الأربعاء، 25 جمادى الأولى 1446| 2024/11/27
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

المكتب الإعــلامي
ولایہ پاکستان

ہجری تاریخ    22 من صـفر الخير 1439هـ شمارہ نمبر: PR17076
عیسوی تاریخ     ہفتہ, 11 نومبر 2017 م

عوام کی حقیقی نمائندگی جمہوریت میں ممکن ہی نہیں

کراچی کی سیاست میں جاری ہلچل اس بات کا ثبوت ہے کہ جمہوریت میں حکمران اشرافیہ عوام کے مستقبل کا تعین کرتی ہے

 

یہ حقیقت دنیا بھر میں واضح ہوتی جارہی ہے کہ جمہوریت میں ہونے والے انتخابات عوام کو ان کی مرضی کے نمائندے چننے کا موقع فراہم نہیں کرتے بلکہ حکمران اشرافیہ انتخابات سے قبل ہی عوام کی چوائس کو اپنی مرضی کے مطابق محدود کردیتی ہے۔ پچھلےچار دنوں سے کراچی کی سیاست میں ہونے والی ہلچل نے  پاکستان میں بھی اس حقیقت کو بے نقاب کردیا ہے۔ راتوں رات متحدہ قومی موومنٹ کے دو دھڑوں کے انضمام کا  اعلان ہوا، جس کا امکان ایک دن پہلے تک ناممکن نظر آرہا تھا کیونکہ دونوں دھڑے ایک دوسرے کو سیاسی طور پر ختم کرنے کے دعوے کررہے تھے۔ اس انضمام کے پیچھے حکمران اشرافیہ کا ہاتھ واضح  ہے- ڈان  اخبار نے لکھا کہ:” منگل کی رات ڈیفنس کراچی کے ایک سیف ہاوس میں دونوں  جماعتوں کی مرکزی قیادت کو ” متعلقہ طاقتوں” نے طلب کیا اور ان پر واضح کیا کہ ان کے درمیان مزید لڑائی اور اختلافات اب ناقابل برداشت ہیں”۔ اور پھر بدھ کی رات دونوں دھڑوں نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں اپنی جماعتوں کے انضمام کا اعلان کردیا۔

 

درحقیقت پاکستان میں یہ عمل کوئی پہلے بار نہیں ہورہا بلکہ بار بار ہوچکا ہے۔ اس سے پہلے 2007 میں سابق وزیر اعظم بےنظیر بھٹونے اقتدار میں آنے کے لیے اس وقت کے آمر جنرل پرویز مشرف کے ساتھ ایک معاہدہ کیا تھا جس کی تفصیلات اس وقت کی امریکی سیکریٹری خارجہ کونڈالیزا رائس نے اپنی کتاب” No Higher Honor” میں درج کی ہیں۔  اور اس سے بھی پہلے 1990 کی دہائی میں ہونے والے ہونے والے تینوں انتخابات بھی اس بات کا ثبوت ہیں کہ حکمران اشرافیہ انتخابات سے پہلے ہی اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ عوام کے سامنے تمام چوائسس ان ہی کی مرضی کے مطابق ہوں۔

 

جمہوریت میں حکمران اشرافیہ عوام کی چوائس کو محدود کرنے کا کام اس لیے کرتی ہے کیونکہ اسمبلیوں میں آنے والے اور پھر سیاسی حکومت بنانے والے قانونی طور پر قوانین اور ملک کی پالیسیاں بنانے کا اختیار رکھتے ہیں۔  لہٰذا انتخابات سے قبل ہی سیاسی جماعتوں  کے درمیان ایک مقابلہ شروع ہوجاتا ہےاور وہ ایک دوسرے سے بڑھ کر حکمران اشرافیہ کو اس بات کی یقین دہانی کرا رہی ہوتی ہیں کہ وہ ان کی مرضی کے مطابق قوانین اور پالیسیاں بنائیں گی۔  اس کے برخلاف اسلام کے سیاسی نظام خلافت میں عوام اپنی رائے سے خلیفہ اور مجلس امت کا انتخاب کرتے ہیں لیکن ان دونوں کے پاس قوانین بنانے کا حق اور اختیار نہیں ہوتا بلکہ خلیفہ قرآن و سنت سے قوانین اور پالیسیاں اخذ کر کے نافذکرنے  اور مجلس امت اسلام کی بنیاد پر ان قوانین اور پالیسیوں کے نفاذ کی نگرانیاور جانچ پڑتال کرنے کی پابند ہوتی ہے۔ لہٰذا نظام خلافت میں چاہے حکمران اشرافیہ کی مرضی کا خلیفہ یامجلس امت ہی کیوں نہ منتخب ہو کر آجائیں لیکن قانون سازی کا اختیار نہ ہونے کی وجہ سے حکمران اشرافیہ ان سے اپنی مرضی کے قوانین اور پالیسیاں نہیں بنواسکتی کیونکہ خلیفہ صرف اور صرف قرآن و سنت سے قوانین اور پالیسیاں بنانے اور نافذ کرنے کاپابند ہوتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ خلافت  میں حکمران اشرافیہ، کہ جس طرح سے آج  کے جمہوری نظام میں موجود ہے،   کا وجود نہیں ہوتا۔ تاریخی طور پر جب مسلمانوں کی اسلام کی فہم میں کمزوری کے باعث خلافت کا منصب چند خاندانوں تک محدود ہو گیا تو  اس وقت بھی طاقت اور اقتدار  خلیفہ ہی  کے ہاتھ میں تھا  نہ کہ اس کے خاندان یا کسی حکمران اشرافیہ کے ہاتھ میں۔یوں خلیفہ اسلام کے نفاذ  اور اس کے ذریعے  لوگوں کے امور کی دیکھ بھال میں مکمل طور پر آزاد تھا   ۔ یہی وجہ ہے کہ اموی دور میں عمر بن عبدالعزیز، عباسی دور میں ہارون الرشید اور عثمانی دور میں سلیمان  القانونی مسلم تاریخ  کے  عظیم خلفاء کے طور پر مشہور ہیں    جنہوں نے  اپنی قوت او ر اقتدار کو اسلام اور مسلمانوں کی مضبوطی کے لیے استعمال کیا۔ درحقیقت خلافت ہی ایک ایسا نظام ہے جو عوام کے حقوق کا ضامن ہے کیونکہ ا س نظا م میں عوام اپنے حقوق کی وصولی کے لیے کسی سیاسی پارٹی اور انتخابات میں اس کی کامیابی کے محتاج نہیں ہوتے۔ بلکہ عوام کے حقوق شریعتِ الہی نے متعین کر دیے ہیں اور خلیفہ پر شریعت کی پابندی اور اس کا نفاذ لازم ہے۔

 

جمہوریت  سرمایہ داروں اور طاقتور اشرافیہ کا نظام ہے جس کی بہترین صورت میں حکمران اشرافیہ ریاست کے وسائل میں سے کچھ عوام پر صرف اس لیے خرچ کرنے کے لیے تیار ہوتی ہے کہ عوام اس کرپٹ اشرافیہ کے خلاف علم بغاوت نہ بلند کرے۔ اب وقت آچکا ہے کہ ہم خود کو اس دھوکے سے نکالیں کہ جمہوریت میں ہم اپنے مستقبل کا تعین خود کرتے ہیں۔ جمہوریت میں ہمارے مستقبل کا تعین حکمران اشرافیہ کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے عوام آج تک پاکستان میں اسلام کے نفاذ کا خواب ہی دیکھ رہے ہیں  جبکہ اسلام سے وہ اپنا مستقبل 70 سال قبل ہی وابستہ کرچکے تھےجب قیام پاکستان کی جدوجہد کے دوران انہوں نے “پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الاللہ” کے نعرے بلند کیے تھے۔ صرف نظام خلافت میں ہی ہم اپنے مستقبل کا تعین کرنے میں حقیقت میں آزاد ہوں گے کیونکہ ہمارا منتخب خلیفہ اور مجلس امت ہم پر صرف اور صرف اسلام کو نفاذ کرنے کے پابند ہوں گے۔

اَلَا يَعۡلَمُ مَنۡ خَلَقَؕ وَهُوَ اللَّطِيۡفُ الۡخَبِيۡرُ

“کیا وہی نہ جانے جس نے پیدا کیا؟ پھر وہ باریک بین اور باخبر بھی ہو “(سورة المُلک:14)

 

ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کا میڈیا آفس

المكتب الإعلامي لحزب التحرير
ولایہ پاکستان
خط وکتابت اور رابطہ کرنے کا پتہ
تلفون: 
https://bit.ly/3hNz70q
E-Mail: HTmediaPAK@gmail.com

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک