الإثنين، 23 جمادى الأولى 1446| 2024/11/25
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

سوال و جواب

حلال بھی واضح ہے اور حرام بھی

(حسین خمایسہ کے لئے)

)ترجمہ)

 

==============

سوال :

 

السلام علیکم ورحمۃ اللہ،

ہمارے امیر اور ہمارے محبوب ! اللہ آپ سے راضی ہو اور آپ کی حفاظت کرے جیسا کہ اس نے اپنی کتاب اور اپنے اولیاء کی حفاظت کی۔

الدوسیہ صفحہ 58 پیرا گراف نمبر 1 میں مذکور ہے: جڑوں سے مٹی ہٹانا، حدیث ("حلال بھی واضح ہے اور حرام بھی واضح ہے۔۔۔۔۔ اور جو مشکوک امور میں پڑ جائے وہ اس چرواہے کی طرح ہے۔۔۔۔۔۔) ایسا لگتا ہے کہ اس میں "حرام چیزوں میں پڑنا" بیان کرنے سے رہ گیا ہے۔ براہ کرم میں اس کی تسلی کرنا چاہتا ہوں، جواب دے کر ممنون فرمائیے۔ اللہ آپ کا حامی ہو۔  میری طرف سے آپ کے لیے انتہائی محبت اور احترام ۔

 

جواب:

 

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، 

اللہ آپ کو ان خوبصورت دعاؤں ، مخلصانہ گفتگو اور میٹھے الفاظ کی برکت عطا فرمائے، اللہ آپ کو تمام شروں سے اور ہر برائی سے محفوظ رکھے۔

 

حدیث مبارکہ (حلال واضح ہے اور حرام واضح ہے...)،  کے بارے میں،جو ہم نے اس کتابچہ میں ذکر کیا ہے،بخاری کی حدیث ہے، اس کے الفاظ یہ ہیں:

 

سمعت رسول الله ﷺ يقول:

 

«الْحَلاَلُ بَيِّنٌ وَالْحَرَامُ بَيِّنٌ، وَبَيْنَهُمَا مُشَبَّهَاتٌ لاَ يَعْلَمُهَا كَثِيرٌ مِنْ النَّاسِ، فَمَنْ اتَّقَى الْمُشَبَّهَاتِ اسْتَبْرَأَ لِدِينِهِ وَعِرْضِهِ، وَمَنْ وَقَعَ فِي الشُّبُهَاتِ كَرَاعٍ يَرْعَى حَوْلَ الْحِمَى يُوشِكُ أَنْ يُوَاقِعَهُ، أَلاَ وَإِنَّ لِكُلِّ مَلِكٍ حِمىً، أَلاَ إِنَّ حِمَى اللَّهِ فِي أَرْضِهِ مَحَارِمُهُ أَلاَ وَإِنَّ فِي الْجَسَدِ مُضْغَةً إِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الْجَسَدُ كُلُّهُ وَإِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ كُلُّهُ أَلاَ وَهِيَ الْقَلْبُ»رواه البخاري)

(میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”حلال واضح ہے اور حرام واضح ہے، اور ان دونوں کے درمیان مشتبہ چیزیں ہیں جن کو بہت سے لوگ نہیں جانتے، پس جو شخص مشتبہ باتوں سے بچتا ہے۔ اس نے اپنے  دین اور اپنی عزت و ناموس کو پاک صاف کیا اور جو شخص مشتبہ امور میں پڑ جاتا ہے،اس کی مثال اس چرواہے کی طرح ہے جو چراگاہ کے آس پاس اپنے مویشی چراتا ہے، (ایسی صورت میں یہ عین) ممکن ہوتا ہے کہ وہ چراگاہ میں داخل ہوجائے۔ خبردار! ہر بادشاہ کی چراگاہ ہوتی ہے، خبردار!  اللہ کی زمین میں اس کی زمین پر اس کی چراگاہ اس کی حرام کردہ چیزیں ہیں۔ خبردار! جسم میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے کہ اگر وہ درست ہو تو سارا جسم ٹھیک ہوتا ہے اور اگر وہ درست نہ ہو تو سارا جسم خراب ہو جاتا ہے، خبردار رہو ! وہ (گوشت کا ٹکڑا) دل ہے‘‘ (بخاری)۔

 

جہاں تک لفظ "وہ حرام چیزوں میں پڑ گیا" کے چھوٹ جانے کے بارے میں آپ کے مشاہدے کا تعلق ہے، یہ بخاری کی روایت میں نہیں ہے، بلکہ مسلم کی روایت میں اس کا ذکر اس طرح آیا ہے:

 

((حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ الْهَمْدَانِيُّ حَدَّثَنَا أَبِي حَدَّثَنَا زَكَرِيَّاءُ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ قَالَ سَمِعْتُهُ يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ «وَأَهْوَى النُّعْمَانُ بِإِصْبَعَيْهِ إِلَى أُذُنَيْهِ إِنَّ الْحَلَالَ بَيِّنٌ وَإِنَّ الْحَرَامَ بَيِّنٌ وَبَيْنَهُمَا مُشْتَبِهَاتٌ لَا يَعْلَمُهُنَّ كَثِيرٌ مِنْ النَّاسِ فَمَنْ اتَّقَى الشُّبُهَاتِ اسْتَبْرَأَ لِدِينِهِ وَعِرْضِهِ وَمَنْ وَقَعَ فِي الشُّبُهَاتِ وَقَعَ فِي الْحَرَامِ كَالرَّاعِي يَرْعَى حَوْلَ الْحِمَى يُوشِكُ أَنْ يَرْتَعَ فِيهِ أَلَا وَإِنَّ لِكُلِّ مَلِكٍ حِمًى أَلَا وَإِنَّ حِمَى اللَّهِ مَحَارِمُهُ أَلَا وَإِنَّ فِي الْجَسَدِ مُضْغَةً إِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الْجَسَدُ كُلُّهُ وَإِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ كُلُّهُ أَلَا وَهِيَ الْقَلْبُ))صحيح مسلم (8/ 290)

"ہم سے محمد بن عبد اللہ بن نمیر الھمدانی نے، انہوں نے اپنے والد نے، انہوں نے زکریاسے انہوں نے الشعبی سے روایت کیا، الشعبی نے نعمان بن بشیر سے روایت بیان کی ،وہ فرماتے ہیں کہ : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ( اس دوران نعمان نے اپنی انگلیاں کانوں تک اٹھائیں) ”حلال واضح ہے اور حرام واضح ہے، اور ان دونوں کے درمیان مشتبہ چیزیں ہیں جن سے بہت سے لوگ ناواقف ہیں۔ پس جو شخص مشتبہ باتوں سے بچتا ہے۔ اس نے اپنے  دین اور اپنی عزت و ناموس کو پاک صاف کیا اور جو شخص مشتبہ امور میں پڑ جاتا ہے، وہ حرام میں پڑ جائے گا۔ جیسے ایک چرواہاجو چراگاہ کے آس پاس اپنے مویشی چراتا ہے، (ایسی صورت میں یہ عین) ممکن ہوتا ہے کہ وہ چراگاہ میں داخل ہو جائے۔ خبردار! ہر بادشاہ کی اپنی چراگاہ ہوتی ہے، خبردار!  اللہ کی زمین پر اس کی چراگاہ اس کی حرام کردہ چیزیں ہیں۔ خبردار رہو! جسم میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے کہ اگر وہ درست ہو تو سارا جسم ٹھیک ہوتا ہے اور اگر وہ درست نہ ہو تو سارا جسم خراب ہو جاتا ہے، خبردار رہو !  وہ (گوشت کا ٹکڑا) دل ہے‘‘۔ (صحيح مسلم (8/290)

 

آپ نے دیکھا کہ بخاری نے اس کو نہیں ذکر کیا، جبکہ دونوں روایتیں صحیح ہیں۔

فتح الباری شرح بخاری میں بخاری کی روایت کے بارے میں مذکور ہے کہ :

 

50 - حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ حَدَّثَنَا زَكَرِيَّاءُ عَنْ عَامِرٍ قَالَ سَمِعْتُ النُّعْمَانَ بْنَ بَشِيرٍ يَقُولُ

«سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ الْحَلَالُ بَيِّنٌ وَالْحَرَامُ بَيِّنٌ وَبَيْنَهُمَا مُشَبَّهَاتٌ لَا يَعْلَمُهَا كَثِيرٌ مِنْ النَّاسِ فَمَنْ اتَّقَى الْمُشَبَّهَاتِ اسْتَبْرَأَ لِدِينِهِ وَعِرْضِهِ وَمَنْ وَقَعَ فِي الشُّبُهَاتِ كَرَاعٍ يَرْعَى حَوْلَ الْحِمَى يُوشِكُ أَنْ يُوَاقِعَهُ أَلَا وَإِنَّ لِكُلِّ مَلِكٍ حِمًى أَلَا إِنَّ حِمَى اللَّهِ فِي أَرْضِهِ مَحَارِمُهُ أَلَا وَإِنَّ فِي الْجَسَدِ مُضْغَةً إِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الْجَسَدُ كُلُّهُ وَإِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ كُلُّهُ أَلَا وَهِيَ الْقَلْبُ» أخرجه البخاري(فتح الباري لابن حجر (1/ 82))

"میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”حلال واضح ہے اور حرام واضح ہے، اور ان دونوں کے درمیان مشتبہ چیزیں ہیں جن کو بہت سے لوگ نہیں جانتے، پس جو شخص مشتبہ باتوں سے بچتا ہے۔ اس نے اپنے  دین اور اپنی عزت و ناموس کو پاک صاف کیا اور جو شخص مشتبہ امور میں پڑ جاتا ہے، اس کی مثال اس چرواہے کی طرح ہے جو چراگاہ کے آس پاس اپنے مویشی چراتا ہے،( ایسی صورت میں یہ عین) ممکن ہوتا ہے کہ وہ چراگاہ میں داخل ہوجائے۔ خبردار! ہر بادشاہ کی چراگاہ ہوتی ہے، خبردار!  اللہ کی زمین میں اس کی چراگاہ اس کی حرام کردہ چیزیں ہیں۔ خبردار! جسم میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے کہ اگر وہ درست ہو تو سارا جسم ٹھیک ہوتا ہے اور اگر وہ درست نہ ہو تو سارا جسم خراب ہو جاتا ہے، خبردار رہو ! وہ (گوشت کا ٹکڑا) دل ہے‘‘ (بخاری)

 

یہ جو کہا ہے: (كَرَاعٍ يَرْعَى)

"بخاری کے تمام نسخوں میں یہ الفاظ اسی طرح مذکور ہیں۔ یعنی شرط کا جواب حذف کیا گیا ہے، لیکن ایسا تب کہا جائے گا جب لفظ (مَن) کو شرطیہ سمجھا جائے۔ جبکہ الدارمی کی روایت میں یہ محذوف ذکر بھی کیا گیا ہے، جو انہوں نے امام بخاری کے استاذ ابو نعیم سے ذکرکیا ہے۔ چنانچہ اس کی روایت میں ہے کہ "جو کوئی مشتبہ امور میں پڑ گیا وہ حرام میں پڑ جائے گا"، جیسے ایک چرواہا جو بکریاں چراتا ہے".... اور یہ بھی ممکن ہے کہ بخاری کی روایت میں لفظ (مَن) موصول ہو، اس صورت میں اس میں حذف کی کوئی بات نہیں ۔ اس صورت میں مطلب کچھ اس طرح بنتا ہے کہ (والذی یقع فی الشبھات مثل راع یرعی) یعنی جو مشتبہ امور میں پڑ جاتا ہے وہ چرواہے کی طرح ہے۔۔۔پہلی روایت یعنی الدارمی والی زیادہ مناسب ہے کیونکہ زکریا جس سے امام بخاری نے روایت کی ہے، انہی سے مسلم وغیرہ نے بھی روایت کی ہے، جس میں محذوف الفاظ مذکور ہیں۔ بنا بریں حدیث میں (کراع یرعی) کے الفاظ جو بخاری کی روایت میں ہے، یہ نیا جملہ ہےجس کے ذریعے ایک تمثیل بیان کی گئی ہے تاکہ محسوس کے ذریعے غیر محسوس کو سمجھایا جائے"۔

فائدہ:.... ابن عون نے حدیث کے آخر میں کہا: میں نہیں جانتا کہ یہ ضرب المثل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کا حصہ ہے یا شعبی کے قول سے۔ ........شاید بخاری کا "وقع فی الحرام" ( حرام میں پڑ گیا) کو حذف کرنے میں یہی راز چھپا ہوا ہے تاکہ محاورہ سے پہلے کے الفاظ کا بعد کے الفاظ کے ساتھ اتصال ہوجائے۔ اور یہ اس لیے کہ وہ ادراج (راوی کا اضافہ)کے دعوے سے بچ جائے۔  جو چیز ادراج کی عدم موجودگی کو تقویت دیتی ہے وہ ابن حبان کی سابقہ روایت ہے، نیز ابن عباس اور عمار بن یاسر کی روایت میں بھی اس ضرب المثل کے مرفوع ہونےکی تصدیق ہے۔

 

مجھے امید ہے کہ یہ وضاحت کافی ہے، و اللہ اعلم۔

 

آپ کا بھائی

عطاء بن خلیل ابو الرشتہ،

امیر حزب التحریر

09 رمضان المبارک 1445ھ

بمطابق 19 مارچ، 2024ء

Last modified onجمعہ, 05 اپریل 2024 20:57

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک