الإثنين، 23 جمادى الأولى 1446| 2024/11/25
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

 

سوال کا جواب

 

کیا زمین کا کوئی مالی معاوضہ جائز ہے؟

صالح ناتیش کو

 

سوال:

 

السلام علیکم ورحمۃ اللہ،

میرا ایک سوال ہے وہ یہ کہ  دو بندوں کا زراعت میں شراکت کا کیا حکم ہے،  پہلے شخص کے پاس زمین ہے جبکہ دوسرا اس کو کاشت کرتا ہے۔ کیا یہ جائز ہے یا مزارعت ہے؟  میں تذبذب کا شکار ہوں، کچھ شباب نے کہا کہ یہ مزارعت ہے جبکہ بعض نے کہا ں یہ جائز ہے اگر  زمین کا مالک تین سال کے اندر اس کو فروخت کر سکتا ہے  جو کہ اس زمین کو کاشت میں لانے کے لئے دی جانے والی مہلت ہے۔ اللہ برکت دے۔

 

جواب:

 

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،

 

مزارعت زمین کو کاشتکاری کے لیے کرائے پر لینا ہے اور  مزارعت کی حرمت پر کئی دلائل موجود ہیں جن میں سے کچھ یہ ہیں:

 

1۔ بخاری نے اپنی صحیح میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مَنْ كَانَتْ لَهُ أَرْضٌ، فَلْيَزْرَعْهَا أَوْ لِيَمْنَحْهَا أَخَاهُ، فَإِنْ أَبَى، فَلْيُمْسِكْ أَرْضَهُ" جس کے پاس زمین ہو وہ یا تو خود کاشت کرے یا اپنے بھائی کودے، اگر وہ انکار کرے تو اپنی زمین کو سنبھالے"۔

 

2۔ مسلم نے جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ : أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم نَهَى عَنِ الْمُخَابَرَةِ" نبی ﷺ نے مخابرہ(مزارعت) سے منع کیا ہے"۔

 

3۔ مسلم نے جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ : نَهَى رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم أَنْ يُؤْخَذَ لِلْأَرْضِ أَجْرٌ، أَوْ حَظٌّ   "رسول اللہ ﷺ نے  زمین کی اجرت یا حصے سے منع کیا ہے"۔

 

4۔   رافع بن خدیج سے روایت ہے کہ : ہم رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں مخابرہ(شراکت سے) کاشتکاری کرتے تھے، کہتا ہے کہ ان کا کوئی چاچا ان کے پاس آیا اور کہا:رسول اللہ ﷺنے ہمیں ایک ایسے کام سے منع کر دیا ہے جس میں ہمارا فائدہ تھا مگر اللہ  اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت توسب سے زیادہ نفع بخش ہے ، کہتے ہیں کہ ہم نے پوچھا وہ کیا ہے؟ کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ: مَنْ كَانَتْ لَهُ أَرْضٌ فَلْيَزْرَعْهَا، أَوْ فَلْيُزْرِعْهَا أَخَاهُ، وَلَا يُكَارِيهَا بِثُلُثٍ وَلَا بِرُبُعٍ وَلَا بِطَعَامٍ مُسَمًّى "جس کے پاس زمین ہو تو اس کو چاہیے کہ خود کاشت کارے یا کاشت کے لیے اپنے بھائی کو دے، پیداوار کے تیسرے حصے کے بدلے نہ دے نہ ہی چوتھائی کے بدلے اور نہ ہی کسی خاص مقدار کے اناج کے بدلے"اس کو ابو داود نے روایت کیا ہے۔

 

5۔ سنن نسائی میں اسید بن زہیر سے روایت ہے کہ نَهَى رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم عَنْ كِرَاءِ الأَرْضِ، قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللهِ، إِذًا نُكْرِيهَا بِشَيْءٍ مِنْ الْحَبِّ، قَالَ: لا، قَالَ: وَكُنَّا نُكْرِيهَا بِالتِّبْنِ، فَقَالَ: لا، وَكُنَّا نُكْرِيهَا عَلَى الرَّبِيعِ، قَالَ: لا، ازْرَعْهَا أَوْ امْنَحْهَا أَخَاكَ"رسول اللہ ﷺ نے زمین مزارعت کے لیے دینے سے منع فرمایا، ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول  کیا ہم اناج کی خاص مقدار کے بدلے مزارعت پر دے سکتے ہیں  فرمایا : نہیں ، ہم بھس کے بدلے مزارعت پر دیتے تھے فرمایا: نہیں،  ہم ربیع کے بدلے مزارعت پر دیتے تھے (ربیع  چھوٹی نہر(نالہ) ہوتی ہے یعنی  ہم  نہر کے ساتھ ساتھ پانی کی طرف  زمین کو آباد کرنے کے لیے مزارعت پر دیتے تھے)فرمایا: خود کاشت کرو یا اپنے بھائی کو دو"۔

 

ان احادیث سے مزارعت کی حقیقت معلوم ہو جاتی ہے کہ یہ زمین کو کاشت کے لیے دینا ہے  چاہے اجرت،  اسی کے پیداوار کا کوئی حصہ ہو یا کچھ اور۔۔۔ اس سے مزارعت کی حرمت بھی واضح ہو جاتی ہے۔۔۔

مندرجہ بالا دلائل سے یہ بالکل واضح ہو گیا کہ کسی بھی چیز کے بدلے زمین کو کاشت کے لیے دینا جائز نہیں خاص کر مسلم کی حدیث  بالکل صریح ہے کہ نَهَى رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم أَنْ يُؤْخَذَ لِلْأَرْضِ أَجْرٌ، أَوْ حَظٌّ " رسول اللہ ﷺ نے  زمین پر اجرت لینے سے منع کیایا پیداوار کا کوئی حصہ لینے سے منع کیا"، اور البخاری کی حدیث مَنْ كَانَتْ لَهُ أَرْضٌ، فَلْيَزْرَعْهَا أَوْ لِيَمْنَحْهَا أَخَاهُ..." جس کے پاس زمین ہو خود کاشت کرے یا اپنے بھائی کو دے"، اسی طرح نسائی کی حدیث ... ازْرَعْهَا أَوْ امْنَحْهَا أَخَاكَ"۔۔۔خود کاشت کرو یا اپنے بھائی کو دو"  اس لیے  زرعی زمین کا معاوضہ جائز نہیں۔

 

اس بنا پر آپ کے سوال میں جو کہا گیا ہے کہ "ایک کے پاس زمین ہے دوسرا اس کو کاشت کر تا ہے۔۔۔" زمین  یہاں  مال ہے اور اس میں حصہ ہے یعنی مزارعت کا حکم اس پر لاگو ہے اس کو شراکت کا نام دینے سے کوئی فرق نہیں پڑتا  بلکہ یہ مزارعت ہی ہے جو کہ جائز نہی۔ اسی طرح تین سال یا اس کے بعد کا حکم شرعی پر کوئی اثر نہیں ہو گا۔ حکم شرعی اس عقد کے بارے میں ہے اوریہ عقد اس وقت ہی باطل ہے جب زمین کے بدلے کچھ لیا جائے چاہے اس کی نوعیت کچھ بھی ہو  جیسا کہ مذکورہ دلائل سے واضح ہے۔۔۔

 

آپ کا بھائی،

عطاء بن خلیل ابو الرشتہ

 

19 شعبان 1437ہجری

26 مئی 2016

Last modified onاتوار, 04 دسمبر 2016 11:44

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک