الإثنين، 23 جمادى الأولى 1446| 2024/11/25
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

پاکستان نیوز ہیڈ لائنز 9 اگست 2019

 

۔ دورہ امریکا کا مقصد امریکا سے غلامانہ تعلقات کی تجدید تھا

-چھوٹے کاروبار پر ظالمانہ ٹیکس کا نفاذ غریب کے منہ سے نوالہ چھیننے کے مترادف ہے

-پیٹرولیم کی قیمتوں میں حالیہ اضافہ آئی آیم ایف  کی اطاعت میں کیا گیا ہے

تفصیلات:

 

دورہ امریکا کا مقصد امریکا سے غلامانہ تعلقات کی تجدید تھا

یکم اگست 2019 کوپاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت کا اجلاس منعقد ہوا جس میں وزیر اعظم کے حالیہ دورہ امریکا کی روشنی میں امریکا اور پاکستان کے تعلقات کو مضبوط کرنےکے طریقوں پر بحث کی گئی۔ وزیر اعظم نے اپنے کامیاب دورے پر اطمینان کا اظہار کیا  اور خطے کے امن اور پاک-امریکا تعلقات کے حوالے سےصدر ٹرمپ  کے تصور کو تسلیم کیا۔

قیام پاکستان کے بعد سے ہر حکمران نے امریکا کا دورہ کرنا اپنا نصب العین رکھا اور حکمرانوں کی نظر میں وہ دورہ ہمیشہ کامیاب ہی رہتا ۔ نئے پاکستان میں لوگوں کو یہ جھوٹی امید دلائی گئی تھی کہ نئی سیاسی قیادت امریکا کے مفاد کو نہیں بلکہ پاکستان کے مفاد کو مقدم رکھے گی۔ اس تاثر کو مضبوط کرنے کے لیے تقریباً ایک سال دورہ امریکا کو التوا میں رکھا گیا  لیکن جیسے ہی ٹرمپ نے عمران خان کو بمعہ فوجی قیادت کے طلب کیا تو فوراً سے پیشتر حاضر ہوگئے۔ اس دورے کا مقصد کسی بھی صورت پاکستان کے مفادات کو آگے بڑھانا نہیں تھا اور اس کا ثبوت خود عمران خان کا یہ کہنا ہے کہ وہ  خطے کے امن اور پاک-امریکا تعلقات کے حوالے سےصدر ٹرمپ  کے تصور کو تسلیم کرتے ہیں ہی یعنی کہ پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت کا اپنا یا تو سرے سے کوئی تصور ہی نہیں ہے یا پھر ٹرمپ کی اطاعت میں اس سے دستبردار ہوگئے ہیں۔ یہ بات سب پر واضح ہے کہ خطے کے امن کے حوالے سے امریکا کی پالیسی یہ ہے کہ وہ طالبان کے ساتھ سیاسی تصفیہ چاہتا ہے تا کہ کسی نہ کسی صورت افغانستان میں اپنی موجودگی کو برقرار رکھے۔ اس کا ثبوت صدر ٹرمپ کا وہ خط ہے جو اُس نے عمران خان کو لکھا تھا  جس میں اُس نے یہ کہا گیا تھا کہ خطے کے لیے اُس کی سب سے اہم ترجیح افغان جنگ کا سیاسی تصفیہ ہے۔ لہٰذا ٹرمپ نے پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت کو اپنے اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے طلب کیا تھا۔ لیکن یہ تاثر دینے کے لیے کہ یہ امریکی نہیں بلکہ پاکستان کا  ہدف ہے یہ کہا جارہا ہے پاکستان تو ہمیشہ سے بات چیت اور پر امن تصفیے کا کہتا رہا ہے۔ مگر یہ جھوٹ ہے کیونکہ  اگر ایسا تھا تو پھر 19 سال سے پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت کیوں افغانستان پر قبضے اور پھر اس قبضے کو برقرار رکھنے کے لیے امریکا کی  فوجی مدد کرتی چلی آرہی ہے؟

 

درحقیقت عمران خان کے دورہ امریکا کا مقصد بھی وہی تھا جو اس سے پہلے گزرے ہر حکمران کا رہا ہے، اور وہ ہے امریکا سے پاکستان کے غلامانہ تعلقات کی تجدیدکے عہد کو دہرانا۔  اگر نئے پاکستان کے حکمرانوں کو پاکستان کا مفاد عزیز ہوتا تو وہ امریکا کا دورہ نہیں کرتے کیونکہ امریکا نے تو ہندو ریاست کو اپنا اتحادی قرار دیا ہے اور مقبوضہ کشمیر میں جاری ہندو ریاست کے ظلم و ستم پر نہ صرف آنکھیں بند کررکھی ہیں بلکہ "دہشت گردی کے خلاف جنگ " کے نام پر ہندو ریاست کے ظلم و جبر کو جائز قرار دیتا ہے۔ اور اگر نئے پاکستان کے حکمرانوں کو پاکستان کا مفاد عزیز ہوتا تو وہ اسلام اور مسلمانوں کے کھلے دشمن، امریکا،  سے دوستی اور تعلقات کی مضبوطی کو قطعی اہمیت نہ دیتے کیونکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتا ہے کہ،

 

اَلَمۡ تَرَ اِلَى الَّذِيۡنَ يَزۡعُمُوۡنَ اَنَّهُمۡ اٰمَنُوۡا بِمَاۤ اُنۡزِلَ اِلَيۡكَ وَمَاۤ اُنۡزِلَ مِنۡ قَبۡلِكَ يُرِيۡدُوۡنَ اَنۡ يَّتَحَاكَمُوۡۤا اِلَى الطَّاغُوۡتِ وَقَدۡ اُمِرُوۡۤا اَنۡ يَّكۡفُرُوۡا بِهٖؕ

" کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو دعویٰ تو یہ کرتے ہیں کہ جو (کتاب) تم پر نازل ہوئی اور جو (کتابیں) تم سے پہلے نازل ہوئیں ان سب پر ایمان رکھتے ہیں اور چاہتے یہ ہیں کہ اپنا مقدمہ ایک سرکش کے پاس لے جا کر فیصلہ کرائیں حالانکہ ان کو حکم دیا گیا تھا کہ اس سے اعتقاد نہ رکھیں"    (النساء 4:60)۔

صرف نبوت کے طریقے پر خلافت ہی ہوگی جو اسلام اور مسلمانوں کے مفاد میں ان کے دشمنوں سے دوستی نہیں بلکہ دشمنوں والا سلوک کرے گی۔

 

چھوٹے کاروبار پر ظالمانہ ٹیکس کا نفاذ غریب کے منہ سے نوالہ چھیننے کے مترادف ہے

2 اگست کو پاکستانی اخبارات، بشمول ڈان اور ٹریبیون نے یہ خبر شائع کی کہ ایف بی آر(FBR) نے چھوٹے دکانداروں کو انکم ٹیکس کے دائرے میں لانے کیلئے ان پر ایک متعین شدہ ٹیکس نافذ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس فیصلے پر عمل درآمد وفاقی کابینہ کی اجازت کے بعد ہو گا۔ اس قانون کے تحت ہر چھوٹے دکاندار پر اس ٹیکس کا نفاذ ہو گا جو کہ اپنی فروخت کا 2 فیصدیا مبلغ 40 ہزار روپے تک ٹیکس کے طور پر ادا کرے گا۔ اس میں سونار، ہول سیلر، گودام، پراپرٹی ڈیلر، پراپرٹی بلڈر، ڈاکٹر، وکیل اور چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ شامل نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ کسی ملکی و غیر ملکی کمپنی کی دکان، شاپنگ پلازے کی دکان، POS رکھنے والی دکان یا جس دکان کا بجلی کا بل 3 لاکھ سالانہ ہو، وہ بھی اس میں شامل نہیں۔

 

حکومت نے یہ ٹیکس اسکیم تاجر برادری کی 15 اور 16 اگست کی ملک گیر ہڑتال سے چند دن قبل پیش کی ہے، جس کا ہدف دکاندار طبقہ ہے۔ اس سلسلے میں دو معاملات اہم ہیں۔ اول یہ کہ یہ ٹیکس تاجروں کے بھی غریب طبقے پر لگایا گیا ہے، یعنی ہر وہ غریب دکاندار جو چند پیسے جوڑ کر یا قرض لے کر ایک دکان شروع کرتا ہے، وہ اس ٹیکس کا شکار ہو گا۔ نانبائی، نائی، نان چنے بیچنے والا، حلوائی، دودھ دہی بیچنے والا، ڈبل روٹی انڈے بیچنے والا وغیرہ، ان سب پر یہ ٹیکس لاگو ہو گا۔ دوئم یہ کہ یہ ٹیکس دکانداروں کی کسی غیر استعمال شدہ یا اضافی دولت پر نہیں بلکہ فرخت کے حجم پرلاگو ہو گا۔  بحرحال، حکومت کی اس طرح کی پالیسیوں سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ موجودہ حکومت آئی ایم ایف( IMF) کی ہدایات پر امیر اور غریب، دونوں کو ایک ہی چکی میں پیسنے کی پالیسی پر عملدرآمد شروع کر چکی ہے۔ مغربی دنیا میں بھی اسی طرح کی پالیسیوں نے غریب کو غریب تر بنا دیا اور مڈل کلاس کو بھی غربت ہی کی طرف دھکیل دیا۔

سرمایہ دارانہ  نظام کی ٹیکس پالیسی ہمیشہ پیسے کی گردش پر ٹیکس عائد کرنے کی طرف مائل رہتی ہے۔ انکم ٹیکس، سیلز ٹیکس، ودہولڈنگ ٹیکس وغیرہ اسی پالیسی سے جنم لیتے ہیں۔ پیسے کی گردش پر ٹیکس عائد کرنے سے معاشرے میں دولت کی گردش کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے، جو امر اسلام میں واضح طور پر منع ہے۔ اسلام دولت کے ارتکاز کو منع کرتا ہے اور دولت کی گردش کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ اللہ سبحان و تعلیٰ نے فرمایا،

 (( كَىۡ لَا يَكُوۡنَ دُوۡلَةًۢ بَيۡنَ الۡاَغۡنِيَآءِ مِنۡكُمۡ‌ؕ))

"تاکہ وہ (دولت)تمہارے دولتمندوں میں ہی نہ پھرتی رہے" (الحشر – 7)۔

 

اس کی جگہ اسلام میں ٹیکس کا نظام، امیر اور غریب کا واضح طور پر فرق کرتا ہے۔ اسلام سرمایہ دارانہ نظام کی طرح اُس شخص پر ٹیکس عائد نہیں کرتا جو خود زکوٰۃ کا حقدار ہو، بلکہ صرف صاحبِ نصاب پر ہی ٹیکس عائد کیا جاتا ہے۔ اسلامی نظامِ محصولات میں خراج، جزیہ، عشر، رکاز، فئے اور مالِ غنیمت وغیرہ جیسے شرعی محصولات شامل ہیں۔ یہ تمام کے تمام محصول دولت یا فرد پر عائد ہوتے ہیں، نہ کہ سرمایہ دارانہ نظام کی طرح مال کی گردش کے حجم پر عائد ہوتے ہیں۔ اس سے نہ تو معاشرے میں دولت کی گردش کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے، نہ ہی غریب پر ٹیکس کا بوجھ پڑتا ہے، بلکہ دولت امراء سے غرباء تک پہنچتی ہے اور یہ امر معاشرے کی معاشی خوشحالی کا باعث بنتا ہے۔

 

پیٹرولیم کی قیمتوں میں حالیہ اضافہ آئی آیم ایف کی اطاعت میں کیا گیا ہے

روزنامہ ڈان نے یکم اگست 2019 کو خبر شائع کی کہ "اگست کے لیے حکومت نے پیٹرول کی قیمت میں 5.15روپے فی لٹر اضافہ کردیا ہے"۔ اخبار نے یہ بھی بتایا کہ یہ اضافہ اس وقت کیا گیا ہے جب خلیج عرب میں خام تیل کی قیمت میں 12 فیصد کی کمی آئی تھی۔

 

عوام کے لیے یہ بات ایک معمول بن گئی ہے کہ وہ قیمتوں میں اضافے کی لہر ، مزید ٹیکسوں کے نفاذ اور غیر منصفانہ پالیسیوں کے تسلسل کو دیکھیں۔ حالیہ پیٹرول کی قیمت میں اضافے کی وجہ سے بنیادی ضروریات کی چیزوں کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا جن کی قیمتیں پہلے ہی لوگوں کی استعداد سے باہر ہوتی جارہی ہیں کیونکہ تیل پرخام مال اور تیار اشیاء کی پیداوار اور نقل و حمل کا انحصار ہے۔ تیل کی قیمت میں موجودہ اضافے کی وجہ حکومت کا آئی ایم ایف کے سامنے مکمل گھٹنے ٹیک دینا اور معیشت کی ڈوریاں اس کے حوالے کردینا ہے۔ آئی ایم ایف کی یہ ثابت شدہ تاریخ ہے کہ اس نے کئی ملکوں کی معیشتوں کو تباہ و برباد کیا ہے لیکن اس کے باوجود موجودہ حکومت اسی چلے ہوئے کارتوس کو استعمال کرنے پر اڑی ہوئی ہے۔ اس عمل سے اس حکومت کی نااہلی اور منافقت واضح ہو جاتی ہے جو بے شرمی سے عوام سے غداری کررہی ہے اور اپنے استعماری آقاوں کے منصوبوں پر چل رہی ہے۔ لیکن اس مسئلہ کی بنیاد صرف حکمرانوں کی نااہلی، منافقت اور کرپشن نہیں ہے بلکہ اس مسئلے کی اصل بنیاد سرمایہ دارانہ معاشی نظام ہے جو توانائی کے وسائل کو بھی اسی نظر سے دیکھتا ہے جیسے کوئی بھی دوسری چیز جسے خریدا اور فروخت کیا جاسکتا ہے۔

اسلام نے توانائی کے وسائل سے متعلق ایک منفرد پالیسی دی ہے اور انہیں عوامی ملکیت قرار دیا ہے اور اس طرح انہیں نجی اور ریاستی ملکیت سے جدا ایک شناخت دی ہے۔   رسول اللہﷺنے ارشاد فرمایا ہے

((الْمُسْلِمُونَ شُرَكَاءُ فِي ثَلَاثٍ الْمَاءِ وَالْكَلَإِ وَالنَّارِ))

”تمام مسلمان تین چیزوں میں شریک ہیں: پانی ، چراہ گاہیں اور آگ“(ابو داؤد)۔

 

اس حدیث کے مطابق فقہا نے "آگ "کو توانائی کا ذریع قرار دے کر تیل، بجلی، گیس، کوئلہ اور کسی بھی اس جیسی چیز کو عوامی ملکیت قرار دیا ہے جو نہ نجی ملکیت اور نہ ہی ریاستی ملکیت میں جاسکتی  ہے۔ اس اصول کے تحت وہ کارخانے، ریفائنریز اور پلانٹس جو ان اشیا کی پیداوار یا ان کی صفائی کا کام کرتے ہیں ، انہیں بھی عوامی ملکیت قرار دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ  ریاست ان وسائل پر کوئی ٹیکس لاگو نہیں کرسکتی۔ یہ پالیسی اسلامی ریاست کی قیام کے پہلے دن سے نافذ العمل ہو گی۔ یہ واحد پالیسی عوام کو بہت زیادہ سہولت اور آسانی فراہم کرے گی اور پوری دنیا کے لیے ایک روشن مثال ہوگی۔ امت اپنی ڈھال، خلافت، کی واپسی کے لیے تڑپ رہی ہے تا کہ وہ اس کی نشاۃ ثانیہ کے سفر میں رہنمائی کرے جس کا فائدہ صرف مسلمانوں کو ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کو پہنچے گا کیونکہ اسلام اور خلافت پوری انسانیت کے لیے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی جانب سے رحمت ہے۔  

Last modified onجمعہ, 16 اگست 2019 04:37

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک