت پسندی سے کوئی تعلق نہیں اور وہ خلافت کے قیام کے لئے عسکریت پسندی کو شرعاً حرام گردانتی ہے۔ حزب کی سیاسی طاقت اور عالمی اثر و رسوخ کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ اسی سال انڈونیشیائ میں حزب کی قیادت میں ہزاروں لوگ سڑکوں پر امڈ آئے اور اوبامہ کو اپنا دورۂ انڈونیشیا منسوخ کرنا پڑا۔ یہ حزب ہی تھی جس نے فریڈم فلوٹیلا پر صیہونی حملے اور مصر کی غزہ پر پابندیوں کے خلاف برطانیہ میں مصر کی ایمبیسی کے باہر ہزاروں افراد کا جم غفیر لاکھڑاکیا۔ یہ حزب ہی تھی جس نے مشرف کی برطانیہ آمد پر اس کا محاسبہ کیا اور اتنے مظاہرے کئے کہ وہ سٹ پٹا اٹھا۔کیا یہ سب اقدامات حزب نے چوہدری نثار کے کہنے پر کئے تھے؟ ایسی عالمی پارٹی کے لئے ایک ملک کی اپوزیشن جماعت کے معمولی راہنما کی کیا حیثیت ہے!!! خصوصاً جبکہ وہ جماعت بھی پیپلز پارٹی کی طرح ایک سیکولر اور امریکہ کی ڈکٹیشن پر چلنے والی جماعت ہو؟! زرداری کی طرح شریف برادران بھی اقتدار کے لئے کافر امریکہ سے امیدیں لگائے بیٹھے ہیں اور اسی لئے زرداری حکومت کی اسلام اور عوام دشمن امریکی پالیسیوں پر چپ سادھے ہوئے ہیں۔ حزب التحریر کا ہدف استعماری طاقتیں ہیں جنہیں نکالنے کے لئے وہ مسلم علاقوں میں سیاسی جدوجہد کر رہی ہے۔ اسی لئے وہ ان کے ایجنٹ حکمرانوں کو بے نقاب کرتی ہے اور مسلمانوں میں موجود اہل طاقت میں سے مخلص عناصر کو تبدیلی کے لئے پکارتی ہے تاکہ وہ اپنا شرعی فریضہ پورا کریں اور خلافت کے قیام کے لئے حزب التحریر کو نصرت فراہم کریں۔ اور ہم ان استعماری ایجنٹو کو خبردار کر دینا چاہتے ہیںکہ وہ بابرکت گھڑی بہت قریب آن پہنچی ہے !!!

شہزاد شیخ
پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان

Read more...

برمنگھم آمد پر زرداری کے خلاف حزب التحریرکا مظاہرہ کرپٹ قیادت اورنظا م کو تاریخ کے کوڑے دان کی نذر کر کے خلافت قائم کی جائے، مظاہرین کا مطالبہ

حزب التحریر برطانیہ نے زرداری کی برمنگھم میں کنونشن سینٹر آمد پر بھرپور مظاہرہ کیا۔ مظاہرین نے کتبے اور بینرز اٹھا رکھے تھے جن پر زرداری و گیلانی کے خلاف اور پاکستان میںخلافت کے قیام کے حق میں نعرے درج تھے۔ مظاہرین اس حقیقت کو اجاگر کررہے تھے کہ پاکستان کی تباہی کی ذمہ دار نااہل کرپٹ قیادت اور سرمایہ دارانہ نظام ہے اور اس تباہی سے نکلنے کا واحد راستہ کرپٹ قیادت و نظام کا خاتمہ اور خلافت کا قیام ہے۔ اس موقع پر مظاہرین کو دیکھ کر وزیر اطلاعات قمر زماں قائرہ نے کہا کہ یہ ان کا جمہوری حق ہے۔ برطانیہ میں کھڑے ہو کرحزب التحریرکے شباب کے متعلق یہ بیان شاید حکمرانوں کا برطانوی میڈیا اور پاکستانی کمیونیٹی کے سامنے خود کو جمہوریت کا چمپئن ثابت کرنے کی کوشش تھی۔ کیونکہ یہ جمہوری حکمران ہی ہیں جو حزب التحریر جیسی غیر عسکری جماعت کو پاکستان میں کام کرنے کی اجازت نہیں دیتے اور حزب کے ممبران کو سیاسی موقف کے اظہار پر جیل پھینک دیا جاتا ہے۔

زرداری کا اس موقع پر دورہ جب پورا پاکستان سیلاب کی تباہ کاریوں کا شکار ہے اس بات کا ثبوت ہے کہ آمر حکمرانوں کی طرح جمہوری حکمران بھی امریکہ و برطانیہ کے آلہ کار ہیں اور ان کا اصل مقصد محض پیسے بٹورنا اور اپنی کرپشن کو قانون سے بالاتر کرناہے۔ پاکستان کے عوام جمہوریت و آمریت کے ذریعے سرمایہ دارانہ نظام کے نفاذ کو مسترد کر تے ہیں اور خلافت کے ذریعے اللہ کے نظام کے نفاذ کے خواہاں ہیں۔ نیز امت نے اس نظام کے رکھوالوں کو، چاہے وہ حکومت میں ہوں یا آپوزیشن میں، مسترد کر دیا ہے جس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ 80 فیصد کے لگ بھگ عوام اس نظام میں ووٹ تک ڈالنے نہیں آتے۔ ہم اہل طاقت سے مطالبہ کرتے ہیںکہ وہ امت کے اس خاموش ریفرینڈم پر لبیک کہیں اور اس نظام کو اکھاڑ کر خلافت کے قیام کے لئے حزب التحریرکو نصرت فراہم کریں۔ یہی اسلام کے نفاذ اور مسلمانوں کی وحدت کا واحد طریقہ کار ہے۔

شہزاد شیخ
پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان

Read more...

اکیسویں صدی کی ایسٹ انڈیا کمپنی نے فوجیں اتار دیں امریکیو!نکل جائو! اس سے پہلے کہ تمہیں تابوتوں میں واپس بھجوایا جائے

حزب التحریر سیلاب زدگان کی مددکے نام پر ایک ہزار کے لگ بھگ امریکی فوجیوں کی پاکستان آمد کی پر زور مذمت کرتی ہے۔ جب عوامی ردعمل کے باعث امریکی سفارت خانے کی حفاظت کے نام پر ہزاروں امریکی فوجیوں کو پاکستان میں تعینات نہیں کیا جاسکا تو اب حکمرانوں نے سیلاب زدگان کی مدد کے بہانے اتنی بڑی تعداد میں امریکی فوجیوں کو پاکستان آنے کی اجازت دے دی ہے۔ پاک فوج کے ترجمان کا یہ دعوی ہے کہ اس سیلاب کی تباہ کاریوں سے نمٹنے کے لیے قبائلی علاقوں میں تعینات ایک لاکھ چالیس ہزار فوجیوں میں کمی کی ضرورت نہیں، تو پھر ایک ہزار کے لگ بھگ وحشی قاتل امریکی میرینز کی کیسے ضرورت پڑ گئی۔ یہ وہی میرینز ہیں جو گزشتہ سات سال سے عراق میں مسلمانوں کا قتل عام کر رہے ہیں۔ انہیں جان بچانا نہیں جان لینا آتا ہے! ان کی آمد اکیسوی صدی کی ایسٹ انڈیا کمپنی کی آمد ہے۔ انگریز تجارت کی آڑ میں فوجی لایا تھا اور امریکہ مدد کے نام پر لا رہا ہے۔ امریکی فوج کو پاکستان کی سرزمین پر آنے کی اجازت دینا نہ صرف قوم کے ساتھ غداری ہے بلکہ اسلام کی رو سے حرام ہے۔ دراصل پاکستان کے حکمران ایسے موقع کی تلاش میں رہتے ہیں جس کے ذریعے قوم کو یہ یقین دلایا جاسکے کہ سترہ کروڑ کی آبادی اور دنیا کی ساتویں بڑی فوج رکھنے والا ملک اتنا کمزور ہے کہ اسے ہر مسئلے کے حل کے لیے امریکی کی مدد درکار ہوتی ہے۔ پاکستان کے مسلمان ۲۰۰۵ ئ کے زلزلے میں یہ ثابت کرچکے ہیں کہ ان میں کسی بھی قدرتی آفت کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت موجود ہے لیکن اس کے باوجود یہ حکمران اپنے وسائل کی طرف رجوع نہیں کرتے اور امریکہ کے قدموں میں جاگرتے ہیں۔ ہم پوچھتے ہیںکہ پانچ لاکھ فوج رکھتے ہوئے پاکستان کو کسی اور ملک کے فوجیوں کی کیا ضرورت ہے؟ حزب التحریر پوری مسلم امت کو پکارتی ہے کہ وہ پاکستان کے سیلاب میں گھرے ہوئے مسلمان بھائیوں کی دل کھول کر مدد کریں۔

نیز حزب التحریر تمام سیاسی جماعتوں سے بھی مطالبہ کرتی ہے کہ وہ پاکستان میں امریکی فوجیوں کی آمد کے خلاف پرزور احتجاج کریں ۔ حزب اہل قوت میں موجود مخلص عناصر سے ایک بار پھر پوچھتی ہے کہ کیا اب بھی حکمرانوں کی غداری اور نااہلی میں کوئی شک باقی رہ گیا ہے؟ ضروری ہے کہ فوری طور پر خلافت کا قیام عمل میں لایا جائے جو امت کی مدد سے ریاست کے وسائل کو سیلاب زدگان کی بحالی کے لئے استعمال کرے گی اور کافر افواج کے ناپاک قدموں سے اس سرزمین کو پاک کرے گی۔

شہزاد شیخ
پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان

Read more...

اسلام لسانی اور نسلی تعصب کو حرام قرار دیتا ہے کراچی میں جاری خونریزی سرمایہ دارانہ نظام کی ناکامی ہے

حزب التحریرکراچی میں جاری قتل و غارت گری کی پرزورمذمت کرتی ہے۔ کراچی جو کہ پاکستان کی معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے وہاں پر سرمایہ دارانہ نظام معاشرے کے مختلف لوگوں کے درمیان پرامن اور پائیدار تعلقات قائم کرنے میں ناکام رہا ہے۔ سرمایہ داریت چاہے جمہوریت کی شکل میں نافذ ہو یا آمریت کی صورت میں، ایسا نظام دینے سے قاصر ہے جو لوگوں کے درمیان معاشی انصاف اور سکون فراہم کرسکے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ ہو یا فرانس،بھارت ہو یا چین، اقلیتی طبقے اکثریتی طبقے کے ظلم و ستم کا رونا روتے رہتے ہیں۔ کئی دھائیوں سے کراچی میں بسنے والے لوگوں کے درمیان نفرتیں پیدا کرنے میں جمہوری و آمر حکمران برابر کے شریک رہے ہیں۔ حزب التحریر کراچی کے عوام سے پرزور اپیل کرتی ہے کہ وہ نسلی و لسانی شناخت کو پس پشت ڈال کر ایک دوسرے کی حفاظت کریں اور ایسے تمام گروہوں سے بیزاری کا اظہار کریں جو اس امت واحدہ کو رنگ و نسل کی بنیاد پر نہ صرف تقسیم کرتے ہیں بلکہ انھیں ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنے پر بھی مجبور کرتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

''وہ ہم میں سے نہیں جو عصبیت کی طرف بلائے، یا عصبیت کے لئے لڑے یا عصبیت کے لئے مرے‘‘۔ ﴿ابو دائود﴾۔

حزب التحریر پولیس اور رینجرز کو بھی اس بات کی یاد دہانی کراتی ہے کہ ان پر لوگوں کی جان و مال کی حفاظت کرنا فرض ہے اور اس فرض کی ادائیگی میں انھیں ہر قسم کی سیاسی مداخلت کو قبول کرنے سے انکار کردینا چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ حزب التحریر اہل قوت میں موجود مخلص لوگوں سے بھی پوچھتی ہے کہ وہ کب تک بے گناہوں کے خون کی ہولی کو خاموشی سے دیکھتے رہیں گے۔ امت سرمایہ دارانہ نظام اور اس سے جڑی قیادت کو مسترد کر چکی ہے اور اسلام کے نظام یعنی خلافت کے تحت زندگی گزارنا چاہتی ہے۔ یہی وقت ہے کہ اہل قوت حزب التحریروخلافت کے قیام کے لیے مدد فراہم کریں تاکہ نہ صرف ایسے گروہوں کا خاتمہ ہو جو مسلمانوں کو رنگ و نسل کی بنیاد پر تقسیم کرتے ہیں بلکہ اس سرمایہ دارانہ قیادت کا بھی خاتمہ ہو جو اپنے مفاد کے لیے ہزاروں لاکھوں بے گناہ لوگوں کا خون بہانے سے بھی دریغ نہیں کرتی۔

شہزاد شیخ
پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان

Read more...
Subscribe to this RSS feed

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک