الإثنين، 23 جمادى الأولى 1446| 2024/11/25
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية
معاملات میں ترجیحات کے برخلاف فیصلہ کرنا

بسم الله الرحمن الرحيم

سوال کا جواب: خلاف اولی ۔۔۔نعمان ابو علی

معاملات میں ترجیحات کے برخلاف فیصلہ کرنا

سوال

    السلام علیکم،

کیا رسول اللہ ﷺ کا معاملات میں ترجیحات کے برخلاف ( خلاف اولی ) فیصلہ کرنا اجتہاد کہلائے گا یا یہ کوئی اور معاملہ ہے؟ برائے مہربانی وضاحت کیجئے۔  اللہ بر کت دے اور آپ کی راہنمائی کرےاور آپ کی مدد کرے

جواب

  وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

  شاید آپ کا سوال الشخصیۃ الاسلامیہ جلد-1 کے حوالے سے ہے جس میں یہ  کہا گیا ہےکہ "یہ کہنا مناسب نہیں کہ رسول اللہﷺ کو مجتہد کہا جائے لیکن یہ ہوسکتا ہے کہ وہ معاملات میں ترجیحات کے بر خلاف (خلاف اولی)  فیصلہ کریں " ،اسی لیے آپ  نےاجتہاد اور خلاف اولی کے درمیان فرق کے بارے میں پوچھا ہے۔

  اس سوال کے جواب کے لیے  اجتہاد  اور خلاف اولی کی خلاف ورزی کی حقیقت کو سمجھنا ضروری ہے۔۔۔

پہلا: اجتہاد لغت میں کسی ایسے  امر کی تحقیق میں حتی الوسع کوشش کرنا  ہےجو مشکل اور مشقت طلب ہو ۔جبکہ  اُصول  کی اصطلاح میں  احکام شرعیہ میں سے  کسی رائے کو جاننے کے لئے اس قدر  اورحتی الوسع کو شش کر نا کہ  یہ محسوس ہونے لگے کہ اب مزید کوشش کرنا ممکن نہیں رہا ۔

اس کےیہ معنی ہیں کہ کسی مسئلے میں حکم شرعی مجتہد کو معلوم نہیں ہو تا اسی لیے اس حکم شرعی کو معلوم کرنے کے لیے وہ اجتہاد کر تا ہے، وہ اس مسئلے کی حقیقت  کو سمجھنے اور اس سے متعلقہ شرعی دلائل کو معلوم کرنے  کی مقدور بھر کوشش کر تا ہے، وہ اس کاوش میں اپنی بھر پور کوشش کر کے ایک رائے قائم کر لیتا ہے جس کے بارے میں اس کا غالب گمان یہ ہو تا ہے کہ اس مسئلے میں یہی حکم شرعی ہے۔

اس معنی کے مطابق اجتہاد  نبی ﷺ کے حق میں درست نہیں  کیونکہ صریح آیات اس بات پر دلالت کرتی  ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نےجس چیز کو بھی بیان کیا ے وہ سب کی سب وحی ہے:﴿قُلْ إِنَّمَا أُنْذِرُكُمْ بِالْوَحْيِ﴾"کہہ دیجئے کہ میں صرف وحی کے ذریعے ہی ڈراتا ہوں"(الانبیاء:45)، ﴿إنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَى إِلَيَّ ﴾"میں بس اسی چیز کی پیر وی کرتا ہوں جو میری طرف وحی کی جاتی ہے"(الاحقاف:09)، ﴿وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى * إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى﴾" یہ(اپنی) خواہش سے نہیں بولتے یہ جو کچھ بولتے ہیں وہ سب وحی ہے"(النجم:4-3)، اس کا مطلب ہے کہ رسول اللہ ﷺ اجتہاد نہیں کر تے تھے بلکہ وحی کے ذریعے ملنے والے احکام شرعیہ کو بیان کر تے تھے۔

مجتہد کی جانب سے غلطی کرنے کا خطرہ موجود ہو تا ہے اس لیے  اگر وہ درست نتیجے پر پہنچتا ہے تو اس کے لیے دو اجر اور اگر غلطی کر تا ہے تو اس کے لیے ایک اجر ہے۔جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کی حدیث میں آیا ہے کہ :  «إِذَا حَكَمَ الْحَاكِمُ فَاجْتَهَدَ ثُمَّ أَصَابَ، فَلَهُ أَجْرَانِ، وَإِذَا حَكَمَ فَاجْتَهَدَ ثُمَّ أَخْطَأَ، فَلَهُ أَجْرٌ»" اگر ایک فیصلہ کرنے والے نے اجتہاد کرکے فیصلہ کیا اور اجتہاد بھی درست تھا تو اسکے لیے دو اجر ہیں اور اگر اجتہاد کر کے فیصلہ کیا مگر اجتہاد غلط تھا تو اس کے لیے  ایک اجر ہے" (اس کو بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے)۔

رسول اللہ ﷺ شرع میں معصوم عن الخطاء ہیں، اس لیے آپ ﷺ کے لیے مجتہد ہو نا جائز ہی نہیں کیونکہ اجتہاد میں درستگی اور غلطی دونوں کا امکان ہے، جبکہ رسول اللہ ﷺ نے جو بھی احکام بتائیں ہیں چاہے اپنے فعل سے ،قول سے یا سکوت سے یہ سب  اللہ کی طرف سے وحی کے علاوہ کچھ نہیں۔

  یہ بات قابل ذکر ہے  کہ  کئی موقعوں پر رسول اللہ ﷺنے کئی احکامات کے بارے  خاموشی اختیار کی حالانکہ  حکم کو بیان کرنے  کی سخت ضرورت تھی  مگر رسول اللہ ﷺ نے کوئی اجتہاد نہیں کیا بلکہ اللہ کی طرف سے حکم کے نازل ہونے کا انتظار کیا  جو اس بات کی دلیل ہے کہ آپ ﷺ مجتہد نہیں  تھے  اور آپ ﷺ کے لیے اجتہاد جائز نہیں کیونکہ اگر آپ ﷺ کے لیے اجتہاد جائز ہو تا تو آپ ﷺ ضرورت کے باوجود حکم کو موخر نہ کرتے۔

پس رسول اللہ ﷺ جو کچھ بھی لے کر آئے ہیں وہ آپ ﷺ کا اجتہاد نہیں وحی ہے۔

دوسرا: جہاں تک خلاف اولی کی بات ہے اس کے معنی یہ ہیں کہ حکم شرعی معلوم ہے اور وہ " مباح" ہے ، مگر اس میں کچھ کر نا کچھ اور کرنے سے بہتر ہے۔یا  حکم شرعی مندوب ہے  مگر کچھ کرنا کچھ اور کرنے سے  اولی(بہتر) ہے۔

  کسی شخص کے لیے شہر میں رہنا یا گاوں میں ہی رہائش اختیار کرنا دونوں مباح ہیں، مگر شہر  میں رہنا گاوں میں رہنے سے اولی  ہے کیونکہ گاوں کا حکمرانی اور حکمرانوں کے احتساب کے امور سے تعلق نہیں ہو تا، اس لیے جس نے گاوں میں سکونت اختیارکی اس نے خلاف اولی کام کیا۔

  اسی طرح چھپا کر اور ظاہری طور پر صدقہ دینا دونوں مندوب ہیں مگر  چھپا کر دینا اعلانیہ دینے سے اولی(بہتر) ہے، اگر کسی نے اعلانیہ دیا تو اس نے خلاف اولی کیا۔

خلاف اولی کے اس معنی کے اعتبار سے رسول اللہ ﷺ کے لیے بھی کوئی خلاف اولی کام کرنا جائز ہے۔عملاً آپ نےکئی خلاف اولی کام بھی کیے جس پر اللہ سبحانہ وتعالی نے آپﷺ کو تنبیہ کی: ﴿عَفَا اللَّهُ عَنْكَ لِمَ أَذِنْتَ لَهُمْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكَ الَّذِينَ صَدَقُوا وَتَعْلَمَ الْكَاذِبِينَ﴾" اللہ تجھے معاف کرے، تو نے انہیں کیوں اجازت دےدی(پیچھے رہ جانے کی)؟بغیر اس کے کہ تیرے سامنے سچے لوگ ظاہر ہو جائیں اور تو جھوٹے لوگوں کو بھی جان لے "(التوبۃ:43)،یہ اجتہاد پر دلالت نہیں  کر تا ہے  کیونکہ اس آیت کے نزول سے قبل  حکم یہ تھا کہ رسول اللہ ﷺ کے لیے یہ جائز ہے کہ جس کو چاہیں اجازت دیں ،جیسا کہ سورہ نور کی آیت میں ہے کہ  ﴿فَإِذَا اسْتَأْذَنُوكَ لِبَعْضِ شَأْنِهِمْ فَأْذَنْ لِمَنْ شِئْتَ مِنْهُمْ ﴾"اگر یہ اپنے کسی کام کے لیے آپ  سے اجازت چاہیں تو ان میں سے جس کو چاہو اجازت دو"(النور:62)،۔ یہ سورت  سورۃ حشر کے بعد نازل ہوئی  کیونکہ سورۃ حشر خندق کے موقعے پر نازل ہوئی اور یہ آیت   ﴿عَفَا اللَّهُ عَنْكَ﴾ "اللہ تجھے معاف کرے " سورۃ تو بہ میں آئی ہے، یہ نو ہجری میں غزوہ تبوک کے بارے میں نازل ہوئی ہے، اس لیے حکم معلوم تھا اور سورہ نور کی آیت صریح تھی جو اس بات پر دلالت کر تی تھی کہ رسول ﷺ کے لیے اجازت دینا جائز تھا۔

  لیکن  غزوہ تبوک کے جس واقعے پر  سورۃ توبہ کی یہ آیت نازل ہوئی اور جس میں جیش العسرۃ کو تیار کیا گیا تھا  اس میں اولی (بہتر)یہ تھا کہ رسول اللہ ﷺ منافقین کو پیچھے رہنے کی اجازت نہ دیتے۔ مگر جب اس واقعے  میں انہوں نے منافقین کو پیچھے رہنے کی اجازت دی  تو اللہ نے اس عمل پر آپ ﷺ کو تنبیہ کی ، یعنی خلاف اولی عمل کرنے پر آپﷺ کو تنبیہ کی۔

  یہ آیت  رسول  اللہ کے اجتہاد کو درست کرنے کے لیے نہیں نازل ہوئی ، نہ ہی کسی ایسے واقع پر  جس میں رسول  اللہ نے  اجتہاد کیا ہو  ایک ا یسا حکم بتانے کے لیے نازل ہوئی ہے  جو کہ اس  حکم سے متصادم ہے  جورسول اللہ کے اجتہاد سے نکالا    گیا ہے،  بلکہ یہ صرف خلاف اولی عمل کرنے پر تنبیہ ہے۔

تیسرا: اس بنیاد پر رسول اللہ ﷺ کے لیے مجتہد ہو نا جائز نہیں، بلکہ آپ ﷺ کی طرف سے ہر بات اللہ کی طرف سے وحی ہوتی ہے، یہ وحی  یا تو لفظی اور معنو ی  ہوتی ہے جیسا کہ قرآن کریم ہے یا پھر صرف معنی کے لحاظ سے جس کی تعبیر رسول اللہ ﷺ اپنے الفاظ  یا اپنے سکوت میں کرتے ہیں  جو کہ حکم کی طرف اشارہ ہو تا ہے، یا اپنے فعل کے ذریعے  اور یہی سب کچھ سنت ہے۔

یوں اجتہاد اور خلاف اولی کے درمیان فرق واضح ہو گیا، رسول اللہ ﷺ کے لیے اجتہاد جائز نہیں  کیوں آپ ﷺ معصوم عن الخطا ہیں، مگر آپ ﷺ کے لیے  کوئی خلاف اولی کام کرنا جائز ہے کیونکہ  خلاف اولی عمل کرنا  خطاء نہیں۔

آپ کا بھائی عطاء بن خلیل ابو الرشتہ

26 ذی الحجۃ 1436 ہجری

10 اکتوبر 2015

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک