الإثنين، 23 جمادى الأولى 1446| 2024/11/25
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

سوال و جواب : جن معاملات  پر شریعت خاموش ہے

(یحیی ٰابو زینہ  کیلئے)

سوال:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہٗ

اللہ تعالیٰ آپ کو اپنے حفظ و امان میں رکھے،اس امانت کو اٹھانے میں آپ کی مدد فرمائے،اور قریب آتی  اپنی نصرۃ سے  آپ کی مدد فرمادے،ان شاء اللہ۔

سب سے پہلے تو میں معذرت کرتا ہوں ،میرے سوالات بہت ہوتے ہیں،لیکن ہم نے حزب سے کھوج لگانا اور تحقیق کرنا ہی ہے،تاکہ  ہماری فکر مضبوط ، روشن اور صاف و شفاف ہوسکے۔

ایک سوال اُصولِ فقہ میں سے ،اس موضوع ، "جن معاملات میں شریعت خاموش ہے"،سے متعلق ہے۔

 

جیسا کہ ترمذی نے سلمان فارسی سے حدیث روایت کی ہے، وہ فرماتے ہیں، کہ نبی ﷺ نے فرمایا: «الحلال ما أحل الله في كتابه والحرام ما حرم الله في كتابه وما سكت عنه فهو مما عفا عنه»"حلال وہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں حلال قرار دیا ہے اور حرام وہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں حرام کیا ہے،اور جس سے سکوت فرمایا تو وہ اُن اُمور میں سے ہے جس کو اُس نے معاف کردیا  ہواہے"۔

کیا   مذکورہ بالا حدیث میں ذکر شدہ  سکوت کے بارے میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ گویا اس سے نزول قرآن کے وقت  شریعت یعنی قانون سازی سے سکوت مراد  ہے،یعنی شریعت کی تکمیل اور اس آیت کریمہ کے نازل ہونے سے قبل،

(اَليَوْمَ أكمْلتُ لَكُمْ دِيْنَكَم وَأَتْمَمْتُ عَلَيكُم نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَكُمُ الإِسلَامِ دِيْنًا)

"آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کردیا اور اپنی نعمتیں تم  پر پوری کردیں اور تمہارے لیے دین اسلام کو پسند کیا"(المائدة:3 ) ۔

تو یہ معلوم ہے کہ شریعت کے آنے سے پہلے کوئی شریعت نہیں ،اور اصل یہ ہے کہ (شریعت کے آنے سے قبل)انسان پر  کوئی شرعی تکلیف نہیں۔چنانچہ نزولِ قرآن کے وقت ایک مسلمان کو جاری شدہ  احکامات دیے گئے اور شریعت نے  اس وقت حلال یا حرام کا حکم بیان کردیا۔ایک مسلمان ان احکامات پر اس وجہ سے عمل کرتا ہے کہ یہی اس کے لیے قانون ہیں اور انہی کے بارے میں اس سے پوچھ گچھ ہوگی۔

کچھ ایسے افعال و اشیاء ہیں کہ شریعت مکمل  ہوگئی مگران کے بارے میں   کوئی حکم نازل نہیں کیا گیا۔یہی وہ اُمور ہیں جن کی طرف رسول اللہ ﷺ نے اپنے اس ارشاد، «وما سکت عنہ فھو عفوٌ» " اور جس سے سکوت فرمایا تو وہ اُن اُمور میں سے ہے جس کو اُس نے معاف کردیا  ہواہے"،سے اشارہ کیا ہے۔ خاموش ہونے کا مطلب ہے کہ اس کے بارے میں کوئی حکم نہیں دیا گیا،عفو کے معنی ہیں؛  ایسے اُمور پر مسلمان کا محاسبہ نہیں کیا جائے گا،خواہ یہ اُمور  کسی کام کے کرنے  سے تعلق رکھتے ہوں یا نہ کرنے سے۔نبی ﷺ نے ایسی چیزوں کے بارے میں سوال کرنے اور بحث کرنے سے منع کیا ہے جن کے بارے میں کوئی شرعی حکم نہ نازل کیا گیا ہو، تاکہ ایسے سوالات کی وجہ سے مسلمانوں پر اللہ کی طرف سے تنگی نہ ڈالی جائے۔

 

شریعت مکمل ہونے کے بعد اور

(اَليَوْمَ أكمْلتُ لَكُمْ دِيْنَكَم وَأَتْمَمْتُ عَلَيكُم نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَكُمُ الإِسلَامِ دِيْنًا)


"آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کردیا اور اپنی نعمتیں تم  پر پوری کردیں اور تمہارے لیے دین اسلام کو پسند کیا"(المائدة: 3 )،

اس آیت کے نزول کے بعد:

اب ایسا کوئی فعل یا چیز باقی نہ رہی جس کے بارے میں کوئی حکم موجود نہ  ہو(شریعت خاموش ہو)۔

کیونکہ شریعت نے تمام اشیاء وافعال کے بارے میں تفصیلاً احکامات دے کر ان کو گھیر لیا ہے۔

پس ایسی کوئی چیز یا فعل نہیں جس کے لیے کوئی حکم نہ بیان کیا گیا ہو، یا جس پر حکم نہ لگایا جاسکتا ہو۔

اب ایک مسلمان پر یہ لازم ہے کہ وہ ہر ایسے  فعل کے حکم کے بارے میں  سوال اور بحث کرےجس کو وہ کرنا چاہتا ہے،یہ بات مسلمانوں کی اُس حالت کے برعکس ہے جب وہ  نزو لِ قرآن کے زمانے میں تھے۔

ہمارے محبوب شیخ! کیا یہ فہم درست ہے؟یہ جانتے ہوئے کہ میں اس کی تبنی کرتا ہوں جو کتاب  اسلامی شخصیت  جلد 3 میں موجود ہے اور اس سے انحراف نہیں کرتا ،ان شاء اللہ۔

جواب:

وعلیکم السلام ورحمة اللہ و برکاتہ،

لگتا ایسا ہے کہ ایک پیراگراف کو سمجھنے میں آپ سے غلطی ہوگئی ہے،یعنی آپ نے جو کہا ہے:

(کچھ ایسے افعال و اشیاء ہیں کہ شریعت مکمل  ہوگئی مگران کے بارے میں   کوئی حکم نازل نہیں کیا گیا،یہی وہ اُمور ہیں جن کی طرف رسول اللہ ﷺ نے اپنے اس ارشاد،«وما سکت عنہ فھو عفوٌ» " اور جس سے سکوت فرمایا تو وہ اُن اُمور میں سے ہے جس کو اُس نے معاف کردیا  ہواہے"، سے اشارہ کیا ہے۔ خاموش ہونے کا مطلب ہے کہ اس کے بارے میں کوئی حکم نہیں دیا گیا،عفو کے معنی یعنی ایسے امور پر مسلمان کا محاسبہ نہیں کیا جائے گا،خواہ یہ کسی فعل کے کرنے  سے تعلق رکھتے ہوں یا نہ کرنے سے۔نبی ﷺ نے ایسی چیزوں کے بارے میں سوال کرنے اور بحث کرنے سے منع کیا ہے جن کے بارے میں کوئی شرعی حکم نہ نازل کیا گیا ہو، تاکہ ایسے سوالات کی وجہ سے مسلمانوں پر اللہ کی طرف سے تنگی نہ ڈالی جائے۔)

 

اس جملے ،«وما سکت عنہ فھو عفوٌ» " اور جس سے سکوت فرمایا تو وہ اُن اُمور میں سے ہے جس کو اُس نے معاف کردیا  ہواہے"،کا یہ مطلب نہیں کہ ان امور کا شرعی حکم نازل ہی نہیں کیا گیا، بلکہ ان الفاظ کا مطلب یہ  ہے کہ  جس امر سے متعلق رسول اللہ ﷺ خاموش رہے وہ حلال ہے، یعنی  اگر وہ کوئی شے ہے تومُباح ہے،اگر وہ کوئی فعل ہے تو وہ فرض ہوگا یا مندوب ہوگا یا مباح یا مکروہ ۔ ہم نے اس سے ملتے جلتےگزشتہ ایک  سوال کے جواب میں20 جمادی الثانی 1434ھ  مطابق 5 مئی 2013   کو اس کو واضح کیا  تھا ۔اس مسئلے سے متعلق اس جواب میں سے یہاں ذکر کیے دیتا ہوں:

[1-اس سے متعلقہ احادیث یہ ہیں:

ا۔ایک روایت وہ ہے  جس کو ترمذی نے سلمان فارسی رضی اللہ عنہْ روایت کیا ہے،فرماتے ہیں : ((سئل رسول الله عن السمن، والجبن، والفراء، فقال: «الْحَلاَلُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ فِي كِتَابِهِ، وَالْحَرَامُ مَا حَرَّمَ اللَّهُ فِي كِتَابِهِ، وَمَا سَكَتَ عَنْهُ فَهُوَ مِمَّا عَفَا عَنْهُ»... وفي رواية أبي داود عن ابن عباس «فَبَعَثَ اللَّهُ تَعَالَى نَبِيَّهُ، ﷺ وَأَنْزَلَ كِتَابَهُ، وَأَحَلَّ حَلَالَهُ، وَحَرَّمَ حَرَامَهُ، فَمَا أَحَلَّ فَهُوَ حَلَالٌ، وَمَا حَرَّمَ فَهُوَ حَرَامٌ، وَمَا سَكَتَ عَنْهُ فَهُوَ عَفْوٌ))"رسول اللہ ﷺسے گھی، پنیر اور پوستین سے متعلق پوچھا گیا تو  آپ نے فرمایا: حلال وہ ہے  جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں حلال قرار دیا ہے اور حرام وہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں حرام کیا ہے،اور جس پر سکوت فرمایا تو وہ اُن اُمور میں سے ہے جس کو اُس نے معاف کردیا  ہواہے"۔اور ابو داؤد کی ابنِ عباس رضی اللہ عنہ  سے نقل کی ہوئی روایت میں ہے: »فَبَعَثَ اللَّهُ تَعَالَى نَبِيَّهُ، ﷺ وَأَنْزَلَ كِتَابَهُ، وَأَحَلَّ حَلَالَهُ، وَحَرَّمَ حَرَامَهُ، فَمَا أَحَلَّ فَهُوَ حَلَالٌ، وَمَا حَرَّمَ فَهُوَ حَرَامٌ، وَمَا سَكَتَ عَنْهُ فَهُوَ عَفْوٌ«" پھر اللہ تعالی نے اپنے نبی کو مبعوث کیا اور اپنی کتاب نازل کی اور حلال کو جائز کیا اور حرام کو ناجائز کیا، تو جس کو جائز کیا وہ حلال ہے اور جس کو ناجائز کیا وہ حرام ہے اور جس کے بارے میں خاموشی اختیار کی اس پر معافی ہے"۔

ب- بیہقی نے السُننُ الکُبریٰ میں ابو ثَعلبہ رضی اللہ عنہ سے  حدیث روایت کی ہے،آپ ﷺ نے فرمایا: «إِنَّ اللهَ فَرَضَ فَرَائِضَ، فَلَا تُضَيِّعُوهَا، وَحَّدَ حُدُودًا، فَلَا تَعْتَدُوهَا، وَنَهَى عَنْ أَشْيَاءَ، فَلَا تَنْتَهِكُوهَا، وَسَكَتَ عَنْ أَشْيَاءَ رُخْصَةً لَكُمْ، لَيْسَ بِنِسْيَانٍ، فَلَا تَبْحَثُوا عَنْهَا»" اللہ تعالیٰ نے کچھ ذمہ داریاں عائد کی ہیں،ان کو ضائع نہ کرو، چند حدود طے کی ہوئی ہیں، ان سے تجاوز نہ کرو، کچھ چیزوں سے منع کیا ہے،ان کو پامال نہ کرو، اور کچھ چیزوں سے تمہیں رخصت اور چھوٹ دینے کے واسطے سکوت فرمایا ہے،کسی بھول چوک کی وجہ سے نہیں، سو ان کے بارے میں بحث میں نہ پڑو"۔

ج- ترمذی اور دار قُطنی نے علی رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے ، فرماتے ہیں:لما نزلتھذہ الاٰیۃ ((وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا﴾. قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَفِي كُلِّ عَامٍ؟ فَسَكَتَ، فَقَالُوا: أَفِي كُلِّ عَامٍ؟ قَالَ: «لَا وَلَوْ قُلْتُ نَعَمْ لَوَجَبَتْ»، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: ﴿يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَسْئَلُوا عَنْ أَشْياءَ إِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ۔ ۔۔۔۔۔الخ)) " جب یہ آیت "اور لوگوں پر اللہ کیلئے بیت اللہ کا حج کرنا (فرض) ہے، جو اس کی استطاعت رکھتا ہو"، نازل ہوئی تو صحابہ نے کہا: یا رسول اللہ ﷺ !کیاہر سال(حج کرنا ہے)؟   آپ ﷺ نےسکوت فرمایا،انہوں نے دوبارہ  پوچھا:یا رسول اللہ ! کیاہر سال(حج فرض ہے)؟ آپ ﷺ نے فرمایا:"نہیں، اور اگر میں"ہاں " کہہ دیتا تو واجب ہوجاتا"،  پھر اللہ تعالیٰ نے یہ قول نازل فرمایا: (﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَساَلُواعَنْ أَشْياءَ إِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُم) " اے ایمان والو! ایسی باتیں نہ پوچھو جو تم پر ظاہر کی جائیں تو تمہیں بری لگیں"۔

دار قطنی کی ایک اور روایت میں ہے جس کو ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا گیاہے،وہ فرماتے ہیں:رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ((«يَا أَيُّهَا النَّاسُ كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْحَجُّ» فَقَامَ رَجُلٌ فَقَالَ: فِي كُلِّ عَامٍ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ فَأَعْرَضَ عَنْهُ، ثُمَّ عَادَ فَقَالَ: فِي كُلِّ عَامٍ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ فَقَالَ: «وَمَنِ الْقَائِلُ»؟ قَالُوا: فُلَانٌ، قَالَ: «وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَوْ قُلْتُ نَعَمْ لَوَجَبَتْ وَلَوْ وَجَبَتْ مَا أَطَقْتُمُوهَا وَلَوْ لَمْ تُطِيقُوهَا لَكَفَرْتُمْ» فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَسْئالُوا عَنْ أَشْياءَ إِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُم﴾ الْآيَةَ.)) " اے لوگو! تم پر  حج فرض کیا گیا ہے"، تو ایک آدمی نے  کھڑے  ہوکر عرض کیا: یا رسول اللہ!ہر سال فرض ہے؟ آپ ﷺ نے اس کی طرف سے چہرہ  مبارک موڑ لیا،اس نے دوبارہ پوچھا:یا رسول اللہ ! کیا  ہر سال فرض ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: یہ کون ہے؟ تو صحابہ نے جواباً عرض کیا : فلاں ہیں۔آپ ﷺ نے فرمایا:  اس ذات  کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اگر میں "ہاں" کہہ دیتا تو واجب ہوجاتا،اور  واجب ہوجاتا تو تم نہ کرپاتے،اور جب نہ کر پاتے ہوتے تو کفر اختیار کرلیتے"۔ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ قول نازل فرمایا: (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَسْئالُوا عَنْ أَشْياءَ إِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُم)" اے ایمان والو! ایسی چیزوں کے بارے میں نہ پوچھو کہ اگر تم پر ظاہر کردی جائیں تو تمہیں برا لگیں"۔

2- ان آیات کے معنی و مطلب کے بیان سے پہلے چند ضروری  باتوں کی طرف اشارہ کرنا مناسب  ہوگا:

ا۔ "شئے" اور "فعل" کے درمیان فرق فقہی اور اُصولی بحث  ہے ، یہ لغوی مسئلہ نہیں، ورنہ لغوی اعتبار سے لفظ شے  میں فعل بھی شامل ہو گا۔ اس طرح احکام شرعیہ کی فرض ،واجب ، مندوب، مباح ،مکروہ ،حرام ،ممنوع ،رخصت ،عزیمت، شرط و سبب ،مانع ،صحیح، فاسد اور باطل کی طرف تقسیم۔۔۔یہ سب فقہی واُصولی اصطلاحات ہیں،اگر آپ  اس زبان  کی لغت(  ڈکشنری) کھول کر ان کے معانی دیکھنے بیٹھ جائیں گے توآپ کو اس کے فقہی معانی  کہیں نہیں ملیں گے۔

ان فقہی و اُصولی اصطلاحات کی بنیاد  رسول اللہ ﷺ اور خلفائے راشدین کے دور کے بعد ڈالی گئی،جیسےفاعل و مفعول وغیرہ کی  نحو(عربی گرامر) کی اصطلاحات۔۔۔تو اگر آپ ان کو زبان کی لغات( ڈکشنریوں) میں دیکھیں گے  تو آپ کو ان کے معانی اصطلاحی معنوں سے مختلف ملیں گے۔

ب۔لہٰذا ، جب آپ رسول اللہ ﷺ یا صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی کوئی حدیث پڑھیں اور اس میں لفظ "شئے"یا لفظ" فعل" نظر آئے ،تو اس کا مطلب یہ نہیں  کہ حدیث میں اس کے اصطلاحی معنی مراد ہیں،بلکہ آپ کو اس کا مطالعہ کرنا پڑے گا تاکہ یہ سمجھا جا سکے کہ اس کا صحیح مفہوم  کہاں موجود ہے: یعنی اس حدیث میں یہ لغوی طور پر استعمال ہوا ہے یا یہ  عرفِ عام میں  مراد ہے، یا کوئی  خاص اصطلاح مراد ہے یااس سے کوئی  شرعی حقیقت  مراد ہے۔

ج۔ پس جب سوال مخصوص  اور متعین الفاظ کے بارے میں ہو،پھر اُس  کا جواب عام انداز سے دیا جائے ،تو جس سوال کا جواب عام دیا گیاہے ،تو اس سوال کے موضوع میں بھی  عموم ہوگا۔اور جو الفاظ سوال میں وارد ہوئے ہوں ،اُن الفاظ کے ساتھ جواب خاص نہ ہوگا۔ مثلاً  ترمذی نے ابوسعید خُدری رضی اللہ عنہ سے صحیح روایت کی ہے،وہ فرماتے ہیں : ((قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَتَتَوَضَّأُ مِنْ بِئْرِ بُضَاعَةَ...؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ : «إِنَّ المَاءَ طَهُورٌ لَا يُنَجِّسُهُ شَيْءٌ»))"کسی نے عرض کیا ، یا رسول اللہ ! کیا ہم بضاعہ  کے کنویں سے وضو کرسکتے ہیں؟ تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: بلا شبہ پانی پاک ہے ،اس کو کوئی چیز ناپاک  نہیں کرتی

یہاں رسول اللہ ﷺ سے بضاعۃ کے کنویں کے بارے میں پوچھا گیا،لیکن جواب ایسے دیا گیا جو مستقل ایک حکم کو بیان کرتا ہے،جس میں بضاعہ کے کنویں کاذکرموجود نہیں،یعنی فرمایا:«اِنَّ المَاءَ طَهُورٌ لَا يُنَجِّسُهُ شَيْءٌ»"پانی پاک ہے ،اس کو کوئی چیز ناپاک نہیں  کرتی"۔ حدیث کے الفاظ کے اندر موجود یہ عمومیت پانی سے طہارت حاصل کرنے پرصادق آتی ہے،خواہ  پانی قبیلہ بضاعہ کے کنویں کا ہو یا کسی بھی کنویں کا، یہ نہ کہا جائے کہ حدیث میں موجود عمومیت کا تعلق بضاعہ کے کنویں کے ساتھ ہے،بلکہ یہ کہا جائے گا کہ جواب عام  ہے اور اس کا موضوع بھی  عام پانی ہے، جس کا اس  جواب میں ذکر ہے،یعنی اس  جواب کا موضوع سوال سے نہیں لیا گیا،یعنی یہ«اِنَّ المَاءَ طَهُورٌ لَا يُنَجِّسُهُ شَيْءٌ»"پانی پاک ہے ،اس کو کوئی چیز ناپاک نہیں  کرتی"، سے لیا گیا ہے، نہ کہ سوال میں موجود "قبیلہ بضاعہ کے کنویں " سے،یعنی اس جواب کا موضوع پانی سے طہارت حاصل کرنا ہے،نہ کہ بضاعہ کا کنواں ۔

3-اب ہم آپ کے سوالات کےجواب کی طرف آتے ہیں:

1-ترمذی کی حدیث ہے کہ : رسول اللہ ﷺ سے گھی،پنیر اور پوستین(پشم) کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا:«الْحَلاَلُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ فِي كِتَابِهِ، وَالْحَرَامُ مَا حَرَّمَ اللَّهُ فِي كِتَابِهِ، وَمَا سَكَتَ عَنْهُ فَهُوَ مِمَّا عَفَا عَنْهُ»  "حلال وہ ہے جس کو اللہ نے اپنی کتاب میں حلال قرار دیا ہے اور حرام وہ ہے جس کو اللہ نے اپنی کتاب میں حرام بتلایا ہے،اور جن باتوں پر سکوت اختیار کیا ہے تو وہ معاف شدہ امور میں سے ہیں"۔ابو داؤد کی روایت میں ہے«وَمَا سَكَتَ عَنْهُ  فھو عَفْوٌ» "جس پر سکوت فرمایا ہے وہ معاف ہے"۔

لہٰذا بعد میں آنے والے الفاظ(معطوف) «...وَمَا سَكَتَ عَنْهُ» "۔۔۔اور جس پر خاموشی اختیار کی"،کا تعلق اسی حصے سے ہے جو اس سے پہلے  آیا(معطوف علیہ) ،یعنی«والحرام ما حرمہ اللہ فی کتابہ» " اور حرام وہ ہے جس کو اللہ نے اپنی کتاب میں حرام بتلایا ہے "،یعنی جس سے سکوت کیا ہے وہ  معاف شدہ حرام ہے، یعنی وہ حلال ہے۔

             یہاں عمومیت اپنے موضوع میں ہے ،لیکن  چونکہ  جواب اپنے سوال سے زیادہ عام ہے ،یعنی گویا مستقل حکم بیان کیا گیا ہے،چنانچہ موضوع  جواب سے لیا جائے گا،سوال سے نہیں ۔اسی وجہ سے اس میں ہر وہ چیز داخل ہے جس کا حکم حلال کا ہو یا حرام کا ، خواہ یہ عمومیت گھی،پنیر اور پوستین کی نسبت سے ہو یا کسی بھی ایسے معاملے کی نسبت سے جو حلال یا حرام میں آتا ہو،اور اصطلاحی معنی کے مطابق یہ   "شئے" یا "عمل" کے تحت آنے والے ہر معاملے پر منطبق ہوتا ہے، پس اگر اس کو  کسی شے پر لاگو کیا جائے تو یہاں حلال کے معنی "جائز" کے ہوں گےاور اگر فعل پر منطبق کیا جائے تو یہاں حلال  کا مطلب ہے حرام نہ ہونا ، یعنی  فرض، مندوب، مباح یامکروہ ہونا۔

ب- بیہقی نے ابو  ثعلبہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے،فرماتے ہیں:«...وَنَهَى عَنْ أَشْيَاءَ، فَلَا تَنْتَهِكُوهَا، وَسَكَتَ عَنْ أَشْيَاءَ رُخْصَةً لَكُمْ، لَيْسَ بِنِسْيَانٍ، فَلَا تَبْحَثُوا عَنْهَا» "اور کچھ چیزوں سے منع کیا ہے ، پس ان کو پامال نہ کرو، اور کچھ چیزوں پر سکوت کیا ہے ،یہ تمہارے لیے ایک چھوٹ ہے، کسی بھول کی وجہ سے نہیں ، اس لیے ان جیسی چیزوں کے بارے میں زیادہ پوچھ گچھ نہ کرو"۔

اس حدیث میں تین امور ہیں:

پہلا:«سکت عن اشیاء» "کچھ چیزوں پر سکوت کیا ہے"،یہاں "چیز" اپنے اصطلاحی معنی میں استعمال نہیں ہوا ہے، یعنی اس سے مراد وہ نہیں جو فعل کے علاوہ ہے، بلکہ اس میں فعل بھی شامل ہے، مثلا ًیہ آیت کریمہ(يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَسْأَلُوا عَنْ أَشْيَاءَ إِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ وَإِنْ تَسْأَلُوا عَنْهَا حِينَ يُنَزَّلُ الْقُرْآنُ تُبْدَ لَكُمْ عَفَا اللَّهُ عَنْهَا وَاللَّهُ غَفُورٌ حَلِيمٌ)" اے ایمان والو! ایسی چیزوں کے بارے میں نہ پوچھا کرو کہ اگر ان کے (حکم کے) بارے میں تمہیں بتایا جائے تو تمہیں برا لگے،اور اگر تم نزول قرآن کے وقت پوچھو تو بتادیے جاؤگے ، اللہ تعالیٰ نے ایسی چیزیں معاف کردی ہیں، اور اللہ مغفرت کرنے والا رحم کرنے والا ہے"(المائدة:101)۔

جہاں تک "حج کے عمل" کے سوال کے متعلق ہے، تو وہ قرطبی کی تفسیر میں درج ہے:

علی رضی اللہ عنہ سے ترمذی اور دار قطنی نے حدیث نقل کی ہے ، فرماتے ہیں: "جب یہ آیت﴿وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا﴾  "اور لوگوں پر اللہ کیلئے بیت اللہ کا حج کرنا (فرض) ہے ، اس کیلئے جو استطاعت رکھتا ہو"،نازل ہوئی تو صحابہ نے عرض کیا:کیا  ہر سال  کریں ؟ ،آپ نے خاموشی اختیار کی،انھوں نے پھر پوچھا: کیا ہر سال کریں؟، توآپ ﷺ نے  فرمایا: «لَا وَلَوْ قُلْتُ نَعَمْ لَوَجَبَتْ» " نہیں ،اور اگر میں  ہاں کہہ دیتا تو تم پر فرض ہوجاتا"۔اس پر اللہ جل شانہ ُنے یہ آیت کریمہ نازل کی،(يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَسْأَلُوا عَنْ أَشْيَاءَ إِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ وَإِنْ تَسْأَلُوا)" اے ایمان والو! ایسی چیزوں کے بارے میں نہ پوچھا کرو کہ اگر ان کے (حکم کے) بارے میں تمہیں بتایا جائے تو تمہارے لیے پریشانی پیدا ہوگی"(المائدة:101 )،آیت کے آخر تک۔   

دار قطنی کی ایک اور روایت میں ہے ،ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں،رسول اللہ ﷺ  نے فرمایا:(يَا أَيُّهَا النَّاسُ كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْحَجُّ)" اے لوگو، تم پر حج فرض کیا گیا ہے"۔ ایک آدمی نے  کھڑے  ہوکر عرض کیا : یا رسول اللہ!ہر سال فرض ہے؟ آپ ﷺ نے اس کی طرف سے اپنا چہرہ  مبارک موڑ لیا،اس نے دوبارہ پوچھا: ہر سال فرض ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا:«وَمَنِ الْقَائِلُ» "یہ کون ہے؟ "،تو صحابہ نے جواباً عرض کیا: فلاں ہیں۔آپ ﷺ نے فرمایا: »وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَوْ قُلْتُ نَعَمْ لَوَجَبَتْ وَلَوْ وَجَبَتْ مَا أَطَقْتُمُوهَا وَلَوْ لَمْ تُطِيقُوهَا لَكَفَرْتُمْ« "  اس ذات  کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اگر میں ہاں کہہ دیتا تو واجب ہوجاتا،اور  واجب ہوجاتا تو تم نہ کرسکتے،اور جب نہ کرسکتے ہوتے تو کفر اختیار کرلیتے"۔ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ قول نازل فرمایا: (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَسْئَلُوا عَنْ أَشْياءَ إِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُم) " اے ایمان والو! ایسی چیزوں کے بارے میں نہ پوچھا کرو کہ اگر ان کے (حکم کے) بارے میں تمہیں بتایا جائے تو تمہارے لیے پریشانی پیدا ہوگی"(المائدة:101 )۔

اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ سوال حج کے بارے میں کیا گیا تھا، جبکہ جو آیت نازل ہوئی ،اس میں حج کو شئے کہاگیا۔

دوسرا: اس حدیث میں «وسکت عن اشیاء رخصۃً لکم»"اور جن چیزوں پر سکوت اختیار کیا ان پر تمھارے لیے چھوٹ ہے"،جو«...وسکت» "سکوت اختیار کیا" کے الفاظ بعد  میں معطوف کے طور پر آئے ہیں (یعنی واؤ حرف عطف کے ساتھ آیا ہے، عطف کا قانون یہ ہے کہ وہ قریب ترین معطوف علیہ پر عطف ہوگا) اور وہ معطوف علیہ یہاں یہ قول ہے  : «ونہی عن اشیاء فلا تنتھکوھا»" اور کچھ چیزوں سے منع کیا ہے ، پس ان کو پامال نہ کرو"،  یعنی رخصت نہی جازم میں ہے ،جو حرام سے متعلق ہے ،اس پر«تنتھکوھا»"ان کو پامال نہ کرو"، دلالت کرتا ہے،اب مطلب یہ بنتا  ہے کہ جس چیز پر سکوت اختیار کیا ہے وہ رخصت ہے جو حرام کے قبیل سے ہو، یعنی سکوت کی وجہ سے وہ حلال ہے۔ اب جس معاملے کے بارے میں سوال کیا گیا تھا ،اس کو اس پر کیسے منطبق کیا جائے گا ،تو وہ اس طرح کہ اگر وہ  اصطلاحی معنوں میں شئے ہے،تو حلال کے معنی یہاں اباحت  کے ہوں گے، اور اگر وہ فعل یعنی  اصطلاحی معنی کے اعتبار سے"عمل "کے قبیل میں سے ہو، تو حلال سے مراد وہ ہوگا جو حرام کے علاوہ ہے، یعنی فرض، مندوب، مباح، اور مکروہ۔

تیسرا:حدیث کے ان الفاظ «فلا تبحثوا عنھا»"ان کے متعلق پوچھ گچھ نہ کرو"، کا تعلق بعد میں آنے والے الفاظ «وسکت عن اشیاء»"اور کچھ چیزوں پر سکوت اختیار کیا ہے" ،سے ہے، جو «ونھی عن اشیاء فلا تنتھکوھا»" اور کچھ چیزوں سے منع کیا ہے ، پس ان کو پامال نہ کرو"، پر معطوف ہے،یعنی یہ حلال ہے تو ان کی حرمت تلاش مت کرو، یہ مطلب نہیں کہ ان کے احکامات یعنی فرض ہونا ، مندوب یا مباح ہونے کی بحث نہ کرو۔۔۔کیونکہ حدیث کے معنی یہ ہیں کہ جس کے بارےمیں خاموشی اختیار کی وہ حلال ہے، سو اس کی حرمت تلاش  نہ کرو،کیونکہ یہ اندیشہ ہے کہ تمہارے سوالات کی وجہ سے وہ شئے حرام  قرار دے  دی جائے، جیساکہ بخاری کی حدیث میں آیا  ہے: سعد بن ابی وقاص سے روایت ہے ،نبی کریم ﷺ نے فرمایا: «إِنَّ أَعْظَمَ المُسْلِمِينَ جُرْمًا، مَنْ سَأَلَ عَنْ شَيْءٍ لَمْ يُحَرَّمْ، فَحُرِّمَ مِنْ أَجْلِ مَسْأَلَتِهِ»" مسلمانوں میں سب سے  بڑا مجرم وہ ہے جو کسی ایسی چیز کے بارے میں پوچھے جو حرام  نہیں ہوئی ، لیکن اس کے سوال کی وجہ سے حرام کی گئی"۔  ( 25 جمادی الثانی  1434 ھ بمطابق 5 مئی 1434 )]

گزشتہ تفصیل سے یہ واضح ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کے سکوت کا مطلب حکم کی عدم موجودگی نہیں بلکہ اباحت ہے، اگر معاملہ شئے سے متعلق ہو ،لیکن اگر معاملہ فعل کا ہو تو اس کا مطلب فرض، مندوب، مباح اور مکروہ ہے ،  یعنی رسول اللہ ﷺ کا سکوت ہی حکم شرعی کی بنیاد  ہے، جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا۔ جہاں تک سوال کرنے سے منع کرنے کی بات ہے تو  یہ  رسول اللہ ﷺ کی حیات ِمبارکہ سے متعلق تھا، یعنی رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں اس سے منع کیا گیا یعنی جب آپ ﷺ سے کوئی سوال کیا جائے اور  آپ جواب دیں یا خاموشی اختیار فرمائیں۔اگر آپ ﷺ جوا ب دے دیں تو پھر واضح حکم ثابت ہوگا،اور اگر جواب نہ دیااور سکوت فرمایا، تب بھی آپ کے سکوت سے یہ حکم اخذ کیا جائے گا کہ وہ شئے یا فعل حلال ہے۔اب جواب دینے یا خاموشی کے بعد  اس کے بارے میں پھر سوال نہ کیا جائے،تو منع بار بار سوا ل کرنے اور دہرانے سے کیا گیا جبکہ رسول اللہ ﷺ جواب دے چکے ہوتے تھے یا سکوت فرمایا ہوتا تھا۔

اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ مسلمان کسی شئے یا فعل کا حکم معلو م کرنے کے لیے ،جس کو وہ نہ جانتا ہو، سوال نہ کرے۔ اسلامی شخصیت جلد 3 کے باب "شریعت کے آنے سے پہلے کوئی حکم نہیں" میں آیا ہے:

(اور اس لیے بھی کہ قرآن و حدیث میں یہ ثابت ہو چکا ہے، کہ جب کسی حکم کا علم نہ ہو تو سوال کیا جائے ، تو قف نہ کیاجا ئے  ،اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ)" اگر تم نہیں جانتے تو اہل علم سے پوچھو"(الانبیاء: 7)۔"اور تیمم کی حدیث جس کو ابو داؤد نے جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے: ((أَلاَ سَـأَلُوا إِذْ لَمْ يَعْلَمُوا فَإِنَّمَا شِفَاءُ الْعِيِّ السُّؤَالُ))" جب انہیں  نہیں پتہ تھا تو پوچھ کیوں نہیں لیا، جہالت کاعلاج  پوچھنا ہے"۔ اس حدیث سے بھی یہی معلوم ہوا کہ  اصل یہ نہیں کہ سوال کرنے اور پوچھنے سے رُکا جائےیا یہ سمجھا جائے کہ حکم نہیں۔ اس بنا پر رسول اللہ ﷺ کی بعثت کے بعد اب حکم شریعت کا ہوگا  اور یہ کہ شریعت آنے سے قبل کوئی حکم نہیں۔  چنانچہ اب حکم، شریعت کےآنے پر موقوف ہوگا ، یعنی مسئلے کی شرعی دلیل پر  حکم منحصر ہوگا،اس لیے حکم صرف دلیل کی بنیاد پر  دیا جائے گا، بالکل جیسے شریعت کے آنے سے قبل کوئی حکم نہیں دیا جائے گا۔لہٰذا  اصل یہ ہے  کہ  کسی بھی مسئلے کا حکم شریعت سے ڈھونڈا جائے، یعنی اصل یہ ہے کہ کسی بھی معاملے میں شریعت سے حکم لینے کے لیے شرعی  دلیل تلاش  کی جائے گی۔)

اس بنا پر اب بات اس طرح ہے کہ جس سے منع کیا گیا وہ یہ ہے  کہ اگر رسول اللہ ﷺ نے ایک مسئلے کا حکم بیان  کر دیاتو اس بیان کو کافی نہیں سمجھا گیا بلکہ سوال در سوال کیا گیا۔ تو جب آپ ﷺ نے کہا  کہ حج فرض ہے ، تو آپ ﷺ سے یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ کتنی مرتبہ فرض ہے، اور اگر کسی چیز کے بارے میں آپ ﷺ سے سوال کیا گیا اور آپ ﷺ نے اس کو کسی  دوسری چیز کے ساتھ جوڑ دیا جس کا حکم معلوم  تھا، یعنی یہ معلوم ہوتا تھا کہ وہ چیز مباح ہے، تو اب اس کی پابندی ضروری ہے ، یہ نہیں کہ پھر سوال کیا جائے ( کہ کیا یہ فرض تو نہیں ہوگا؟) وغیرہ۔یہ بات خاص طور پر نزولِ قرآن کے وقت کی  تھی، کیونکہ اس طرح اپنے آپ پر سختی کرنا کہلا یا جائے گا ،کیونکہ اس صورت میں اللہ تعالی کی طرف سے بھی اس کے ساتھ سختی کا معاملہ کیا جائے گا، جیسا کہ اس آیتِ کریمہ میں آیا ہے:

) يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَسْأَلُوا عَنْ أَشْيَاءَ إِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ وَإِنْ تَسْأَلُوا عَنْهَا حِينَ يُنَزَّلُ الْقُرْآنُ تُبْدَ لَكُمْ عَفَا اللَّهُ عَنْهَا وَاللَّهُ غَفُورٌ حَلِيمٌ(

" اے ایمان والو! ایسی چیزوں کے بارے میں نہ پوچھا کرو کہ اگر ان کے (حکم کے) بارے میں تمہیں بتایا جائے تو تمہیں برا لگے،اور اگر تم نزولِ قرآن کے وقت پوچھو تو بتادیے جاؤگے ، اللہ تعالیٰ نے ایسی چیزیں معاف کردی ہیں، اور اللہ مغفرت کرنے والا رحم کرنے والا ہے"(المائدة:101)۔

سنن ترمذی میں ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی (وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنْ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا)  "لوگوں پراللہ کیلئے بیت اللہ کا حج کرنا (فرض) ہے، جو اس کی استطاعت رکھے"، تو انہوں نے کہا : یہ ہر سال ہوگا یا رسول اللہ ﷺ؟تو آپ خاموش رہے۔ انھوں نے پھر پوچھا: ہر سال؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : «لَا وَلَوْ قُلْتُ نَعَمْ لَوَجَبَتْ» "نہیں، اور اگر میں کہہ دیتا کہ ہاں تو ہر سال  حج کرناواجب ہوجاتا" ۔پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَسْأَلُوا عَنْ أَشْيَاءَ إِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ) " اے ایمان والو! ایسی چیزوں کے بارے میں نہ پوچھا کرو کہ اگر ان کے (حکم کے) بارے میں تمہیں بتایا جائے تو تمہیں برا لگے "۔ترمذی کہتے ہیں: اس باب میں ابن عباس اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہما سے بھی روایت آئی ہے۔ ابو عیسیٰ(ترمذی) فرماتے ہیں: علی کی روایت اسی وجہ سے حسن غریب ہے۔

صحیح ابن حبان میں آیا ہے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ نے بتلایا کہ رسول اللہ نے ایک مرتبہ خطبہ دیا اور فرمایا:«يا أيها الناس إن الله قد افترض عليكم الحج»" لوگو! اللہ تعالیٰ نے تم پر حج فرض کردیا ہے"۔ تو ایک آدمی کھڑا ہوا اور عرض کی : تو كیایہ ہر سال ہوگا یارسول اللہ؟ آپ نے سکوت فرمایا یہاں تک اس آدمی نے تین مرتبہ دہرایا تو آپ ﷺ نے فرمایا: »لَوْ قُلْتُ: نَعَمْ، لَوَجَبَتْ، وَلَوْ وَجَبَتْ مَا قُمْتُمْ بِهَا، ذَرُونِي مَا تَرَكْتُكُمْ، فَإِنَّمَا هَلَكَ الَّذِينَ قَبْلَكُمْ بِكَثْرَةِ سُؤَالِهِمْ، وَاخْتِلَافِهِمْ عَلَى أَنْبِيَائِهِمْ، فَإِذَا نَهَيْتُكُمْ عَنْ شَيْءِ فَاجْتَنِبُوهُ، وَإِذَا أَمَرْتُكُمْ بِشَيْءٍ، فَأْتُوا مِنْهُ مَا اسْتَطَعْتُمْ«"اگر میں  "ہاں "کہہ دیتا تو واجب ہوجاتا ، اور پھر تمہارے لیے ادا کرنا مشکل ہوتا ،جب میں تمہیں چھوڑوں تو مجھے بھی چھوڑ دیا کرو۔کیونکہ تم سے قبل کی قومیں زیادہ سوالوں اور اپنے پیغمبروں کے ساتھ اختلاف کی وجہ سے ہلاک ہوگئیں،تو جب میں تمہیں کسی چیز سے روکوں تو اس سے اجتناب کرو، کسی چیز کا حکم دوں تو حسب استطاعت اس پر عمل کرو"۔اور یہ بھی بتایا کہ سورة مائدہ کی یہ آیت  (يا أيها الذين آمنوا لا تسألوا عن أشياء إن تبد لكم تسؤكم) " اے ایمان والو! ایسی چیزوں کے بارے میں نہ پوچھا کرو کہ اگر ان کے (حکم کے) بارے میں تمہیں بتایا جائے تو تمہیں برا لگے اسی بارے میں نازل ہوئی۔

اسی طرح کی روایت امام  احمد  نے اپنی مسند میں اور حاکم نے مستدرک  میں ،اسی طرح دارقطنی وغیرہ محدثین نے نقل کی ہے۔

چنانچہ مسلمان یہودیوں کی مانند نہ ہوں کہ جب ان سے کہا گیا کہ ایک گائے ذبح کرو، وہ گائے کی صفات و خصوصیات کے بارےمیں سوالات کرنے لگے۔چنانچہ گائے کی صفات کے حوالے سے ان پر سختی کی گئی،اگر وہ  شروع میں کوئی بھی گائے ذبح کردیتےتو کافی ہوجاتی ۔

 طبری کی تفسیر میں ہے:[ اللہ تعالی ٰ کے اس قول کا مطلب کہ(وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تَذْبَحُوا بَقَرَةً قَالُوا أَتَتَّخِذُنَا هُزُوًا قَالَ أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجَاهِلِينَ)"جب موسیٰ (علیہ السلام )نے اپنی قوم سے کہا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں ایک گائے ذبح کرنے کا حکم دیتا ہے، تو انہوں نے کہا کہ آپ ہم سے مذاق کرتے ہو؟ تو موسیٰ نے کہا  " میں ایسا جاہل بننے سے اللہ  کی پناہ مانگتا ہوں"(البقرة:67 )۔

موسیٰ علیہ السلام کا ان کویہ کہنا:(إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تَذْبَحُوا بَقَرَةً) "اللہ تعالی تمھیں ایک گائے ذبح کرنے کا حکم دیتا ہے"،اس کی وجہ اس روایت میں ہے جوہمیں محمد بن عبد الاعلیٰ نےمعتمر بن سلیمان سے حدیث سنائی، سلیمان کہتے ہیں میں نے ایوب سے ،انہوں نے  محمد بن سیرین سے ،انہوں نے عبیدہ سے سنا، عبیدہ کہتے ہیں : بنی اسرائیل  کا ایک بانجھ آدمی  تھا، جس کی کوئی اولاد نہیں تھی، اس کے رشتہ داروں میں سے ایک نے اسے قتل کردیا، پھر اس کو اپنے قبیلے سے  اٹھا کر کسی اور  قبیلے میں پھینک آئے،راوی کہتا ہے : پھر ان  قبیلوں کے درمیان اس پر جھگڑا ہوا اور بات اسلحہ نکال لینے تک پہنچی،راوی کے بقول: ان میں سے عقل مند لوگوں نے کہا : ارے تمہارے اندر اللہ کا رسول (موسیٰ علیہ السلام ) موجود ہیں اور تم  آپس میں لڑتے ہو؟ بقول راوی : پھر وہ اللہ کے پیغمبرؑ کے پاس آئے ،تو پیغمبرؑ نے کہا : ایک گائے ذبح کرو۔انہوں نے کہا: آپ ہم سے مذاق تو نہیں کررہے ؟ نبی موسیٰ  علیہ السلام نے کہا: (أعوذ بالله أن أكون من الجاهلين * قالوا ادع لنا ربك يبين لنا ما هي قال إنه يقول إنها بقرة۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فذبحوها وما كادوا يفعلون) "میں جاہلوں میں سے ہو جانے سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ اپنے رب سے یہ دعا کرو کہ وہ ہمارے  لیے یہ تو بیان کرے کہ وہ (گائے) کیسی ہے؟ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ وہ ایک گائے ہے۔۔۔۔پھر انہوں نے اس گائے کو ذبح کیا اور وہ بمشکل ہی ایسا کر پائے"(البقرة:67-71 ) ۔راوی کہتا ہے: پھر مقتول کو اس سے مارا گیا، پس مقتول نے  اپنے قاتل کا نام بتایا، راوی کہتا ہے: وہ گائے انہیں سونے میں تول کر  لینی پڑی،اگر وہ شروع میں کوئی بھی گائے لے لیتے تو کافی ہوتا۔ یہی وجہ تھی کہ اس کے بعد کسی قاتل کو وراثت نہیں ملی۔

راوی کہتا ہے: وہ لوگ جب انہیں گائے ذبح کرنے کا حکم دیا گیا ،کسی بھی گائے کو پکڑ کر ذبح کردیتے تو درست ہوتا، لیکن انہوں نے خود اپنے آپ پر تشدد کیا تو اللہ تعالیٰ نے بھی ان کے لیے سختی پیدا کی، اور اگر وہ لوگ  اس میں استثناء نہ کرتے یعنی یہ نہ کہتے کہ (وإنا إن شاء الله لمهتدون)" اور اگر اللہ نے چاہا تو ہم ہدایت پا لیں گے"(البقرة:70 تو وہ ہر گز اس  گائے تک  نہ پہنچ پاتے۔]

اس سے ثابت ہوا کہ بے جا اور زیادہ سوالات کرنا  منع ہے۔

امید ہے کہ اتنا آپ کے لیے کافی ہوگا، اور اللہ ہی بہترین علم و حکمت والا ہے۔

                                                                                    

آپ کا بھائی

 عطاء بن خلیل ابو الرَّشتہ

11 ربیع الاول 1443ھ

18 اکتوبر  2021 ء   


Last modified onبدھ, 09 مارچ 2022 21:25

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک