الجمعة، 27 جمادى الأولى 1446| 2024/11/29
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

المكتب الإعــلامي
ولایہ پاکستان

ہجری تاریخ    4 من رمــضان المبارك 1441هـ شمارہ نمبر: 57 / 1441
عیسوی تاریخ     پیر, 27 اپریل 2020 م

بجلی پیدا کرنے کے کارخانوں (IPP’s) کی ہوشربا لوٹ مار کی داستان جمہوریت کا اصل حقیقی چہرہ ہے

 

آج جب پاور سیکٹر کے گردشی قرضے دو ہزار ارب تک پہنچ گئے ہیں ، جس نے سودی ادائیگیوں کے ساتھ مل کر پورے مالیاتی اور معاشی نظام کی کمر توڑ دی ہے تو باجوہ عمران حکومت کو اب جا کر یہ خیال آیا ہے کہ یہ معاہدے عوام کے ساتھ ظلم ہیں اور بجلی پیدا کرنے والےنجی  کارخانوں کے ساتھ ایک بار پھر مذاکرات (Re-negotiate) کرنے کی ضرورت ہے ۔ ایک سنگل یونٹ پیدا کئے بغیر سالانہ 570 ارب روپے کی (Capacity payments)  ہوں یا  50 ارب کی انویسٹمنٹ پر اب تک 415 ارب کمانے والے 16 پلانٹس، یا ہر سال 50-80 فیصد تک سالانہ نفع(Return on Equity)، یعنی ڈیڑھ سال میں پیسے ڈبل کرنے کا دھندا،  یہ ہے بجلی پیدا کرنے والے کارخانوں کے ساتھ مکمل طور پر قانونی معاہدوں کا بھیانک چہرہ -   وہ بھی ایک ایسے ملک میں جس کا اس سال ترقیاتی بجٹ 480 ارب روپے ہے۔ اگر سوال کیا جائے کہ ایسے دن دہاڑے ڈاکہ ڈالنے جیسے  "قانونی معاہدے" کرنے کی اجازت ان حکمرانوں کو کس نے دی، تو جواب بڑا آسان ہے، جمہوریت نے!!! کیونکہ جمہوریت اللہ کی شرعیت کو  نہیں بلکہ انسانوں کے نمائندوں  کو خودمختاری دیتی ہے اور انھیں ہر طرح کے قانون اور پالیسی کے تعین کا اختیار دیتی ہے۔ اسلئے اسلام کے احکامات کے برخلاف  90 کی دہائی میں عالمی مالیاتی اداروں کی  ہدایات پر بجلی پیدا کرنے کا شعبہ نجی ہاتھوں میں دے دیا گیا،یوں پچھلی تین دہائیوں سے عوام کی جیبوں سے کھربوں روپے لوٹ کر سرمایہ داروں کی تجوریاں بھری گئی۔  2002 کی پاور پالیسی ہو یا  2013 اور 2015 میںلگائے گئے پاور پلانٹس ، سب میں ایک چیز مشترک رہی، عوام کی جیب پر ڈاکا  ڈال کر سرمایہ داروں کی تجوریاں بھرنا۔  یقیناً جمہوریت صرف سرمایہ داروں کی لوٹ مار پر چڑھایا گیا نقاب ہے۔

ان معاہدوں میں حکومت نے ان عالمی سرمایہ داروں  کوڈالروں میں  ادائیگیوں کی حکومتی ضمانت( Sovereign Guarantees ) اور تیل کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ سے حفاظت کی پرکشش مراعات دیں۔اس پر مستزاد ان کو شرح منافع کی ضمانت، بینک قرضوں کی ادائیگی، حتیٰ کہ آپریشنل خرچوں کا ذمہ بھی اٹھانے کیلئےcapacity charges کے نام پر  کھربوں روپے دینے کے معاہدے کئے گئے، 2019-20 میں 12 چھوٹے کارخانوں نے 79 ارب کی بجلی بنائی جس میں  53 ارب  capacity payment ہے، یعنی کل رقم  کادو تہائی۔ پس اگر یہ پلانٹ ایکیونٹ بھی نہ بنائیں تو بھی ان کو کھربوں کی خطیر رقم ادا کی جائے گی جورقم  اب بڑھتے بڑھتے 900 ارب سے بھی تجاوز کر چکی ہیں۔  ان مختلف  ادائیگیوں پر سود در سود کے بعد یہ رقم 2000 ارب کے قریب ہے۔ 

 

سرمایہ دارانہ جمہوریت کی اندھی پیروی غریب عوام کو زندہ درگور کر رہی ہے۔جمہوریت ہیوی انڈسٹری، پاور سیکٹر، ٹیلی کام اور انفراسڑکچر پراجیکٹ وغیرہ نجی شعبے کے حوالے کر کے ہزاروں ارب روپے جو حکومت کے خزانے میں جمع  ہو کر غریب عوام پر خرچ ہو سکتے تھے، چند سرمایہ داروں کی تجوریاں میں منتقل کر رہی ہے۔ یہ کیسا تصور معیشت ہے جس میں منافع سرمایہ دار کا اور خسارہ عوام کا اور ریاست کا  ہے جو آج گردشی قرضوں کی شکل میں عوام اور ریاست پر بوجھ کی صورت میں موجود ہے؟ یقیناً اب یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ سرمایہ داریت کی عوامی اثاثوں اور بڑے سرمائے والی انڈسٹری کو نجی شعبے کے حوالے کرنے کی سوچ عوام کے حق پر ڈاکے کے سوا کچھ نہیں۔  اللہ کے نبی ﷺ نے 1400 سال پہلے ہی مسلمانوں پر واضح کر دیا تھا کہ؛

المسلمون شركاء في ثلاث: في الماء والكلأ والنار،

"مسلمان تین چیزوں میں برابر کے مالک ہیں ، پانی، چراگاہیں اور آگ (توانائی کے ذرائع)"۔ (مسنداحمد)

 

اسلام توانائی کے شعبے میں موجود گردشی قرضوں اور مہنگی بجلی کے مسئلہ کو جڑ سے ختم کرتا ہے۔ اسلام میں توانائی کے ذخائر، توانائی پیدا کرنے والے کارخانوں اور توانائی تقسیم کرنے والے انفراسٹرکچر کی نج کاریحرام ہے۔ یہ اثاثے عوامی ملکیت ہیں اور ریاست عوام کی جانب سے ان کا براہ راست کنٹرول سنبھال کر ان سے حاصل ہونے والے محاصل کو عوام پر خرچ کرتی ہے۔ یوں تیل اور گیس کی کمپنیوں کا منافع، توانائی کی ترسیل کی کمپنیوں کا منافع، بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کا منافع، بجلی تقسیم کرنے والی کمپنیوں کا منافع اور بڑے بڑے سرمایہ کاروں کے سرمایے پر منافع جو آج نجی سیکٹر کی جیبوں میں جا رہا ہے یہ سارا کا سارا ریاست کے بیت المال میں جائے گا۔ مزید برآں ریاست خلافت سود پر مبنی قرضوں اور سرمایہ کاری کا یکسر انکار کر دے گی۔ یوں اربوں روپے جو آج سود کی مد میں بینکوں کے منافع کی صورت میں توانائی کے شعبے سے نکل کر ان بینک مالکان کی جیبوں میں جا رہے ہیں ان کی بھی بچت ہو جائے گی۔  آج گردشی قرضوں کی شکل میں دو ہزار ارب روپے کے دعویدار نجی سیکٹر اگر توانائی کے ذخائر، ترسیل اور پیداوار  کا مالک نہ ہو تو یہ سارا پیسہ حکومت کی جیب میں ہو۔ یقیناً خلافت کا دوبار قیام اس امت کو نہ صرف اس کے رب کی خوشنودی کی طرف لے جائے گی بلکہ اسلام کی معاشی پالیسی امت کے وسائل کو امت پر خرچ کر کے مسلمانوں کے لیے خوشحالی کا ایک نیا دور شروع کرے گی۔

 

ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کا میڈیا آفس

المكتب الإعلامي لحزب التحرير
ولایہ پاکستان
خط وکتابت اور رابطہ کرنے کا پتہ
تلفون: 
https://bit.ly/3hNz70q
E-Mail: HTmediaPAK@gmail.com

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک