حزب التحریر ولایہ پاکستان نے کمر توڑ مہنگائی کے خاتمے کے لیے ایک پالیسی دستاویز "Publicized Policy Position" جاری کی ہے۔ اس دستاویز میں پچھلی ایک دہائی میں مشرف اور شوکت عزیز حکومت اور کیانی، زرداری حکومت کے دوران مسلسل بڑھتی قیمتوں، جس نے عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے، کو قابو کرنے کے حوالے سے مختلف حل تجویز کیے گئے ہیں۔
ا) مقدمہ: قیمتوں میں مسلسل اور انتہائی بڑے اضافے کی وجہ کاغذی کرنسی ہے جس کی قیمت کم ہوتی رہتی ہے کیونکہ اس کی بنیاد سونے اور چاندی پر نہیں ہوتی۔
دوسری کرنسیوں کی طرح، جیسے ڈالر، پائونڈ اور فرانک، روپیہ کی بنیاد بھی اصل دولت یعنی قیمتی دھات پر ہوتی تھی۔ ڈالر کی بنیاد سونے پر جبکہ روپے کی بنیاد چاندی پر ہوتی تھی۔ اس نظام نے کرنسی کی قدر و قیمت کو اندرون ملک اور بیرون ملک بین الاقوامی تجارت میں استحکام فراہم کر رکھا تھا۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ سونے کی جو قیمت 1890ء میں تھی وہی قیمت کم و بیش 1910ء میں بھی تھی۔ آج دنیا میں اس قدر سونا اور چاندی موجود ہے جو دنیا کی اصل معیشت یعنی کاروباری معاملات جیسے خوراک، کپڑے، رہائش، اشیائے ٔ تعیش، صنعتی مشینری، ٹیکنالوجی اور دیگر اشیأ کی خرید و فروخت کے لیے درکار ہے۔ لیکن سرمایہ دارانہ نظام نے کرنسی کی پیداوار کی طلب میں اس قدر اضافہ کر دیا جس کو سونے اور چاندی کے ذخائر پورا نہیں کر سکتے تھے۔ ریاستوں نے قیمتی دھات کے پیمانے کو چھوڑ دیا لہٰذا کرنسی نوٹ کی بنیاد قیمتی دھات سے ہٹ کر جاری کرنے والی ریاست کی طاقت ہو گئی جس کے نتیجے میں ریاستوں کے پاس زیادہ سے زیادہ کرنسی نوٹ چھاپنے کا اختیار آگیا۔ اب کرنسی کی مضبوطی کو برقرار رکھنے کے لیے ان کی بنیاد سونا یا چاندی نہیں رہے جس کے نتیجے میں ہر نیا چھپنے والا نوٹ پہلے نوٹ کے مقابلے میں کم قدر و قیمت رکھتا ہے۔ چونکہ کرنسی نوٹ اشیأ اور خدمات کے تبادلے میں استعمال ہوتے ہیں اس لیے کرنسی کی قدر و قیمت کا مکمل خاتمہ تو نہیں ہوتا لیکن اس میں مسلسل کمی ہوتی رہتی ہے۔ چونکہ خریداری کے لیے کرنسی کی ضرورت ہوتی ہے اس لیے اشیأ اور خدمات کی قیمتوں میں اضافہ ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ لہٰذا روپیہ جو برطانوی قبضے سے قبل 11 گرام چاندی کے برابر قیمت رکھتا تھا اب دو سو سالہ سرمایہ دارانہ نظام سے گزرنے کے بعد ایک گرام چاندی کے نو سو وے (1/900) حصے کے برابر قیمت رکھتا ہے۔ 14 جون 1994 کو ایک ڈالر خریدنے کے لیے 30.97 روپے درکار تھے۔ پھر مشرف اور شوکت عزیز کی حکومت میں جمعہ 15 اگست 2008 کو ایک ڈالر کی قیمت بڑھ کر 76.9 روپے ہو گئی جب پاکستان میں افراط زر تیس سالہ تاریخ میں اپنی بلند ترین سطح پر تھا۔ اور اب جنوری 2013 میں کیانی، زرداری حکومت میں ایک ڈالر کی قیمت 98 روپے سے بڑھ چکی ہے۔ ہر گزرتے سال کے ساتھ روپے کی قدر میں کمی کے ساتھ اس کی قوت خرید بھی کم ہوتی جا رہی ہے جبکہ قیمتیں اس قدربڑھتی جا رہی ہیں کہ اکثر لوگوں کے لیے گوشت خریدنا ناممکن، پھل خریدنا عیاشی اور سبزیوں کی خریداری ایک بوجھ بن گئی ہے ۔آج روپے کی قیمت کچھ دہائیوں قبل پیسے کی قیمت سے بھی کم ہو گئی ہے۔ حکمرانوں کے دعوں کے برعکس روپیہ کسی بھی وقت ردی کے کاغذ میں تبدیل ہو سکتا ہے جس کے نتیجے میں قیمتوں میں انتہائی زبردست اضافہ ہو جائے گا۔ لیکن اس کے باوجود حکومت مسلسل نوٹ چھاپ رہی ہے جس کے بہت ہی خطرناک نتائج نکل سکتے ہیں اور یوں حکومت کرنسی کی قبر کھود رہی ہے جو معیشت کے لیے خون کی حیثیت رکھتی ہے۔
ب) سیاسی قدر و اہمیت: وہ وجوہات جن کی بنا پر سونے اور چاندی کے محفوظ ذخائر سے زائد کرنسی چھاپنے کی ضرورت پڑتی ہے
ب 1۔ مہنگائی یا افراط زر سود پر مبنی بینکاری کا براہ راست نتیجہ ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام شرح سود کے تعین کی اجازت دیتا ہے۔ نجی بینک ذیادہ شرح سود حاصل کرنے کی خاطر اپنے کھاتیداروں کی رقم کو سٹیٹ بینک کے مخصوص اکاؤنٹ میں جمع کراتے ہیں جیسے 1992 سے 2013 تک اوسطاَ شرح سود 12.75 فیصد سود رہی۔ چونکہ سٹیٹ بینک کے پاس نجی بینکوں کو اس سود کی ادائیگی کے لیے زائد رقم موجود نہیں ہوتی تو وہ مزید نوٹ چھاپتا ہے تا کہ سود کی رقم ادا کر سکے۔ پھر نجی بینک اس حاصل ہونے والے سود کو اپنے کھاتیداروں کو نسبتاَ کم شرح سود پر سود ادا کرتے ہیں اور باقی رقم منافع کے طور پر رکھ لیتے ہیں۔ لہذا سود مہنگائی کو ختم کرنے کی بجائے بذات خود مہنگائی کو بڑھانے کی وجہ بنتا ہے کیونکہ یہ مزید نوٹ چھاپنے پر مجبور کرتا ہے جس کے نتیجے میں روپے کی قدر مزید کم ہو جاتی ہے۔ اگر بینک نجی ملکیت میں نہ ہوتے تو انھیں "قرضے" کو ایک "کاروبار" سمجھنے کی ضرورت نہیں ہوتی اور وہ ان قرضوں پر منافع سود کی شکل میں حاصل نہ کرتے۔ لہذا سرمایہ دارانہ بینکنگ نظام میں معاشرے کا ایک بہت ہی قلیل طبقہ ان سودی قرضوں سے فائدہ اٹھاتا ہے جس کے نتیجے میں لوگ خرچ کرنے کی جگہ سودی منافع کے حصول کے لیے جمع کرنا شروع کر دیتے ہیں، روپیہ اپنی قدر کھو دیتا ہے، قیمتیں بڑھ جاتی ہیں، کاروبار بند ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور بے روزگاری بڑھنی شروع ہو جاتی ہے اور یہ سب کچھ معیشت کو تباہی کے گرداب میں پھنسا دیتا ہے۔
ب2۔ سرمایہ دارانہ نظام میں برآمدات اور درآمدات میں توازن پیدا کرنے کے لیے روپے کی قدر کم کی جاتی ہے جس کے نتیجے میں افراط زر پیدا ہوتا ہے۔ چونکہ ہمارا صنعتی شعبہ کمزور ہے اور ہماری درآمدات، برآمدات کے مقابلے میں ہمیشہ زائد ہوتی ہیں۔ لہذا پاکستان کی سرمایہ دارانہ حکومت آئی۔ایم۔ایف (I.M.F) کے حکم پر روپے کی قدر کو کم کر دیتی ہے۔ روپے کی قدر میں کمی کرنے کا مقصد پاکستان کے تجارتی توازن کو بہتر کرنا بتایا جاتا ہے۔ ریاست تجارتی توازن حاصل کرنے کے لیے درآمدات کی حوصلہ شکنی کرتی ہے جبکہ اندرون ملک تیار ہونے والی اشیاء کو زیادہ سے زیادہ برآمدکرنے کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ لیکن روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے پاکستان کی حکومت پیداواری لاگت میں اضافہ کر دیتی ہے جس کے نتیجے میں زراعت، ٹیکسٹائل اور معیشت کے دوسرے شعبوں میں ایک افراتفری مچ جاتی ہے کیونکہ وہ پہلے ہی بلند شرح سود کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہوتے ہیں۔ لہذا مہنگے قرضے اور پیداواری لاگت میں اضافہ بہت سی کمپنیوں اور صنعتوں کو اس قابل ہی نہیں چھوڑتا کہ وہ بین الاقوامی مارکیٹ میں مقابلہ کر سکیں۔ جب پاکستانی مصنوعات مہنگی ہونے کی وجہ سے کوئی خریدار نہیں ڈھونڈ پاتیں تو پاکستان کی اہم برآمدی اشیأ کی برآمد میں کمی آ جاتی ہے اور پاکستان کی ادائیگیوں کا توازن خراب ہو جاتا ہے۔ یہ معاملہ مزید گھمبیر ہو جاتا ہے جب درآمدات کا سلسلہ ویسے ہی جاری و ساری رہتا ہے۔ دنیا کی چوتھی بڑی زرعی معیشت ہونے کے باوجود پاکستان اشیائے خورد و نوش درآمد کرنے والا ملک ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان اشیائے خورد و نوش کی درآمد پر، روپے کی قدر میں کمی وجہ سے، زیادہ خرچ کرتا ہے، نتیجتاً اندرون ملک کھانے پینے کی اشیأ مزید مہنگی ہو جاتی ہیں۔ حالیہ سالوں میں ڈالر کی گرتی ہوئی قیمت اور پاکستانی روپے کا اس سے منسلک ہونے کی وجہ سے اشیائے خورد و نوش کی مہنگائی میں شدید اضافہ ہوا ہے۔ نوٹ چھاپنے کی ناکام پالیسی کو چھپانے اور ادائیگیوں کے توازن کو برقرار رکھنے کے لیے حکومت پاکستان کا تارکین وطن کی بھیجی ہوئی رقوم اور اشیائے خورد و نوش جیسے چاول، گندم کی برآمدات پر انحصار بڑھتا جا رہا ہے جس کے نتیجے میں ان اشیأ کی اندرونِ ملک قلت ہو جاتی ہے اور ان کی قیمت بڑھ جاتی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ اتنی محنت سے کمایا ہوا زرمبادلہ، ملکی معیشت میں نہیں ڈالا جاتا بلکہ قرضوں کی ادائیگی کے لیے واپس بیرون ملک بھیج دیا جاتا ہے جس سے غیر ملکی معیشتیں مضبوط ہوتی ہیں۔ لہذا حکومت پاکستان ادائیگیوں میں آنے والے فرق کو پورا کرنے کے لئے بین الاقوامی اداروں سے مزید قرضہ لینے پر مجبور ہو جاتی ہے جس سے اس کے مسائل میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔ یہ نئے قرضے سود پر حاصل کیے جاتے ہیں اور دیگر "ترقی پزیر" ممالک کی طرح پاکستان اصل قرضے کی رقم بھی کئی بار ادا کر دینے کے باوجود قرضے سے نجات حاصل نہیں کر پاتا کیونکہ یہ قرضے ایسی شرائط کے ساتھ آتے ہیں جن سے معیشت مزید کمزور ہوتی ہے، شرح سود بڑھتی ہے، کرنسی کی قیمت کم ہوتی ہے اور زرعی اور صنعتی شعبے کی پیداوار زوال پزیر ہوجاتی ہے۔
ب 3۔ مسلمانوں کے لیے سونے اور چاندی کے پیمانے کی جانب دوبارہ لوٹنا عملی طور پر ممکن ہے۔ جن مسلم علاقوں میں خلافت کے دوبارہ قیام کے امکانات ہیں وہ سونے اور چاندی کے وسائل سے بھر پور ہیں جیسے پاکستان میں سینڈک اور ریکوڈیک کے میدان۔ امت کے پاس ایسے وسائل ہیں جن کی دوسرے ممالک کو شدید ضرورت ہوتی ہے جیسے تیل، گیس، کوئلہ، معدنیات اور زرعی اجناس جن کے بدلے سونا اور چاندی حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ مسلم علاقوں میں موجود بینکوں میں غیر ملکی اثاثے جیسے ڈالر، یورو اور پاونڈ سٹرلنگ موجود ہیں اور انھیں بھی تبادلے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ مسلم علاقے بنیادی ضروریات کے حوالے سے خود کفیل ہیں لہذا حقیقی معیشت مستحکم ہوگی اور غیر حقیقی معیشت (سٹاک مارکیٹ، ڈیری ویٹوز وغیرہ) کے خاتمے کے بعد معیشت سٹے بازی کے اثرات سے بھی محفوظ ہو جائے گی۔
د) قانونی ممانعت: سونے اور چاندی کے پیمانے کی واپسی
د1۔ اسلام نے یہ لازمی قرار دیا ہے کہ ریاست کی کرنسی کی بنیاد قیمتی دھات کی دولت کو ہونا چاہیے جس کے نتیجے میں افراط زر کی جڑ ہی کٹ جاتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ وہ سونے کے دینار، جن کا وزن 4.25 گرام اور چاندی کے درہم، جن کا وزن 2.975 گرام ہو، ریاست کی کرنسی کے طور پر استعمال کریں۔ اس وجہ سے ہزار سال تک ریاست خلافت میں قیمتوں کو استحکام حاصل رہا۔ آج خلافت تانبے اور زرمبادلہ کے ذخائر کو سونے اور چاندی کی خریداری کے لیے استعمال کرے گی اور بین الاقوامی تجارت کے نتیجے میں ملک میں آنے اور جانے والے سونے کی مقدار پر نظر رکھے گی اگرچہ مسلم دنیا اکثر معاملات میں خود کفیل ہے۔ اس کے علاوہ بین الاقوامی تجارت میں سونے اور چاندی کا کرنسی کے طور پر دوبارہ اجرأ امریکہ کی عالمی تجارت میں بالادستی کا خاتمہ کر دے گا کیونکہ اس وقت امریکہ دنیا کو بین الاقوامی تجارت کے لیے ڈالر کے استعمال پر مجبور کر دیتا ہے۔
جیسا کہ حزب التحریر نے ریاست خلافت کے دستور کی دفعہ 166 میں اعلان کیا ہے کہ "ریاست اپنی ایک خاص کرنسی، آزادانہ طور پر جاری کرے گی اور اس کو کسی غیر ملکی کرنسی سے منسلک کرنا جائز نہیں"۔ اسی طرح دستور کی دفعہ 167 میں لکھا ہے کہ "ریاست کی نقدی (کرنسی) سونے اور چاندی کی ہوگی، خواہ اسے کرنسی کی شکل میں ڈھالا گیا ہو یا نہ ڈھالا گیا ہو۔ ریاست کے لیے سونے چاندی کے علاوہ کوئی نقدی جائز نہیں۔ تاہم ریاست کے لئے سونا چاندی کے بدل کے طور پر کوئی اورچیز جاری کرنا جائز ہے۔ بشرطیکہ ریاست کے خزانے میں اتنی مالیت کا سونا چاندی موجود ہو"۔ ریاست خلافت کے دستور کی دفعہ 168 کے مطابق "اسلامی ریاست اور دوسری ریاستوں کی کرنسیوں کے مابین تبادلہ جائز ہے جیسا کہ اپنی کرنسی کا آپس میں تبادلہ جائز ہے"۔
د2۔ ریاست خلافت کا سٹیٹ بینک ایک مالیاتی ادارہ ہوگا جس کا کام حقیقی معیشت جیسے زراعت اور صنعتوں میں ترقی اور اضافے کے لیے مدد فراہم کرنا ہوگا۔ ریاست خلافت کا سٹیٹ بینک کوئی خون چوسنے والا ادارہ نہیں ہوگا جو سود کے ذریعے معیشت سے خون نچوڑتا ہو جیسا کہ آج کے بینک کرتے ہیں یعنی مسلسل کرنسی کے پھیلاو کی ضرورت کو پیدا کرنا، کرنسی کی قیمت میں کمی اور اس کے نتیجے میں مہنگائی میں اضافہ۔ ریاست خلافت میں سٹیٹ بینک کا واحد مقصد قرضوں کے ذریعے مقامی زرعی اور صنعتی شعبے کو مدد فراہم کرنا اور ایک متحرک اور طاقتور معیشت کو قائم کرنا ہوگا۔
جیسا کہ حزب التحریر نے ریاست خلافت کے دستور کی دفعہ 169 میں اعلان کیا ہے کہ "بینک کھولنے کی مکمل ممانعت ہوگی اور صرف اسٹیٹ بینک موجود ہوگا۔ کوئی سودی لین دین نہ ہوگا اور اسٹیٹ بینک بیت المال کے محکموں میں سے ایک محکمہ ہوگا"۔
د3۔ اگر خلافت پاکستان میں قائم ہوتی ہے تو معیشت کو تباہ کرنے اور پھر مزید قرضوں کے حصول کے لیے بھیک مانگنے کی بجائے دنیا بھر میں مغربی استعماری سود پر مبنی قرضوں کے نتیجے میں ہونے والے ظلم کے خلاف عالمی رائے عامہ کو متحرک کرے گی۔ یہی وہ ظلم پر مبنی نظام ہے جو کئی ممالک کو اپنے پیروں پر کھڑے ہونے سے روکتا ہے۔ یہ نظام قرضوں کے ساتھ ایسی شرائط عائد کر دیتا ہے جس کے نتیجے میں معیشت کا دم گھٹنا شروع ہو جاتا ہے یہاں تک کہ معیشت کی اصل قرض کی رقم سے بھی کئی گنا زائد سود دینے کے باوجود قرضے سے جان نہیں چھوٹتی۔ جیسا کہ حزب التحریر نے ریاست خلافت کے دستور کی دفعہ 165 میں اعلان کیا ہے کہ "یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ یہ غیر ملکی سرمایہ ہی ہے جو اسلامی علاقوں میں کفار کے قدم جمانے اور ان کے اثر و نفوذ کو مضبوط کرنے کا سبب رہا ہے اور کفار کو مسلمانوں کے علاقوں میں قدم جمانے کی اجازت یا سہولت دینا حرام ہے"۔
نوٹ: خلافت کے قیام کے فوراً بعد کرنسی سے متعلق دفعات کو نافذ کیا جائے گا۔ ان دفعات کے قرآن و سنت سے تفصیلی دلائل جاننے کے لیے حزب التحریر کی جانب سے جاری کیے گئے ریاستِ خلافت کے دستور کی دفعات 165 ،166 ،167 ،168 ،169 سے رجوع کریں۔ متعلقہ آئینی دفعات کو دیکھنے کے لیے اس ویب سائٹ لنک کو دیکھیں۔
http://htmediapak.page.tl/policy-matters.htm
ج) پالیسی: خلافت کو دنیا کے سامنے ایک معاشی ماڈل کے طور پر پیش کیا جائے گا
ج1۔ حقیقی دولت کے ذریعے یعنی سونے اور چاندی کے ذریعے کرنسی کو مستحکم اور طاقتور کیا جائے گا تاکہ عمومی افراط زر کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہو جس نے گھروں، صنعتوں اور زراعت کو مفلوج کر دیا ہے۔
ج2۔ نجی بینکوں کا سودی بینکاری کے کاروبار کا خاتمہ اور غیر سودی ریاست کا بینک قائم کیا جائے گا تاکہ ایک متحرک معیشت کے لیے زرعی اور صنعتی شعبوں کو مالیاتی مدد فراہم کی جائے۔
ج3۔ عالمی سطح پر استعماری قرضوں کے خاتمے کے لیے کام کرنا تا کہ وسائل رکھنے کے باوجود قوموں کو بھکاری بنا دینے کے سلسلے کا خاتمہ ہوسکے۔
نوٹ: اس پالیسی دستاویز کی پریس رلیز کو دیکھنے کے لیے اس ویب سائٹ لنک کو دیکھیں۔
حزب التحریر ولایہ پاکستان نے مہنگائی (افراط زر) کے حوالے سے پالیسی جاری کر دی
صرف خلافت ہی مسلسل بڑھتی مہنگائی کے عذاب کا خاتمہ کرے گی