الإثنين، 23 جمادى الأولى 1446| 2024/11/25
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

جہاد کیا ہے؟ (1)

محمد عمران

 

جہاد اسلام کا وہ حکم ہے جس کی فہم کو دانستہ طور پر پراگندہ کر دیا گیا ہے۔  اس سازش میں استعمار اور اس کے ایجنٹ حکمران پیش پیش رہے ہیں۔  نام نہاد مفکرین اور سکالرز کو ٹی وی پرلا کر جہاد سے متعلق غلط افکار کی اس طرح تشہیر کی گئی کہ امت اس واضح اسلامی حکم کے بارے میں کنفیوژن کا شکار ہو گئی۔  چنانچہ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس اہم اسلامی حکم کی قرآن و سنت کی روشنی میں وضاحت کی جائے۔ 

 

اگرچہ لفظ جہاد کے لفظی معنی ''کوشش کرنے ''کے ہیں تاہم شرعی اصطلاح میں جہاد صرف اللہ کے کلمہ کو بلند کرنے(لاعلاءکلمة اللہ) کیلئے لڑنے یعنی قتال کرنے کو کہتے ہیں۔  جس طرح شہید کے لغوی معنی 'گواہ 'کے ہیں لیکن شرعی اصطلاح کے طور پر 'شہید'  یکسر مختلف مفہوم رکھتا ہے۔  یہی معاملہ 'حدود'  کا ہے جو عام معنی میں (Limits) قیود کو کہتے ہیں تاہم اس کے شرعی معانی سات مخصوص جرائم کی پاداش میں وارد ہونے والی سزائیں ہیں۔  بالکل اسی طرح جہاد ایک شرعی اصطلاح ہے جسے جب بھی مطلق طور پر استعمال کیاجائیگا اس کے شرعی معنی ہی لئے جائینگے نہ کہ لفظی معنی۔  جہاد فی سبیل اللہ کے شرعی معنی وہ ہیں جو آپ ﷺنے اپنی اس حدیث میں بیان فرمائے۔  آپ ﷺ سے پوچھا گیا کہ قتال فی سبیل اللہ کیا ہوتا ہے۔  آپ ﷺ نے فرمایا:  ((من قاتل لتکون کلمة اللہ ہی العلیا، فھو فی سبیل اللہ)) ''جو کوئی اللہ کے نام کو بلند کرنے کے لئے (لاعلاء کلمة اللہ)  لڑا،  تو وہی اللہ کی راہ (فی سبیل اللہ) میں ہے ۔  (بخاری و مسلم)۔

 

جہاد کی تعریف:

مشہور فقیہ ابن عابدین کہتے ہیں (الجھاد ھو بذل الوسع فی القتال فی سبیل اللہ) ''  اللہ کے راہ میں قتال کے لئے مقدور بھر جدوجہد کرنا جہاد کہلاتا ہے ''۔  امام ابن ابی زید قیروانی کی تعریف کے مطابق (وھو قِتال الکفارِ لِعلاءِ کلِمةِ اللہِ)  ''یہ (جہاد) اللہ کا کلمہ بلند کرنے کے لئے کافروں کے خلاف قتال (جنگ) ہے ''۔  چنانچہ شریعت کی رو سے اللہ کے کلمہ کو بلند کرنے (ِاعلاءِ کلمة اللہ)کے لئے قتال کے عمل میں کوشش اور محنت کرنا  'جہاد'   کہلاتا ہے۔  خواہ یہ جہاد براہ راست ہو (یعنی از خود لڑنا)  یا مال سے (یعنی قتال کے لئے درکار فنڈز مہیا کرنا)  یا زبان سے (یعنی لوگوں کو جہاد کرنے یا اس کے لئے مال و متاع مہیا کرنے کے لئے ابھارنا) ۔  لہٰذا یہ ہے جان، مال اور زبان سے جہاد کرنے کا مطلب۔  اگر یہ کوشش براہ ِراست کافروں کے خلاف قتال سے متعلق نہ ہو تو پھر یہ شریعت کی رو سے جہاد نہیں خواہ اس میں مشکلات کا سامنا ہی کیوں نہ کرنا پڑے ۔   یہی معاملے بولنے اور لکھنے کا ہے کہ ان کو براہِ راست جہاد سے متعلق ہونا چاہئے محض اچھی بات کہنا یا حکمرانوں کے سامنے کلمہ حق بلند کرنا شرعی جہاد کے زمرے میں نہیں آتا۔  چنانچہ فوج یا امت کو جہاد کی ترغیب دینا، ان کی ہمت بڑھانا ،ان کے سامنے دشمن پر ٹوٹ پڑنے کے فضائل بیان کرنا وغیرہ جہاد باللسان کے زمرے میں آتے ہیں۔  سیاسی جدوجہد اور حکمرانوں کا محاسبہ کرنے کا اجر بہت زیادہ ہے اور امت کو اس کا عظیم فائدہ ہے تاہم اس کے باوجود یہ جہادکی شرعی تعریف میں داخل نہیں۔  مزید برآں یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ کینسر، پولیو اور آلودگی کے خلاف کوششیں کسی صورت جہاد نہیں ہیں لہٰذا جہاد کے لفظ کو ان کوششوں کے ساتھ منسلک کرنا نا صرف ناجائز بلکہ خطرناک ہے کیونکہ ایسا کرنے سے معاشرے میں جہاد کی شرعی اصطلاح اوردرست  فہم پراگندہ ہوتی ہے۔  اسی طرح نفس کے خلاف ''جہاد''،  یا اس ابتلاء کے دور میں حق پر ڈٹے رہنا وغیرہ بھی جہاد نہیں اگرچہ یہ سب اجر کے کام ہیں۔  ام المؤمنین سیدہ عائشہ   کی حدیث اس حقیقت کی وضاحت کرتی ہے۔  سیدہ عائشہ  نے رسول اللہ ﷺ سے استفسار فرمایا کہ کیا عورتوں کے لئے بھی جہاد ہے؟  آپ ﷺ نے فرمایا:

((نعم علیھن جھاد لا قتال فیہ،  الحج والعمرة))

''ہاں! ان کے لئے بھی جہاد ہے مگر اس میں قتال نہیں، یعنی حج اور عمرہ''۔(رواہ ابن ماجہ)

  اس سے ملتی جلتی حدیث بخاری میں بھی موجود ہے۔  چنانچہ معلوم ہوا کہ ''الجہاد'' ہوتا ہی قتال ہے البتہ آپ ﷺ نے عورتوں کے لئے استثناء بتا دیا کہ ان کے جہاد میں قتال نہیں ہوتا بلکہ عورتیں جہاد جتنا ثواب حج اور عمرہ کر کے حاصل کر سکتی ہیں۔ 

جہاد کی فرضیت:

جہاد قرآن و سنت کی صریح نص کی بنیاد پر فرض ہے۔  اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا: (کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِتَالُ)  '' اور تم پر جہاد لکھ دیا گیا ہے...''  (البقرہ: 216)اور فرمایا: وَقَـٰتِلُوهُمۡ حَتَّىٰ لَا تَكُونَ فِتۡنَةٌ۬ وَيَكُونَ ٱلدِّينُ لِلَّهِ‌ۖ  ''اور لڑو ان سے یہاں تک کہ کوئی فتنہ باقی نہ رہے اور دین سارے کا سارے اللہ کے لئے ہو جائے۔'' (البقرہ :193) اور فرمایا:قَـٰتِلُواْ ٱلَّذِينَ لَا يُؤۡمِنُونَ بِٱللَّهِ وَلَا بِٱلۡيَوۡمِ ٱلۡأَخِرِ وَلَا يُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ ٱللَّهُ وَرَسُولُهُ ۥ وَلَا يَدِينُونَ دِينَ ٱلۡحَقِّ مِنَ ٱلَّذِينَ أُوتُواْ ٱلۡڪِتَـٰبَ حَتَّىٰ يُعۡطُواْ ٱلۡجِزۡيَةَ عَن يَدٍ۬ وَهُمۡ صَـٰغِرُونَ ''لڑو ان سے جو اللہ اور روز آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اور نہ اسے حرام جانتے ہیں جسے اللہ اور اس کے رسول ﷺنے حرام گردانا،  اور سچا دین قبول نہیں کرتے ان لوگوں میں سے جو اہل کتاب ہیں یہاں تک کہ ذلیل ہو کر اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں۔'' (البقرہ: 29)،اور فرمایا:إِلَّا تَنفِرُواْ يُعَذِّبۡڪُمۡ عَذَابًا أَلِيمً۬ا''اگر تم (جہاد) کیلئے نہیں نکلو گے، تو اللہ تمہیں دردناک عذاب دے گا۔'' (التوبہ: 39)،  اور فرمایا؛ يَـٰٓأَيُّھَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ قَـٰتِلُواْ ٱلَّذِينَ يَلُونَكُم مِّنَ ٱلۡڪُفَّارِ وَلۡيَجِدُواْ فِيكُمۡ غِلۡظَةً۬‌ۚ'' اے ایمان والو ! اپنے اطراف کے کافروں سے لڑو اور چاہیے کہ وہ تمہارے اندر سختی پائیں۔''(التوبہ:123)  ۔النسائی میں انسؓ سے روایت ہے ،'' رسول اللہ ﷺ نے فرمایا؛(جَاهِدُوا الْمُشْرِكِينَ بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ وَأَلْسِنَتِكُمْ"مشرکین سے لڑو، اپنے مال، اپنی جان اور اپنی زبانوں سے۔''  اور آپ ﷺ نے فرمایا:((الجِہادُ ماضٍ الی یومِ القِیامة))"جہاد قیامت کے دن تک جاری رہے گا"بخاری میں انس سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:  ''اللہ کی راہ میں (یعنی جہادمیں) ایک صبح یا ایک شام،  دنیا اور جو کچھ اس میں ہے ان سب سے بہتر ہے۔''  بخاری اور مسلم میں یہ حدیث درج ہے؛(امرت ان اقاتل الناس حتی یشھدوان لا الہ الا اللہ، فاذا فعلو ا ذلک عصمو منی دماء ھم و اموالھم الا بحقھم)  رسول اللہﷺ نے فرمایا:  ''مجھے حکم ہے کہ میں الناس (تمام انسانوں) سے لڑوں  جب تک کہ وہ اس امر کی شہادت نہ دے دیں کہ،'لا الہ الا اللہ '( اور محمد ﷺاللہ کے رسول ہیں)، اور جب تک وہ نماز نہ قائم کر دیں اور زکوٰة نہ دے دیں، ا گر انھوں نے یہ کر لیا تو انھوں نے اپنی جان اور مال کومجھ سے محفوظ کر لیا سوائے شرعی حق کے ، اور ان کا حساب اللہ کے ہاتھ میں ہے'' ۔   اورابو ہریرہ ؓسے روایت ایک اور حدیث میں فرمایا : "مَنْ مَاتَ وَلَمْ يَغْزُ وَلَمْ يُحَدِّثْ بِهِ نَفْسَهُ مَاتَ عَلَى شُعْبَةٍ مِنْ نِفَاقٍ"''جو کوئی اس حال میں مرا کہ نہ تو اس نے جہاد میں حصہ لیا اور نہ ہی اس کی خواہش کی پس وہ نفا ق کی ایک شاخ پر مرا۔''  (صحیح مسلم)۔ اور ابو داؤد نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:((لا تزال طائفة من متی یقاتلون عل الحق، ظاہرین علی من ناوہم حتی یقاتل آخرُہم المسیح الدجال)) ،'' میرے امت میں ہمیشہ ایک ایسا گروہ رہے گا جو حق کیلئے لڑے گا، جو ان کی مخالفت کریں گے، یہ ان پر غالب آئے گا، اس گروہ کے آخری لوگ دجال سے جنگ کریں گے۔''  اور ابنِ حبان نے روایت کیا کہ آپ ﷺ نے فرمایا؛أنا محمَّدٌ وأحمدُ والمُقفِّي والحاشرُ ونَبيُّ الرَّحمةِ ونَبيُّ المَلحمةِ '' میں محمد ہوں ، میں احمد ہوں، میں مقفیٰ ہوں، میں حاشر ہوں،میں نبی رحمت ہوں، اور میں جہاد کا نبی ہوں۔''

 

جہاد کی مختلف صورتیں :

'جہاد ابتدا '  یا  'جہاد الطلب'  یا offensive (اقدامی)  جہاد امت پر فرض ِکفایہ ہے۔  اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم دشمن کے خلاف جہاد کی ابتدا کریں گے خواہ دشمن نے ہمارے خلاف فوج کشی نہ بھی کی ہو، تاکہ اس ملک کو اسلامی ریاست کا حصہ بنایا جائے اور اس کے باشندوں پر اسلام کے احکامات کو نافذ کیا جائے اور اسلام  کو عملی شکل میں ان کے سامنے پیش کیا جائے۔   اس کے فرض کفایہ ہونے کی دلیل یہ آیت ہے

:(لاَّ یَسْتَوِیْ الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ غَیْرُ أُوْلِیْ الضَّرَرِ وَالْمُجَاھِدُونَ فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ بِأَمْوَالِہِمْ وَأَنفُسِہِمْ فَضَّلَ اللّہُ الْمُجَاہِدِیْنَ بِأَمْوَالِہِمْ وَأَنفُسِہِمْ عَلَی الْقَاعِدِیْنَ دَرَجَةً وَکُلاًّ وَعَدَ اللّہُ الْحُسْنَی وَفَضَّلَ اللّہُ الْمُجَاہِدِیْنَ عَلَی الْقَاعِدِیْنَ أَجْراً عَظِیْماً) (النساء:95 ) '

'جو مسلمان (گھروں میں) بیٹھ رہتے ہیں اور کوئی عذر نہیں رکھتے وہ اور جو اللہ کی راہ میں اپنے مال اور جان سے لڑتے ہیں وہ دونوں برابر نہیں ہو سکتے۔ اللہ نے مال اور جان سے جہاد کرنے والوں کو بیٹھ رہنے والوں پر درجے میں فضیلت بخشی ہے اور (گو) نیکی کا وعدہ سب سے ہے لیکن اجرِ عظیم کے لحاظ سے اللہ نے جہاد کرنے والوں کو بیٹھ رہنے والوں پر کہیں زیادہ فضیلت بخشی ہے ۔'' 

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے جہاد نہ کرنے والوں کی ملامت نہیں کی بلکہ ان سے بھی ''نیکی کا وعدہ'' کیا ہے۔  اگراس قسم کا جہاد فرض عین ہوتا تو ایسے میں پیچھے رہ جانے والوں کو اجر کی امید نہ دلائی جاتی۔  اسی طرح ایک اور آیت جہاد کے فرض کفایہ ہونے پر دلالت کرتی ہے:

(وَمَا كَانَ ٱلۡمُؤۡمِنُونَ لِيَنفِرُواْ ڪَآفَّةً۬‌ۚ فَلَوۡلَا نَفَرَ مِن كُلِّ فِرۡقَةٍ۬ مِّنۡہُمۡ طَآٮِٕفَةٌ۬ لِّيَتَفَقَّهُواْ فِى ٱلدِّينِ وَلِيُنذِرُواْ قَوۡمَهُمۡ إِذَا رَجَعُوٓاْ إِلَيۡہِمۡ لَعَلَّهُمۡ يَحۡذَرُونَ)

''اور مومنوں کے لئے نہیں کہ سب کے سب (جہاد کے لئے ) نکل پڑیں۔  گر ایسا کیوں نہ ہوکہ ان کے ہر فرقے میں سے ایک گروہ نکلے کہ دین میں غور و فکر کرے اور اپنی قوم کو جب ان کے پاس واپس جائے خبردار کرے کہ شاید وہ محتاط ہو جائیں'' (التوبہ:122 ) ۔ 

یہ آیت بتارہی ہے کہ تمام کے تمام مسلمان اقدامی جہاد کے لئے نہ نکلیں بلکہ کچھ دین کو سیکھنے کے لیے رک جائیں اور کچھ جہاد کے لیے نکلیں۔  اگر جہاد فرض عین ہوتا تو پھر تمام مسلمانوں کو اس کے لئے نکلنا واجب ہوتا۔  لہذا اگر مسلمان کسی بھی ملک یا قوم کے خلاف 'جہاد ابتدا '  میں مصروف نہیں تو تمام مسلمان گنہگار ہو نگے۔  لیکن اگر کچھ مسلمان کی شمولیت سے یہ فرض بخوبی ادا ہو رہا ہے تو یہ فرض کفایہ باقی تمام مسلمانوں کی طرف سے ادا ہو جائیگا۔ 

 

اگرچہ جہاد کے احکامات مطلق (غیر مقید)وارد ہوئے ہیں اور یہ دوسری کسی چیز کے ساتھ مشروط نہیں تاہم چونکہ جہاد ابتداًدراصل دار الاسلام کو پھیلانے کیلئے کیا جاتا ہے ، اس لئے یہ امر اس بات کا متقاضی ہے کہ جہاد سے قبل ایک دارالاسلام موجود ہو ۔  چنانچہ ایک اسلامی اتھارٹی ہی اقدامی جہاد کو اس کے تقاضے کے مطابق سر انجام دے سکتی ہے۔ 

 

جہاں تک دفاعی جہاد کا تعلق ہے تو یہ اس علاقے کے مسلمانوں پر فرض عین ہے جن پر دشمن حملہ آور ہوا ہو جبکہ باقی مسلمانوں پر یہ فرض کفایہ ہے۔  یہ فرض اس وقت تک برقرار رہے گا جب تک دشمن کو نکال باہر نہیں کیا جاتا اور اسلامی سر زمین کفار کے رجس سے پاک نہیں ہو جاتی۔  یہ فرض بھی قریب کے مسلمانوں سے شروع ہو کر پھیلتے پھیلتے تما م دنیا کے مسلمانوں کو شامل کر لیتا ہے۔  چنانچہ افغانستان سے امریکہ کو نکالنے کے لئے نہ صرف افغان کے مسلمانوں کو جہاد کرنا ہے بلکہ اس کے قریب کے مسلمان مثلاً پاکستان، سعودی عرب اور ایران کے مسلمانوں خصوصاً ان کی افواج کو عملاً جہاد میں شامل ہونا لازمی ہے۔  تآنکہ ان کی استطاعت کافر امریکہ کو نکالنے کے لئے کفایت کر جائے۔  اگر ان علاقوں کے مسلمان یہ ذمہ داری پوری کرنے کے صلاحیت نہ رکھتے ہوں تو یہ فرضیت کا دائرہ پھیلتا چلا جائیگا یہاں تک کہ اتنے مسلمان اور ان کی افواج شامل ہو جائیں جو امریکہ کو ان ممالک سے نکالنے کے لئے کافی ہوں۔  جہاد الدفع میں مسلمانوںکو لڑنے کے لئے کسی امیر، کسی حکمران اور کسی خلیفہ کی اجازت کی ضرورت نہیں ہوتی یہاں تک کہ ایک غلام کو بھی اپنے آقا کی اجازت کی ضرورت نہیں ہوتی ، بیوی کو اپنے شوہر سے اجازت کی ضرورت نہیں ہوتی ہے(بشرطیکہ وہ لڑنے کی اہلیت رکھتی ہو) اور بیٹے کو والدین سے اجازت کی ضرورت نہیں۔ 

 

                  مسلمانوں کے علاقوں پر حملے کی صورت میں جہاد سے متعلق چند نکات پیش نظر رہنے چاہئیں:

                  ١)   جب دشمن اسلامی سر زمین پر حملہ کرے تو افواج سب سے پہلے اس کا دفاع کرتی ہے اگر وہ اس قابل ہوں کہ دشمن کے حملے کو روک سکیں اور دفاع کر سکیں تو اس صورت میں بھی  باقیوں پر ان کی مدد لازم ہے۔  امامماوردی کہتے ہیں ''کیونکہ یہ جہاد دفع ہے اسلئے اس علاقے میں ہر لڑنے کے قابل مسلمان پر یہ فرض  باقی رہے گا۔''  جیسا کہ 1965ء کی جنگ میں لاہور کے محاذ پر حملہ کے وقت شہریوں نے افواج کی معاونت کی ۔

 

                  ٢)  یہ کہنا کہ یہ اس علاقے کے تمام مسلمانوں پر فرض عین ہے ،کا مطلب یہ ہے کہ یہ ان مسلمانوں پر فرض عین ہے جو اس کی اہلیت رکھتے ہیں جیسے کہ افواج اور دیگر گروہ ، افراد یا قبائل جو عسکری قوت رکھتے ہیں۔  یہ اس لئے کہ استطاعت کا ہونا باالواسطہ طور پرہر حکم شرعی میں شامل سمجھا(assumed )جاتا ہے۔   کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے  (لاَ یُکَلِّفُ اللّہُ نَفْساً ِلاَّ وُسْعَہَا) ''اللہ کسی شخص کو اُس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا''۔ جو کہ ہر امر پر لاگو ہوتا ہے۔ اسلئے اس تعریف کو تبدیل کر کے یہ کہنا درست نہیں کہ جہاد صرف افواج، منظم عسکری گروہوں اور مضبوط قبائل پر ہی فرض عین ہے ،  کیونکہ لفظ مسلمان'' عام'' ہے اور اس کا یہ مطلب واضح ہے کہ یہ ان مسلمانوں پر فرض ہے جو اس کی اہلیت رکھتے ہیں اور جو اس قابلیت اور صلاحیت کے حامل ہیں کہ وہ جہاد کو اس طرح کر سکیں جیسا کہ شریعت میں طلب کیا گیا ہے۔

 

   آج عملاً اس وقت تمام مسلم ممالک کی افواج ایجنٹ حکمرانوں کے ذریعے استعمار کے مفادات میں استعمال ہو رہی ہیں لہذا یہ ذمہ داری امت میں پائے جانے والے مخلص لوگوں کی ہے کہ وہ فوج کو اس غلامی سے نجات دلانے کے لئے سیاسی جدوجہد کریں تاکہ استعمار کے سیاسی اثر ورسوخ کا خاتمہ کرتے ہوئے انہیں ایک بار پھر جہاد کے لئے بروئے کار لایا جاسکے۔  اور یہ ہدف صرف اور صرف منہج نبوی ﷺپر کاربند ہو کر خلافت قائم کر نے سے ہی حاصل ہو سکتا ہے۔  یہ خلافت کی ڈھال ہی ہے جس کے تلے منظم جہاد ممکن ہے اور اسی کے قیام سے مسلمانوں کے تمام مقبوضہ علاقوں کو عملاً آزاد کرایا جاسکتا ہے۔  رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:  ((انَّمَاالاِمَامُ جُنَّة یُقَاتَلُ مِن وَّرَائہِ وَیُتَّقٰی بِہِ)) ''خلیفہ ڈھال ہے جس کے پیچھے مسلمان لڑتے ہیں اور تحفظ حاصل کرتے ہیں۔'' (مسلم)

 

٣)  جہاد کا ایک واضح مقصد ہے اور یہ لڑائی بغرض لڑائی نہیں،  نہ ہی یہ لڑائی بغرض قتل ِکفار ہے۔  اللہ سبحانہ و تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے؛

(وَأَعِدُّواْ لَهُم مَّا ٱسۡتَطَعۡتُم مِّن قُوَّةٍ۬ وَمِن رِّبَاطِ ٱلۡخَيۡلِ تُرۡهِبُونَ بِهِۦ عَدُوَّ ٱللَّهِ وَعَدُوَّڪُمۡ)

''اور تم لوگ جہاں تک تمہارا بس چلے ، زیادہ سے زیادہ طاقت اور تیار بندھے رہنے والے گھوڑے ان کے مقابلے کیلئے مہیا کرو، تاکہ اس کے ذریعے سے اللہ کے اور اپنے دشمنوں کو خوفزدہ کر سکو۔''(الانفال:60) 

اور فرمایا؛

يَـٰٓأَيُّھَا ٱلنَّبِىُّ حَرِّضِ ٱلۡمُؤۡمِنِينَ عَلَى ٱلۡقِتَالِ‌ۚ إِن يَكُن مِّنكُمۡ عِشۡرُونَ صَـٰبِرُونَ يَغۡلِبُواْ مِاْئَتَيۡنِ‌ۚ وَإِن يَكُن مِّنڪُم مِّاْئَةٌ۬ يَغۡلِبُوٓاْ أَلۡفً۬ا مِّنَ ٱلَّذِينَ كَفَرُواْ بِأَنَّهُمۡ قَوۡمٌ۬ لَّا يَفۡقَهُونَ (٦٥) ٱلۡـَٔـٰنَ خَفَّفَ ٱللَّهُ عَنكُمۡ وَعَلِمَ أَنَّ فِيكُمۡ ضَعۡفً۬ا‌ۚ فَإِن يَكُن مِّنڪُم مِّاْئَةٌ۬ صَابِرَةٌ۬ يَغۡلِبُواْ مِاْئَتَيۡنِ‌ۚ وَإِن يَكُن مِّنكُمۡ أَلۡفٌ۬ يَغۡلِبُوٓاْ أَلۡفَيۡنِ بِإِذۡنِ ٱللَّهِ‌ۗ وَٱللَّهُ مَعَ ٱلصَّـٰبِرِينَ (٦٦)

'' اے نبی مومنوں کو جنگ پر ابھارو۔ اگر تم میں بیس آدمی صابر ہوں تو وہ دو سو پر غالب آئیں گے اور اگر سو آدمی ایسے ہو تو وہ ہزار منکرین حق پر غالب آئیں گے کیونکہ وہ ایسے لوگ ہیں جو سمجھ نہیں رکھتے۔ اچھا اب اللہ نے تمہارا بوجھ ہلکا کر دیا ہے اور اسے معلوم ہوا کہ ابھی تم میں کمزوری ہے پس اگر تم میں سو آدمی صابر ہوتو وہ دو سو پر اور اگر ہزار ہو تو دو ہزار پر اللہ کے حکم سے غالب آئیں گے۔ اور اللہ ان لوگوں کے ساتھ ہیں جو صبر کرنے والے ہیں۔'' (الانفال:65-66)۔ 

 

پہلی آیت میں تیاری کا مقصد دشمن پر رعب پڑنا ہے جو غلبے کے لئے ضرورت ہے ،  اسی طرح دوسری  اور تیسری آیت میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ اس تعداد کے بارے میں بتا رہے ہیں جو غلبے کے مقصدکے لئے ضرورت ہے۔  پس جہاد مقصد کے حصول کیلئے کیا جاتا ہے،  نہ کہ صرف لڑنے کیلئے۔   اسی طرح صحیح مسلم میں سلیمان بن بریدہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے جب بھی کسی کو فوج یا کسی دستے کا امیر مقرر کرتے تو آپ ﷺ اسے اللہ سے ڈرنے کی خصوصی تلقین کرتے اور مسلمانوں سے اچھے سلوک کی ہدایت کرتے۔  آپ ﷺان سے کہتے؛''۔۔۔ غنائم میں غبن مت کرو، عہد مت توڑو، مُردوں کا مثلہ مت کرو، بچوں کو مت مارو،  جب تم کافر دشمن کا سامنا کرو تو انھیں تین چیزوں کی دعوت دو؛ اگر وہ کسی کو بھی قبول کر لیں تو تم بھی اسے قبول کر لو اور ان کو نقصان پہنچانے سے اپنے آپ کو روک دو۔ ان کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دو اگر وہ اسے قبول کر لیں ، تو تم اسے قبول کر لو اور لڑائی سے پیچھے ہٹ جاؤ۔۔۔۔۔اگر وہ اسلام قبول نہ کریں تو انھیں جزیہ ادا کرنے کی پیش کش کرو، اگر وہ اسے قبول کر لیں تو تم بھی اسے قبول کر لو،  اور اپنے ہاتھ لڑائی سے کھینچ لو۔۔۔(صحیح مسلم4294)  یہ حدیث جہاد کے مقصد کی ایک اور دلیل ہے۔  پس جہاد سے کچھ امور مقصود ہیں،  جیسا کہ ایک علاقے سے کفر کا نظام ہٹا کر اسلام کا نظام قائم کرکے اسے دارالاسلام کا حصہ بنانا ہے۔   پس اگر اس مقصد کا حصول ممکن نہ ہو تو اس صورت میں یہ لڑائی نہیں کی جاتی بلکہ اس کی تیاری کر کے مطلوبہ صلاحیت حاصل کی جاتی ہے تاکہ مقصد حاصل کیا جا سکے۔ یا کفار کے قبضے سے اسلامی سر زمین کو چھڑانا ہے ،  پس اگرصرف گوریلا مزاحمت سے یہ مقصد حاصل کرنا ممکن نہ ہو تو اس صورت یہ لازم ہے کہ اس طاقت کے حصول کی بھرپور کوشش کی جائے کو بھی تلاش کیا جائے جس سے اس مقصد کو حاصل کیا جائے ۔  مسلمان کئی دہائیوں سے مشاہدہ کر رہے ہیں کہ مسلمان اس دین کی خاطر ،  مظلوم مسلمانوں کی خاطر،  کفار کی مزاحمت کی خاطر بڑھ چڑھ کر اپنی جانیں قربان کرتے ہیں تاہم ان تمام قربانیوں کو مسلمانوں کے غدار حکمران ان کی پیٹھ میں چھرا گھونپ کر ضائع کر دیتے ہیں،  جیسا کہ کشمیر میں مزاحمتی تحریک کے ساتھ کیا گیا یا جیسا طالبان کے ساتھ کیا گیا، یا جیسا اب افغان مزاحمت کے ساتھ کرنے کی منصوبہ بندی ہو رہی ہے۔  اسلئے یہ لازم ہے کہ مسلمان ان غدار حکمرانوں کو ہٹائیں اور خلافت قائم کریں وگر نہ(خدانخواستہ) جہاد کا مقصد کبھی حاصل نہیں کیا جا سکے گا۔  اگرچہ مسلمان مسلسل قربانیاں دیتے رہیں گے!!! 

 

                  ٤)اگر کسی علاقے پر دشمن کا قبضہ مضبوطی سے جم جائے اور وہ عملاً اس علاقے کے مسلمانوں پر مکمل طور پر غالب آجائیں تو اس صورتحال میں مسلمانوں کی حیثیت جنگی قیدیوں کی سی ہو جاتی ہے گو کہ  وہ بعینہٖجنگی قیدی نہیں ہوتے اور ان پر جہاد فرض عین نہیں رہتا، کیونکہ وہ اس علاقے کو کفار کے تسلط سے آزاد کرانے کی استطاعت نہیں رکھتے ، جیسا کہ آج غزہ کی صورتحال ہے یا جیساکہ بیرونی مدد کے بغیر کشمیریوں کا حال ہے یا1857کی جنگ آزادی کے بعد ہندوستان کے بیشتر حصے کی صورتحال تھی۔   اس صورت میں یہ فرض آس پاس کے مسلمانوں پر عائد ہوتا ہے کہ وہ جہاد کر کے ان مسلمانوں کو کافر کے تسلط سے آزاد کروائیں۔  اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا:  (وَمَا لَكُمۡ لَا تُقَـٰتِلُونَ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ وَٱلۡمُسۡتَضۡعَفِينَ مِنَ ٱلرِّجَالِ وَٱلنِّسَآءِ وَٱلۡوِلۡدَٲنِ ٱلَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَآ أَخۡرِجۡنَا مِنۡ هَـٰذِهِ ٱلۡقَرۡيَةِ ٱلظَّالِمِ أَهۡلُهَا وَٱجۡعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ وَلِيًّ۬ا وَٱجۡعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ نَصِيرًا)''اور کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں ان بے بس مردوں، عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو (جو کمزور پا کر دبا لئے گئے ہیں اور) اللہ سے فریاد کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب ہمیں اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں اور اپنی طرف سے ہمارا کوئی حامی اور مددگارپیدا کر دے۔'' (النساء:75)

 

جب مسلمانوں کا اولی الامر، امام یا خلیفہ جہاد ِ عام کا اعلان کرے تو یہ تمام مسلمانوں پر فرض عین بن جاتا ہے سوائے ان پر جن کو وہ ازخود مستثنی قرار دے دے۔   کیونکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا: (يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ مَا لَكُمۡ إِذَا قِيلَ لَكُمُ ٱنفِرُواْ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ ٱثَّاقَلۡتُمۡ إِلَى ٱلۡأَرۡضِ‌ۚ أَرَضِيتُم بِٱلۡحَيَوٰةِ ٱلدُّنۡيَا مِنَ ٱلۡأَخِرَةِ‌ۚ فَمَا مَتَـٰعُ ٱلۡحَيَوٰةِ ٱلدُّنۡيَا فِى ٱلۡأَخِرَةِ إِلَّا قَلِيلٌ) ''اے ایمان والو!  تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ جب تم سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کی راہ میں نکلو تو تم زمین سے چمٹ کر رہ جاتے ہو،  کیا تم آخرت کی زندگی کو چھوڑکر دنیا کی زندگی پر خوش ہو گئے ہو، (جان لوکہ) دنیا کی زندگی کی تمام متاع آخرت کے مقابلے میں بہت قلیل ہے۔'' )التوبہ:38( اسی طرح اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایا؛(ٱنفِرُواْ خِفَافً۬ا وَثِقَالاً۬ وَجَـٰهِدُواْ بِأَمۡوَٲلِڪُمۡ وَأَنفُسِكُمۡ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ‌ۚ ذَٲلِكُمۡ خَيۡرٌ۬ لَّكُمۡ إِن كُنتُمۡ تَعۡلَمُونَ)''نکلو اللہ کی راہ میں خواہ ہلکے ہو یا بوجھل اور لڑواپنے مالوں اور جانوں کے ساتھ، یہ تمھارے حق میں بہتر ہے اگر تم جانتے ہو۔''(التوبہ:41)  اورشیخین کی روایت کے مطابق رسول اللہﷺنے فرمایا :(و اذا استنفرتم فاانفرو) '' جب تم سے آگے بڑھنے کا کہا جائے ، تو آگے بڑھو۔''   

 

یہاں یہ اہم بات بیان کر دی جائے کہ جہاد کے حکم کاشرعی 'سبب '  ایسے کفار کی موجودگی ہے جنہوں نے اس دعوت کو مسترد کر دیا ہو۔  اسی طرح جہاد کو روکنے کا شرعی' سبب ' کفار کی طرف سے مغلوب ہو کر جزیہ کی ادائیگی ہے۔  پس جب تک اس دنیا میں ایسے کافر موجود ہیں جن کو ہم نے اسلام کی دعوت دی ہو اور انھوں نے اس کو مسترد کر دیا اور وہ اسلام ی کی اتھارٹی کے تحت نہ ہوں تب تک مسلمانوں پر جہاد فرض کفایہ رہے گا  اور مسلمانوں کو ہر دور میں ہر صورت اللہ کے سامنے اس فرض کیلئے جواب دہ ہونا ہو گا۔  اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا: (وَقَـٰتِلُوهُمۡ حَتَّىٰ لَا تَكُونَ فِتۡنَةٌ۬ وَيَكُونَ ٱلدِّينُ لِلَّهِ‌ۖ)''اور لڑو ان سے یہاں تک کہ کوئی فتنہ باقی نہ رہے اور دین سارے کا سارااللہ کے لئے ہو جائے۔''(البقرہ :193) اور فرمایا: (قَـٰتِلُواْ ٱلَّذِينَ لَا يُؤۡمِنُونَ بِٱللَّهِ وَلَا بِٱلۡيَوۡمِ ٱلۡأَخِرِ وَلَا يُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ ٱللَّهُ وَرَسُولُهُ ۥ وَلَا يَدِينُونَ دِينَ ٱلۡحَقِّ مِنَ ٱلَّذِينَ أُوتُواْ ٱلۡڪِتَـٰبَ حَتَّىٰ يُعۡطُواْ ٱلۡجِزۡيَةَ عَن يَدٍ۬ وَهُمۡ صَـٰغِرُونَ)''لڑو ان سے جو اللہ اور روز آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اور نہ اسے حرام جانتے ہیں جسے اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے حرام گردانا،  اور سچا دین قبول نہیں کرتے ان لوگوں میں سے جو اہل کتاب ہیں یہاں تک کہ وہ ذلیل ہو کر اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں۔'' (البقرہ: 29) اور فرمایا:  إِلَّا تَنفِرُواْ يُعَذِّبۡڪُمۡ عَذَابًا أَلِيمً۬ا ''اگر تم (جہاد) کیلئے نہیں نکلو گے، تو اللہ تمہیں دردناک عذاب دے گا۔'' ] التوبہ: 39[  اور فرمایا: يَـٰٓأَيُّھَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ قَـٰتِلُواْ ٱلَّذِينَ يَلُونَكُم مِّنَ ٱلۡڪُفَّارِ وَلۡيَجِدُواْ فِيكُمۡ غِلۡظَةً۬ '' اے ایمان والو! اپنے اطراف کے کافروں سے لڑو اور چاہیے کہ وہ تمہارے اندر سختی پائیں۔''(التوبہ:123) ۔ بخاری اور مسلم میں یہ حدیث درج ہے؛(امرت ان اقاتل الناس حتی یشھدوان لا الہ الا اللہ، فاذا فعلو ا ذلک عصمو منی دماء ھم و اموالھم الا بحقھم)  رسول اللہﷺ نے فرمایا:  ''مجھے حکم ہے کہ میں الناس (تمام انسانوں) سے لڑوں  جب تک کہ وہ اس امر کی شہادت نہ دیدیں کہ،'لا الہ الا اللہ '( اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں)، اور جب تک وہ نماز نہ قائم کر دیں اور زکوٰة نہ ادادیں، ا گر انھوں نے یہ کر لیا تو انھوں نے اپنی جان اور مال مجھ سے محفوظ کر لیا سوائے شرعی حق کے ، اور ان کا حساب اللہ کے ہاتھ میں ہے''  یہ آیات اور حدیث واضح کرتی ہیں کہ جہاد کرنے کا شرعی 'سبب' ایسے کفار کی موجودگی ہے جنہوں نے اسلام کو مسترد کیا ہو۔  البتہ جہاد کو روکنے کا شرعی سبب ان کا چھوٹا بن کر جزیہ ادا کرنا اور اسلام کی اتھارٹی کو قبول کرنا ہے۔

 

جہاد صرف دفاعی نہیں:

سیکولر مغرب اور ان کے آلہ کاروں کی پوری کوشش ہے کہ جہاد کو صرف دفاع تک محدود کر دیا جائے۔  یہی وجہ ہے کہ تمام مسلمان ملکوں میں وزارت دفاع موجود ہے لیکن کہیں بھی وزارت جنگ یا جہاد نہیں۔  اگرچہ مغرب نے بھی اپنی وزارتوں کا نام دفاع ہی رکھا لیکن ان کی وزارتیں درحقیقت وزارت جنگ ہیں نہ کہ دفاع۔ 

 

جہاد قرآن، حدیث ،رسول اللہ ﷺ کی سیرة اور اجماع صحابہ سے قطعی طور پر ثابت ہے کہ یہ اقدامی اور دفاعی دونوں پرمشتمل ہے۔  اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا:  وَقَـٰتِلُوهُمۡ حَتَّىٰ لَا تَكُونَ فِتۡنَةٌ۬ وَيَكُونَ ٱلدِّينُ لِلَّهِ‌ۖ''اور لڑو ان سے یہاں تک کہ کوئی فتنہ باقی نہ رہے اور دین سارے کا سارا اللہ کے لئے ہو جائے۔''  (البقرہ :193)،اور فرمایا: قَـٰتِلُواْ ٱلَّذِينَ لَا يُؤۡمِنُونَ بِٱللَّهِ وَلَا بِٱلۡيَوۡمِ ٱلۡأَخِرِ وَلَا يُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ ٱللَّهُ وَرَسُولُهُ ۥ وَلَا يَدِينُونَ دِينَ ٱلۡحَقِّ مِنَ ٱلَّذِينَ أُوتُواْ ٱلۡڪِتَـٰبَ حَتَّىٰ يُعۡطُواْ ٱلۡجِزۡيَةَ عَن يَدٍ۬ وَهُمۡ صَـٰغِرُونَ ''لڑو ان سے جو اللہ اور روز آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اور نہ اسے حرام جانتے ہیں جسے اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے حرام گردانا،  اور سچا دین قبول نہیں کرتے ان لوگوں میں سے جو اہل کتاب ہیں یہاں تک کہ ذلیل ہو کر اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں۔'' (البقرہ: 29)،   اور فرمایا:  يَـٰٓأَيُّہَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ قَـٰتِلُواْ ٱلَّذِينَ يَلُونَكُم مِّنَ ٱلۡڪُفَّارِ وَلۡيَجِدُواْ فِيكُمۡ غِلۡظَةً۬'' اے ایمان والو! اپنے اطراف کے کافروں سے لڑو اور چاہیے کہ وہ تمہارے اندر سختی پائیں۔''  (التوبہ:123)۔ یہ مطلق احکامات ہیں  اور ایسی کوئی آیات نہیں جنہوں نے ان کو منسوخ کیا ہوں  یا ان کی تخصیص کی ہو۔  یعنی یہ آیات لڑنے کو اس امر سے مشروط نہیں کرتیں کہ مسلمانوں پر حملہ ہوا ہو یاکافروں نے مسلمانوں پر چڑھائی کر دی ہو۔  بلکہ یہ آیات تو یہ کہہ رہی ہیں کہ اس وقت تک لڑو ''یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے''۔  نیز جہاد کو اس وقت جاری رکھنے کا حکم دے رہی ہیں جب تک کہ کافر جزیہ دے کر مسلمانوں کی اتھارٹی اور احکامات اسلامی کے سامنے سرنگوں نہ ہو جائیں۔  بخاری اور مسلم میں یہ حدیث درج ہے؛

(امرت ان اقاتل الناس حتی یشھدوان لا الہ الا اللہ، فاذا فعلو ا ذلک عصمو منی دماء ھم و اموالھم الا بحقھم

رسول اللہﷺ نے فرمایا:  ''مجھے حکم ہے کہ میں الناس (تمام انسانوں) سے لڑوں  جب تک کہ وہ اس امر کی شہادت نہ دیدیں کہ،'لا الہ الا اللہ '( اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں)، اور جب تک وہ نماز نہ قائم کر دیں اور زکوٰة نہ دے دیں،  گر انھوں نے یہ کر لیا تو انھوں نے اپنی جان اور مال مجھ سے محفوظ کر لیا سوائے شرعی حق کے ، اور ان کا حساب اللہ کے ہاتھ میں ہے''۔ 

 

یہ حدیث ابن عمر، ابوہریرہ، جابر بن عبداللہ، اوس ابن ابو اوس، ابن عباس، سہل ابن سعد، نعمان ابن بشیر، ابوبکرہ، معاذ ابن جبل، سمرہ بن جندب رضوان اللہ اجمعین نے روایت کی ہے ۔  اس حدیث میں بھی آپ ﷺ نے جہاد کو کافروں کی جارحیت کے ساتھ مشروط نہیں کیا۔  رسول اللہ ﷺ اور خلفاء راشدین کا عمل بھی اقدامی جہاد کی تصدیق کرتا ہے۔  بدر، حنین، موتہ اور تبوک وغیرہ کے معرکے تمام کے تمام رسول اللہﷺ نے شروع کئے۔  اور یہی عمل خلفاء راشدین کے دور سے ملتا ہے جس پر تمام صحابہ کا اجماع بھی ہے۔(جاری ہے)

Last modified onبدھ, 05 فروری 2020 23:55

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک