الإثنين، 23 جمادى الأولى 1446| 2024/11/25
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

سوال کا جواب:

اسراء اور معراج کے واقعے سے قبل مسلمانوں کی نماز

 

 ابو محمود المقدسی کو

سوال:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

کتاب اسلامی ریاست  صفحہ 11 میں آیا  ہے کہ   نماز پڑھنےکے لیے پہاڑوں کی گھاٹیوں میں چلے جاتے اور اپنی نماز کو اپنی قوم سے پوشیدہ  رکھتے اور یہ  دعوت کے خفیہ مرحلے میں  ہوتا تھا۔۔۔چنانچہ وہ کونسی نماز تھی جس کو صحابہ  چھپ کر اپنی قوم کی نظروں سے اوجھل رکھ کر ادا کرتے تھے جبکہ ہم جانتے  ہیں  کہ نماز اسراء  کی رات فرض کی گئی  اور یہ بات بھی ہے کہ نص میں لفظ صلاۃ آئے تو اس کا مطلب  نماز ہی ہے جو مخصوص شعائر اور حرکات کے ساتھ ہوتی ہے اس سے مراد دعا نہیں  ہے۔  ختم شد

 

جواب:

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبر کاتہ،

اس مسئلے میں اس لحاظ سے اختلاف ہے کہ  اسراء اورمعراج کے واقعے سے قبل مسلمان کونسی نماز پڑھتے تھے۔۔۔ہم جس بات کو ترجیح دیتے ہیں وہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ اور مسلمان اسراء اور معراج کے دوران پانچ نمازوں کے فرض ہونے سے قبل  دو رکعت طلوع آفتاب سے پہلے اور دو رکعت غروب آفتاب سے پہلے پڑھتے تھے جس کے دلائل میں سے کچھ یہ ہیں:

 

اول: سورۃ علق کی آیات کے نزول کا سبب،  جو کہ نازل ہونے والی پہلی سورت ہے، مندرجہ ذیل تھیں:

مسلم نے اپنے صحیح میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ: ابوجہل نے کہا: کیا محمد تمہارے درمیان اپنے چہرے  گرد آلود(سجدہ) کرتا ہے؟ کہا گیا : ہاں، اس نے کہا: لات اور عزی کی قسم اگر میں نے ان کو یہ کرتے ہوئے دیکھا تو ان کی گردن پر سوار ہوں گا یا ان کے چہرے کو خاک آلود کردوں گا۔   چنانچہ وہ  رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور آپ ﷺ نماز پڑھ رہے تھے، وہ رسول اللہ ﷺ کے گردن پر سوار ہونے کا ارادہ رکھتا تھا،کہ مگر اچانک پیچھے ہٹنے لگا اور اپنے ہاتھوں سے دفاع کرنے لگا ،  اس سے کہا گیا:کیا ہوا؟اس نے کہا: میرے اور ان کے درمیان آگ کی ایک خندق ہے، ہولناکی اور پَر تھے، اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

«لَوْ دَنَا مِنِّي لَاخْتَطَفَتْهُ الْمَلَائِكَةُ عُضْوًا عُضْوًا»

"اگر وہ میرے قریب آتا تو فرشتے اس کو اچک کر ٹکڑے ٹکڑے کر دیتے"۔

 کہتا ہے کہ اس پر اللہ عز وجل نے یہ آیات نازل فرمائی  -:

﴿كَلَّا إِنَّ الْإِنْسَانَ لَيَطْغَى، أَنْ رَآهُ اسْتَغْنَى إِنَّ إِلَى رَبِّكَ الرُّجْعَى، أَرَأَيْتَ الَّذِي يَنْهَى، عَبْدًا إِذَا صَلَّى، أَرَأَيْتَ إِنْ كَانَ عَلَى الْهُدَى، أَوْ أَمَرَ بِالتَّقْوَى، أَرَأَيْتَ إِنْ كَذَّبَ وَتَوَلَّى﴾

"ہر گز نہیں  انسان یقینا ًسرکشی کرتا ہے وہ اپنے آپ کو بے نیاز سمجھتا ہے ، اپنے رب کے پاس اس کو لوٹ کر جانا ہے۔  کیا تم نے اس شخص(ابوجہل) کو دیکھا ہے جو بندے کو نماز پڑھنے سے روکتا ہے؟  کیا خیال ہے کہ کیا یہ ہدایت پر ہے یا جوتقوی کا حکم دیتا ہے مگر یہ تو جھٹلاتا ہے اور منہ پھیر تا ہے"(علق:13-6)۔

﴿أَلَمْ يَعْلَمْ بِأَنَّ اللهَ يَرَى، كَلَّا لَئِنْ لَمْ يَنْتَهِ لَنَسْفَعًا بِالنَّاصِيَةِ، نَاصِيَةٍ كَاذِبَةٍ خَاطِئَةٍ، فَلْيَدْعُ نَادِيَهُ سَنَدْعُ الزَّبَانِيَةَ، كَلَّا لَا تُطِعْهُ﴾

"کیا یہ نہیں جانتا کہ اللہ دیکھ رہا ہے ، ہرگز نہیں اگر یہ باز نہ آئے تو ہم اس کو پیشانی کے بال سے گھسیٹیں گے اس پیشانی کے جو جھوٹی اور خطا کار ہے اس کو چاہیے کہ اپنی مجلس والوں کو بلائے ہم بھی جہنم کے پیادوں کو بلائیں گے  ہر گز نہیں اس کی بات مت سننا"(علق:19-14)۔۔۔

 

 

احمد نے بھی اپنے مسند میں اسی قسم کی روایت کی ہے۔

البحر المحیط کے مصنف نےکہا ہے کہ "ابن عطیۃ نے کہا  کہ : مفسرین میں سے کسی نے بھی اس بات سے اختلاف نہیں کیا ہے کہ نماز سے روکنے والا ابوجہل تھا، اور نماز پڑھنے والا بندہ  اللہ کے رسول محمد ﷺ تھے (البحر المحیط 8/369 )۔

یہ سورت  نازل ہونے والی وہ پہلی سورت ہے  جس میں رسول اللہ ﷺ کی نماز اور ابوجہل کی غنڈہ گردی کا ذکر ہے اور یہ خفیہ مرحلے  کے دورمیں ہوا،  یوں اسراء اور معراج سے قبل نماز تھی۔

 

دوسرا: ابن ھشام کی سیرت نبوی کی شرح الروض الانف جو  ابو القاسم عبد الرحمن السھیلی (المتوفی 581 ہجری) کی کتاب  کے باب نماز کی فرضیت میں ہے کہ : المزنی نے ذکر کیا ہے کہ اسراء سے قبل نماز  طلوع آفتاب سے قبل اور غروب آفتاب سے قبل تھی  اور اس کی تصدیق اللہ  سبحانہ وتعالیٰ کے اس قول سے ہوتی ہے،  وَسَبّحْ بِحَمْدِ رَبّكَ بِالْعَشِيّ وَالْإِبْكَارِ " اور صبح  و شام اپنےرب کی پاکی بیان کر"(الغافر:55)۔ یحی بن سلام (المتوفی 855 ہجری) نے بھی  اپنی کتاب سنن ابی داود کی شرح میں اسی طرح کہا ہے کہ ابو محمد محمود الغیتابی الحنفی بدر الدین العینی  نے کہا ہے کہ : نماز طلوع آفتاب سے پہلے اور غروب آفتاب سے پہلے تھی اور دلیل میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا یہی قول پیش کیا ہے، ﴿وَسَبّحْ بِحَمْدِ رَبّكَ بِالْعَشِيّ وَالْإِبْكَارِ﴾ "اور صبح و شام اپنے رب کی حمدو ثنا کر"(الغافر:55)۔

کتاب " البحر الرائق شرح کنز الدقائق و منحۃ الخالق وتکملۃ الطوری" جو کہ زین الدین بن ابراھیم المعروف ابن نجیم المصری (المتوفی 970ہجری) میں بھی یہی آیا ہے:

"اسراء سے قبل نمازیں دو تھیں: طلوع آفتاب سے قبل اور غروب آفتاب سے قبل۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا، وَسَبّحْ بِحَمْدِ رَبّكَ بِالْعَشِيّ وَالْإِبْكَارِ "اور صبح و شام اپنے رب کی پاکی بیان کر"(الغافر:55)۔

یہ  اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ اور مسلمان  طلوع آفتاب سے قبل اور غروب آفتاب سے قبل نماز پڑھا کرتے تھے۔

تیسرا: رہی یہ بات کہ یہ نماز کتنی رکعت کی ہوتی تھی تو اس حوالے سے فقہاء میں اختلاف ہے جیسا کہ ہم نے کہا ہے، تاہم بعض روایات کے مطابق یہ طلوع آفتاب سے قبل دو رکعت اور غروب آفتاب سے قبل دو رکعت تھی، مذکورہ روایات میں سے کچھ یہ ہیں:

 

1۔الماوردی ابو الحسنی  بن محمد البغدادی نے، جو  الماوردی (المتوفی 450ہجری) کے نام سے معروف ہیں،  اپنی تفسیر" النکت و العیون"میں اس  آیت"اپنے رب کے حکم سے صبح و شام نماز پڑھ " کی تفسیر میں  کہا ہے  کہ مجاہد نے کہا ہے کہ : ، اس میں تین اقوال ہیں۔۔۔  اورتیسرا یہ کہ پانچ نمازوں کے فرض ہونے سے پہلے مکہ میں صبح و شام کی دو رکعت نماز تھی، الحسن نے بھی یہی کہا ہے"۔

2۔ شمس الدین ابو عبد اللہ الطرابلسی المغربی(المتوفی 954ہجری) جو کہ  الحطاب الرعینی المالکی کے نام سے معروف ہیں  نے اپنی کتاب " الجلیل فی شرح مختصر خلیل" نماز کی فرضیت کے باب میں کہا ہے کہ :

"ابن حجر نے کہا ہے جبکہ اس سے قبل اس میں اختلاف تھا  چنانچہ ایک گروہ  کی یہ رائے تھی کہ اسراء سے قبل رات کی نماز کے سوا کوئی فرض نماز نہیں تھی بغیر تحدید کے  اور الحربی  کی رائے یہ ہے کہ صبح و شام دو رکعت نماز فرض تھی"۔

3۔ ابو الولید محمد بن رشد القر طبی (المتوفی 520 ہجری)نے اپنی کتاب " المقدمات الممھدات"  میں کہا ہے کہ :

"شروع میں  پانچ نمازوں کے فرض ہونے سےقبل  صبح و شام دو رکعت نماز ہوتی تھی ۔ الحسن سے اللہ کے اس فرمان ، وَسَبّحْ بِحَمْدِ رَبّكَ بِالْعَشِيّ وَالْإِبْكَارِ "اور صبح و شام اپنے رب کی پاکی بیان کر"(الغافر:55)، کے حوالے سے یہ روایت کی گئی ہے کہ  پانچ نمازوں کے فرض ہونے سے پہلے 9 سال تک  مکہ میں  رسول اللہ ﷺ اور مسلمان  دو رکعت نماز صبح اور شام  پڑھتے رہے"۔

یہ روایات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ اسراء اور معراج سے پہلے  مکہ میں صبح و شام دو رکعت نماز تھی۔

 

چوتھا: ہم نے الدولۃ کتاب کے صفحہ 12، 13 (عربی کتاب) میں جو کچھ کہا ہے یہ اس کی تفسیر ہے:

"آپ ﷺ مکہ میں اللہ کے اس حکم   ﴿يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ * قُمْ فَأَنْذِرْ﴾ "اے  کمبل میں لپٹے اٹھو اور ڈراو"(المدثر:2-1)  کی تکمیل کرتے ہوئے خفیہ  طریقے سےلوگوں کو اسلام کی طرف دعوت دیتے تھے، آپ ﷺ لوگوں سے رابطے کرتے تھے اور ان کے سامنے اپنے دین کو پیش کرتے تھے اور اسی دین کی بنیاد پر ان کو اپنے گرد  ایک جماعت کے طو ر پر منظم کر تے رہے، اور جب رسول اللہ ﷺ کے صحابہ نماز پڑھنا چاہتے تو وہ پہاڑوں کی گھاٹیوں میں جاتے اور اپنی قوم کی نظروں سے بچ کر نماز ادا کرتے۔۔۔"

امید ہے کہ یہ مسئلہ واضح ہو گیا ہے۔

 

آپ کا بھائی ،

عطا بن خلیل ابو الرشتہ

15 ربیع الآخر 1438 ہجری

13/1/2017

Last modified onجمعہ, 10 فروری 2017 22:19

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک