الإثنين، 23 جمادى الأولى 1446| 2024/11/25
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

سوال کا جواب

" نہ نقصان پہنچانا جائز ہے نہ نقصان اٹھانا" کا قائدہ

اور اس کا کورونا وائرس اور نماز میں فاصلےسے تعلق

(ترجمہ)

مکلیس امین

سوال:

السَّلامُ علیکم

مجھے پہلے سوال کا جواب نہیں ملا ، اور یہاں میں اسے دوسرے سوال سے جوڑ رہا ہوں ، جو کہ زیادہ ضروری ہے۔

ہمارے محترم شیخ ، اللہ آپ کو سلامت رکھے:

مجھے " نہ نقصان پہنچانا جائز ہے نہ نقصان اٹھانا " کے اصول( کی وضاحت کرنے ) کیلئے آپ کی مدد کی ضرورت ہے۔

کتاب اسلامی شخصیت  جلد 3  میں ، جو کچھ ذکر کیا گیا ہے ، اس سے میں جو سمجھا ہو ں اس کے مطابق  

نقصان کا تعلق اشیاء سے ہے اعمال سےنہیں ، اگر ایسا نہیں ہے تو ، پھر کیا نقصان کی موجودگی کے امکان کی وجہ سے ، کورونا وائرس کی وبا پر نقصان پہنچانے کے قائدے کو نافذ کرتے ہوئے،  نماز میں فاصلے کی اجازت دینا صحیح ہے ؟

براہِ کرم ،استدلال کرنے کے لئے کچھ تفصیلات بیان کریں۔

جواب:

وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته

ہم نے کتاب ، اسلامی شخصیت جلد 3 ، صفحہ475-471[ورڈ فائل] میں نقصان کے حکم کے موضوع پر تفصیل سے بات کی ہے، کتاب میں بیان ہے:

]نقصان کے حکم میں دو معاملات شامل ہیں: ان میں سے ایک یہ ہے کہ چیز بذاتِ  خود نقصان دہ ہے ، اور شارع کے خطاب میں اس کو (استعمال) کرنے کی طلب، چھوڑنے  کی طلب  کی کوئی دلیل موجود نہیں یا اباحت سے متعلق کوئی مخصوص دلیل موجود نہیں، لہذا اس کا  خود نقصان دہ ہونا ہی  اس کی ممانعت کی دلیل ہے کیونکہ شارع نے نقصان سے منع کیا ہے۔ اور اس کا قاعدہ یہ ہے: "نقصان کے سلسلے میں بنیادی قائدہ یہ ہے کہ وہ حرام ہے"۔

دوسری معاملہ یہ ہے کہ شارع نے عمومی چیز کی اجازت دی ہے ، لیکن اس  عمومی طور پر مباح  چیز کے کسی ایک حصے میں نقصان ہے ، لہذا یہ حقیقت کہ اس کا ایک حصہ  نقصان دہ ہے یا نقصان  کی طرف لے جاتا ہے، اس حصہ کی ممانعت کی دلیل ہے ، کیونکہ قانون ساز نے مباح حصوں کے  ایک حصے کو ممنوع قرار دے دیا ہے ، اگر وہ حصہ نقصان دہ ہے یا نقصان کا باعث بنتا ہے۔ اور اس کا قاعدہ یہ ہے: (كل فرد من أفراد المباح، إذا كان ضاراً أو مؤدياً إلى ضرر، حرم ذلك الفرد وظل الأمر مباحاً)" مباح  کا ہر حصہ، اگر وہ نقصان دہ ہے یا نقصان  تک پہنچاتا ہے تو اس حصے کی ممانعت ہے اور باقی معاملہ مباح ہی رہے گا"۔


جہاں تک پہلے معاملے کی بات ہے تو ، اس کا ثبوت یہ ارشاد ہے:  »لاَ ضَرَرَ وَلاَ ضِرَارَ فِي الإِسْلاَمِ«"اسلام میں نہ تو  نقصان پہنچانا جائز ہے نہ نقصان اٹھانا "( طبرانی )، ابوداؤد نے ابوصِرمہ مالک بن قیس الانصاری کی حدیث سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:


مَنْ ضَارَّ أَضَرَّ اللَّهُ بِهِ، وَمَنْ شَاقَّ شَاقَّ اللَّهُ عَلَيْهِ

"جس نے بھی نقصان پہنچایا ، اللہ اسے نقصان پہنچائے گا۔ اور جو (لوگوں پر) سخت ہے ،اللہ اس پر سختی کرے گا"۔

  یہ دونوں احادیث اس بات کا ثبوت ہیں کہ شارع نے نقصان سے منع کیا ہے ...

 


جہاں تک دوسرے معاملے کی بات ہے تو ، اس کا ثبوت یہ ہے کہ :

» قد كانَ رسولُ اللَّهِ ﷺ حينَ مَرَّ بالْحِجْرِ، نَـزَلَها، واستقى الناسُ من بِئْرِها، فلمّا راحوا قالَ رسولُ اللَّهِ ﷺ: لا تَشْرَبوا من مائها شيئاً، ولا تتوضئوا منه للصلاة، وما كانَ من عَجِينٍ عَجَنْتُمُوهُ فأعْلِفوهُ الإبِلَ، ولا تأكُلوا منه شيئاً، ولا يَخْرُجَنَّ أحدٌ منكُمُ الليلةَ إلاّ ومعه صاحبٌ له«...

"جب رسول اللہﷺہجر کے قریب سے گزرے تو وہ اترے ، لوگوں نے اس کے کنویں سے پانی پیا ، اور جب وہ چلے گئے تو رسول اللہﷺنے فرمایا: اس کے پانی سے کچھ بھی نہ پیو  اوراس سے وضو نہ کرو اور جو آٹا تم نے گوندھا ، اسے اپنے اونٹوں کو کھلا دو اور اس میں سے کچھ نہ کھاؤ ، اور تم میں سے کوئی بھی رات کو کسی ساتھی کے بغیر باہر  نہ نکلے... "ابنِ ہشام نے اپنی سیرت میں اس واقعہ کوروایت کیا ہے۔

 

اس واقعہ  میں  ہم دیکھ سکتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے کس طرح جائز حصے کو ممنوع قرار دیا ہے ۔  پانی پینا جائز ہے ، لیکن رسول اللہﷺ نے ان کو یہ پانی حجر کے کنویں سے پینے سے منع کیا اور اس سے وضو کرنے سے منع کیا۔ کسی شخص کے لئے رات میں تنہا باہر جانا جائز ہے ، لیکن رسول اللہﷺنے اس رات ان کو کسی ساتھی کے بغیر باہر جانے سے منع کیا ۔پھر یہ بات واضح ہوگئی کہ آپ ﷺ نے اس پانی کو صرف اس وجہ سے منع کیا کہ اس میں موجود نقصان آپ  ﷺ پر واضح تھا اور آپﷺ نے تنہا باہر جانے سے منع کیا  کیونکہ اس میں موجود نقصان آپ ﷺ پر واضح تھا۔... نقصان کی موجودگی اس چیز کی ممانعت نہیں کرتی جو شریعت میں مباح  ہے ، لیکن اس کے کسی حصے میں نقصان کی موجودگی اس حصے  کو ممنوع کرتی ہے ، لیکن وہ باقی  پورامعاملہ مباح   رہتا ہے ، چاہے وہ عمل ہو یا چیز۔

یہ اس وقت ہے جب مباح حصہ بذاتِ خودنقصان دہ ہے ، لیکن اگر  وہ نقصان تک پہنچاتا ہو تو  اس کی دلیل یہ روایت ہے:

»أَنَّ رسولَ اللَّهِ ﷺ أقامَ بِتَبُوك بِضْعَ عَشْرَةَ ليلةً لَمْ يُجاوِزْها، ثـُمَّ انصرَفَ قافِلاً إلى المدينة، وكانَ في الطريق ماءٌ يَخْرُجُ من وَشَلٍ، ما يُروي الراكبَ والراكبين والثلاثة، بِوادٍ يُقالُ له وادي الْمُشَقَّقِ، فقالَ رسولُ اللَّهِ ﷺ: مَنْ سَبَقَنا إلى ذلكَ الوادي فلا يَسْتَقِيَنَّ منه شيئاً حتى نَأْتِيَهُ«...


"اللہ کے رسول ﷺ نے  دس راتوں سے محض کچھ زیادہ قیام فرما یا ، پھر آپ ﷺ  مدینہ منورہ واپس روانہ ہوگئے ، اور راستے میں ایک وادی جسے  وادئ مشقق  کہتے ہیں، اس میں  پانی آیا جو پتھروں کے درمیان سے بہ رہا تھا اور ایک ،دو یا تین  سواروں کی پیاس بجھانے کے لئے کافی تھا۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص اس وادی  کی طرف ہم سے سبقت لے جائے، اس کو اس میں سے کچھ نہیں پینا یہاں تک کہ ہم پہنچ جائیں "۔ ابنِ ہشام نے اپنی سیرت میں بیان کیا۔ اس حدیث میں ، رسول اللہﷺ نے وہ تھوڑا سا پانی پینے سے منع کیا ، کیونکہ یہ باقی فوج کی پیاس کا باعث بن جاتا، آپ ﷺنے فرمایا : 

مَنْ سَبَقَنا إلى ذلكَ الوادي فلا يَسْتَقِيَنَّ منه شيئاً حتى نَأْتِيَهُ

" جو شخص اس وادی کی طرف ہم سے سبقت لے جائے، اس کو اس میں سے کچھ نہیں پینا چاہئے یہاں تک کہ ہم پہنچ جائیں " ۔

اور جنہوں نے (رسول اللہ ﷺ کے اس حکم کے باوجود)یہ پانی پی لیا اس پرآپ ﷺ کا لعنت کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ جب تک آپ ﷺ نہ پہنچ جائیں، اس سے کچھ بھی لینا منع تھا ۔ تو پانی پینا (عمومی طور پر) مباح ہے ، اور وادی میں اس پانی کو پینے میں کوئی حرج نہیں ہے ، البتہ اس مخصوص موقع پراسے پینا، اس سے پہلے کہ نبیﷺ وہاں پہنچیں اور اسے  فوج میں تقسیم کرنا، باقی فوج  کی محرومی کا باعث تھا، یعنی یہ ضرر تک پہنچاتا تھا، لہٰذا آپ ﷺ نے اس وادی سے پانی پینے سے  منع کر دیا یہاں تک کہ آپ ﷺ وہاں پہنچ جائیں۔

 

لہذا ، حقیقت یہ ہے کہ کوئی  شے اگر نقصان تک پہنچائے تو ا س بنا پروہ تمام شے  حرام نہیں ہے کہ جسے شریعت نے مباح قرار دیا ہو ، بلکہ اگر  اس کے ایک حصے  سے نقصان پہنچتا ہے تب اس حصے کی ممانعت ہے ، لیکن عمومی معاملہ مباح ہے ، چاہے وہ کوئی  عمل ہو  یا کوئی چیز۔ لہذا ، ان دونوں صورتوں کو بیان کرنے والی ان احادیث کہ  کوئی چیز بذاتِ خودنقصان دہ ہے اور کوئی چیز نقصان تک پہنچانے کا باعث بنتی ہے ، اس سے دوسرا قاعدہ اخذ کیا گیا ہے ، جو یہ ہے کہ: "مباح  کا ہر حصہ ، اگر وہ نقصان دہ ہے یا نقصان تک لے جاتا  ہے تو اس حصے کی ممانعت ہے اور باقی معاملہ جائز ہے "،اور یہ نقصان کے اصول کے دو معاملات میں سے دوسرا معاملہ ہے...]اقتباس کا اختتام ہوا۔

دو حصوں  پر مشتمل  نقصان کے قائدے  پر غور کرنے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ آپ نے اپنے سوال میں کورونا میں (نماز میں )فاصلے کے بارے میں جو کچھ ذکر کیا ہے، یہ  اس پر یہ لاگو نہیں ہوتا :

 

1-جہاں تک قاعدے کے پہلے حصے کی بات ہے ،تو  اس کا تقاضا ہے کہ اس کام کو کرنے ، یا نہ کرنے یا تخیر کے لئے کوئی متن  موجود نہ ہو ، اور اگر کوئی متن موجود ہے تو پھر متن میں بیان کردہ کو ہی  نقصان پر بحث کے لیے  اختیار کیا جاتا ہے... اور یہ نماز کے دوران فاصلہ رکھنے پر لاگو نہیں ہوتا کیونکہ باجماعت نماز میں صف بندی کے بارے میں ایک متن موجود ہے ، یعنی کہ فاصلہ رکھنے کی ممانعت ہے ، لہذا نقصان کو جواز بناکرقائدے کے اس حصے کو اس پر لاگو نہیں یا جا سکتا۔

2- جہاں تک قاعدہ کے دوسرے حصے کی بات ہے تو  عمومی معاملے کا مباح  ہونا ضروری ہے ، پھر اس کے کسی  حصے کی ممانعت ہوتی  ہے۔صفوں میں ترتیب کے بارے میں ایسے دلائل موجود ہیں  جو اس کو فرض یا مندوب بناتے ہیں یعنی نمازیوں کے درمیان فاصلہ  مباح نہیں ہے ، لہذا یہ قاعدے کے اطلاق سے باہر ہے۔

3- اسی وجہ سے یہاں ضرر (نقصان) کا قائدہ لاگو نہیں ہوتا ، بلکہ صفوں کی ترتیب کے سلسلے میں مسجد میں نماز کے بارے میں شرعی حکم دیکھا جاتا ہے ... پس  یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ رسول اللہﷺ نے جمعہ کی نماز کی پابندی کا حکم دیا اور اگر مریض بیمار ہو تو جمعہ کی نماز یا اجتماعی نماز میں نہ جانے کی اجازت دی :

ا-  اللہ سبحانہ وتعالی کے قول کے سبب جمعہ کی نماز فرض ہے:

 

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ

"اے ایمان والو! جب جمعہ کے دن نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف بڑھو اور تجارت چھوڑ دو۔ یہ تمھارے لیے بہتر ہے ، اگر تم اس کا ادرک رکھتے ہو"[الجمعہ: 9]۔

یہاں  ایک جائز کام  (فروخت) کی ممانعت اور جمعہ کی نماز کے لئے آگے بڑھنے کی تاکید ہے جوحتمی  قرینہ ہے کہ جمعہ (کی نماز) واجب ہے۔

ب- اس بات کا ثبوت کہ بیمار شخص کو جمعہ کی نماز کے پابند ہونے سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے ، یہ وہ بات ہے جس کو حاکم نے ابو موسیٰ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: 


الْجُمُعَةُ حَقٌّ وَاجِبٌ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ فِي جَمَاعَةٍ إِلَّا أَرْبَعَةً: عَبْدٌ مَمْلُوكٌ، أَوْ امْرَأَةٌ، أَوْ صَبِيٌّ، أَوْ مَرِيضٌ


"جمعہ کی نماز ہر مسلمان پر فرض ہے ، ان چار کے علاوہ:  غلام ، عورت ، بچہ اور بیمار"۔ الحاکم نے کہا: یہ حدیث شیخین کی شرط پر صحیح ہے ،مگر انہوں نے اسے روایت  نہیں کیا۔ نسائی نے ابن عمار سے ، انھوں نے حفصہؓ، رسول اللہﷺ کی زوجہ سے روایت کیا کہ  نبی ﷺنے فرمایا :

رَوَاحُ الْجُمُعَةِ وَاجِبٌ عَلَى كُلِّ مُحْتَلِمٍ

"بلوغت تک پہنچنے والے ہر فرد پر جمعہ کو نہانا واجب ہے"۔


4- صفوں میں ترتیب سے متعلق متن اپنی طلب میں واضح ہے ، مسلم نے جابر بن سمرۃؓ سے روایت کیا ، انہوں نے بیان کیا کہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:


»أَلَا تَصُفُّونَ كَمَا تَصُفُّ الْمَلَائِكَةُ عِنْدَ رَبِّهَا؟» فَقُلْنَا يَا رَسُولَ اللهِ، وَكَيْفَ تَصُفُّ الْمَلَائِكَةُ عِنْدَ رَبِّهَا؟ قَالَ: «يُتِمُّونَ الصُّفُوفَ الْأُوَلَ وَيَتَرَاصُّونَ فِي الصَّفِّ «

"کیوں تم اپنے آپ کو صفوں میں ترتیب نہیں دیتے ہو جیسے فرشتے اپنے رب کے حضور حاضر ہوتے ہوئے کرتے ہیں؟" ہم نے پوچھا ، "اے اللہ  کے رسول ﷺ! فرشتے اپنے رب کی بارگاہ میں صفوں میں خود کو کس طرح کھڑا کرتے ہیں؟" آپ ﷺنے جواب دیا: "وہ پہلی قطاریں مکمل کرتے ہیں اور صف میں ایک دوسرے سے جُڑ کر کھڑے ہوتے  ہیں"۔

 

احمد نے عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:


»أَقِيمُوا الصُّفُوفَ فَإِنَّمَا تَصُفُّونَ بِصُفُوفِ الْمَلَائِكَةِ وَحَاذُوا بَيْنَ الْمَنَاكِبِ وَسُدُّوا الْخَلَلَ وَلِينُوا فِي أَيْدِي إِخْوَانِكُمْ وَلَا تَذَرُوا فُرُجَاتٍ لِلشَّيْطَانِ وَمَنْ وَصَلَ صَفّاً وَصَلَهُ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى وَمَنْ قَطَعَ صَفّاً قَطَعَهُ اللَّهُ»

"قطاریں ترتیب سے بناؤ، کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہو ، خلاء کو پُر کرو ، اپنے بھائیوں کے ہاتھ میں نرمی اختیار کرو (یعنی اگر کوئی آدمی تمہیں ہاتھ سے پکڑ کر صف میں برابر کرے تو اس کا کہنا مانو)، اور شیطان کے لئے راستہ نہ چھوڑو۔ جس آدمی نے صف کو ملایا ( یعنی صف میں خالی جگہ پر جا کھڑا ہو گیا) تو اللہ تعالیٰ اسے (اپنے فضل اور اپنی رحمت سے) ملا دے گا اور (یاد رکھو) جو شخص صف کو توڑے گا تو اللہ تعالیٰ اسے توڑ ڈالے گا ۔


- 5 ہم پہلے ہی اس موضوع پر متعدد تفصیلی جوابات جاری کر چکے ہیں ، اور میں آپ کو اس موضوع پر دو جوابات کا حوالہ دیتا ہوں:

پہلا جواب 17 شوال 1441 ہجری کو 8 جون 2020عیسوی کو  تھا۔

دوسرا: اس کے مطابق ، اگر مسلم ممالک کے حکمران نمازیوں کو مجبور کریں کہ وہ اپنے ساتھ والے  سے ایک یا دو میٹر دور ہوجائے ، خواہ جمعہ کے دن ہو یا  کسی  باجماعت نماز  میں  وباء کے ڈر سے، خاص طور پر بغیر کسی علامات کے ، تو وہ ایک بہت بڑا گناہ کرتے ہیں۔ یہ فاصلہ رکھنا ایک بدعت ہے ، کیوں کہ یہ خلاف ورزی ہے ،  یہ صفیں بنانے اور قریب کھڑے ہونے کے طریقہ کار سے واضح انحراف ہےجس کی رسول اللہ ﷺ پر وحی کےذریعے شرعی دلیل موجود ہے۔۔۔

تیسرا: یہ نہیں کہا جاسکتا ہے کہ وبائی  بیماری عذر ہے جو نماز میں فاصلے کی اجازت دیتی ہے ، کیونکہ وبائی  بیماری مسجد میں نہ جانے کا عذر تو  ہے لیکن ساتھ والے نمازی  سے ایک یا دو میٹر کے فاصلے پر دور رہنے کا عذر نہیں! ! کیونکہ وبائی بیماری (طاعون) رسول اللہﷺ کے دور میں  بھی رونما ہوئی تھی اور رسول اللہ ﷺ سے یہ روایت نہیں ملی ہے کہ مرض میں مبتلا شخص نماز پڑھنے جاتا ہے اور اپنے بھائی سے دو میٹر کے فاصلے پر رہتا ہے،بلکہ وہ معذور ہے اور اپنے گھر میں ہی  نماز پڑھے ... یعنی ، ایک وبائی مرض کا مریض صحت مند لوگوں کے ساتھ اختلاط نہیں کرتا  اور اللہ کے اذن سے اس کا مناسب علاج کیا جاتا ہے۔ جہاں تک صحتمند شخص ہے ، تووہ مسجد جاتا ہے اور بغیر کسی فاصلے کے ، معمول کے مطابق جمعہ اور باجماعت نماز پڑھتا ہے۔ [17 شوال 1441 ھ بمطابق8 جون 2020 ء] اختتام۔

دوسرا جواب 14 اکتوبر 2020 ء کو دیا گیاتھا اور میں اس کا حوالہ دیتا ہوں:

مذکورہ بالا  بحث سے واضح ہے کہ  نمازِ جمعہ ایک  فرضِ عین (انفرادی فرض) ہے اور یہ کہ اسے  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے بتائے طریقہ کار کے مطابق ، تمام ارکان ، صحت کی شرائط اور شرعی طریقے سے صفوں کی ترتیب کے مطابق ہی ادا کرنا لازم ہے، جیسا کہ ہم نے گزشتہ جوابات میں واضح کیا … اس طریقے سے  نماز پڑھنے کے اختیار سے روکنا ایک بہت بڑا گناہ ہے جو اہلِ اقتدار کے کاندھوں پر ہے ، چاہے وہ ریاست کی جانب سے مساجد بند کر نا ہو یا شرعی طریقے سے نماز کی ادائیگی سے روکنا ہو۔

اور چونکہ نمازِ  جمعہ  ایک انفرادی فرض  ہے ، لہذا ہر مکلف مسلمان پر اس کی شرعی طریقے سے ادائیگی، تمام تر ارکان ، صحت کی شرائط اور صفوں  کی کسی فاصلے کے بغیر ترتیب وغیرہ  کے ساتھ فرض ہے ۔ اور اگر فرد کسی جسمانی رکاوٹ یا کسی ایسے  ظالم حکمران کی وجہ سے یہ نہیں کر پاتا، جو لوگوں کو شرعی طریقے پر نمازِ جمعہ کی ادائیگی سے روکتا ہے ، بلکہ وہ حکمران نمازیوں کوفاصلے کا پابند کرکے بدعت پر مجبور کرتا ہے ، اور نمازی اس سے بچنے کے قابل نہیں ہے ، پھرہر  کسی کو اس فرض کواپنی صلاحیت کے مطابق انجام دینا چاہئے ، جبکہ ظالم حکمران گناہ کا مرتکب ہوتا ہے ...رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، جیسا کہ بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے ، حضرت ابوہریرہؓ نے فرمایا:


  »وَإِذَا أَمَرْتُكُمْ بِأَمْرٍ فَأْتُوا مِنْهُ مَا اسْتَطَعْتُمْ «

"لہذا اگر میں تمہیں حکم دیتا ہوں تو اپنی پوری صلاحیت سے اس پر عمل کرو"

 

اور یہ بخاری کے الفاظ ہیں ... لہذا ، اگر کوئی مسلمان جمعہ کی نماز (فرضِ عین) کو بغیر فاصلے کے سیدھی قطار میں ادا کرسکتا ہے تو اسے اسی طریقے سے ادا کرنا چاہئے کیونکہ فاصلہ بدعت ہے، جب تک کہ وہ اس سے بچ سکے۔  لیکن اگر وہ گنہگار اہلِ اقتدار کے آگے مجبور ہے تو اسے اس طرح نماز ادا کرنی چاہیے جو اس کے لئے ممکن ہے۔  النوو ی  (متوفی: 676 ھ) نے اپنی کتاب ، المنہج شرح صحیح مسلم ابن الحجاج میں مسلم کی روایت کردہ اس حدیث: ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہا :

»فإِذَا أَمَرْتُكُمْ بِأَمْرٍ فَأْتُوا مِنْهُ مَا اسْتَطَعْتُمْ «

"پس اگر میں تمہیں کسی کام کا  حکم دوں تو اپنی بساط کے مطابق اس پر عمل کرو " ،

کی وضاحت کرتے ہوئے کہا: یہ اسلام کے اہم اصولوں میں سے ہے اور ایسے الفاظ جو مختصر ہیں مگر جامع معنی رکھتے ہیں، جو نبی ﷺکو عطا کیے گئے تھے ،اور اس کے تحت اَن گنت احکام شامل ہیں جیساکہ تمام طرح کی نمازیں۔ اگر کوئی شخص کچھ ارکان یا کچھ شرائط کو انجام دینےسے قاصر ہے تو اسے باقی ضرورادا کرنی چاہئے ... اوراللہ بہتر جاننے والا ہے) اختتام۔

مجھے امید ہے کہ نماز جمعہ کے موضوع کے حوالے سے یہ اطمینان بخش ہے۔

آخر میں: صحتمند افراد کو نماز جمعہ پڑھنی چاہئے ، اور بیمار شخص کو معافی ہے ، لہذا وہ مسجدنہ جائے، اور اگر اس کی بیماری وبائی ہے تو ، پھر جمعہ کے لیے نہ جانا یقینی ہے ، اور احتیاط اور  امور کی دیکھ بھال کے لیے ، ریاست ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لئے جمعہ کے روز مساجد کے قریب صحت کے مراکز قائم کرے۔

جہاں تک آپ کے نقصان سے متعلق اصول کے بارے میں یہ سوال ہے کہ اس کا تعلق کسی چیز سے ہے یا عمل سے تو ، اس کا تعلق ان دو نوں امور سے ہے جیسا کہ ہم نے کتاب الشخصیۃ الاسلامیۃ ، جلد تین ، "ضرر کا قاعدہ" سے نقل کیا ہےاور ہم نے اس متن میں تاکید کے طور پر" چاہے یہ عمل ہے یا کوئی چیز"کے فقرے کو اجاگر کیا ہے ۔

مجھے امید ہے کہ یہ وضاحت کافی ہے ، اور اللہ بہتر جاننے والا اور حکمت والا ہے۔

آپ کا بھائی

عطاء بن خليل أبو الرشتة

9شوال 1442 ھ

21 مئی 2021 ء

بسم الله الرحمن الرحيم

سوال کا جواب

" نہ نقصان پہنچانا جائز ہے نہ نقصان اٹھانا" کا قائدہ

اور اس کا کورونا وائرس اور نماز میں فاصلےسے تعلق

(ترجمہ)

مکلیس امین

سوال:

السَّلامُ علیکم

مجھے پہلے سوال کا جواب نہیں ملا ، اور یہاں میں اسے دوسرے سوال سے جوڑ رہا ہوں ، جو کہ زیادہ ضروری ہے۔

ہمارے محترم شیخ ، اللہ آپ کو سلامت رکھے:

مجھے " نہ نقصان پہنچانا جائز ہے نہ نقصان اٹھانا " کے اصول( کی وضاحت کرنے ) کیلئے آپ کی مدد کی ضرورت ہے۔

کتاب اسلامی شخصیت  جلد 3  میں ، جو کچھ ذکر کیا گیا ہے ، اس سے میں جو سمجھا ہو ں اس کے مطابق  

نقصان کا تعلق اشیاء سے ہے اعمال سےنہیں ، اگر ایسا نہیں ہے تو ، پھر کیا نقصان کی موجودگی کے امکان کی وجہ سے ، کورونا وائرس کی وبا پر نقصان پہنچانے کے قائدے کو نافذ کرتے ہوئے،  نماز میں فاصلے کی اجازت دینا صحیح ہے ؟

براہِ کرم ،استدلال کرنے کے لئے کچھ تفصیلات بیان کریں۔

جواب:

وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته

ہم نے کتاب ، اسلامی شخصیت جلد 3 ، صفحہ475-471[ورڈ فائل] میں نقصان کے حکم کے موضوع پر تفصیل سے بات کی ہے، کتاب میں بیان ہے:

]نقصان کے حکم میں دو معاملات شامل ہیں: ان میں سے ایک یہ ہے کہ چیز بذاتِ  خود نقصان دہ ہے ، اور شارع کے خطاب میں اس کو (استعمال) کرنے کی طلب، چھوڑنے  کی طلب  کی کوئی دلیل موجود نہیں یا اباحت سے متعلق کوئی مخصوص دلیل موجود نہیں، لہذا اس کا  خود نقصان دہ ہونا ہی  اس کی ممانعت کی دلیل ہے کیونکہ شارع نے نقصان سے منع کیا ہے۔ اور اس کا قاعدہ یہ ہے: "نقصان کے سلسلے میں بنیادی قائدہ یہ ہے کہ وہ حرام ہے"۔

دوسری معاملہ یہ ہے کہ شارع نے عمومی چیز کی اجازت دی ہے ، لیکن اس  عمومی طور پر مباح  چیز کے کسی ایک حصے میں نقصان ہے ، لہذا یہ حقیقت کہ اس کا ایک حصہ  نقصان دہ ہے یا نقصان  کی طرف لے جاتا ہے، اس حصہ کی ممانعت کی دلیل ہے ، کیونکہ قانون ساز نے مباح حصوں کے  ایک حصے کو ممنوع قرار دے دیا ہے ، اگر وہ حصہ نقصان دہ ہے یا نقصان کا باعث بنتا ہے۔ اور اس کا قاعدہ یہ ہے: (كل فرد من أفراد المباح، إذا كان ضاراً أو مؤدياً إلى ضرر، حرم ذلك الفرد وظل الأمر مباحاً)" مباح  کا ہر حصہ، اگر وہ نقصان دہ ہے یا نقصان  تک پہنچاتا ہے تو اس حصے کی ممانعت ہے اور باقی معاملہ مباح ہی رہے گا"۔

جہاں تک پہلے معاملے کی بات ہے تو ، اس کا ثبوت یہ ارشاد ہے:  »لاَ ضَرَرَ وَلاَ ضِرَارَ فِي الإِسْلاَمِ«"اسلام میں نہ تو  نقصان پہنچانا جائز ہے نہ نقصان اٹھانا "( طبرانی )، ابوداؤد نے ابوصِرمہ مالک بن قیس الانصاری کی حدیث سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:«مَنْ ضَارَّ أَضَرَّ اللَّهُ بِهِ، وَمَنْ شَاقَّ شَاقَّ اللَّهُ عَلَيْهِ»"جس نے بھی نقصان پہنچایا ، اللہ اسے نقصان پہنچائے گا۔ اور جو (لوگوں پر) سخت ہے ،اللہ اس پر سختی کرے گا"۔  یہ دونوں احادیث اس بات کا ثبوت ہیں کہ شارع نے نقصان سے منع کیا ہے ...

جہاں تک دوسرے معاملے کی بات ہے تو ، اس کا ثبوت یہ ہے کہ: »قد كانَ رسولُ اللَّهِ ﷺ حينَ مَرَّ بالْحِجْرِ، نَـزَلَها، واستقى الناسُ من بِئْرِها، فلمّا راحوا قالَ رسولُ اللَّهِ ﷺ: لا تَشْرَبوا من مائها شيئاً، ولا تتوضئوا منه للصلاة، وما كانَ من عَجِينٍ عَجَنْتُمُوهُ فأعْلِفوهُ الإبِلَ، ولا تأكُلوا منه شيئاً، ولا يَخْرُجَنَّ أحدٌ منكُمُ الليلةَ إلاّ ومعه صاحبٌ له«... "جب رسول اللہﷺہجر کے قریب سے گزرے تو وہ اترے ، لوگوں نے اس کے کنویں سے پانی پیا ، اور جب وہ چلے گئے تو رسول اللہﷺنے فرمایا: اس کے پانی سے کچھ بھی نہ پیو  اوراس سے وضو نہ کرو اور جو آٹا تم نے گوندھا ، اسے اپنے اونٹوں کو کھلا دو اور اس میں سے کچھ نہ کھاؤ ، اور تم میں سے کوئی بھی رات کو کسی ساتھی کے بغیر باہر  نہ نکلے... "ابنِ ہشام نے اپنی سیرت میں اس واقعہ کوروایت کیا ہے۔ اس واقعہ  میں  ہم دیکھ سکتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے کس طرح جائز حصے کو ممنوع قرار دیا ہے ۔  پانی پینا جائز ہے ، لیکن رسول اللہﷺ نے ان کو یہ پانی حجر کے کنویں سے پینے سے منع کیا اور اس سے وضو کرنے سے منع کیا۔ کسی شخص کے لئے رات میں تنہا باہر جانا جائز ہے ، لیکن رسول اللہﷺنے اس رات ان کو کسی ساتھی کے بغیر باہر جانے سے منع کیا ۔پھر یہ بات واضح ہوگئی کہ آپ ﷺ نے اس پانی کو صرف اس وجہ سے منع کیا کہ اس میں موجود نقصان آپ  ﷺ پر واضح تھا اور آپﷺ نے تنہا باہر جانے سے منع کیا  کیونکہ اس میں موجود نقصان آپ ﷺ پر واضح تھا۔... نقصان کی موجودگی اس چیز کی ممانعت نہیں کرتی جو شریعت میں مباح  ہے ، لیکن اس کے کسی حصے میں نقصان کی موجودگی اس حصے  کو ممنوع کرتی ہے ، لیکن وہ باقی  پورامعاملہ مباح   رہتا ہے ، چاہے وہ عمل ہو یا چیز۔

یہ اس وقت ہے جب مباح حصہ بذاتِ خودنقصان دہ ہے ، لیکن اگر  وہ نقصان تک پہنچاتا ہو تو  اس کی دلیل یہ روایت ہے: »أَنَّ رسولَ اللَّهِ ﷺ أقامَ بِتَبُوك بِضْعَ عَشْرَةَ ليلةً لَمْ يُجاوِزْها، ثـُمَّ انصرَفَ قافِلاً إلى المدينة، وكانَ في الطريق ماءٌ يَخْرُجُ من وَشَلٍ، ما يُروي الراكبَ والراكبين والثلاثة، بِوادٍ يُقالُ له وادي الْمُشَقَّقِ، فقالَ رسولُ اللَّهِ ﷺ: مَنْ سَبَقَنا إلى ذلكَ الوادي فلا يَسْتَقِيَنَّ منه شيئاً حتى نَأْتِيَهُ«... "اللہ کے رسول ﷺ نے  دس راتوں سے محض کچھ زیادہ قیام فرما یا ، پھر آپ ﷺ  مدینہ منورہ واپس روانہ ہوگئے ، اور راستے میں ایک وادی جسے  وادئ مشقق  کہتے ہیں، اس میں  پانی آیا جو پتھروں کے درمیان سے بہ رہا تھا اور ایک ،دو یا تین  سواروں کی پیاس بجھانے کے لئے کافی تھا۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص اس وادی  کی طرف ہم سے سبقت لے جائے، اس کو اس میں سے کچھ نہیں پینا یہاں تک کہ ہم پہنچ جائیں "۔ ابنِ ہشام نے اپنی سیرت میں بیان کیا۔ اس حدیث میں ، رسول اللہﷺ نے وہ تھوڑا سا پانی پینے سے منع کیا ، کیونکہ یہ باقی فوج کی پیاس کا باعث بن جاتا، آپ ﷺنے فرمایا: «مَنْ سَبَقَنا إلى ذلكَ الوادي فلا يَسْتَقِيَنَّ منه شيئاً حتى نَأْتِيَهُ» " جو شخص اس وادی کی طرف ہم سے سبقت لے جائے، اس کو اس میں سے کچھ نہیں پینا چاہئے یہاں تک کہ ہم پہنچ جائیں ۔

اور جنہوں نے (رسول اللہ ﷺ کے اس حکم کے باوجود)یہ پانی پی لیا اس پرآپ ﷺ کا لعنت کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ جب تک آپ ﷺ نہ پہنچ جائیں، اس سے کچھ بھی لینا منع تھا ۔ تو پانی پینا (عمومی طور پر) مباح ہے ، اور وادی میں اس پانی کو پینے میں کوئی حرج نہیں ہے ، البتہ اس مخصوص موقع پراسے پینا، اس سے پہلے کہ نبیﷺ وہاں پہنچیں اور اسے  فوج میں تقسیم کرنا، باقی فوج  کی محرومی کا باعث تھا، یعنی یہ ضرر تک پہنچاتا تھا، لہٰذا آپ ﷺ نے اس وادی سے پانی پینے سے  منع کر دیا  یہاں تک کہ آپ ﷺ وہاں پہنچ جائیں۔

لہذا ، حقیقت یہ ہے کہ کوئی  شے اگر نقصان تک پہنچائے تو ا س بنا پروہ تمام شے  حرام نہیں ہے کہ جسے شریعت نے مباح قرار دیا ہو ، بلکہ اگر  اس کے ایک حصے  سے نقصان پہنچتا ہے تب اس حصے کی ممانعت ہے ، لیکن عمومی معاملہ مباح ہے ، چاہے وہ کوئی  عمل ہو  یا کوئی چیز۔ لہذا ، ان دونوں صورتوں کو بیان کرنے والی ان احادیث کہ  کوئی چیز بذاتِ خودنقصان دہ ہے اور کوئی چیز نقصان تک پہنچانے کا باعث بنتی ہے ، اس سے دوسرا قاعدہ اخذ کیا گیا ہے ، جو یہ ہے کہ: "مباح  کا ہر حصہ ، اگر وہ نقصان دہ ہے یا نقصان تک لے جاتا  ہے تو اس حصے کی ممانعت ہے اور باقی معاملہ جائز ہے "،اور یہ نقصان کے اصول کے دو معاملات میں سے دوسرا معاملہ ہے...]اقتباس کا اختتام ہوا۔

دو حصوں  پر مشتمل  نقصان کے قائدے  پر غور کرنے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ آپ نے اپنے سوال میں کورونا میں (نماز میں )فاصلے کے بارے میں جو کچھ ذکر کیا ہے، یہ  اس پر یہ لاگو نہیں ہوتا:

1-جہاں تک قاعدے کے پہلے حصے کی بات ہے ،تو  اس کا تقاضا ہے کہ اس کام کو کرنے ، یا نہ کرنے یا تخیر کے لئے کوئی متن  موجود نہ ہو ، اور اگر کوئی متن موجود ہے تو پھر متن میں بیان کردہ کو ہی  نقصان پر بحث کے لیے  اختیار کیا جاتا ہے... اور یہ نماز کے دوران فاصلہ رکھنے پر لاگو نہیں ہوتا کیونکہ باجماعت نماز میں صف بندی کے بارے میں ایک متن موجود ہے ، یعنی کہ فاصلہ رکھنے کی ممانعت ہے ، لہذا نقصان کو جواز بناکرقائدے کے اس حصے کو اس پر لاگو نہیں یا جا سکتا۔

2- جہاں تک قاعدہ کے دوسرے حصے کی بات ہے تو  عمومی معاملے کا مباح  ہونا ضروری ہے ، پھر اس کے کسی  حصے کی ممانعت ہوتی  ہے۔صفوں میں ترتیب کے بارے میں ایسے دلائل موجود ہیں  جو اس کو فرض یا مندوب بناتے ہیں یعنی نمازیوں کے درمیان فاصلہ  مباح نہیں ہے ، لہذا یہ قاعدے کے اطلاق سے باہر ہے۔

3- اسی وجہ سے یہاں ضرر (نقصان) کا قائدہ لاگو نہیں ہوتا ، بلکہ صفوں کی ترتیب کے سلسلے میں مسجد میں نماز کے بارے میں شرعی حکم دیکھا جاتا ہے ... پس  یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ رسول اللہﷺ نے جمعہ کی نماز کی پابندی کا حکم دیا اور اگر مریض بیمار ہو تو جمعہ کی نماز یا اجتماعی نماز میں نہ جانے کی اجازت دی:

ا-  اللہ سبحانہ وتعالی کے قول کے سبب جمعہ کی نماز فرض ہے: (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ)"اے ایمان والو! جب جمعہ کے دن نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف بڑھو اور تجارت چھوڑ دو۔ یہ تمھارے لیے بہتر ہے ، اگر تم اس کا ادرک رکھتے ہو"[الجمعہ: 9]۔ یہاں  ایک جائز کام  (فروخت) کی ممانعت اور جمعہ کی نماز کے لئے آگے بڑھنے کی تاکید ہے جوحتمی  قرینہ ہے کہ جمعہ (کی نماز) واجب ہے۔

ب- اس بات کا ثبوت کہ بیمار شخص کو جمعہ کی نماز کے پابند ہونے سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے ، یہ وہ بات ہے جس کو حاکم نے ابو موسیٰ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:«الْجُمُعَةُ حَقٌّ وَاجِبٌ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ فِي جَمَاعَةٍ إِلَّا أَرْبَعَةً: عَبْدٌ مَمْلُوكٌ، أَوْ امْرَأَةٌ، أَوْ صَبِيٌّ، أَوْ مَرِيضٌ»"جمعہ کی نماز ہر مسلمان پر فرض ہے ، ان چار کے علاوہ:  غلام ، عورت ، بچہ اور بیمار"۔ الحاکم نے کہا: یہ حدیث شیخین کی شرط پر صحیح ہے ،مگر انہوں نے اسے روایت  نہیں کیا۔ نسائی نے ابن عمار سے ، انھوں نے حفصہؓ، رسول اللہﷺ کی زوجہ سے روایت کیا کہ  نبی ﷺنے فرمایا:«رَوَاحُ الْجُمُعَةِ وَاجِبٌ عَلَى كُلِّ مُحْتَلِمٍ»"بلوغت تک پہنچنے والے ہر فرد پر جمعہ کو نہانا واجب ہے"۔

4- صفوں میں ترتیب سے متعلق متن اپنی طلب میں واضح ہے ، مسلم نے جابر بن سمرۃؓ سے روایت کیا ، انہوں نے بیان کیا کہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:»أَلَا تَصُفُّونَ كَمَا تَصُفُّ الْمَلَائِكَةُ عِنْدَ رَبِّهَا؟» فَقُلْنَا يَا رَسُولَ اللهِ، وَكَيْفَ تَصُفُّ الْمَلَائِكَةُ عِنْدَ رَبِّهَا؟ قَالَ: «يُتِمُّونَ الصُّفُوفَ الْأُوَلَ وَيَتَرَاصُّونَ فِي الصَّفِّ« "کیوں تم اپنے آپ کو صفوں میں ترتیب نہیں دیتے ہو جیسے فرشتے اپنے رب کے حضور حاضر ہوتے ہوئے کرتے ہیں؟" ہم نے پوچھا ، "اے اللہ  کے رسول ﷺ! فرشتے اپنے رب کی بارگاہ میں صفوں میں خود کو کس طرح کھڑا کرتے ہیں؟" آپ ﷺنے جواب دیا: "وہ پہلی قطاریں مکمل کرتے ہیں اور صف میں ایک دوسرے سے جُڑ کر کھڑے ہوتے  ہیں"۔ احمد نے عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:»أَقِيمُوا الصُّفُوفَ فَإِنَّمَا تَصُفُّونَ بِصُفُوفِ الْمَلَائِكَةِ وَحَاذُوا بَيْنَ الْمَنَاكِبِ وَسُدُّوا الْخَلَلَ وَلِينُوا فِي أَيْدِي إِخْوَانِكُمْ وَلَا تَذَرُوا فُرُجَاتٍ لِلشَّيْطَانِ وَمَنْ وَصَلَ صَفّاً وَصَلَهُ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى وَمَنْ قَطَعَ صَفّاً قَطَعَهُ اللَّهُ« "قطاریں ترتیب سے بناؤ، کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہو ، خلاء کو پُر کرو ، اپنے بھائیوں کے ہاتھ میں نرمی اختیار کرو (یعنی اگر کوئی آدمی تمہیں ہاتھ سے پکڑ کر صف میں برابر کرے تو اس کا کہنا مانو)، اور شیطان کے لئے راستہ نہ چھوڑو۔ جس آدمی نے صف کو ملایا ( یعنی صف میں خالی جگہ پر جا کھڑا ہو گیا) تو اللہ تعالیٰ اسے (اپنے فضل اور اپنی رحمت سے) ملا دے گا اور (یاد رکھو) جو شخص صف کو توڑے گا تو اللہ تعالیٰ اسے توڑ ڈالے گا ۔

- 5 ہم پہلے ہی اس موضوع پر متعدد تفصیلی جوابات جاری کر چکے ہیں ، اور میں آپ کو اس موضوع پر دو جوابات کا حوالہ دیتا ہوں:

پہلا جواب 17 شوال 1441 ہجری کو 8 جون 2020عیسوی کو  تھا۔

دوسرا: اس کے مطابق ، اگر مسلم ممالک کے حکمران نمازیوں کو مجبور کریں کہ وہ اپنے ساتھ والے  سے ایک یا دو میٹر دور ہوجائے ، خواہ جمعہ کے دن ہو یا  کسی  باجماعت نماز  میں  وباء کے ڈر سے، خاص طور پر بغیر کسی علامات کے ، تو وہ ایک بہت بڑا گناہ کرتے ہیں۔ یہ فاصلہ رکھنا ایک بدعت ہے ، کیوں کہ یہ خلاف ورزی ہے ،  یہ صفیں بنانے اور قریب کھڑے ہونے کے طریقہ کار سے واضح انحراف ہےجس کی رسول اللہ ﷺ پر وحی کےذریعے شرعی دلیل موجود ہے۔۔۔

تیسرا: یہ نہیں کہا جاسکتا ہے کہ وبائی  بیماری عذر ہے جو نماز میں فاصلے کی اجازت دیتی ہے ، کیونکہ وبائی  بیماری مسجد میں نہ جانے کا عذر تو  ہے لیکن ساتھ والے نمازی  سے ایک یا دو میٹر کے فاصلے پر دور رہنے کا عذر نہیں! ! کیونکہ وبائی بیماری (طاعون) رسول اللہﷺ کے دور میں  بھی رونما ہوئی تھی اور رسول اللہ ﷺ سے یہ روایت نہیں ملی ہے کہ مرض میں مبتلا شخص نماز پڑھنے جاتا ہے اور اپنے بھائی سے دو میٹر کے فاصلے پر رہتا ہے،بلکہ وہ معذور ہے اور اپنے گھر میں ہی  نماز پڑھے ... یعنی ، ایک وبائی مرض کا مریض صحت مند لوگوں کے ساتھ اختلاط نہیں کرتا  اور اللہ کے اذن سے اس کا مناسب علاج کیا جاتا ہے۔ جہاں تک صحتمند شخص ہے ، تووہ مسجد جاتا ہے اور بغیر کسی فاصلے کے ، معمول کے مطابق جمعہ اور باجماعت نماز پڑھتا ہے۔ [17 شوال 1441 ھ بمطابق8 جون 2020 ء] اختتام۔

دوسرا جواب 14 اکتوبر 2020 ء کو دیا گیاتھا اور میں اس کا حوالہ دیتا ہوں:

مذکورہ بالا  بحث سے واضح ہے کہ  نمازِ جمعہ ایک  فرضِ عین (انفرادی فرض) ہے اور یہ کہ اسے  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے بتائے طریقہ کار کے مطابق ، تمام ارکان ، صحت کی شرائط اور شرعی طریقے سے صفوں کی ترتیب کے مطابق ہی ادا کرنا لازم ہے، جیسا کہ ہم نے گزشتہ جوابات میں واضح کیا … اس طریقے سے  نماز پڑھنے کے اختیار سے روکنا ایک بہت بڑا گناہ ہے جو اہلِ اقتدار کے کاندھوں پر ہے ، چاہے وہ ریاست کی جانب سے مساجد بند کر نا ہو یا شرعی طریقے سے نماز کی ادائیگی سے روکنا ہو۔

اور چونکہ نمازِ  جمعہ  ایک انفرادی فرض  ہے ، لہذا ہر مکلف مسلمان پر اس کی شرعی طریقے سے ادائیگی، تمام تر ارکان ، صحت کی شرائط اور صفوں  کی کسی فاصلے کے بغیر ترتیب وغیرہ  کے ساتھ فرض ہے ۔ اور اگر فرد کسی جسمانی رکاوٹ یا کسی ایسے  ظالم حکمران کی وجہ سے یہ نہیں کر پاتا، جو لوگوں کو شرعی طریقے پر نمازِ جمعہ کی ادائیگی سے روکتا ہے ، بلکہ وہ حکمران نمازیوں کوفاصلے کا پابند کرکے بدعت پر مجبور کرتا ہے ، اور نمازی اس سے بچنے کے قابل نہیں ہے ، پھرہر  کسی کو اس فرض کواپنی صلاحیت کے مطابق انجام دینا چاہئے ، جبکہ ظالم حکمران گناہ کا مرتکب ہوتا ہے ...رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، جیسا کہ بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے ، حضرت ابوہریرہؓ نے فرمایا: «وَإِذَا أَمَرْتُكُمْ بِأَمْرٍ فَأْتُوا مِنْهُ مَا اسْتَطَعْتُمْ»"لہذا اگر میں تمہیں حکم دیتا ہوں تو اپنی پوری صلاحیت سے اس پر عمل کرو"اور یہ بخاری کے الفاظ ہیں ... لہذا ، اگر کوئی مسلمان جمعہ کی نماز (فرضِ عین) کو بغیر فاصلے کے سیدھی قطار میں ادا کرسکتا ہے تو اسے اسی طریقے سے ادا کرنا چاہئے کیونکہ فاصلہ بدعت ہے، جب تک کہ وہ اس سے بچ سکے۔  لیکن اگر وہ گنہگار اہلِ اقتدار کے آگے مجبور ہے تو اسے اس طرح نماز ادا کرنی چاہیے جو اس کے لئے ممکن ہے۔  النوو ی  (متوفی: 676 ھ) نے اپنی کتاب ، المنہج شرح صحیح مسلم ابن الحجاج میں مسلم کی روایت کردہ اس حدیث: ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہا: ...«فإِذَا أَمَرْتُكُمْ بِأَمْرٍ فَأْتُوا مِنْهُ مَا اسْتَطَعْتُمْ»"پس اگر میں تمہیں کسی کام کا  حکم دوں تو اپنی بساط کے مطابق اس پر عمل کرو"،کی وضاحت کرتے ہوئے کہا: یہ اسلام کے اہم اصولوں میں سے ہے اور ایسے الفاظ جو مختصر ہیں مگر جامع معنی رکھتے ہیں، جو نبی ﷺکو عطا کیے گئے تھے ،اور اس کے تحت اَن گنت احکام شامل ہیں جیساکہ تمام طرح کی نمازیں۔ اگر کوئی شخص کچھ ارکان یا کچھ شرائط کو انجام دینےسے قاصر ہے تو اسے باقی ضرورادا کرنی چاہئے ... اوراللہ بہتر جاننے والا ہے) اختتام۔

مجھے امید ہے کہ نماز جمعہ کے موضوع کے حوالے سے یہ اطمینان بخش ہے۔

آخر میں: صحتمند افراد کو نماز جمعہ پڑھنی چاہئے ، اور بیمار شخص کو معافی ہے ، لہذا وہ مسجدنہ جائے، اور اگر اس کی بیماری وبائی ہے تو ، پھر جمعہ کے لیے نہ جانا یقینی ہے ، اور احتیاط اور  امور کی دیکھ بھال کے لیے ، ریاست ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لئے جمعہ کے روز مساجد کے قریب صحت کے مراکز قائم کرے۔

جہاں تک آپ کے نقصان سے متعلق اصول کے بارے میں یہ سوال ہے کہ اس کا تعلق کسی چیز سے ہے یا عمل سے تو ، اس کا تعلق ان دو نوں امور سے ہے جیسا کہ ہم نے کتاب الشخصیۃ الاسلامیۃ ، جلد تین ، "ضرر کا قاعدہ" سے نقل کیا ہےاور ہم نے اس متن میں تاکید کے طور پر" چاہے یہ عمل ہے یا کوئی چیز"کے فقرے کو اجاگر کیا ہے ۔

مجھے امید ہے کہ یہ وضاحت کافی ہے ، اور اللہ بہتر جاننے والا اور حکمت والا ہے۔

آپ کا بھائی

عطاء بن خليل أبو الرشتة

9شوال 1442 ھ

21 مئی 2021 ء

Last modified onجمعرات, 06 جنوری 2022 18:51

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک