خلافت کے داعی کا بیان سنگین مقدمات کے ذریعے شرمناک سیاسی انتقام حکمرانوں کے نظریاتی دیوالیہ پن کا منہ بولتا ثبوت ہے
- Published in پاکستان
- سب سے پہلے تبصرہ کرنے والے بنیں
- |
السلام علیکم!
میرا نام محمد ارشد جمال ہے اور میں تین بچوں کا باپ ہوں۔ میں ایک متوسط گھرانے سے تعلق رکھتا ہوں، پیشہ کے اعتبار سے آئی ٹی کنسلٹنٹ ہوں اور گزشتہ دس برس سے معاشرے کی تعمیر میں اپنی صلاحیتوں کے ذریعے سے حصہ ڈال رہا ہوں۔
رواں سال 11 اگست 2012 کو مجھے ٹائون شپ تھانے کی حدود سے وہاں پر تعینات SHO نے اس وقت گرفتار کیا جب میں اپنی موٹر سائیکل چھڑوانے تھانے گیا تھا۔ تقریباَ 24 گھنٹے مجھے اسی تھانے کی ایک کوٹھڑی میں غیر قانونی حبسِ بےجا میں رکھا تا کہ ا مریکی جھولی میں بیٹھی سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں کے ماتحت ایجنسیاں اپنے ظرف کے مطابق مجھ پر طبع آزمائی کر سکیں۔ اس دوران جو دوست احباب مجھے ڈھونڈتے اس تھانے پہنچے ان سے میری موجودگی کے بارے میں جھوٹ بولا جاتا رہا اور انھوں نے اس گرفتاری کے واقعے سے لا تعلقی ظاہر کی۔
12 اگست 2012 کی شام میرے خلاف ایک عدد FIR درج کی گئی اور میرے چہرے پر نقاب ڈالے مجھے میڈیا کے سامنے اس انداز میں پیش کیا جیسے کسی کمانڈر کے قبضہ سے کوئی ٹینک برآمد ہوا ہو۔ اس FIR میں بغاوت اور دیگر دفعات کے علاوہ پاکستان آرمی ایکٹ کی وہ ناقابلِ ضمانت سنگین دفعہ (PAA Section ii (D) بھی شامل کی گئی کہ اگر کسی صورت حکام اپنا کوّا سفید ثابت کرنے میں کامیاب ہو جاتے تو میرے خلاف کورٹ مارشل تک کی کاروائی عمل میں لائی جا سکتی تھی جس کا ایک انجام یہ بھی ہو سکتا تھا کہ مجھے سزائے موت سنا دی جاتی۔ ابھی اس مقدّمہ کی کاروائی جاری تھی کہ مجھے ایک اور FIR کا مژدہ سنا دیا گیا جو اسی ہفتہ میں ڈیفنس کے ایک تھانے میں میرے خلاف درج کی گئی تھی جس میں شامل دفعات پہلے سے بھی زیادہ غضب ناک تھیں۔
یہ دو مقدّمات بھگتنے میں مجھے اڈھائی ماہ سے زائد کا عرصہ لگا اور بالآخر میں ان مقدّمات سے باعزت بری ہو گیا۔ میں اس انتقامی کاروائی کا محض ایک نشانہ ہوں۔ میرے خلاف یہ کاروائی اس رٹ کے جواب میں مجھے سبق سکھانے کے لئے عمل میں لائی گئی جو میں نے لاہور ہائی کورٹ میں ان حکام کے خلاف اس وقت دائر کی جب ان حکام کی طرف سے اغواء و تشدد اور قتل کی دھمکیوں کا وہ گھنائونا سلسلہ شروع ہوا جس میں عمران یوسفزئی جیسے باصلاحیّت نوجوانوں اور ڈاکٹر عبدالقیوم جیسے قابلِ احترام بزرگوں تک کو جبر و استبداد کا نشانہ بنایا گیا۔ ان جیسے کئی معزز شہریوں کی ایک فہرست موجود ہے جو ان حکام کے عتاب کا نشانہ بنے۔
ان کاروائیوں کی شرمناکی کی انتہا یہ ہے کہ ان حکام نے لوگوں کے گھروں کی چار دیواری کا تقدس پامال کرتے ہوئے بحث و مباحثہ کی ان نشستوں پر دھاوا بولنا شروع کر دیا جن میں ملکی و غیرملکی اہم سیاسی اور فکری موضوعات پر گفتگو کی جاتی اور قرآن و سنت کی روشنی میں مسائل کا حل پیش کیا جاتا۔ ان نشستوں کے شرکاء میں تاجر، اساتذہ، ڈاکٹرز، انجنئیرز، آئی ٹی ایکسپرٹ، پراپرٹی ڈیلرز، منیجرز، اکائونٹنٹ، طلباء اور معاشرے کے مختلف دھاروں سے تعلق رکھنے والے حضرات شامل ہوتے۔ ان حضرات کو گرفتار کر کے میڈیا کے سامنے ایک تحقیر آمیز میں پیش کر کے انکی عزتِ نفس کو مجروح کیا گیا۔ کسی کی ملازمت گئی تو کسی کو کاروباری نقصان ہوا اور کسی کی تعلیم کا حرج ہوا۔
معاشرے کے ان ذمہ دار افراد کو محض اس لئے ریاستی ظلم و جبر کا نشانہ بنایا گیا کیونکہ یہ معاشرے میں ایک حقیقی تبدیلی کے خواہاں ہیں اور جان چکے ہیں کہ یہ تبدیلی خلافتِ راشدہ کے بغیر ممکن نہیں اور اس خلافتِ راشدہ کے دوبارہ قیام کے لئے حزب التحریر جیسی اس نظریاتی جماعت سے وابستہ ہوئے کہ دنیا بھر کے حکمران ریاستی طاقت کے زورکے باوجود جس کے فکری و سیاسی چیلنج کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہیں۔ ایک ایسی پر امن جماعت جس پر محض امریکی خوشنودی کی خاطر جنرل مشرف نے 2003 میں پابندی لگا دی کیوں کہ حزب التحریر اس امریکی وفادار کی بزدلی اور خیانتوں کو بے نقاب کر رہی تھی۔ اس پابندی کی آڑ میں اس جماعت اور اس سے وابستہ افراد کے خلاف حکمرانوں کا قبیح پروپیگنڈا مسلسل جاری ہے۔ پہلے حربے کے طور پر اس پر مذہبی منافرت، فرقہ وارئیت اور اشتعال انگیزی پھیلانے کے بے سروپا الزامات لگائے گئے اور آخری حربے کے طور پر فوج جیسے ملکی سالمیت کے اہم ترین ادارے میں انتشار اور اسے کمزور کرنے کے مکروہ ترین الزامات لگائے جا رہے ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ حزب التحریر وحدت پر مبنی ایک ایسی ریاست خلافت کے قیام کی طرف دیکھ رہی ہے جو مسلم ممالک کے درمیان ان مصنوعی سرحدوں کا خاتمہ کرے گی اور جس میں رنگ، نسل، مذہب اور علاقائی وابستگی سے قطع نظر تمام شہریوں کو یکساں حقوق حاصل ہونگے۔ پھر یہ ریاست ان آفاقی نظریات کو دنیاپر پیش کرے گی۔
حزب التحریر ایک ایسی ریاست کی سوچ دیتی ہے جس کی حکمرانی مضبوط ترین لیکن قابل ِگرفت ہوگی۔ جسکی معیشت غربت میں کمی نہیں بلکہ اس کا خاتمہ کرے گی۔ جس کا معاشرہ عزت و غیرت کا پیکر ہو گا۔ جس کی عدلیہ فوری انصاف فراہم کرے گی۔ جسکا تعلیمی ڈھانچہ دنیا کے قابل ترین افراد پیدا کرے گا اور جس کی خارجہ سیاست ایک New World Order کی بنا ڈالے گی اور جس کی فوج کشمیر، افغانستان، فلسطین اور تمام مقبوضہ مسلم علاقوں کو کفار کے شکنجے سے نجات دلائے گی۔ یہ تمام اقدامات امریکہ کی موجودہ سیاسی و اقتصادی چودھراہٹ کیلئے ناقابلِ برداشت دھچکا ہوں گے۔ یہ واضح خطرات ہی مغرب کے لئے وہ حقیقی چیلنج ہونگے جس سے پیشگی نمٹنے کے لئے حزب التحریر پر آج ہر اس ملک میں پابندی ہے جہاں سے حزب التحریر کے زیرِقیادت خلافتِ راشدہ کا دوبارہ احیاء ہو سکتا ہے۔ مغرب بالخصوص امریکہ آج سپین سے انڈونیشیا اور بنگلہ دیش سے مراکش تک ان خطرات کو بڑی شدّو مد کے ساتھ محسوس کر رہا ہے۔
پاکستان اسلام کی خاطرحاصل کیا گیاتھا امریکی مفادات کی خاطر نہیں۔ پاکستان کا مطلب کیا لا الٰہ الاللہ وہ نعرہ تھا جس کیلئے ہمارے اسلاف نے اپنی عزت، جان اور مال سمیت سب کچھ دائو پہ لگا دیا۔ اسکی جڑوں کو ہمارے اسلاف نے اپنے خون سے سیراب کیا تھا۔ تو پھر ایک ایسے ملک میں اسلام کے نفاذ کی بات کرنا جرم کیوں؟
ہمیں اس لئے اغواء و تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے کہ ہم حکام کو روزِ حشر کا وہ بھاری دن یاد کراتے ہیں جس دن بڑے سے بڑا غدار اپنے جھنڈے کی اونچائی سے پہچانا جائے گا۔ ہمیں اس لئے مقدمات کے ذریعے سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جاتا ہے کہ ہم سیاسی دیوالیہ پن کا شکار ان حکام کا کڑا محاسبہ کرتے ہیں۔ ہمیں اس لئے تحقیر کا نشانہ بنایا جاتا ہے کہ ہم اسلام سے محبت کرتے ہیں اور اسلام سے نفرت کرے والے سے نفرت کرتے ہیں۔
میں آپ سے پوچھتا ہوں کیا ایک ایسے ملک میں اسلام کے ان آفاقی تصورات، اسلام کے سیاسی نظام اور خلافت راشدہ کے دوبارہ قیام کے ذِکر پر پابندی ہونی چاہئے؟ کیا پاکستان میں مغرب بالخصوص امریکہ کے ساتھ گٹھ جوڑ اورپسِ پردہ سازشوں کے پردوں کو چاک کرنے پر پابندی ہونی چاہئے؟ یاان کی سازشوں میں شریک سیاسی و عسکری قیادت میں موجود غداروں کی خیانتوں کو بے باکی سے بے نقاب کرنے پر پابندی ہونی چاہیے؟
حزب التحریر یہ تمام کام پر امن سیاسی جدوجہد کے ذریعے کرتی ہے۔ کیا حزب التحریر پر پابندی ہونی چاہیے؟
اتمامِ حجت کے لئے میں مطالبہ کرتا ہوں۔
1. آج کے اس آزاد میڈیا سے کہ وہ حزب التحریر پر پابندی کے اس بودے پن کو بے نقاب کرے اور اسے بھی اپنے نظریات کو پیش کرنے کا پورا پورا حق دے۔
2. انسانی حقوق کی تنظیموں سے کہ وہ حزب التحریر پر پابندی کے خلاف بھی اپنے روائتی انداز میں مہم چلائیں کہ جس کی وجہ سے اس سے وابستہ افراد اپنے بنیادی شہری حقوق تک سے محروم کر دئیے جاتے ہیں۔
3. عدلیہ سے کہ وہ نہ صرف ان جھوٹے مقدمات کی عدالتی تحقیقات کا حکم دے بلکہ اس نوٹیفیکیشن کو کالعدم قرار دے جو حزب التحریر پراس غیر منصفانہ پابندی کا سبب ہے۔
4. میں قانون نافذ کرنے والے اور حساس اداروں کے اہلکاروں کو یہ یاد کراتا ہوں کہ اب جبکہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ عسکری وسیاسی قیادت میں موجود غدار امریکہ کی جھولی میں بیٹھی آپکو احکامات دے رہی ہے، روز حشر آپ کے کسی افسرِ بالا کا آرڈر اور نہ ہی ایسی کوئی وضاحت کوئی معنی رکھے گی کیونکہ ارشادِ نبوی ﷺ ہے۔
فإن أُمِرَ بمعصية فلا سمع ولا طاعة
اگر معصیت کا کام کرنے کا حکم دیا جائے تو وہ نہ تو سنے اور نہ ہی اطاعت کرے (اس حدیث کو مسلم نے روایت کیا)
اس وقت جب میں یہ تحریر رقم کر رہا ہوں۔ میرے اوپر بیٹھے بیٹھے کم از کم ایک اور مقدمہ کا انکشاف ہو چکا ہے۔ جو انسدادِ دہشت گردی کی عدالت میں چلایا جائے گا۔ اور اس تحریر کے شائع ہو جانے کے بعد اس حق گوئی کی پاداش مزید میں کتنے مقدمات میرے خلاف کھڑے کر دیئے جائیں گے معلوم نہیں۔
پاکستان میں حزب التحریر کا میڈیا آفس