الإثنين، 23 جمادى الأولى 1446| 2024/11/25
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

سوال و جواب

مسلمان ممالک میں موجودہ حکومتوں کی افواج میں شمولیت رکھنا اور ان کے ساتھ تعلق رکھنا

 

(مبدین کے لئے)

(ترجمہ) 

 

 

سوال:

اسلام وعلیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

اگرآپ اجازت دیں تو میرا ایک سوال ہے: ان موجودہ حکومتوں کی افواج سے تعلق رکھنے اور ان افواج میں شمولیت اختیار کرنے سے متعلق اسلامی احکام کیا ہیں ؟ کیا ایک نوجوان کے لئے یہ جائز ہے کہ وہ ان موجودہ حکومتوں کی افواج میں کام کرے اور اس کے عہدوں میں ترقی پائے ... براہ مہربانی وضاحت فرما دیجئے۔

 

 

جواب :

وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ،

1-    اس سے پہلے بھی ایک پولیس والے یا ایک فوجی کےطور پر کام کرنے کے حوالےسے مورخہ 08 جون، 2013ء کو ہم ایک بیان جاری کر چکے ہیں... جس میں یہ کہا گیا ہے :

 

-        ابویعلیٰ نے اپنی مسند میں اور ابن حبان نے اپنی صحیح میں یہ روایت کیا ہے، اور یہ الفاظ ابویعلیٰ سے مروی  ہیں : " ابوسعیدؓ اور ابوہریرہ ؓ سےروایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : 

«لَيَأْتِيَنَّ عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ يَكُونُ عَلَيْكُمْ أُمَرَاءُ سُفَهَاءُ يُقَدِّمُونَ شِرَارَ النَّاسِ، وَيَظْهَرُونَ بِخِيَارِهِمْ، وَيُؤَخِّرُونَ الصَّلَاةَ عَنْ مَوَاقِيتِهَا، فَمَنْ أَدْرَكَ ذَلِكَ مِنْكُمْ، فَلَا يَكُونَنَّ عَرِيفاً وَلَا شُرْطِيّاً وَلَا جَابِياً وَلَا خَازِناً»

تم پر ایک دور ایسا آئے گا جب تم پر احمق اور جابر حکمران ہوں گے جو لوگوں میں سے سب سے بدترین کو آگے لائیں گے اور ان کی خواہشات میں ان کی پیروی کریں گے اور نماز کو اس کے مقررہ وقت سے مؤخر کر دیں گے۔ پس اگر تم اپنے آپ کو اس دور میں پاؤ ، تو ایک فوجی ، پولیس والا، ٹیکس جمع کرنے والا یا خزانچی نہ بنو...“۔

 

اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے ان چاروں اہلکاروں کو احمق حکمرانوں کی حکمرانی تلے کام کرنے سے واضح طور پر منع فرمایا ہے۔

 

طبرانی نے الصغیر اور الاوسط میں ابوہریرہؓ کی سند سے یہ حدیث روایت کی ہے : 

 

» فَمَنْ أَدْرَكَ مِنْكُمْ ذَلِكَ الزَّمَانَ فَلَا يَكُونَنَّ لَهُمْ جَابِياً، وَلَا عَرِيفاً، وَلَا شُرْطِيّاً«

تم میں سے جو کوئی بھی اس دور میں ہو تووہ ان (حکمرانوں) کا ٹیکس جمع کرنے والا نہ بنے، نہ ہی فوجی اور نہ ہی پولیس والا۔

 

لہٰذا اسی لئے آپﷺ نے فرمایا :

 

»فَلَا يَكُونَنَّ لَهُمْ

«لیکن وہ ان کا نہ بنے۔

 

یعنی کہ یہ ممانعت قید کے ساتھ وارد ہوئی ہے کیونکہ اللام کا لفظ تخصیص کے لیے ہے اور اس کے معنی یہ ہیں کہ دوسری حدیث میں وارد ہونے والی ممانعت ان حکمرانوں کے کام سے متعلق ہے جیسا کہ ان کے نجی محافظ  بننا، یا ان حکمرانوں کی حفاظت پر مامورسکیورٹی کے ادارے، اور  ان حکمرانوں کے مال و دولت کے منتظم، اور اسی طرح دوسرے سکیورٹی ادارے جو ان حکمرانوں کی حفاظت پر تعینات ہیں...کیونکہ بنیادی اصول یہ کہتے ہیں کہ مطلق کا اطلاق مقید پر ہوتا ہے، پھر یہ ممانعت خصوصاً ان پولیس ایجنسیوں میں کام کرنے کے حوالے سے ہےجو ان حکمرانوں کی بالخصوص حفاظت اور سکیورٹی پر مامور ہیں... جہاں تک دیگر عمومی پولیس ایجنسیوں کا تعلق ہے، ان میں کام کرنا جائز ہے۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ اس جائز ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ لوگوں پر ظلم کیا جائے یا ان کو ان کے حقوق سے محروم رکھا جائے، بلکہ یہ اجازت لوگوں کو ان کے کاموں میں حقوق دلانے کے حوالے سے ہے... رجب الفرد 29، 1434ھ بمطابق 8 جون، 2013ء[

*اس حدیث میں جس شُرْطِيّاً (یعنی پولیس) کا ذکر ہے اسے  لسان العرب میں ابن منظور نے بیان کیا ہے :

 

[وأَشْرَط فلان نفسَه لكذا وكذا أَعْلَمها له وأَعَدَّها ومنه سمي الشُّرَطُ لأَنهم جعلوا لأَنفسهم علامة يُعْرَفُون بها الواحد شُرَطةٌ وشُرَطِيٌّ... والشُّرْطةُ في السُّلْطان من العلامة والإِعْدادِ ورجل شُرْطِيٌّ وشُرَطِيٌّ منسوب إِلى الشُّرطةِ والجمع شُرَطٌ سموا بذلك لأَنهم أَعَدُّوا لذلك وأَعْلَمُوا أَنفسَهم بعلامات وقيل هم أَول كتيبة تشهد الحرب]

]اور کوئی اپنے آپ کو فلاں فلاں شخص کے لئےمخصوص کر لے، وہ اس شخص کو اس بات سے آگاہ کرےاور اسے تیار کرے۔ اور انہیں الشُّرَطُ (جس کے لغوی معنی علامت کے ہیں) اس لیے کہا گیا ہے کیونکہ انہوں نے اپنے آپ کے لئے ایک ایسی علامت بنا لی ہے کہ جس کے ذریعہ ایک شخص کو پولیس کے طور پر شناخت کیا جاتا ہے... اتھارٹی میں پولیس دراصل علامت اور(جنگ کی) تیاری سے عبارت ہے، اور ایک پولیس اہلکار کو پولیس سے منسوب کیا جاتا ہے، اور شُرَطٌ کی جمع کو پولیس کہا گیا ہےکیونکہ انہوں نے اس کے لئے تیاری کی اورانہیں ان علامتوں سے آگاہ کیا گیا ، اور اسی لئے یہ کہا گیا کہ وہ جنگ کا سامنا کرنے والے سب سے پہلے گروہ ہیں...

[

*فیروزآبادی کی تالیف قاموس المحیط میں بیان ہے :

[والشُّرْطَةُ، بالضم: ما اشْتَرَطْتَ، يقالُ: خُذْ شُرْطَتَكَ، وواحِدُ الشُّرَطِ، كصُرَدٍ، وهُمْ أولُ كَتِيبَةٍ تَشْهَدُ الحَرْبَ، وتَتَهَيَّأ للمَوْتِ، وطائِفَةٌ من أعوانِ الوُلاَةِ م، وهو شُرَطِيٌّ، كتُرْكِيٍّ وجُهَنِيٍّ، سُمُّوا بذلك، لأَنَّهُمْ أعْلَمُوا أنْفُسَهم بعَلاَماتٍ يُعْرَفُونَ بها]

[ اور وہ لشُّرْطَةُ (یعنی پولیس) جس کا الحاق کیا گیا   ہے: جس کا حوالہ دیا گیا ہے، اس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ : اگر ان کی علامت کا جائزہ لیا جائے تو ان میں سے ایک علامت یہ ہے کہ وہ جنگ کا سامنا کرنے اور موت کے لئے تیار رہنے میں سب سے پہلا گروہ ہوتے ہیں، اور وہ گورنروں کے معاونین کا ایک گروہ ہیں، اور وہ ترکوں اور جہنیوں کی طرح کےپولیس والے ہیں، انہیں یہ اس لئے کہا گیا ہے کیونکہ انہوں نے اپنی شناخت ہی انہی علامتوں سے کی کہ جن سے وہ پہچانے جاتے ہیں]۔

 

لہٰذا، جائز ہونے یا نہ ہونے کے حوالے سے جو حکم ایک پولیس اہلکار کے لئے لاگو ہوتا ہےوہی ایک فوجی اہلکار کے لئے بھی لاگو ہوتا ہے۔

 

اس لئے، مسلمان ممالک کی ملٹری افواج میں کام کرنا جائز ہے اگر یہ ایک ایسی مخصوص فوج نہ ہو جو اس حکمران کی حفاظت پر مامور ہو جو اسلام کے مطابق حکومت نہ کرتا ہو، ایسی صورت میں اس کے لئے رقوم اکٹھی کرنا، اور اس رقم کی رکھوالی کرنا بھی جائز نہیں ۔ اگر کوئی شخص ایسے حکمران کی اور اس کی رقم کی حفاظت کرنے کے لئے مخصوص فوج میں کام کرے ، تو یہ جائز نہیں۔ لیکن اگر اس کا کام فوج میں دوسرے امور سے متعلق ہےجو اس سے ہٹ کر ہیں تو پھر یہ جائز ہے۔ البتہ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس اجازت کا یہ مطلب نہیں کہ لوگوں پر ظلم کیا جائے یا انہیں ان کے حقوق سے محروم رکھا جائے، بلکہ انہیں ان  کے حقوق دلانا ہے ، اور ایسا احسن انداز میں کرنا ہے۔

 

میں امید کرتا ہوں کہ یہ وضاحت کافی ہو گی، اور اللہ ہی بہتر جاننے والا ہے۔   

      

آپ کا بھائی،

عطاء بن خلیل ابو الرشتہ

17 شعبان المعظم، 1445ھ

بمطابق 27 فروری، 2024 عیسوی

Last modified onپیر, 25 مارچ 2024 08:05

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک