الإثنين، 23 جمادى الأولى 1446| 2024/11/25
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

پاکستان نیوز ہیڈ لائنز 12 جولائی 2019

 

-سرمایہ دارانہ معاشی نظام میں  ٹیکس کی شرح میں اضافے کے باوجود بجٹ خسارہ ختم نہیں ہوتا

-عمران خان کے دورہِ امریکہ  کا مقصد افغان جہاد اور پاکستان و افغانستان سمیت پوری دنیا کے مسلمانوں سے غداری کرنا ہے

-پاکستان کا آئی ایم ایف جیسے استعماری اداروں سے منسلک ہونا اس کو ہمیشہ ڈالرکا محتاج رکھے گا

تفصیلات:

 

سرمایہ دارانہ معاشی نظام میں  ٹیکس کی شرح میں اضافے کے باوجود بجٹ خسارہ ختم نہیں ہوتا

6 جولائی 2019 کو وفاقی وزیر مملکت  برائے محصولات حماد اظہر نے کہا کہ اس و قت ٹیکس کی شرح کُل ملکی پیداوار کا   11فیصد ہے،  اگر اس میں اضافہ نہیں کیا گیا تو ملک دیوالیہ ہوجائے گا۔

 

تبدیلی سرکار عوام کو یہ باور کرانے کی کوشش کررہی ہے کہ پاکستان میں ٹیکس کی شرح کُل ملکی پیداوار (جی ڈی پی) کے مقابلے میں بہت کم ہے جس کی وجہ سے حکومت کی پاس مالی وسائل کی شدید کمی رہتی ہے اور بجٹ خسارے کو پورا کرنے کے لیے اسے ملکی و غیر ملکی قرض لینے پڑتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں ٹیکس کی شرح     جی ڈی پی کے مقابلے میں بہت کم ہے لیکن بجٹ خسارے  کی بنیادی وجہ اس شرح کا کم ہونا نہیں ہے۔ امریکا جو دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے  وہاں 2017 میں جی ڈی پی کے مقابلے میں ٹیکس کی شرح 27.1 فیصدتھی لیکن اس کے باوجود امریکا کا وفا قی بجٹ 665 ارب ڈالر خسارے کاتھا جبکہ اس کا حجم 3982 ارب ڈالر تھا۔  اس سال امریکا کاکُل قرض 20 ہزار ارب ڈالرہوچکا تھا۔ تر قی یافتہ ممالک میں جی ڈی پی کے مقابلے میں سب سے زیادہ ٹیکس  کی شرح فرانس کی ہے ۔ فرانس میں 2017 کی اعدادوشمار کے مطابق ٹیکس  کی شرح جی ڈی پی کے مقابلے میں 46.2فیصد تھی۔ لیکن اس قدر زیادہ ٹیکس لینے کے باوجود 2017 کا فرانس کا بجٹ 67.7 ارب یورو خسارے کا بجٹ تھا  اور اس کا کل قرض اس کی جی     ڈی پی کے 90 فیصد تک پہنچ چکا تھا۔

 

ان اعدادوشمار سے ایک بات بالکل واضح ہے کہ سرمایہ دارانہ معاشی نظام میں  جی ڈی پی کے مقابلے میں ٹیکس کی شرح میں چاہے کتنا ہی اضافہ کرلیا جائے ریاست کے وسائل میں اتنا اضافہ نہیں ہوتا کہ وہ خسارے کی بجٹ اور سودی  قرضوں سے جان چھڑا سکے۔ درحقیقت جمہوریت کی وجہ سے سرمایہ دارانہ معاشی نظام میں ٹیکس کا سارا بوجھ عام آدمی پر ڈالا جاتا ہے جس کے پاس پہلے ہی وسائل کی کمی ہوتی ہے، لہٰذا اُن پر کتنا ہی بوجھ ڈال دیا جائے ریاست کی ضروریات کے مطابق وسائل پھر بھی حاصل نہیں ہوتے۔    جبکہ دوسری جانب  جمہوریت میں بڑے سرمایہ داروں کو ٹیکس چھوٹ اور ایمنسٹی اسکیمز دیں جاتی ہیں اور  نجکاری کے نام پر بجلی، تیل،گیس اور معدنیات کے بڑے بڑے وسائل ان کے  ہاتھوں میں دے دیے جاتے ہیں جو دولت پیدا کرنے کے انجن ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ سرمایہ دارانہ معیشت میں ریاست بھاری صنعتوں، دفاعی صنعت، ٹیلی کمیو نی کیشن، ریلویز، ایوی ایشن اور اس طرح کے دوسرے شعبوں میں بھی کوئی کردار ادا نہیں کرتی جہاں کثیر سرمائے کی ضرورت ہوتی ہے لیکن نفع بھی زبردست حاصل ہوتا ہے اور اس طرح معیشت کے اس بڑے حصے سے بھی چند بڑے سرمایہ دار ہی فائدہ اٹھاتے ہیں۔

 

جب تک سرمایہ دارانہ معاشی نظام کو خیر باد کہہ کر اسلام کے معاشی نظام کو اختیار نہیں کیا جاتا پاکستان کبھی بھی بجٹ خسارے اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے قرضوں سے نجات حاصل نہیں کرسکتا۔ اسلام میں ریاست  کے پاس زکوۃ، خراج، عشر، رکاز،جزیہ،فے ، عوامی ملکیت ، ریاستی ملکیت کی صورت میں  مستقل محصولات  کے ذرائع موجود ہیں ۔ ان ذرائع سے حاصل ہونے والےمحصولات ریاست کی ضروریات کوپورا کرنے کے لیے کافی ہوتے ہیں جس کا ثبوت ریاست خلافت کی صدیوں پرمبنی تاریخ ہے۔ اگر کبھی یہ ذرائع ناکافی پڑ جائیں تو ریاست اپنے امیر مسلمان شہریوں پر ہنگامی ٹیکس لگاتی ہے  ۔ ہنگامی صورت میں بھی اسلام غریب شہریوں پر کسی قسم کا ٹیکس لگانے کی اجازت نہیں دیتا۔ سرمایہ دارانہ معاشی نظام کے ہوتے ہوئے ہماری  زندگی میں کوئی آسانی اور راحت آہی نہیں سکتی بلکہ زندگی تنگ ہوتی چلی جاتے ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،

 

وَمَنۡ اَعۡرَضَ عَنۡ ذِكۡرِىۡ فَاِنَّ لَـهٗ مَعِيۡشَةً ضَنۡكًا

"اور جو میری نصیحت (قرآن)سے منہ پھیرے گا اس کی معیشت تنگ ہوجائے گی"(طہ:124)۔

  • عمران خان کے دورہِ امریکہ کا مقصد افغان جہاد اور
  • پاکستان و افغانستان سمیت پوری دنیا کے مسلمانوں سے غداری کرنا ہے

ڈان اخبار کی 10 جولائی کی خبر کے مطابق وائٹ ہاؤس نے 22 جولائی کو پاکستانی وزیرِاعظم عمران خان اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دمیان ملاقات کی تصدیق کردی ہے۔ وائٹ ہاؤس کی پریس ریلیز کے مطابق امریکی صدر وزیرِ اعظم کا استقبال کریں گے۔

 

ہمیشہ کی طرح دورے سے پہلے عمران خان صاحب کی پروفائل بلڈنگ کے لئے  یہ خبریں بھی اخباروں کی زینت بن رہی ہیں کے وزیرِاعظم مہنگے ہوٹلوں میں رہنے کے بجائے امریکہ میں پاکستانی سفیر کی سرکاری رہائش گاہ میں رہنے کے خواہشمند ہیں ۔ اس سے درکنار کے وزیرِاعظم سستی جگہ قیام کریں گےیا مہنگی جگہ جو بات اہم ہے وہ یہ کہ اس دورے کے مقاصد کیا ہیں؟ وائٹ ہاؤس سے جاری کردہ پریس ریلیز کے مطابق وزیرِ اعظم کے دورے میں دونوں سربراہِ حکومت انسدادِ دہشت گردی ، دفاع، توانائی اور اقتصادی ترقی کے موضوعات پر اس ہدف کے ساتھ بات چیت کریں گے کہ اس کے نتیجے میں جنوبی ایشیاء میں امن اور دونوں ممالک میں تعلقات کو بڑھایا جاسکے۔  یہاں جنوبی ایشیاء میں امن کے ہدف سے مراد افغانستان میں طالبان اور امریکہ کے درمیان کامیاب مذاکرات اور پاکستان کی جانب سے کشمیری جہادی گروپوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عمران خان کو خط لکھ کر اس بات کا مطالبہ کیا تھا کہ پاکستان مذاکرات میں کامیابی کے لئے طالبان پر اپنا اثرورسوخ استعمال کرے ۔ مذاکرات کے ذریعے امریکہ میدان میں ہاری ہوئی جنگ کو جیتنا اور افغانستان میں امریکی افواج کی مستقل سکونت اور امریکی فوجی اڈوں کا قیام طالبان سے تسلیم کروانا چاہتا ہے ۔ عمران خان نے خط کے  جواب میں امریکہ کو مکمل تعاون کا یقین دلایا تھا جس کے بعد سے اب تک پاکستانی مدد سے طالبان اور امریکہ کے درمیان مذاکرات کے کئی دورے ہوچکے ہیں۔ امریکی  دورے کی خبر سے چند روز قبل ہی امریکہ کے افغانستان اور پاکستان کے لئے خصوصی سفیر ظلمے خلیل زاد نے یہ بیان دیا کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات میں بڑی کامیابی ملی ہے اور پہلی ستمبر تک افغانستان میں اٹھارہ سال سے جاری جنگ کے خاتمے اور امن کے روڈمیپ پر معاہدہ ہوجائے گا۔ لہذا عمران خان کے دورے کا یہ وقت محض اتفاق نہیں بلکہ افغانستان میں امریکہ کی ہاری ہوئی جنگ کو میز پر جتوانے کے پلان کو حتمی شکل دینا ہے۔ یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ امریکی انتظامیہ نے پہلے ہی اس بات کا عندیا دیا ہوا تھا کہ عمران خان کی ٹرمپ سے ملاقات امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات میں پیش رفت کے بعد ہی ممکن ہے جس کا اقرار خود پاکستانی وزیرِ خاجہ شاہ محمود قریشی اپنے بیان میں کرچکے ہیں ۔ اب جبکہ دونوں جانب سے مذاکرات کے حتمی دور میں شامل ہونے کا عندیہ مل  رہا ہے تو واشنگٹن میں ووڈرو ولسن سینٹر کے خارجی امور کے ماہر مائیکل کگلمین کہ مطابق ٹرمپ-عمران ملاقات کا واحد ایجنڈا افغا نستان پر مرکوز ہوگا کیونکہ طالبان سے امن ڈیل جنوبی ایشیاء میں امریکہ کا سب سے بڑا ہدف ہے۔

 

لہذا خان صاحب کے دورے کا مقصد افغان جہاد اور پاکستان و افغانستان سمیت پوری دنیا کے مسلمانوں سے غداری کرنا ہے  جنہوں نے اپنی جان اور مال سے امریکہ کے غرور کو افغانستان میں ملیامیٹ کیا ہے ۔ ہمارے خالق اللہ سبحانہ و تعالی نے مسلمانوں کو اس بات کی اجازت نہیں دی کہ مسلم سرزمین پر قابض افواج سے مذاکرات کیے جائیں یا مذاکرات میں مدد فراہم کی جائے ۔ ہمارے دین نے ہر اس ملک کوجو مسلمانوں پر حملہ آور ہو کافر حربی فعلی ملک قرار دیا ہے جس سے کسی قسم کے  بھی سفارتی یا تجارتی تعلقات رکھنا قطعاً حرام ہے۔ اللہ نے اس امت پر یہ ذمہ داری ڈالی ہے کہ وہ نہ صرف کفار کے حملوں کا ڈٹ کر مقابلہ کریں بلکہ دعوت وجہاد کے ذریعے اس دین کو پوری دنیا تک ایسے پہنچائیں کہ وہ تمام ادیان ، مذاہب ،نظریہ حیات پر غالب آجائے ۔ رسول اللہﷺ نے فرمایاکہ،

 

إنَّ اللَّهَ زَوَى لِيَ الأَرْضَ فَرَأَيْتُ مَشَارِقَهَا وَمَغَارِبَهَا وَإِنَّ أُمَّتِي سَيَبْلُغُ مُلْكُهَا مَا زُوِيَ لِي مِنْهَا

"یقیناً اللہ نے میرے لیے زمین کو سمیٹ دیا کہ میں اس کے مشرق اور مغرب کو دیکھ سکوں اور یقیناً میری امت کی حکومت وہاں تک پہنچ جائے گی جہاں تک مجھے (زمین)دیکھائی گئی ہے"(مسلم)۔

 

مسلمانوں کو موجودہ بدترین صورتحال سے صرف اسی صورت نجات اورامن ملے گا جب ان پر ایک بار پھر  خلافتِ راشداہ کے نظام کے تحت ایسے لوگوں کی حکومت ہو جو اسلام کو پوری دنیا پر غالب کردینے کا وژن (تصور) رکھتے ہوں۔

 

پاکستان کا آئی ایم ایف جیسے استعماری اداروں سے منسلک ہونا اس کو ہمیشہ ڈالرکا محتاج رکھے گا

ڈان اخبار کی 8 جولائی کی خبر کے مطابق عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی جانب سے پاکستان کو 6 ارب ڈالر کے ایکسٹینڈڈ فنڈ فیسلیٹی (ای ایف ایف) کے تحت رواں ہفتے میں ایک ارب ڈالر کی رقم موصول ہونے کی توقع ہے جس سے مختصر مدت کے لیے غیر ملکی زرِ مبادلہ میں اضافہ ہوگا۔

 

بین الاقوامی تجارت اور خاص طور سے تیل کی تجارت کے ڈالر میں ہونے کی وجہ سے پاکستان غیر ملکی زرِ مبادلہ خصوصاً  ڈالر کی ایک خاص مقدارکو برقرار رکھنےپرمجبورہے  اور اس مجبوری کا مطلب یہ ہے کہ اگر چہ پاکستان کے پاس اپنی کرنسی کا  بہت بڑا ذخیرہ  موجود ہے لیکن پھر بھی تیل کی خریداری اور بین الاقوامی تجارت کے لئے پاکستان کو  ڈالر کا انتظام کرنا پڑتا ہے۔  پاکستان سمیت دیگر ممالک کے ڈالر پر انحصار کا آغاز دوسری جنگ عظیم کے بعد 1944میں  ہونے والے بریٹن ووڈزمعائدہ (Bretton Woods Agreement) سے  ہوا جب امریکہ نے اس  میٹنگ کے شرکاءپر یہ شرط عائد کی کہ وہ ڈالر اور اس کے غلبے کوقبول کریں  ۔ چنانچہ سونے کی جگہ ڈالر کو عالمی سطح پر غیرملکی زرِمبادلہ(global foreign reserve) کی حیثیت دے دی گئی اور ڈالر کو سونے سے منسلک کر دیا گیا اور آئی ایم ایف  اور  عالمی بینک  کا قیام بھی اسی  بریٹن ووڈز کانفرنس میں ہی عمل میں لایا گیا ۔پھر  15اگست1971کو امریکہ نے صدر نکسن کے دور میں ڈالر کا سونے سے رشتہ منسلک کرنے والے نظام کا بھی خاتمہ کردیا ۔اور اس تبدیلی کا بندوبست  سعودی عرب کے ساتھ1972 سے 1974 تک چلنے والے معاہدات کے ایک  سلسلہ کے ذریعہ کیا اور نام نہاد پیٹروڈالر کی بنیاد ڈالی اور دیگر ممالک کو ڈالر کا ذخیرہ اپنے پاس محفوظ رکھنے کی وجہ فراہم کردی ۔چناچہ پاکستان کے شدید معاشی  مسائل کی اہم وجہ کرنسی کا ڈالر پر انحصار ہے ۔  پاکستان 1950 میں آئی ایم ایف کا رکن بنا اور اس حیثیت سے پاکستان اس کی عائد کردہ جن  شرائط کا پابند ہے ان میں ایک کرنسی کا  سونے سےتعلق ختم کرنا ہے۔ اسی لئےپاکستان اپنے  قیام کے آغاز سے لے  کر آج تک اپنی کرنسی کو سونے کے بجائے  کسی غیر ملکی کرنسی کے ساتھ منسلک  کرتا  رہا ہے ۔ شروع  دور میں  پاکستا ن کی کرنسی  پاؤنڈ اسٹرلنگ کے ساتھ منسلک تھی جو کہ 1971 تک چلتی رہی  پھر  1971 میں پاکستان کی کرنسی کو ڈالر سے منسلک کر دیا گیا اور آج تک پاکستانی کرنسی ڈالر کے ساتھ منسلک ہے۔

 

پاکستان کا عالمی مالیاتی نظام اور  اداروں  سے منسلک ہونا اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ پاکستان ہمیشہ اپنی  تجارت کے لئے ڈالر کا محتاج رہے اور استعماری ممالک پاکستان پر اپنا اثر ورسوخ قائم رکھیں جبکہ اس کے برعکس اسلام کے مطابق مسلمانوں کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ کفار کو اپنے اوپر کوئی تسلط یا اختیار دیں  جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں سورۃ النساء میں  ارشاد فرمایا:

 

وَلَنْ يَّجْعَلَ اللّٰهُ لِلْكٰفِرِيْنَ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ سَبِيْلًا

"اور اللہ تعالٰی نے ایمان والوں کو اس بات کی اجازت نہیں یہ کہ وہ کفار کو خودپر کوئی اختیار دیں"۔

 

گو کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہونے کی حیثیت سے غذائی اجناس کی  بارٹر تجارت (barter trade) کر کے اپنی ضروریات کو ڈالر کے بغیر بھی پورا کر سکتا ہےجیسا کہ حال ہی میں پاکستان اور ایران نے ایک تجارتی میٹنگ میں بارٹر تجارت (barter trade) کی ضرورت پر اتفاق کیا جس میں  پاکستان کی طرف. سے ایران کو گندم،چاول،چینی اور پھل مہیا  کر نے کی بات کی گئی  ہے  جو کہ اس بات کا ثبوت ہے کہ بارٹرتجارت  کی گنجائش موجود ہے۔ مگر پاکستان کے حکمرانوں کے  نظریاتی وژن کی کمی اور مغرب کی فکری غلامی کی وجہ سے کبھی بھی ڈالر سے چھٹکارہ پانے کی مخلص کوشش نہیں کی گئی  ۔لہٰذااسلام کا مکمل نفاذ یعنی خلافت ہی اس بات کو یقینی بنائے گی کہ وہ ان عالمی مالیاتی اداروں سے تعلق ختم کر کے  کرنسی کی بنیاد سونے اور چاندی پر رکھے اور ڈالر کی بالادستی کا  ہمیشہ کے لئے خاتمہ کردے کیونکہ سونے چاندی کی کرنسی اللہ کی شریعت  کا حکم  ہے ۔ پھر کوئی ملک کسی دوسرے ملک کی دولت کو برباداور ان کا  استحصال نہیں کرسکے گا۔

Last modified onجمعرات, 18 جولائی 2019 00:27

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک