الإثنين، 23 جمادى الأولى 1446| 2024/11/25
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

پاکستان نیوز ہیڈ لائنز13 ستمبر 2019

 

- سرمایہ دارانہ معاشی نظام لوگوں کی بنیادی ضروریات کو ان کی پہنچ سے دور کردیتا ہے

- پاکستان کا معاشی بحران جھوٹی تسلیوں سے نہیں بلکہ اسلام کے اقتصادی نظام کے نفاذ سے ختم ہو گا

 

تفصیلات:

 

سرمایہ دارانہ معاشی نظام لوگوں کی بنیادی ضروریات کو ان کی پہنچ سے دور کردیتا ہے

وفاقی حکومت نے 7 ستمبر 2019 کو تندوروں  کے لیے پرانے گیس کی نرخ بحال کردیے اور یکم جولائی کو نافذ ہونے والے گیس کی نرخ واپس لے لیے۔ وفاقی حکومت نے یہ فیصلہ روزمرہ کی ضروریات کی چیزوں کی قیمتوں میں ہونے والے اضافے، جس میں روٹی اور نان بھی شامل ہے، پر عوامی تنقید  کی روشنی میں کیا ہے۔

 

اس فیصلے سے پہلے ملک بھر میں خصوصاً خیبر پختونخوا اور پنجاب میں نان بائی یکم جولائی کے بعد سے ہڑتالیں کررہے ہیں اور آخری ہڑتال کی دھمکی اسلام آباد کے نان بائیوں نے 7 ستمبر 2019 کو ہی دی تھی جس میں انہوں نے حکومت کو دس دن کی مہلت دی تھی کہ اگر حکومت نے گیس کی نرخ دس دنوں میں کم نہ کیے تو وہ 18 ستمبر کے بعد سے ہڑتال کریں گے۔ یہ بات قابل غور ہے کہ دنیا بھر میں جمہوری نظام  کے تحت چلنے والوں میں ملکوں میں سیاست دان عوام کی مشکلات کے حوالے سے سیاست کرتے ہیں اور انہیں یہ یقین دلاتے ہیں کہ  موجودہ حکمران کرپٹ ہیں جن کی کرپشن کی وجہ سے روزمرہ ضرورت کی اشیاء مہنگی ہوجاتی ہیں۔ لہٰذا اگر انہیں موقع ملا تو وہ اقتدار میں آکر ان کے لیے روزمرہ اشیاء کی قیمتوں میں کمی کردیں گے۔ لیکن اس وقت عوام کی مایوسی کی کوئی انتہاء نہیں رہتی جب وہی جمہوری سیاستدان اقتدار میں آکر لوگوں کی روزمرہ کی ضروریات کی اشیاء کی قیمتوں میں مزید اضافہ کردیتے ہیں بلکہ انہیں  دو کی جگہ ایک روٹی کھانے اور صبر کا درس دیتے ہوئے یہ کہتے ہیں  گھبرانا نہیں ہے کہ کچھ عرصے بعد ان کی مشکلات آسانی میں تبدیل ہوجائیں گی۔ لیکن وہ وقت کبھی نہیں آتا یہاں تک کہ دوسرے جمہوری سیاست دان عوام کی مشکلات پر سیاست کرکے اقتدار میں آنے کی کوشش کرنا شروع کردیتے ہیں۔

 

درحقیقت بنیادی ضروریات کی اشیاء کی مہنگائی کی بنیادی وجہ حکمرانوں کا کرپٹ ہونا نہیں بلکہ معاشی نظام کا کرپٹ ہونا ہے ۔ یہ کرپٹ معاشی نظام سرمایہ دارانہ معاشی نظام ہے جو   گیس، بجلی اور پیٹرولیم  کو نجی ملکیت میں دے کر ان کے مالکان کو کھلی چھوٹ دے دیتے ہیں کہ وہ جوچاہیں ان کی قیمت وصول کریں۔ آج کے صنعتی دور میں ہر چیز کی تیاری میں لازمی گیس، بجلی یا پیٹرولیم  کا استعمال ہوتا ہے اور اگر ان کی قیمت بڑھائی جائے گی تو لازمی تقریباً تمام اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہ مسئلہ صرف اور صرف اسلام کے معاشی نظام کے نفاذ سے ہی حل ہوتا ہے کیونکہ اسلام گیس، بجلی اور پیٹرولیم کو عوامی اثاثہ قرار دیتا ہے۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،

 

الْمُسْلِمُونَ شُرَكَاءُ فِي ثَلَاثٍ:‏‏‏‏ فِي الْمَاءِ وَالْكَلَإِ وَالنَّارِ

"مسلمان تین چیزوں میں شراکت دار ہیں: پانی، چراگاہیں اور آگ(توانائی)"(ماجہ)۔

 

لہٰذا گیس، بجلی اور پیٹرولیم  اثاثوں  کی نجکاری کبھی نہیں ہوسکتی اور ریاست عوام کی جانب سے ان کے امور کی دیکھ بحال کرتی ہے اور اس طرح ان کی قیمتوں میں طویل عرصے کے لیے استحکام رہتا ہے جس سے باقی اشیاء کی قیمتوں میں بھی استحکام رہتا ہے جو ان کی مدد سے بنتی ہیں۔

 

پاکستان کا معاشی بحران جھوٹی تسلیوں سے نہیں بلکہ اسلام کے اقتصادی نظام کے نفاذ سے ختم ہو گا

8 ستمبر کو ڈان اخبار نے اسٹیٹ بینک کے گورنر رضا باقر کا یہ بیان شائع کیا جو انہوں نے تاجر برادری سے ایک ملاقات میں دیا کہ، "پچھلے سالوں میں جب بھی تجارتی خسارہ بڑھا تو شرح تبادلہ اس کے مطابق تبدیل نہیں ہوا کیونکہ اسے جامد رکھا گیا اور اس کی بدولت خسارے میں اضافہ ہوا کیونکہ نظام میں مداخلت کی گئی"۔مزید کہا، "ہم شرح تبادلہ کو مارکیٹ کے مطابق لائے جو طلب اور رسد کے تبدیلی کی پالیسی کی بنیاد پر ہے"۔ انہوں نے کہا کہ اصلاحات کے نفاذ کے ساتھ ملک کی معاشی صورتحال بہتر ہو رہی ہے اور آئی ایم ایف کی بدولت ملک کے زرِ مبادلہ کے ذخائر میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ انھوں نے ملک کی معیشت کی ترقی کیلئے نجی شعبے کے آگے آنے کی حوصلہ افزائی بھی کی۔

 

رضا باقر نے شرح تبادلہ میں حکومتی دخل اندازی کو موردِ الزام ٹھراتے ہوئے یہ رائے دے دی کہ تجارتی خسارے کی اصل وجہ حکومت کا شرح تبادلہ کو ایک مخصوص قیمت پر جامد کرنا تھا۔ جبکہ ان ہی کے دور میں موجودہ حکومت کئی اقتصادی معاملات میں دخل اندازی کر کے اسی پالیسی پر چل رہی ہے جس کو وہ نشانہ بنا کر اس جیسی  دوسری پالیسیوں کا جواز پیش کر رہے ہیں۔ پاکستان میں تیل، ادویات اور دیگر کئی اشیاء کی قیمتیں حکومتی پالیسی کے تحت متعین کی جاتی ہیں جو طلب و رسد کے نظام میں حکومتی دخل اندازی کا ثبوت ہے۔ اسی طرح ملکی درآمدات پر عائد کسٹم ٹیکس میں من مانی کرنا، غیر ملکی کمپنیوں کو پاکستانی کمپنیوں کی نسبت اقتصادی مراعات دے کر ان کو منڈی میں سہارا دینا، کچھ خاص شعبوں میں سرمایہ داروں کے واجبات کی معافی اور ایسے دیگر اقدامات ملکی معیشت میں حکومت کی دخل اندازی نہیں تو اور کیا ہے۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ حکومتِ وقت کی اقتصادی سوچ بھی سابقہ حکومتوں کی طرح مغربی اقتصادی پالیسیوں کا ہی تسلسل ہے۔ پاکستان کی موجودہ ابتر صورتحال انہیں اقتصای پالیسیوں کا نتیجہ ہے جو آئی ایم ایف اور استعماری اداروں کی خوشنودی کیلئے اپنائیں گئی ہیں۔ علاوہ ازیں، پاکستان کی معاشی بدحالی کی بنیادی وجہ سرمایہ دارانہ مغربی نظام ہے جو مقامی کرنسی کو ڈالر کے ساتھ جوڑنے پر مجبور کرتا ہے، جس کی بدولت ملکی معیشت ڈالر کے رحم وکرم پر ہوتی ہے، جو اکثر ایسے بحرانوں کو جنم دیتا ہے۔

 

اسلام کا معاشی نظام ہی صحیح معنوں میں حکومتی دخل اندازی سے پاک معیشت کا نقشہ دیتا ہے جو طلب و رسد کے قانون ہی پر چلتی ہے۔ اسلام حکومت کی طرف سے قیمتوں کے تعین کو جائز قرار نہیں دیتا۔ امام احمد نے انس سے روایت کیا جنہوں نے کہا: "رسول اللہ ﷺ  کے  وقت میں قیمتیں چڑھ گئیں، تو لوگوں نےکہا، یا رسول اللہ ﷺ، ہم چاہتے ہیں کہ آپﷺ قیمتیں متعین کر دیں۔ آپ ﷺ نے فرمایہ، (ان اللہ ھو الخالق القابض الباسط الرازق المسعر وانی لارجو ان القی اللہ ولا یطلبنی احد بمظلمۃ ظلمتھا ایاہ فی دم ولا مال) "بے شک اللہ ہی خالق، قابض، کھلے ہاتھ والا، رازق، قیمتیں متعین کرنے والا ہے اور میں چاہتا ہوں کہ میں اللہ سے اس حال میں ملوں کہ کوئی میرے خلاف ظلم کی شکایت نہ کرے جو میں نے اس پر کیا، نہ جان میں اور نہ ہی مال میں"۔ اس حدیث سے یہ واضح ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حکمران کی حیثیت سے قیمتوں کے تعین کو منع کیا۔ اسلامی ریاست ملکی معیشت میں صرف اس وقت دخل اندازی کرتی ہے جب کوئی منڈی کی طلب و رسد کے نظام کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کرے، مثلاً ذخیرہ اندوزی کے ذریعے، اجارہ داری قائم کرنے کے ذریعے وغیرہ۔ بخاری نے رسول اللہ ﷺ کی یہ حدیث روایت کی،

 

(لا یحتکر الا خاطی)

"کوئی اجارہ داری نہیں کرتا، سوائے خطاکار کے"۔

 

اسی طرح کے دیگر کئی احکامات اسلامی نظام میں طلب و رسد کے قانون کی حقیقی معنوں میں حفاظت کرتے ہیں جس کی بدولت معیشت میں استحکام قائم ہوتا ہے۔

Last modified onہفتہ, 21 ستمبر 2019 04:09

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک