الإثنين، 23 جمادى الأولى 1446| 2024/11/25
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

سوال کا جواب: درخت پر لگے  پھلوں  کی فروخت

سوال:

محترم  امیر اور جلیل القدر عالم ،السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،

 ہمارے ملک میں  پھل کو اتارنے سے پہلے درخت پر لگے ہی بیچنے کا رواج ہے جیسے ناریل، مرچ وغیرہ، اورانہیں  اسی طرح فروخت کیا جاتاہے۔ زمیندار فصل  کو بڑھانے کے لیے کھاد اور آبپاشی کا بندو بست کرتا ہے اورجب پھل تیار ہو تا ہے تو  اس کو اندازے کی بنیاد پر فروخت کرتا ہے، خریدار اندازے سے اس کو خریدتا ہے۔ خریدار پھل اتارنے سے پہلے مقررہ قیمت مالک زمین کو دینے کا پابند ہو تا ہے۔ اس کے بعد زمین کا مالک اس پھل کے حوالے سے ذمہ دار نہیں ہو تا، خریدار چاہے توفورا پھل اتار سکتا ہے اور چاہے مکمل پکنے تک درخت پر ہی رکھ سکتا ہے، تاہم اب  جانوروں اور چوروں سے اس پھل کی حفاظت خریدار کے ذمے ہو تی ہے۔ کیا اسلام میں یہ عمل جائز ہے؟ اللہ آپ پر رحم کر ے اور آپ کی قیادت میں امت کوفتحیاب کرے۔ ختم شد

شفان عبد الحمید

 

جواب:

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبر کاتہ،

آپ کے سوال سے میں سمجھ گیا ہوں کہ آپ درخت پر ہی پھل کو فروخت کرنے کے بارے میں پوچھ رہے ہیں، یعنی ایک شخص دوسرے کے پاس آکر کہتا ہے کہ میں اس انجیر کے پھل کو اس   پورے موسم کے لیے خریدتا ہوں، پھلوں کو درخت پر ہی لگے رہنے دیتا ہے، اس میں سے کھاتا اور بیچتا ہے  یہاں تک کہ اس موسم میں درخت پر مزید کوئی پھل نہیں رہتا  اور یہ ایک ایک متعین معاوضے کے عوض ہوتا ہے۔اور آپ پوچھ رہے ہیں کہ کیا ایسا کرنا جائز ہے۔

اگر یہی بات آپ نے پوچھی ہے تو جواب ملاحظہ کیجئے:

 

جی ہاں اس قسم کا لین دین عالم اسلام کے کئی ممالک میں مروج ہے اور فقہ میں اس کو"اپنی جگہ پر موجود پھل کو فروخت کرنا" کہتے ہیں اور عام لوگ اس کو"درخت کی ضمانت" بھی کہتے ہیں۔۔۔یہ جائز ہے مگر اس شرط کے ساتھ کہ پھل پکنا شروع ہو چکا ہو، یہ ضروری نہیں کہ سب پک چکا ہو کیونکہ پھل سارا ایک ساتھ نہیں پکتا ہے۔ میں آپ کے لیے  اس حوالے سے ہماری کتاب الشخصیہ  جزو دوم "پھل کو درخت پر فروخت کرنے " کے باب میں  جو تفصیلی دلائل آئے ہیں ان میں سے کچھ نقل کرتا ہوں:

 

اس ضمانت میں یعنی درخت پر موجود پھل کے فروخت میں حکم شرعی میں یہ تفصیل ہے۔ پھل کو دیکھا جائے گا کہ اگر وہ پکناشروع ہو گیا ہو یعنی اس کا کھا نا ممکن ہو تو اس حال میں اس کو فروخت کرنا جائز ہے۔ اگر پھل پکنا شروع نہیں ہوا ہو یعنی اس کو کھانا ممکن نہ ہو تو اس کو فروخت کرنا جائز نہیں،جیسا کہ مسلم نے جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ : «نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن بيع الثمر حتى يطيب»" رسول اللہ ﷺ نے پکنے سے پہلے پھل کو فروخت کرنے سے منع کیا ہے"۔ ان سے یہ بھی روایت ہے کہ : «نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم... وعن بيع الثمر حتى يبدو صلاحه»" رسول اللہ ﷺ نے منع کیا ۔۔۔اور اس پھل کو فروخت کرنے سے جو پکنا شروع نہ ہوا ہو"۔   بخاری نے بھی ان سے روایت کی ہے کہ : «نهى النبي صلى الله عليه وسلم عن أن تباع الثمرة حتى تشقح، قيل ما تشقح، قال: تحمار وتصفار ويؤكل منها»" نبی ﷺ نے پھل کے سرخی مائل یا زرد ہونے اور کھانے کے قابل ہونے سے پہلے بیچنے سے منع کیا ہے"۔

 

بخاری نے انس بن مالک سے روایت کیا ہے کہ : «أنه نهى عن بيع الثمرة حتى يبدو صلاحها، وعن النخل حتى يزهو، قيل: وما يزهو؟ قال: يحمار أو يصفار»" نبی ﷺ نے پھل کے کھانے کے قابل ہونے سے پہلے فروخت سے منع کیا ہے اور کھجور کی فروخت بھی جب تک کہ وہ تقریباً تیار نہ ہو جائے۔ پوچھا گیا 'تقریباً تیار' سے کیا مراد ہے۔ آپﷺ نے جواب دیا، جب تک سرخ یا پیلا نہ ہوجائے"۔ ان سے یہ بھی روایت ہے، «إن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن بيع الثمار حتى تُزْهي، فقيل له: وما تُزْهي؟ قال: حتى تحمر. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم أرأيت إذا منع الله الثمرة بم يأخذ أحدكم مال أخيه»"رسول اللہ ﷺ نے جو بن پر آنے سے پہلے پھل کو فروخت کرنے سے منع کیا ہے، کہا گیا :  جو بن  کیا ہے؟ کہا: جب سرخ ہو جائے۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا  : کیا خیال ہے کہ اگر اللہ پھل کے بڑھنے کے عمل کو روک دیں، تو پھر کس حق سے بیچنے والا اپنے بھائی سے رقم لے سکتا ہے؟" اوربخاری نے عبد اللہ بن عمر سے روایت کیا ہے کہ : «نهى عن بيع الثمار حتى يبدو صلاحها، نهى البائع والمبتاع»"رسول اللہ ﷺ نے  پھل کے پکنے سے پہلے خریدو فروخت سے منع کیا ہے۔ آپ ﷺ  نے بیچنے اور خریدنے والوں کو منع کیا"۔  جبکہ مسلم کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں: «نهى عن بيع النخل حتى يزهو، وعن السنبل حتى يبيض ويأمن العاهة» "کھجور کے جو بن پر آنے سے پہلے فروخت سے منع کیا ہے اور مکئی کے سفید ہونے اور بیماری سےمحفوظ ہو جانے سے پہلے بیچنے سے منع کیا ہے"۔

 یہ ساری احادیث پھل کے تیاری سے قبل فروخت کے حوالے سے صریح ہیں۔ اس لیے پھل کےقابلِ استعمال ہونے سے قبل فروخت کے عدم جواز میں ان احادیث کے منطوق(الفاظ) سے استدلال کیا جا سکتا ہے۔ان کے مفہوم سے کھانے کے قابل ہونے پر اس کے فروخت کے جائز ہونے پر استدلال کیا جا سکتا ہے۔اسی بنا پر اس درخت کا ضمان، جس کا پھل نکلا ہو جیسے زیتون، لیمو اور کھجور وغیرہ، اس وقت جائز ہے جب  اس کا پھل چکھنے کے قابل ہو، اور کھانے کے قابل ہونے سے پہلے جائز نہیں۔

 

درخت میں پھل کے قابل استعمال ہونے کا مطلب اس کا کھانے کے قابل ہونا ہے،یہ اس موضوع پر وارد احادیث سے سمجھا جا سکتا ہے۔ کیونکہ پھل کے تیار ہونے کے شروع سے پہلے اس کے فروخت کے منع کرنے والی احادیث کو باریک بینی سے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان احادیث میں کئی تفاسیر بھی موجود ہیں۔ چنانچہ جابر کی حدیث میں ہے کہ: «حتى يبدو صلاحه» "جب وہ پکنا شروع ہو" یہ بھی ہے: «حتى يطيب»"یہاں تک کہ وہ کھانے کے قابل ہو"۔ اور انس کی حدیث میں ہے «نهى عن بيع العنب حتى يسودّ، وعن بيع الحب حتى يشتد»:"رسول اللہ ﷺ نےانگور کے کالے ہونے سے پہلے فروخت سے منع فرمایا، دانے کے سخت ہونے سے پہلے فروخت سے منع فرمایا"۔اس کو ابوداود نے روایت کیا ہے۔ جابر کی ایک اور حدیث میں ہے: «حتى تشقح»"یہاں تک کہ وہ سرخی مائل یا زرد نہ ہو"۔ ابن عباس کی حدیث میں ہے: «حتى يطعم»"جب تک اس کو کھایا نہ جا سکے"۔  یوں تمام احادیث سے ایک ہی معنی معلوم ہو تا ہے کہ وہ پھل کھانے کے قابل ہو۔

 

 پھلوں کی حقیقت کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے کھانے کے قابل ہونے کی ابتدا مختلف پھلوں میں مختلف ہے۔بعض رنگ کے بدلنے سے کھانے کے قابل ہوجاتے ہیں اور رنگ کے بدلنے سے ہی معلوم ہوتا ہے کہ پک گئے ہیں، جیسے انجیر،انگور،امرود وغیرہ۔ بعض  کا پکنا  اس کو الٹ پلٹ کر دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے تجربہ کار لوگ اس کا اندازہ لگاتے ہیں جیسے تربوز کیونکہ  رنگ سے اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ بعض پھول کے پھل میں تبدیل ہونے سے ہی کھانے کے قابل ہوتے ہیں جیسے کھیرا، ساگ وغیرہ۔ اس لیے  ہر پھل میں پکنے سے مراد اس کا کھانے کے قابل ہونا ہے۔ اس پر دلالت وہ حدیث کرتی ہے جس کو مسلم نے ابن عباس سے روایت کیا ہےکہ: «نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن بيع النخل حتى يأكل منه أو يؤكل»" رسول اللہ ﷺ نے کھجور کو کھانے کے قابل ہونے سے پہلے فروخت کرنے سے منع کیا ہے"۔ اسی طرح  اس پر وہ متفق علیہ حدیث بھی دلالت کرتی ہے جس کو جابر نے روایت کی ہے کہ: «حتى يطيب»"یہاں تک کہ اس میں ذائقہ آئے"۔ اس سے ساگ اور کھیرے وغیرہ کو فروخت کرنے کا جواز معلوم ہوتا ہے،  یعنی ساگ کے اگتے ہی اس کے فروخت کا جائز ہونا ، مطلب یہ کہ پھول کے کھیرے میں تبدیلی کا عمل شروع  ہوتے ہی اس کا بیچنا جائز ہے۔ یہ غیر موجود چیز کو فروخت کرنے کے زمرے میں نہیں آتا  کیونکہ اس کا پھل پے در پے(ایک دوسرے کے بعد) آنے لگتا ہے، اس لیے پورے موسم کے پھل کو فروخت کیا جا سکتا ہے چاہے سارا پھل تیار ہو یا کچھ تیار اور کچھ باقی ہو۔  کیونکہ پھل کے سرخ ہونے کی ابتدا جیسے خوبانی یا کالا ہونے کی ابتدا جیسے انگور یا امرود کے رنگ میں تبدیلی یا پھر  کچھ کے کھانے کے قابل ہونے اور کچھ پھول کے شکل میں ہونے میں کوئی فرق نہیں۔ تاہم  وہ پھل  جس میں پھول کے پھل کی شکل میں تبدیلی کو پھل نہیں کہا جاتا جیسا کہ تربوز اس میں فروخت جائز نہیں،  اسی لیے بادم کو پھول کی شکل میں یا انجیر کو کونپل کی شکل میں فروخت کرنا جائز نہیں  جس میں پکنے کی ابتدا نہ ہوئی ہو اور درخت پر اس کو فروخت کرنے سے مراد درخت کو گروی دینا ہے کیونکہ درخت پر پھل کو فروخت کرنے کا مطلب  اس کے کھانے کے قابل ہونے سے مقید ہے یعنی پکنے کی ابتدا سے۔

 

کھانے کے قابل ہونے سے ہرگز یہ مراد نہیں کہ پورا پھل کھانے کے قابل ہو کیونکہ یہ محال ہے، کیونکہ پھل ایک ایک کر کے یا تھوڑا تھوڑا کر کے پکتا ہے۔نہ ہی  پکنا شروع ہونے کا یہ مطلب ہے کہ  پورے باغ میں  یا سارے باغوں میں پھل پکنا شروع ہو  بلکہ اس سے مراد  یہ ہے کہ  پھل کے جنس کے پکنے کی ابتدا ہے اگر اس کے انواع مختلف نہ ہوں جیسے زیتون،  یا اگر انواع مختلف ہوں تو اس نوع کے پکنے کی ابتدا ہے جیسے زیتون اور انگور۔ مثال کے طور پر کسی باغ  میں کچھ کھجور پکے تو اس باغ کے تمام کھجور فروخت کرنا جائز ہےیا تمام باغوں کے کھجور فروخت کرنا جائز ہے۔ اگر کسی قسم کے سیب کے کچھ درختوں میں کچھ پھل پک گئے تو تمام باغوں میں سیب کے اس قسم کا فروخت جائز ہے۔ اسی طرح کسی باغ میں زیتون کے چند درختوں میں کچھ پھل پک جائے تو تمام باغوں میں زیتون فروخت کرنا جائز ہے۔ کیونکہ حدیث کہتی ہے کہ: «نهى عن بيع النخل حتى يزهو وعن السنبل حتى يبيض ويأمن العاهة» " کھجور کے جوبن پر آنے سے پہلے اور مکئی کے سفید اور بیماری  سے محفوظ ہونے سے پہلے فروخت سے منع کیا"۔ انہوں نے کہا کہ: «نهى عن بيع العنب حتى يسود، وعن بيع الحب حتى يشتد»"انگور کے کالے ہونے سے قبل اور دانے(اناج) کے سخت ہونے سے قبل فروخت سے منع کیا"۔  یوں آپ ﷺ ہرجنس کے پھل اور ہر نوع کا حکم بیان کیا، آپ ﷺ نے دانے کے بارے میں کہا کہ سخت ہو اور کالے انگور کے متعلق کہا کہ وہ کالا ہوجائے۔  حکم  پھل کی ہر قسم سے متعلق ہے باقی تمام چیزوں کو چھوڑ کر اور ہر قسم کے متعلق ہے دوسری اقسام کو چھوڑ کر۔ حدیث میں پکنے کی ابتدا  کا لفظ ایک جنس اور ایک نوع کے بارے میں ہے جو بعض پر صادق آتی ہے چاہے  وہ کس قدر کم ہو، یہ بات بھی ہے کہ پھل کی حقیقت بھی یہ ہے کہ یہ یکے بعد دیگرے پکتے ہیں۔

اس سے یہ واضح ہو گیا کہ کسی بھی پھل کے پکنے کے شروع ہونے سے قبل درخت پر ہی اس کو فروخت کرنا جائز نہیں۔۔۔

امید ہے جواب واضح ہو گیا ہے

 

آپ کابھائی،

 عطاء بن خلیل ابو الرشتہ

17 جمادی الاولی 1438ھ

14/2/2017 م

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک